12/06/2024
اسسٹنٹ کمشنر میرپور راجہ زاہد زہر فروشوں کے سرپرست کیونکر؟
سپریم کورٹ آزاد جموں وکشمیر نے آزاد کشمیر میں زہر فروشوں (ملاوٹ اور کیمیکل زدہ) دودھ فروشوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کے احکامات صادر کر رکھے ہیں جبکہ دوسری جانب پنچاب سے آزاد کشمیر دودھ سمگل کر کے فروخت کرنے پر بھی پابندی لگائے جانے بارے ضلعی انتظامی کومتعدد بار احکامات جاری کئے ہیں!
ایسے عناصر کے خلاف انتظامیہ کیا کارروائی کرتی ہے آئیں آپ کو تازہ ترین کہانی برحلف سناتا ہوں!
گزشتہ روز راقم کو ایک قابل اعتماد دوست نے بتایا کہ جاتلاں کے راستے پنجاب سے کیمیکل ملا دودھ میرپور کشمیر ملک شاپ نزد گول مسجد ایف ون سمگل ہوتا ہے اور بعد ازاں فاضل چوک بسم اللہ ملک شاپ اور اسلام گڑھ چکسواری سمیت دیگر دوکانوں پر ترسیل کے بعد فروخت ہوتا ہے۔
راقم نے راوی کے بیان کے مطابق خود تحقیق کا فیصلہ کیا۔اس مشن کی تکمیل کیلئے راقم نے ایک دوست کی ڈیوٹی لگائی جو علاقہ پنجاب سے ایک گاڑی کا پیچھا کرتا ہے،یہ ایک منی ٹینکر نما گاڑی ہوتی ہے جو شکریلہ پہنچتی ہے،وہاں سے سوزوکی نمبری 419 میں موجود ڈرمیںوں میں دودھ ڈالا جاتا ہے،میرا دوست مجھے لمحہ بہ لمحہ معلومات فراہم کرتا رہتا ہے،اس دوران میں نے فوڈ اتھارٹی کے متعلقین کو مطلع کیا جنہوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے جاتلاں پل پر ناکہ بندی کی مگر چند لمحےتاخیر کے باعث سوزوکی نمبری 419 جاتلاں پل کراس کر گئی،اسی اثناء میں ایک اور گاڑی پنجاب سے ویسا ہی "خالص" دودھ لیکر ضلع میرپور کی حدود میں داخل ہوتی ہے اور محکمہ خوراک کے عملہ کو دیکھتے ہی فرار کی کوشش کرتی ہے جس کا پیچھا کرتے ہوئے فوڈ انسپکٹر چودھری معظم نے دھر لیا۔ ابتدائی دریافت پر گاڑی سواران نے بتایا کہ یہ دودھ سلمان اور رحمان کا ہے،علاقہ پنجاب سے سمگل شدہ ہونے اور ناقص ہونے پر محکمہ فوڈ کے عملہ نے دودھ تلف کر دیا جو کہ لائق تحسین کارروائی تھی جبکہ ازاں بعد راقم کے دوست کے بقول سوزوکی نمبر 419 سمگل شدہ ناقص دودھ لیکرکشمیر ملک شاپ نزد گول مسجد ایف ون کے گودام پر پہنچی،یہ گودام دوکان کی بیس منٹ میں بنایا گیا ہے جس کا راستہ پی ڈبلیو ڈی دفتر کے ساتھ سے ہو کر جاتا ہے وہاں پر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر جنید نزیر کیانی نے چھاپا مارا اور دودھ بارے دریافت کیا۔ کارروائی ابھی زیر کار ہی تھی کہ افسر موصوف سے محسن نامی نوجوان نے بذریعہ موبائل فون صاحب بہادر اسسٹنٹ کمشنر میرپور راجہ زاہد کی بات کروائی جنہوں نے شاہی حکم جاری کیا کہ دودھ کی سمپلنگ کریں اور اپنا راستہ ناپیں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر صاحب نے حکم کی بجاآوری کی اور صرف سمپلنگ کرتے ہوئے روانہ ہوگئے۔ شومئی قسمت سے علاقہ پنجاب سے دودھ کشمیر ملک شاپ تک پہنچنے اور کارروائیوں کے تمام تر مناظر کیمرے نے محفوظ کر لئے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ڈسٹرکٹ فوڈ آفیسر کے کارروائی کرنے سے قبل ہی محکمہ فوڈ کے ایک اہلکار اور بڑے آفیسر کے بھائی نے دودھ مافیا(محسن )نامی نوجوان کو کارروائی بارے آگاہ بھی کر دیا تھا جس باعث قبل ازیں جو دودھ پہلے دوکان پر اتارا جاتا تھا اس کو گودام میں لے جایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنریبل چیف جسٹس سپریم کورٹ کی رٹ کہاں گئی؟ کیا ان کے احکامات محض اخباری خبروں تک ہی محدود کر دیئے جاتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ایک اسسٹنٹ کمشنر کی کیا مجال اور ان کو کس نے اختیار دیا کہ وہ زہر لوگوں کے گلوں میں انڈھیلنے کی اجازت دے؟ کسی خاص مشن پر تعینات اس اسسٹنٹ کمشنر کے کارنامے ہر زبان زد عام ہیں۔ علی الصبح نہ پولیس نہ کوئی کاپی پاس، کبھی منگلا کبھی صاحب چک کبھی چترپڑی اپنے خاص ملازم کے ساتھ ناکہ لگانا اور ہزاروں روپے جمع کر لینا جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ موصوف کی تنخواہ چند ہزار اور میرپور میں کروڑوں روپے مالیت کی کوٹھی کیسے بن رہی ہے؟؟
حقائق تلخ ہیں ایسے ناسور مسلط ہیں کہ خدا کی پناہ! اور اوپر والے بادشاہوں کی سرپرستی میں دیدہ دلیری سے خود ساختہ کارروائیاں۔ مبینہ طور پر چند ٹکے لیکر اپنی جیب فل کریں اور پھر مافیا کو بے لگام کر دیں۔ جتنا چاہو زہر پھیلائیں۔
ایسا نہیں چلے گا حضور والا!! صاحبان بہادر کے خلاف قلمی جہاد جاری رہے گا۔ انشاءاللہ!!