
17/01/2025
پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار کیوں کہا گیا؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)
(ہاں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم ضرور اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ کیسی پیشانی؟ جھوٹی اور خطاکار پیشانی!)
(سورہ علق: 15-16)
یہ آیت مجرموں کی پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار قرار دیتی ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیشانی کو ایسا کیوں کہا گیا؟ جدید سائنس اور قرآن کے معجزاتی پیغام نے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق دماغ کا اگلا حصہ، جو پیشانی کے قریب واقع ہے (فرنٹل لوب)، انسان کے سوچنے، فیصلہ کرنے، اور جذبات کے اظہار کا مرکز ہے۔ یہی حصہ انسان کی شخصیت کی صفات کو تشکیل دیتا ہے اور اچھے یا برے فیصلے صادر کرتا ہے۔ اگر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچے تو انسان اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے قرآن نے پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار قرار دیا، کیونکہ گناہوں اور سرکشی کے فیصلے اسی حصے میں کیے جاتے ہیں۔
قرآن مجید مزید وضاحت کرتا ہے کہ تمام مخلوقات کی پیشانی اللہ کے قبضے میں ہے:
"مَا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا"
(کوئی جاندار نہیں مگر اس کی پیشانی اللہ کے قبضے میں ہے۔)
(سورہ ہود: 56)
یہ آیت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ہر جاندار پر اللہ کا کامل اختیار ہے، اور پیشانی اس اختیار کی علامت ہے۔
اسی مفہوم کو رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا میں بھی بیان کیا گیا ہے:
"اللهم إني عبدك ابن عبدك ابن أمتك، ناصيتي بيدك، ماضٍ في حكمك، عدل في قضاؤك..."
(اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا فیصلہ میرے حق میں نافذ ہے، اور تیرا حکم میرے حق میں عدل ہے...)
(سنن ابن ماجہ: 3833)
یہ دعا اللہ کی قدرت کے آگے مکمل عاجزی کا اظہار ہے۔
نماز میں سجدے کا عمل اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے۔ سجدے کے دوران پیشانی، جو فیصلے اور ارادے کا مرکز ہے، زمین پر جھکائی جاتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے بندہ اپنی مرضی اور انا کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
"أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ"
(بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا زیادہ دعا کیا کرو۔)
(صحیح مسلم: 482)
سجدے کے دوران دماغ کا اگلا حصہ، جہاں خیالات اور جذبات جمع ہوتے ہیں، اللہ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف روحانی سکون کا باعث بنتا ہے بلکہ انسان کو اللہ کے قریب بھی کر دیتا ہے۔
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے یہ فرامین جدید سائنس کی تصدیق کرتے ہیں۔ پیشانی کو جھوٹی اور خطاکار قرار دینے کے پیچھے ایک گہری حکمت ہے، جو انسان کو عاجزی، بندگی، اور اللہ کی قدرت کے سامنے جھکنے کا درس دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔