Wirsa #NEWS

Wirsa #NEWS Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Wirsa , TV Channel, .
(18)

31/05/2017

- لائک کرکے شیئرضرور کریں ۔

03/04/2017

❤⭕❤️❤ لائک کرکے شیئرضرور کریں ۔❤️❤⭕❤

07/03/2017

❤⭕ Share this Beautiful Post⭕❤

02/03/2017

❤️❤️
❶ Like ✔❷ Share ✔❸ Tag your friends ✔

01/03/2017

❤️❤️Share If You Like❤️❤

24/02/2017

OYY BaaZ AA Ja

سبحان اللہ۔۔ماشااللہ۔۔ - لائک کرکے شیئرضرور کریں ۔

22/02/2017

🍀⭕ Share this Beautiful Post⭕🍀

22/02/2017

OYY BaaZ AA Ja

❤️❤️Share If You Like❤️❤

17/02/2017

سبحان اللہ۔۔ماشااللہ۔۔ - لائک کرکے شیئرضرور کریں ۔

10/02/2017

❤️❤️Share It❤️❤❤

09/02/2017

❤️❤️Share it & Say Amen❤️❤

05/02/2017

Share Please...

05/02/2017

Timeline Photos

03/02/2017

Share if You Agree.....!!!

28/01/2017

Share If You Like...!!!

25/01/2017

Say Ameen & Share this Post

24/01/2017

Share If You Agree...!!!

23/01/2017

Please Share

21/01/2017

Say Amen And Share ....!!!

17/01/2017

Share if You Agree....!!

16/01/2017

لائک کرکے شیئرضرور کریں ۔

14/01/2017

Share if You Agree....!!!

13/01/2017

Share if You Agree

12/01/2017

Share if You Agree......!!!

31/12/2016
30/12/2016

شیر شاہ سوری

شیرشاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔ 1486ء میں پیدا ہوئے جونپور میں تعلیم پائی ۔21 سال والد کی جاگیر کا انتظام چلایا پھر والئ بہار کی ملازمت کی۔ جنوبی بہار کے گورنر بنے۔ کچھ عرصہ شہنشاہ بابر کی ملازمت کی بنگال بہاراور قنوج پر قبضہ کیا مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ اپنی مملکت میں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ اپنے تعمیری کاموں کی وجہ سے ہندوستان کے نپولین کہلائے سنار گاؤں سے دریائے سندھ تک ایک ہزار پانچ سو کوس لمبی جرنیلی سڑک تعمیر کروائی جو آج تک جی ٹی روڈ کے نام سے موجود ہے۔شہنشاہ اکبر مملکت کا انتظام چلانے میں شیرشاہ سے بڑا متاثر تھا۔ 22 مئ 1545ء میں بارود خانہ کے اچانک پھٹ جانے سے وفات پائی۔

تاریخ دان شیر شاہ سوری کو برصغیر کی اسلامی تاریخ کا عظیم رہنما' فاتح اور مصلح مانتے ہیں۔ اردو ادب میں شیر شاہ سوری سے متعلق کئی مثالی قصے ملتے ہیں۔

جب ہند میں مغلوں کی آمد اور لودھی خاندان کا خاتمہ ہوا تب شیر شاہ مغلوں کی جنگی مہارت سے کافی متاثر ہوکر بابر کی فوج میں شامل ہوگیا۔ شیر شاہ کی اعلیٰ صلاحیتوںکو دیکھتے ہوئے بابر نے اسے سہسرام کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ شاہی دستر خوان پر شیر شاہ نے بادشاہ کے سامنے سے خوان کھینچا اور بلا تکلف تلوار سے گوشت کاٹ کا کر کھانے لگا۔بابر کو یہ ناگوار گزرا ۔ بابرکو اسی وقت شیر خان ( شیر شاہ) کے دل میں مغل حکمرانوں کے لیے نفرت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ شیر خان کی آزادانہ طبیعت بابر کی ماتحتی زیادہ دن برداشت نہ کرسکی اور وہ جلد ہی بہار لوٹ آئے اورکم سن شہزادہ جمال خان جو کہ نواب بن چکے تھے، کی اتالیقی پر دوبارہ فائز ہوگئے۔ ریاست کا سارا نظم شیر خان کے ہاتھوں میں آگیا اور جمال خان برائے نام نواب رہ گیا، جسے دیکھ کر نواب کے بھی دل میں اندیشہ پیدا ہونے لگا۔اسی درمیان شیر خان نے چنار کے قلعہ دار کی بیوہ سے شادی کی جس کے بدلے میں چنار کا قلعہ شیر خان کے قبضہ میں آگیا۔

شیر خان کے بڑھتے رسوخ کو جمال خان اور اس کے افغان امراء برادشت نہیں کرپائے ۔انھوں نے شیر خان کے خلاف بنگال کے نواب محمود شاہ سے مدد طلب کی، لیکن قسمت شیر خان کے ساتھ رہی۔ افغان امراء و نواب بنگال شکست سے دوچار ہوئے۔ شیرخان کے جنگی جوہر میں اضافہ ہونے لگا۔ مغل بادشاہ ہمایوں جب گجرات کی مہم پر تھا تب موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیر خان نے (1538 میں) بنگال پر حملہ کردیا۔ نواب بنگال اس کا مقابلہ نہ کرسکا اور بھاری تاوان اور کچھ اہم علاقے شیر خان کے قبضے میں دے کر صلح کرلی۔ ہمایوں کو حالات کا علم ہوا تو وہ شیرخان سے مقابلہ کرنے کے لیے آپہنچا، مگر شیر خان کے سامنے ٹک نہ پایا اور شیر خان کو بطور نواب قبول کر کے واپس چلا گیا۔ لیکن شیرخان نوابیت پر اکتفا کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اس نے دسمبر 1539 میں اپنی بادشاہت کااعلان کردیا اور سلطان العادل کا لقب اختیار کیا ۔ اب فرید خان سوری شیرخان سے شیر شاہ سوری بن گیا۔ شیر شاہ نے سوری خاندان کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد ہمایوں نے دوبارہ (مئی 1540) میں شیر شاہ پر حملہ کیا مگر سخت ناکامی ہاتھ آئی اور سارا شمالی ہند شیر شاہ کے زیر تسلط آگیا۔ہمایوں جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ افغان سردار جو ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی خاطر ہمیشہ خانہ جنگی میں مصروف رہتے تھے، شیر شاہ نے سلطان بنتے ہی تمام افغان سرداروں میں اتحاد قائم کرنے کی کو شش کی، جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی ہوا۔ بادشاہ بننے کے بعد شیر شاہ کو بہت کم وقت مل پایا۔ ایک جنگی مہم کے دوران شیر شاہ کے بارود کے ذخیرہ میں آگ لگ گئی جس سے شیر شاہ شدید زخمی ہوگئے اور اسی حالت میں 22 مئی 1545 میں انتقال کر گئے۔ انھیں سہسرام (بہار) میں دفن کیا گیا۔

شیر شاہ سوری کے بعد سوری سلطنت کو کوئی بھی قابل جانشین نہ مل سکا۔ 1545 سے لے کر 1556 کے مختصر عرصہ میں اس خاندان کے چھ فرمانروا تخت نشین ہوئے، جن میں سے بعض کے حصے میں صرف چند ماہ کی حکومت آئی ۔ اس کے بعد ہمایوں نے دوبارہ حملہ کر کے سوری سلطنت سے تخت واپس حاصل کرلیا ۔

شیر شاہ کے کارنامے:
شیرشاہ سوری کی شخصیت اور ان کی خوبیاں ان کے مخالفین کو بھی ان کا مداح بنا دیتی ہیں۔ شیر شاہ کو حکومت کے لیے بہت کم وقت مل پایا (دسمبر 1539 سے 22 مئی 1545)، یعنی تقریباً پانچ سال ایک ماہ، لیکن اس مختصر سی مدت میں بھی شیر شاہ سوری نے وہ کارنامے و اصلاحات انجام دیے جن کی مثال ہندوستان کے کسی حکمراں کے دور میں نہیں ملتی، چاہے اشوک اعظم ہویا بادشاہ اکبر، یا پھر اورنگ زیب ہی کیوں نہ ہو۔ شیر شاہ نے ریاست سے جرائم کاخاتمہ کرنے کے لیے کڑے اقدامات کیے نیز ملوث پائے گئے افراد کے لیے کڑی سزائیں تجویز کیں۔ سپاہیوں کو نقد تنخواہ دینے کا نظام قائم کیا۔ سکوں کے نظام میں بہتری لائی گئی ۔ سونے چاندی اور تانبے کے سکوں کو رواج دیا اور ہر سکے کی قیمت متعین کی۔ شیر شاہ ایک بہادر جنرل کے ساتھ انصاف پسند ، مدبر حکمراں اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ ان کی انہی صفات نے انھیں عوام کی نظروں میں مقبول بنا یا۔ اپنے انہی کارناموں کی بدولت وہ تاریخ میں نمایا ں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے کارناموں کو سراہتے ہوئے ہندوستان کی حکومت نے شیرشاہ سوری کے نام سے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیاتھا۔

شاہراہ اعظم (جی ٹی روڈ):
شیر شاہ سوری کے عظیم کارناموں میں سے ایک کارنامہ شاہراہ اعظم کی تعمیر ہے جس کی وسعت افغانستان سے بنگلہ دیش تک ہے ۔ یہ سڑک افغانستان کے شہر کابل سے شروع ہوتی ہے اور پاکستان میں پشاور ،لاہور سے ہوتی ہوئی دہلی اور دہلی سے الٰہ باد ،بنارس، مرشد آباد سے ہوتے ہوئے کلکتہ اور پھر ڈھاکہ جاتی ہے۔

شاہراہوں کی حفاظت اور مسافروں کو سہولت:
شیر شاہ نے ملک کے تمام اہم راستوں کی حفاظت کے لیے راستوں پر جگہ جگہ سرائیں تعمیر کروائی جہاں مسافروں ،قافلوں کے ٹھہرنے کا انتظام ،مسجد، پانی کے لیے کنواں ، رہزنوں سے حفاظت کے لیے حفاظتی دستہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ ہر ایک کوس (تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر) پر ایک سرا یا فوجی چھائونی ہوتی جو راہگیروں کو تحفظ فراہم کرتی تھی۔ہر سرا میں ہندو مسلم دونوں عوام کے اعتبار سے مخصوص طعام کا نظم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سڑکوں کے دونوں کنارے پھل دار درخت لگوائے۔

ڈاک کے نظام کی اصلاح:
ڈاک وقت پر پہنچے اور حکومتی انتظامات میں تیزی آئے، اس کے لیے جگہ جگہ راستوں پر ڈاک کے لیے مخصوص چھائونیاں قائم کیں، جہاں ڈاک کے ذمہ داران کے لیے تازہ دم گھوڑے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ تجارتی قافلوں کو قزاقوں کے ڈر سے نجات ملی۔

زرعی اصلاحات:
شیر شاہ نے زراعت کے میدان میں بھی کافی اصلاحات کیں۔ ملک بھر میں کسانوں کی زمین کی پیمائش کے لیے ایک پیمانہ مقرر کیا اور اسی پیمائش کی مناسبت سے فصلوں پر ٹیکس کی شرح عائد کی۔اگر کسی سال فصل اچھی نہ ہوتی یا کسانوں کو نقصان ہوتا تو ٹیکس معاف کردیا جاتا اور سرکاری خزانے سے کسانوں کو معاوضہ دیا جاتا۔ محصول کے نظام کو بہتر بنایا۔ بہتر انتظامیہ کے پیش نظر ریاست کی مختلف صوبوں، ضلعوں ،پرگنوں میں تقسیم کی اور ہر حصہ پر ایماندار عاملوں کا تقرر کیا۔

30/12/2016

❶ Like this post ✔
❷ Share this post ✔
❸ Tag your friends ✔..

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Wirsa #NEWS posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share