06/12/2021
چند ہفتے پہلے ایک ٹریفک سگنل پر ایک بوڑھا شخص پلاسٹک کے لفافے میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بیچ رہا تھا، مجھے اس بوڑھے پر ترس آگیا اور 80 روپے کے دو لفافے خرید لئے جن میں ٹوٹل چار مچھلیاں تھیں۔ ساتھ میں ایک چھوٹا سا خوراک کا پیکٹ بھی لے لیا۔ پیکٹ خرید کر گاڑی میں رکھ لئے، ارادہ تھا کہ کسی چھپڑ وغیرہ میں ڈال دوں گا کیونکہ ایسی مچھلیاں بچپن میں جب بھی خریدیں، چند گھنٹوں کے اندر اندر دم توڑ گئیں۔
گھر آیا تو مچھلیوں کے پیکٹ بھی ساتھ ہی گھر آگئے ۔ ۔ ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے باہر جانے کا موڈ نہیں تھا، چنانچہ مچھلیوں کو گھر کے اندر لے گیا اور ایک پلاسٹک کی پرانی ڈش میں پانی ڈال کر ان مچھلیوں کو اس میں ڈال دیا، ساتھ خوراک کے چند دانے بھی ڈال دیئے۔
شام تک میں مچھلیوں کو بھول چکا تھا۔ رات دیر تک لیپ ٹاپ پر کام کرنے کے بعد کچن میں کچھ کھانے کیلئے گیا تو مچھلیوں کے اس برتن پر نظر پڑگئی۔ مجھے ان مچھلیوں پر بڑا ترس آیا، سوچا کہ ان کو گھر میں ہی رکھا جائے ۔ ۔ ۔ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر مچھلیوں کی نگہداشت کے طریقوں پر ریسرچ شروع کردی۔ پتہ چلا کہ ایسی چھوٹی مچھلیوں کیلئے شیشیے کا پاٹ ہوتا ھے جس میں یہ خوش رہتی ہیں۔ ان کا پانی ہر روز بدلنا چاہیئے تاکہ یہ ٹاکسک مادوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ان کو خوراک کے 2 دانے فی مچھلی فی دن ڈالنے چاہیئے جس سے ان کا نظام ٹھیک رہتا ھے۔
اگلے دن صبح سویرے اٹھ کر پہلے مچھلیوں کا برتن چیک کیا۔ وہ ابھی تک زندہ تھیں۔ میں بازار گیا اور ایک شیشے کا پاٹ خرید لایا۔ پھر مچھلیوں کو بڑی احتیاط سے اس پاٹ میں شفٹ کردیا۔
آج اس بات کو پورے 100 ہفتے ہوچکے ہیں اور ابھی تک اللہ کی مہربانی سے وہ مچھلیاں زندہ سلامت ہیں کیونکہ میں ہر روز ان کا پانی بدلتا ہوں، انہیں مناسب مقدار اور صحیح وقت پر خوراک ڈالتا ہوں۔ جب تک رات کو مچھلیوں کا پانی نہیں بدل لیتا، نیند نہیں آتی۔ دن میں بھی ان کے پاٹ کے پاس جا کر ان پر نظر مار لیتا ہوں۔
دو دن پہلے رات دیر سے گھر آیا۔ مچھلیوں اپنے لئے تازہ پانی اور خوراک کا انتظار کررہی تھیں۔ میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے تیزی سے پانی میں تیرنا شروع کردیا جیسے کہ مجھ سے احتجاج کررہی ہوں۔
میں ایک بہت گناہگار شخص ہوں۔ لیکن پھر بھی 4 چھوٹی مچھلیوں کی ذمے داری کیا سر پر پڑی، ان کی فکر لگی رہتی ھے۔ پتہ نہیں ہمارے حکمران کس مٹی کے بنے ہیں کہ ان پر 20 کروڑ انسانوں کی ذمے داریاں ہیں اور انہیں راتوں کو نیند بھی آجاتی ھے اور دن کو عیاشیوں کیلئے وقت بھی مل جاتا ھے۔
اللہ کا شکر ھے کہ مجھ پر حکمرانوں والی ذمے داری نہیں ڈالی ورنہ میں تو شاید ڈیپریشن سے ہی مر جاتا۔