16/06/2024
The evil lady by mahi shah
Episode 37 ❤️❤️❤️❤️
اسے آب بس زاویار کا انتظار تھا تھوڑی ہی دیر بعد اسے زاویار کچن کی طرف جاتا دکھائی دیا تھا دل ہی دل میں وہ خوش ہوئی تھی زویار بھی دودھ کا گلاس لیتا باہر ڈائننگ ٹیبل پر ا کر بیٹھ گیا اسے اپنا کام کرنے کی خود عادت تھی ۔۔۔
شمائلہ کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی زاویار نے سارا دودھ پی کر وہیں برتن اٹھا کر کچن میں رکھنے کے لئے گیا کہ اسے چکر سا ایا تھا ہیوی ڈوز کی وجہ سے نشے کی گولیوں نے جلدی اثر کر دیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنا چکراتا سر پکڑتا اپنے کمرے میں چلا گیا پیچھے پیچھے شمائلہ بھی مسکراتی اپنے اپ کو تیار کرتی اس کے پیچھے چل پڑی اج تو ائے گا مزہ دیکھتی ہوں کیسے منہ موڑتے ہوں مجھ سے وہ کھلے گلے والی قمیض پہنی جس سے اس کا گلے کی ساری گہرایاں نظر ا رہی تھی جو کہ کسی مرد کو بھی بہکانے کے لیے کافی تھی۔۔۔
زاویار کو کمرے میں ا کر زیادہ چکر انے لگے تھے اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر کے وہ مڑا تھا اور پیچھے کھڑی شمائلہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا ۔۔
آ۔۔آ۔۔آپ یہاں وہ اٹکتے ہوئے اپنے چکراتے سر کے ساتھ بولا۔۔
میرے راجہ کب سے تمہاری قربت پانے کے لیے ترس رہی ہوں لیکن تم ہو کے دور دور رہتے ہو شمائلہ دروازے کو کنڈی لگاتی اپنا ڈوپٹا اتارتے نیچھے پھینک کر زاویار کے قریب گئی ۔۔۔۔
اور اس کی قمیض کو کھینچتی اپنے قریب کیا۔۔
کیا بکواس ہے یہ چھوڑو مجھے اس کی طاقت ختم ہوتی جا رہی تھی وہ بے ہوشی کے عالم میں جا رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس کا ہاتھ ہے جھٹکتے بولا دور ہوا۔۔۔
اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا لیکن وہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں تھی وہ چکراتے سر کے ساتھ بیڈ کا سہارا لے کر اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر بیٹھایا ۔۔۔۔
اج یہ دوری نہیں چلے گی زاویار تم جیسا لڑکا میں نے کبھی نہیں دیکھا کتنے حسین ہو تم اس کے چہرے پر ہوس بڑی نگاہیں گاڑتے ہوئے بولی۔۔۔
مالا کی پیاس کی وجہ سے انکھ کھلی تھی ویسے تو وہ پانی لا کر رکھتی تھی لیکن شاید اج بھول گئی تھی وہ اٹھی تو اٹھ کر دروازہ کھول کر کے کچن میں چلی گئی اتنے میں نواز بھی گھر میں داخل ہوا جو کہ چہرے سے بے حد پریشان لگ رہا تھا۔۔۔۔
ارے بابا اپ مالا نے نواز کو دیکھا تو پوچھنے لگی ہاں بس کام ہو گیا وہ ماتھے پر ایا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا ۔
مالا میری لئے ایک کپ چائے کا کپ بنا کر لا دو وہ جلد بازی میں کہ کر کمرے میں چلا گیا ۔۔
جی بابا وہ دوبارہ سے کچن میں جاتی چائے بنانے لگی تھی ادھر دوسرے کمرے میں شمائلہ سب سے انجام زاویار کو بیڈ پر لٹاٹے اس کی شرٹ یہ بٹن کھولنے لگی۔۔۔۔
پپ۔۔۔لل۔۔پلیز پیچھے ہو اپ میری چاچی ہیں چاچو کو پتہ چلا تو وہ مار دیں گے ہمیں وہ نشے میں ہی اپنے حواس قابو کرتے ہوئے بولا۔۔
کچھ پتہ نہیں چلے گا اج کی رات ہم دونوں کی ہے وہ اس کی شرٹ کو پیچھے ہٹاتی ادھر اپنے ہونٹ رکھ گئی ۔۔۔
مالا تمہاری ماں کہاں ہے شمائلہ کو کمرے میں نہ پا کر مالہ سے پوچھنے وہ دوبارہ اس کے پاس ایا تھا۔۔۔
پتہ نہیں بابا میں نے نہیں دیکھا کمرے میں ہی ہوں گی۔۔۔۔۔
زاویار اپنے سینے پر اس کے ہونٹ محسوس کرتا اپنا پورا زور لگا کر اسے دھکا دیا تھا کے وہ پیچھے گری تھی زاویار کو بھی غصہ ایا تھا اس نے اٹھ کر شمائلہ کے چہرے پر ایک تھپڑ مارا تھا کہ شمائلہ کی چیخ نکلی تھی۔۔۔
اس کی چیخ کی آواز باہر نواز اور مالا کے کانوں تک بھی گئی تھی نواز اور مالا بھاگ کر زاویار کے روم میں ائے تھے لیکن دروازہ بند تھا ۔۔
شمائلہ شمائلہ کیا تم اندر ہو اور شمائلہ تو نواز کی اواز سنتے اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
زاویار ابھی بھی نشے کی غنودگی میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کے یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔
دروازہ کھولو زاویار نواز باہر سے دروازہ پیٹ رہا تھا شمائلہ کو کچھ اور سمجھ نہ ایا تو وہ چیخنے لگی اسے تو امید ہی نہیں تھے کہ نواز اس ٹائم ا جائے گا ۔۔
بچاؤ بچاؤ سرکار مجھے بچاؤ اندر سے اتی شمائلہ کی اواز سن کر نواز نے زور زور سے دروازہ توڑنا شروع کر دیا مالا بھی حیران تھی کہ یہ شمائلہ زاویار کے روم میں کیا کر رہی ہے اور ا ایسی اوازیں ۔۔۔۔
اندر کیا ہو رہا ہے شمائلہ اپنی قمیض اپنی اور استین اور گلے سے پھاڑتی بازو سے پھاڑتی تھوڑی سی سینے سے پھاڑ کر وہ نیچے گری تھی۔۔۔۔
زاویار کو کھینچ کر اپنے اوپر گرایا تھا اور ایسے شو کروا رہی تھی جیسے زاویار اس کے ساتھ زبردستی کر رہا ہو زاویار نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن شمائلہ نے اس کی شرٹ کو زور سے پکڑا ہوا تھا اتنے میں نواز اور مالا بھی دروازہ توڑ کر اندر اگئے تھے ۔۔۔
اندر اتے جو انہیں دیکھنے کو ملا تھا نواز اور مالا تو ہکا بکا رہ گئے تھے مالا کی تو زاویار کو اس حالت میں دیکھ کر چیخ نکلی تھی اس حالت میں شمائلہ کے اوپر دیکھ کر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔۔۔۔
نواز نے اگے بڑھ کر شمائلہ کے اوپر سے زاویار کو اٹھایا تھا جس سے زاویار اپنی بند کھلی انکھوں سے نواز کو دیکھتا بیڈ پر گرا تھا۔۔۔
مالا تو حیرانگی سے زاویار کو کبھی شمائلہ کے پھٹے کپروں کو دیکھتی جیسے شمائلہ روتے روتے سنبھال رہی تھی ۔۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے نواز نے غصے سے شمالہ سے پوچھا ۔۔
وہ وہ۔۔۔۔ یہ اپ کا بھتیجا ۔۔۔اس نے میرے ساتھ۔۔۔
وہ یہ کہتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رودی نواز نے غصے سے زاویار کی طرف دیکھا جو کہ شاید بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔۔
نواز نے مالا سے پانی منگوا کر اس کے چہرے پر پھینکا تھا جس سے وہ تھوڑا تھوڑا ہوش میں اتا مشکل سے اپنی انکھیں کھولتا معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
بے غیرت انسان نواز کو تو موقع چاہیے تھا زاویار کے ساتھ برا کرنے کے لیے اسی لیے موقع ملتے ہی اسے مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
بے غیرت تجھے شرم نہیں اپنی ہی ماں جیسی چچی کی عزت لوٹتے ہوئے زاویار نے حیرانگی سے نواز کی طرف دیکھا وہ کیا کہہ رہے تھے اس نے ایک نظر شمائلہ کو دیکھا جو اپنے پھٹے ہوئے بازو چھپاتی رو رہی تھی۔۔
زاویار کو کچھ کچھ یاد انے لگا تھا کہ شمائلہ اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
زاویار نے مالا کو بھی دیکھا جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
چاچو میری بات سننے میں نے۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا نواز نے پھر سے اسے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔
زاویار نواز کو پیچھے دھکیلتا مالا کی طرف گیا تھا مالا میں نے کچھ نہیں کیا میرا یقین کرو لیکن مالا جو اپنی انکھوں سے دیکھا تھا وہ اس سے جھٹلا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
تم زانی کہیں کے دور رہو میری بیٹی سے اس سے پہلے زاویار مالا کا ہاتھ پکڑتا نواز نو اسے دھکا دیا تھا دور میری بیٹی سے اور مالا ایک دم زاویار سے خوف کھاتی نواز کے پاس گئی تھی۔۔۔۔
زاویار کو تو نواز کا کہے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے وہ تو بس مالا کی انکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھ رہا تھا اس کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔۔
حال ۔۔۔۔۔۔
چپڑ گنجو تم نے لاریب کی شادی تو کروا دی تمہیں کیا لگتا ہے سفیر لاریب کو خوش رکھ پائے گا۔۔
ہم مالا بھابھی میں نے سوچ سمجھ کر ہی کہ فیصلہ کیا ہے ہماری لاریب کبھی کسی مرد کے پاس خود نہیں گئی تھی اگر کوئی مرد اسے ہاتھ لگاتا تھا وہ چیختی تھی چلاتی تھی ۔۔۔
لیکن سفیر وہ پہلا لڑکا ہے جس کو لاریب نے خود ہاتھ لگایا تھا اس لڑکے کے پاس وہ خود جاتی ہے ۔۔۔
سفیر کی نظروں میں نے اپنی بہن کے لیے کبھی حوس نہیں دیکھی وہ بچوں کی طرف اس کا حیال رکھتا ہے اور لاریب بھی اس کے ساتھ اٹیچ ہے مجھے یقین ہے کہ سفیر میری بہن کا خیال رکھے گا۔۔۔۔۔
اور اگر سفیر نے حیال نہ رکھا تو ہم ہیں نا جیجا جی کو سیدھا کرنے کے لیے امان دانت نکالتا بولا ۔۔۔
ویسے چپڑ گنجو۔۔۔۔۔
میرا نام امان کے بھابی چپڑ گنجو نہیں۔۔۔
وہی چپڑ ۔۔۔۔۔اووو میرا مطلب امان تم سفیر کے گھر اتنے سیریس تھے میں نے تو سمجھی تھی کسی نہ کسی کو ٹھکانے لگا ہی ڈالو گے ویسے اپ لوگ کیا کام کرتے ہو جو اتنے سارے گارڈذ رکھے ہوئے ہیں مالا امان اور زاویار کو دیکھتی بولی۔۔۔
ہم کچھ خاص نہیں بس ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کے امان بولتا زاویار بیچ میں بولا تھا بہت جلد تمہیں پتہ چل جائے گا زاویار نے مالا سے کہہ کر مالا کی بولتی ہی بند کروا دی تھی جسے مولا منہ بناتی چپ کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
اینجل ۔۔۔۔ لاریب امان لوگوں کے جانے کے بعد سفیر کے پاس گئی ارم تو یک تک لاریب کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ہونٹوں پر لگی آدھی لپسٹک تو کھا ہی چکی تھی یہ کون سی محلوق اس کی بہو بن گئی تھی بیٹھے بٹھائے۔۔۔
لاریب نے سفیر کا بازو پکڑا جس سے سفیر کو دوبارا سے غصہ ایا تھا سفیر نے لاریب کا ہاتھ جھٹک دیا دور مجھ سے تم پاگل لڑکی وہ اس کے ہونٹ دیکھتا ہوا بولا جس سے لپسٹک پھیل کر ارد گرد لگ چکی تھی۔۔۔۔
اینجل کیا ہوا اس کے ڈانٹنے سے لاریب کی انکھوں میں نمی انے لگی تھی۔۔۔۔۔
تمہاری وجہ سے صرف تمہاری وجہ سے تمہارے بھائی نے میری بہن کے بارے میں ایسا کہا ہے وہ اسے ڈانٹتے ہوئے لاریب کا سرخ پڑتا چہرہ بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔۔۔
تم مجھ سے دور ہو گئی ائی سمجھ ۔۔۔
ااا۔۔۔نن۔۔۔۔اینجل ۔۔۔ وہ اٹکتے ہوئے کہنے لگی لاریب سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔
تمہارے بھائی کو لگتا ہے کے میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا تو یہ غلط ہے جاؤ یہاں سے وہ اسے ڈانٹتا کمرے کی طرف جانے لگا تھا کہ پیچھے سے وہ درھم سے نیچے گری تھی اسے سانس لینے میں بھی مشکل انے لگی تھی۔۔۔۔
ارم اسے گرتا دیکھ کر سفیر کو اواز دینے لگی سفیر بیٹا دیکھو لاریب کو کیا ہو گیا ہے سفیر ارم کی بات سنتا پیچھے مڑا تھا اور لاریب کو زمین پر گرا دیکھ مشکل سے سانس لیتا دیکھ اس کا دل رکا تھا وہ بھاگتا واپس ایا تھا۔۔
ل۔۔۔لاریب اٹھو وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوظے کہنے لگا انہیلر کہاں ہیں تمہارا اوشٹ بھائی کو شادی کی بڑی جلدی تھی انہیلر دینا یاد نہیں تھا۔۔۔
سفیر نے ماں کی طرف دیکھا جاؤ بیٹا جلدی سے لاریب کو کمرے میں لے جاؤں کیونکہ ارم کو پتہ چل گیا تھا کہ اب اس کو انیہلر کی نہیں ان کے بیٹے کی ضرورت ہے۔۔۔
سفیر کو شرمندگی ہوئی تھی لیکن وہ لاریب کو دیکھا جو مشکل سے سانس لے رہی تھی اپنی نم انکھوں اور سرخ پڑتے چہرے سے سفیر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
سفیر نے اسے بازو میں اٹھایا اور کمرے میں لے گیا لاریب نے اپنے ہاتھوں سے سفیر کی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا کمرے میں لے جاتے ہی بیڈ پر لٹاتے وہ ہچکچاتے لاریب کے نرم لبوں پر جھکا تھا اسے سانسوں کی ضرورت تھی جو کہ صرف سفیر ہی دے سکتا تھا ۔۔
اور سفیر تو لاریب کو سانس دے رہا تھا ادھر اس کی باہوں میں اس کی ملکیت تھی جس کو سانسیں دیتا وہ خود بھی مدہوش ہو رہا تھا جب تھوڑی دیر بعد لاریب بہتر ہوئی تو سفیر پیچھے ہوا اف تم کسی دن میری جان لو گی لاریب وہ دانت پستا دل ہی دل میں کہنے لگا۔۔۔۔۔
لاریب تھوڑی بہتر ہوئی تو وہ دوبارہ سے اینجل کو پکارنے لگی اینجل پلیز ۔۔۔۔۔۔
اس سی پہلے کے لاریب کچھ کہتی سفیر نے اسے چہ کروا دیا تم ارام کرو لارایب میں تمہاری میڈیسن لے کر اتا ہوں تمہارے بھائی کو تو یاد نہیں تھا وہ اس سے کچھ کہے بغیر ہی کمرے سے چلا گیا۔۔۔
لاریب کو حیرانگی ہوئی تھی اس کے اینجل کو کیا ہوا ہے ایسے تو اس کے اینجل نے کبھی اس سے نہیں ڈانٹا لیکن اب کیوں سفیر نے ارم کے ہاتھ کھانا اور میڈسن بھج ڈی تھی جیسے ارم پیار سے لاریب کو کھلاتی اسے بعد میں میڈیسن دے کر سلا چکی تھی۔۔۔۔۔
زاویار کا ماضی ۔۔۔۔۔۔۔
مالا تم تو مجھ سے نہ ڈرو ۔۔
تم ایک زانی ہو تم نے اپنی ہی چچی کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے نواز نے اسے زہر ہند الفاظوں سے زاویار کا دل چکنا چور کیا تھا مالا نے بھی عجیب نظروں سے زاوی کو دیکھ رہی تھی زاوی تم نے یہ کیا کیا مالا نے اٹکتے ہوئے زاوی سے کہا ۔۔۔۔۔
مالا میں نے کچھ نہیں کیا یہ اس عورت نے جان بوجھ کر اس سے پہلے کبھی کچھ اور کہتا ہے نواز نے پھر سے تھپڑ مارا تھا زویار کے چہرے پر شرم نہیں اتی خود یہ کام کر کے میری بیوی پر الزام لگاتے ہوئے ۔۔۔۔
زاویار نے تھپڑ تو کھا لیا تھا لیکن اس تھپڑ سے اسے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی تکلیف اسے مالا کی بے یقین نظروں سے ہو رہی تھی۔۔۔
تم اس لائق نہیں ہو کے تمہیں اس گھر میں رکھوں نکل جاؤ یہاں سے تمیں اپنے بھائی کی اولاد سمجھ کر ترس کھا کر اس گھر میں رکھا تھا لیکن تم تو سانپ نکلے۔۔۔۔
نواز پہلے ہی پریشان تھا جس کام کے لیے وہ گیا تھا اسے بہت بڑا نقصان ہوا تھا اور نقصان بھی کس کا کنگ کا نقصان کر ایا تھا ابھی وہ اس ٹائم بہت پریشان تھا کروڑوں کا نقصان وہ کنگ کا کر چکا تھا اور کنگ اس سے بھرپائی کیے بغیر تو اسے زندہ نہیں چھوڑنے والا تھا یہ تو اسے پکا پتہ تھا۔۔۔۔
نکلو یہاں سے یا دھکے مار کر نکالوں۔۔۔۔۔
چاچو ایک دفعہ مالا سے بات کرنے دو چاچو۔۔
دور ہو زاوی مجھ سے تم نشے میں تھے اور یہ یہ سب وہ روتے ہوئے زاوی سے کہنے لگی زاویار کو پتا چل چکا تھا کے اب کوئی فائدہ نہیں زاویاد نے ایک نفرت بھری نگاہ شمالہ کی طرف ڈالی جو ابھی بھی رونے کا ناٹک جاری کیے ہوئے رکھی تھی اور ایک نظر نواز کو دیکھا شواش نے اسے اتنا مارا تھا اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔
اس نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تھا میں واپس اؤں گا نواز میں واپس اؤں گا اور مالا کی طرف جھک کر وہ اس کے کان کے پاس جھکا ۔۔۔۔
تم صرف میری ہو بھالو صرف میری اور میرا انتظار کرنا اس الزام کا بدلہ لینے میں واپس آؤ گا اس ٹائم وہ ایک الگ ہی زاویار لافا تھا مالا کو وہ اخری نگاہ اپنے بھالو پر ڈال کر نکل گیا۔۔۔۔۔
مالا کو دکھ تو ہوا تھا کہ اس کا دوست جا رہا ہے لیکن وہ ابھی صدمے تھی۔۔
یہ سب کیسے ہوا نواز بھی شمائلہ کا سر پر پہنچتا دھاڑا تھا۔۔۔
سرکار میں نہیں جانتی وہ نشے میں تھا جب میں اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ وہ کھینچ کر اپنے کمرے میں لے ایا ۔۔
تو تم نے شور کیوں نہیں مچایا۔۔۔۔
اس سوال سے شمائلہ ایک دم گھبرا گئی تھی سرکار میں نے شور کیا تھا لیکن اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا وہ مزید سوالوں سے بچنے کے لیے پھوٹ پھوٹ رونے لگی مالا بھی اپنے کمرے میں چلی گئی اس سے ابھی تک یقین نہیں ا رہا تھا کہ زاوی ایسا کر سکتا ہے۔۔۔۔
زاو یار گھر سے باہر نکلا تو اسے ابھی بھی چکر ا رہے تھے ایک تو نشے کی حالت تھی ایک اس کے پیار کی بے یقین نظریں وہ بھلا ہی نہیں پا رہا تھا اسے اج پھر سے اپنے ماں باپ بے حد یاد ا رہے تھے کاش ماما بابا اس رات اپ مجھے چھوڑ کر جاتے مجھے بھی ساتھ لے چلتے تو اج یہ سب نہ دیکھنا پڑتا سبز آنکھوں سے اج ہر درد تھا ہم زخم انسو کی صورت میں باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔
وہ سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا کہ ایک گاڑی سے اس کی ٹکر ہوئی تھی جس سے وہ دور اچھلتا ہوا گرا تھا گاڑی سے ایک ادمی اتر کر زاویار تک گیا تھا سر اب باہر مت جائیں کوئی دشمن بھی ہو سکتا ہے۔۔۔
سکندر کے ایک ملازم نے سکندر کو باہر جانے سے روکا ۔۔
غلام بخش میری جان سے زیادہ اس بچے کی جان عزیز ہے اٹھاو اسے ہاسپٹل لے کر چلو جلدی غلام بخش نے اشارہ کیا جس سے گارڑز اتے زاویار کو اٹھا کر کے جا چکے تھے ۔۔۔۔۔