Videos Verse Novels

  • Home
  • Videos Verse Novels

Videos Verse Novels :ویڈیو ورس ناولز"
"کہانیاں ہر زمانے کی

The evil lady by mahi shah Episode 37 ❤️❤️❤️❤️اسے  آب بس زاویار  کا انتظار تھا تھوڑی ہی دیر بعد اسے زاویار  کچن کی طرف ج...
16/06/2024

The evil lady by mahi shah
Episode 37 ❤️❤️❤️❤️

اسے آب بس زاویار کا انتظار تھا تھوڑی ہی دیر بعد اسے زاویار کچن کی طرف جاتا دکھائی دیا تھا دل ہی دل میں وہ خوش ہوئی تھی زویار بھی دودھ کا گلاس لیتا باہر ڈائننگ ٹیبل پر ا کر بیٹھ گیا اسے اپنا کام کرنے کی خود عادت تھی ۔۔۔

شمائلہ کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی زاویار نے سارا دودھ پی کر وہیں برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے کے لئے گیا کہ اسے چکر سا ایا تھا ہیوی ڈوز کی وجہ سے نشے کی گولیوں نے جلدی اثر کر دیا تھا۔۔۔۔

وہ اپنا چکراتا سر پکڑتا اپنے کمرے میں چلا گیا پیچھے پیچھے شمائلہ بھی مسکراتی اپنے اپ کو تیار کرتی اس کے پیچھے چل پڑی اج تو ائے گا مزہ دیکھتی ہوں کیسے منہ موڑتے ہوں مجھ سے وہ کھلے گلے والی قمیض پہنی جس سے اس کا گلے کی ساری گہرایاں نظر ا رہی تھی جو کہ کسی مرد کو بھی بہکانے کے لیے کافی تھی۔۔۔

زاویار کو کمرے میں ا کر زیادہ چکر انے لگے تھے اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر کے وہ مڑا تھا اور پیچھے کھڑی شمائلہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا ۔۔

آ۔۔آ۔۔آپ یہاں وہ اٹکتے ہوئے اپنے چکراتے سر کے ساتھ بولا۔۔

میرے راجہ کب سے تمہاری قربت پانے کے لیے ترس رہی ہوں لیکن تم ہو کے دور دور رہتے ہو شمائلہ دروازے کو کنڈی لگاتی اپنا ڈوپٹا اتارتے نیچھے پھینک کر زاویار کے قریب گئی ۔۔۔۔

اور اس کی قمیض کو کھینچتی اپنے قریب کیا۔۔

کیا بکواس ہے یہ چھوڑو مجھے اس کی طاقت ختم ہوتی جا رہی تھی وہ بے ہوشی کے عالم میں جا رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس کا ہاتھ ہے جھٹکتے بولا دور ہوا۔۔۔

اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا لیکن وہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھی وہ چکراتے سر کے ساتھ بیڈ کا سہارا لے کر اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر بیٹھایا ۔۔۔۔

اج یہ دوری نہیں چلے گی زاویار تم جیسا لڑکا میں نے کبھی نہیں دیکھا کتنے حسین ہو تم اس کے چہرے پر ہوس بڑی نگاہیں گاڑتے ہوئے بولی۔۔۔

مالا کی پیاس کی وجہ سے انکھ کھلی تھی ویسے تو وہ پانی لا کر رکھتی تھی لیکن شاید اج بھول گئی تھی وہ اٹھی تو اٹھ کر دروازہ کھول کر کے کچن میں چلی گئی اتنے میں نواز بھی گھر میں داخل ہوا جو کہ چہرے سے بے حد پریشان لگ رہا تھا۔۔۔۔

ارے بابا اپ مالا نے نواز کو دیکھا تو پوچھنے لگی ہاں بس کام ہو گیا وہ ماتھے پر ایا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا ۔

مالا میری لئے ایک کپ چائے کا کپ بنا کر لا دو وہ جلد بازی میں کہ کر کمرے میں چلا گیا ۔۔

جی بابا وہ دوبارہ سے کچن میں جاتی چائے بنانے لگی تھی ادھر دوسرے کمرے میں شمائلہ سب سے انجام زاویار کو بیڈ پر لٹاٹے اس کی شرٹ یہ بٹن کھولنے لگی۔۔۔۔

پپ۔۔۔لل۔۔پلیز پیچھے ہو اپ میری چاچی ہیں چاچو کو پتہ چلا تو وہ مار دیں گے ہمیں وہ نشے میں ہی اپنے حواس قابو کرتے ہوئے بولا۔۔

کچھ پتہ نہیں چلے گا اج کی رات ہم دونوں کی ہے وہ اس کی شرٹ کو پیچھے ہٹاتی ادھر اپنے ہونٹ رکھ گئی ۔۔۔

مالا تمہاری ماں کہاں ہے شمائلہ کو کمرے میں نہ پا کر مالہ سے پوچھنے وہ دوبارہ اس کے پاس ایا تھا۔۔۔

پتہ نہیں بابا میں نے نہیں دیکھا کمرے میں ہی ہوں گی۔۔۔۔۔

زاویار اپنے سینے پر اس کے ہونٹ محسوس کرتا اپنا پورا زور لگا کر اسے دھکا دیا تھا کے وہ پیچھے گری تھی زاویار کو بھی غصہ ایا تھا اس نے اٹھ کر شمائلہ کے چہرے پر ایک تھپڑ مارا تھا کہ شمائلہ کی چیخ نکلی تھی۔۔۔

اس کی چیخ کی آواز باہر نواز اور مالا کے کانوں تک بھی گئی تھی نواز اور مالا بھاگ کر زاویار کے روم میں ائے تھے لیکن دروازہ بند تھا ۔۔

شمائلہ شمائلہ کیا تم اندر ہو اور شمائلہ تو نواز کی اواز سنتے اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

زاویار ابھی بھی نشے کی غنودگی میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کے یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔

دروازہ کھولو زاویار نواز باہر سے دروازہ پیٹ رہا تھا شمائلہ کو کچھ اور سمجھ نہ ایا تو وہ چیخنے لگی اسے تو امید ہی نہیں تھے کہ نواز اس ٹائم ا جائے گا ۔۔

بچاؤ بچاؤ سرکار مجھے بچاؤ اندر سے اتی شمائلہ کی اواز سن کر نواز نے زور زور سے دروازہ توڑنا شروع کر دیا مالا بھی حیران تھی کہ یہ شمائلہ زاویار کے روم میں کیا کر رہی ہے اور ا ایسی اوازیں ۔۔۔۔

اندر کیا ہو رہا ہے شمائلہ اپنی قمیض اپنی اور استین اور گلے سے پھاڑتی بازو سے پھاڑتی تھوڑی سی سینے سے پھاڑ کر وہ نیچے گری تھی۔۔۔۔

زاویار کو کھینچ کر اپنے اوپر گرایا تھا اور ایسے شو کروا رہی تھی جیسے زاویار اس کے ساتھ زبردستی کر رہا ہو زاویار نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن شمائلہ نے اس کی شرٹ کو زور سے پکڑا ہوا تھا اتنے میں نواز اور مالا بھی دروازہ توڑ کر اندر اگئے تھے ۔۔۔

اندر اتے جو انہیں دیکھنے کو ملا تھا نواز اور مالا تو ہکا بکا رہ گئے تھے مالا کی تو زاویار کو اس حالت میں دیکھ کر چیخ نکلی تھی اس حالت میں شمائلہ کے اوپر دیکھ کر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔۔

نواز نے اگے بڑھ کر شمائلہ کے اوپر سے زاویار کو اٹھایا تھا جس سے زاویار اپنی بند کھلی انکھوں سے نواز کو دیکھتا بیڈ پر گرا تھا۔۔۔

مالا تو حیرانگی سے زاویار کو کبھی شمائلہ کے پھٹے کپروں کو دیکھتی جیسے شمائلہ روتے روتے سنبھال رہی تھی ۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے نواز نے غصے سے شمالہ سے پوچھا ۔۔

وہ وہ۔۔۔۔ یہ اپ کا بھتیجا ۔۔۔اس نے میرے ساتھ۔۔۔
وہ یہ کہتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رودی نواز نے غصے سے زاویار کی طرف دیکھا جو کہ شاید بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔۔

نواز نے مالا سے پانی منگوا کر اس کے چہرے پر پھینکا تھا جس سے وہ تھوڑا تھوڑا ہوش میں اتا مشکل سے اپنی انکھیں کھولتا معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

بے غیرت انسان نواز کو تو موقع چاہیے تھا زاویار کے ساتھ برا کرنے کے لیے اسی لیے موقع ملتے ہی اسے مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔

بے غیرت تجھے شرم نہیں اپنی ہی ماں جیسی چچی کی عزت لوٹتے ہوئے زاویار نے حیرانگی سے نواز کی طرف دیکھا وہ کیا کہہ رہے تھے اس نے ایک نظر شمائلہ کو دیکھا جو اپنے پھٹے ہوئے بازو چھپاتی رو رہی تھی۔۔

زاویار کو کچھ کچھ یاد انے لگا تھا کہ شمائلہ اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

زاویار نے مالا کو بھی دیکھا جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔

چاچو میری بات سننے میں نے۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا نواز نے پھر سے اسے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔

زاویار نواز کو پیچھے دھکیلتا مالا کی طرف گیا تھا مالا میں نے کچھ نہیں کیا میرا یقین کرو لیکن مالا جو اپنی انکھوں سے دیکھا تھا وہ اس سے جھٹلا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔

تم زانی کہیں کے دور رہو میری بیٹی سے اس سے پہلے زاویار مالا کا ہاتھ پکڑتا نواز نو اسے دھکا دیا تھا دور میری بیٹی سے اور مالا ایک دم زاویار سے خوف کھاتی نواز کے پاس گئی تھی۔۔۔۔

زاویار کو تو نواز کا کہے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے وہ تو بس مالا کی انکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھ رہا تھا اس کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔۔

حال ۔۔۔۔۔۔
چپڑ گنجو تم نے لاریب کی شادی تو کروا دی تمہیں کیا لگتا ہے سفیر لاریب کو خوش رکھ پائے گا۔۔

ہم مالا بھابھی میں نے سوچ سمجھ کر ہی کہ فیصلہ کیا ہے ہماری لاریب کبھی کسی مرد کے پاس خود نہیں گئی تھی اگر کوئی مرد اسے ہاتھ لگاتا تھا وہ چیختی تھی چلاتی تھی ۔۔۔

لیکن سفیر وہ پہلا لڑکا ہے جس کو لاریب نے خود ہاتھ لگایا تھا اس لڑکے کے پاس وہ خود جاتی ہے ۔۔۔

سفیر کی نظروں میں نے اپنی بہن کے لیے کبھی حوس نہیں دیکھی وہ بچوں کی طرف اس کا حیال رکھتا ہے اور لاریب بھی اس کے ساتھ اٹیچ ہے مجھے یقین ہے کہ سفیر میری بہن کا خیال رکھے گا۔۔۔۔۔

اور اگر سفیر نے حیال نہ رکھا تو ہم ہیں نا جیجا جی کو سیدھا کرنے کے لیے امان دانت نکالتا بولا ۔۔۔

ویسے چپڑ گنجو۔۔۔۔۔

میرا نام امان کے بھابی چپڑ گنجو نہیں۔۔۔

وہی چپڑ ۔۔۔۔۔اووو میرا مطلب امان تم سفیر کے گھر اتنے سیریس تھے میں نے تو سمجھی تھی کسی نہ کسی کو ٹھکانے لگا ہی ڈالو گے ویسے اپ لوگ کیا کام کرتے ہو جو اتنے سارے گارڈذ رکھے ہوئے ہیں مالا امان اور زاویار کو دیکھتی بولی۔۔۔

ہم کچھ خاص نہیں بس ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کے امان بولتا زاویار بیچ میں بولا تھا بہت جلد تمہیں پتہ چل جائے گا زاویار نے مالا سے کہہ کر مالا کی بولتی ہی بند کروا دی تھی جسے مولا منہ بناتی چپ کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔

اینجل ۔۔۔۔ لاریب امان لوگوں کے جانے کے بعد سفیر کے پاس گئی ارم تو یک تک لاریب کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ہونٹوں پر لگی آدھی لپسٹک تو کھا ہی چکی تھی یہ کون سی محلوق اس کی بہو بن گئی تھی بیٹھے بٹھائے۔۔۔

لاریب نے سفیر کا بازو پکڑا جس سے سفیر کو دوبارا سے غصہ ایا تھا سفیر نے لاریب کا ہاتھ جھٹک دیا دور مجھ سے تم پاگل لڑکی وہ اس کے ہونٹ دیکھتا ہوا بولا جس سے لپسٹک پھیل کر ارد گرد لگ چکی تھی۔۔۔۔

اینجل کیا ہوا اس کے ڈانٹنے سے لاریب کی انکھوں میں نمی انے لگی تھی۔۔۔۔۔

تمہاری وجہ سے صرف تمہاری وجہ سے تمہارے بھائی نے میری بہن کے بارے میں ایسا کہا ہے وہ اسے ڈانٹتے ہوئے لاریب کا سرخ پڑتا چہرہ بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔۔۔

تم مجھ سے دور ہو گئی ائی سمجھ ۔۔۔

ااا۔۔۔نن۔۔۔۔اینجل ۔۔۔ وہ اٹکتے ہوئے کہنے لگی لاریب سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔

تمہارے بھائی کو لگتا ہے کے میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا تو یہ غلط ہے جاؤ یہاں سے وہ اسے ڈانٹتا کمرے کی طرف جانے لگا تھا کہ پیچھے سے وہ درھم سے نیچے گری تھی اسے سانس لینے میں بھی مشکل انے لگی تھی۔۔۔۔

ارم اسے گرتا دیکھ کر سفیر کو اواز دینے لگی سفیر بیٹا دیکھو لاریب کو کیا ہو گیا ہے سفیر ارم کی بات سنتا پیچھے مڑا تھا اور لاریب کو زمین پر گرا دیکھ مشکل سے سانس لیتا دیکھ اس کا دل رکا تھا وہ بھاگتا واپس ایا تھا۔۔

ل۔۔۔لاریب اٹھو وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوظے کہنے لگا انہیلر کہاں ہیں تمہارا اوشٹ بھائی کو شادی کی بڑی جلدی تھی انہیلر دینا یاد نہیں تھا۔۔۔

سفیر نے ماں کی طرف دیکھا جاؤ بیٹا جلدی سے لاریب کو کمرے میں لے جاؤں کیونکہ ارم کو پتہ چل گیا تھا کہ اب اس کو انیہلر کی نہیں ان کے بیٹے کی ضرورت ہے۔۔۔

سفیر کو شرمندگی ہوئی تھی لیکن وہ لاریب کو دیکھا جو مشکل سے سانس لے رہی تھی اپنی نم انکھوں اور سرخ پڑتے چہرے سے سفیر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

سفیر نے اسے بازو میں اٹھایا اور کمرے میں لے گیا لاریب نے اپنے ہاتھوں سے سفیر کی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا کمرے میں لے جاتے ہی بیڈ پر لٹاتے وہ ہچکچاتے لاریب کے نرم لبوں پر جھکا تھا اسے سانسوں کی ضرورت تھی جو کہ صرف سفیر ہی دے سکتا تھا ۔۔

اور سفیر تو لاریب کو سانس دے رہا تھا ادھر اس کی باہوں میں اس کی ملکیت تھی جس کو سانسیں دیتا وہ خود بھی مدہوش ہو رہا تھا جب تھوڑی دیر بعد لاریب بہتر ہوئی تو سفیر پیچھے ہوا اف تم کسی دن میری جان لو گی لاریب وہ دانت پستا دل ہی دل میں کہنے لگا۔۔۔۔۔

لاریب تھوڑی بہتر ہوئی تو وہ دوبارہ سے اینجل کو پکارنے لگی اینجل پلیز ۔۔۔۔۔۔

اس سی پہلے کے لاریب کچھ کہتی سفیر نے اسے چہ کروا دیا تم ارام کرو لارایب میں تمہاری میڈیسن لے کر اتا ہوں تمہارے بھائی کو تو یاد نہیں تھا وہ اس سے کچھ کہے بغیر ہی کمرے سے چلا گیا۔۔۔

لاریب کو حیرانگی ہوئی تھی اس کے اینجل کو کیا ہوا ہے ایسے تو اس کے اینجل نے کبھی اس سے نہیں ڈانٹا لیکن اب کیوں سفیر نے ارم کے ہاتھ کھانا اور میڈسن بھج ڈی تھی جیسے ارم پیار سے لاریب کو کھلاتی اسے بعد میں میڈیسن دے کر سلا چکی تھی۔۔۔۔۔

زاویار کا ماضی ۔۔۔۔۔۔۔

مالا تم تو مجھ سے نہ ڈرو ۔۔

تم ایک زانی ہو تم نے اپنی ہی چچی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے نواز نے اسے زہر ہند الفاظوں سے زاویار کا دل چکنا چور کیا تھا مالا نے بھی عجیب نظروں سے زاوی کو دیکھ رہی تھی زاوی تم نے یہ کیا کیا مالا نے اٹکتے ہوئے زاوی سے کہا ۔۔۔۔۔

مالا میں نے کچھ نہیں کیا یہ اس عورت نے جان بوجھ کر اس سے پہلے کبھی کچھ اور کہتا ہے نواز نے پھر سے تھپڑ مارا تھا زویار کے چہرے پر شرم نہیں اتی خود یہ کام کر کے میری بیوی پر الزام لگاتے ہوئے ۔۔۔۔

زاویار نے تھپڑ تو کھا لیا تھا لیکن اس تھپڑ سے اسے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی تکلیف اسے مالا کی بے یقین نظروں سے ہو رہی تھی۔۔۔

تم اس لائق نہیں ہو کے تمہیں اس گھر میں رکھوں نکل جاؤ یہاں سے تمیں اپنے بھائی کی اولاد سمجھ کر ترس کھا کر اس گھر میں رکھا تھا لیکن تم تو سانپ نکلے۔۔۔۔

نواز پہلے ہی پریشان تھا جس کام کے لیے وہ گیا تھا اسے بہت بڑا نقصان ہوا تھا اور نقصان بھی کس کا کنگ کا نقصان کر ایا تھا ابھی وہ اس ٹائم بہت پریشان تھا کروڑوں کا نقصان وہ کنگ کا کر چکا تھا اور کنگ اس سے بھرپائی کیے بغیر تو اسے زندہ نہیں چھوڑنے والا تھا یہ تو اسے پکا پتہ تھا۔۔۔۔

نکلو یہاں سے یا دھکے مار کر نکالوں۔۔۔۔۔

چاچو ایک دفعہ مالا سے بات کرنے دو چاچو۔۔

دور ہو زاوی مجھ سے تم نشے میں تھے اور یہ یہ سب وہ روتے ہوئے زاوی سے کہنے لگی زاویار کو پتا چل چکا تھا کے اب کوئی فائدہ نہیں زاویاد نے ایک نفرت بھری نگاہ شمالہ کی طرف ڈالی جو ابھی بھی رونے کا ناٹک جاری کیے ہوئے رکھی تھی اور ایک نظر نواز کو دیکھا شواش نے اسے اتنا مارا تھا اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔

اس نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تھا میں واپس اؤں گا نواز میں واپس اؤں گا اور مالا کی طرف جھک کر وہ اس کے کان کے پاس جھکا ۔۔۔۔

تم صرف میری ہو بھالو صرف میری اور میرا انتظار کرنا اس الزام کا بدلہ لینے میں واپس آؤ گا اس ٹائم وہ ایک الگ ہی زاویار لافا تھا مالا کو وہ اخری نگاہ اپنے بھالو پر ڈال کر نکل گیا۔۔۔۔۔

مالا کو دکھ تو ہوا تھا کہ اس کا دوست جا رہا ہے لیکن وہ ابھی صدمے تھی۔۔

یہ سب کیسے ہوا نواز بھی شمائلہ کا سر پر پہنچتا دھاڑا تھا۔۔۔

سرکار میں نہیں جانتی وہ نشے میں تھا جب میں اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ وہ کھینچ کر اپنے کمرے میں لے ایا ۔۔

تو تم نے شور کیوں نہیں مچایا۔۔۔۔

اس سوال سے شمائلہ ایک دم گھبرا گئی تھی سرکار میں نے شور کیا تھا لیکن اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا وہ مزید سوالوں سے بچنے کے لیے پھوٹ پھوٹ رونے لگی مالا بھی اپنے کمرے میں چلی گئی اس سے ابھی تک یقین نہیں ا رہا تھا کہ زاوی ایسا کر سکتا ہے۔۔۔۔

زاو یار گھر سے باہر نکلا تو اسے ابھی بھی چکر ا رہے تھے ایک تو نشے کی حالت تھی ایک اس کے پیار کی بے یقین نظریں وہ بھلا ہی نہیں پا رہا تھا اسے اج پھر سے اپنے ماں باپ بے حد یاد ا رہے تھے کاش ماما بابا اس رات اپ مجھے چھوڑ کر جاتے مجھے بھی ساتھ لے چلتے تو اج یہ سب نہ دیکھنا پڑتا سبز آنکھوں سے اج ہر درد تھا ہم زخم انسو کی صورت میں باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔

وہ سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا کہ ایک گاڑی سے اس کی ٹکر ہوئی تھی جس سے وہ دور اچھلتا ہوا گرا تھا گاڑی سے ایک ادمی اتر کر زاویار تک گیا تھا سر اب باہر مت جائیں کوئی دشمن بھی ہو سکتا ہے۔۔۔

سکندر کے ایک ملازم نے سکندر کو باہر جانے سے روکا ۔۔

غلام بخش میری جان سے زیادہ اس بچے کی جان عزیز ہے اٹھاو اسے ہاسپٹل لے کر چلو جلدی غلام بخش نے اشارہ کیا جس سے گارڑز اتے زاویار کو اٹھا کر کے جا چکے تھے ۔۔۔۔۔

The evil lady by mahi shah Episode 36 ❤️❤️❤️ابھی وہ بات   کر رہے تھے کہ مین انٹرنس سے مولوی صاحب اندر آتے دیکھائی دیے تھ...
16/06/2024

The evil lady by mahi shah
Episode 36 ❤️❤️❤️

ابھی وہ بات کر رہے تھے کہ مین انٹرنس سے مولوی صاحب اندر آتے دیکھائی دیے تھے۔ امان نے ایک نظر مولوی پر ڈالی پھر دوبارہ سرخ چہرہ لے کر کھڑے سفیر کو دیکھا۔

چلو سفیر۔۔۔۔!! امان سرد نگاہوں سے سفیر کو دیکھے گویا ہوا۔

نکاح کو مزاق سمجھا ہے کیا تم نے۔۔۔؟؟ جب میں نے ایک بار کہا ہے نہین کرنا تمہاری مینٹل بہن سے نکاح تو نہیں کرنا۔۔۔۔؟؟؟ تم ہوتے کون ہو میرے گھر میں ہی گھس کر یہ سب کرنے والے۔۔۔۔!! سفیر بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔
سفیر میں سچ کہ رہا ہوں اب تم نے منع کیا نا تو یہاں نا تمہاری بہن رہے گی نہ ہی تمہاری ماں۔۔۔!! امان سرخ ہوتی انگارہ آنکھوں کے گویا ہوا۔

بکواس بند کرو اپنی۔۔۔!! اور دو منٹ میں اپنی اس پاگل بہن کو لے کر یہاں سے دفع ہہ جاؤ۔۔۔۔!! سفیر دھاڑا تھا۔ جبکہ مولوی صاحب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے آخر ہونے کیا جا رہا ہے۔ سفیر کی بات سننے کی دیر تھی کہ امان آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے جبا کی کلائی کھینچتا اسکو اپنے قریب کر گیا۔ امان کے یوں کرنے پر جہاں سفیر کی امی کی چیخیں نکلی تھی۔ وہیں حبا بھی روتے ہوئے امان کی مضبوط گرفت سے اپنی کلائی چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔

چھ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔!! ہاتھ چھوڑو۔۔۔!! بھااائی۔۔۔۔!! حبا امان کی گرفت میں تڑپتے ہوئے گویا ہوئی۔

کت*** چھوڑ میری بہن کو۔۔۔۔!! سفیر شدید تیش میں آتا یکدم امان کی جانب لپکتے گویا ہوا۔

خبردار۔۔۔!! جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا۔۔۔!! امان نے تنبیہ کرتے حبا کی پیشانی پر گن رکھی۔ حبا دھک سے رہ گئی۔

سفیر سامنے جا کر بیٹھو۔۔۔!!! ورنہ تمہاری بہن کو موت کے گھاٹ اتارنے میں میں زرا دیر نہیں لگاؤں گا۔۔۔۔!! امان سرد لہجے میں گویا ہوا۔ سفیر جو سرخ آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ تھوڑا فاصلے پر سفید چہرہ لئے کھڑی لاریب کو دیکھتے بڑی تمسخر ذدہ سی مسکربہٹ اسکے لبوں پر پھیلی۔

اچھاااا۔۔۔۔!! چلو چلاؤ گولی۔۔۔۔!! پر پہلے یہ تو دیکھ لو تمہاری اتنی بہن ہی کہیں خوف کی وجہ سے اس دنیا فانی سے کوچ نہ کر جائے۔۔۔۔!!

سفیر نے اچھا کو کھینچ کر لمبا کیا اور پھر تنفر ذدہ لہجے میں لاریب کی جانب دیکھتے گویا ہوا۔ اسکے بولنے پر سبکی نظریں اب لاریب پر گئی جو پیلا چہرہ لئے کھڑی تھی۔ بے ساختہ ہی امان کی گرفت حبا کی کلائی پر نرم پڑی۔ سفیر تمسخر سے مسکرایا۔ اگلے ہی پل امان نے چمکتی آنکھوں سمیت حبا کو اپنے قریب کھینچا۔

جان سے نہیں مار سکتا پر جیتے جی زندو لاش تو بنا سکتا ہوں نا۔۔۔۔۔؟؟ امان کی آنکھوں میں گہری چمک تھی۔ سفیر کا رنگ اڑا۔ امان کا مطلب وہ سمجھ چکا تھا۔

اگر تم نے نکاح سے انکار کیا تو تمہاری بہن کی عزت۔۔۔۔!! اس سے آگے امان ملک کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ آگے ہی بہن کی محبت میں وہ بہت بڑی بات کر چکا تھا۔

میں نکاح کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔!! حبا کو چھوڑ دو۔۔۔۔!! سفیر بے تاثر چہرے سے گویا ہوا۔

اگر اماننے اپنی بہن کی محبت میں اتنی بڑی بات کر ڈالی تھی۔ وہیں سفیر نے اپنی بہن کی محبت میں خود کی قربانی دے ڈالی تھی۔ امان نے حبا کی کلائی چھوڑی تو وہ بھاگتی اپنی مبں کے گلے سے لپٹتی زار و قطار رونے لگی۔ امان لاریب کا ہاتہ پکڑتا اسکو لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھا گیا۔

امان کے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر سفیر شکستہ قدم اٹھاتا صوفے تک آیا پھر لاریب کے برابر بیٹھ گیا۔

بڈی یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔
گڑیا کچھ نہیں یہ جو انکل ہیں نہ یہ ایک گیم کھیل رہے ہیں۔

کیسی گیم بڈی ۔۔۔ وہ ایکسائٹڈ سی بولی۔۔

تمہیں اپنے اینجل کے پاس رہنا ہے نا۔۔۔۔؟؟
یس مجھے میرے اینجل کے پاس رہنا ہے۔۔ اور اینجل بھی گیم کھیل رہے ہیں۔۔۔؟؟ لاریب سفیر کو دیکھتے کلیپنگ کرتے بولی۔۔

تو وہ انکل جو اپ سے کچھ پوچھیں گے نا تو اپ نے بس اس انکل کو یس کہنا ہے۔۔۔۔۔

ارم تو اپنی بہو کے روپ میں اس پاگل لڑکی کو دیکھ کر غش کھانے والی تھی۔۔

بٹ وائے بڈی مجھے اینجل کے پاس رہنا ہے تو اس انکل کو یس کیوں بولوں۔۔۔

تو اینجل کے پاس رہنے کے لیے تو بولنا ہے نا۔۔

اوکے اوکے بٹ اس کے بعد اینجل میرے پاس رہیں گے نا کسی اور کے فرینڈز تو نہیں ہوں گے نا۔۔۔

نہیں وہ صرف تمہارا فرینڈ ہوگا کیوں سفیر تھیک کہہ رہا ہوں نا سفیر تو غصے سے اس میسنی لاریب کو دیکھ رہا تھا لیکن کچھ بولا نہیں۔۔۔۔۔

لاریب ملک کیا ولد کبیر ملک آپکا نکاح با عوض حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت سفیر شاہ ولد اکبر شاہ سے کیا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔؟؟ مولوی کے بولنے پر لاریب نے امان کی جانب دیکھا۔

سے یس۔۔۔!! امان مدھم سا مسکراتا گویا ہوا۔
یس۔۔۔۔!! وہ تیزی سے اثبات میں بچوں کی ماند سر ہلائے گویا ہوئی۔

پھر دو بار اور پوچھنے پر وہ اپنے اینجل کے لیے چپ چاپ یس بول چکی تھی۔۔

اب مولوی صاحب سفیر شاہ کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔

سفیر شاہ ولد اکبر شاہ آپکا نکاح با عوض حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت لاریب ملک ولد کبیر ملک سے کیا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔؟؟

سفیر نے ایک بے بس نظر اپنی ماں اور بہن پر ڈالی جو آنکھوں میں آنسو لئے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ ارد گرد اب تک رائیفلیں تھامے گارڈز کھڑے تھے۔ ایک نظر سامنے بیٹھے جلادوں(امان ، زاویار) پر ڈالی جن کو رحم نہیں ا رہا تھا وہ بھی تین دفعہ قبول کہہ کر لاریب کو اپنی زندگی میں شامل کر چکا تھا۔۔۔۔۔
مبارک ہو امان زاویار امان کہنے لگے گلے خوشی سے بولا امان نے ارم اور حبا کے ارد گرد سے گنز ہٹوا دی تھی کیونکہ ان کا مقصد پورا ہو چکا تھا اب سب گارڈز باہر کھڑے تھے۔۔۔

مبارک ہو سفیر امان نے اس کے گلے لگنا چاہا لیکن نے بے تاثر نگاہوں سے اسکی جانب دیکھتے اپنا ہاتھ کھڑا کیے اسے خود سے دور رکھا۔ امان خاموش ہو گیا پھر مسکراتے اسکے کندھے پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ گیا۔۔

میری بہن اب تمہارے حوالے اسے ذرا بھی نقصان یا چوٹ پہنچی تو یقین جانو یہ دنیا تہس نہس کرنے میں میں دیر نہیں لگاؤں گا جیجا جی۔۔۔۔

اس کے جیجا کہنے پر سفیر نے سرد آنکھوں سے امان کی جانب دیکھا پر بولا کچھ نہیں۔ اگلے ہی پل وہ پوری قوت سے امان کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹک گیا۔ امان سفیر کو دیکھ مسکرایا۔

بڈی اب میں یہاں رہوں گی کیا۔۔

ہاں اب تم اپنے اینجل کے پاس ہی رہو گی ۔۔۔

یاہووووو۔۔۔ لاریب جلدی سے سفیر کے پاس جاتی ہے اس کے گالوں پر اپنے نرم و نازک لب رکھ چکی تھی سفیر ایک دم گھبرا گیا تھا ۔۔

اور زاویار مالا امان بھی ایک دفعہ ٹھٹک گئے تھے یہ سب کے سامنے ان کی بہن نے کیا کر دیا تھا انہیں اندازہ لگ چکا تھا کے بیچارے سفیر کی زندگی اب آسان نہیں ہے ۔۔۔۔۔

مالا نے اپنے منہ کے اگے ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبائی تھی ۔۔۔

اینجل اب بس میں اپ کے پاس رہوں گی اسے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کر چکی ہے لیکن وہ سفیر نے سرخ نظروں سے لاریب کو دیکھتے اسکا بازو پکڑے اسکو خود سے پیچھے کیا۔

انٹی مجھے معاف کر دے میں جانتا ہو میرا طریقہ غلط تھا لیکن میری بہن اپ کے بیٹے کو پسند کرتی ہے اسی لیے مجھے یہ سب کرنا پڑا ہاں میں خود غرض بن گیا تھا ۔۔۔۔۔

لیکن اگر بھائی ہی اپنی بہن کے لیے خود غرض نہیں بنیں گے تو کون بنے گا ارم شاہ تو کچھ بولنے کے لائق نہیں رہی تھی سو وہ چپ رہی ۔۔۔

انٹی امید کرتا ہو آپ میری بہن کا خیال رکھے گی اور سفیر کو بھی خیال رکھنے کا کیے گی ۔۔

پھر امان زاویار اور مالا لاریب سے ملتے جا چکے تھے لیکن لاریب کو تو اپنے اینجل کے پاس رہنا تھا وہ تو خوش تھی۔۔۔۔۔

زاویار کا ماضی ۔۔۔۔۔۔

اگلے دن شمائلہ نے نواز کے لیے کھانا بنایا ابھی وہ کچن سے کام کرتے نکل رہی تھی کہ سامنے سے اتے زاویار سے ٹکرائی تھی زاو یار ایک 23 سالہ خوبصورت ہٹا کٹا بے حد خوبصورت لڑکا بن گیا تھا جسے دیکھتے ہوس کی پجاری شمائلہ کی تو رال ٹپکنے لگی تھی زاو یار بغیر شمالہ کی طرف نظر اٹھائے کچن میں چلا گیا۔۔۔۔۔

شمائلہ نے اس اکڑو لڑکے کو دیکھا یہ کون ہے شمائلہ نے عجیب نظروں سے زاویار کو دیکھا تھا اس سے بات کرنے کا سوچا لیکن وہ کچن میں اپنے لیے کھانا نکالتے اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔۔۔۔

یہ لڑکا اس گھر میں کون ہے نواز نے کیوں نہیں بتایا اس کے بارے میں وہ بعد میں نواز سے پوچھنے کا سوچ کر اپنا کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔

سرکار یہ گھر میں مالا اور اپ کے علاوہ کون رہتا ہے۔۔

کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔۔

ویسے ہی وہ ایک آج ایک لڑکا نظر ایا تھا گھر میں۔۔

ہاں وہ میرا بھتیجا ہے لیکن اس کی حیثیت نوکروں جیسی ہے اسے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔۔

جی جی سرکار شمائلہ نے اس کے ڈر سے ہاں کہہ دیا تھا لیکن دل میں اب اس لڑکے کو دیکھنے کی چاہت جاگنے لگی تھی ہائے کتنا خوبصورت ہے وہ لڑکا اس کی انکھیں۔۔۔

اف اس کے بعد اس نے گھر میں کئی دفعہ زوایار کو دیکھا تھا اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔

لیکن زاویار ہمیشہ اسے اگنور کرتا تھا بے حس بنا گھومتا رہتا تھا شمائلہ تو اسے مالا سے باتیں کرتے تھے ایک جل بھن جاتی تھی وہ بس کسی طریقے سے اس لڑکے کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔

جب ایک عورت کو مردوں کی لت لگ جائے تو وہ کسی بھی خوبصورت مرد کو دیکھ کر رال ٹپکانے لگتی ہے ایسے ہی شمائلہ کا حساب تھا وہ زاویار کی ایک دفعہ قربت کو محسوس کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس کا انجام نہیں جانتی تھی۔۔۔۔

بھالو کیا تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی نا زاویار نے اپنی سبر آنکھوں میں محبت کا سمندر بساتے اپنے بھالو سے کہا تھا ۔۔

ہاں زاوی میں بھی تو تم کو پسند کرتی ہوں نا مالا نے مسکراتے اپنے ہاتھ کو زاوی کے ہاتھوں میں دیا تھا ان دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں دیکھتی شمائلہ کو اگ لگی تھی تم دونوں کو تو میں الگ کروں گی دیکھتے جاؤ بس وہ اپنے دماغ میں کچھ زہریلہ سوچتی جا چکی تھی جس سے سب کی زندگیاں بدل جانی تھی ۔۔۔۔۔

شمائلہ ہر بار کسی نہ کسی طریقے سے زاویار کو ٹچ کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی زاو یار کو سب محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ بتاتا بھی تو کس کو کسی کو اس کی بات پر یقین نہیں انا تھا اسی لیے وہ شمائلہ کی حرکتوں کو اگنور کر دیا کرتا تھا۔۔

جس سے شمائلہ کو بہت غصہ اتا تھا وہ خوبصورت تھی کسی بھی مرد کا دل اس کی جانب مائل ہو سکتا تھا لیکن وہ زاویار کو بھی آن مردوں میں شامل کر رہی تھی جو کہ وہ غلط کر رہی تھی۔۔۔۔۔

کچھ دنوں تک وہ زاویار کا رویہ بے روحی برداشت کرتی رہی لیکن اج اسے اپنے پلان کو انجام تک پہنچانے کا راستہ نظر ارہا تھا کیونکہ نواز اج رات کسی کام سے باہر جا رہا تھا اج اسے زبردستی ہی سہی زاویار کو اس اور اس کے جسم کو حاصل کرنا تھا۔۔۔۔

سرکار اپ کہیں جا رہے ہیں وہ اس کی قمیض کے بٹن بند کرتے ہوئے کہنے لگی دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی ۔۔

ہاں شمائلہ میں کسی کام سے جا رہا ہو کال رات تک واپس ا جاؤں گا اپنا خیال رکھنا۔۔

جی سرکار ۔۔۔

نواز نے جھک کر شمائلہ کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے تھے شمائلہ تو خیالوں میں زاویار کا سوچتی نواز کا ساتھ دینے لگے۔۔

نواز پیچھے ہوا تو شمائلہ نے نواز کو دیکھا اور وہ اسے اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر چلا گیا۔۔

رات کو اس نے نواز کے جانے کے بعد دودھ میں نشے کی دعا ملا دی تھی۔۔۔

وہ جانتی تھی زاویار سونے سے پہلے دودھ ضرور پیتا ہے اس لیے نشے کی دوا اس میں لاتی ہے اپنے ہاتھ جھاڑتی مالا کے کمرے میں چلی گئی مالا کے روم میں جھانک کر دیکھا جہاں وہ بیڈ پر لیٹی سو چکی تھی شمائلہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور خاموشی سے باہر ا کر حال میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

   #عاشےنور  #قسط44آج مہندی تھی اور سب بہت انجوائے کر رہے تھے ارم۔نے سبز لہنگا اور پیری چولی پہنی تھی اور اس کہ ساتھ سبز...
15/06/2024



#عاشےنور

#قسط44

آج مہندی تھی اور سب بہت انجوائے کر رہے تھے

ارم۔نے سبز لہنگا اور پیری چولی پہنی تھی اور اس کہ ساتھ سبز دوپٹہ تھا

جس کہ ہالے میں وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی ارم۔نے ہاتھوں میں گجرے ڈالے تھے اور اسے گلاب کہ پھولوں کا ہار بنا پہنا تھا اس کہ ماتھے پر بھی خوبصورت پٹی تھی

وہ سچ میں خوبصورت لگ رہی تھی سب لڑکیوں نے خوب رنگ لگا رکھا تھا

عاشے نے سبز رنگ کا لہنگا چولی پہنا تھا اور اس کہ ساتھ گلابی رنگ کا دوپٹہ اور بھی خوبصورت بنا رہاتھا اسے وہ میک بہت کم کرتی تھی لیکن آج اسے حس کو چار چاند لگ گے تھے

کومل نے گلابی رنگ کا فراک پہنے ہوئے تھی اور صباء نے آج خوبصورت ڈریسنگ کی تھی اور لگ بھی خوبصورت رہی تھی اس نے مسڈرڈ کلر کا فراک پہنا تھا اور اس میں وہ ایک خوبصورت پری لگ رہی تھی

صباء تم تو بہت پیاری لگ رہی تھی عاشے نے فورآ تعریف کی تھی

صباء کو عاشے پر پیار آرہا تھا کیونکہ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کی ساری شوپنگ بہرام نے کی تھی اور اس کا حسن اس پر چارچاند لگا رہا تھا

سب سے پہلے کومل نے ڈانس کیا تھا

سب نے تالیاں بجائ تھی اور خوب شور کیا

اس کہ بعد صباء نے ڈانس کیا تھا لیکن صباء کو دیکھ کسی کا دل زور سے دھرکا تھا کسی نے غور سے صباء کو دیکھا تھا

کومل اندر سے مہندی کا تھال لینے چلی گئ تھی جب وہ واپس آرہی تھی تو عمر نے اس کا راستہ روک دیا

سنا ہے وہ بات کرے تو پھول جھڑتے ہیں
چلو ایسا ہے تو بات کر کہ دیکھتے ہیں

کومل۔تو عمر کہ منہ اپنی تعریف سن کر شرماہی دی لیکن عمر کی بات سن کر وہ حیران ہوئ

اکثر یہ بات لوگ میرے بارے میں کہتے ہیں تو کیو نہ تم۔مجھ سے بات کر لو

تمہیں پتا ہے خوش فہمیاں جان لے لیتی ہیں انسان کی ۔۔۔۔

لیکن تم۔میری فکر مت کرو مجھے کبھی کوئ خوش فہمی نہیں ہوئ نہ ہی مجھے ایسے خیال آتے ہیں لیکن اگر تمہیں آتے ہیں تو تم۔انہیں چھور دو اور میرے خواب دیکھو

۔

عمر یہ کہے کر چلا گیا تھا

چلو کچھ دیر هنستے هیں
محبت پر ، عنایت پر

که بے بنیاد هیں باتیں
سبهی رشتے، سبهی ناتے

ضرورت کی هیں ایجادیں
کھیں کوئ نھیں مرتا

کسی کے واسطے جاناں
که سب ھے پهیر لفظوں کا

ھے سارا کهیل حرفوں کا
نه ھے محبوب کوئ بهی

جسے هم زندگی کہتے
جسے هم شاعری کہتے

غزل کا قافیه تها جو
نظم کا عنوان تهاجو

وه لھجه جب بدلتا تها
قیامت خیز لگتا تها

وقت سے آگے چلتا تها
جو سایه بن کے رهتا تها

جدا اب اس کے رستے هیں
چلو کچھ دیر هنستے هیں...

اب عاشے کی باری سب نے عاشے سے کہا

جبکہ پاکیزہ تو تھک نہیں رہی تھی آپنی بہو کی بلائیں لیتے ہوے

ارم میں بہت خوش ہو کہ تم۔میری بہو بنو گی مجھے بہت خوشی ہے کیونکہ تمہارے آنے سے مجھے سب مل گیا تم بہت لکی ہو ہم سب کہ لیے

کس کی ہے یہ آہٹ

عاشے آہستہ آہستہ قدم رکھے

کس کا ہے یہ سایہ

دل۔میں دی ہے کس نے دستک کون ہے آیا

عاشے نے دل۔پر ہاتھ رکھا اور سٹیپ کرنے لگی وہ ڈانس کرتے ہوئ کوئ پری لگ رہی تھی

ہم پہ یہ کس ۔ے ہرا رنگ ڈالا

عاشے اپنے لہنگے ساتھ گھومنے لگی وہ گھومتے ہوے کسی کی نگاہوں کا مرکز بنی تھی کوئ اشتیاق سے اڈے دیکھ رہا تھا

وہ گاؤ کا سردار جو کسی کو نہ دیکھے
لیکن آج اپنی سردارنی کو پوری محفل
میں پر ساتائیش نگاہوں سے دیکھ رہا تھا

نظر کو نظر کی نظر نہ لگے
کوئ اتنا بھی پیارا بھی نہ لگے
دیکھا ہے تم۔کو ایسے نظر سے
جس نظر سے تم کو نظر نہ لگے

عارف کا دل تو صباء پر ہی اٹک گیا تھا صباء نے بھی عارف کو دیکھ لیکن وہ چلا کیا گیا

ہاے مارڈالا ہاے مارڈالا

یہ کملہ تھا صرف لیکن بہرام کو لگا اس کی جنگلی وائلڈ بیوی نے واقع اس کہ دل ہی ہلادیا ہے

وہ وہاں سے چلا گیا بہرام نے سب کام زمداری کیساتھ کیے تھے

آج شادی تھی سب بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے لیکن ارم۔اج بہت خوبصورت لگ رہی تھی آبان کہ نام کہ جورے میں وہ اور بھی حسین لگ رہی تھی

آبان نے گولڈن رنگ کی شیروانی پہنی تھی اور ارم نے شوخ لال لہنگا پہنا تھا

بہرام نے بلیک کلر کی شیروانی پہنی تھی اور عاشے نے سفید کلر کا فراک پہنا تھا

عمر نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا تھا اور کومل۔نے پیچ رنگ کا لہنگا پہنا تھا

عارف نے بلیک سوٹ پہنا اور صباء نے بھی بلیک فراک پہنا تھا

جان شاہ نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا کیونکہ اس نے عاشے کہ ساتھ میچنگ کی تھی

عاشے نے بہن اور سالی ہونے کا خوب فرض نبھایا تھا کیونکہ ارم نے کہا تھا کہ عاشے اس کی بہن ہو ے کہ فرض ادا کرے گی

دودھ پلائیں کی رس میں
عاشے تم۔میری بہن تو یہ دودھ تم کیو پیلا رہی ہو
کیونکہ آپ کی بیوی کی بہن ہو میں اس لیے اس وقت میں آپ کی بہن نہیں سالی ہو چلے دودھ پیمائش کہ پیسے دے

آبان نے 10 کا نوٹ عاشے کی طرف بڑھایا جبکہ عاشے تو حیران ہی ہوگے

یہ کیا لالا صرف دس روپے کی نہیں 50000 سے کم نہیں لوگی

کیا پچاس ہزار صبح سے کتنی بار تم۔مجھے لوٹ چکی ہو

ہاں تو وہ رسمیں تھی
یار کوئ ایسی رسم نہیں ہے جس نے میں دولھے کو پیسے ملے
جی نہیں

بابا سائیں اماں سائیں کچھ تو کرے

بیٹا یہ رسم ہے یہ تو کرنی پڑے گی اب دودھ تو لینا پرے گا لیکن مجھے دودھ نہیں پینا صبح اس نے مجھ سے ہی دودھ منگوایا تھا

مطلب اپنے پیسو سے لاء دودھ کہ لیے میں پچاس ہزار دو

لالا آپ اپنی بہن کو اتنے پیسے نہیں دے سکتے

میری جان مجھ سے زیادہ امیر نہ تمہارا شوہر ہے جو اس گاؤ کا سردار ہے میں تو معمولی سا بزنس مین ہو

مجھے چھوڑ دے اپنے شوہر سے مانگ جبکہ عاشے تو شرم سے سر ہی جھکا گئ تھی

کوئ کسی کو بہت اشتیاق سے دیکھ رہا تھا محبوب جب اپنے رنگ میں رنگا ہو تو بہت خوبصورت لگتا ہے

جبکہ بہرام نے جیب سے ایک لاکھ نکال کر عاشے کہ ہاتھ میں رکھے میری ساری دولت پر عاشے کا ہی حق ہے
۔

جبکہ سب حیران تھے انہوں نے کہا دیکھ تھا اس😘سبز آنکھوں والے بلے کو اس طرح کرتے ہوے لیکن یہ سچ تھا وہ لوگوں کو عاشے کی اہمیت بتا رہا تھا

صباء کی آنکھیں لالا ہو رہی تھی

ہر طرف رخصتی کا شور اٹھا تو ارم اپنے ماں باپ کہ گلے لگ کا بہت روئ عاشے بھی رونے لگی تو بہرام نے اسے اپنی باہو کہ ہلکے میں لیا

اس وقت ارم۔ابان کہ کمرے میں بہت پر موجود تھی تھوری دیر پہلے عاشے اور پاکیزہ اسے یہاں چھور کر گئ تھیں

ارمکانپ رہی تھی اسے آنے والے وقت سے ڈر لگ رہا تھا

جب اچانک دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئ وہ نظر جھکا گئ تھی

آبان نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا تو

و علیکم السلام ارم نے گھبراتے ہوے جواب دیا

آبان نے اپنی شیروانی اتاری اور صوفے پر رکھی اور ارم کہ پاس آکر بیٹھا

جبکہ ارم تھوری سی پیچھے ہوئ آبان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چوم لیا ارم میں نے جب تمہیں پہلی بار یونیورسٹی میں دءکھا تو تب ہی میرا دل تم۔ پر آگیا تھا

آبان نے اپنی بات اتم۔کہ دل۔کہ تار چھیرے ارم۔کا دل زور سے دھڑک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی باہراجاے گا

ارم نے گھبرا کا ہاتھ پیچھے کیا تو آبان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا

وہ مجھے پانی پینا ہے ۔ارم کی حالت غیر ہورہی تھی آبان اس کی حالت کو سمجھ رہا تھا لیکن پھر بھی انجان بن رہا تھا

آبان نے ارم۔کس پانی دیا تو ایک سانس میں سارا پانی پی گئ اس کی عجلت کو دیکھ ایک پل کو آبان حیران رہے گیا

آبان نے سوال کیا

کیا ہوا ہنی اتنا کیو گھبرا رہی ہو
وہ میری پہلی شادی ہے نہ اس لیے ڈر لگ رہا ہے ارم اپنی عادت کہ مطابق بولی

جبکہ آبان تو حیران ہوا ۔۔۔۔۔۔تو کیا میری دوسری شادی ہے جو مجھے فل ایکسپیرینس ہوگا

ہاں۔۔۔نہیں وہ میرا مطلب ہے کہ وہ مجھے ڈر لگ رہا ہے ارم۔نے یہ کہتے ہی نظر جھکا لی

لیکن وہ یہ نہیں جانتی اپنی اس حرکت سے وہ آبان کہ دل میں ابال اٹھا گئ تھی

یہ حق ملکیت بہت خاص ہوتا ہے ہم جس سے محبت کرے اور وہ پاس ہو اور ہم خود کو نہیں روک سکتے ہیں

آبان ارم کی طرف بڑھا اور بولا تمہیں مجھ پر یقین ہے نہ آبان بہت ہی امید سے ارم۔کی نظرو میں دیکھا ارم۔نے دھیرے سے سر ہاں میں ہلایا

آبان نے ارم کی روشن پیشانی پر لب رکھے اور ارم۔اس عمل۔پر آنکھیں موندے گئ تھی

جبکہ آبان نے ایک کر کہ اس کہ ڈوپٹے سے پنز اتاری اور ڈوپٹہ کو اس سے جدا کیا وہ ارم کی ساری جیولری بھی اتار چکا تھا

ارم آبان کہ سامنے بغیر ڈوپٹے کہ تھی اور شرم سے اس کی نظر جھکی ہوئ تھی

آبان نے اسے تھوڑی نیچے دو انگلیوں کی مدد سے اس کا چہرا اول اٹھایا اور اس کہ ہونٹوں پر جھک گیا

وہ بہت شدت سے اس کہ ہونٹوں کا جام۔پی رہا تھا ارم کو سانس میں مشکل ہوئ تو اس نے ابانکو خود دور کرنا چاہا لیکن ارم کی حرکت آبان نے اور شدت سے عمل جاری رکھا آبان ارم کہ نیچے والے ہونٹ کو منہ لے کر اس پر دانت گارے تو ارم کی سسکی نکلی

جبکہ آبان اب بھی اس کہ ہونٹوں کا جام۔پی رہا تھا

آبان ارم کہ ہونٹوں کو چھوڑ گردن پر جھک گیا تھا جبکہ ارم کو اپنے بچاؤ کا کوئ بھی طریقہ نظر نہیں آرہا تھا

آبان کی شدت پر وہ جان گئ تھی آج شاہ اسے نہیں چھورنے والا ہے

آبان نے ایک پل۔میں ارم کی گردن پر اپنی محبت سوغاتیں دے دی تھی اور آبان ارم کی گردن چھور اس نے ڈریس کی زیپ کھول دی تھی جبکہ آبان کی حرکت پر ارم۔گھبرا گئ تھی وہ کانپ رہی تھی

آبان نے ارم کو دیکھا ارم نے بھی آبان کو دیکھا لیکن آبان کی آنکھوں میں خمار دیکھ وہ نظر جھکا گئ تھی

آبان نے ارم کہ کندھے سے شرٹ ہٹا کر وہا اپنے لب رکھے تو ارم۔نے مزاحمت ترک کر کہ خود کو آبان کہ رحم۔وکرم۔پر چھور دیا

آہستہ آہستہ جیسے رات سرک رہی تھی ویسے ویسے آبان کی شدتوں میں اضافی ہو رہا تھا

۔۔۔۔
جارج ہے

   #عاشےنور  #قسط43جانتے ہیں شاہ من.!!😍ع سے ہے عشق.!!اور ع سے ہے عورت بھی.!!م سے ہے مرد.!! اور م سے ہے محبّت بھی.!! سنیے...
13/06/2024



#عاشےنور

#قسط43

جانتے ہیں شاہ من.!!😍
ع سے ہے عشق.!!
اور ع سے ہے عورت بھی.!!
م سے ہے مرد.!!
اور م سے ہے محبّت بھی.!!


سنیے نہ ہمارے حبیب.!!
ہم نے آپ سے عشق کیا ہے.!!
اور آپ نے ہم سے محبّت.!!
آپ پوچھو گے.!!
کہ عشق اور محبّت.!!

میں کیا فرق ہے ___؟.!!
تو سنیں جانِ قرار .!!
عشق میں شرک نہیں ہوتا.!!
اور محبّت میں بہت سی اور محبّتوں کی خواہش رہتی ہے
محبت میں توحید نہیں ہوتی شرک کی گنجائش رہتی ہے.!!❤️

عاشے کو دیکھ بہرام کی آنکھوں میں چمک آئ تھی

ارم آبان کہ ساتھ بیٹھی بہت ہی گھبرا رہی تھی اسے آج گھبراہٹ پہلی بار ہو رہی تھی

جبکہ آبان کہ چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ رقص تھی اس کو اس کی پہلی نظر کی محبت مل گئ تھی سب ٹھیک تھا

ارم کا چہرے پر گھونگھٹ تھا جب عاشے نے کہا

لالا گھونگھٹ تو اٹھاے تبھی عارف بولا اٹھا لے بھائ کہی کوئ اور ہی نہ مل جاے

دیکھو بھائ آبان شادی کر کہ تم پس گے ہو اب جیسے بھی ملے بس اب تم قبول ہے بول چکے ہو بہرام نے کہا

اب تو بس اسی کی ساتھ زندگی گزارنی ہوگی

بہرام کی بات پر سب مسکراے ہر عاشے نہیں

کیو آپ کیا کہنا چاہتے ہیں مطلب شادی کرنا غلط ہے ۔۔۔۔۔نہں شادی کرنا غلط نہیں ہے لیکن اس میں انسان پھس تو جاتا ہے نہ

کیا مطلب ہے آپ کا مطلب تم لڑکیا ہم لڑکوں پر ظلم کرتی ہو جو

بہرام کی بات سن کر تو عاشے کا منہ ہی کھل۔گیا تھا جبکہ ان اس لڑای کو سب بہت انجوائے کر رہے تھے

مطلب آپ کی نظر میں بیوی مصیبت ہوتی ہے عاشے بولی

اب تم مان رہی ہو تو کیا کہے

ویسے یہ مصیبت خود نہیں آتی آپ لوگوں کو ہی جلدی ہوتی شادی اور بیڈ باجا لے کر لے آتے ہیں آپ

بہرام یہ بات تو سچ کہی میری بہو نے تم لڑکو کو جلدی ہی اتنی ہوتی ہے عثمان شاہ بولے

ویسے انکل کیا آپ کو بھی اتنی ہی جلدی تھی جتنی بہرام کو ہے عارف کی بات سن کر سب کا قہقہہ گونجہ جبکہ اس کہ بعد عارف کی چیخ بلند ہوئی

جب عثمان شاہ کا ہاتھ پرا

بڑی برکت ھے تیرے عشق میں..
جب سے ھوا ھے بڑھتا ھی چلا جاتاہے

اتنا ہی غرور ہے اپنی خوبصورتی پر آئینے میں دیکھو خود بند کہی کہ

کیا کہا تم نے مجھے بندر میں بندر جیسا دیکھتا ہو تمہیں

ایسا لڑکا چراغ لے کر بھی ڈھونڈو نہیں ملے گا تمہیں

تمہیں کیو لگتا ہے میں ڈھونڈو گی تم۔جیسا کوئ

اچھا نہیں ڈھونڈو گی مطلب میں جو مل گیا ہو تمہیں کیو ڈھونڈو گی تم

او ہیلو خوابوں کی دنیا سے ںاہراو

اچھا میں خوابوں کی دنیا سے باہر تو آجاؤ مطلب تم میرے خواب دیکھو گی

تم کوئ انتہا کی گھٹیا انسان ہو

اچھا سنو بہت پیاری لگ رہی ہو

عمر کی بات کومل کہ گال سرخ ہو گے تھے

اچھا میرے پاس ایک غزل ہے تمہارے لیے کہو تو عرض کرو

جلدی بولو ٹائیم نہیں ہے میرے پاس

اہیییییم۔۔

سوچا ہے ہم بھی #شاعری پر ڪتاب لڪھیں گے۔۔! 🥀
اس ڪتاب میں ہم اپنی ۔۔۔پہلی #ملاقات لڪھیں گے 🤝
لڪھیں گے تیری ادا .....تیری ہر بات لڪھیں گے 🥀
ہم تیرے لیے اپنے۔۔۔۔ #جذبات لڪھیں گے 💞

لڪھیں گےجب کتاب پر۔۔ ہم پہلی غزل، 🥀
اس غزل میں تیرے۔۔ #مسڪرانے کا انداز لڪھیں گے 🥰

جو نہ لڪھیں گے وہ ہو گی #فقط تیری بے رُخی 🥀
باقی اس میں تیرے سارے ۔۔۔۔ #خیالات لڪھیں گے 🌹

ایڪ تو لڪھیں گے۔۔۔۔ اس میں ہم اپنا #تڑپنا، 🥀
اور اس ڪے بعد دل ❣️ ڪے سارے ۔۔ #حالات لڪھیں گے 🙇

لڪھیں گے ہم اپنی #محبت۔۔۔۔ ڪا عالم،
شاہ من 🧍
جب جب بات نہ ہو آپ سے
دل❣️ پر کیا گُزرتی ہے۔ ، وہ #لمحات لڪھیں گے ✍️

عمر ایک ہی غزل میں اپنے دل کی بات کہے دی جبکہ کومل تو شرما کر وہا سے چلی گئ

ہاے اس لڑکی کا شرمانا میری جان لے گا

سب ہسی خوشی اس ماحول میں مگن تھے پر عاشے پر بہرام کی نظر مسلسل تھی

لیکن اسی بیچ کسی کی نظر کسی پر تھی وہ دو آنکھیں جیسے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہی ہو

وہ آنکھیں ایسے کسی کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ اسے آنکھوں میں قید کر لینا چاہتی ہو

جب کسی کی نظر خود کو تکتی ان دو آنکھوں پر گئ تو

کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں اپنے لیے محبت عشق دیوانگی جنون سب کچھ لیکن مقابل کی آنکھوں میں خفگی تھی

وہ وہاں سے چلا گیا

سب نے خوبصورت ماحول میں مزے کیے

۔۔۔۔۔

عاشے کمرے میں آئ تو بہرام بھی اس کہ پیچھے چلا آیا

شاہ ا۔اپ بہرام کو اپنے کمرے میں دیکھ عاشے ڈر گئ

عاشے اس وقت ڈوپٹے کہ بغیر تھی اس کہ لیے یہ ڈریس بہرام لایا تھا

کیو میں نہیں آسکتا ۔۔۔ن۔۔۔نہ ۔۔۔نہیں شاہ وہ گھر میں مہمان ہیں وہ دیکھ لے گے اور کیا کہے گے

کچھ نہیں کہے گے میں گاؤ کا سردار ہو اور تم۔میری سردارنی

لیکن آپ تو کہے رہے تھے کہ شادی کر کہ انسان پھس جاتا ہے تو پھر

میری جان میں مزاق کر دیاتھا

بہرام گور سے عاشے کو دیکھ رہا تھا

کیا دیکھ رہے ہیں

آپکے ہونٹ ۔۔۔
کیا ہے میرے ہونٹوں کو ؟
شاہ مزید پاس آتا گیا ۔۔
آپ کیوں ہر وقت میرے ساتھ ایسے کرتے ہیں
میں نے کیا کیا ہے ؟

عاشے نور: خود کو سمیٹتے ہوۓ
آپ میرے پاس کیوں آتے ہیں۔؟

شاہ :تو کس کے پاس جاؤں بتاؤ ۔۔؟

عاشے نور آپ ذرا دور رہ کر بات کیا کریں

شاہ : اچھا پر میں تو آؤں گا پاس

عاشے نور میں مزید آگے بڑھتی گئی
آج میں آپ سے نہیں ڈروں گی

شاہ : ہاں مجھ سے ڈرنا بھی نہیں چاہیے میں کوئی جن تھوڑی ہوں

عاشے نور اپنے ہاتھ پیچھے لے گئی کیونکہ اسکا جوڑا کھول چکا تھا
نہ کیا کریں مجھے تنگ
عاشے نور اپنے بالوں کا دوبارہ جوڑا بناتے ہوئے بولیں

شاہ : کھلے بالوں میں اچھی لگتی ہو یہ کہہ کر شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ بال نہ باندھ سکے۔۔

دوسرے ہی پل میں عاشےنور کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔ہائٹ کم ہونے کی وجہ سے عاشے کا سر بامشکل شاہ کے کندھوں تک آتا۔۔

آپکے بالوں کی خوشبو پاگل کر دیگی مجھے

اب شاہ آنکھیں بند کئے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا اور اسکی خوشبو اپنے اندر سمو رہا تھا❤

۔

۔۔۔۔

بوس بیسٹ کی ایک ہی کمزوری ہوگی نہ وہ blue beauty

صحیح

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Videos Verse Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share