Sitara Voice

Sitara Voice Aslam alaikum Welcome to Sitara Voice Upload sabaq Amoz Kahaniyan Islami Story and Many Emotional Story

28/08/2024

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sitara Voice

28/08/2024

Heart Touching Story Moral Story Sitara Voice

24/08/2024

Moral Story Sachi Kahani Heart Touching Story Sabq Amoz Kahani Sitara Voice

urdu kahani
urdu kahaniya
sitara voice
emotional story
sad story
horror stories
hindi stories
hindi Kahani
kahaniyan in urdu
moral stories in urdu
urdu kahaniyan
urdu stories
sachi kahaniyan
kahani in urdu
kahaniyan
urdu story
stories in urdu
sabaq amoz kahani
fairy tales in urdu
urdu kahani studio
moral story
kahaniya in hindi
stories in urdu
stories in hindi
hawa voice
urdu voice Kahani
urdu Kahani center
insa voice
zama voice
rohail voice
story in urdu
best urdu moral story
moral kahaniya
hindi kahaniya
urdu novel
moral stories in urdu & hindi


story








https://youtu.be/kMlhLNZ0gAA
18/06/2024

https://youtu.be/kMlhLNZ0gAA

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice heart touching story sitara voice sitara stories sachi Kahani sabq amoz Kahani mo...

12/06/2024

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice

Follow me page Sitara Voice

heart touching story
moral story
sachi Kahani
sabq amoz Kahani
sitara voice

12/06/2024

Hi Welcome To Sitara Voice page اسلام علیکم ماشااللہ لائک کریں شکریہ

https://youtu.be/mvbMusaJd5U
12/06/2024

https://youtu.be/mvbMusaJd5U

Moral Stories in Urdu کالج میں ایک لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کیا Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice Welcome To Sitara Voice YouTube Channel moral sto...

30/05/2024

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice

Welcome To Sitara Voice page please follow me

Moral Story
Heart Touching Story
Sachi Kahani
Sabq Amoz Kahani
Sitara Voice

27/05/2024

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice

Please follow me my page Sitara Voice

Moral Story
Sabq Amoz Kahani
Heart Touching Story
Sachi Kahani
Hindi Story
Motivational Story
Horror story
Islamic Story
Bedtime Story
Hindi Stories
Storytime
Sitara Voice





24/05/2024

Heart Touching Story Moral Story Sachi Kahani Sabq Amoz Kahani Sitara Voice

Welcome To Sitara Voice YouTube Channel Subscribe Now And follow page Sitara Voice

Moral Story
Sachi Kahani
Sabq Amoz Kahani
Heart Touching Story
Sitara Voice
Ikhalaqi Kahaniyan
Motivational Story
Islamic Story
Emotional Story
Sad Story
Bedtime Stories
Moral Stories














23/05/2024

An Emotional Heart Touching Story Moral Story Sabq Amoz Kahani Sachi Kahani

Welcome To Sitara Voice YouTube Channel Subscribe Now Please and follow my page

sabq amoz Kahaniyan
sachi Kahaniya
moral stories
moral story
hindi stories
hindi Kahaniyan
sitara voice
sitara stories
Islamic stories
motivational story
bedtime stories
Ikhalaqi Kahaniyan
urdu stories
urdu Kahani

21/05/2024

An Emotional Heart Touching Story شادی کے اٹھارہ سال بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا

Welcome To Sitara Voice YouTube Channel Subscribe Now Please and follow up page Sitara Voice











03/05/2024

An Emotional Heart Touching Story Sachi Kahaniya Ikhalaqi Kahaniyan Hindi Stories in Urdu

13/04/2024

11/04/2024

27/03/2024

Heart Touching Story Sabq Amoz Kahaniyan in Urdu دو بیویاں اور عدل Sachi Kahani Ikhalaqi Kahaniyan@sitaravoice

16/02/2024

#ستارہ -وائس

مکافات عمل۔

وہ تیسری بیٹی کی پیدائش کا سن کر اسے دکھے بغیر کی ہسپتال سے گھر چلا گیا۔
نرمین کو جب ہوش آیا ۔ تو وہ بہت دکھی ہوئی۔ اسنے بیٹی کو اٹھایا اور روتے ہوئے چومنے لگی۔
وہ دو دن بعد اپنی تینوں بچیوں سمیت گھر پہنچی۔ ہسپتال کو تمام خرچہ اسکے باپ نے ادا کیا تھا۔
اسے دیکھ کر اسکی ساس چلنے لگی آگئی منحوس تین تین بچیوں کا بوجھ لے کر۔ مجھے دیکھ تین تین بیٹے جنے میں نے ۔ اور تو نے کیا یہ تین تین بوجھ لاد دیے ہمارے کندھوں پے۔ نرمین نے خاموشی سے سامان اُٹھایا اور جا خر کمرے میں رکھا اور بچی کو کھلانے لگی۔ رات کو قیصر گھر آیا وہ بہت غصے میں تھا اس نے نرمین کو کہہ دیا اگر اب بھی بیٹی پیدا ہوئی تو اسکو لے کر کہیں اور چلی جانا طلاق تم تک پہنچ جائے گئی۔ نرمیں اپنی جگہ سن ہو کر رہ گئی۔
بھلا اس میں اسکا یا اسکی بچیوں کا کیا قصور تھا۔
قیصر کی پھپھو کے اسکے گھر روزانہ چکر پے چکر لگ رہے تھے وہ روزانہ اسکے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی تھی کہ مصباح تمہارے انتظار میں بیٹھی ہے کب سے اور تم نے اپنی پسند سے شادی کر لی دیکھو اسنے تمہیں تین بیٹیوں کے سوا اور دیا ہی کیا ہے۔

دو سال مزید گزر گئے۔ آج قیصر نرمین کے ساتھ ہسپتال نہیں گیا تھا۔ اسکے ہاتے دو جڑواں بیٹیاں ہوئیں ۔ قیصر تک یہ خبر پہنچتے ہی اسنے فون پر ہی نرمین کو طلاق سنا دی۔ وہ اپنی پانچ بیٹیوں سمیت باپ کے گھر آبیٹھی۔
بھائی بھابیاں کوئی برداشت نہیں کر رہا تھا اسے۔ ماں روزانہ سناتی تجھے سے پلیں گے اب بچوں سمیت باقی بیٹیاں بھی ہیں میری۔ ان کی شادیاں تو اب ہو گئی بس جسکی ماں کی طلاق ہو گئی ہو اسکی بیٹیوں سے شادی کون کرے گا۔
نرمین طعنے سن سن کر ذہنی مریض بن چکی تھی۔ وہ کس قدر رو چکی تھی قیصر کی بے وفائی پر ہر وقت اسکی آنکھیں سرخ اور سوجی رہتی

قیصر نے اگلے روز ہی دوسری شادی رچا لی۔ مصباح کے ساتھ۔
نرمین میں اب رونے کی سکت نہ تھی۔ زرتاش ابھی 8 سال کی عائشہ 6 ساک اور مومنہ 2 سال کی تھی۔ باقی دو بچیوں کے گو ابھی نام ہی نہیں رکھے گئے تھے۔
دونوں بھابھیاں بڑی دونوں بچیوں سے ہر وقت نوکروں کی طرح کام کرواتی ۔ خود کے بچے بڑے بڑے سکولوں میں پڑھتے تھے۔ نرمین بھی اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی تھی۔
ایک دن وہ تہجد میں بے حد روئی۔جب وہ اٹھی تو اچانک اسکے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ وہ اپنا زیور بیچ دے اور اور اس سے کوئی چھوٹا سا کام شروع کر لے۔ اس نے اس بات کا تزکرہ کسی سے نہ کیا۔

فائدہ ہی نہ تھا جب ماں ہی طعنے دیتی اسکی بیٹیوں کو مارتی تھی۔
اسنے بنا کسی کو بتائے بغیر کمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ شام کو سارا کام ختم کرکے گھر سے نکل اور تھوڑا آگے جا کر ایک سرکاری سکول کے پاس ہی ایک چھوٹا سا گھر کرائے کے لیے لے لیا۔ اپنے زیور بیچے۔ زیور کافی مہنگے تھے تو اسکے اچھے دام مل گئے۔ اسنے اگلی صبح خسی کے اٹھنے سے پہلے بچیوں کو اٹھایا اپنا مختصر سامان باندھا۔ اور اس گھر میں چلی گئی۔ شام کو وہ دوبارہ آئی اور لوڈر رکشا میں اپنا جہیز رکھوایا جو قیصر نے ساتھ ہی واپس بجھوا دیا تھا۔ سب لوگ اسے ہکا بکا دیکھ رہے تھے۔
ماں: اب کہاں۔ منہ کالا کروانے جا رہی ہے۔ اور کتنی ذلت سہیں گئے ہم تیری وجہ سے۔
وہ چپ رہی اور اپنا سامان لے کر آ گئی۔ یہ جہیز اسنے بہت چاہوں سے بچوں کو ٹیوشن پڑھا پڑ ھا کر بنایا تھا۔ اسنے اپنی سلائی مشین پر کپڑے سینے شروع کر دیئے ۔ یہ واحد ہنر تھا جو اسے آتا تھا۔ اسنے روزانہ سارے محلے کے گھروں میں جانا اور سب سے کہنا اپنے کپڑے مجھ سے سلوا لیا کریں۔ وہ سلائی کے دام کم لیتی تو لوگ اس سے سلوانے لگے۔
اس نے دونوں بڑی بچیوں خو سرکاری سکول میں ڈال دیا۔ زرتاش بہت خاموش رہتی ۔ اپنے ساتھ ہوئے اس واقعے کا اثر اس نے دماغ پہ لے لیا تھا۔

نرمین اسکو بہلانے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھی۔ لیکن وہ بس سارا دن پڑھتی رہتی تھی۔ اسے اپنی کتابوں سے عشق تھا عائشہ پڑھنے میں تھوڑی کمزور تھی۔ نرمین کی عقل مندی اور سلائی میں صفائی کی وجہ سے اسکے گاہک کافی بڑھ گئے تھی۔ اسنے اپنی جڑواں بیٹیوں کے نام نورعین اور حورعین رکھا۔ دو سال بیت گئے۔
نرمین نے کافی حد تک کمانا شراع کر دیا۔ اسکے بھائی ایک دو بار آئے تھے اسے لعن تعن کرت چلئے گئے۔ انکی بیویاں انکو بھیج دیتیں تھیں کی انکو لے آئو نوکرانی بنا کر رکھیں گئے ۔ مگر وہ اب کماتی تھی دو وقت کی دال روٹی کھا سکتی تھی۔ پچھلے دنوں عمیر ۔ نرمیں کا بڑا بھائی آیا۔ اسکی چھوٹی بہن کی شادی ہے۔ نرمین خاموش ہو گئی۔ شادی آئی مگر نرمین نہ آئی۔ وہ اپنی ان سگوں سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی۔ کہ اب اسے انکی پرواہ نہیں تھی۔

اسے وہ رات آج بھی یاد تھی۔ جب عائشہ کے ننھے ہاتھوں سے سلاد کی پلیٹ گر گئے تھی اور عمیر کی بیوی نے کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر اسے نرمین کے سامنے بےدردی سے مارا تھا۔ اسنے وہ وقت سوچ کر اپنی آنکھون کو صاف کیا۔

چند دن بعد اسکی بھابی آئی اور اسے دروازے میں پکار کر سارے محلے کے سامنے کہتی ۔ سنا ہے تمہارے سابقہ شوہر کی بیوی بہت جلد بیٹا پیدا کرنے جا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے ہنستی ہوئی چلئی گئی۔ زرتاش کے دل مین باپ اور ننھیال کی نفرت بھر گئی۔
ابھی تین مہینے گزرے تھے۔ سردیاں شروع ہوگئی تھیں۔ قیصر ہسپتال میں بے چینی سے ٹل رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب بیٹا ہی ہو گا۔ نرس لیبر روم سے باہر آیا۔ وہ خوشی سے بھاگ کر بچہ پکڑنے آیا لیکن نرس کی بات سن کر اسکی سانس بند ہو گئی یہ کیسا کھیل کھیلا تھا قسمت نے اسکے ساتھ۔ نرس اسے روتا ہوا بچہ پکڑا کر چلی گئی تھی۔ اسنے فون کر کے اپنی ماں کو بتایا۔ اسنے گھر سر پر اٹھا لیا۔ اور بولی مت لے کہ آنا یہ بچہ اب گھر ۔

قیصر کو اس بچے سے نہ نفرت ہو رہی تھی اور نہ ہی کوئی احساس تھا۔ مصباح نے تو اسے گلے سے لگا لیا تھا۔

وہ لوگ گھر آگئے۔ اب وہ ساس جو نرمین کو بیٹیوں کی ماں ہونے کے طعنے سناتی تھی وہ اب مصباح کو سناتی۔

ماں: دو سال بے اولاد رہی اور پھر پیدا بھی کیا کیا یہ تیسری جنس۔
مصباح بس روتی رہ جاتی ۔ اس میں اسکا یا اسکے بچے کا کیا قصور تھا۔ ۔ اس میں میرا یہ میری بیٹیوں کا کیا قصور ہے۔ اسے اپنے لفظوں کے ساتھ نرمین کی آواز سنائی دیتی جسے کبھی وہ خود اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر طعنے مارتی تھی۔

قیصر نے سلیم کو اٹھا کر دیکھا تک نہیں تھا۔ وہ گھر بھی دیر سے آتا اور خاموش ہی رہتا۔ ایک سال بعد وہ پھر سے امید سے ہوئی اس بار خدا نے اسے حارث سے نوازا ۔ قیصر اب بہت خوش تھا ۔ اسے سلیم سے کوئی لین دین نہیں تھا۔ وہ ہر وقت اسے لیے پھرتا۔ سلیم سے اسکی ماں کے سوا کوئی محبت نہ کرتا تھا۔
وقت گزرنے لگا۔ اب نور اور حور بھی سکول جانے لگیں تھیں۔ زرتاش ہر سال فرسٹ آتی تھی۔ اسے بس بہت بڑی آفیسر بننا تھا۔ اور اپنی ماں کی جان اس سلائی سے چھڑوانی تھی۔
وہ اب ایف ایس سی نان میڑیکل کر رہی تھی۔ آج اسکا آخری پرچہ تھا۔ وہ گھر آئی سامنے بچے آئے بیٹھے تھے جنہیں عائشہ سنبھال رہی تھی۔ اسکے پاس تقریبا 12 کے قریب بچے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے ۔ جن سے وہ مہینے کا دس پندرہ ہزار کما لیتی تھی۔ انہوں نے اب محلہ اور گھر بھی بدل لیا تھا۔ اور اپنے ننھیال سے مزید دور آگئے تھے۔ نرمین کی بٹیاں پڑھنے میں بہت تیز تھیں۔ بس عائشہ کو خاص شوق نہیں تھا۔ وہ اب میٹرک کر چکی تھی۔اور ایف اے شروع کیا تھا۔

قیصر کے ایک اور بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس کا نام اسنے وارث رکھا ۔

سلیم اب کافی بڑا ہو چکا تھا۔ مگر اس سے اس گھر میں اسکی ماں کے علاوہ سب حقارت سے دیکھتے گھے۔ کوئی اسکے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
ایک دن وہ سکول سے آرہا تھا۔ اسے سرکاری سکول جمع کر وایا گیا تھا جبکہ باقی دونوں کو شہر میں مہنگے سکول میں۔ وہ سڑک پار کر رہا تھا ۔ جب تیز رفتار بس اسے کچلتی چلئی گئ۔
اسے خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ مصباح کو دکھ تھا۔ وہ اکثر اسکی باتیں یاد کر کے روتی تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ زرتاش نے بی ایس مکمل کر لیا اور مقابلے کا امتحان دیا ۔ مگر وہ ناکام ہوئی۔ اس نے دوبارہ اور زیادہ محنت کرنی شراع کر دی
۔
عائشہ نے FA کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور گھر سنبھال لیا۔ اب گھر اسکی ٹوشن پر چل رہا تھا۔ کیونکہ نرمین اب بیمار رہتی تھی۔ قیصر کے غم نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ قیصر کے بیٹے اب جوان ہو رہے تھے۔ وہ انہین دیکھ کر خوش رہتا۔ اور اسکی ماں اب مصباح کو سر سر آنکھوں بٹھا کر رکھتی ۔ قیصر نے ماں کے کہنے پر اپنے بیٹے کا رشتہ ماہ رخ سے اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی سے طے کر دیا۔

زرتاش نے دوبارہ امتحان دیا اور کامیاب ہو گئی اور بطور AC سرگودھا میں اسکی جاب لگ گئی۔اسے جاب لگتے پہلے مہینے میں ہی 25 مرلے کا خوبصورت نیا اور جدید ڈیزائن سے بنا بنگلہ مل گیا اور گاڑی بھی آج وہ سب بہنیں اپنا سارا سامان لے کر اپنی ماں کے ساتھ اس بنگلے میں رہنی آئیں۔ نرمین کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔ اسے اپنی زندگی میں آج دوسری بار خوشی مل رہی تھی۔ پہلی خوشی اسے قیصر سے شادی پر ملی تھی۔ جو آج دل سے اتر گیا تھا۔

انہوں نے اس گھر میں رہائش رکھ لی۔ زرتاش نے باقی تینوں بہنوں کو اعلی سکولوں میںڈالا اسکی ایک مہینے کی تنخواہ لاکھوں مین تھی اب نرمین بڑے لوگوں میں مہنگے لباس پہن کر سائیڈ شولڈر شال رکھ کر بیٹھتی۔ اب وہ کپڑے سلائی کرنے والی نرمین نہین تھی۔
زرتاش کے انٹر ویو مختلف چینلز پر ہوئے۔ اسکے ماموں مامی نے اسکے باپ اور دادی نے جب اسے ٹی وی پر اتنے بڑے مقام پر دیکھا تو ہکا بکا رہ گئے۔

مکافات عمل۔
قسط 4۔
نرمین اپنی بیٹی کے ساتھ بہت ٹھاٹھ باٹھ سے بیٹھی تھی۔ سب ان ماں بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مصباح نے تو حسد سے بڑ بڑ کرنی شروع کر دی۔اور نرمین کی بھابھیاں تو گویا اپنی منہ کی کھا گئی تھیں۔ انکے بچے بھی نرمین کی بچیوں کے ہم عمر تھے۔ مگر انہوں نے تو بس پڑھائی پر پیسا ہی لگایا تھا۔
ان کے ذہن نئی سازشیں بنانے میں مصروف تھے۔ اب وہ زرتاش کو حاصل کرنے اور اسکی کمائی پر عیش کے خواب دیکھنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔

مومنہ نے اپنا انٹر پاس کر لیا۔ اور آگے MBA کرنے لگی۔ نورعین اور حورعین نہ صرف پڑھائی میں اول تھیں بلکہ باقی سر گرمیون میں بھی حصہ لیتی۔ نورعین کی تقریر ہمیشہ لوگوں کو متاثر کر دیتی تھی۔
آج بھی وہ پہلا انعام جیت کر آئی تھی۔ اسنے معاشرے کو لے کر عورت پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر تقریر کی تھی۔ کچھ دن بعد ایک اینکر اس کے پاس آیا اور اسکی اس تقریر کرنے خے پیچھے کوئی بات ہے اس سے پوچھا۔ اسنے اپنی زندگی کی کہانی بتائی۔

اور اپنے ننھیال والوں کی اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکیاں روتے ہوئے بتائیں۔
صرف چند ہی گھنٹوں میں پورے ملک میں یہ انٹر ویو دیکھایا جانے لگا۔ بڑے بڑے لوگ انکا ساتھ دینے اور انکے باپ کو سزا دلوانے کو کھڑے تھے۔ مگر نرمین نے روک دیا اور کہا میں نے اس سے بے انتہا محبت کی تھی ۔ میں اسے دکھ نہیں دے سکتی۔ اس نے جو کیا وہ اسکا ظرف۔ میں نے خاموشی اختیار کر لی۔

لوگ بہت امڈ رہے تھے انہیں انصاف دلوانے کے لئے مگر نرمین کے انکار پر سب خاموش ہو گئے۔

وقت گزرتا گیا۔ عمیر اور رشید نے نرمین سے کافی رابطے کیئے اور احسان جتانے والے انداز میں بولے ہم زرتاش کو اپنی بہو بنا لیتے ہیں۔ کہاں تم پر پانچ پانچ بچیوں کو بوجھ ہے کس کس کو بیاہ ہو گی ۔ اور پھر ہو بھی طلاق یافتہ۔
زرتاش نے نرمین کے بولنے سے پہلے ہی فون پکڑ لیا اور اونچی آواز میں بولی مسٹر عمیر ہم طلاق یافتہ عورت کی بچیاں ہیں تمہاری بیٹوں کے مقام اتنے گر گئے کیا کہ تم ہماری جیسوں کے لئے منتیں کر رہے ہو۔ اور طنزیہ ہنس کر فون بند کر دیا۔

عمیر اور اسکی بیوی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ عمیر قیصر سے ملا اور کہا اپنی بچیوں کو بڑی ڈھیل دے رکھی ہے تم نے دیکھو کیسے ٹی وی پر نشر ہو رہی ہیں۔
قیصر بھی انکی کامیابیوں سے کافی جھلسا ہوا تھا۔ اسنے فیصلہ کیا کہ وہ جاکر ان پر سختی کر گا۔ اور وہ عورتیں کر کیا لیں گی۔
عمیر اسے بھڑکا کر گھر آگیا اور اپنا کارنامہ اپنی بیوی کو سنایا۔ دونوں بہت خوش تھے کہ اب یہ نرمین اپنی بچیوں سمیت پھر زلیل ہو گئی۔

اگلے ہی دن قیصر سرگودھا کے لیے نکل گیا۔

وہاں جا کر اس نے سکیورٹی گارڈ سے کہا میں نرمین کا رشتے دار ہوں اس سے ملنے آیا ہوں گارڈ نے اسے جانے دیا۔ وہ اندر گیا اندر سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اس نے جا کر زرتاش کو بالوں سے پکڑ لیا ور بولا بڑا اچھل رہی ہے کمینی تجھ سے تیرا ماموں زاد شادی کر رہا ہے یہی بڑی بات ہے۔ ورنہ تم پر تو کوئی تھوکے بھی نا۔ اندر ہنگامہ سن کر گارڈ اندر آئے اور اسے پکڑ لیا۔ نرمین اتنے سالوں بعد قیصر کو دیکھ کر اپنا حوصلہ کھو بیٹھی۔ یہ اسکی محبت تھا۔ اور آج کسی اور کا تھا۔ اس کی اس حرکت پر بھی نرمین نے اسے ایک کمشنر پر حملہ کرنے کے جرم میں جیل جانے سے بچا لیا۔

وہ واپس آیا اور اس نے عمیر کو ہاں کر دی ۔ اسے کوئی ڈر نہ تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ نرمین اس سے آج بھی محبت کرتی ہے۔ اسے تکلیف نہیں دے گی۔ اس نے نرمین سے فون کر کے کہا اس جمعے تیار رہنا زرتاش کی شادی ہے۔ زرتاش نے لڑنا چاہا مگر نرمین نے روک دیا۔
کل زرتاش کا نکاح کرنے اس نے جانا تھا۔ ادھر زرتاش پوری سکیورٹی کے ساتھ کھڑی دل ہی دل مین ہنس رہی تھی۔ اسے بس کل کا انتظار تھا۔ یہ جاہل لوگ بھول گئے تھے کہ وہ ایک کمشنر سے پنگا لے رہے ہیں۔
قیصر کام سے واپس آرہا تھا۔

ابھی وہ رستے میں ہی تھا جب اسے مصباح کی روتے ہوئے کال آئی۔
مصباح: قیصر جلدی پہنچو۔ ہمارے بچوں کس ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔اور وہ بہت بری حالت میں ہیں۔
وہ ہڑبڑی میں پہنچا۔ مصباح سامنے زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔ قیصر اسکے پاس گیا۔ سب لوگ وہاں موجود تھے اور ہر آنکھ اکشبار تھی۔

نرمین کب سے سجدے میں گری رو رہی تھی۔ اے اللہ میں نے اسے پاگلوں کی طرح چاہا۔ اسنے مجھ سے ہی دھوکہ کر دیا۔ میری محبت میرے جذبات کا اتنا مذاق بنایا۔ میں آج تک سہ رہی ہوں۔ میں آج بھی اپنے اندر اسکی کسک برداشت کر رہی ہوں۔

جو اسے کسی اور عورت کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی تھی آج اتنے سالوں سے وہ کسی اور عورت کا ہے۔ تو میرا صبر میری میری محبت اور کتنا آزمانا چاہتا ہے۔ اس سے اچھا تو اب بس لے جا مجھے یہاں سے۔۔ وہ سجدے میں گری روئے جا رہی تھی اور بولے جا رہی تھی۔ زرتاش اسے گم سم دیکھ رہی تھی۔

_________________________________

قیصر : کوئی مجھے بتائے گا کہ کیا ہوا ہے۔ میرے بیٹے کیسے ہیں۔ واجد : بھائی حوصلہ کرو۔ اللہ تمہیں صبر دے۔ اور اب تمہارے دوسرے بیٹے کو کچھ نہ ہو۔

کیا ؟ قیصر کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ واجد نے اسے گلے لگا لیا۔ بھائی وارث اس دنیا میں نہیں رہا۔ قیصر دیوانہ ہو گیا۔ نہین۔ میرا بیٹا۔
کیا قصور تھا میرا جو میرے ساتھ یہ ہوا۔
(کیا قصور ہے میرا اور میری بچیوں کا)

اسے کے ذہن میں نرمین کے الفاظ گونجے وہ پاگل پھر رہا تھا۔ اسکا ایک بیٹا کوما میں اور دوسرا اس دنیا سے چلا گیا تھا۔
مصباح کا ذہن تو قیصر کے لفظوں پر ہی اٹک گیا تھا۔
میرا کیا قصور ہے؟
ہاں۔ بیٹیوں کی پیدائش پر ماں کا قصور نہیں ہو سکتا۔
(گزرا وقت)

نرمین: قیصر اگر خدا نے ہمیں بیٹے نہیں دیئے تو بہتری ہو گی کیا پتہ وہ بڑے ہو کر ہماری نا فرمانی کرتے یا کچھ بھی ایسا ہو جاتا کہ ہم سوچتے یہ پیدا نہ ہوتے تو دکھ کم ہوتا ۔ صرف ایک حسرت ہوتی انکے نہ ملنے کی۔
قیصر: ہاں تم ٹھیک کہتی تھی۔ نرمین۔ یہ نہ ہوتے تو میں صرف مایوس ہوتا۔ ایسے جیتے جی مر نہ گیا ہوتا۔ تم ٹھیک کہتی تھی۔ مجھے جو غم لگا ہے وہ میرا ہے تمہارا نہیں کیونکہ تم نے تو صبر کر لیا۔ قیصر نے اپنے بیٹوں کی بہت اعلی تربیت کی تھی۔ تاکہ اسکی یہ خواہش اسے مہنگی نہ پڑے مگر اس نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ پاگل ہو گیا تھا۔ مصباح بس گم سم اسکی پکار سن رہی تھی۔ اسکے لفظ ہتھوڑا بن کر لگ رہے تھے۔ یہ سزا تھی۔ عمر بھر کی۔
نرمین تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی۔ مگر اسے جہاں خوشی نہ تھی وہاں غم بھی نہ تھا۔
عمیر کو اچانک خوف آنے لگا کہیں اسنے جو سلوک کیے اسکے ساتھ بھی کچھ نہ ہو جائے۔

زرتاش تو قیصر کو تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر ماں کا سوچ کر چپ رہی ورنہ دل چاہتا تھا کہ اسکو جا کر دیکھ کر آئے۔

وقت گزرتا گیا۔ عائشہ کی مومنہ کی شادی ہوگئی۔ مومنہ کا شوہر اسکا کولیگ تھا۔ دونوں مل کر اپنا بزنس چلا رہے تھے
عائشہ کی شادی زرتاش کی دوست کے بھائی سے ہوئی اور وہ لندن چلئ گئی۔
دونوں چھوٹی یونیورسٹی کے آخری سالوں میں تھیں۔
زرتاش کے لیے اتنے رشتے آئے مگر اسنے شادی نہیں کی۔
اسے مرد سے ہی نفرت ہوگئی تھی۔

قیصر ہر وقت دیوانہ وار بڑے بیٹے کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ اور اسکو آوازیں دیتا۔ تو کبھی چھوٹے کی قبر پر چلا جاتا۔ اب نرمین کی انکھوں سے آنسوں بہنا رک گئے تھے۔
زرتاش اپنے کام سے واپس آرہی تھی۔ جب اس نے ایک چھوٹی سی بچی دیکھی جو بامشکل ایک کچھ دن کی تھی۔ اور اسے 6 سال کے بچے نے اٹھایا ہوا تھا۔ وہ بھیک مانگتا اسکی گاڑی کے پاس آیا۔ اسنے اس سے پوچھا پڑھتے کیوں نہیں۔ یہ کام کیوں کر رہے ہوم کیا تمہارا باپ کام کرواتا ہے تم سے۔ زرتاش کو وہ خود سا لگا۔
بچے نے بتایا میری ماں مر گئی ہے اور باپ چھوڑ گیا ہے یہاں۔ کہتا ہے خود ہی پال لو بہن کو۔ زرتاش کو اپنا بچپن یاد آیا۔ اسنے ان دونوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انہیں لے کر گھر آگئی
اسنے اس بچی کو پالنا شروع کیا۔ اسکا نام لائبہ رکھا۔ آحد کو سکول ڈالا پڑھنے کے لیے۔
دس سال گزر گئے۔
قیصر: اب تو اٹھ جا۔ دیکھ تیرا باپ روزانہ تیرے پاس آتا ہے تجھے بلانے۔ اب تو تیری ماں بھی چلی گئی اس دنیا سے۔ مجھے چھوڑ گئی۔ اکیلا۔ تو اٹھ جا۔ مجھ سے اب اور نہیں سہا جاتا۔
(نرمین: میری برداشت ختم ہوگئی ہے۔)

نورعین اور حورعین کی بھی شادیاں ہو گئی۔ زرتاش کی شادی کا ٹوپک ہی ختم ہوگیا۔ وہ بس ان دونوں بچوں کی ماں تھی۔ ان میں اسکی جان بستی تھی۔ وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی تھی۔

نرمین آج بھی قیصر کا غم نہیں بھلا پائی تھی۔
زرتاش نے ایک این جی او کھول لی۔
جہاں یتیم بیوہ طلاق یافتہ ہر قسم کی عورتوں کے کیے گنجائش تھی۔
بہت ہی جلد وہ ادارہ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھر گیا۔ ہر طرف انکی چہچہاہٹ سنائی دیتی تھی۔ نرمین کو وہ ہر وقت لگائی رکھتے تھے۔ وہ اب کافی خوش رہتی۔ زرتاش کا یہ آئیڈیا کام کر گیا تھا۔

نرمین اب بہت حد تک بہل گئی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ نرمین نے دو حج کر لیے۔ ہر عمرہ و حج میں اس نے صبر مانگا۔ جو اسے مل گیا۔ اب وہ گویا قیصر اور اسکی بے وفائی کو بھول گئی۔
قیصر بہت بڑھا ہو چلا تھا۔ اور اسے اب زندگی میں دلچسپی ہی نہیں رہی تھی۔ وہ ہر وقت خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ اسے یوں لیٹے لیٹے دن گزر جاتے۔ نہ اولاد تھی نہ کوئی سنبھالنے والا۔ جو ایک بیٹا تھا وہ تو کوما میں تھا۔ بیٹیوں سے تو اس نے خود ہی چھت چھین لی تھی۔ وہ ہمیشہ نرمین کے ایک ہی فقرے پر سوچتا رہتا۔

کیا پتہ ہمارے بیٹے ہمیں کوئی ایسا غم لگا دیتے کہ ہم لاشعور ہو جاتے۔
اور وہ لاشعور ہو گیا تھا۔ بات بیٹوں کی نہیں تھی۔ اسنے اپنی خواہش کی لیے نرمین کو توڑا تھا۔ جو اسکے بچپن کی محبت تھی۔ اسکی امنگ تھی۔ اور نرمین تو پاگل تھی اسکے پیچھے۔
اسکے پاس اولاد تو تھی۔ چاہے بیٹیاں ہی تھیں۔ اب کیا تھا۔ وہ بدبو کے ڈھیر میں پڑا تھا۔ اور نرمین بیٹیوں کے ساتھ انکے سہارے ایک خوش نما زندگی گزار رہی تھی اسے اب بھل گئی تھی۔ وہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا تھا۔

اسے نرمین کی اکثر یاد آتی۔ آج اسکے دل جو حالت تھی وہ آج سے بہت سال پہلے نرمین کی بھی تو ہوگی۔ آج اسے پتا چلا تھا کہ دل جب ڈوبتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔

3 سال مزید گزر گئے۔ حارث کی حالت میں تھوڑا سدہار آیا تھا۔ وہ آنکھیں کھول چکا تھا۔ مگر یاداشت کھو چکا تھا۔ وہ اپنے باپ کو نہیں پہچان پا رہا تھا۔ آج قیصر ڈنڈے کے سہارے کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بس چپ تھا۔ رو رو کر آنکھیں تو کب کی جواب دے گئی تھیں۔
وقت گزرتا گیا۔ حارث ٹھیک ہوتا گیا۔ آج وہ ڈسچارج ہونا تھا۔
قیصر کے لیے وہ گھر آیا۔ آج اس گھر میں پھر رونق ہوئی تھی اسے مصباح کے جانے کا کوئی دکھ نہ تھا۔ وہ تو نرمین کی خوشیوں کو ہی نگل گئی تھی۔

رات حارث کافی دیر قیصر سے باتیں کرتا رہا۔ قیصر اسے دلہا بنے دیکھ رہا تھا۔ پھر اسکی آنکھیں بند ہوگئیں۔
حارث نے اسکا کمبل درست کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ صبح دن بہت مصروف گزرا۔ حارث کے لیے یہ دن قیامت تھا۔ آج وہ اکیلا رہ گیا ۔ اسے کیا پتا تھا۔ قیصر ہمیشہ کی نیند سو گیا ہے۔
سارا دن اسکے جنازے میں گزر گیا۔ کچھ مہینوں بعد اسنے گھر بیچ دیا۔ کیوں کے اسکا یہاں دل نہیں لگتا تھا۔
اور دبئی شفٹ ہوگیا۔اور پھر قیصر کی قبر پر کوئی نہ آیا۔

نرمین کی بیٹیاں اسکے پاس ہر وقت رہتیں ۔ زرتاش تو گویا اسکی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتی۔
اور ہمیشہ سوچتی ۔ میں تو بیٹا نہیں ہوں پھر بھی ماں کا بڑھاپے کا سہارا ہوں۔ اگر میں بھی چلی جاتی تو کون سنبھالتا اسے۔ نہیں میں کبھی نہیں جاوں گئی۔ یہ سوچ کر وہ ہمیشہ نرمین سے لپٹ جاتی۔
آج پھر وہ سب لوگ عمرہ پر جارہے تھے۔ نرمین مقام ملتزم کے سامنے کھڑی رو رہی تھی۔ مگر اب یادوں میں قیصر نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد

15/02/2024

وہ ہمارے خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔
شہابی رنگ، آہو چشم، کمر سے نیچے تک زلفیں۔ میں نے بس ایک بار کسی موقع پر اس کی جھلک دیکھی تھی اور دنگ رہ گیا تھا۔ میں محض خوبصورتی سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے حسن میں سادگی اور شخصیت میں ایک وقار تھا۔
میں لڑکپن میں بہت شرمیلا ہوتا تھا۔ اسکول، محلے یا خاندان میں اپنی جنریشن کی کسی لڑکی سے شاید ہی کبھی بات کی ہو۔ نہ کسی کا نام یاد رہتا تھا، نہ چہرہ۔ اس کی ایک جھلک بھی دھندلا گئی۔
ایک بار گھر میں میری بہنیں بات کررہی ہیں۔ یاد نہیں کس بات پر اس کا ذکر آیا۔ بہنوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف بہت خوبصورت ہے بلکہ اسے کمال کی فیشن سینس ہے۔ لیکن شوخ نہیں ہے۔ پڑھی لکھی ہے، حسین ہے اور سہیلیوں میں بھی زیادہ بات نہیں کرتی، اس لیے گمان ہوتا ہے کہ نخرے والی ہے۔
میں نے وہ گفتگو دلچسپی سے نہیں سنی۔ میری منگنی کہیں اور ہوچکی تھی، اس کی کہیں اور۔ میں اپنی زندگی سے مطمئن تھا، وہ اپنی زندگی سے ہوگی۔ میں کچھ اور قسم کے خواب دیکھ رہا تھا، وہ کچھ اور طرح کے دیکھتی ہوگی۔
پھر ایک دن میری منگنی ٹوٹ گئی۔ اس لڑکی کو میں پسند نہیں تھا۔ وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی۔ مجھے نہ منگنی ہونے پر کوئی خوشی ہوئی تھی، نہ ٹوٹنے پر افسوس ہوا۔ اچھا ہوا کہ میں دو محبت کرنے والوں کے بیچ سے نکل گیا۔ لو ٹرائی اینگل برموڈا ٹرائی اینگل جیسی ہوتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی کی شادی سے ایک دن پہلے ایک رشتے دار خاتون کا انتقال ہوگیا۔ میں اس شادی میں جانے کے لیے نئی شرٹ خرید کے لایا تھا۔ خبر سن کر میں نے سوچا، پتا نہیں کل شادی ہوگی یا نہیں۔
شادی ٹل گئی، لیکن اس کی وجہ کچھ اور تھی۔ مرنے والی خاتون ایک گھر میں کرائے دار تھیں۔ موت میں یہ ذکر آیا کہ کل خاندان میں ایک شادی ہے۔ مالک مکان کی بیٹی نے پوچھا، کس کی؟ جواب دیا گیا کہ فلاں لڑکی کی، فلاں آدمی سے۔ مالک مکان کی بیٹی نے چونک کر کہا، فلاں آدمی تو شادی شدہ ہے۔ اس کی بیوی بیرون ملک وہیں رہتی ہے جہاں میری بہن ہے۔
میری منگنی ٹوٹنے کے ایک ماہ بعد خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی کی منگنی بھی ٹوٹ گئی۔
پھر امی بابا نے مجھ سے پوچھے بغیر وہاں رشتہ دے دیا۔ مجھے یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس لیے نہیں کہ اس لڑکی میں کوئی کمی تھی۔ اس لیے کہ میں کسی قابل نہیں تھا۔ بابا ریٹائر ہوچکے تھے اور میں ایکسپریس میں معمولی سی ملازمت کرتا تھا۔ میری تنخواہ اور بابا کی پنشن سے گھر مشکل سے چلتا تھا۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ انکار ہوجائے گا۔ لیکن اس کی والدہ نے کہا، استخارہ کروالیتے ہیں۔
سہہ پہر کا وقت تھا۔ میں دفتر میں تھا جب گھر سے فون آیا کہ استخارہ آگیا ہے۔ لیکن یہ ادھوری خبر تھی۔ اس روز منگل تھا۔ امی نے کہا، بیٹے اتوار کو شادی ہے۔
کیا؟ پانچ دن بعد؟ امی میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ دفتر سے چھٹی نہیں ملے گی۔ رمضان میں شادی کون کرتا ہے؟
یاد نہیں امی نے کیا جواب دیا۔ ایکسپریس نیا نیا نکلا تھا۔ تین مہینے ہوئے تھے۔ صرف ایک ہفتے کی چھٹی ملی۔ ہفتے کی رات بارہ بجے تک کام کیا اور طارق روڈ سے چند پینٹیں شرٹیں خرید کر گھر پہنچا۔ سسرال والے دو بجے مہندی لائے۔ اگلی شام ہم دلہن گھر لے آئے۔
فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ یہ علم نہیں تھا کہ اپنی شادی بھی فلمی ہوگی۔
۔۔۔
میں نے کئی سال پہلے اس دن کی یاد ان الفاظ میں لکھی تھی،
ایک سال 14 رمضان کو، کہ جب برادرانِ اسلام نے روزہ رکھا، اِس ناچیز نے نکاح رکھ لیا۔ اور اُس شام کہ جب پرہیز گاروں نے کھجور سے روزہ کھولا، اِس فقیر کے باراتیوں نے چھوہارے سے افطار کیا۔ اور اُن لمحات میں کہ جب پورے چاند کی چاندنی آنگن میں اُتر رہی تھی، اِس دیوانے کے گھر میں دلہن اُتری۔ اور اُن ساعتوں میں کہ جب تہجد گزار شبینہ پڑھ رہے تھے، یہ گناہ گار بھی شبینہ پڑھ رہا تھا۔
۔۔۔
امی اور بابا آپس میں کزن تھے، زندگی اچھی گزری لیکن خوشگوار نہیں۔ پانچ بچے پیدا ہوئے لیکن ذہنی ہم آہنگی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اس سے میں نے یہ سیکھا کہ جب اپنی شادی ہوگی تو بیوی کا ذہن پڑھوں گا اور ہم آہنگی پیدا کروں گا۔ لیکن ایک دن بھی یہ کوشش نہیں کرنا پڑی۔ مجھے ایسا لگا جیسے آرڈر پر مال تیار ہوتا ہے، ویسے اللہ میاں نے اپنے کارخانے میں میرے مزاج اور خیالات کے مطابق ایک لڑکی بنائی اور چونکہ میں افسانے لکھتا ہوں، اس لیے کچھ افسانوی حالات و واقعات کے بعد اسے میری بیوی بنادیا۔
جب کسی شخص کی منگنی ہوتی ہے تو وہ دوسرے شخص سے ایموشنلی اٹیچ ہوجاتا ہے۔ یہ فطری معاملہ ہے۔ لیکن میرے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ میں ذرا پرانے زمانے کا آدمی ہوں۔ شادی کے بعد میں نے نئی نویلی دلہن سے پہلا سوال یہی کیا کہ بی بی، گھر والوں نے پوچھ کر شادی کی ہے یا زبردستی کا فیصلہ سنادیا۔ جواب سن کر تسلی ہوئی۔ وہ بھی پرانے زمانے کی خاتون نکلیں۔
ابتدائی چند ماہ تک ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہے۔ ہر معاملے میں ہماری پسند ایک جیسی، ہر نکتے پر ہمارے خیالات ایک جیسے، ہر شخص کے بارے میں ہماری رائے ایک جیسی۔ کچھ دن پہلے تک ایک دوسرے سے انجانے دو افراد اس قدر ہم مزاج اور ایک جیسی عادتوں والے کیسے ہوسکتے ہیں۔
البتہ اس میں پہلے دن سے بلا کا اعتماد ہے، جس سے میں محروم تھا۔ وہ اعتماد اس نے مجھ میں پھونکا۔ میں جن فیصلوں پر شش و پنج کا شکار ہوتا تھا، ان میں اس کے مشورے کارآمد ثابت ہوئے۔ اور جو کام میں نے اس پر چھوڑا، وہ اس نے زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیا۔
ایکسپریس کے مقابلے میں جنگ میں ملازمت کی پیشکش کم پیسوں کی تھی۔ لیکن اس نے کہا، چلے جائیں۔ بڑا ادارہ ہے۔ پیسے بعد میں بڑھ جائیں گے۔ ایک سال بعد میری تنخواہ ڈیوڑھی ہوگئی۔ جیو نے مجھے دبئی بھیجنے کا فیصلہ کیا تو میں اس کے بغیر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس نے کہا، بے فکر ہوکر جائیں۔ اچھا کام کریں گے تو ایک دن ہمیں بلانے کے قابل ہوجائیں گے۔ ایک سال بعد جیو نے مجھے پرمننٹ کیا تو واقعی میں نے اسے بلالیا۔ نئی نئی ڈرائیونگ سیکھی اور رینٹ کی کار لے کر گھر آیا۔ وہ ساتھ بیٹھی اور کہا، بالکل ٹھیک چلارہے ہیں۔ آج دفتر اسی گاڑی میں جائیں۔ اس دن اس کے کہنے پر ہمت کی اور اتنی اچھی ڈرائیونگ کرنے لگا کہ ایک دن اسی کام سے پیسے کماکر گھر چلایا۔
ہم نے بہت اچھا وقت دیکھا اور بہت مشکل حالات بھی۔ میری جیب بھری ہوئی تھی یا خالی، اس کا رویہ ایک سا رہا۔ ایسی عیدیں گزریں جب میں اس کے لیے نئے کپڑے نہ بناسکا۔ اور ایسی بھی کہ اس نے پوچھا، ان چار سوٹوں میں سے کون سا لوں، تو میں نے چاروں خرید لیے۔ اچھے دنوں میں ارمان پورے ہوجائیں تو کمی کے دن بھاری نہیں پڑتے۔
ہاں، پچیس سال میں اس نے ایک ضد کی اور اس کے لیے مجھ سے باقاعدہ لڑائی کی۔ میں جنگ میں تھا اور تنخواہ قلیل تھی۔ بیٹی کو اسکول میں داخل کروانے کا وقت آیا۔ میں نے تنخواہ کے حساب سے محلے کے اسکول کا انتخاب کیا۔ لیکن اس نے زور دیا کہ بیٹی اچھے اسکول جائے گی۔ میں نے کہا، پیسے نہیں ہیں۔ اس نے کہا، میں جاب کرلیتی ہوں۔ امی بیمار تھیں۔ بچے چھوٹے تھے۔ اس کے جاب کرنے سے مسائل ہوتے۔ میں نے پارٹ ٹائم جاب کرلی۔ صبح آٹھ بجے نکلتا اور رات بارہ بجے گھر میں گھستا۔ دو سال یہی معمول رہا۔ سخت وقت تھا لیکن آج خوشی ہوتی ہے کہ بیوی نے صحیح اصرار کیا اور میں نے جائز محنت کی۔
یہ اچھی تعلیم کا ثمر ہے کہ بچوں کو امریکا کے اسکولوں میں ذرا مشکل نہیں ہوئی۔ آج وہ یونیورسٹی میں تعلیم کے ساتھ جاب بھی کررہے ہیں اور جو کچھ باپ فراہم نہیں کرپارہا، اسے خود حاصل کرنے کے قابل ہیں۔
۔۔۔
میں جملے باز ہوں، اس کی وجہ انچولی کا ماحول تھا۔ جگتیں سن سن کر جگتیں مارنا آگیا۔ لیکن خاموش طبع گھریلو لڑکی نے جملے بازی کب اور کیسے سیکھی، پتا نہیں۔ میری کہانیوں کے بہت سے مکالمے اور سوشل میڈیا کے بہت سے جملے اسی کی دین ہیں۔ کسی موقع پر میں نے مذاق میں بچوں سے کہا کہ آپ کی ماما اس لیے بیک ورڈ ہیں کہ پنڈی میں پیدا ہوئی تھیں۔ فورا جواب آیا، اور آپ کے پاپا پنڈ میں۔
ایک دن میں کراچی میں موٹرسائیکل پر دھول مٹی میں اٹا ہوا گھر آیا۔ بیوی سے کہا، نہانے جارہا ہوں۔ فورا بولی، ٹھہر جائیں، ذرا ڈالر انک والوں کو فون کرکے بلالوں۔ ان کا بھلا ہوجائے۔
ایک مرتبہ بال کٹوا کے گھر آیا تو فرمایا، آج کیا بھیڑ مونڈنے والوں کے ہاتھ لگ گئے تھے؟
ایک دن بیٹے نے پوچھا، ماما آپ کا بلڈ گروپ کیا ہے؟ اس نے کہا، میرا بی پوزیٹو۔ پاپا کا ٹی پوزیٹو۔
میں نے اوپر لکھا کہ شادی کے بعد بیوی سے پہلا سوال کیا کیا تھا۔ جواب میں بیوی نے بھی مجھ سے ایک مشکل سوال کیا۔ یعنی شادی سے پہلے آپ کتنی محبتیں کرچکے ہیں؟ میں نے کہا، میں ویسے بھی جھوٹ نہیں بولتا اور شادی کے پہلے دن تو بالکل جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ میری پہلی محبت سنڈریلا تھی۔ دوسری انسپکٹر جمشید کی بیٹی فرزانہ۔ تیسری ابن صفی کی جولیانا فٹزواٹر۔ چوتھی فرہاد علی تیمور کی سونیا۔ بیوی نے کہا، بس بس، اسلام میں چار کی اجازت ہے۔ ہم دونوں زور سے ہنسے۔ اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ ساری زندگی ہنستے ہوئے گزرے گی۔
کسی بھی شوہر کے لیے بیوی کو یہ یقین دلانا مشکل ترین کام ہے کہ وہ اس سے خالص محبت کرتا ہے۔ یہ کام مجھے نہیں کرنا پڑا۔ وہ حج کلاسیں لے رہی تھیں۔ مولانا عون نقوی معلم تھے۔ انھوں نے میری بیوی سے کہا، عام طور پر میاں بیوی ساتھ حج پر جاتے ہیں۔ آپ تنہا کیوں جارہی ہیں؟ اس نے کہا، ہمارے بچے چھوٹے ہیں۔ میرے شوہر نے کہا، بچے میں سنبھال لوں گا، اس سال آپ چلی جائیں۔ میں اگلے سال میں چلا جاوں گا۔ مولانا نے کہا، اس سے زیادہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے محبت نہیں کرسکتا کہ پہلے اسے حج پر بھیج دے۔ میں نے ہمیشہ بیوی کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے، لیکن اس دن وہ رنگ گہرا تھا۔
۔۔۔
پچیس سال کی خوشیوں بھری زندگی میں صرف ایک دن ایسا آیا جب بیوی نے بات ماننے سے انکار کردیا۔
اس ایک دن کے سوا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی کام کہا ہو اور وہ اس نے پہلی فرصت میں نہ کیا ہو۔ کبھی کہیں چلنے کو کہا تو اسے تیار دیکھا۔ کوئی پریشانی ہوئی تو اسے حوصلہ مند پایا۔
دسمبر 2008 میں اس کے بھائی کی شادی تھی جو چند دن کی چھٹی لے کر کینیڈا سے دلہن بیاہنے آیا تھا۔ باقی بہن بھائی اس سے بڑے ہیں اور ان کی شادیاں پہلے ہوچکی تھیں۔ ہماری شادی کے بعد یہ اس کے میکے کا سب سے بڑا ایونٹ تھا۔ میں جیو میں کام کرتا تھا اور لاکھوں روپے سیلری پارہا تھا۔ شادی سے دس دن پہلے چھٹی بھی لے لی تاکہ اسے کہیں بھی لانے لے جانے کے لیے دستیاب رہوں۔ اسے شہر کی مہنگی ترین دکانوں سے دل کھول کر شاپنگ کروائی۔ بہترین ملبوسات، جوتے اور جیولری دلوائی۔ ہر شام میکے لے جاتا رہا اور شادی سے پہلے کی ہر تقریب، ہر دعوت میں حاضری یقینی بنائی۔
ان دنوں ہماری امی جگر کے کینسر میں مبتلا تھیں۔ ایک دن طبیعت بگڑی تو اسپتال لے جانا پڑا۔ بیوی کو میکے چھوڑ کر اس رات میں اسپتال میں رہا۔ وہ امی کی آخری رات تھی۔ صبح ان کا انتقال ہوگیا۔ اسی شام بیوی کے بھائی کی شادی تھی۔
امروہے والوں کے برعکس، جو ہر موت کا سوگ پورے ایک سال تک مناتے ہیں، میں کسی سوگ کا قائل نہیں۔ کبھی کسی موت کا سوگ نہیں منایا۔ اس دن بھی بیوی سے بہت کہا، اصرار کیا، سختی سے بھی کہا کہ جنازے کے بعد بھائی کی شادی میں چلی جاو، لیکن اس نے میری بات نہیں مانی۔ اس دن اس نے چھوٹی بہن کے بجائے بڑی بہو کا کردار ادا کیا۔ مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے۔
۔۔۔
بیوی نے کہا، منت پوری کرنی ہے، دمشق بی بی زینب کے روضے پر جانا ہے۔ میں نے کہا، جیسے کہو۔ اس نے کہا، عمرہ کرنا ہے۔ میں نے کہا، کیوں نہیں۔ وہ بولی، جوانی میں حج کرلیں تو اچھا ہے۔ میں نے کہا، بالکل ٹھیک۔ اس نے خواہش کی، مشہد میں امام رضا کے روضے پر حاضری دینی ہے۔ میں نےکہا، حاضر۔ اس نے پوچھا، کربلا کی زیارت کب کریں گے؟ میں نے کہا، اسی سال۔ جو یار کی مرضی، وہ میری مرضی۔ جو یار کا مذہب، وہ میرا مذہب۔
وہ جانتی ہے کہ مذہب کے بارے میں میرے خیالات کیا ہیں۔ لیکن میں گھر سے نکلتا ہوں تو وہ آیت الکرسی پڑھتی ہے۔ میری طبیعت خراب ہو تو دعائیں پڑھ پھونکتی ہے۔ ہر نماز کے بعد کچھ نہ کچھ میرے لیے بھی مانگتی ہوگی۔ میں البتہ کچھ نہیں مانگتا۔ دہریے کو بھاگوان مل جائے تو کچھ اور مانگنا بنتا نہیں ہے۔
۔۔۔
ہماری شادی 3 جنوری 1999 کو ہوئی تھی۔ آج 25 سال مکمل ہوگئے۔ ہر سال شادی کی سالگرہ پر بیوی کو کوئی تحفہ دیتا تھا۔ اس بار نوکری نہیں تھی۔ جیب خالی تھی۔ سوچا کہ قلم تو ہے۔ جس کے پاس قلم ہے، اس کی جیب کبھی خالی نہیں ہوتی۔
#ستارہ-وائس

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sitara Voice posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share