ISLAM TV

ISLAM TV Islamic Posts and videos will be uploaded

05/04/2023
05/04/2023

Indians including many from Telangana constitute a significant work force in date farming in Saudi Arabia

Tafseer e quran || Aasan tafseer Hafiz Shahbaz Umri Hyderabadi
01/04/2023

Tafseer e quran || Aasan tafseer

Hafiz Shahbaz Umri Hyderabadi

31/03/2021

*زمیں جسے چھپا گئی وہ ’’نور‘‘بےمثال تو*

*(تأثرات بروفات دکتور آرکےنور محمد صاحب عمری مدنی رحمہ اللہ )*

*از: حافظ عبدالعظیم عمری مدنی*
*استاذ جامعہ دارالسلام عمرآباد*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖

حلقہءاحباب میں سے کسی ہمدم دیرینہ کی جدائی بڑی اذیت ناک ہواکرتی ہے۔ یہ بات آج تک سنتے چلے آئے تھے ۔ مگر اس کے کرب والم کوحقیقی معنو ں میں تب محسوس کیا جب ۲۱/مارچ ۲۰۲۱ء بروز اتوار صبح ہی صبح رفیق محترم شیخ طارق مدنی حفظہ اللہ نے فون پریہ ناقابل یقین خبر سنائی کہ دکتور آر کے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ !خبر کیا سنی کہ ہوش اڑگئے ،قدموں تلے زمیں کھسک گئی ۔ طبیعت پر سکتہ طاری ہوگیا۔اپنے اندرون میں ایک زلزلہ محسوس ہونے لگا۔ بات یہ نہیں تھی کہ موت پر ایمان نہ تھا، بات یہ تھی کہ زندگی کی شاہراہ پرپوری رفتار سے چلنے والا یہ ہنستا مسکراتا چہرہ اچانک منظرسے غائب ہوجائے گا ایسا کبھی سوچا نہ تھا۔ اورایسی متحرک ومثالی شخصیت کی موت کوفورا تسلیم کرلینا زندگی کے ساتھ انصاف نہیں معلوم ہورہاتھا۔
حیف!درچشم زدن صحبت یار آخرشد
روئے گل سیرنہ دیدم کہ بہار آخرشد
١٦/مارچ کی شام مغرب بعد سسٹرزرینہ (جو شیخ آرکے صاحب کی نگرانی میں بنات کا ایک ادراہ شہر بنگلور میں چلا رہی تھیں)کا مجھے مسیج آیاکہ دعاکیجئے کہ شیخ آر کے صاحب کووڈ کاشکار ہوکر ہسپتال میں شریک کردئے گئےہیں۔ میں نے آرکے صاحب کے قریبی کچھ احباب سے رابطہ کیا تو ابھی تک انہیں بھی آپ کے شریک ہسپتال ہونے کی اطلاع نہ تھی ۔ پھر بذات خود واٹساپ پر میں نے شیخ کو دعائیہ کلمات پر مشتمل ایک مسیج بھیجا تو تھوڑی ہی دیر میں شیخ کی جانب سے جواب بھی آگیاکہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔پھر پرسش حال پر کلمات تشکر بھی اداکئے اورحسب معمول کچھ دعائیہ جملے بھی لکھے۔ اس کے بعد میں نے آپ سے ڈائرکٹ رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ۔ مگر آپ کے واٹساپ کو فالو کرتا رہا تو ہلکی سی تشویش بھی ہورہی تھی کہ واٹساپ کے اشارے بتارہے تھے کہ شریک ہسپتال ہونےکے دوسرے یا تیسرے ہی دن سےفون پر آپ کی توجہ نہیں ہے اور آپ نے واٹساپ کھولا ہی نہیں ہے۔ دل ہی دل میں دعائیں کرتا رہا کہ شیخ جلد شفایاب ہوجائیں۔ لیکن ۱۹/مارچ کواس وقت تشویش بہت بڑھ گئی‘جب شیخ کے بعض قریبی ذرائع سے یہ خبر واٹساپ پر گردش کرنے لگی کہ آپ کی طبیعت زیادہ ہی خراب ہےاور سخت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ سبھی احبا ب دعائیں کرنے لگے۔مگر جب مقدر کا آب ودانہ ختم ہوچکا ہو تو نہ دعائیں زندگی دے سکتی ہیں اور نہ ہی دوائیں ۔تقدیر کے آگے ہرچارہ گر لاچار اورمجبور ہوتاہے۔

دکتور کی شخصیت سے متعارف ہونے کا شرف ہمیں مدینہ منورہ میں اسی وقت حاصل ہوا جب جامعہ اسلامیہ میں ہمارا داخلہ ہوا۔ عمرآباد کی زندگی میں شیخ سے اس لئے متعارف نہ ہوسکے کہ آپ کی فراغت کےبعد ہمارا داخلہ جامعہ دارالسلام میں ہوا تھا۔ دکتور سے وابستہ ہماری بہت ساری یادوں کا تعلق مدینہ منورہ سے ہے۔جامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہونے کے بعد جب میں اپنے معزز رفقاء عبداللہ مشتاق عمری اورارشد بشیر عمری کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچا تو حسب روایت سینئر ابنائے قدیم نے جونیئر ابنائے قدیم کا استقبال کیا۔ اوراسی وقت سے دکتور سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔اس کے بعد جامعہ اسلامیہ کی زندگی میں اور فراغت بعدہندوستان لوٹ کر دکتور سے ایسے گہرے مراسم ہوگئے کہ اب آپ کے بغیر زندگی میں ایک ایسا خلا محسوس ہورہا ہے جس کے پر ہونے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

۱۹۸۵ء میں جامعہ دارالسلام سے فراغت کے بعد آپ نے مدراس کی مسجد اہل حدیث حفیظیہ میں کچھ مدت کے لئے امامت کی اورپھرجامعہ اسلامیہ سے منظوری آنے کے بعد مدینہ منورہ روانہ ہوگئے ۔مدینہ منورہ کی تعلیمی زندگی میں بڑی محنت اور جانفشانی کا ثبوت دیتے ہوئے علوم حدیث میں بڑی مہارت پیدا کی اورجامعہ اسلامیہ کی عظیم علمی شخصیتوں سے اپنے روابط مضبوط ومستحکم کرلئے ۔ مدینہ منورہ کے جانے مانے محدث علامہ شیخ حماد الأنصاری رحمہ اللہ سے خوب استفادہ کیا اور شیخ حماد کی نامور لائبیریری جس کے دروازے طالبان علوم نبوت کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے اورجس میں مطبوعات کےعلاوہ قیمتی اورنادر مخطوطات کابھی بڑ ا ذخیرہ تھا‘شیخ نے اس لائیبریری سے کافی استفادہ بھی کیا۔ چونکہ شیخ حماد کے فرزند دکتور عبدالباری الأنصاری آپ کے ہم درس وہم جماعت ساتھی تھے اس لئے آپ ایک فیملی ممبر کی طرح شیخ کے گھر آیا جایا کرتے تھے۔میں نے دکتور آر کے صاحب کو ایک مرتبہ فرماتے ہوئے سنا کہ جامعہ اسلامیہ میں سالانہ چھٹی ہونے کو تھی ۔شیخ حماد الأنصاری رحمہ اللہ کو ہندوستان کی کسی لائیبریری سے کسی مخطوط کے بارے میں ضروری معلومات درکارتھیں ۔ شیخ حمادرحمہ اللہ نے دکتورآرکے صاحب کو یہ ذمہ داری دی کہ اب کی بار چھٹیوں میں ہندوستان جاؤ تو فلاں لائیبریری میں فلاں مخطوط کےسلسلے میں ضرور معلوم کرآؤ۔دکتور آر کے فرماتے ہیں کہ چھٹیوں میں جب میں ہندوستان آیا تومیری شادی طے تھی۔جس کے سبب میں شیخ حماد رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل نہ کرسکا۔چھٹیاں ختم کرکےجب جامعہ اسلامیہ پہنچا اورشیخ حماد رحمہ اللہ نے مجھے دی گئی ذمہ داری کےسلسلے میں مجھ سے دریافت کیا تو میں نے تعمیل حکم نہ کرنے پر اپنا عذر پیش کیا کہ چھٹیوں میں میرا نکاح ہوگیا جس کےسبب میں آپ کے حکم کی تعمیل نہ کرسکا۔ یہ سن کر شیخ حماد رحمہ اللہ بطور حسرت فرمانے لگے ’’ضاع العلم بین أفخاذالنساء‘‘ !!!
مجھے یاد ہے کہ شیخ حماد کے مذکورہ تبصرہ کو سنا کر دکتور آرکے کھل کھلا کرہنس پڑے تھے۔
مدینہ منورہ میں آپ نے پندرہ سال سے زائد گزارے۔ اور اس دوران ماجستیر اوردکتوراہ کی ڈگریاں حاصل کی ۔ ماجستیر میں آپ نے علامہ ابن الملقن کی کتاب’’البدرالمنیر‘‘پر رسالہ لکھا تھا۔ اوردکتوراۃ کا آپ کا رسالہ نہایت ہی مفید موضوع پر رہا۔ ’’أقضیۃ الخلفاءالراشدین‘‘یعنی وہ مقدمات جن کے فیصلے خلفاءراشدین کے دربارمیں ہوئے ۔ اس موضوع کا انتخاب دکتورنے غالبا دکتورضیاءالرحمن اعظمی رحمہ اللہ کے مشورے پر کیا تھا۔ تاکہ یہ رسالہ دکتور ضیاءرحمہ اللہ کی تحقیق کردہ کتا ب ابن الطلاع القرطبی کی ’’أقضیۃ الرسول ﷺ‘‘ کا تتمہ اور تکملہ ثابت ہوسکے۔

عید کادن سب کے لئے بڑی خوشی اورمسرت کا دن ہوا کرتاہے۔ مگر جامعہ اسلامیہ کی زندگی میں ہم غریب الدیار اجنبیوں کے لئے وہ بڑا صبر آزما دن ہواکرتا تھا جو ہم سب کو اپنے وطن اور اقارب ورشتہ دار کی خوب یاد دلایاکرتا تھا۔ ہر عید میں ہمارے احساس محرومی کو کم کرنے والی ایک بات یہ ہوا کرتی تھی کہ دکتور آرکے ہم جو نیئر ساتھیوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کے لئے اپنے گھر بلالیا کرتے تھے۔یوں آپ کے دولت کدہ پر حاضری دینے کےبعد عید واقعی ہمیں عید محسوس ہوا کرتی تھی۔بڑے مہمان نواز انسان تھے۔ ایک عید ہی نہیں کبھی عقیقہ کے بہانے ،کبھی عمریوں کے اجتماع کے بہانے اورکبھی کسی اور بہانے آپ کے گھر وقتا فوقتا مہمان بننے کا شرف حاصل ہواکرتا تھا۔ جی بھر کر اپنے ساتھیوں اورچھوٹے بھائیوں کی خاطر تواضع فرمایا کرتے تھے۔ دریاغیر میں آپ کی یہ دلجوئی اورخاطرداری ہمارے لئے ایک قیمتی سرمایہ تھی۔

*قلیل منک یکفینی ولکن*
*قلیلک لایقال لہ قلیل*

جامعہ اسلامیہ کی ہماری تعلیمی زندگی میں مشہور داعی ڈاکٹر ذاکر نائک (ف*ج اللہ عنہ )بار بار مدینہ آیاکرتے تھے۔ بلکہ درمیان میں علم حدیث کا تعارف حاصل کرنے کےلئے اورعربی زبان کی کچھ بنیادی معلومات حاصل کرنے کےلئے مدینہ میں دکتورضیاءالرحمن اعظمی رحمہ اللہ اور دکتور ف عبدالرحیم حفظہ اللہ کے پا س آپ کا قیام بھی رہا۔ اس دوران دکتور آرکے نور محمد صاحب کی ڈاکٹر ذاکر نائک سےبہت قربت ہوگئی بلکہ یوں کہئے کہ یہ تعلقات دھیرے دھیرے دوستی میں بدل گئے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائک جب بھی مدینہ آیا کرتےاکثر دکتورآر کے صاحب کے گھر بھی ضرور جایا کرتے ۔مجھ سے رمضان کی وہ ایک رات بھولی نہیں جاتی جب حرم نبوی میں نماز تراویح سےفارغ ہوکر ہم کچھ ہندوستانی دکتورآر کے محمد صاحب کے گھر ڈاکٹر ذاکر نائک کےساتھ سحری تک بیٹھے گفتگو کرتے رہ گئے ۔اس دوران ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے تعلیم اور دعوت کے میدان میں اپنے مستقبل کے منصوبوں کو تفصیل سے بیان کیاتھا اور ہم سب سے درخواست کی تھی کہ جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد ان کے مشن کا حصہ بن جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس درخواست کو دکتورنے سنجیدگی سے لیا اور ہندوستان لوٹنے کے بعدکچھ مدت کے لئے ان کے مشن کا حصہ بھی بنے رہے۔

جامعہ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والی خوشگوار یادوں میں سے ایک نہایت ہی ناقابل فراموش لمحہ وہ بھی تھا جب دکتور آر کے نور محمد صاحبؒ کے ساتھ راقم الحروف اورمیرے ایک نہایت ہی قابل ومحترم دوست عبدا للہ مشتاق عمری کو ’’جائزۃ المدینة المنورۃ‘‘ یعنی مدینہ ایوارڈ ملاتھا۔ یہ ایوارڈ ان طلبہ کو دیا جاتاہے جوکسی بھی تعلیمی مرحلہ میں اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ نمبرات لے کر پہلا رینک حاصل کریں۔اللہ تعالی کی توفیق سے دکتور آرکے صاحب پی ایچ ڈی کےمرحلہ میں سب سے ٹاپ رہے۔میرے ساتھی عبداللہ مشتاق کلیة اللغة میں اور راقم الحروف کلیۃ الحدیث میں اپنے ساتھیوں میں ٹاپ رہا۔ یہ بات جہاں ہمارے لئے باعث مسرت رہی وہیں ادارے کےلئے بھی بڑی خوشخبری ثابت ہوئی کہ بیک وقت اس کے تین ابناء اس عظیم اعزاز کے مستحق ٹہرےتھے۔ اس موقع سے استاذ الأساتذہ مولانا حفیظ الرحمن اعظمی حفظہ اللہ نے ابنائے قدیم کا ترجمان ماہنامہ ’’راہ اعتدال ‘‘ میں ’’ہمارے تین شاہین بچے‘‘ کےعنوان سے اپنےتینوں شاگردوں کی اس کامیابی کو خراج تحسین پیش کیاتھا۔۔

وہ بڑی خوشگوار اور سہانی رات تھی جب مدینہ منورہ کے تمام ہی مدارس وجامعات کے ٹاپر طلبہ کے مابین مدینہ ایوارڈ کی تقسیم کے لئے گورنر مدینہ امیرمقرن بن عبدالعزیز کی سرپرستی میں بڑی خوبصورت محفل سجائی گئی تھی۔ہزاروں کا مجمعہ تھا،ہرطرف رونقیں تھیں، دلکش نظارے تھے۔ملک فہد رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی مقرن بن عبدالعزیزکے ہاتھوں ایوارڈ حاصل کرنے کی سعادت تھی ،ہم سب اس رات شاہی مہمان تھے، دسترخوان کی رونق قابل دیدنی تھی۔زبان کےساتھ ساتھ آنکھوں کی لذت کاسامان بھی دسترخوان کی زینت بنا ہواتھا۔ ایک دوسرے کو مبارکبادی دینے کاسلسلہ تھا،ہمارے لئے اس رات کی خوشیاں عید سے کم نہ تھیں! ہائے وقت کی ستم ظریفی کہ ماضی کی ان خوشگوار یادوں کو شیخ کی جدائی کے صدمے سے دوچار ہونے کے بعد سوچتے ہیں تو بے ساختہ بشیربدر کا یہ شعر نوک قلم پرآجاتاہے:

*اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنےدو*
*نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے*

جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ہمارے دلوں میں دعوت وتبلیغ کاکچھ ایساجذبہ تھا کہ جنوبی ہند کے ہم چند ہم فکروہم خیال ساتھی آپس میں مل بیٹھ کر مشورے کیاکرتے تھے کہ ہندوستان لوٹنے کے بعد ہماری ذمہ داریاں کیاہیں اور کیاکچھ ہم کرسکتے ہیں؟یہ منصوبہ بندی ہم دس بارہ ساتھیوں کے درمیان ہواکرتی تھی۔لیکن ہمیں دکتورآر کے رحمہ اللہ جیسے ہمارے سینیئر بھائیوں کی تائید حاصل تھی ،وہ ہماری بڑی حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے اور بسااوقات بڑےمفید مشورے بھی دیا کرتے تھے۔آپ ہمارے درمیان کبھی بھی احساس برتری کےساتھ نہ رہے بلکہ سینیئر ہونے کےباوجود ہمارے ساتھ یوں گھل مل کر رہا کرتے تھے جیسے کہ وہ ہمارے ہم عصر وہم جماعت ساتھی ہوں ۔ہم سب ہرہمیشہ آپ کےساتھ ادب واحترام کے تقاضوں کوملحوظ رکھتے تھے اورآپ ہمیں شفقت کی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔

۲۰۰۳ء میں دکتور آرکےاپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرکے ہندوستان پہنچے اوریہ وہی سال تھا جس سال راقم الحروف بھی ماجستیر کاسنہ منہجیہ مکمل کرکے آگے کی تعلیم ترک کرنےکا فیصلہ کرکے ہندوستان پہنچاتھا۔ دکتورآرکےمیرے ترک تعلیم کے فیصلے سے خوش نہ تھے۔ اورمجھے تعلیم جاری رکھنے پر منانے کی بڑی کوشش آپ نے کی ۔لیکن میرے نقطہءنظر کوتفصیل سے سننے کے بعد آپ نے میرے فیصلے کی تائید کردی جس سے یقینا مجھے بڑا حوصلہ ملا،آپ ہندوستان لوٹے تو ابتعاث کےشرف کے ساتھ لوٹے ۔یعنی سعودی عرب کی وزارت اسلامی امور کے نمائندہ داعی کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا ۔اورپہلے پہل آپ نے میدان عمل کے طور پر ڈاکٹرذاکر نائک کےبنے بنائے اسٹیج کا انتخاب کیا،جیساکہ اس سے قبل ذکر کرچکا ہوں کہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے دکتورآرکےؒ کےڈاکٹر ذاکرنائک سے گہرے تعلقات ہوچکے تھےاور ڈاکٹر ذاکر نائک کا اصرار تھا کہ دکتور فراغت کے بعدان کےیہاں اپنی خدمات پیش کریں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ادارے ’’آئی آریف‘‘ میں کام کرتے ہوئے دکتور پیس ٹی وی کےاردو اسپیکرکے طور پر متعارف ہوئے ۔اورپیس چینل پر آپ کےپروگرامس نشر ہونے لگے ۔اس کے علاوہ سالانہ منعقد ہونے والی پیس کانفرنس میں بھی دکتور کااچھاخاصا رول ہواکرتا تھا۔ لیکن دکتور اورڈاکٹر ذاکرنائک صاحب کایہ ساتھ زیادہ دن نہ چل سکا۔ ایک تو دونوں کے مزاج کا ٹکراؤ اوردوسرے دکتور کی اپنی گھریلو مجبوریاں ۔ڈاکٹر صاحب کےماتحت کام کرنے والا ہرشخص جانتاہےکہ ڈاکٹر صاحب کی ہزار خوبیوں کے باوجود آپ کے مزاج کو برداشت کرناہرایک کےبس کی بات نہیں ہواکرتی ۔ بشرکتنابھی صاحب کمال کیوں نہ ہو بالآخر وہ بشرہے۔ کمال لازوال تو صرف اورصرف ہمارے رب کی شان ہے۔

*ہرآدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی*
*جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا*

ممبئی سے جب آپ چنئی منتقل ہوگئے توآئی آریف سے آپ کاتعلق تو ختم ہوگیا مگر ڈاکٹر ذاکر نائک سے آپ کا رابطہ ختم نہ ہوا ۔ آپ کے چنئی منتقل ہونے کےبعد ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک اسلامک اسکول یہاں بھی کھولا اور اس کی ذمہ داری دکتور آرکے ؒکے حوالے کی اورجب ممبئی کی طرح چنئی میں بھی پیس کانفرنس کاانعقاد ہونے لگاتو یہاں بھی دکتوراور ڈاکٹر صاحب کے مابین باہمی تعاون کاسلسلہ جاری رہا۔تاآنکہ مزاجوں کاٹکراؤ یہاں بھی اپنا رنگ دکھا گیااور دونوں کی راہیں بالآخر الگ الگ ہوکر رہیں جب دکتورنے ایک علیحدہ اسکول کی بنیاد رکھی اور ذاکر نائک صاحب کےاسکول کی ذمہ داری سے دستبردار ہوگئے۔
چنئی منتقل ہونے کے بعد دکتورنے دواور بڑے کام کئے ۔ ایک تو استاذمحترم شیخ انیس الرحمٰن اعظمی حفظہ اللہ کے ساتھ مل کر ایک مخیر فیملی کے تعاون سے مرکز ابن القیم الإسلامی کی بنیاد ڈالی جو ادارہ کہ بعد میں آئی آر جی سی کے نام سے مشہور ہوا۔ اورجہاں سے کتاب سنت کی نشرواشاعت کاکام بہتر طریقے سے ہونے لگا،اورشہربھر میں جس کے اثرات محسوس ہونے لگے۔دوسرابڑا کام یہ کیا کہ عصری تعلیم یافتہ نوجوانوں کی دینی تعلیم وتربیت کےلئے ’’الاذان کالج‘‘ کی بنیاد رکھی جو ابھی ابتدائی مرحلہ ہی میں تھا کہ آپ دنیا سے چل بسے۔ اللہ تعالی دونوں اداروں کو آپ کانعم البدل عطافرمائے۔

جمیعت وجماعت سے آپ کی گہری وابستگی رہی۔جمیعت کی ترقی کو لے کر آپ ہمیشہ فکرمندرہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث تامل ناڈو ہوکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔دونوں جمعیتوں میں آپ نے اپنی خدمات پیش کیں۔صوبائی جمعیت کے آپ ناظم بھی رہے،اور مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کےرکن مجلس شوری بھی ۔ جمیعت کی اصلاح وترقی کےسلسلےمیں مفید مشورے آپ نے مرکزی جمعیت کو دئے۔ نہ صرف مشورے بلکہ اہل حدیثان ہند کی شکایتوں کومدنظر رکھتے ہوئے کچھ ہمدرد اورخیرخواہ اراکین جمعیت کےساتھ مل کر دستورجمعیت میں کچھ ایسی اصلاحات بھی آپ نے فرمائیں،جن سے جمعیت کےکسی بھی عہدے کےاستحصال کا سدباب ہوسکے۔چنانچہ آپ جیسے کچھ مخلص وخیرخواہ احباب کی کاوشوں سے دستورجمعیت میں اس شق کا اضافہ کیا گیا کہ کوئی بھی عہدیدارکسی ایک عہدے پر دومیعاد سےزیادہ نہیں رہےگا تاکہ دوسروں کو بھی جمعیت کی خدمت کرنےکا شرف حاصل ہوسکے اور جمعیت کے ذاتی میراث ہونےکی غلط فہمی جو بعض مرکزی وصوبائی عہدیداران میں پائی جاتی ہے اس کا ازالہ ہوسکے۔اورجمعیت صرف چند افراد کےہاتھوں یرغمال ہونےسے بچی رہے۔لیکن کیابتائیں کہ دستور میں مذکورہ شق کا اضافہ تو ہوگیا مگر عہدہ ومنصب کے بھوکے بازیگر وں نے ایسے گر اپنائے کہ دستور کابھی دم گھٹنے لگااور وہ اپنے مخلص وخیرخواہ دستورسازوں سے بزبان حال کہنے لگا:

*علاج درد دل تم سےمسیحا ہونہیں سکتا*
*تم اچھا کرنہیں سکتے میں اچھا ہونہیں سکتا*

بعدکی تفصیلات تو اور تکلیف دہ ہیں ۔ چنانچہ جمعیت کےتنظیمی ڈھانچہ میں اصلاح کی جو کوششیں دکتورآرکےؒ نے کچھ اورمخلص اراکین جمعیت کےساتھ مل کرکیں ،بالآخر انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ چند ایسےلوگ جو دکتورآرکے ؒ کو اپنے منصوبوں کےراستے میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے ،ایک میٹنگ میں انہوں نے ایک منصوبہ بند طریقہ سے ایسے زبانی حملے ان پر کئے اور ایسی بے ادبی وگستاخی کی کہ میٹنگ کےفورا بعد دکتور آرکے ؒ دلبرداشتہ ہوکر اپنی رکنیت سے استعفی دے کر دہلی سے چنئی لوٹ آئے اوریہ دلخراش داستان ہمیں سنائی۔

*اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش*
*میں زہر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند*

سمجھ میں نہیں آتا کہ کیاجماعتوں اورجمعیتوں کی رکنیت کےلئے اخلاق وآداب ،شرافت ومروت اورشائستگی وسنجیدگی شرط نہیں؟؟؟ اگر ہے تو پھر اہل علم کےساتھ ہونے والی ان گستاخیوں کی کیاوجہ جواز ہوسکتی ہے!فاللہ خیر حافظا وھو أرحم الرحمین۔

دکتور کی زندگی حرکت وعمل سے عبارت تھی ،خود کام کرتے بھی تھے اور کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔چند سال قبل جب بنگلور میں کلیۃ الحدیث کا آغاز ہوا تو شروع دن سے دکتور کلیہ کےمشن کا حصہ رہے اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والی میٹنگوں میں شرکت کےلئے بارہا چنئی سے بنگلور آیاکرتے اوربڑے مفید مشورے دیا کرتے ۔ رفتہ رفتہ کلیہ سےآپ کا یہ تعلق اورمضبوط ہوتاگیا اورآپ کلیہ کے مشرف بنادئے گئے۔ کلیہ کی ترقی آپ کی زندگی کا بہت بڑا ہدف تھا جس کے سلسلے میں آپ فکر مند بھی رہے اور کوشاں بھی ۔

دعوت وتبلیغ کے میدان میں جناب ریاض موسی صاحب ملیباریؒ کی ٹیم اور جامعہ کے دعاۃ کو آپ کا گرانقدر تعاون بھی حاصل رہا۔ جامعہ اسلامیہ کی زندگی میں جب بھی موسی صاحبؒ کی مدینہ آمد ہوئی آپ ان کا پروگرام اردو داں طبقہ کےلئے رکھا کرتے۔ بسااوقات ان کی علمی لغزشوں کی اصلاح بھی فرمایا کرتے۔ مدراس میں جب پیس کانفرنس کا انعقاد ہوا کرتاتھا آپ جامعہ دارالسلام کےدعاۃ کی ٹیم کا تعاون ضرور حاصل کرتے۔ اورمادر علمی کےاس کام کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا کرتے ۔مادرعلمی کی بات آئی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اپنی کتاب ’’أقضیة الخلفاءالرشدین‘‘ کاجو نسخہ آپ نےجامعہ کو ہدیہ کیا ہے اسی کےسرورق پر جامعہ کا احسان مند ہوتے ہوئےیہ لکھاہے *’’إھداء لجامعتی الأم التی عرفت من دراستی فیھا الفرق بین یمینی وشمالی‘‘* یعنی مجھے دائیں اوربائیں ہاتھ کی تمییز بھی نہ تھی ،مادرعلمی نے ان سب باتوں کاشعورمجھے عطاکیا۔

دکتور کو اپنی فیملی سے بڑا گہرا اٹاچمنٹ(Attachment) تھا۔وہ اپنی فیملی کو بہت کیر(Care) کیاکرتےتھے۔ اوریہ وہ حقیقت ہے جسے ہم سب ساتھی خوب محسوس کرتے تھے۔ تین سال قبل ہم چند علماء نےاپنی اپنی فیملیوں کےساتھ سیروسیاحت کی غرض سے کیرلا کے شہر کاسرگوڈ کا قصد کیا تھا اور ایک ریسارٹ(Resort)پرہم سب جمع ہوئےاور تقریبا تین دنوں تک پاکیزہ ماحول میں جائز سیر وتفریح کےمزے لیتے رہے ،ان یادگار لمحات میں دکتور بھی اپنی فیملی کےساتھ شریک قافلہ رہے اوراس دوران کھیل کود اور ہنسی مذاق کےہر پروگرام کا آپ حصہ رہے۔

بہرحال آپ کی وفات سےایک مصروف زندگی کا خاتمہ ہوا ،اور ایک ایسا خلاپیدا ہواہے جسے پر ہونے میں مدت لگے گی۔ قحط الرجال کےاس دور میں آپ جیسے اہل علم کا رخصت ہوجانا ملت کا بہت بڑا خسارہ ہے۔وفات کے دن جب میں نے جامعہ اسلامیہ کےاستاذ دکتور عبدالعزیز بن محمد الفریح اور دکتور کے ساتھی اورمیرے استاذ شیخ عبدالباری بن حماد الأنصاری کو یہ اندوہناک خبر سنائی تو دونوں خبر کوسن کر صدمے سے دوچار ہوگئے اور دیر تک دکتور کےحق میں دعائیہ کلمات کہتے رہے!

یہ کائنات اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے ۔یہاں بس اسی کی مرضی چلےگی۔اس کے ہرفیصلے سے راضی رہنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔دنیا میں نہ ہم اپنی مرضی سےآئے ہیں نہ اپنی مرضی سے جائیں گے۔خالق نے جب پید اکیا توآگئے‘جب وہ بلائے تو سبھوں کو جانا ہی پڑے گا۔ کامیاب اور سعادت مند وہ ہے جو جانے سےقبل توشہءآخرت تیار کرلےجائے۔

دعا ہےکہ اللہ تعالی دکتور آرکے رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے۔ آپ کے بشری تقاضوں سے درگزرفرمائے اورآپ کے اہل وعیال اورلواحقین کو صبرجمیل کی توفیق عطافرمائے۔۔آمین ثم آمین۔۔

12/02/2021

Shariah always have directed on keeping the distance between men and women Shaykh Abdul Azeem Umari Madani

30/01/2021

Allama ehsan elahi zaheer firing speech .
علامہ احسان الٰہی ظہیر کی زوردار تقریر۔۔

25/10/2020


عید میلاد ؟؟

04/10/2020
27/09/2020

سلمان ندوی کی ابو ھریرہ رض کی شان میں گستاخی کا کرارا جواب ۔۔
مولانا عبدالعظیم صاحب عمری مدنی حفظہ اللہ ۔۔۔

25/09/2020

علاما احسان الہی ظہیر رح ۔۔۔
Allama ehsan elahi zaheer rh ka khitab ...

24/09/2020

تعویز پہنا کی شرعی حیثیت ۔۔
Taweez ki Haqeeqat ...
مولانا ثناءاللہ مدنی حفظہ اللہ ۔۔۔

23/09/2020

مولانا عبدالغفار سلفی حفظہ اللہ

20/09/2020

Ki Haqeeqat ..
IPL کی حقیقت ۔۔
شیئر ضرور کریں

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ISLAM TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share