Zohaib Tahir Khan

Zohaib Tahir Khan Program Host “Awami Rai @ 7 News | Award winning Broadcast Journalist | V. President Young Media Association | CEO RISE TV |
(4)

Program Host “Awami Rai @ 7 News | Award winning Broadcast Journalist "Samaa Ka Shahkaar" | V. President Young Media Association | CEO RISE TV | Educationist | CEO Rise Schools

لاہور پریس کلب کے انتخابات میں اپنے فورم “پاکستان یونائیٹڈ جرنلسٹس PUJ” کے چیئرمین رانا خالد قمر اور صدر سید فرزند علی ک...
12/18/2024

لاہور پریس کلب کے انتخابات میں اپنے فورم “پاکستان یونائیٹڈ جرنلسٹس PUJ” کے چیئرمین رانا خالد قمر اور صدر سید فرزند علی کی قیادت میں صدر ارشد انصاری صاحب اور سینئر جرنلسٹ امجد عثمانی صاحب کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے، ہم اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور پریس کلب کی ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گے۔


12/15/2024

عوام حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور حکومت عوام کی رائے کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ پھر یہ نظام آخر کس طرح چل سکتا ہے
؟

رجب علی خود “بٹ” ہے لیکن اسکا والد “بھٹی” ہے۔بھائی یہ کیا گڑبڑ ہے؟ کچھ سمجھے؟
12/15/2024

رجب علی خود “بٹ” ہے لیکن اسکا والد “بھٹی” ہے۔
بھائی یہ کیا گڑبڑ ہے؟ کچھ سمجھے؟

“پسے ہوئے طبقے کے سرخرو ہونے کا موقع“صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو معاشرتی شعور کی آبیاری میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ صحاف...
12/13/2024

“پسے ہوئے طبقے کے سرخرو ہونے کا موقع“

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جو معاشرتی شعور کی آبیاری میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ صحافی وہ آنکھ ہیں جو معاشرے کی حقیقتوں کو دیکھتی ہیں اور وہ زبان ہیں جو ان حقیقتوں کو بیان کرتی ہیں۔ لیکن یہ آنکھ اور زبان خود کس حال میں ہیں؟ یہ ایک سوال ہے جو ہمیشہ نظرانداز ہوتا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں صحافیوں کو نہ صرف پیشہ ورانہ چیلنجز بلکہ معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے، ان کے حالات زوال پذیر ہیں۔ حال ہی میں مریم نواز نے صحافیوں کو پلاٹ دینے کا اعلان کیا، جسے کئی حلقوں نے ایک مثبت قدم قرار دیا۔ اس اقدام کا مقصد ان صحافیوں کو چھت فراہم کرنا ہے جو معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ بظاہر یہ اقدام صحافیوں کی بہبود کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن کیا یہ واقعی مسائل کا حل ہے یا محض ایک وقتی سہارا؟ پاکستان کی صحافت کی تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس شعبے کو ہمیشہ دباؤ اور استحصال کا سامنا رہا ہے۔ حکومتوں نے اکثر صحافیوں کو مراعات دینے کے نام پر ان کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ماضی میں بھی مختلف ادوار میں صحافیوں کو پلاٹ، وظائف اور دیگر سہولیات دینے کی روایات موجود رہی ہیں، لیکن ان کا نتیجہ زیادہ تر آزادی صحافت کو محدود کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔ سابقہ نگران حکومت کے دور میں متعارف کردہ پلاٹ سکیم، جس میں فوٹوگرافرز اور کیمرہ مین کو تین مرلہ جبکہ رپورٹرز کو سات مرلہ پلاٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا، بظاہر صحافی برادری کی فلاح کے لیے تھی، لیکن حقیقت میں یہ سکیم غیر قانونی اور من پسند افراد کو نوازنے کا ذریعہ بن گئی۔ نہ تو نگران حکومت کو ایسی مراعات دینے کا قانونی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی “روڈا” کے پاس اس طرح کی بندر بانٹ کرنے کا کوئی جواز تھا۔
یہ سکیم کمیونٹی اور کلب ممبران کے حقیقی مفاد کے برعکس تھی، اور اس وقت اسے خوش آمدید کہنے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ “بندر بانٹ سکیم” استحصالی ہے۔ اب وہی عناصر حقیقی اور شفاف سکیم کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔اس کے برعکس، لاہور پریس کلب کے موجودہ اور ایور گرین صدر ارشد انصاری اور ان کی کابینہ نے دانشمندی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی سکیم کو پنجاب جرنلسٹ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ذریعے لاگو کیا۔ اس عمل نے نہ صرف استحصالی رویوں کا خاتمہ کیا بلکہ “پلاٹ فار آل” کے نعرے کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا۔ اب کوئی حقیقی صحافی محروم نہیں رہے گا، اور یہ سکیم مکمل طور پر غیر سیاسی اور منصفانہ انداز میں لاگو ہو رہی ہے۔ یہ سکیم بظاہر تو حکومت پنجاب کی جانب سے فراہم کی جا رہی ہے، لیکن اس کا طریقہ کار جمہوری اور اصولی ہے۔ کلب کی قیادت نے مدبرانہ فیصلے اور شفافیت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ایک ایسی روایت قائم کی ہے جو ماضی کی سیاست زدہ پالیسیوں سے یکسر مختلف ہے۔ تاہم، اپوزیشن کے مخصوص حلقے اس اقدام کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی تنقید کا مقصد اس منصوبے کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور صحافیوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا ہے۔ لیکن لاہور پریس کلب کے ممبران نے بڑی تعداد میں فارم وصول کر کے اس پروپیگنڈے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اب مستقبل قریب میں انہی دفن شدہ پروپیگنڈوں کے اوپر صحافی کالونی فیز ٹو کی بارونق سڑکیں تعمیر ہوں گی، اور صحافی برادری ایک پرامن اور خوبصورت مسکن میں زندگی گزارے گی۔ تین ہزار کے قریب خاندانوں کو باعزت طریقے سے چھت فراہم کرنے کا یہ حکومتی منصوبہ قابل تحسین ہے، اور ہمیں چاہیے کہ اس کے عملی نفاذ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے اس کا حصہ بنیں۔
لاہور پریس کلب کی سیاست کو تعفن زدہ ملکی سیاست سے پاک رکھنا ہی ہم سب کے مفاد میں ہے۔ خدارا، ہوش کے ناخن لیں اور اپنی برادری کے پسے ہوئے طبقے کو اپنے خاندانوں کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع دیں۔ یہ سکیم صرف ایک رہائشی منصوبہ نہیں بلکہ صحافیوں کے لیے ایک نئی امید اور اعتماد کی علامت ہے، جو ثابت کرتی ہے کہ نیک نیتی اور شفافیت کے ذریعے بڑی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ صحافت کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، ایسے اقدامات ہی اس شعبے کو مزید مضبوط اور خودمختار بنا سکتے ہیں۔

عوامی خدمت کے دعوے اور حقائق کا آئینہایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عوام کے سامنے یہ سوال رکھا کہ “آج سے قب...
12/09/2024

عوامی خدمت کے دعوے اور حقائق کا آئینہ

ایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عوام کے سامنے یہ سوال رکھا کہ “آج سے قبل عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیوں نہیں ہوا؟” یہ سوال بظاہر ایک عام عوامی شکایت معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر اس کے گہرے مطلب پر غور کیا جائے تو یہ سوال درحقیقت ان کے اپنے خاندان اور جماعت کی حکمرانی پر براہ راست تنقید ہے۔ مریم نواز نے اس بیان کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے ان کے سیاسی مخالفین ہی عوامی مسائل کے ذمہ دار ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اس صوبے پر کئی دہائیوں تک حکمرانی کی ہے اور عوام کو درپیش مسائل کے اصل ذمہ دار خود وہ ہیں۔

نواز شریف نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1981 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا، جب وہ پنجاب کی کابینہ میں بطور وزیر خزانہ شامل ہوئے۔ ان کی سیاسی سرپرستی گورنر غلام جیلانی خان اور ضیاء الحق نے کی، جس نے ان کے سیاسی سفر کو استحکام دیا۔ بعد میں وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بھائی شہباز شریف نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر سب سے زیادہ وقت گزارا، جبکہ ان کے بھتیجے حمزہ شہباز بھی مختصر عرصے کے لیے یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ مجموعی طور پر، مسلم لیگ (ن) نے تقریباً تین دہائیوں تک پنجاب میں حکمرانی کی، لیکن عوامی فلاح و بہبود کے شعبے ہمیشہ ان کے ایجنڈے کے حاشیے پر رہے۔ تعلیم کا شعبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہمیشہ نظر انداز ہوا۔ سرکاری اسکولوں کی حالت خستہ ہے، وسائل کی کمی اور ناقص پالیسیوں نے اساتذہ اور طلبہ کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اسکولوں کی نجکاری نے نہ صرف تعلیم کا معیار مزید گرا دیا ہے بلکہ غریب طبقے کے لیے معیاری تعلیم کو ناقابل رسائی بنا دیا۔ اساتذہ اپنی تنخواہوں اور مراعات کے لیے بارہا احتجاج کرتے رہے، لیکن ان کی شکایات پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ صحت کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار رہا۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو بنیادی طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ دوائیوں کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کی کمی اور ہسپتالوں کی خراب حالت عوامی صحت کے نظام کی ناکامی کی واضح مثالیں ہیں۔ شہباز شریف کے ترقیاتی دعوے محض نمائشی منصوبوں تک محدود رہے اور عوام کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ امن و امان کی صورتحال بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں خراب رہی۔ اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا، اور پولیس کا نظام سیاسی دباؤ اور کرپشن کے باعث غیر مؤثر ثابت ہوا۔ عوام خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے رہے، لیکن حکومت نے ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے نمائشی اقدامات پر توجہ مرکوز رکھی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومتی پالیسیوں میں ہمیشہ بڑے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی گئی، جیسے موٹرویز، میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین، لیکن عوامی فلاح و بہبود کے بنیادی شعبوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، لیکن ان کے فوائد سے صرف مخصوص طبقے ہی مستفید ہو سکے۔ دیہاتی اور پسماندہ علاقے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ مریم نواز کے حالیہ بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر تنقید کے ذریعے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن ان کے الفاظ خود ان کی جماعت کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے تین دہائیوں تک حکومت کی، تو عوام کے مسائل کیوں جوں کے توں ہیں؟ عوام کو صحت، تعلیم اور امن و امان کے شعبوں میں بنیادی سہولیات فراہم کیوں نہیں کی گئیں؟ ان تمام سوالات کا جواب دینے کے بجائے مریم نواز نے ان مسائل کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عوام جذباتی نعروں اور نمائشی دعووں کے بجائے حقیقی مسائل پر غور کریں۔ ووٹ کے ذریعے ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ حکمرانی صرف بڑے منصوبے بنانے کا نام نہیں بلکہ عوام کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ عوامی شعور ہی وہ قوت ہے جو ملک کو ان نمائشی سیاست دانوں سے نجات دلا سکتی ہے۔

کیا سیاسی جماعتیں بااختیار ہیں؟
12/04/2024

کیا سیاسی جماعتیں بااختیار ہیں؟

لاہور: فضائی آلودگی کے باوجود دھواں چھوڑتی گاڑیاں سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہی ہیں۔ (تصویر: زوہیب طاہر خان)
11/30/2024

لاہور: فضائی آلودگی کے باوجود دھواں چھوڑتی گاڑیاں سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہی ہیں۔ (تصویر: زوہیب طاہر خان)

یہ زمین ہے یا تختہ مشق؟چھبیس نومبر کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والا میرا کالم
11/28/2024

یہ زمین ہے یا تختہ مشق؟
چھبیس نومبر کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والا میرا کالم

11/28/2024

جیو کو احتجاج کے حوالے سے کچھ نشر نہ کرنے کا حکم تھا، حامد میر

11/27/2024

‏کسی پارٹی کے اندرونی معاملات پر بحث نہیں کرنا چاہتا، آج کے حالات 8 فروری کے الیکشن کی وجہ سے ہیں، ہمارے اداروں کو الیکشن سے دور رہنا چاہیئے، مولانا فضل الرحمان

11/26/2024

اسلام آباد میں پُرامن مظاہرین کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، شہید کیے گئے 8 کارکنوں کے کوائف آچکے ہیں، ترجمان تحریک انصاف

یہ زمین ہے یا تختہ مشق؟کالم  26 نومبر 2024  زوہیب طاہر خان ملک کی سڑکیں آج ایک عجیب منظر پیش کر رہی ہیں۔ جگہ جگہ کنٹینرز...
11/26/2024

یہ زمین ہے یا تختہ مشق؟

کالم 26 نومبر 2024 زوہیب طاہر خان

ملک کی سڑکیں آج ایک عجیب منظر پیش کر رہی ہیں۔ جگہ جگہ کنٹینرز، روڈ بلاکس، اور جلسے جلوس۔ شاہراہیں سنسان، بازار ویران، اور دن رات کی چہل پہل ایک گہرے سکوت میں بدل چکی ہے۔ یہ احتجاج، ہڑتالیں اور جلسے سیاسی جماعتوں کے لیے طاقت کا مظاہرہ ہو سکتے ہیں، مگر بابا جمیل جیسے لاکھوں محنت کشوں کے لیے یہ ایک بھیانک خواب بن جاتے ہیں۔ بابا جمیل ایک عام مزدور ہے، جو پاکستان کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ شاہ عالم لاہور میں دن بھر سامان کی لوڈنگ کرتا ہے۔ اس کی روزی روٹی انہی گلی کوچوں سے جڑی ہے جہاں آج کنٹینر کھڑے ہیں۔ مارکیٹ سنسان ہے، ٹرانسپورٹ بند ہے، اور بابا جمیل جیسے لوگ خالی جیب گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ آج وہ فکر مند ہے کہ شام کے کھانے کا بندوبست کیسے ہوگا؟ اس کے بچے، جو اس کے ہاتھ میں کچھ کھانے کی چیز دیکھنے کے عادی ہیں، آج اس کی خالی جھولی دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ بابا جمیل کی آنکھوں میں بے بسی ہے، اور دل میں یہ سوال کہ یہ سب کس کے لیے ہو رہا ہے؟ یہ صرف بابا جمیل کی کہانی نہیں، بلکہ لاکھوں مزدوروں، دیہاڑی داروں اور چھوٹے دکانداروں کا حال بھی یہی ہے۔ رحمت علی، ایک اور مزدور، جو روز کی دیہاڑی پر انحصار کرتا ہے، ایک دن ہڑتال کی وجہ سے اپنی بیمار ماں کو وقت پر دوائی نہ دے سکا۔ چند گھنٹوں کی تاخیر نے اس کی ماں کی زندگی چھین لی۔ اس ہڑتال نے کس کا بھلا کیا؟ کیا یہ انصاف کی جدوجہد تھی یا ظلم کی ایک اور شکل؟

مارکیٹ کے ایک کونے میں بیٹھے غلام دین سبزی فروش کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ اس کے تازہ پھل اور سبزیاں، جو دو دن پہلے سونے کے مول بِک رہے تھے، آج سڑکوں کی بندش کے باعث خراب ہو چکے ہیں۔ نقصان صرف اس کا نہیں ہوا، بلکہ ان خاندانوں کا بھی ہوا جو ان سبزیوں پر منحصر تھے۔ معاشرتی نقصان کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ذرا غور کریں، ان بندشوں اور احتجاجوں سے ملک کی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر۔ صنعتیں، جو پہلے ہی توانائی بحران اور مہنگائی کا شکار ہیں، ان ہڑتالوں کے باعث بند پڑی ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، جو مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، مزید نقصان اٹھا رہے ہیں۔ وہ چھوٹا دکاندار، جو اپنے بچوں کی تعلیم اور روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے، آج اپنی خالی جیب کے ساتھ کسی جواب کے بغیر بیٹھا ہے۔ یہ سوال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ احتجاج کا یہ طریقہ کس حد تک درست ہے؟ عوام کی مشکلات بڑھا کر کیا ہم انصاف کی جدوجہد کر رہے ہیں یا مزید بے انصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ ہڑتالوں سے معیشت کو پہنچنے والا نقصان کس کی جیب سے پورا ہوگا؟ ان دنوں میں بند فیکٹریوں، خالی دکانوں، اور رکتی ہوئی مشینوں نے صرف غریب کی زندگی کا پہیہ جام کیا ہے۔ حکومت وقت کو بھی اپنے اقتدار کی طوالت یا مضبوطی کے لیے کچے فیصلوں سے پرہیز کرنا ہوگا۔ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا بھوت سر سے اتارنا ہوگا، اور عوامی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ دوسری طرف، اپوزیشن کو بھی اپنی سیاست کے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا۔ طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے عوامی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
یہ احتجاج، یہ جلسے، اور یہ ہڑتالیں شاید طاقتوروں کے لیے ایک کھیل ہوں، مگر اس کھیل کے مہروں میں سب سے زیادہ متاثر غریب عوام ہوتے ہیں۔ کیا ہم ان کا درد سمجھ سکتے ہیں؟ کیا کبھی کسی سیاستدان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس مزدور سے پوچھا ہے کہ اس کی دیہاڑی کیوں نہیں لگی؟ کیا کسی نے غور کیا کہ ان بندشوں کی وجہ سے ایک بیمار کو وقت پر دوا کیوں نہ ملی؟
سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کی ترقی صرف نعروں یا طاقت کے مظاہروں سے ممکن نہیں، بلکہ عوامی فلاح اور مسائل کے حل سے جڑی ہے۔ کیا جلسے جلوس اور شاہراہوں کی بندش کے بغیر بھی احتجاج کے بہتر طریقے ممکن نہیں؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ عوام کے بنیادی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آواز بلند کی جائے؟ بابا جمیل آج بھی خالی ہاتھ گھر لوٹ رہا ہے۔ اس کی بیوی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے، بچے بھوکے ہیں، اور شام کا اندھیرا اس کے دل میں مزید بے بسی بھر رہا ہے۔ کیا ہم اس کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس احتجاج کی سیاست کو ایک تعمیری راستہ دے سکتے ہیں؟ یہ سوال صرف بابا جمیل کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سوچنا ہوگا۔ وگرنہ یہ زمین کنٹینروں کی سرزمین بن جائے گی، اور بابا جمیل جیسے بے شمار لوگ اپنے خوابوں سمیت ان سڑکوں پر دفن ہو جائیں گے۔

*ٹائپنگ کی غلطی یا فکری غفلت؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا شاہی فتوی*اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کی بنیادی ذمہ داری...
11/24/2024

*ٹائپنگ کی غلطی یا فکری غفلت؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا شاہی فتوی*

اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کی بنیادی ذمہ داری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قوانین کی تشریح اور جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ان کا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی کے ایک غیر متوازن بیان نے اس ادارے کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ وی پی این کو “حرام” قرار دینے کا ان کا بیان نہ صرف غیر سنجیدہ معلوم ہوا بلکہ علمی، قانونی، اور عوامی حلقوں میں ایک تنازع کو جنم دے گیا۔ ڈاکٹر راغب نعیمی جیسی علمی شخصیت سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی فتویٰ یا بیان سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر گہرائی سے غور کریں گے۔ لیکن یہ بیان ان کے علمی مقام کے برعکس تھا، اور یوں محسوس ہوا کہ یہ ان کی جانب سے نہیں بلکہ کسی “بڑے بونگے” کی طرف سے صادر کیا گیا تھا، جسے انہوں نے “شاہ کی وفاداری” کے “بہترین ثبوت” کے طور پر نہ صرف من و عن قبول کر لیا بلکہ اس “شاہی فتویٰ” کو جاری کرنا اپنے لیے اعزاز بھی سمجھا۔ یہ عمل ایک آئینی ادارے کے سربراہ کے شایان شان نہیں، اور اس سے ادارے کی خودمختاری اور مقصدیت پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دقیانوسی اور غیر عملی فتویٰ ان کے ساتھ ساتھ ان کے “آقاؤں” کے گلے پڑ گیا۔ عوامی و علمی حلقوں نے ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے غیر منطقی، غیر متوازن اور عصر حاضر کے تقاضوں سے لاعلمی کا مظہر قرار دیا۔ جب عوامی دباؤ میں اضافہ ہوا تو چھ دن بعد وضاحت دی گئی کہ یہ “ٹائپنگ کی غلطی” تھی۔ پھر اس پر مزید سوال یہ اٹھتے ہیں کہ “ٹائپنگ کی غلطی” پکڑنے میں چھ دن اور سینکڑوں ماہرین اور کروڑوں عوام کی مدد کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیا اتنے بڑے آئینی ادارے میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو پروف ریڈنگ کر سکتا؟ لیکن پروف ریڈنگ وہاں ہوتی ہے جہاں غلطی ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہ غلطی تھی اور نہ لاعلمی، بلکہ “مستی” تھی جو ذمہ داری کے فقدان کی عکاسی کرتی ہے۔ پھر اسی “مستی” کے اٹھتے طوفان کو تھمانے کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا وہ ممبران بنے جنہوں نے اپنے ادارے کی ساکھ کو بچانے اور مستقبل میں ان الجھنوں کو دور کرنے کے لیے کسی بھی معاملے پر اعتدال پسندی اور شریعی اصولوں کے مطابق علماء کی رہنمائی میں فیصلہ کرنے کی رائے دی۔ جسٹس (ر) ابراہیم الطاف قریشی، ڈاکٹر عزیر محمود الازہری، مفتی محمد زبیر و دیگر ممبران نے اپنے موقف میں رہنمائی کر کے “مستی” کی اٹھتی دھول کو تھمایا اور آئندہ کے لیے بھی “چیئرمین اور ان کے شاہوں” کو آئینہ دکھایا کہ شرعی اصولوں پر ان کی حدود و قیود کیا ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں مختلف علما اور ماہرین نے اس مسئلے پر تبادلۂ خیال کیا۔ اراکین نے وی پی این کے مسئلے پر ایک مدلل اور اعتدال پسند مؤقف پیش کیا۔ ڈاکٹر عزیر محمود الازہری نے کہا کہ کسی بھی آلے یا ٹیکنالوجی کو کلیتاً حرام قرار دینا نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ فقہی اصولوں کے خلاف بھی ہے۔ ان کے مطابق، وی پی این کا استعمال اگر جائز مقاصد کے لیے کیا جائے، جیسے پرائیویسی کا تحفظ، تحقیق کے لیے بلاک شدہ مواد تک رسائی، یا ایسے افراد کی مدد کرنا جو سینسرشپ کے باعث مشکلات کا شکار ہیں، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات مستحب بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر وی پی این کا استعمال غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمیوں، جیسے فحش مواد تک رسائی، توہینِ رسالت یا توہینِ صحابہ، یا دہشت گردی کے لیے ہو، تو یہ یقیناً حرام ہوگا۔ تاہم، تمام حالات میں اس پر پابندی عائد کرنا یا اسے حرام قرار دینا فقہی اعتبار سے درست نہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اسلام کے اصول ایسے ہیں جو ہر معاملے کو اس کے مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ دیکھتے ہیں، اور کسی چیز کو حرام یا جائز قرار دینے کے لیے اس کے مکمل پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے۔ علما نے مزید کہا کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کو کلیتاً حرام قرار دینا فقہی اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر وی پی این کا استعمال غیر اخلاقی یا غیر قانونی مقاصد کے لیے کیا جائے تو یقیناً یہ ناجائز ہوگا، لیکن اس پر مکمل پابندی کا فتویٰ عوام میں الجھن پیدا کرتا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اجلاس میں موجود علما نے نہ صرف اس معاملے کو سنبھالا بلکہ آئندہ کے لیے واضح اصول بھی وضع کیے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم ادارے کو اپنے بیانات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور حساس معاملات پر رائے دینے سے پہلے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما نے یہ تجویز دی کہ جدید دور کے مسائل پر فتاویٰ جاری کرنے کے لیے دینی علما کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے مشاورت کی جائے تاکہ عوام کے لیے رہنمائی کے عمل کو زیادہ متوازن اور قابلِ عمل بنایا جا سکے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنی اندرونی ساخت اور ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ ادارہ عوامی رہنمائی کے لیے قائم کیا گیا تھا، نہ کہ شاہی احکامات کی تکمیل کے لیے۔ چیئرمین جیسے عہدے پر موجود افراد کو اپنے فرائض کو سمجھنے اور عوامی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اپنے بیانات میں احتیاط اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کونسل اراکین کی جانب سے اس تنازعے کو سنبھالنے کی کوشش اس بات کی غماز ہے کہ اس ادارے میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اس کی ساکھ کو بچانے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ تاہم، مستقبل میں ایسے تنازعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ادارہ اپنے فیصلوں میں زیادہ محتاط ہو اور جدید مسائل کے حل کے لیے وسیع البنیاد مشاورت کو اپنا شعار بنائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے کی ساکھ عوامی اعتماد پر مبنی ہوتی ہے۔ عوام کو متوازن، مدبرانہ، اور قابلِ عمل رہنمائی فراہم کرنا اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ادارہ اپنے مشن پر واپس آئے اور ایسی پالیسیاں وضع کرے جو اسلام کی روح اور جدید دور کے تقاضوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کریں۔

11/24/2024

سردیوں کے کپڑوں کا کاروبار صرف 1000 روپے میں
اپنے کاروبار کے مالک بنیں اور لاکھوں کمائیں.
لال زادہ جرسی اینڈ سویٹر برکت سٹاپ شاہدرہ لاہور
03238830314 03099669195 03044224403

11/23/2024

کنٹینرستان

11/22/2024

احتجاج تو ہو گا، عمران خان ڈٹ گئے۔

Address

Los Angeles, CA
OOOOO

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zohaib Tahir Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zohaib Tahir Khan:

Videos

Share