نبض پاکستان "Nabzepakistan"

  • Home
  • نبض پاکستان "Nabzepakistan"

نبض پاکستان "Nabzepakistan" News Information Blogspot to promote clean culture in Journalism

30/09/2024

پنجاب کے جنوبی اضلاع سے کارکنوں اور مزدوروں کی قابلِ ذکر تعداد کام کی تلاش میں بلوچستان کا رخ کرتی ہے اور گذشتہ ایک برس کے دوران بلوچستان میں پنجاب سے تعلق والے ایسے ا...

29/09/2024

28 ستمبر یوم صحافت کے حوالے سے چھوٹے صحافیوں کے بارے میں چند حقائق
بڑے شہروں سے باہر نکلیں تو
صحافت اور صحافیوں کی تعریف ہی کچھ اور ہے۔ میڈیا ادارے تنخواہ تو دور کی بات ان صحافیوں کو اعزازیہ بھی نہیں دیتے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں صحافیوں سے بات ہوئی تو معلوم چلا کہ ایسے صحافیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو مفت میں میڈیا اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ان صحافیوں کے بقول نہ تو انہیں کسی قسم کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کے آلات دیے جاتے ہیں، جن سے ان کی صحافت میں آسانی ہو سکے۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں تنخواہ ملنا تو ایک خواب ہے ہی، الٹا ان کے ادارے ان سے سپلیمنٹ اور اشتہارات لانے کے لیے کہتے ہیں۔

یہ وہی صحافی ہیں جو ملک کے بڑے شہروں کے صحافیوں کے لیے آواز اٹھانے میں ہچکچاتے نہیں۔ اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت دیگر بڑے شہروں میں صحافیوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہو تو یہ لوگ بھی اپنے اپنے اضلاع میں باہر نکل آتے اور مظاہرے کرتے ہیں، لیکن جب انہیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو بڑے بڑے شہروں کے صحافی ان کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔

23/06/2024

چند ماہ پہلے ذاتی ضرورت کے تحت پاکستان کے ایک اسلامی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی ضرورت پیش آئی
اکاؤنٹ کھلوانے کے چند دنوں بعد اپنے دوسرے بینک سے دو اقساط میں چند لاکھ اس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کئے کوئ ایک ہفتے بعد برانچ سے جس موصوف نے بینک اکاؤنٹ کے پیپر وغیرہ لئے تھے ایک کال کی کہ ا پکے اکاؤنٹ میں چند لاکھ کی مشکوک ٹرانزیکشن ہوئ ہے زرا وضاحت فرما دیں۔ کی کس نے اور کیوں کی خیر اسکو وضاحت تو ایسی دی کہ
اسلامی بینک کے ریجنل ہیڈ نے دوبی کال کر کے پھر مجھے وضاحت دی کی بچہ ہے (یاد رہے وہ بینک منیجر تھا )غلطی ہو گئ دوبارہ سے ایسا نہی اکرے گا اسکی نوکری کا سوال ہے خیر بات آگئ ہوگئ
اب آتے ہی۔ اصل مدعا کی طرف
دوبئ میں پاکستانیو کی اربوں ڈالر کی پراپرٹیز نکل آئ

یک کر کٹر صاحب ‏🏏 پہلے کہتے رہے میں جی جوا لگانے والی کمپنی کا لوگو نہی لگاؤں گا ( اسلامی ٹچ )
پھر اسکے ایک ویلھے نکمے بھائ نے آٹھ کروڑ کی گاڑی گفٹ کردی
اور دوبئی میں فلیٹ بھی گفٹ میں بھی ملا 🤔
یہ امریکہ سے میچ ہارنے سے قبل کی باتیں ہی۔

30/03/2024

وظیفہ خوروں کی وجہ سے ضیا دور میں میں جو معاشرے میں ات مچائ تھی افغان جہاد اور کشمیر کے نام پر آج انکے سر پرست اعلیٰ ہمیں بیچ منجھدار کے خود ماڈرن ہورہے ہیں — Saudi Arabia has announced that it will participate in the Miss Universe pageant for the first time, a move by Crown Prince Mohammed bin...

پاکستان میں ایف بی آر می۔ بابے جن کو واٹس ایپ چلانا تک نہی آتا وہ کرپیٹو کیسے چلائیں گے
19/03/2024

پاکستان میں ایف بی آر می۔ بابے جن کو واٹس ایپ چلانا تک نہی آتا وہ کرپیٹو کیسے چلائیں گے

15.4K likes, 316 comments. “IMF wants to Tax Crypto in Pakistan. ”

10/02/2024

سیاستدان تاریخ سے سبق کیوں نہی سیکھتا ہے
ان کے ساتھ بھی وہی گیم ڈالے جاے گی جو خان کی حکومت کے ساتھ کی گئ تھی کوئ واضح اکثریت والی حکومت نہی بننے دینی پھر ایم کیو ایم علیحدہ ہو جاے گی پھر بلوچستان والے علیحدہ ہو جائیں گے اور پھر آزاد علیحدہ ہو جائیں گے اور یہ علیحدہ ہونے والے مفاد پرست تما م تر مفاد حکومتی پروٹوکول کے مزے لوٹنے کے بعد یہ بیانہ تراشیں گے کہ موجودہ حکومت عوامی مفاد میں کام نہی کررہی ہے اور پھر سسٹم ڈھڑام پھر کسی اور سیاست دان پر جاتے رکھ دیں گے اور اگلے پانچ سال پھر یہی تماشا

20/12/2023

Last chance to join the largest Academic and Clinical setting of South Punjab. Few seats are available.
In case of any query contact at:
DPT: 0305 2278988
Pharm. D: 0301 8734750

12/12/2023

ڈھکن تیار کرنے کی فیکٹریاں

مجھے اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد چرب زبان موٹیویشنل اسپیکرز کو سنتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ انھیں بڑے بڑے انسٹیٹیوشنز میں بطور اسپیکر مدعو کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ لوگ سر سے پیر تک زبان ہی زبان ہیں۔ اور اپنی اسی لفاظی کے لاکھوں روپے بٹورنا شائد ان کی واحد "کامیابی" ہے۔ یہ کسی فیلڈ کے ایکسپرٹ نہیں۔ کوئی اسکلز نہیں جانتے۔ کوئی کمپنی، کوئی ادارہ build نہیں کیا۔ کسی اسٹارٹ اپ کے فاؤنڈر نہیں۔ اپنے ہاتھوں سے کوئی پہاڑ ریزہ نہیں کیا۔ صرف پینٹ کوٹ ٹائی اور الفاظ کا گھماو پھراو۔ پھر بھی لاکھوں لوگ انھیں بیٹھ کر سنتے اور اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہماری قوم شعبدہ بازی اور چرب زبانی کو ویسے ہی بہت پسند کرتی ہے۔ عمل پسند اس قوم کے لئے ایک نا پسندیدہ طبقہ رہا ہے۔

آپ کسی وقت یوٹیوب پر بیٹھ کر انٹرنیشنل TED Talks سنیے تو آپ جانیں کوالٹی اور ٹیلنٹ کسے کہتے ہیں۔ وہاں اپنی فیلڈ کے ماہرین مدعو کیے جاتے ہیں، بڑے بڑے achievers اور Doers کو بلایا جاتا ہے۔ وہ اپنا سفر شئیر کرتے ہیں، چول پنے کے قصے کہانیوں کی بجائے اپنے رئیل ورلڈ experiences شئیر کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اکثریت سرے سے جانتی ہی نہیں کہ "ویلیو انفارمیشن" کسے کہتے ہیں۔

ہمیشہ کے لیے یاد رکھیں۔
*یہ نہ دیکھیں کہ کوئی بندہ کیا کہہ رہا ہے*
*بلکہ،*
*یہ دیکھیں کہ یہ کیا کرچکا ہے۔۔۔۔۔*
باتوں سے نہیں، کام سے متاثر ہونا سیکھیں

11/12/2023

جنھیں سوات سے گل مکئ کی ڈائری ملی تھی
انھیں غزہ سے ابھی تک کوئ ڈائری۔ نہی ملی؟

08/06/2023

اس وقت راجن پور و مٹھن کوٹ کے اوپر انتہائی گہرے بادلوں کا سلسلہ موجود ہے جس کا رخ ظاہرپیر و نواح کی طرف ہے ان بادلوں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت منفی 39 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اگر مزید کم ہوا تو برس سکتے ہیں

منور سلیم کھو کھر

25/03/2023


آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں چائینہ کی ایک کمپنی کو پروموٹ کیاجا رہا ہے" TIENS "۔جو ہمارے غریب لڑکے اور لڑکیوں کو نوکری دینے کے بہانے ان سے پہلے 60000 ہزار بٹورتا ہے اور لڑکی یا لڑکے کا NIC اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ میں بتاتا ہوں کہ یہ بچوں کو 60000 دینے پر کیسے مجبور کرتا ہے۔سب سے پہلے یہ نوکری پر آنے کے لۓ انٹرویو پر بلاتا ہے انٹرویو میں یہ بچے سے 4000 فیس لے کر اور شناختی کارڈ لے کر اس کو 5 دن اپنے کام کے بارے میں کلاس دیتا ہے جس میں یہ بچے کو بڑے خواب گاڑی دیکھاتا ہے کہ اگے چل کر آپ لاکھوں کماؤ گے کم عمر میں کمپنی کی طرف سے گاڑی اور بائک ملے گی۔ اس طرح یہ بچوں سے 60ہزار لے کر اپنا غلام بنا لیتا ہے ۔یہ ایک پوری مافیہ ہے جسے کافی MNA سپورٹ کر رہے ہیں اعلی احکام سے گزارش ہے ایک دفعہ پھر سے ان کا پردہ فاش کردیاجاۓ


اگر کوئی آپ کو جاب کی آفر کرے یا جاب کی ایڈ دیکھیں
کہ کمپیوٹر پر کام کرنا ہے یا انوائسز بنانی ہیں

اور بس تنخواہ بیس سے تیس ہزار اور کمپنی/ ادارے کا نام بھی نہ بتائے یا گول مول جواب دے

اور آپ کو کسی شہر میں آنے کو کہیں اس تاکید کے ساتھ تین چار ہزار روپے ساتھ لیتے آئیں

تو جاب کرنے سے انکار کر دیں اور اگر آپ چلے بھی جائیں اور کسی غیر معروف سی رہائشی جگہ یا ایسے دفتر میں آپ کو بیٹھائیں

جہاں کسی کمپنی کا بورڈ نہ لگا ہو

اور آپ سے رجسٹریشن/ ویریفیکیشن/ بینک اکاؤنٹ کھولنے کیلئے دو تین ہزار طلب کریں
اور
کہیں کہ آپ کو دو چار پانچ دن ٹریننگ دی جائے گی۔۔۔۔اس دوران کسی سے بات چیت نہیں کرنی۔۔۔۔موبائل کا استعمال نہیں کرنا تو پیسے جمع مت کروائیں۔۔۔۔۔فوراً گھر لوٹ جائیں۔۔۔۔بغیر کسی کی بات سنے۔

آپ کے ساتھ #فراڈ ہو رہا ہے۔

اور جس کمپنی کے نام پر ہو رہا ہے اس کا نام ہے . Or Health care

اسی کمپنی کا دوسرا نام ہے

اگر آپ کا بیٹا/بھائی/شوہر جاب پر جانے کے بعد آپ سے دس پندرہ بیس چالیس ہزار روپے یکمشت یا تھوڑے تھوڑے کر کے منگوا رہا ہے

اور کھل کر اپنے کام کے بارے میں بھی آپ کو نہیں بتا پا رہا تو ہوشیار ہو جائیں۔

شاید وہ ایسی ہی کسی کمپنی کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔

جہاں اسے 2* ، 3* کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔۔۔فوراً سے پہلے گاڑی پکڑیں اور اُسے واپس لے آئیں

تقریباً ہر شہر میں انکے اڈے ہیں

سب مل کر اس کام میں ہماری مدد کیجیے تاکہ غریب لوگ اس فراڈ سے بچ سکیں

اس بلڈنگ میں بھی آفس بنایا ہوا ہے

26/06/2022

سیلاب ہی تو ہمارے خواب ہیں

انجنئیر ظفر وٹو

موسم کے سارے اشارئے اس سال کے نصف اوّل میں دہائیوں کی بدترین خشک سالی کے باوجود اب ایک غضب ناک مون سون کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔اور ہماری کانپیں ابھی سے ٹانگنا شروع ہو گئی ہیں۔ وزیر موسمیات نے بارش کے ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر آفتوں سے نمٹنے والے اداروں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اسے دفاعی حکمت عملی کہتے ہیں یعنی “جاگتے رہنا ۔ ساڈے تے نہ رہنا”

کسی بھی کھیل کا کھلاڑی جب جیت کے لئے پرعزم ہوکر میدان میں اترتا ہے تو کسی نہ کسی دن جیت اس کا مقدر ضرور بنتی ہے۔ نہ بھی جیتے تو دیکھنے والے ایک اچھے مقابلے کی داد ضرور دیتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی کھلاڑی میدان میں ہار سے بچنے کا خوف لے کر اترتا ہے تو وہ میچ سے پہلے ہی آدھا میچ ہار چکا ہوتا ہے۔ چونکہ وزیر موصوف ابھی سے بارش کو تباہ کن کہنا شروع ہوگئی ہیں تو آپ کو ہمارے اداروں میں بیٹھے افراد کی دفاعی حکمت عملی سمجھ میں آسانی سے سمجھ آگئی ہوگی۔

پاکستان میں 2010 کے سپر فلڈ کے بعد قومی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز بنائی گئیں جس کے ساتھ ہی واضح ہوگیا کہ ہم نے سیلاب کو تباہی و بربادی پیدا کرنے والی ایک آفت سمجھ کر نپٹنا ہے نہ کہ اسےاک نعمت اور پانی کی لامحدود مقدار کو ذخیرہ کرنے کا موقع۔ کاش کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ“ فلڈ اپر چیونٹی ہارنسنگ اتھارٹیز “ (سیلابی موقع کے استعمال کے ادارے) بنا لیتے۔

پاکستان میں بڑے سیلاب کچھ سالوں کے وقفے سے آتے رہتے ہیں۔ وفاقی سیلابی ادارے (فیڈرل فلڈ کمیشن) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک بیس سے زیادہ بڑے سیلاب آچُکے ہیں۔ یعنی ہر تیسرے یا چوتھے سال کے بعد ایک سیلاب ۔

سیلاب کو باقاعدہ طور پر ایک آفت 2010 کے سپر فلڈ کے بعد قرار دیا گیا جبکہ اس سے پہلے تک 19 سیلاب آچُکے تھے۔ صرف اس ایک بد ترین سیلاب میں 2 کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی اور 20 لاکھ پاکستانی بے گھر ہوئے اور صرف ایک سال میں پاکستانی معیشت کو 10 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

اس سیلاب کے بعد ہم دنیا جہان سے قرض لے کر پورے ملک میں دریاؤں کے کنارے سیلابی بند بنانے پر جت گئے جس سے سیلاب کی شدت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ پورا زور مٹی پتھر سے دریاؤں کے سیلابی میدانوں کو بھرنے پر لگا دیا گیا۔سارا فوکس سیلابی پانی کو پھیلنے سے روکنے پر تھا حالانکہ انہی پیسوں سے اس پانی کو بنجر اور بارانی زمینوں کی طرف موڑ کر پھیلا دینے کا نظام بنا دیا جاتا تو سیلابی بند بنانے کی ضرورت کم ہو جاتی کیونکہ سیلابوں کا زور ٹوٹ جاتا۔

پاکستان میں آنے والے سیلابی پیٹرن کو دیکھا جائے تو اس میں بھی مالک نے عقل واکوں کے لئے نشانیاں رکھ دی ہیں لیکن ہم ہیں کہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہر سیلاب کے بعد ہمیں دوچار سال سوچنے سمجھنے اور کچھ حرکت کرنے کے لئے ملتے ہیں۔

پاکستان میں دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم اور اس پانی کو نہروں میں موڑ کر آب پاشی کے لئے بیراج بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ایک دریا میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دوسرے دریا سے لنک کینال یا رابطہ نہریں بنائی گئی ہیں۔

تاہم یہ سارا نہری نیٹ ورک دریاؤں میں سیلاب گزرنے کی صورت میں بالکل بند کردیا جاتا ہے اور بیراجوں کے گیٹ کھول دئے جاتے ہیں۔ہر بیراج پر کسی طرح اوپر سے آنے والے سیلابی ریلے کو بحفاظت نیچے کی طرف گزارنے کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مون سون میں آپ محکمہ موسمیات کی طرف سے کالا باغ، چشمہ ، تونسہ، گدو، سکھر بیراج وغیرہ سے گزرنے والے سیلابی ریلے کے بارے میں سنتے رہتے ہوں گے۔ چینلز پر اس ریلے کے بارے میں ٹکرز ایسے چل رہے ہوتے ہیں جیسے چنگیز خان کی فوجیں تباہی پھیلاتی آگے بڑھ رہی ہوں۔

ہمارا ملک پانی کی شدید کمی کا شکار دنیا کے چند ایک خاص علاقوں میں شامل ہے اور اتنے زیادہ سیلابی پانی کو بغیر استعمال یا ذخیرہ کئے آبادیوں یا زرعی زمینوں میں تباہی پھیلانے کے لئے کھلا چھوڑ دینا یا سمندر برد کر دینا شرمناک ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کی تنبیہ کے مطابق 2030ء تک پاکستان میں سالانہ 27لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں ،اس وقت ہر سال 7 لاکھ 15 ہزار افراد سیلابی پانی کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لئے “سیلابی اری گیشن “ کا نظام صدیوں سے قائم ہے جہاں بپھرے ہوئے ندی نالوں کے راستوں میں چھوٹے بڑے کچے پکے بند لگا کر سیلابی پانی کو ندیوں سے باہر نکال کر بنجر اور بارانی زمینوں پر پھیلا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف سیلابوں کی شدت کم ہوتی ہے بلکہ بنجر زمینیں بھی سیراب ہوتی ہیں اور سیلابی پانی میں موجود مٹی کی تہہ بچھنے سے زمینوں کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اس سیلابی اری گیشن کا بنیادی نکتہ ہی بپھرے ہوئے سیلابی پانی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرکے اسے ناراض کرنے کی بجائے اس کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اس کی مرضی کر روٹ سے نکالنا اور زیادہ سے زیادہ رقبے پر پھیلانا ہوتا ہے۔ یہی طریقہ کار کوہ نمک، کوہ سلیمان اور کیرتھر پہاڑی سلسلے سے آنے والے سیلابی نالوں کے پانی کو استعمال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ڈیرہ جات میں تو رود کوہی کا پورا نظام آب پاشی رائج ہے۔

تاہم قومی سطح پر سیلابی پانی کو استعمال کرنے کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے اور بڑے دریاؤں کے سیلابی پانی کو اچھوت سمجھ کر اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کو ہی غنیمت سمجھا جاتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹیں بنا کر اس کو اور غضب ناک کردیا جاتا ہے۔حالانکہ پاکستان کے سیلابی پانی سے متاثرہ علاقے کے نقشے کو دیکھا جائے تو خود بخود ہی ان نشیبی علاقوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے جہاں سیلابی پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جس مقصد کے لہئے کو ئی بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت بالکل نہیں ہو گی بلکہ دریا کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ بغلی تالاب (آف لائن اسٹوریجز) بہت بڑی تعداد میں بنائے جاسکتے ہیں جو سیلاب کے دنوں میں قدرتی طور پر بھر جائیں گے۔ یہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ سیلابوں کی شدت کو بھی بہت کم کردیں گے۔

دوسرا آپشن دریاؤں پر موجود بیراجوں کو استعمال کرتے ہوئے سیلابی پانی کو بارانی علاقوں میں پھیلانے کا نظام بنانا ہے جس کے کئے ان سے سیلابی نہریں نکالی جاسکتی ہیں۔ ملک میں اس کی گنجائش اور ضرورت کی جگہیں کچھ اس طرح ہیں۔

1۔تربیلا ڈیم کے اسپل وے سے خارج ہونے والا پانی غازی بیراج سے روک کر بہت سے سیلابی راستوں کے ذریعے پوٹوھار کے علاقوں خصوصا دریائے سواں اور دریائے سل کے علاقوں میں پہنچایا اور پھیلایا جاسکتا ہے۔ پنڈی گھپ تحصیل اور خصوصا تراپ کے علاقے میں تو تربیلا کے اسپل وے سے بہنے والے سیلابی پانی کا بہت بڑا حصہ ڈیم بنا کر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جس سے دریائے سندھ کی سیلابی کیفیت بہت حد تک کم ہوجائے گی۔ تربیلا سے اسپل ہونے واکے پانی کو لانے والے یہ سیلابی راستے مون سون کے علاوہ باقی دنوں میں خشک ہوں گے اور انہیں آمدورفت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یا پھر ان پر ایک بارانی فصل آرام سے لی جا سکتی ہے کیونکہ سیلابی پانی کی نمی ان راستوں میں دیر تک رکے گی۔

2- تربیلا سے نیچے دریائے کابل اور دیگر علاقوں سے دریائے سندھ میں آنے والے سیلابی پانی کو چشمہ بیراج کے بائیں طرف سے سیلابی نہروں کے ذریعے صحرائے تھل کے سارے علاقے میں پھیلایا جا سکتا ہے۔اسی طرح منگلا ڈیم سے نکلنے والے سیلابی ریلے کو جھنگ کے قریب تریموں بیراج کے دائیں طرف سےسیلابی نہروں اور راستوں کے ذریعے صحرائے تھل کے اوپر پھیلایا جاسکتا ہے۔

3-پنجند بیراج کے بائیں کنارے پر سیلابی نہریں بنا کر سیلابی پانی لوئر چولستان کے صحرا میں پھینکا جا سکتا ہے جب کہدریائے سندھ کا سیلابی پانی گدو اور سکھر بیراج کے بائیں کنارے پر سیلابی نہریں بنا کر صحرائے تھل میں پہنچایا اور پھیلایا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریاؤں کے سیلابی پانیوں کو راستے دینے سے نہ صرف دریا کے اندر سیلاب کا زور کم ہو گا اور دریا کنارے آبادیوں ، املاک اور زرعی زمینوں کی تباہی کم ہو گی بلکہ بنجر اور بارانی علاقوں میں زمین کی نمی میں اضافہ ہوگا۔ صحراؤں میں کم ازکم ایک سیزن کی فصلیں اور زیادہ تعداد میں درخت کاشت ہو سکیں گےاور ساتھ ہی سیلابی پانیوں کی لائی ہوئی زرخیز مٹی سے صحرا بھی زرخیز زمینوں میں بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ سیلاب ہمارے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

, #انجنئیرظفروٹو

21/06/2022
18/06/2022

پکچر ابھی باقی ہے۰۰۰۰۰۰۰(دوسرا حصہ)

‎انجنئیر ظفر وٹو

پچھلے بلاگ میں پاکستان کے پانیوں کے حوالے سے کچھ مثبت اشاریوں پر بات کی تھی ۔تاہم ان اشاریوں پر خوشی سے بغلیں بجانے کی بجائے بلا تاخیر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی بنیاد پر ہم اپنا مستقبل محفوظ کرسکیں۔ کرنے والے کاموں کی تفصیل پچھلے بلاگ کی ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ یوں ہے۔

1- ہمارے گلیشئیرز کا پانی محفوظ لیکن محدود ہے

‎ہمارے گلیشئیر گلوبل وارمنگ کے باوجود سب سے زیادہ محفوظ ہیں لیکن ان کی برف کے پگھلنے سے ملنے والے پانی کا سالانہ حجم ایک خاص مقدار میں ہے۔جسے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے

‎گلہیشئر کا پانی عزت مانگتا ہے۔ ہم بارش کے لامحدود پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی خاص ترددنہیں کرتے
‎لیکن جیب سے خریدے ہوئے منرل واٹر کی بوتل میں بچا ہوا پانی ریستوران سے بھی اٹھا لاتے ہیں۔ گلیشئیر کے پانی کو بزرعی زمینوں میں فلڈ اری گیشن کے لئے استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسے منرل واٹر سے استنجا کیا جائے۔

‎مستقبل میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی گے لئے گلئیشیر کے پانی کی فی کس مقدار آہستہ آہستہ کم ہوتی جائے گی کیونکہ گلیشئیر پگھلنے کی رفتار تقریباً ایک جیسے رہے گی لیکن آبادی بڑھنے کی وجہ سے پانی کے استعمال کی رفتار تیز ہوجائے گی۔

2- بارش کے یقینی چکر (سائیکل) کے باوجود بھی کم ازکم سالانہ اسٹوریج کے لئے ڈیم ضرور چاہئیں

کچھ حد تک یقینی بارشوں کے سالانہ چکر (سائیکل) کی وجہ سے پاکستان کو صرف ایک سال کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا فرق پورا کرنے کی ضرورت کے بڑے ڈیم چاہئیں۔ کیری اوور اسٹوریج کی ضرورت نہیں۔ یعنی ایک سال کا ذخیرہ شدہ پانی دوسرے سال تک استعمال کرنے کے لئے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر سال مون سون میں بارشیں ہوجاتی ہیں۔

منگلا اور تربیلا کافی حد تک یہ ضرورت پوری کر رہے تھے اور ہمیں چاہئے تھا کہ ان کی جھیلیں مٹی سے بھرنے سے پہلے ہی ان کے متبادل ڈیم بنا لیتے ۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور اب ہمیں ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کی وجہ سے پانی کی کمی ہے۔ لہذا ہر وقت ہمیں کم ازکم سالانہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا فرق پورا کرنے والے ڈیم ضرور چاہئیں

3۔ جدید زراعت کی پاکستان میں ترویج تقریباً مشکل کام بن چکا

پاکستان کا موجودہ نظام زراعت سائنسی طریقہ کار کی بجائے صدیوں پرانے فلڈ اری گیشن سسٹم اور لوکل وزڈم کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ کسان زراعت کی بنیادی اکائی ہے جو کہ اس وقت غربت اور قرض کی چکی میں پس رہا ہے ۔ اوپر سے تقسیم در تقسیم سے زرعی زمینوں کے یونٹ چھوٹے ہوتے جارہے ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج مناسب وقت پر فصل کے لئے پانی ملنے کی بے اعتباری ہے ۔

ان حالات میں ہم ایک کم پڑھے لکھے، بے وسیلہ اور محتاج کسان سے کیسے قطراتی نظام آب پاشی جیسا ہائی ٹیک اور مہنگا نظام اپنانے کی توقع کر سکتے ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ حکومت آج تک لانچ کئے جانے والا ہائی ایفی شنی اری گیشن کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ آپ نے نظام کی بنیادی اکائی کو مضبوط کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔

اس طرح ڈرپ سسٹم اگر لگا بھی دیں تو اس وقت پاکستان میں ان سسٹمز کے سپئیر پارٹس تک نہیں ملتے ۔ چھوٹے چھوٹے پارٹ جیسے” ڈر پر “ وغیرہ تک باہر سے درآمد کرنے پڑتے ہیں۔ اب کسان اس جھنجٹ میں کیسے پڑے۔ سال دو سال چلنے کے بعدخرابی کی صورت میں کسان پائپ سسٹم کو اکھاڑ پھینکتا ہے کیونکہ مقامی مارکیٹ سے اس کی مرمت یا تبدیلی کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ موجودہ جب تک ڈرپ سسٹم کا پورا سپلائی چین مقامی نہیں بنتا یہ سسٹم ہمارے ہاں نہیں چل سکتا۔

ہمیں اپنے نہری نظام کو بتدریج پائپ سسٹم میں تبدیل کرنا ہوگا جس سے پانی کی فراہمی بہتر ہوگی اور پانی کی بچت بھی ہوگی اور ٹیوب ویل پر انحصار کم ہوگا۔

اس سلسلے میں ملک کی نمبر ون ایک فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے گریجویٹس کو تعلیم کے بعد زرعی نظام میں باقاعدہ ایک نظم کے تحت کسانوں کے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ان طالب علموں کو ایک کارآمد فنانشئیل ماڈل کے تحت حکومتی یا پرائیویٹ زمینیں الاٹ کر کے سائنسی بنیادوں پر زراعت کو ترویج دینا ہوگی جس سے تحریک پاکر عام کسان بھی ان طریقوں کو اپنائیں گے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کی طرز پر ملک میں ہر سطح پر مددگار زرعی ورکرز کا نظام رائج کرنا ہوگا جس میں یہ ورکر کھیتوں کھلیانوں، چوپالوں اور ہجروں ممیں جا کر مقامی زبانوں میں سادہ طریقے سے کسانوں کو جدید زرعی طور طریقوں پر آگاہی دیں گے۔

صرف خوش ہونے ، واہ واہ کرنے اور اپنی خوش قسمتی کے ڈھنڈورے پیٹنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک کہ ہم عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ ہم سے مراد بالخصوص سیاسی قیادت اور تمام شعبوں کے متعلقہ ذمہ دار اور بالعموم عام پبلک ۔

, #انجنئیرظفروٹو

12/02/2022

غریب_ہونا_جُرم_بن_گیا ۔

رورل ہیلتھ سنٹر ظاہرپیر میں تعینات ایل ایچ وی میڈم شاہین نے آئے روز مریضوں سے بدتمیزی اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔
گزشتہ روز 3 ماہ کی حاملہ رخسانہ کو زنانہ مسئلہ بنا تو غربت کی وجہ سے انکے پاس چلی گئیں ، تو اس نے دیکھا کہ لیڈی ڈاکٹر شاہین ہر مریض کو بدتمیزی سے ٹریٹ کرہی تھی ۔ ایک مریضہ کے ٹانکے لگائے اور پھر بھی ٹانکوں سے خون جاری تھا ۔ تو ورثا نے کہا اسکا خون جاری ہے پلیز اسکو دیکھیں تو لیڈی ڈاکٹر نے کہا بیشک مر جائے میں نے نہیں دیکھنا آپ غریب پیدا ہوئے ہی مرنے کے لیے ہو ۔ جاو کہیں پرائیویٹ اسپتال جاکر مرو ۔ اس کے بعد جب اس مریضہ کی باری آئی جسکو تین ماہ کا حمل تھا خون چل رہا تھا تو اسکو دیکھنے کے بعد کہتی ہے کہ تمہارا حرام کا بچہ ہے کیا ؟ تمہارے پیٹ میں کہ تم اپنی حفاظت نہیں کررہی ، اس نے منت کی کہ میرا شوہر باہر کھڑا ہے خدارا کیسی باتیں کررہی ہو ، مجھے دوائی دو صبح سے خون جاری ہے تو لیڈی ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا تمہارا بچہ ضائع ہوگیا ہے حرام کا ہوگا اس لیے ضائع ہوا ، شام کو میری کلینک فتح پور کمال آجانا میں صفائی کردونگی ساتھ میں 7 ہزار روپے لیتے آنا ۔ مریضہ اپنے خاوند کے ہمراہ آر ایچ سی سے ظاہرپیر نجی ہسپتال آئی تو وہاں چیک اپ کرایا تو پتا چلا کہ بچہ ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا ، اندرونی کسی مسئلے کی وجہ سے خون چلا ہوگا ، دوائی لی اور اب مریضہ ٹھیک ہے اور اسکا حمل بھی ۔
میں بطور عام شہری وزیراعلیٰ پنجاب سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا رورل ہیلتھ سنٹر ظاہرپیر میں کوئی فرض شناص لیڈی ڈاکٹر تعینات کی جائے

واقعہ کے چشم دید گواہان بھی موجود ہیں

بشکریہ

ساجد ارائیں

Usman Buzdar
Imran Khan

07/02/2022

ایڈیشنل آئی جی PHP متوجہ ہوں؟؟؟

تحریر :-عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور

پنجاب کے مضافاتی علاقوں میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے پنجاب کے وزیر اعلی پرویز الہی نے پولیس میں "پنجاب ہائی وے پٹرول "کے نام سے ایک علحیدہ فورس بنائی جس کا کام صرف پنجاب کی ہائی ویز پر ہونے والی سنگین وارداتوں کی روک تھام تھا اس فورس کے لیے کروڑوں روپوں کے فنڈز مختص کیے گئے پورے پنجاب میں نئی بلڈنگز بنائی گئیں نئی گاڑیاں فراہم کی گئیں پنجاب حکومت کے اس اقدام سے ہائی ویز پر ہونے والی وارداتوں میں کُچھ کمی ضرور ہوئی مگر پرویز الہی کی حکومت ختم ہوتے ہی اس محکمہ کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے PHP کے چھوٹے ملازمین آجکل سڑکوں پر کھڑے ہوکر صرف موٹرسائیکل اور ٹریکٹر ترالیاں کے چالان کرتے ہیں سرکاری گاڑیوں کو تیل نہیں ملتا گاڑیاں کھٹارا ہو چُکی ہیں یہ ملازمین پناہ مسائل کا شکار ہیں مگر اعلی افسران کی موجیں لگی ہوئی ہیں جس کی بڑی مثال موجودہ ایڈیشنل آئی جی پٹرولنگ شاہد حنیف صاحب کی ہے جناب شاہد حنیف صاحب کی بطور ایڈیشنل آئی جی دوسری تعیناتی ہے مبینہ طور پر موصوف کی بطور ڈی پی او خانیوال ،رحیم یار خان اور بطور آرپی او بہاولپور کرپشن اور غیراخلاقی سرگرمیوں کے قصے بہت مشہور ہوئے تھے جن کی بازگشت آج بھی سُنائی دیتی ہے حکومت کی ایک صوبہ میں دس سال سے زیادہ کی پالسی کے مطابق بُہت سے اچھے افسران پنجاب بدر ہو گئے مگر جناب شاہد حنیف صاحب آج بھی پنجاب میں پوسٹنگ کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اب کی قیادت میں مبینہ طور پر PHP کے افسران اور ملازمین دن دوگنی اور رات چوگنی کرپشن کر رہے ہیں
آج پھر مجھے پیٹرولنگ ہائی وے پولیس کے ایک اہلکار نے خط لکھا ہے جس میں افسران کی عیاشیوں اور کرپشن کا ذکر ہے میری ناقص رائے کے مطابق اس فورس کو ضلع کی پولیس فورس میں ضم کر دینا چاہیے اور ان پوسٹوں کو تھانہ یا تھانہ کی چوکیوں بنا دینا چاہیے تاکہ تھانوں میں کمی نفری ختم ہو سکے مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ اتنے سارے ایڈیشنل آئی جی صاحبان کہاں جائیں گے اور انکی عیاشیاں بھی ختم ہو جائیں گیں

اسلام علیکم عزیر اللّہ خان صاحب ۔
آپکی ویڈیو دیکھی جس میں محرر تھانہ ڈی پی او کے ملاحظہ کے لیے اہل علاقہ سے مطالبات کر رہا ہے ۔ آپ پولیس کلچر سے بخوبی آگاہ ہیں ۔
میں اس ضمن میں ایک دوسرے محکمہ پنجاب ہائے وے پیٹرولنگ کی بات کر رہا ہوں ۔ جب بھی ضلعی ڈی ایس پی صاحبان پوسٹ ھائے پر وزٹ کرتے ہیں تو ملازمان کی جیبوں سے ان کے لیے عیش و عشرت کا سامان مہیا کیا جاتا ہے ۔ اگر فارمل وزٹ ہو تو پر اہتمام ظہرانہ کا بندوبست کیا جاتا ہے ۔ جبکہ پیٹرولنگ کامحکمہ پبلک کرپشن بھی نہی کرتا ۔ وزٹ کے سارے اخراجات ملازمان اپنی تنخواہ سے پورے کرتے ہیں ۔
پنجاب بھر کی پوسٹوں میں یہی صورتحال پیش آتی ہے ۔ محکمہ پیٹرولنگ کے ملازمان تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔
مقامی ڈی ایس پی صاحبان اور ایس پی صاحبان کے علاوہ ایک ڈی ایس پی سی اینڈ وی کا عہدہ بھی ہے جو پورے پنجاب بھر کی چوکیوں کا وزٹ کر سکتا ہے ۔ ان صاحب بہادر کی روٹین یہ ہے کہ جس پوسٹ پر جاتے ہیں ۔ اپنی مرضی کے پرتعیش پکوان پکواتے ہیں اسکے علاوہ سرکاری گاڑی کے ڈیزل کی مد میں اپنی گاڑی کی ٹینکی فل کرواتے ہیں ۔ جس سے گشت ڈیوٹی متاثر ہوتی ہے ۔
براہ کرم اس حوالے سے سوشل میڈیا میں آپکی شنوائی ہوتی ہے ۔ آپ کوئی پوسٹ لگا دیں ۔ کچھ تجاویز ہوں تو وہ لکھ دیں تو مہربانی ہوگی ۔
دوسرا ملازمان کو وردی کے حوالے سے مسئلہ ہے ۔ڈسٹرکٹ والوں کو سلی سلائی وردی ملتی ہے جبکہ پیٹرولنگ والوں کو کپڑا ملتا ہے جسکی سلائی ملازمان جیب سے ادا کرتے ہیں ۔ ڈسٹرکٹ پولیس کی طرح پیٹرولنگ پولیس کے ملازمان کو بھی اچھی سلی ہوئی وردی مہیا کی جاوے ۔
میس کے حوالے سے اکثر پنجاب کی پوسٹوں پر لانگر ی اور سویپر کاغذی طور پر تعینات ہیں ۔ مگر افسران نے انہیں اپنی ذاتی کوٹھیوں پر پاپند کر رکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے پوسٹوں پر پرائیویٹ لانگری رکھنا پڑتا ہے جس سے میس کے اخراجات میں اضافہ ملازمان کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
براہ کرم یہ گزارشات افسران بالا کے نوٹس میں دے دیں بغیر شناخت ظاہر کیے ہوئے ۔ شاید کچھ شنوائی ہو سکے
دعا گو
ملازم پنجاب ہائے وے پیٹرول پنجاب پولیس

06/02/2022

صنف نازک سے صنف آہن تک؟؟

تحریر:- عزیزخان ایڈوکیٹ لاہور

آجکل ٹی وی چینل پر اے آر وائی اور آرمی کے اشتراک سے بننے والا ایک ڈرامہ :صنف آہن" بہت دیکھا جارہا ہے اس ڈرامہ میں نوجوان لڑکیوں کو کاکول اکیڈمی میں ٹرینگ کرتے دیکھایا گیا ہے اس ڈرامہ کا مقصد ملک کی نوجوان نسل کو پاک فوج میں شمولیت کی دعوت دینا ہے کاکول کی سخت ٹرینگ کے بعد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کندن بن کر نکلتی ہیں اور ملک و قوم کے لیے جان دینے سے دریغ نہیں کرتیں اس ٹرینگ میں جسمانی سختی ضرور کی جاتی ہے مگر اُن ٹرینیز کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جاتا اُنکی صحت اور خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے کاکول ٹرینگ اکیڈمی سے خواتین ٹرینیز کو حراس کرنے کی شکایت بھی کبھی نہیں سُنی گی
مگر اس کے برعکس سہالہ ٹرینگ کالج میں ٹرینگ کا معیار انتہائی گھٹیا ہے یہاں خواتین ٹرینز کے ساتھ مرد سٹاف بدتمہیزی کرتا ہے اور ذومعنی جملے کس کر حراس کرتا ہے کُچھ سال قبل پروبیشنر لیڈی سب انسپکٹرز سے کالج کے کمانڈنٹ کی مبینہ طور پر جنسی حراسمنٹ کی شکایت پر اُس وقت کے آئی جی مشتاق سُکھیرا نے انکوائیری کروائی مگرلیڈی پروبیشنرز کو ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کے بیانات دلوائے گئے اور یوں گناہ گار سزا سے بچ گئے
آج مجھے سہالہ سے ایک لیڈی سب انسپکٹر نے تحریر بھجوائی ہے جو پوسٹ پر لگا رہا ہوں لیڈی سب انسپکٹر کی یہ تحریر ہمارے ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اگر سمجھیں تو شرم کا مقام ہے آپ اس تحریر کو پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ٹرینگ اس طرح ہوتی ہے جو سہالہ پولیس کالج میں دی جارہی ہے یا ایسی ہوتی ہے جو پاک فوج کے ٹرینگ سنٹرز دی جاتی ہے
پولیس کے ٹرینگ سینٹرز میں کروڑوں روپے خرچ کر کے بداخلاقی اور کرپشن سیکھائی جاتی ہے اور یہاں پر تعینات کمانڈنٹ ڈپٹی کمانڈنٹ صاحبان سرکاری فنڈز پر شاہانہ زندگی کزار رہے ہیں اور فنڈز میں غبن کر کے اپنی جاہیداد میں اضافہ کرتے ہیں

اسلام علیکم۔۔۔۔!
میں سہالہ پولیس کالج سے لیڈی پروبیشنر ہوں شناخت ظاہر کرنے سے معذرت۔ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کیا اور محکمہ پولیس میں بطور سب انسپکٹر بھرتی ہوئی۔ میں جو کچھ بھی کہنے جا رہی ہوں برائے مہربانی کچھ بھی حذف نہ کیا جائے۔ کہنے کو تو میں ایشیا کے سب سے بڑے کالج میں ٹریننگ کر رہی ہوں جہاں ہمیں جسمانی ورزش کروانے کے لیے نہ تو فی میل سٹاف اور جو ہے وہ بس مجسموں کی مانند ہیں۔ ھسپتال میں لیڈی ڈاکٹر تو دور کی بات نرس بھی میسر نہیں خواتین کے مخصوص مسائل کسے بتائیں؟؟ عورت ہر مہینے مخصوص وقت سے گزرتی ہے لیکن یہاں ہر جگہ ھمارا استحصال کیا جاتا ہے۔۔میل سٹاف خصوصاََ ایلیٹ انچارج اور لیڈی پروبیشنر پر مسلط سٹاف انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں ( اوے،تم،تمہیں، تجھے،ادھر آ) کہ کر بلاتے ہیں جیسے ہم عورت تو دور انسان بھی نہیں ہیں۔ جب طبیعت صحیح نہیں ہوتی تو مزے لے کر پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کیا ہوا ہے سٹاف بھی اور ڈاکٹر بھی جیسے ان کے گھر عورتیں نہیں ہیں۔۔ ہر جگہ ایک ایک قدم پر ذلالت ہے بطور عورت گھن آتی ہے خود سے ہم میل سٹاف کے سامنے وہ ورزشیں کرتے ہیں اس پوزیشن میں جاتے ہیں جہاں اپنے محرم رشتوں کے سامنے بھی نہیں جا سکتے۔۔۔ ہماری نوری مخلوق ایڈمنسٹریشن نے کوئی SOP نہیں بنائی ہمیں اس ذلت سے بچانے کے لیے۔ ہمیں ہر مہینے پانچ دن کا ریسٹ دیا جائے جو صرف اپنی فیمیل انچارج کو بتا سکیں ہمارا سارا سٹاف فی میل ہونا چاہیے۔ تاکہ اس ذہنی اذیت سے نکلا جا سکے۔ اگر یہ محکمہ اتنے برسوں سے ایک بھی فی میل ٹرینر نہیں بنا سکا تو یہ ساری ٹریننگ ہی بے بنیاد اور عورت کی حرمت کو تار تار کر دینے والی ہے۔ حتی کہ جو ایک دو فی میل سٹاف ہے انہیں اپنے مسائل بتاؤ تو کہتی ہیں اتنا شوق ہے پردے کا تو محکمہ چھوڑ دو یہاں بے حیا بے شرم بننا ہی پڑے گا۔ کیونکہ کل کو بہت کچھ کرنا ہے یہ تو شروعات ہے۔کل کس نے دیکھی ہے ہمارا آج تو صحیح کیا جائے ہمارا قانون ایک ملزمہ کے پردے کا احترام کرتا ہے کیا ہم اس ملزمہ سے بھی بدتر ہیں؟؟؟؟؟

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when نبض پاکستان "Nabzepakistan" posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share