PPP Media Team

  • Home
  • PPP Media Team

PPP Media Team Always live happly

23/12/2023

کپتان کی ٹیم کو چھ مہینے پہلے جاننا چاہئے تھا کہ
پی پی پی اور پی پی پی پی کیوں ۔ کب اور کیسے بنائی گئی تھیں۔ چھ مہینے پہلے تقریروں کے شوق کی بجائے ایک بیک اپ جماعت رجسٹر کروا کر رکھنا بہت ضروری تھا ۔ مگر اس وقت کپتان جلسوں میں تقاریر کر کے تلذذ اور حظ اٹھانے میں مشغول تھا ۔شرافت رانا

22/12/2023

پی ٹی آئی کے رجسٹریشن ختم ہونے ، بلے کا نشان ختم ہونے کو تلوار کا نشان ختم ہونے سے مماثلت دینے والے پیپلز پارٹی کے کارکن کس قدر سادہ لوح ہیں۔
پی پی سیاسی جدوجہد کرتی تھی اور الیکشن کمیشن کی تمام شرائط کو پورا کرتی تھی اس کے باوجود نشان چھینا گیا ۔ اس کے باوجود رجسٹریشن بار بار منسوخ کی گئی ۔ قواعد کو تبدیل کیا گیا ۔ قانون راتوں رات تبدیل کیے جاتے تھے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اکبر ایس بابر 13 سال سے عمران خان کی بددیانتی کے خلاف عدالتوں میں تنہا کھڑا رسوا ہوتا رہا ، ذلیل ہوتا رہا ، عدالتی نظام عمران خان کی سرپرستی کرتا رہا۔
ایک وقت آیا کہ اکبر ایس خان کی بات سنی جانے لگی تو پھر بھی عمران خان کو ایک موقع دیا گیا کہ وہ دوبارہ الیکشن کروا کے کامیابی حاصل کر کے نشان کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔ لیکن عمران خان کے ساتھیوں اور دوستوں نے اس موقع کو اس بدترین طریقہ سے ضائع کیا کہ خدا کی پناہ احمقوں کا اس سے بڑا ٹولہ کبھی دنیا کی تاریخ میں اکٹھا نہیں ہوا تھا۔
جو نام نہاد انتخابات ایک نامعلوم جگہ پر فارم ہاؤس میں کروائے گئے ۔ اس میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام ارکان کو دعوت دینا ۔ اخبار میں اشتہار دینا اور معلومات فراہم کرنا ۔ ووٹر لسٹ فراہم کرنا اور مخالفین کو نامزدگی کے کاغذات جمع کروانے کا موقع دینا ایک ضروری اور لازمی امر تھا۔
یہ طے شدہ بات تھی کہ اکبر ایس بابر ، ان کا کوئی بھی آدمی عمران خان کے مقابلہ میں چیئرمین یا صدر کا الیکشن لڑنا چاہتا تو کسی بھی صورت نہیں جیت سکتا تھا ۔
لیکن بددیانتی کے عادی لوگوں نے اس موقع کو اس طرح سے ضائع کیا کہ اکبر ایس بابر یا دیگران کو الیکشن کی جگہ کے بارے میں معلومات نہیں دیں۔ ووٹر لسٹ فراہم نہیں کی اور ان کے نامزدگی کی دستاویزات قبول کرنے سے انکار کیا گیا ۔
جس قدر ہٹ دھرمی یا جس قدر زیادتی مبینہ طور پر اس وقت ایسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ کر رہی ہے۔ عمران خان کی ٹیم نے اس سے سو گنا زیادہ ہٹ دھرمی اور صریح دھاندلی اکبر ایس بابر اور ان کے ساتھیوں سے کر کے دکھائی ۔جس کا نتیجہ اج بھگتنا پڑا ہے۔
یاد رہے پیپلز پارٹی میں کبھی اس طرح کا کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے اندر پیپلز پارٹی کی قیادت کو چیلنج کرنے والوں کو نہ سنا گیا ہو یا سننے سے انکار کیا گیا ہو ۔ یا ان کی رائے لینے سے انکار کیا گیا ہو یا ووٹ ڈالنے کا موقع دینے سے انکار کیا گیا ہو
سادہ دل نیک نیت اور بنیادی طور پر نرم خو سیاسی کارکن پیپلز پارٹی کے لوگ پی ٹی آئی کی ہمدردی میں بعض اوقات قواعد و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط فیلڈ میں جا پہنچتے ہیں ۔
سیاسی عمل میں سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ اپ سیاست کی حدود و قیود کے اندر کھیلیں۔
تحریر :
شرافت رانا

22/12/2023

پارٹی وڑنے کے بعد بلے کا نشان بھی وڑگیا
الیکشن کمیشن 😜

20/12/2023

شاید یہ میری زندگی کی آخری وڈیو ہو

بلوچستان سے شروعات ہوگی اب اگے اگے دیکھے ہوتا ہے کیا
18/12/2023

بلوچستان سے شروعات ہوگی اب اگے اگے دیکھے ہوتا ہے کیا

16/12/2023
بندہ تو سچ میں وڑگیا 😂
14/12/2023

بندہ تو سچ میں وڑگیا 😂

گجرانوالہ ورکرز کنونشن میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت ‬ ‏‪ ‬
12/12/2023

گجرانوالہ ورکرز کنونشن میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت ‬

‏‪ ‬

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو پر جو الزام تھا کہ آپ نے فلاں بندے کو قتل کرنے کی کوشش کی وہ بندہ زندہ ہے، آج بھی آپ کے...
12/12/2023

قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو پر جو الزام تھا کہ آپ نے فلاں بندے کو قتل کرنے کی کوشش کی وہ بندہ زندہ ہے، آج بھی آپ کے سامنے پریس کانفرنس کررہا تھا، کورٹ میں موجود تھا، مگر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اسے قتل کرنے پر شہید کردیا گیا۔”
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری



شہید ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لئے پاکستان  پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین ...
12/12/2023

شہید ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی سپریم کورٹ آمد کی تصویری جھلکیاں
‏⁦‬⁩
‏⁦‬⁩

‏ ⁦‪ ‬⁩

12/12/2023
12/12/2023

چوتیا اسے کہتے ہیں جو راؤ انوار کے ماضی کے ایک اسی طرح کے انٹرویو کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ موجودہ انٹرویو کو بھی بھول جائے گا۔ مگر " بہادر بچہ" اس کے دل اور زبان پر کندہ رہے گا اور وہ ہر موقعہ پر زرداری کا بہادر بچہ کی کہانی کو اگلتا ۔ جگالی کرتا رہے گا۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہانیاں پٹ جانے کے باوجود چوتیا بنے رہنا ان کی لائف لائین ہے۔شرافت رانا

کوہاٹ: پاکستان پیپلزپارٹی کے تحت بابری بانڈہ کے مقام پر واقع کیپٹن ظہورالاسلام شہید فٹ بال اسٹیڈیم میں ورکرز کنونشن میں ...
10/12/2023

کوہاٹ: پاکستان پیپلزپارٹی کے تحت بابری بانڈہ کے مقام پر واقع کیپٹن ظہورالاسلام شہید فٹ بال اسٹیڈیم میں ورکرز کنونشن میں شریک عوام اور کارکنان۔

لوئر دیر: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ریسٹ ہاؤس گراؤنڈ میں ورکرز کنونشن سے خطاب
09/12/2023

لوئر دیر: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ریسٹ ہاؤس گراؤنڈ میں ورکرز کنونشن سے خطاب

پی آئی اے کی نجکاری کیلئے باؤلے ہوئے طاقتور لوگ اپنی غلطی کو وہاں سے سدھارنا شروع کریں جہاں سے کچھ غلط ہوا تھا۔ اعجاز ہا...
08/12/2023

پی آئی اے کی نجکاری کیلئے باؤلے ہوئے طاقتور لوگ اپنی غلطی کو وہاں سے سدھارنا شروع کریں جہاں سے کچھ غلط ہوا تھا۔ اعجاز ہارون کو واپس لائیں اور اسے مکمل خود مختاری سے کام کرنے دیں۔ تین سال کے اندر پی آئی اے دنیا کی بڑی معتبر ایئر لائینز میں شامل نہ ہو تو پھر کہیے گا۔ اور خسارہ ایک سال میں کنٹرول ہو جائے گا۔ مسئلہ خسارہ کا نہیں ہے ۔ مسئلہ بیچنے میں یکمشت کمیشن کمانے کا ہے۔
اورنج لائن کے لیے دو فیصد شرح سود پر قرض دستیاب تھا لیکن اسے بڑھا کر آٹھ فیصد سالانہ تک پہنچانے والے کو اج پی آئی اے کی نجکاری کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے ۔ پوری دنیا میں اس وقت آٹھ فیصد شرح سود کہیں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مروج نہیں تھی ۔ جس وقت یہ شرح میاں محمد نواز شریف اور فواد حسن فواد نے کک بیکس ، کمیشن ، غیر قانونی آمدنی ، رشوت کے لیے بڑھائی تھی۔
اس قدر بھاری شرح سود پر لیا گیا کمیشن 400 ملین پاؤنڈ کی شکل میں ملک ریاض کے ذریعے لندن پہنچایا گیا جس میں سے 190 ملین جرمانہ ہو گیا ۔
تحریر :
شرافت رانا ۔

08/12/2023

1973 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے سندھیوں کو سندھی زبان میں تعلیم اور ڈگری کا حق دلایا تو پنجاب کیلئے بھی یہی تجویز رکھی جو ملک معراج خالد اور حنیف رامے نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے باوجود
شہید بھٹو نے تعلیم بالغان کا کورس پنجابی زبان میں تیار کروایا اور اسے پھیلایا ۔
آج بھی وقت ہے کہ پی پی پی پنجاب کے عوام کو میٹرک تک تعلیم کی زبان پنجابی کرنے اور انگریزی اردو کو میٹرک کے بعد اختیاری ۔لازمی قرار دینے پر غور کرے ۔ میرا مطالبہ ہے کہ منشور میں اس بات کو شامل کیا جائے۔
زبانیں سیکھنا ذہانت نہیں ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم مادری زبان میں کو پوری دنیا بنیادی حق مان چکی ہے ۔ اس حق کا انکار جمہوریت ہر گز نہیں ہے۔
تحریر :
شرافت رانا۔

02/12/2023

سواڑی بازار

01/12/2023

ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ3حرف
ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ
ﺳﺎﺗﮫ com. ﻟﮕﺎﻭ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐس
ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ..؟

جئے بھٹو  ❤️‎
30/11/2023

جئے بھٹو ❤️

اج کوئٹہ: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کے 56ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں ایوب اسٹیڈیم میں ہونے...
30/11/2023

اج کوئٹہ: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پی پی پی کے 56ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں ایوب اسٹیڈیم میں ہونے والے جلسہ عام سے خطاب کررہے ہیں۔
‏⁦‪‬⁩

‏ ⁦‪ ‬⁩

پی ٹی ائی وڑ گئ
29/11/2023

پی ٹی ائی وڑ گئ

25/11/2023

21/11/2023

20/11/2023

میڈیا سے دور جنگل میں منگل سندھ برباد ھو گیایہ تصویریں  گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور جگر ٹرانسپلانٹ سنٹر  کی ہیں...
11/11/2023

میڈیا سے دور جنگل میں منگل سندھ برباد ھو گیا
یہ تصویریں گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور جگر ٹرانسپلانٹ سنٹر کی ہیں جہاں پاکستان کے کسی بھی شہری کا بالکل مفت علاج کیا جاتا ھے
جس میں جگر کی پیوندکاری بھی شامل ھے

سندھ میں صحت کی سہولیات پر ایک نظر۔۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں سرکاری سطح پر اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور صحت کے دیگر چھوٹے بڑے بنیادی مراکز کی کُل تعداد سات ہزار 651 ہے جن ميں تقریباً 40 ہزار بستروں کی گنجائش موجود ہے یعنی تقریباً 1205 افراد کیلئے ایک بستر موجود ہے۔

اگر پاکستان کے دیگر صوبوں کا جائزہ لیں تو پنجاب میں 1827 مریضوں کے لئے ایک بیڈ، خیبرپختونخوا میں 1605 جبکہ بلوچستان میں تقریباً 1590 مریضوں کیلئے ایک بیڈ کی سہولت موجود ہے۔

2008 سے 2018 کے اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں سب سے زیادہ یعنی 143 نئے اسپتال تعمیر ہوئے ہیں، پنجاب میں 82، خیبر پختونخواہ میں 75 جبکہ بلوچستان میں 34 نئے اسپتال تعمیر ہوئے ہیں۔

2008 سے 2018 کے اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں 210 سرکاری ڈسپنسریاں بند ہوئیں جبکہ سندھ میں 723 نئی ڈسپنسریوں کی تعمیر کی گئی۔

سندھ کے محکمہ صحت میں اس وقت 14،000 سے زائد ڈاکٹرز اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں، 2 سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز، 3 میڈیکل کالجز 12 نرسنگ سکول اور 10 مڈوائفری اور 5 پبلک ہیلتھ سکول کام کر رہے ہیں، تقریباً 18،000 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور 700 سے زائد لیڈی ہیلتھ سپروائزر بھی محکمہ سندھ کی صحت ٹیم کا حصہ ہیں۔

قومی ادارہ برائے امراض قلب۔ (NICVD)۔امراض قلب کے شعبہ میں سندھ میں جو خدمات قومی ادارہ برائے امراض قلب سرانجام دے رہا ہے پورے ملک میں شاید ہی کوئی ادارہ اس کے معیار کے قریب بھی ہو، کراچی، خیرپور، مٹھی نواب شاہ، حیدرآباد، سیہون، ٹنڈو محمد خان، سکھر اور لاڑکانہ میں امراض قلب کے اس ادارے کے مکمل آپریشنل مراکز کام کر رہے ہیں جہاں پر دستیاب علاج اور دیگر سہولیات کا دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے، کراچی کے علاقوں گلشن، قیوم آباد، ملیر ہالٹ، ناگن چورنگی، ریلوے روڈ، لانڈھی، کریم آباد، اورنگی ٹاون، گزری، نیو کراچی، موسیٰ لین لیاری، منزل پمپ اور اس کے علاوہ جیکب آباد، ٹنڈوباگو اور گھوٹکی میں چیسٹ پین یونٹس کام کر رہے ہیں۔ ان سنٹرز پر مئی 2017 سے دسمبر 2019 تک 318,522 مریضوں کی جان بچائی گئی ہے، صرف کراچی میں اس سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال میں روزانہ تقریباً 1000 سے زیادہ مریض علاج کے لئے لائے جاتے ہیں، قابل ذکر یہ کہ مستحق مریضوں کا معمولی چیک اپ سے لے کر اوپن ہارٹ سرجری اور برقی پیس میکر تک لگانے کا مہنگا ترین علاج بھی بلکل مفت کیا جاتا ہے۔

سائبرنائف ٹریٹمنٹ سنٹر کراچی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر میں 2012 سے قائم سائبرنائف ٹریٹمنٹ سنٹر روبوٹک یا گٹینگ ایج ٹکنالوجی کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے کینسر کا جدید اور موثر مگر مہنگا ترین طریقہ علاج ہے، ایک مریض کے علاج پر 50،000 ڈالر سے لے کر 90،000 ڈالر تک کی لاگت آتی ہے، اس ادارے میں اب تک 5،000 سے زائد مریضوں کا علاج ہو چکا ہے، حیرت انگیز اور فخریہ بات یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں قائم 300 سنٹرز میں یہ اپنی نوعیت کی واحد سائبرنائف ٹریٹمنٹ سنٹر ہے جہاں مریضوں کا علاج بلکل مفت کیا جاتا ہے۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر۔ (SMBB Trauma Center) سول ہسپتال کراچی میں قائم شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹراما سنٹر پورے جنوبی ایشیاء میں اپنی نوعیت کا واحد آئی کیٹیگری ٹراما سینٹر 500 سے زائد بستروں، آئی سی یو، ایچ ڈی یو اور پندرہ سے زائد آپریشن تھیٹروں پر مشتمل جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہسپتال جہاں ہر قسم کی بیماری کا علاج بلکل مفت ہے اور سالانہ لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

گمبٹ لیور اینڈ کڈنی ٹرانسپلانٹ اسپتال خیرپور میں حکومت سندھ اور دیگر اداروں کے تعاون سے قائم اس اسپتال میں اب تک جگر کی پیوندکاری کے سو سے زائد کامیاب آپریشن ہو چکے ہیں، یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ہسپتال ہے جہاں جگر اور گردوں کی جملہ بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، یہاں اس وقت صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے مریض اپنا علاج کروا رہے ہیں، مستحق افراد کے لیے یہ سہولت بلکل مفت دستیاب ہے۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) روزانه 1200 سے زیادہ ڈالیسیس کرنے والے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں سالانہ تقریبا 4 لاکھ افراد کے ڈالیسیس ہوتے ہیں، اب تک 6200 سے زائد کامیاب ٹرانسپلانٹ آپریشن ہو چکے ہیں، یومیہ تقریباً 1600 مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہہے۔ اس کا شمار دنیا کے اہم اداروں میں کیا جاتا ہے جو عوام کو یورولوجی، معدے اور گردوں کی بیماریوں کا علاج اور اعضاء کی پیوندکاری کی مفت سہولیات مہیا کرتا ہے۔

اس کے علاوہ انڈس ہسپتال، این آئی سی ایچ، پی پی ایچ آئی اور دیگر ادارے بھی حکومت سندھ کے اشتراک سے صحت کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں جن کا دوسرے صوبوں میں موجود صحت کی سہولیات سے کوئی مقابلہ نہیں۔

کراچی سے پانچ گنا بڑا مگر صرف 17 لاکھ آبادی والا تھر بچوں کی بیماریوں اور اموات کے حوالے سے شاید پاکستان کا سب سے بدنام ضلع ہے جبکہ حقیقت میں اس معاملے میں پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان کے کافی اضلاع کے اعداد وشمار اور حالات تھر سے بُرے ہیں مگر پھر بھی تھر ہی ان منفی خبروں کا شکار رہتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ واقعات جو میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں وہ کبھی رونما ہی نہیں ہوئے، چند مقامی بااثر افراد میڈیا کو ساتھ ملا کر مختلف انٹرنیشنل این جی اوز سے امداد لینے کے چکر میں جھوٹ پر مبنی خبریں شائع کرواتے ہیں مثلاً اگر کہیں دو بچوں کی موت ہوئی تو اسے 2 کی بجائے 20 لکھ کر رپورٹ کیا جاتا رہا ہے اور یہ علاقے اتنے دوردراز ہیں کہ کوئی وہاں جا کر ان خبروں کی تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

تھر میں محکمہ صحت کے چار ہزار سے زائد ملازمین دن رات لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بنائی گئی خصوصی کمیٹی نے بھی تھر کا دورہ کیا اور زمینی حقائق معلوم پڑنے پر اسے صحت کی سہولیات کے حوالے سے پاکستان میں قائم ماڈل اضلاع سے بہتر قرار دیا۔

سندھ کے دور دراز اور انتہائی پسماندہ علاقوں میں موجود صحت کی یہ سہولیات بلا شک و شبہ ناکافی ہیں مگر اگر پنجاب یا دیگر صوبوں سے ان سہولیات کا تعصب کی عینک اتار کر مقابلہ کیا جائے تو آپ کو کئی حوالوں سے سندھ ان سب سے کافی سے بہتر ہی نظر آئے گا۔

اور ہمارا👇
08/11/2023

اور ہمارا👇

06/11/2023

پیپلز پارٹی نے KPK میں %80 ٹکٹیں نوجوانوں کو دینے کا فیصلہ
نوٹ کہی تو ایسا نہ ہو کہ پہلے والدین کو ملتے اب انکے بچوں کو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے

سابق بھارتی بیٹر وریندر سہواگ نے بھی فخر زمان کی سنچری کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’فخر زمان نے کیا اننگز کھیلی ہے، پاکست...
05/11/2023

سابق بھارتی بیٹر وریندر سہواگ نے بھی فخر زمان کی سنچری کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’فخر زمان نے کیا اننگز کھیلی ہے، پاکستان کے اب تک کے بہترین بلے باز ہیں، کن دماغوں نے انہیں ٹورنامنٹ میں بینچ پر رکھا، خدا جانے۔

وریندر سہواگ نے لکھا کہ ’پروٹین کی بھی کمی نہیں، جذبے کی بھی۔‘

03/11/2023





22/10/2023

بات صرف آصف علی زرداری کی اسکِل اور اسٹرینتھ کے فرق ہی کی نہیں ، معاملہ دلہن وہ جو پیا من بھائے والا بھی ہے! کچھ سمجھنے، سوچنے اور جاننے کے بعد یوں بھی کہتے ہیں " جسے پیا چاہے، وہی سہاگن، کیا سانوری کیا گوری"۔ گویا ہمارے ہاں الیکشن ضروری بھی ہیں اور مجبوری بھی۔ ضروری اس لئے کہ آئین کی اشک شوئی مقدم ہے اور مجبوری اس لئے کہ پیا کا روٹھنا مقصود ہے نہ مطلوب۔

اگر کسی کو الیکشن 2002 اور 1997 کے نتائج یاد ہوں تو معاملہ کچھ یوں تھا:
مسلم لیگ نواز کی 2002 میں قومی اسمبلی کی19 نشستیں تھیں اور اس سے قبل 1997 میں 137 تھیں ۔ اب اسے کیا کہیں گے اقتدار کو ٹوِسٹ دی جاتی ہے یا نظریاتی بھونچال اس قدر شدید ہوتا ہے کہ زمین آسمان کا فرق پڑ جائے؟ یہ بھی ذہن نشین رہے پیپلزپارٹی کی 1997صرف 18 تھیں، اس الیکشن سے پہلے وہ اقتدار میں تھی۔

ایک الیکشن 1990 کابھی تھا جب 1988 کے اقتدار کے بعد پیپلز پارٹی (پی ڈی اے) 94 سے 44 نشستوں پر آکھڑی ہوئی جبکہ مسلم لیگ ( آئی جے آئی) 56 سے 106 پر چلی گئی...یہاں مسلم لیگ قاف اور تحریکِ انصاف کا ذکر خیر بھی ضروری ہے۔ قاف الیکشن 2002 کے لئے کشید ہوتی ہے 105 سیٹیں لیتی ہے اور پھر اس کی کشیدہ کاری کے تلوں میں تیل نہیں رہتا۔ پھر 92 کے کرکٹ ورلڈ کپ کا ہیرو اپنے ہم عصروں اور ہم عمروں کو متاثر نہیں کر پاتا، 1994 تا 2008 تک کسی کو عمران خان ہیرو نظر آیا نہ مجاہد، اور نہ امید۔ 2010 سے اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوتا ہے اور 2013 تک اسے آخری امید کے طور پر "چوروں ڈاکوؤں" کے مقابل مہاتما بناکر کھڑا کردیا جاتا ہے اور 2018 میں صاحبِ اقتدار بھی ہو جاتے ہیں، گویا پنجاب اور کے پی میں قاف لیگ ، جماعت اسلامی اور آدھی پیپلزپارٹی کا صفایا کر دیتے ہیں، کسی حد تک مسلم لیگ نواز کا بھی۔

ماضی کی اس جھلک اور اعدادوشمار سے اہلِ نظر کو پاکستانی " انقلابوں اور انقلابیوں" کی ساری سمجھ آ جاتی ہے، اور بخوبی جان جاتے ہیں : ہمارے ہاں الیکشن ضروری بھی ہیں اور مجبوری بھی۔ ضروری اس لئے کہ آئین کی اشک شوئی مقدم ہے اور مجبوری اس لئے کہ پیا کا روٹھنا مقصود ہے نہ مطلوب !

فقیر نے یہ سارا منظر اس لئے دکھایا ہے کہ تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی اور پی ڈی ایم کی کامرانی کا ایک پیش منظر تو ابھی کسی لکھاری، مداری، کھلاڑی یا سیاست کاری کو نہیں بھولا ہوگا کہ کون کدھر اور کیسے گیا، کس کو کس نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی امید اور نوید دی۔ آخر اُس پیش منظر کا پس منظر بھی یاد ہے کہ نہیں ؟

بہرحال، وہ، آصف علی زرداری بھولنے والی شے ہیں نہیں، آج کل خاموش ضرور ہیں۔ یہاں احمد مشتاق کی یہ بات بھلی لگی : ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے / وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو ۔ مخالف کے لئے بھی مردِ حُر ، دشمن نظر کی مفاہمت کے شہنشاہ ، دلبری والوں کیلئے سب پر بھاری اور مشکل مرحلے کے پاکستان کھپے کیلئے لگتا ہے تجویز کنندہ و ترتیب کنندہ نے ایک بار پھر سندھ ہی کی گوشہ نشینی کا قرعہ نکالا ہے؟ سوچ کے ساحل پر کھڑے جب خاموش سمندر پر کان دھرے تو لہروں نے ہمیں فیض احمد فیض کے لفظوں میں کہا کہ "دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر / گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام"

فقیر اکثر یہ سوچتا ہے کہ کتنے مہان ہیں ہمارے "جمہوریت پسند" انہیں زرداری کبھی عیدوں پر یاد نہیں آیا اور محرم میں بھولا نہیں! اے اَہلِ جوہر یہ یاد تو ہوگا 2017 میں زوال مول لینے سے پہلے کبھی زرداری نے کہا تھا کہ چھوڑو عدالت آؤ اسمبلی میں لیتے ہیں پانامہ کا مزا مگر اہل چمن نے دھیان نہ دیا۔ خیر پاکستان میں معروف ہے کہ آصف علی زرداری مقبول ہے نہ قبول مگر سیاست کا گُرو ہے اور آئین فہم بھی۔ جی کرتا ہے ان احباب کو بتلائیں کہ جسے "وہ" قبول یا ناقابِلِ قبول کہیں ہیں اسے مقبول اور غیر مقبول کرانے میں اُنہیں چند "گھڑیاں" کافی ہیں۔ یہ یار پر منحصر ہے کہ کون مزاج یار کی کسوٹی پر پورا اترے۔ ذرا سوچئے، کون ہے جو آئین کی چشم پوشی اپنائے رکھنے میں عزم کی تقویت سمجھتا ہے، وہ کیوں چاہے گا کہ کوئی زرداری کے قریب تر ہو اور جمہوریت کو قوت ملے ؟

انتخابات کی متذکرہ جھلک کو ذرا چشم بینا کی نذر کریں سارا کچا چٹھا کھول جائے گا کہ جسے پیا چاہے، وہی سہاگن، کیا سانوری کیا گوری !

جی کرتا ہے زرداری صاحب سے ایک سوال پوچھ ہی لوں۔جانے یہ کیوں لگتا ہے جب زردارانہ نظر 1990,1997 اور 2013 میں اقتدار میں لائے جانے والوں کی تاریخ دیکھے گی، اور پھر یہ بھی بھانپے گی کہ لانے والے ہی نکالنے کا ہنر آزماتے ہیں، اور یہی کچھ لالے کی جان، کپتان سے ہوا کہ کھلایا کھلاڑی بنا کر اور نکالا اناڑی بنا کر سو یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ اگر بعد از انتخابات یہ سوال آصف علی زرداری اٹھاتے ہیں اور یوں اس سوال اٹھانے کی دانش اور پوچھنے کی سکت پر غور کروں، تو آنے والے انتخابات کے بعد کے منظر میں "یہ دانش اور یہ سکت" لیڈر لگتی ہے! ہو بھی سکتا ہے یہ لیڈری قبل از انتخابات بھی انگڑائی لے لے۔ پھر ایسے میں کیا ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کے تو پر کاٹ کے اِنہی کے ہاتھ میں پکڑا دئیے گئے کہ اڑ سکیں نہ ہاتھ ہی ملا سکیں؟ جو بھی ہے، ایسے میں کون ہو جو جمہوریت کی وحشتوں کا ساتھی ہو ؟ وہ تو زرداری ہی ہوگا لیکن سوچنا یہ بھی پڑتا ہے کہ کپتان کہاں ہوگا ؟ کھلاڑی کی ڈگر پر یا اناڑی کی راہ پر ؟ کوئی کچھ بھی کہے، کچھ بھی لے یا کچھ بھی دے عادت اورمیثاقِ جمہوریت کے بعد سے تا حال اقتدار جتنا بھی کم ملا مگر جمہوریت اور مفاہمت ہی نہیں سیاست کا جید کھلاڑی بھی زرداری ہی ہوا۔ اقتدار پائے نہ پائے، پیا مّن بھائے نہ بھائے، جمہوریت کا خواہاں، آئین کا ساماں اور مفاہمت کا باغباں اور اسکِل زرداری ہی کہلائے، لیکن "اسکِل" کے ساتھ "اسٹرینتھ" بھی ضروری ہے، جاناں !

جنگ /نعیم مسعود
22 اکتوبر ، 2023
زرداری، اور الیکشن وہ جو پیا مَن بھائے!

17/10/2023

بھٹو نے جونیئر جنرل اور ضیاء الحق جیسے چاپلوس اور کمینے شخص کو آرمی چیف لگایا تھا اس لیے بھٹو اپنی غلطی کی وجہ سے مارشل لا اور موت کا شکار ہوا تھا کیا یہ دلیل درست ہے ۔
ضیاء الحق کی بجائے میر مرتضیٰ بھٹو کو آرمی چیف لگایا جاتا تو ان دنوں یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
یہ ڈائیلاگ 1977 کے بعد 1988 تک بھٹو کو جھوٹا اور بے وقوف ثابت کرنے کے لیے بار بار لکھا گیا تھا ۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
نواز شریف آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی مہربانی کی وجہ سے دو بار اپنی مرضی کا آرمی چیف نکالنے اور نیا آرمی چیف مقرر کرنے میں کامیاب ہوا تو کیا اس نے اپنی حکومت بچا لی تھی۔
جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لیا گیا اور راحیل شریف کو ایکسٹینشن دینے سے انکار کیا گیا تو کیا نواز شریف کی حکومت بچ گئی تھی۔
پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ ایک فرد واحد کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ فوجی قیادت کا بالاجتماع فیصلہ ہوتا ہے۔
بھٹو کو ہٹانا اور قتل کرنا افغانستان میں ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے ضروری تھا اور بھٹو نے اس جنگ کی قیادت کرنے سے انکار کیا تھا۔
پھر سمجھ لیجیے کہ میر مرتضیٰ بھٹو بھی اس وقت آرمی چیف ہوتا تو پاکستان کو افغانستان میں جنگ لڑنا تھی اور ہر رکاوٹ کو ختم کرنا تھا۔
1947 میں پاکستان بنایا ہی 1977 کی اس جنگ کے لیے گیا تھا اور مشرقی پاکستان کو 1971 میں اسی عمل میں رکاوٹ انے کے پیش نظر الگ کیا گیا تھا۔
تاریخ کے ٹکڑے پکڑ کر تجزیہ کرنا غلط ہوتا ہے تاریخ کو اجتماعی طور پر پڑھنا ہوگا۔

ممتاز سیاسی و معاشی تجزیہ نگار و ماہر قانون شرافت رانا کی تحریر

16/10/2023

ملک ، عوام ، پی پی پی لیڈرشپ کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ اقتدار اور اختیار غیر منتخب لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ لہذا عوام مفاد پر مبنی ۔ ملکی مفاد کی پالیسیاں نہیں بنتی ہیں۔
ججوں ۔ جرنیلوں۔ جرنلسٹوں ۔ بیوروکریسی ۔ نواز شریف ۔ نواز لیگ ۔ عمران خان پی ٹی آئی کا مسئلہ کچھ مختلف ہے۔
عمران خان اور نواز شریف کو اقتدار ۔ اختیار میں سے کچھ ٹرانسفر پوسٹنگ اور مالیاتی امور پر دسترس چاہئے کہ وہ اور ان کے بچے مغل بادشاہوں کی سی زندگی گذارتے رہیں۔
ملک گیری ۔ راج نیتی ۔ سماج سدھار ۔ عوامی مفاد ۔ ملکی معیشت نواز شریف ۔ عمران خان کی کبھی نہ ترجیح رہی ہے۔ اور نہ ان میں ان معاملات کو سمجھنے اور حل کرنے کی استعداد ہے ۔
ججوں جرنیلوں اور سرکاری ملازمین کو یہاں سے کما کر اپنے بچوں کو ولایت میں آباد کرنا اور خوشحال رکھنا ہے ۔
ایک حقیقی جمہوریت ہی پاکستان اور عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ یہ جنگ صرف پی پی پی کی جنگ ہے۔ اس کی لیڈرشپ ہزاروں سال سے اس خطہ کے عوام کی وارث اور نمایندہ ہے ۔ اسکا کارکن دھرتی زاد ہے اور اسی مٹی میں ختم ہونے کیلئے جیتا ہے۔
کامل جمہوریت کی قیام اور اقتدار ۔ اختیار کی عوام کے منتخب نمائندوں تک مکمل منتقلی کی اس جدوجہد میں پی پی پی کے کارکن پہلے بھی قربانی دیتے آئے ہیں اور آیندہ بھی دیتے رہیں گے۔
جب تک ملکی پالیسیاں منتخب ایوان میں نہیں بنائی جائیں گی اس وقت تک ابن الوقت ججوں اور جرنیلوں کی آشیرباد سے طاقتور بننے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
مگر وقت ختم ہو رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے بہت سے جعلی بت برھنہ چوک میں کھڑے کر دیئے ہیں۔ انشاء اللہ آنے والے وقت میں عوام اس منزل کو کامیابی سے حاصل کریں گے کہ پارلیمانی بالادستی کی منزل اور حقیقی عوام راج ہماری تقدیر بن جائے۔
تحریر
شرافت رانا ۔

16/10/2023

میٹرو اور اورنج لائن ۔ نجی بجلی گھر ۔ کرپشن کی بنیاد پر بنائے گئے منصوبے اب پنجاب کی گردن کو توڑ چکے ہیں۔ شریف خاندان اپنے مجوزہ اقتدار کی نئی ٹرم سے پہلے پنجاب میں صحت اور تعلیم کا پورا نظام بیچ کر نگران حکومت کے گلے ڈالنا چاہتا ہے ۔ لیکن فرض کیجئے کہ وہ دوبارہ حکومت میں آگیا تو گنجی نہائے گی کیااور نچوڑے گی کیا۔ پنجاب کو چور اور نانی دیوالیہ کر چکے ہیں۔ ۔ عوام بھگتیں گے ۔
-----------------------------------------------------------------------
2013 سے 2023 تک پورے پاکستان نے جو بین الاقوامی قرض لیا اس میں سے 85 فیصد پنجاب میں غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ ہوا۔ آیندہ اسمبلی غیر ملکی قرض اگر صوبوں پر تقسیم کردے تو پنجاب آگے 20 سال مسلسل دیوالیہ چلے گا ۔روشن پنجاب کو شریف خاندان نے کچھ اس طرح برباد کیا ہے کہ خدا کی پناہ
-----------------------------------------------------------------------
بحریہ ٹاؤن کراچی کو جرمانہ میں وصول کی گئی رقم سندھ حکومت کو نہ دی جائے بلکہ یہ اسلام آباد۔ پنجاب پر خرچ کی جائے ۔ اعلیٰ ترین پٹواری دانش۔

شرافت رانا

15/10/2023

ملک ریاض نے 400 ملین پاؤنڈ کی ایک جائیداد حسن نواز ۔ حسین نواز سے 2017 لندن میں خریدی ۔ جس کی اصلی قیمت محض 12 ملین پاؤنڈ تھی۔ برطانیہ کی اینٹی کرپشن کے ادارہ نے اس بابت تحقیقات شروع کر دیں کہ یہ جائیداد اس قدر مہنگی کیوں خریدی جا رہی ہے تو معلوم ہوا کہ یہ جائیداد ملک ریاض نے حسن اور حسین نواز سے خریدی ہے۔
تحقیقات شروع ہوئی تو ملک ریاض نے آؤٹ اف کورٹ سیٹلمنٹ کی پیشکش کر دی اور 190 ملین پاؤنڈ جرمانہ ادا کر کے تحقیقات رکوا دی گئیں ۔
سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ ملک ریاض محض کیریئر تھا۔ میاں محمد نواز شریف کی بطور وزیراعظم بلیک منی کو حسن نواز اور حسین نواز کو منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوا تھا۔
عمران خان نے اپنی کرپشن اور کک بیک کے چکر میں ملک ریاض کو بلیک میل کر کے اس سے رشوت وصول کی اور یہ رقم ملک ریاض کو واپس کر دی جس نے اسے سپریم کورٹ اف پاکستان میں اپنے جرمانہ کی رقم میں جمع کروا دیا ۔
اب حقیقت تو یہ ہے کہ اس رقم کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ 400 ملین پاؤنڈ کی رقم کا سفر کہاں سے شروع ہوا تھا ۔ اور ملک ریاض جیسا چالاک ذہین اور شاطر انسان 12 ملین پاؤنڈ کی جائیداد خریدنے کے لیے 400 ملین پاؤنڈ حسن نواز اور حسین نواز کو کیوں دے رہا تھا ۔
تصور کیجیے جاتی عمرہ کے منشی اب اس چکر میں پڑے ہوئے ہیں کہ یہ 400 ملین پاؤنڈ کی رقم آصف علی زرداری کی ملکیت منوا لی جائے۔
شرافت رانا

15/10/2023

نیشنلائزیشن سے اچھا فیصلہ پاکستان میں کبھی ہوا ہی نہیں۔
مگر میڈیا ایک منڈی ہے جیسے ہیرا منڈی ۔ اگر نیشنلائزیشن باقی رہتی تو ان کا پیٹ کون بھرتا۔
تعلیم ، صحت ، معاشی یا مالیاتی ادارے نیشنلائزیشن کی وجہ سے ایک جست میں صدیوں کا سفر طے کر کے آگے آئے اور اگلے پچاس سال تک ملکی معیشت کو سنبھالے رہے۔
بلا سوچے سمجھے ڈی نیشنلائزیشن نے ملکی سرمایہ کو بیرون ملک منتقل کیا۔ قومی تحویل میں لئے گئے تعلیمی ادارے۔اور حکومت کی جانب سے بنائی جانے والے تعلیم کے نظام کے نئے ڈھانچے نے ملک کو اگلے 50 سال تک اعلی ترین مشینری مہیا کی۔
اسی طرح صحت اور خصوصی طور پر مالیاتی اداروں کے نظام نے ملک کو آگے کی طرف بڑھنے میں مدد دی۔
ضیاع دور میں نیشنلائزیشن کو ناکام قرار دینے کے لیے جان بوجھ کر سرکاری ادارے تباہ اور برباد کیے گئے۔
1980 تک کوئی قومی تحویل میں لیا گیا سرکاری ادارہ خسارہ میں ہرگز نہیں تھا۔
محض پانچ کروڑ خسارہ کی بنیاد پر 90 کی دہائی میں پنجاب اربن ٹرانسپورٹ سروس اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کو بند کرنے والا بیس سال کے بعد میٹرو اور اورنج لائن اور سبسیڈائزڈ چلانے پر مجبور ہوا۔
بھٹو کی بابت جو کچھ بھی پڑھتے ہیں یہ ضیاع دور میں پچاس سال کی جدوجہد سے لکھا اور لکھوایا گیا بیانیہ ہے۔
سچ کچھ اور ہے جسے چھپایا گیا ہے۔
تعلیم اور صحت کا موجودہ نظام بھٹو دور میں تخلیق ہوا ۔ اس سے قبل میونسپل ادارے اکا دکا ہسپتال چلاتے تھے ۔
اور نجی ہسپتال ہوتے تھے۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری نہیں ہوتی تھی۔
یہ سب بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کا عطیہ ہے کہ 74 میں آپ کو یورپ کے مماثل علاج کی سہولتیں مفت دستیاب ہوئیں۔
بلاشبہ ن لیگ نے اس انتظام کو بری طرح مسخ کرکے اس کے نشانات بھی چھپا دیئے ہیں۔ مگر یہ نظام 50 سال تک عوام کی خدمت کرتا رہا۔ نجی ہسپتالوں میں علاج کا ہر گز کوئی میکانزم ن لیگ یا پی ٹی آئی نہیں دے سکی ہے۔
اسی طرح تعلیم ، بھٹو کی نیشنلائزیشن سے قبل ملک میں تعلیم کا کوئی سٹینڈرڈ نظام ہر گز نہ تھا۔ مختلف نجی تعلیمی ادارے اور نظام مختلف طرح کی بے معنی اور دنیا میں غیر تسلیم شدہ ڈگریاں دیتے تھے جو عوام کی پہنچ سے باہر تھیں۔ بھٹو نے مفت تعلیم اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ڈگری پروگرام متعارف کروائے ۔ اور مفت تعلیم کی وجہ سے غریب ترین کلاس کو اعلی ترین پیشہ ورانہ تعلیم کے مفت حصول کا موقعہ ملا ۔ سب سے زیادہ فائدہ ٹیچنگ کلاس کو ملا کہ ان کی ملازمت مستقل اور باعزت بنائی گئی۔
پچاس سال تک اس تعلیمی نظام کی پروڈیوس نے ملک چلانے کیلئے اعلی ترین انتظامیہ مہیا کی ۔
اور بینکنگ یا مالیاتی اداروں پر غور کریں۔ نیشنلائزیشن سے قبل بینکنگ کا شعبہ زبوں حالی اور ابتری کا شکار تھا۔ نیشنلائزیشن نے مستحکم مالیاتی ادارے دیئے اور ان میں ملازمت کو باعزت پیشہ بنایا۔ آپ خود ہی موازنہ کرکے بتا دیں کہ مسلم کمرشل بینک سرکاری دور میں بہتر بینکنگ سروسز دیتا تھا یا آج زیادہ بہتر پرفارم کر رہا ہے۔
انڈسٹری بھی کوئی ایک یونٹ 4 جولائی 77 تک بلکہ 80/81 تک خسارہ میں نہیں تھا۔ ضیاء دور میں پیپلز لیبر بیورو اور لیبر یونینز کو ختم کرکے جماعت اسلامی کے غنڈوں کو لیبر یونین کے نام پر صنعتوں میں مسلط کیا گیا اور انھوں نے جان بوجھ کر صنعتوں کو خسارہ کا شکار کیا تھا کہ سرمایہ داروں کا راستہ کھلا جاسکے
شرافت رانا

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when PPP Media Team posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share