Column urdu noma

  • Home
  • Column urdu noma

Column urdu noma Grdcvv

24/02/2022

میری یہ بچپن سے عادت رہی ہے کہ جب محلے کی دکان سے کچھ بھی لیا،
انہوں نے اخباری ٹکڑے میں لپیٹ کر دیا تو شے کے استعمال کے بعد اس ٹکڑے کو ضرور دیکھا اور پڑھا۔
یہ 2007 کی بات ہے میں اسلام آباد میں اس وقت سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا۔ مارکیٹ میں تازہ جلیبی بن رہی تھی وہ خریدی تو اخبار کا ساتھ آنے والا ٹکڑا پوری زندگی تبدیل کر گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ اُس ٹکڑے پر ایک کالم چھپا ہوا تھا۔ کالم نگار کا نام اب یاد نہیں ہے لیکن اس نے جو لکھا تھا وہ سب یاد ہے حرف بہ حرف تو نہیں، لیکن یاد ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔

اُس نے لکھا کہ:
میں کل اپنے ایک کاروباری دوست کے پاس دفتر گیا چائے پی گپ شپ لگاتے ہوئے گھر جانے کا وقت ہو گیا۔ جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو کلرک نے آ کر ایک شکایت لگائی کی جناب فلاں چپڑاسی سست ہے کام نہیں کرتا، ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔

میرے اُس دوست نے کہا اگر کام نہیں کرتا تو کس لیے رکھا ہو ہے، فارغ کرو اسے۔ میں نے فورا مداخلت کی اور کہا، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ اس سے بات کر لو، کیا پتہ اسکے کچھ مسائل ہوں۔ پھر میں نے اپنے دوست کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔

،،شیخ صاحب لاہور میں ایک معمولی سے دفتر میں ملازم تھے، دن کچھ ایسے پھرے کہ اسی دفتر کے صاحب کو پسند آ گئے اور یوں انکی فیملی میں ہی شیخ صاحب کی شادی ہو گئی۔

قدرت شیخ صاحب پر مہربان تھی، دن رات اور رات دن میں بدلتے گئے اور شیخ صاحب ایک دکان سے ایک مارکیٹ اور پھر ایک فیکٹری سے دو، چار، اور پھر نہ جانے کتنی فیکٹریوں کے مالک بنتے گئے۔

دھن برستا گیا، دو بچے ہو گئے۔ شیخ صاحب نے کرائے والی کمرے سے ایک اپارٹمنٹ اور پھر لاہور کے انتہائی پوش علاقے میں دو کنال کی ایک کوٹھی خرید لی۔ مالی کی ضرورت پیش آئی تو چکوال سے آئے ہوئے سلطان کو فیکٹری سے نکال کر اپنی کوٹھی میں پندرہ سو روپے ماہوار پر اپنی کوٹھی پر ملازم رکھ لیا۔

سلطان ایک انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان تھا، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، نہ کوئی عداوت، نہ کبھی کوئی شکائت۔ ایک بار شیخ صاحب دن کے دس بجے کسی کام سے گھر واپس آئے تو گاڑئ دروازے پر ہی کھڑی کر دی
کہ ابھی واپس دفتر جانا تھا۔ دروازے سے گھر کے داخلئ دروازے کے درمیان اللہ جانے کیا ہوا کہ پودوں کو پانی دیتے سلطان کے ہاتھ سے پایپ پھسلا اور شیخ صاحب کے کپڑوں پر پوری ایک تیز پھوار جا پڑی،

شیخ صاحب بھیگ گئے۔ سلطان پاؤں میں گر گیا، گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا کہ صاحب غلطی ہو گئی۔ لیکن شیخ صاحب کا دماغ آسمان پر تھا۔ غصے میں نہ آو دیکھا نہ تاو، وہیں کھڑے کھڑے سلطان کو نوکری سے ننکال دیا۔کہا شام سے پہلے اس گھر سے نکل جاوؐ۔

سلطان بیچارہ سامان کی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا کہ شاید صاحب کا غصہ شام تک ٹھنڈا ہو جائے تو واپس بلا لیں۔ شام کو سیخ صاحب واپس آئے، دیکھا سلطان ابھی تک بیٹھا ہوا تھا، گارڈ کو کہا اسے دھکے دیکر نکال دو، یہ یہاں نظر نہ آئے، صبح ہوئی تو سلطان جا چکا تھا۔ رب جانے کہاں گیا تھا۔

وقت کزرتا گیا، شیخ صاحب کے تیزی سے ترقی پاتے کاروبار اور فیکٹریوں میں ایک ٹھہراوؐ سا آنے لگا۔ کاروبار میں ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ کم پڑتی گئی۔ لیکن شیخ صاحب زندگی سے بہت مطمئن تھے۔

پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی، پوری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی۔ کچھ مزدور بھی جل گئے۔ شیخ صاحب کو بئٹھے بٹھائے کروڑوں کا جھٹکا لگ گیا۔ کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہوا تو شیخ صاحب کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہو گئے۔ بڑا بیٹا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا،

دوستوں کے ساتھ سیر پر مری گیا واپسی پر حادثہ ہوا تو وہ جوان جہان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شیخ صاحب کی کمر ٹوٹ گئی۔

نقصان پر نقصان ہوتے گئے۔ دو کنال کی کوٹھی بیچ کر دس مرلے کے عوامی طرز کے محلے میں آ گئے۔ جب عقل سے کچھ پلے نہ پڑا تو پیروں فقیروںںں کے ہاں چلے گئے کہ شاید کوئی دعا ہاتھ لگ جائے اور بگڑی ہوئی زندگی پھر سے سنور جائے۔ باقی ماندہ کاروبار بیچ کر اور کچھ دیگر پراپرٹی کو رہن رکھ کر بنک سے قرضہ لیا اور چھوٹے بیٹے کو ایک نیا کاروبار کر کے دیا۔

اسکے پارٹنر دوست نے دغا کیا اور اکثر پیسہ ڈوب گیا۔ شیخ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں چارپائی سے لگ گئے۔

ایک دن ایک پرانا جاننے والا ملنے آئا، حالات دیکھے تو بہت افسوس کیا۔ کہا شیخ صاحب انڈیا سے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، بہت بڑے اللہ والے ہیں، داتا صاحب کے پاس ہی ایک مکان میں انکا چند دن کا قیام ہے، اگر ان کے پاس سے دعا کروا لیں تو اللہ کرم کرے گا۔

شیخ صاحب فورا تیار ہو گئے۔ اس مکان پر پہنچے، ملاقات کی، مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں، کچھ دیر مراقبے کی کیفیت میں رہے، پھر آنکھیں کھولیں، شیخ کو دیکھا اور کہا "تم نے سلطان کو کیوں نکالا تھا؟"

چیخ کے سر کے اوپر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسووؐں کی ایک نہ تھمنے والی لڑی جاری ہو گئی، شیخ بزرگ کے پاوؐں میں گر گیا، معافیاں مانگنے لگا۔ بزرگ نے اسے کہا میری بات سنو۔ پروردگار رازق ہے، وق رزق ضرور دے گا لیکن اسکا وسیلہ انسانوں کو ہی بنائے گا۔اوپر سے نیچے آتے پانی کی تقسیم جس طرح نہروں نالوں کی طرح ہوتی ہے رزق کی تقسیم اسی طرح ہے۔

پروردگار کے نزدیک ہم میں سے ہر ایک شخص وسیلہ ہے کسی اور کے رزق کا۔ اگر آپ وسیلہ بننے سے انکار کرو گے تو تمہارے حصے کا وہ رزق جو اس وسیلے سے تمہیں بطور معاوضہ مل رہا تھا ختم ہو جائے گا۔

تمہیں لاکھوں کروڑوں سلطان کو پندرہ سو روپے دینے کے لیے ملتے تھے۔ تم نے وہ روک لیے، اوپر والے نے نمہارا معاوضہ ختم کر دیا۔ اب جاوؐ اور سلطان کو ڈھونڈو، اگر وہ مان جائے معاف کر دے تو تمہارے دن پھر جائیں گے۔

شیخ کی دنیا لٹ گئی، وہ سر پیٹتا گھر آیا پرانے کاغذات ڈھونڈتا رہا کہ شاید کہیں سلطان کا کوئی پتہ، کوئی شناختی کارڈ، کوئی اور معلومات مل سکیں۔ کچھ بھی نہ ملا تو شیخ دیوانہ وار سلطان کو ڈھونڈنے چکوال جانے والی بس میں بیٹھ کر چکوال چلا گیا۔ مگر سلطان نہ ملا۔

چھوٹا بیٹا ڈھونڈتا ڈھونڈتا چکوال اڈے پر آ پہنچا اور باپ کو واپس لاہور لے آئا۔ لیکن شیخ کا دل کا سکون ختم ہو گیا تھا۔ کچھ دن بعد شیخ پھر گھر سے غائب ہوا تو بیٹے کو معلوم تھا کہ کہاں ملے گا۔

وہ چکوال پہنچا تو دیکھا باپ زمین پر بیٹھا سر میں راکھ ڈال رہا تھا اور کہہ رہا تھا سلطان تم کہاں ہو، سلطان تم کہاں ہو۔ بیٹا خود روتا ہوا باپ کو واپس لے آئا۔ چند دن کے بعد شیخ کا انتقال ہو گیا۔

کالم نگار نے لکھا، میں نے اپنے دوست کو یہ پوری کہانی سنائی اور اسے کہا، چپڑاسی کو نہ نکالو، اسکا رزق تمہارے رزق سے جُڑا ہے، اسے تو رب کہیں اور سے بھی دے دے گا کہ اس کے پاس وسیلہ بنانے کے لیے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس معاوضے والی نعمت سے محروم ہو جاوؐ۔

مجھے یہ واقعہ پڑھے ہوئے تیرہ سال گزر گئے ہیں۔ آپ یقین کریں اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں مالی معاملات میں بہت زیادہ محتاط ہو گیا۔ اگر کسی کے پاس دس بارہ رہ گئے تو نہیں مانگے کہ کہیں اوپر والے سے ملنے والا معاوضہ کم نہ ہو جائے۔

میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور نیک نیتی سے وسیلہ بننے کی کوششیں بھی کیں
،میں جو بھی مستحق ہیں انکا خیال رکنے کی کوشش کی۔ میں ان تیرہ سالوں میں کبھی تنگ دست نہیں ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وسیلہ ملتا گیا اور میں آگے بڑھتا رہا۔

سبحان اللّٰہ

24/02/2022

*جاوید چودھری*

*مانگتے رہا کریں* 💕🥀
یہ واقعہ میرا نہیں ہے میرے ایک دوست نے سنایا تھا اور اس نے بھی کسی اور سے سنا تھا لیکن یہ کمال ہے اور اس میں زندگی کا شان دار بلکہ شان دار ترین سبق چھپا ہے سنانے والے نے سنایا میں پڑھائی کے بعد لندن سے واپس آیا سارا دن گھر پر پڑا رہتا تھا ایک دن میری والدہ نے مجھ سے کہا دوڑ کر جائو اور ہمسایوں سے تھوڑا سا نمک مانگ کر لے آئو‘ میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا اور کہا امی جی آپ کل ہی نمک لے کر آئی ہیں وہ کہاں گیا اور دوسرا اللہ کا ہم پر بڑا احسان بڑا کرم ہے ہم ہمسایوں سے نمک کیوں مانگ رہے ہیں؟ میری ماں نے ہنس کر کہا تم پہلے نمک لے کر آئو میں
تمہیں پھر بتائوں گی میں برا سا منہ بنا کر چلا گیا ہمارا ہمسایہ بہت غریب تھا اس کا دروازہ تک ٹوٹا ہواتھا‘ میں نے اس کی کنڈی بجائی خاتون خانہ باہر آئی میں نے اسے سلام کیا اور بتایا میں آپ کے ہمسائے خواجہ صاحب کا بیٹا ہوں لندن سے آیا ہوں میری والدہ کو تھوڑا سا نمک چاہیے اگر ہو سکے تو آپ دے دیجیے خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی وہ اندر گئی چھوٹی سی کٹوری میں تھوڑا سا نمک ڈال کرلے آئی اور مسکرا کر بولی بیٹا امی کو میرا سلام کہنا اور پھرکہنا آپ کو اگر مزید بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ منگوا لیجیے گا میرے پاس آج فریش بھنڈیاں بھی ہیں میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور نمک لے کر آ گیا میں والدہ سے بہت ناراض تھا مجھے نمک مانگتے ہوئے بڑی شرم آئی تھی میری والدہ نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی ’’بیٹا یہ لوگ غریب ہیں‘ یہ روز مجھ سے کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز مانگتے ہیں ان کے بچے شروع شروع میں جب ہماری بیل بجاتے تھے تو مجھے ان کی آنکھوں میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس ہوتی تھی میں نے انہیں شرمندگی سے نکالنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے میں ہر دوسرے دن ان سے کوئی نہ کوئی چیز مانگتی رہتی ہوں کبھی نمک مانگ لیتی ہوں کبھی مرچ کے لیے کسی کو بھجوا دیتی ہوں اور کبھی دوپٹہ چادر یا بالٹی مانگ لیتی ہوں میرے مانگنے کی وجہ سے یہ کمفرٹیبل ہو جاتے ہیں اور ان کو جوبھی چیز چاہیے ہوتی ہے یہ ہم سے بے دھڑک لے لیتے ہیں یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے میں نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور دیر تک چومتا رہا میری ماں نے اس کے بعد مجھے زندگی کا شان دارترین سبق دیا انہوں نے فرمایا بیٹا اپنے غریب ہمسایوں رشتے داروں اور دوستوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے رہا کرو اس سے ان کی انا کی بھی تگڑی رہتی ہے اور ہمارابھی ان سے تعلق قائم رہتا ہے میں نے ایک بار پھر اپنی ماںکا ہاتھ چوم لیا‘ میری والدہ نے شام کو میرے ذریعے اس ہمسائے کے گھر سالن بھی بھجوا دیا میں گوشت کا ڈونگا لے کر گیا اور ان سے تھوڑی سی بھنڈیاں مانگ کر لے آیا‘ اس رات مجھے طویل عرصے بعد لمبی اور پرسکون نیند آئی۔یہ کیا شان دار واقعہ اور بے مثال سبق ہے میں نے جب یہ سنا تو میرے سامنے بھی درجنوں واقعات کھل گئے میرے والد بھی اپنے دوستوں سے تمباکو اور حقے کے لیے گڑ منگوایا کرتے تھے یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب ان کا حقہ عملاً بند ہو چکا تھا ہمارے گھر میں دس پندرہ کلو تمباکو ہروقت رہتا تھا مگر وہ اس کے باوجود مزید منگواتے رہتے تھے میں نے ایک دن ان سے اس عجیب وغریب شوق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ہنس کر جواب دیا میرے دوست بوڑھے ہو چکے ہیں یہ اکیلے بھی ہیں اور یہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے بھی رہ گئے ہیں مجھے تمباکو پہنچانا ان کی زندگی کی واحد ایکٹویٹی ہے میں انہیں فون کر کے فرمائش کرتا ہوں تو یہ خوش ہو جاتے ہیں یہ اس بہانے اسلام آباد آتے ہیں میں انہیں ڈاکٹروں کو دکھا دیتا ہوں دو تین دن ان کی خدمت کرتا ہوں واپسی پر انہیں جوتے اور کپڑے بھی لے کر دیتا ہوں اور ہم ایک دو دن ہنس کھیل بھی لیتے ہیں مجھے اس وقت والد کی منطق سمجھ نہیں آتی تھی لیکن جب میں نے نمک کا واقعہ سنا تو مجھے والد تمباکو اور ان کے سارے پینڈو دوست یاد آ گئے اور پھر میں دیر تک سوچتا رہا ہماری بزرگ نسل کتنی شان دار اور وسیع القلب تھی یہ کس طرح لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کررکھتی تھی جب کہ ہم تقسیم درتقسیم نسل ہیں ہمارا اپنی ذات کے ساتھ بھی تعلق ٹوٹ چکا ہے لاہور میں میرےایک دوست رہتے تھے اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے‘ میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تھا وہ کسی نہ کسی ریستوران میں دعوت کرتے تھے‘ دس پندرہ بیس لوگوں کو انوائٹ کرتے تھے اور آخر میں بل ہمیشہ اپنے کسی نہ کسی غریب دوست سے دلاتے تھے مجھے ان کی یہ حرکت بہت بری لگتی تھی میں سوچتا تھا یہ کیا چول حرکت ہے؟ وہ بے چارہ ہمارے سامنے موٹر سائیکل یا رکشے پر آیا اور شاہ صاحب نے اسے دس پندرہ ہزار روپے کابل ٹھونک دیا اللہ تعالیٰ نے انہیں انتہائی خوش حال بنا رکھا ہے انہیں کم از کم یہ چول نہیں مارنی چاہیے میں کئی برس تک شاہ صاحب کی اس حرکت پر کڑھتا رہا لیکن پھر ایک دن شاہ صاحب پکڑے گئے میں واش روم میں تھا شاہ صاحب بھی اپنے غریب دوست کو پکڑ کر واش روم میں لے گئے وہ دونوں نہیں جانتے تھے میں اندر ان کی گفتگو سن رہا ہوں شاہ صاحب نے اپنے غریب دوست کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور اس سے کہا یار حماد باہر میرے دوست ہیں یہ مجھے بل نہیں دینے دیں گے تم یہ پیسے رکھو اور جب ویٹر بل لائے تو تم بل پکڑ کر زبردستی ادا کر دینا اگر میرے دوست ضد کریں گے تو میں ان سے کہوں گا یہ دعوت حماد کی طرف سے تھی لہٰذا بل یہی دے گا پلیز میرا پردہ رکھنا حماد نے آہستہ آواز میں سرگوشی کی شاہ جی آپ پیسے رہنے دیں بل میں دے دوں گا شاہ صاحب نے دوبارہ اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور منت کے لہجے میں کہا حماد پلیز تم یہ رقم ادھار سمجھ کر رکھ لو لیکن بل اسی سے ادا کرو اور اس کے ساتھ ہی رقم اس کی جیب میں ڈال دی وہ دونوں واش روم سے نکل گئے تو میں بھی آنکھیں صاف کرتا ہوا باہر آ گیا دعوت کے آخر میں جب بل آیا تو سب نے اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا میں دوں گا میں دوں گا لیکن شاہ صاحب نے حسب عادت اونچی آواز میں کہا یہ بل حماد دے گا یہ چودھری صاحب سے ملنا چاہتا تھا لہٰذا اسے اب اس ملاقات کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی اور ساتھ ہی حماد نے بل پکڑ لیا میں نے یہ واقعہ بعدازاں بے شمار لوگوں کو سنایا اور ہر بار ان سے درخواست کی آپ جب بھی اپنے پرانے اور بچپن کے دوستوں سے ملیں شان دار کھانا منگوائیں اور جب بل کی باری آئے تو بل اٹھا کر اپنے سب سے غریب دوست کے حوالے کر دیں اور ساتھ ہی میز کے نیچے سےاسے رقم پکڑا دیں اس سے اس کا بھرم بھی رہ جائے گا دوستوں میں اس کی عزت بھی بڑھ جائے گی اور آپ کا اس کے ساتھ تعلق بھی گہرا ہو جائے گا۔ یہ واقعات سن سن کر میرے چند جاننے والوں نے دوستوں سے مانگتے رہو کے نام سے ایک چھوٹا سا گروپ بنا لیا ہے اس گروپ کے لوگ اپنے غریب رشتے داروں اور دوستوں سے کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں یہ کسی سے گنے منگوا لیتے ہیں کسی سے گڑ کسی سے مکھن کسی سے پنیر کسی سے دیسی انڈے کسی سے ساگ اور کسی سے آٹا یہ حرکت بظاہر بڑی چیپ محسوس ہوتی ہے لیکن آپ یقین کریں ان کی اس چیپ حرکت سے ان کے اپنے پرانے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ تعلقات بہت آئیڈیل ہیں یہ لوگ دوستوں سے دال ساگ اور گڑ مانگتے ہیں اور دوست جواب میں ان سے دوائیاں بچوں کی فیسیں اور بیٹیوں کا جہیز مانگ لیتے ہیں اور یہ لوگ دوستوں کو مہینے دو مہینے بعد کپڑے جوتے‘ سویٹر اور رضائیاں بھی بھجواتے رہتے ہیں آپ خود سوچیے یہ لوگ اگر ان سے گڑ نہیں مانگیں گے تو یہ غریب دوست ان سے اپنی تکلیف اور ضرورت کا ذکر کیسے کریں گے اور یہ اگران سے بھی اپنی ضرورت بیان نہیں کریں گے تو پھر یہ کس کے پاس جائیں گے؟ کیا انسان کو تکلیف میں دوستوں اور رشتے داروں سے رابطہ نہیں کرنا چاہیے؟دوسری چیز آپ لوگ اپنے ہمسایوں سے بھی کچھ نہ کچھ مانگتے رہا کریں اس سے آپ کے تعلقات دیواروں تک محدود نہیں رہیں گے یہ صحن اور ڈرائنگ روم تک چلے جائیں گے لیکن اس کے لیے ایک بات کا خاص خیال رکھیں پنجاب کی پرانی روایت تھی ہماری دادیاں اور نانیاں دوسروں کا برتن خالی واپس نہیں بھجواتی تھیں اگر ایک گھر سے سالن آتا تھا تو واپسی پر اس برتن میں حلوہ یا میوہ جاتا تھا آپ بھی ہمسایوں سے مانگیں اور واپسی پر اس برتن میں زیادہ بڑی اور شان دار چیزیں بھجوائیں اس سے آپ کے تعلقات میں بھی اضافہ ہو گا اور اجنبیت کی دیواریں بھی گرجائیں گی اور آخری بات آپ کو جب بھی کوئی شخص کھانے کی چیز بھجوائے تو لوگوں کے درمیان اس کی جی بھر کر تعریف کریں یہ یاد رکھیں ہم انسانوں کی فطرت ہے ہم ہمیشہ دوسروں سے کھانے کی چیز کی تعریف چاہتے ہیں آپ ذرا یاد کریں لوگوں نے جب بھی آپ کے کھانے کی تعریف کی تھی تو آپ کو کیسا لگا تھا؟ آپ کو اگر اچھا لگا تھا تو آپ بھی یہ کر کے دیکھیں دوسروں کو بھی بہت اچھے لگے گا اور یہ بھی یاد رکھیں ہم سماجی جانور ہیں ہم دوسروں سے کٹ کر نہیں رہ سکتے ہماری ساری خوشیاں دوسروں کے دلوں سے نکلتی ہیں لہٰذا لوگوں سے رابطے میں رہا کریں خوش رہیں گے ورنہ اپنی ہی ذات میں قید تنہائی کا شکار ہو کر گھٹ گھٹ کر فوت ہو جائیں گے۔
جاوید چودھری 🥀🥀

24/02/2022

Bb

05/01/2022

💖



وجیہہ سواتی کی عمر 46 سال تھی اور اس کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا‘ ایم بی اے تھی‘امریکا کے سب سے بڑے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر بشیر المہدی کے ساتھ شادی ہوئی اور امریکا چلی گئی‘ 1999ء میں بڑا بیٹا عبداللہ پیدا ہوا‘ سرجیکل آلات کی کمپنی بنائی اور کاروبار شروع کر دیا‘ امریکا‘ پاکستان اور دوبئی تینوں جگہوں پر آنے اور جانے لگی‘بے تحاشا پراپرٹی بھی خرید لی‘ 2014ء میں دوبئی میں بزنس وزٹ پر تھی‘ اچانک رضوان حبیب سے ملاقات ہوئی اور یہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی‘ ڈاکٹر بشیر المہدی اس دوران ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گیا‘ وجیہہ نے بیوگی کے بعد رضوان حبیب سے شادی کر لی‘ خاتون خوب صورت بھی تھی‘ امیر بھی تھی‘ جائیداد کی مالک بھی تھی اور کروڑوں روپے کا کاروبارsبھی کرتی تھی جب کہ رضوان حبیب نکما تھا‘پراپرٹی کا کام کرتا تھا اوربیوی سے پیسہ منگوا کر کھاتاتھا‘ وجیہہ کے تین بیٹے تھے‘ یہ امریکا میں ماں کے ساتھ رہتے تھے‘ 2020ء میں پراپرٹی کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات ہوئے اور معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ گیا‘ 2021ء کے شروع میں پاکستان آئی‘ جھگڑا ہوا اور یہ واپس امریکا چلی گئی‘ اس نے امریکا جا کر خاوند کا نمبر بلاک کر دیا‘ ڈی ایچ اے راولپنڈی میں اس کا گیارہ کروڑ روپے کا گھر تھا‘ وجیہہ نے وہ مکان اپنے نام ٹرانسفر کرانے کی قانونی کوششیں شروع کر دیں‘ رضوان حبیب مکان بھی نہیں دینا چاہتا تھا اوراس سے رقم بھی اینٹھنا چاہتا تھا ‘ بہرحال قصہ مختصر رضوان حبیب نے اپنی بہنوں کے ذریعے وجیہہ سے رابطہ کیا اورمکان ٹرانسفر کا چکر دے کر اسے پاکستان بلا لیا‘ یہ 16 اکتوبر 2021ء کو اسلام آباد آ گئی‘ رضوان نے اسے ائیر پورٹ سے لیااور لے کر گھرآ گیا‘دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور رضوان نے اسے چھری مار کر اور گلا دباکر قتل کر دیا‘ لاش پیک کی‘ ڈکی میں ڈالی‘ جنڈ پہنچا‘ اپنے والد کو ہنگو سے بلایا‘ لاش اس کے حوالے کی اور گھر واپس آ گیا‘ والد لاش کو خاندانی ملازم سلطان کے گائوںلے گیا‘ دونوں نے سلطان کی بہن کے گھر میں گڑھا کھودا‘ لاش دفن کی اورگائوں واپس چلے گئے‘ وجیہہ کا بڑا بیٹیاعبداللہ والدہ سے رابطے کی کوشش کرتا رہا لیکن اسے والدہ کا فون مسلسل بند ملتا رہا‘ اس نے رضوان کی بہنوں سے رابطہ کیا‘ ان کا جواب تھا ’’تمہاری والدہ ہمارے پاس نہیں آئی‘‘ وجیہہ سواتی نے 22 اکتوبر کو امریکا واپس پہنچنا تھا‘ یہ نہ پہنچی تو عبداللہ نے اپنے وکیل کے ذریعے تھانے میں گم شدگی کی رپورٹ درج کرا دی‘ پولیس نے رضوان کو بلا کر ہلکی سی تفتیش کی اور فائل لپیٹ کر بیٹھ گئی۔ عبداللہ نے عدالت سے رجوع کر لیا‘ جج نے پولیس کو طلب کر لیا‘ پولیس کے پاس تفتیش نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں تھی ‘ جج نے 30 دسمبر تک مجرم کو گرفتار کرکے تفتیش مکمل کرنے کا حکم دے دیا‘ اس دوران امریکی سفارت خانہ بھی متحرک ہو گیا‘ سفارتی اہلکار سی پی او راولپنڈی ساجد کیانی سے ملے ‘یہ انتہائی سمجھ دار اور تجربہ کار پولیس افسر ہیں‘ انہوں نے خود تفتیش شروع کر دی‘ رضوان حبیب کو گرفتار کر لیا گیا‘ یہ تین دن پولیس کی حراست میں رہا‘ اس کے پاس پولیس کے ہر سوال کا جواب تھا‘ ا س چیز نے اسے مشکوک بنا دیا‘ پولیس اس کے والد کو پکڑ کر لے آئی تو اس نے تیسرے دن اپنا جرم قبول کر لیا‘ رضوان نے بتایا‘ میرے والد نے مجھے کہا تھا پاکستان میں 50 ہزار روپے میں کسی کو بھی قتل کرایا جا سکتا ہے‘ تم یہ رقم ادا کرو اور اس سے جان چھڑا لو یوں میں نے وجیہہ کو کر دیا‘ رضوان کی نشان دہی پر لاش برآمد ہوئی‘ آلہ قتل بھی مل گیا اور رضوان کا والد اورملازم بھی گرفتار ہو گئے‘ رضوان نے انکشاف کیا ’’میں قتل کے بعد پولینڈ میں سیاسی پناہ لینا چاہتا تھا‘ میں نے پاسپورٹ بھی بنوا لیا تھا اور پولینڈ جانے کا بندوبست بھی کر لیا تھا لیکن فرار ہونے سے پہلے ہی پکڑاگیا‘‘۔

وجیہہ سواتی کا کیس آج کل میڈیا میں تواتر کے ساتھ ڈسکس ہو رہا ہے‘ پولیس روزانہ کی بنیاد پر تفتیش کر رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں‘ اب تک کی تفتیش سے تین چیزیں سامنے آئی ہیں‘ شادی محبت کی تھی لیکن محبت کا شعلہ سرد پڑ گیا اور میاں بیوی میں ناچاقی تھی‘ خاتون خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی مگر خاوند ہر صورت اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا‘ دوسرا‘ خاوندبیوی کی زمین جائیداد اور رقم ہتھیانا چاہتا تھا‘ یہ ڈی ایچ اے کا گھر بھی اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا اور تیسری وجہ والد نے اسے اکسایا اور یہ نفرت کی رو میں بہتا چلا گیا‘ ملازم سلطان بھی لالچ میں آ گیا اور اس نے لاش کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری اٹھا لی اور یوں خاتون جان سے چلی گئی‘

ہم اگر سردست ان وجوہات کو اصل مان لیں تو سوال پیدا ہوتا ہے خاتون‘ خاوند اور والد نے اس سارے کھیل سے کیا حاصل کیا؟ خاتون اپنی پراپرٹی بچاتے بچاتے جان سے چلی گئی‘ خاوند پراپرٹی کے لالچ میں قتل کے الزام میں گرفتار ہوگیا اوروالدبھی بڑھاپے میں لالچ میں شریک جرم بن گیا‘ یہ دونوں اب سزائے موت اور عمر قید بھگتیں گے اور یہ جس مکان کے لالچ میں اندھے ہو گئے تھے وہ مقدمے بازی کی نذر ہو جائے گا یا پھر اس پر کوئی اور قابض ہو جائے گا چناں چہ پھر کس نے کیا پایا؟ ذلت‘ خواری‘ سزائے موت اور عمر قید! کس کو کیا ملا؟ یہ لوگ اگر اس کے برعکس ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جاتے‘ اپنے تنازعے‘ اپنے ایشوز ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کرتے‘ رضوان حبیب کا والد بزرگ کا کردار ادا کرتا‘ ملازم سلطان قتل کے معاملے میں معاونت سے انکار کر دیتا تو یہ تمام لوگ بچ جاتے‘ خاوند پراپرٹی کی سیٹل منٹ کر کے بیوی کو طلاق دے دیتا‘ بیوی اگر خاوند کومکان دے دیتی تو ٹھیک ورنہ یہ اپنا سامان اٹھاتا اور زندگی کا سفر نئے سرے سے سٹارٹ کر لیتااور بیوی کو اللہ تعالیٰ نے بے تحاشا نوازا تھا‘ یہ اگر مکا ن کی قربانی دے دیتی تو تمام لوگ ذلت اور خواری سے بھی بچ جاتے اور بے مقصد موت سے بھی لیکن انسان کے بارے میں کہتے ہیں یہ جب کسی لالچ اور نفرت کے بھنور میں پھنستا ہے تو پھر یہ پھنستا ہی چلا جاتا ہے‘ یہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا اور یوں یہ آخر میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔ میں بار بار یورپ اور امریکا کی مثالیں دیتا ہوں‘ میرے دوست مجھے یورپ سے مغلوبی کے طعنے بھی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے یورپین زندگی کے اصل حقائق سے واقف ہو چکے ہیں لہٰذا یہ ایسے ایشوز پر ایک دوسرے سے لڑتے نہیں ہیں‘ یہ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کر لیتے ہیں‘ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلینڈا گیٹس کے درمیان 27سال کی طویل رفاقت کے بعد مئی 2021ء میں طلاق ہو گئی‘ یہ تاریخ کی سب سے مہنگی طلاق تھی‘ بل گیٹس کو قانون کے مطابق میلینڈا کو 76بلین ڈالر کے اثاثے دینا پڑگئے‘پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر24بلین ڈالرز ہیں‘ بل گیٹس نے ہم سے تین گنا زیادہ رقم طلاق میں دے دی‘ بل گیٹس بھی اگر چاہتا تو یہ رقم بچا سکتا تھا‘ یہ جاسوس ہائر کر کے بیوی پر الزامات لگا دیتا یا عدالت میں وکلاء کا لشکر کھڑا کر دیتا لیکن اس نے اس کی بجائے طلاق اور رقم دی اور دونوں نے اپنی اپنی چار پائی الگ کر لی‘ یہ اب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور بچوں کو بھی وقت دیتے ہیں بس یہ دونوں میاں بیوی نہیں ہیں‘

اب سوال یہ ہے ان دونوں کو اس ’’بے غیرتی‘‘ کا کیا فائدہ ہوا؟ بے انتہا فائدہ ہوا‘ بل گیٹس مزے سے اپنے کام پر توجہ دے رہا ہے اور میلینڈا پورے فوکس کے ساتھ فائونڈیشن کے کام کر رہی ہے جب کہ یہ اگر دوسرے راستے کا انتخاب کرتے تو یہ عدالتوں کی وجہ سے اس وقت تک پاگل بھی ہو چکے ہوتے اور ان کا کام بھی تباہ ہو چکا ہوتا اور یہ بھی عین ممکن تھا یہ دونوں یا کوئی ایک کیس کے آخر تک خودکشی بھی کر جاتا لہٰذا پھر بہتر کیا ہوا؟میرا آپ کو مشورہ ہے آپ گھریلو تنازعوں کی صورت میں ایک دوسرے کو طلاق دیں‘ رقم اور جائیداد تقسیم کریں ‘ بچوں سے میل ملاقات کا فارمولا طے کریں اور زندگی کے سفر میں آگے کی طرف دوڑ پڑیں‘نفرت اور لالچ میں لڑنے‘ مرنے اور تباہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

میں اکثر لوگوں سے عرض کرتا ہوں آپ جب بھی خودکشی کے بارے میں سوچیں یا کسی کو قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کا فارمولا بنائیں تو عملی قدم اٹھانے سے پہلے کسی کمرے میں اکیلے بیٹھیں اور یہ فیصلہ کریں زندگی اچھی ہے یا زمین جائیداد؟ آپ کا فیصلہ یقینا زندگی کے حق میں ہوگا لہٰذا آپ خود کو زیرو پر لے جائیں‘ آپ سے دوسرا فریق جو بھی مانگتا ہے آپ اسے دے دیں اور زندگی نئے سرے سے سٹارٹ کر لیں‘ ہو سکتا ہے یہ وہ ٹانگ ہو جس سے کبڑے کا کب ٹھیک ہو سکتا ہو‘ آپ نے اگر مرنا ہی ہے تو زندگی کے کنوئیں میں ڈوب کر مریں‘ پھندا لینے کی کیا ضرورت ہے اور اگر دوسرے کو مارنا ہی ہے تو اس سے الگ ہو کر اسے ایک شان دار اور کام یاب زندگی سے ماریں‘ اسے چھری سے مارنے کی کیا ضرورت ہے اور آپ اگر رضوان حبیب کے والد ہیں تو آپ والد کا کردار ادا کریں کرائے کے قاتل کیوں بن رہے ہیں؟ یہ یاد رکھیں دنیا کی ہر چیز دنیا ہی میں رہ جاتی ہے لہٰذا کسی چیز کے لیے خود کو نقصان پہنچائیں اور نہ کسی کا نقصان کریں‘ زندگی ہے تو سب کچھ ہے‘ زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

17/11/2021

پہلا منظر :سمندر میں گھری سرزمین سری لنکا سیاحوں کی جنت تھی قدرتی جھرنوں کی زمین
جنگلی زندگی کے ساتھ خوبصورت چائے کے باغات بدھ کے دانت کا ریلک کینڈی جس کو دیکھنے کے لیے سیاح قریبی ہوٹلز میں ایک رات گزارنے کا کرایہ 56 ڈالر دیا کرتے تھے روسی شہریوں کے لیے سری لنکن ساحل چھٹیاں گزارنے کے لیے اہم مقام ہوتے تھے
اور پھر وہاں بغاوت نے جنم لیا
جنت سے قہرزدہ زمین کا سفر طے کرنے میں چند ہی ہفتے لگے
رنگ و بو سے خون سے نہائی زمین تک...
ہوٹل ویران سیاحت ختم اور سری لنکا کی معیشت تباہ ہو گئ
ویلوپلائی پربھاکرن نے ہزاروں تامل افراد کو اپنے ساتھ شامل کرکے تامل لبریشن ٹائیگرز کے نام سے اپنی ایک فوج بنائی
یہ فوج نیوی اور ایئر فورس پر مشتمل تھی جس کی نیوی کے پاس کچھ لائیٹ بوٹس جن پر گنیں نصب ہوتی ہیں اور اسکی ایئر فورس کے پاس کچھ ہلکے پیمانے کے جنگی طیارے بھی تھے انٹیلی جنس ونگ، خودکش یونٹ سمیت تباہی فوج تھی
لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایم نامی جماعت نے جو مغربی دنیا میں LTTE یا تامل ٹائیگرز کہلاتی ہے اس نے سب سے پہلے کم عمر لڑکے لڑکیوں کو خودکش بمبار کے طورپر استعمال کیا۔
اس تنظیم میں عورتوں کا بھی ایک یونٹ تھا اور ان عورتوں کو فریڈم برڈز کہا جاتا تھا ۔اس طرح عورتوں کو خود کش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کرنے کی ابتداء بھی تامل ٹائیگرزنے کی
ایک لاکھ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا
اس تحریک کو خود کش حملہ آوروں کی بانی تحریک بھی کہا جاتا ہے 9/11سے پہلے 75 فیصد خودکش حملے تامل ٹائیگرز کرتے تھے
اس مقصد کے لیے پانچ ہزار سے زائد بچوں کو بھی اس تنظیم میں بھرتی کیا گیا
کچھ بھی تامل ٹائیگرز کی دست برد سے محفوظ نہیں تھا
جہاں چاہتے اپنے چھاپہ مار کاروائیوں کے ساتھ پہنچ جاتے
سری لنکن صدر کے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم تک انکے لیئے آسان ہدف تھے
تامل ٹائیگرز نے نہ صرف سری لنکا کے لاتعداد اعلیٰ عہدیداروں وزیر خارجہ لکشمن کدریکمار، وزیر دفاع رنجن انتے سمیت صدر پریما داسا تک کو قتل کیا بلکہ بھارت میں 1991 میں موجودہ مدراس (چنائی) میں گانگرس کے امیدوار برائے لوک سبھا کی انتخابی مہم میں شریک راجیو گاندھی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیاخودکش جیکٹ پہنے ایل ٹی ٹی ای کی تربیت یافتہ ایک خاتون نے ان کے قریب جا کر خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا
تامل ٹائیگرز نے عورت مرد بچے ہر ایک کو اپنے مزموم مقاصد کے لیے استعمال کیا

بیرون ملک رہنے والے تامل اور ہندوستان اس تنظیم کو بھاری عسکری اور مالی تعاون مہیا کر رہا تھا ، بہت سے موقعوں پر سری لنکن حکومت اور تامل ٹائیگرز کے درمیان اگر کسی بات پر مذاکرات ہوتے تو ہندوستان ان مذاکرات میں بطور تیسرے فریق کی حیثیت موجود ہوتا۔اور مذاکرات ناکام ہو جاتے
یاد رہے کہ بھارت میں 495 ایل ٹی ٹی ای باغیوں کو تربیت دینے کے لئے 32 کیمپ لگائے گئے تھے ، جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں جن کو 10 بیچوں میں تربیت دی گئی تھی۔
ناروے کی جانب سے تامل ٹائیگرز کے ساتھ دوہزار دو سے دوہزار آٹھ تک وقتاً فوقتاً مذاکرات ہوتے رہے، مگر جنوری دوہزار آٹھ کو پانچ سال تک ہونے والے مذکرات بغیر نتیجے کے ختم ہوگئے
مذاکرات کی بار بار ناکامی کے بعد سری لنکن حکومت نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور خونی لڑائی لڑنے کی تیاری کر لی زرائع ابلاغ پر ٹائیگرز حملوں میں فوجیوں کے مارے جانے کی خبریں عوام تک پہنچانے پر پابندی لگا دی گئی
سری لنکا نے اس تنظیم سے لڑنے کے لیے اسرائیل چین کے علاوہ بارہ ملین پاؤنڈ کے ہتھیار برطانیہ سے خریدے
امریکہ نے سری لنکن حکومت کو سات ملین ڈالر کی امداد دی
پاکستان نے کولمبو کو دفاعی تعاون اور بڑے پیمانے پر جدید دفاعی آلات کی فراہمی اور تامل ٹائیگرز کا سر کچلنے میں عملی مدد دی

درجنوں ممالک کے تعاون کے بعد سری لنکن حکومت نے ایک ساتھ ٹائیگرز کے خلاف مختلف جگہ محاذ کھول دیئے آغاز میں ہی تامل ٹائیگرز کے بہترین سینئر کمانڈر مار دیئے گئے تھے
اس جنگ کے دوران اکتوبر 2008 ء سے 2009 ء مئی تک دو لاکھ 73 ہزار سے زائد افراد نے سری لنکا سے نقل مکانی کی

سری لنکن فوج کے تمام تر جانی نقصان کو چھپا لیا گیا سری لنکن فوج کی فتوحات کی خبروں کی وجہ سے تاملوں کے بہترین کمانڈر خودکشیاں کرنے لگے سب سے پہلے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے انٹیلی جنس چیف پوتو امان اور بحری یونٹ کے سربراہ سوسائی خود کو گولیاں مار کر خود کشی کر لی لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے لیڈر پربھاکرن کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے لے جایا جارہا تھا، تب وہ ایمبولنس سے بھاگنے کی کوشش میں مارے گئے
اب یہاں سوال کے تامل ٹائیگرز کا صفایا تو ہو چکا تھا پھر تامل ٹائیگرز کی بقایا جات کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کیا گیا
کیونکہ جنگوں سے لیڈر شپ ختم ہوتی ہے تحریکیں یا بغاوت ختم نہیں ہوتی
جب تک ایک بھی باغی زندہ ہو بغاوت بار بار جنم لیتی ہے
اس جنگ کے بعد تامل ٹائیگرز کے 11،664 ارکان ، بشمول 595 بچے فوجی سری لنکن فوج کے سامنے ہتھیار ڈال گئے تھے۔ لگ بھگ 150 کٹر ایل ٹی ٹی ای کیڈر اور ایک ہزار درمیانی سطح کے کارکن ہندوستان فرار ہوگئے تھے ۔
سیلویرسا پاٹمناتھن (عرف) کے پی) زندہ رہ گیا اس کی پہلی نسل کا واحد رہنما تھا۔ اس نے 21 جولائی 2009 کو تامل ٹائیگرز کے نئے رہنما کی حیثیت سے ڈیوٹی سنبھال لی
سری لنکن حکومت نے ان تامل ٹائیگرز اور ہزاروں بھاگے فوجیوں اور ہندوستان فرار ہوے جگنجووں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے معاہدہ کیا نیشنل ایکشن پلان کے تحت جعفنا ، بٹیکلوا اور واونیا میں چوبیس بحالی مراکز قائم کیے
8،000 سے زیادہ ٹائیگرز کو رہا کیا
معاہدے کے ساتھ انھیں سری لنکن آئین کے تابع کر دیا گیا
دوسرا منظر:
جنت نظیر وادیوں، قدرتی چشموں ، جنگلی زیتون چلغوزے، اخروٹ، چیر اور دیار کے گھنے جنگلات کے پر مشتمل جنوبی وزیر ستان یہاں کی خوبصورتی کو دیکھ کر پرستان کا گمان ہوتا تھا
ایکدم سے ہمسائے میں لگی آگ کا شکار ہو گیا

افغانستان کی معاشی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے ڈیورینڈ لائن کا کبھی بھی دفاع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کیونکہ دونوں اطراف کی پشتون آبادی رشتہ داریوں میں بندھی تھی اور افغانیوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کاروباری سلسلے میں آتی جاتی تھی

9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ 26ممالک کی افواجNATO کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو افغانستان سے بڑی تعداد میں القاعدہ کے دہشتگردوں نے جن میں بڑی تعداد ازبک باشندوں کی تھی نے وزیر ستان میں پناہ لے لی مقامی آبادی سے پیسے کے عوض پناہ گاہیں حاصل کی گئ
زیر ِزمین خندقیں اور پہاڑوں میں سرنگیں کھود کر اسلحہ کے بے پناہ ذخائر جمع کیے گئے
یہاں انھیں تحریک طالبان پاکستان کی حمایت اور شیلٹر حاصل تھا
کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہوں کا اکٹھ تھا جنھوں نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے تھے
پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جانے لگا
تحریک طالبان پاکستان کے ہیڈ کوارٹر قبائلی علاقوں میں تھے جبکہ ان کے سہولت کار پاکستان کے طول و عرض میں چھپے ہوئے تھے جن کے مذموم مقاصد فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پرحملے اور صرف دہشت گردی تھی چنانچہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں کو بلاتفریق نشانہ بنایا گیا۔
مساجد، چرچ، مندر، مزار، ہسپتال اور درسگاہیں ان کے نشانے پر تھیں۔ معصوم انسانوں کو جاسوسی اور بغاوت کا الزام لگا کر سر بازار ذبح کیا گیا۔ چوکوں میں لاشیں لٹکا دی جاتی حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے 2002 میں آپریشن المیزان شروع کیا گیا جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا جڑ سے خاتمہ کر کے اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک اور پُر امن بنا دیا

لیکن دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سوات میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا مقامی آبادی کو شریعت محمدی کے نام پر گمراہ کیا جانے لگا لیکن مقامی آبادی کو بھی ادراک ہو گیا کہ تحریک نفاذ شریعت محمدیۖ کے نام پر اِن کو بیوقوف بنایا گیا ہے اور دہشتگردوں کا مطمع نظر صِرف پُر تشدد کارروائیاں، طاقت کا حصول اور وسائل پر قبضہ ہے۔
2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں ایسے مذہبی مہم جو افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں طالبان کے سہولت کار بنے
سوات میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب 75 فیصد سوات پر ٹی ٹی پی کا قبضہ تھا
ان حالات میں فوج نے آپریشن راہ حق شروع کیا
فوج نے بہترین حکمتِ عملی اختیار کی جو شاید ہی دنیا میں کہیں بھی اپلائی کی گئی ہو۔ گنجان آباد علاقے دہشتگردوں کی پناہ گاہیں تھیں جس کی وجہ سے وہاں آپریشن کرنا فوج کے لئے انتہائی دُشوار تھا چنانچہ کمال مہارت سے 3ملین کی آبادی کے لئے نیا شہر بسا کر مینگورہ اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کو وہاں منتقل کیا گیا۔
افواج پاکستان نے یہاں قربانیوں اور شجاعت کی بے مثال داستانیں رقم کی آپریشن راہ حق اور راہ راست کے زریعے یہاں دہشت گردوں کا صفایا کیا
ٹی ٹی پی کے سینکڑوں دہشت گرد مارے گئے ان کی ایک بہت بڑی تعداد شمالی وزیرستان کی طرف بھاگی شمالی وزیرستان وہ علاقہ تھا یہاں سے ٹی ٹی پی کے ملک بھر میں تمام آپریشن اور کارروائیاں یہیں سے کنٹرول ہو رہی تھیں۔
سادہ لوح نوعمر لڑکوں کو جنت کی ترغیب دیکر ملک میں آئے روز خود کش حملے کروائے جا رہے تھے جس میں سینکڑوں جانوں کا ضیاع ہو چکا تھا
چنانچہ ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا
15 جون 2014 کو ضربِ عضب آپریشن کا آغاز ہوا۔ سوات آپریشن والی اسٹریٹجی اپنی بھرپور کامیابی کے باعث یہاں بھی دہرائی گئی مقامی لوگوں کے لئے بنوں کے گرد و نواح میں خیموں کا ایک وسیع شہر آباد کیا گیا انھیں راشن اور سہولیات میسر کی گئیں
72 ہزار خاندانوں کی کفالت انتہائی مشکل امر تھا جو بخیر و خوبی انجام پایا
پاک فوج نے اس دشوار گزار علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی
پاک فوج نے اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد یہاں تعمیر نو شروع کی
صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر، مواصلات، امن و امان، سکیورٹی اور سیاحتی شعبوں پہ خصوصی توجہ دی جدید مارکیٹیں، ہسپتال،سکول، کیڈٹ کالجز تعمیر کئیے لوگوں کو اس امن کی فضا میں دوبارہ آباد کیا
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں آپریشن راہ نجات سے لیکر آپریشن ردالفساد تک فوج کے 8 ہزار کے قریب جوانوں اور ہر رینک کے افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا
ان آپریشنز میں 18 ہزار دہشت گرد ہلاک کئیے گئے 1100 القاعدہ کے دہشت گرد مارے گئے
ٹی ٹی پی کا ملک بھر سے صفایا کیا گیا
نیٹو اور ISAF کے بینر تلے40 ممالک کی فوج تھی جو ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس تھیں مگر طالبان کے سامنے بے بس تھیں جبکہ ادھر پاک فوج نے اپنے زورِ بازو اور اللہ کی نصرت سے گوریلا وار کے ماہر اور سخت جان دہشت گردوں کی کمر توڑی
پاک فوج نے ٹی ٹی پی کو عملی طور پر شکست دی انھیں پاکستان میں کہیں جائے پناہ نہ ملی آج ان کے قبضے میں کوئی ایک پہاڑ یا کسی گاؤں کی ایک گلی تک نہیں
ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو اپنی لیڈرشپ سمیت مارے گئے ٹی ٹی پی کی باقیات افغانستان فرار ہو گئں
اب پھر سوال کے جب ہم شکست دے چکے تو ان باقیات سے معاہدہ کیوں کیا جائے؟؟؟
یہاں جواب تامل ٹائیگرز اور سری لنکا کا پہلا منظر ہے کہ جب سری لنکا نے تامل ٹائیگرز جسی 30 دہائیوں سےجنگ لڑنے والی قوت کا خاتمہ کر دیا تھا تو سری لنکا کو باقیات سے امن معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی
کیونکہ جب تک ایک بھی فسادی زندہ ہو فساد کا خطرہ قائم رہتا ہے ناسور ختم کرنے کے بعد زخم سینے کی حاجت قائم رہتی ہے

افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد امن ہے ٹی ٹی پی کے وہ گروہ جو پاکستان کے آئین کے سامنے سرنڈر کرنا چاہتے ہیں ہتھیار ڈال کر آئین پاکستان کے تابع ہونا چاہتے ہیں انھیں ری ہیبلیٹیشن کے پراسس سے گزارہ جانا چاہیے
پاکستان نے ایک طویل جنگ لڑی ہے اور فتح پائی ہے اور فاتح کے طور پر پاکستان کو ہتھیار ڈالنے والوں کو راستہ دینا چاہیے
فساد کے سامنے بند باندھنا بہترین حکمت عملی ہے
تحریر :حجاب رندھاوا

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Column urdu noma posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share