19/12/2023
ایک بچے کے والدین ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اسے ٹرین کے ذریعے اس کی دادی کے پاس لے جاتے اسے دادی کے پاس چھوڑ کر خود اگلے دن واپس آ جاتے۔
پھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے ان سے کہا: "میں اب بڑا ہو گیا ہوں، اگر میں اس سال اکیلے دادی کے پاس جاؤں تو؟"
والدین نے ایک مختصر بحث کے بعد اتفاق کیا اور پھر مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچے کیونکہ والد نے سفری ہدایات دینا شروع کیں۔
تو بیٹا تنہا لہجے میں کہنے لگا۔
: اباجان! میں نے یہ ہدایات ہزار بار سنی ہیں! "
ٹرین کے روانہ ہونے سے چند لمحے پہلے اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی:
"یہ لو، اگر آپ خوفزدہ ہیں یا بیمار ہیں تو یہ آپ کے لیے ہے" اور اپنے بچے کی جیب میں کچھ ڈال دیا۔
بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھا تھا۔
وہ کھڑکی سے باہر زمین کے حسن کو دیکھتا اور اپنے اردگرد اٹھنے والے اجنبیوں کے شور کو سنتا، کبھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کیبن سے باہر نکل جاتا، کبھی گاڑی کے اندر چلا جاتا۔
ٹرین کا ٹی ٹی بھی چونک گیا اور اس سے بغیر کسی ساتھی کے تنہا سفر کے بارے میں پوچھا۔
اسی طرح ایک عورت نے غمگین نظروں سے اسے دیکھا۔
لڑکا اس وقت تک الجھا ہوا تھا جب تک اس نے محسوس نہیں کیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔
پھر وہ بوکھلا گیا... وہ اپنی کرسی سے بھی گر پڑا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس لمحے اسے اپنے والد کی سرگوشی یاد آئی کہ اسی لمحے اس نے میری جیب میں کچھ ڈال دیا تھا۔
اس نے کانپتے ہاتھ سے جیب میں تلاش کیا تو ایک چھوٹا سا کاغذ ملا اس نے اسے کھولا اور پڑھا ، جانتے ہیں اس پر کیا لکھا تھا ؟ اس پر لکھا تھا
"بیٹا میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔"
یہ الفاظ پڑھتے ہی بچے میں اس کی اعتماد لوٹ آیا۔
! زندگی ایسی ہی ہے، ہم اپنے بچوں کے پروں کو چھوڑ دیتے ہیں، انہیں خود پر اعتماد دلاتے ہیں... لیکن جب تک ہم زندہ ہیں، ہمیں ہمیشہ آخری کیبن میں رہنا چاہیے.. کیونکہ یہ ان کے لیے تحفظ کے احساس کا ذریعہ ہے۔