23/10/2019
سفرعشق زائرین اربعین ..
تحریر
سید قنبر علی رضوی
کربلا میں اربعین کے موقع پر پاکستانی زائرین کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں پاکستانی زائرین کا دستہ حرم امام حسین میں ممبر رئیسی کے قریب ماتم کر رہا تھا اس کو دیکھ کر ذہن ایک دم نثار حویلی میں شب عاشور وقت برآمدگی شبیہ زولجناح کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا یوں لگا جیسے نثار حویلی تب کربلا ہو جاتی ہے اور اربعین میں حرم امام حسین میں نثار حویلی کا منظر تھا بیشک پروردگار کا واعدہ سچا ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کرونگا- اپنا خاندان اپنے اصحاب و انصار قتل کروا کر زخموں سے چور ہو کر مولا حسین نے وقت آخر سجدہ شکر میں تسبیح پروردگار کی تھی تو اب روز عاشور سے لیکر روز قیامت تک ذکر مولا حسین رہیگا-
اربعین کے موقع پر مشی یعنی پیدل کربلا آنے کی روایت بہت پرانی ہے سب سے پہلے حضرت جابر ابن عبدللہ انصاری پیدل کربلا آئے زندان سے رہائی کے بعد مولا سجاد مدینہ سے کوفہ پہنچ کر وہاں سے کربلا پیدل آتے تھے- یہ سلسلسہ امام جعفر صادق علیہ سلام تک رہا روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق کوفہ سے پیدل آتے اور کربلا میں مقام امام جعفر صادق پر قیام کرتے - عباسیوں کے ظلم و ستم سے یہ سلسلہ موقوف ہوگیا یہاں تک کہ زیارت مولا حسین کے لئے ہاتھ پیر کٹوانے کی شرط رکھی گئی مگر مولا حسین کے چاہنے والے اس قیمت کو ادا کر کے زیارت بلخصوص اربعین پر جاتے -عباسیوں کے بعد سلجوقیوں عثمانیوں کے دور میں بھی مولا حسین کی زیارت کو پابند کرنے کی کوشش کی گئی مگر کسی نہ کسی طور سے مظلوم کربلا کی زیارت کا انتظام ہوتا رہا-
دوسری جنگ عظیم کے بعد استعماری طاقتوں نے جو بندر بانٹ کی تھی اس میں مستقبل کے حالت کو بھانپتے ہوے عراق کو ایک علیحدہ مملکت کی شکل میں آزاد کیا گیا اور یہاں کی شیعہ آبادی کو سنی اقلیت کے ماتحت کر دیا گیا مقصد ایران اور شام میں رفتہ رفتہ بڑھتے ہوے شیعہ اثر و نفوز کو کم کرنا تھا ایران میں ڈاکٹر مصدق کے انقلاب نے جس طرح ایرانیوں کو مذہب کی طرف رغبت دلائی اس نے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے کان کھڑے کر دیے لہٰذا چودہ جولائی ١٩٥٨ کے فوجی انقلاب کے بعد عراق میں شاہ فیصل کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل احمد حسن البکر اقتدار میں آیا جس نے صدام حسین کو اپنا نائب صدر اور عراق کے داخلی امور کا نگران بنا دیا-
صدام حسین نے پہلے مرحلے میں تمام سیکورٹی اداروں سے شیعہ افراد کو نکالا عراق میں داخلی جاسوسی کا نظام مزید سخت کیا اور ١٩٦١ میں عراق میں عزاداری پر پابندی لگا دی گئی- اس شیعہ دشمن پالیسی پر ہی صدام حسین کے جنرل احمد حسن البکر سے اختلافات شروع ہوے- اسی زمانے میں جب ایران میں آیات اللہ خمینی کا انقلاب جڑ پکڑ رہا تھا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ علاقائی منظر نامے پر اس چھاتے ہوے انقلاب کی روکنے کی تیاری میں تھی لہٰذا ادھر شاہ ایران فرار ہوا اسی برس صدام حسین نے جنرل احمد حسن البکر کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا-
اور عزاداری مظلوم کربلا پر شدید پابندی لگا دی عراقی عوام پر اپنے نام اہل بیت کے نام پر رکھنا بند تھا شیعہ لوگوں پر معاشی معاشرتی سماجی قانونی پابندیوں کا دور تھا ہزاروں شیعہ جوان قتل ہوگئے ہزاروں لاپتا - عاشور اور اربعین پر حرم امام حسین کی چار دیواری میں صرف دو گھنٹے ماتم کی اجازت تھی ایک منٹ بھی اوپر ہونے پر فوج فائرنگ سٹارٹ کر دیتی تھی اسی دور میں آیات اللہ باقر الصدر ان کی بہن بنت الہدٰی اور آیات اللہ صادق الصدر جیسے علماء قتل کئے گئے- ١٩٩١ میں کربلا پر حملہ ہوا حرم مولا حسین و غازی عباس پر گولہ باری کی گئی جس کا نشانات آج بھی حرم کی دیواروں پر موجود ہیں-
الغرض بنی امیہ بنو عباس ، بنی سلجوق و خلافت عثمانیہ کے بعد عراق میں شیعت پر یہ تاریک ترین دور تھا جس میں ١٩٥٨ سے لیکر ٢٠٠٣ نہ عاشورہ ہو سکا نہ ہی اربعین شہدائے کربلا -پھر ٢٠٠٣ میں عراق پر امریکا کا حملہ ہوا اور ٩ اپریل ٢٠٠٣ بمطابق ١١ صفر 1424 ہجری صدام حسین بغداد سے بھاگ گیا اور بعث پارٹی کے چالیس سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اس برس امریکا کے حملے کی وجہ سے کربلا میں عاشورہ پر ٢ گھنٹے کا ماتم بھی نہیں ہو سکا تھا پورا عراق سکتے کے عالم میں تھا لوگ ڈرے ہوے تھے کیا پتا صدام کے گماشتے کہیں سے نمودار ہو جایئں- ایسے میں 14 صفر کو امریکی فوج کی پابندی توڑتے ہوے بغداد کا رہاشی ابو موسیٰ جعفر النومانی کربلا کی طرف اپنے ساتھیوں سمیت چلا اس کے قافلے کی پہلی مڈھ بھیڑ صدام کی فوج سے موصل کے قریب ہوئی اور پھر نجف کے قریب فائرنگ سے ابو موسیٰ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے-
اس شہادت نے عراق میں جاری جمود اور خوف کی لہر کو توڑ دیا اگلے روز ہزاروں افراد بغداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے اگلے دن یہ احتجاج کاروان اربعین امام حسین میں بدل گیا اور عراقی ایڈمنسٹریشن کے مطابق دس سے پندرہ لاکھ لوگ اربعین کے لئے کربلا کی طرف چل پڑے- بی بی سی نے اپنے آرٹیکل میں یہ سرخی لگائی تھی کہ پورا عراق کربلا امڈ آیا جس کے مطابق لوگ اپنے ہاتھ میں یہ بنیر لئے ہوے تھے کہ" یا حسین ہم شرمندہ ہیں ہم پر پابندی تھی مگر اب ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑینگے "یہ نقطہ آغاز تھا تاریخ کے دور جدید کے اس عظیم اجتماع کا جسے آج ہم سب دنیا کے سب سے بڑے سالانہ جتماع کی طور پر جانتے ہیں-٢٠٠٣ میں دس لاکھ لوگوں سے آغاز ہونے والی اس زمانے کی مشی میں اس بار حکومت عراق کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس سال پانچ کروڑ ستر لاکھ افراد کربلا میں اربعین کے موقع پر موجود تھے-عراقی حکومت کی طرف سے ان ممالک کی ایک فہرست بھی جاری ہوئی جہاں سے یہ یہ لوگ چہلم امام حسین وا شہدائے کربلا کے لئے آئے تھے یعنی بقول جوش ملیح آبادی
انسان کو بیدار تو ہو____ لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
بیشک فرمان رسول خدا و مولا امام جعفر صادق ہے کہ "قتل حسین نے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا کردی ہے جو قیامت تک ٹھنڈی نہیں ہوگی"-
بس یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ دنیا کو جنت میں جانے کی طلب ہے تو ہم عزاداران مظلوم کربلا کو کربلا جانے کی تڑپ ... کیونکہ ہماری درس گاہ بھی کربلا ہے جنت بھی کربلا ... تو خدا کے گھر کی زیارت مقصود ہوتو کعبہ جانا چاہیے اور گر خدا کو پانا مقصود ہوتو کربلا کیوں کہ کربلا پہلے بندگی سکھاتی ہے جو خانہ کعبہ میں جھکائی جاتی ہے .
لاکھوں کروڑوں درود و سلام بر محمّد وا آل محمّد