Al Haram Media

  • Home
  • Al Haram Media

Al Haram Media Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Al Haram Media, Media/News Company, Gujranwala, .

04/10/2023
04/10/2023

تفسیر سورۃ الدخان | قاری عبداللہ وحید مدنی | الحرم میڈیا 2023

03/10/2023

اسلام میں مظلوم بن جانا گھاٹے کا سودا نہیں اسلام میں ظالم بن جانا گھاٹے کا سودا ہے , شیخ ضیاء الرحمن شھید رحمہ اللہ

28/09/2023

گود عائشہ میں حضور وفات پا گئے

شیطان کو جشن کی سوجھی صحابہ پہ غم چھا گئے
12 ربیع الاول

27/09/2023

شیر سندھ پروفیسر علامہ ابراهيم طارق صاحب
کی پنجاب میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس سے خطاب

محقق عالم دین مصنف کتب کثیرہ مولانا عباس انجم گوندلوی قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئےانا للّٰہ وانا الیہ راجعون
24/09/2023

محقق عالم دین مصنف کتب کثیرہ مولانا عباس انجم گوندلوی قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

22/09/2023

شیر سندھ پروفیسر علامہ ابراهيم طارق صاحب
ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث صوبہ سندھ
فاضل مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب
بمقام جامع مسجد صہیب رومی اہلحدیث گلستان جوہر بلاک 15 کراچی
22-09-2023

19/08/2023

Tafser Surah المؤمن | Qari Abdullah Waheed Madni | Al Haram Media 2023

13/06/2023

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَأُتِيَ بِتَوْرٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَتَفَجَّرُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ وَيَقُولُ حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ وَالْبَرَكَةِ مِنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ الْأَعْمَشُ فَحَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرٍ كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ أَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو پانی نہ ملا تو آپ کے پاس پانی کا ایک تھال لایا گیا، چنانچہ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹتا دیکھا۔ آپ فرماتے تھے: ’’آئو اس پاک پانی پر اور اللہ عزوجل کی برکت کی طرف۔‘‘
اعمش کہتے ہیں: سالم بن ابوجعد نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم اس دن کتنے تھے؟ انھوں نے فرمایا: پندرہ سو۔

تشریح :
اس میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 77

کتاب: امور فطرت کا بیان

برتن سے(پانی لے لے کر)وضو کرنا

حکم: صحيح

13/06/2023

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر نہ ملا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ پانی لایا گیا۔ آپ نے اپنا دست مبارک اس برتن میں رکھا اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے (چشمہ کی طرح) پھوٹ رہا تھا حتی کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔

تشریح :
(۱) باب کا مطلب یہ ہے کہ برتن سے چلو لے کر وضو کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس طریقے سے بابر بار ہاتھ کو برتن میں داخل کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ہاتھ کو لگا ہوا سابقہ پانی بھی برتن میں کرے گا، مگر اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۲) اس قسم کے بہت سے واقعات صحیح احادیث میں مذکور ہیں کہ تھوڑا پانی بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا حتی کہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے پانی کو بڑھتا ہوا دیکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۹۱،۲۹۰/۲) اسی طرح کئی دفعہ تھوڑا کھانا بھی بہت سے افراد کو کفایت کر گیا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۴۱۰۲) لہٰذا ان معجزات کا انکار کرنا دوپہر کے وقت سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس چیز کو برکت کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دی جاتی ہے تو وہاں اس جہان کے پیمانے کام نہیں کرتے۔ اگر منی کے ایک نظر نہ آنے والے جرثومے سے اتنا بڑا انسان بن سکتا ہے، ایک چھوٹے سے بیج سے اتنا بڑا درخت وجود میں آسکتا ہے، تو ان واقعات پر کیا تعجب ہے؟ وقت، جگہ اور حد ہمارے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند و بالا ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 76

کتاب: امور فطرت کا بیان

برتن سے(پانی لے لے کر)وضو کرنا

حکم: صحيح

13/06/2023

أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ عَنْ حَمَّادٍ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَنِي مَالِكٌ ح و أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ

ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اعمال کا اعتبار نیت سے ہے۔ ہر آدمی کو اس کی نیت کے طمابق اجر ملے گا، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہے تو اس آدمی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف سمجھی جائے گی اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر ہے تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف سمجھی جائے گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔‘‘

تشریح :
(۱) یہ حدیث دین اسلام کی چند اساسی احادیث میں سے ہے جن پر دین کی بنیاد ہے۔ اعمال سے نیک اعمال ہی مراد ہیں، یعنی ان کی صحت و اعتبار کے لیے نیت کا خالص ہونا شرط ہے، بخلاف برے اعمال کے کہ وہ اچھی نیت سے اچھے نہیں بن سکتے جبکہ نیک اعمال خراب نیت سے برے بن سکتے ہیں۔ (۲) اس حدیث کی رو سے نیت کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں جن میں وضو بھی داخل ہے اور یہی جمہور اہل علم و فقہاء اور محدثین کا مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک وضونیت کے بغیر بھی معتبر ہے کیونکہ یہ اصل عبادت نہیں، بلکہ اصل عبادت (نماز وغیرہ) کے لیے وسیلہ ہے، حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے ضو گناہوں کی معافی اور درجات کے حصول کا بھی سبب ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۸۳۲) اور یہ بغیر نیت کے ممکن نہیں۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 75

کتاب: امور فطرت کا بیان

وضو میں نیت کا بیان

حکم: صحيح

13/06/2023

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ حَبِيبٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ يُحَدِّثُ عَنْ جَدَّتِي وَهِيَ أُمُّ عُمَارَةَ بِنْتُ كَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ قَدْرَ ثُلُثَيْ الْمُدِّ قَالَ شُعْبَةُ فَأَحْفَظُ أَنَّهُ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ وَجَعَلَ يَدْلُكُهُمَا وَيَمْسَحُ أُذُنَيْهِ بَاطِنَهُمَا وَلَا أَحْفَظُ أَنَّهُ مَسَحَ ظَاهِرَهُمَا

ترجمہ : حضرت ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا ارادہ فرمایا، تو آپ کے پاس ایک برتن میں پانی لایا گیا جو دو تہائی مد کے برابر تھا۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے یاد ہے کہ آپ نے (دوران وضو میں) اپنے بازول مل مل کر دھوئے اور اپنے کانوں کے اندرونی حصے کا مسح کیا۔ اور بیرونی حصے کے مسح کا مجھے یاد نہیں۔

تشریح :
پہلی روایت میں ایک مد پانی سے وضو کرنے کا ذکر تھا۔ اس میں ایک مد سے بھی کم پانی سے وضو کا ذکر ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ اشخاص اور احوال مختلف ہونے کے ساتھ یہ مقدار بھی مختلف ہوگی، اس میں مقررہ مقدار کی حد بندی نہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، آپ کبھی کم پانی استعمال کر لیتے اور کبھی زیادہ۔ لیکن اسراف سے بچنا ضروری ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 74

کتاب: امور فطرت کا بیان

پانی کی کم از کم مقدار جو آدمی کو وضو کے لیے کافی ہے

حکم: صحيح

12/06/2023

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔

12/06/2023

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اور عورتیں اکٹھے وضو کر لیا کرتے تھے

12/06/2023

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں کسی ہڈی سے گوشت نوچتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ اپنا منہ مبارک رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا، حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی۔ اور میں برتن سے پانی پیتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ اپنا منہ رکھتے تھے جہاں میں نے لگایا تھا، حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی۔

12/06/2023

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی آیا اور اس نے کہا (اعلان کیا): تحقیق اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمھیں گھھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکتے ہیں کیونکہ گدھے پلید ہیں۔ (یا یہ گوشت حرام ہے۔)

11/06/2023

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ قَالَ سَمِعْتُ مُطَرِّفًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ وَرَخَّصَ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ وَالْغَنَمِ وَقَالَ إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الْإِنَاءِ فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، البتہ شکاری اور بکریوں کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت دی۔ اور آپ نے فرمایا: ’’جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات دفعہ دھوؤ اور آٹھویں مرتبہ مٹی بھی ملو۔‘‘

تشریح :
(۱) ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، پھر آپ نے قتل کرنے سے روک دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کسی مخلوق کو کلیتاً ختم کرنا درست نہیں۔ ہر مخلوق کے پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہے اگرچہ کوئی مخلوق ظاہراً نوع انسانی کے لیے نقصان دہ ہی محسوس ہوتی ہو۔ یہ حکم اب بھی حالات کے تابع ہے۔ (۲) یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ، اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھا نجس و ناپاک ہے اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے اور برتن کے سات مرتبہ دھونے کو واجب ٹھہراتی ہے اور مٹی کے ساتھ صاف کرنا بھی واجب ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے۔ (۳) شکار کی غرض سے اور کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتا رکھنا ضرورت ہے، لہٰذا شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ ان مقاصد کے سوا کسی اور مقصد کے لیے، مثلاً: شوق کے طورپر یا کسی اور وجہ سے کتا رکھنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جو شخص مال مویشی کے تحفظ، شکار یا کھیتی کی دیکھ بھال کے سوا کتا رکھتا ہے، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہو جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعۃ، حدیث: ۲۳۲۲، و صحیح مسلم، المساقاۃ، حدیث: ۱۵۷۵) نیز شکار اور رکھوالی وغیرہ کے لیے رکھے گئے کتے کے جھوٹے اور برتن وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو عام کتے کا ہے۔ علاوہ ازیں گھروں میں کتے کا ہونا فرشتۂ رحمت سے محرومی کا سبب ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي: الأدب، حدیث: ۲۸۰۶) (۳) جس برتن میں کتا منہ ڈالے اسے سات بار دھونا ضروری ہے، اس کے علاوہ اس برتن کو ایک مرتبہ مٹی سے مانجھنا بھی ضروری ہے۔ مٹی کا استعمال شروع میں بھی ہوسکتا ہے اور پخر میں بھی کیونکہ صحیح مسلم میں: [اولاھن بالتراب] ’’پہلی بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔‘‘ کے الفاظ ہیں اور صحیح مسلم کی مذکورہ روایت میں: [غفروہ الثامنۃ بالتراب] ’’اسے آٹھویں مرتبہ مٹی سے مل کر دھوؤ۔‘‘ ان دونوں احادیث ک ے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ سات بار پانی سے دھونے کے ساتھ ساتھ جب ایک بار مٹی استعمال کی جائے گی تو یہ مٹی کا استعمال آٹھویں بار دھونا ہے۔ (۴) مٹی نجاست کی بو، لیس اور جراثیم ختم کرتی ہے۔ پانی کے ساتھ بسا اوقات یہ چیزیں ختم نہیں ہوتیں، البتہ ظاہری نجاست ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا پانی کے علاوہ ایک دفعہ (کم از کم) مٹی یا اس کے قائم مقام کوئی بھی کیمیکل وغیرہ لگانا ضروری ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 67

کتاب: امور فطرت کا بیان

جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے مٹی سے دھونے کا بیان

حکم: صحيح

11/06/2023

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي رَزِينٍ وَأَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيُرِقْهُ ثُمَّ لِيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ عَلِيَّ بْنَ مُسْهِرٍ عَلَى قَوْلِهِ فَلْيُرِقْهُ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال کر پیے، تو وہ اس (مشروب) کو گرا دے اور برتن سات دفعہ دھوئے۔‘‘
ابو عبدالرحمن (امام نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ کسی راوی نے [فلیرقہ] ’’تو وہ اسے گرا دے۔‘‘کے الفاظ ذکر کرنے میں علی بن مسہر کی موافقت کی ہو۔ (مقصود یہ ہے کہ یہ الفاظ صرف علی بن مسہر ہی بیان کرتے ہیں۔)

تشریح :
گویا اس حدیث میں ’’مشروب کو گرانے‘‘ کے الفاظ کو امام نسائی رحمہ اللہ نے ش*ذ قرار دیا ہے، یعنی یہ الفاظ صرف ایک راوی ذکر کرتا ہے۔ اس کے باقی ساتھی ذکر نہیں کرتے جس سے شبہ پڑتا ہے کہ شاید اس راوی کو غلطی لگی ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ افاظ ش*ذ نہیں ہیں کیونکہ کسی راوی کی زیادتی صرف اس وقت مردود ہوتی ہے جب وہ دوسروں کی مخالفت کر رہا ہو اور یہاں کوئی وجۂ مخالفت نہیں۔ واللہ أعلم۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 66

کتاب: امور فطرت کا بیان

جب کتا برتن میں منہ ڈالے تو مشروب کو بہا دینے کا حکم

حکم: صحيح

11/06/2023

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کتاب تمھارے برتن میں پی لے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔‘‘

تشریح :
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے تو برتن اور مشروب دونوں پلید ہو جائیں گے۔ مشروب کو گرا دیا جائے اور برتن سات دفعہ دھویا جائے۔ جب برتن پلید ہوگا تو مشروب بدرجۂ اولیٰ پلید ہو گا کیونکہ کتے کی زبان تو مشروب کو لگتی ہے۔ بہرحال حدیث میں بھی اس کی صراحت موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فلیرقہ] ’’چاہیے کہ اسے انڈیل دے۔‘‘(صحیح مسلم، الطھارۃ۔ حدیث: ۲۷۹)نییز یہ حدیث آگے بھی آ رہی ہے۔ احناف سات دفعہ کی بجائے تین دفعہ دھونا ضروری سمجھتے ہیں، مگر یہ صریح نص کے خلاف ہے۔ جس طرح شریعت نے بعض چیزوں کی طہارت میں تخفیف رکھی ہے، اسی طرح بعض چیزوں کی طہارت میں تشدید بھی رکھی ہے، اس لیے دونوں کو تسلیم کرنا یکساں ضروری ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 63

کتاب: امور فطرت کا بیان

کتے کے جھوٹھے کا بیان

حکم: صحيح

10/06/2023

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: [اللھم! اغسل خطایای…… من الدنس] ’’اے اللہ! میری غلطیوں کو برف کے پانی اور اولوں سے دھو دے اور میرے دل کو غلطیوں سے یوں پاک فرما دے جیسے تو نے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف رکھا ہے۔‘‘

تشریح :
(۱) برف کے پانی سے وضو کرنا جائز ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ (۲) انسان کو ہمیشہ استغفار کرتے رہنا چاہیے اور دل کو گناہوں کی میل کچیل سے صاف رکھنے کی دعا بھی کرنی چاہیے کیونکہ یہ تمام اعضاء کا سردار ہے اور دوسرے اعضاء کی درستی کا انحصار بھی اسی پر ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے: ’’خبردار! بے شک جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے تو سارا جسم درست رہتا ہے اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ (ٹکڑا) دل ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الایمان، حدیث: ۵۲، و صحیح مسلم، المساقاۃ، حدیث: ۱۵۹۹)

سنن نسائی حدیث نمبر: 61

کتاب: امور فطرت کا بیان

برف کے پانی سے وضو کرنے کا بیان

حکم: صحيح

10/06/2023

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ سَكَتَ هُنَيْهَةً فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي سُكُوتِكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ قَالَ أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو کچھ دیر چپ رہتے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ تکبیر تحریمہ اور قراءت کے درمیان خاموشی کے وقت کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں: [اللھم باعدبینی…… بالئلج والماء و البرد] ’’اے اللہ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کیا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری غلطیوں سے اس طرح صاف فرما دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری غلطیوں سے برف، پانی اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔‘‘

تشریح :
(۱) حدیث کی باب سے مطابقت واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برف کو پانی کے برابر ذکر فرمایا ہے، لہٰذا اس سے وضو ہوسکتا ہے۔ (۲) اس دعا میں پانی، برف اور اولوں کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ میرے گناہوں کو ہر ممکن طریقے سے مجھ سے دور فرما دے۔ ان سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی مختلف صورتوں کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔

سنن نسائی حدیث نمبر: 60

کتاب: امور فطرت کا بیان

برف سے وضو کرنے کا بیان

حکم صحیح

10/06/2023

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا بہت پانی لے جاتے ہیں، چنانچہ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیا کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمندر کا پانی طاہر و مطہر ہے اور اس میں مر جانے والے جانور حلال ہیں۔‘‘

تشریح :
(۱) سوال کا سبب یہ تھا کہ سمندری پانی سخت نمکین ہوتا ہے اور اس میں سمندری جانور اور مسافر مرتے رہتے ہیں۔ ان کی گندگی بھی وہیں رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شرعاً ناقابل استعمال ہو، مگر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ ان سب کے باوجود سمندری پانی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ماء کثیر ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں ایسے اجزاء شامل فرمائے ہیں کہ اس پانی میں گندگی کرنے کے باوجود تعفن پیدا نہیں ہوتا۔ رنگ، بو اور ذائقہ بھی نہیں بدلتا۔ (۲) [الحل میتتہ] یعنی سمندری جانور، جو سمندر میں مر جائیں، حلال ہیں۔ اس جملے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ چونکہ سمندری جانور حلال ہیں (مرنے کے بعد بھی) لہٰذا ان کی موت سے پانی پلید نہیں ہوتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ایک مزید حکم معلوم ہوگیا کہ اگر دوران سفر میں کھانے کے لیے ایسا جانور مل جائے تو اسے بلاتردد کھایا جا سکتا ہے۔ یہ بحث کہ اس [میتہ] ’’مردار‘‘ سے صرف مچھلی مراد ہے یا ہر سمندری جانور، اپنے مقام پر آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ (۳) سوال کرنے والے آدمی کا نام عبداللہ مدلجی تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیے: (عون المعبود: ۱۵۲/۱، حدیث: ۸۳)

سنن نسائی حدیث نمبر: 59

کتاب: امور فطرت کا بیان

سمندری پانی کا حکم

حکم: صحيح

07/06/2023

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، (اس سے پہلے) جب اسنجے سے فارغ ہوئے تو ہاتھ زمین پر ملا۔

07/06/2023

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر عام جانور اور درندے (پانی پینے اور نہانے کے لیے) آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب پانی دو مٹکے (یا اس سے زائد) ہو تو وہ (مذکورہ چیزوں سے) پلید نہیں ہوتا۔‘‘

07/06/2023

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اسے ڈانٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے کر لینے دو۔‘‘ لوگوں نے اسے کچھ نہ کہا حتی کہ وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا، پھر آپ نے ایک ڈول پانی منگوایا اور اسے اس پر بہا دیا گیا۔

19/02/2023

پیر میرے دیا دھوما جگ وچ پیا نے
علامہ ابراهيم طارق صاحب
https://youtu.be/j7FsBwun-mk

30/01/2023

Qari Abdullah Waheed Madni | Tafser Surah Al Room | Al Haram Media... Abdullah Waheed Madni Surah Al Room Haram Media

30/01/2023

ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا تھا کہ حضور آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گزرتی ہے ۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس ( فرشتے ) کے ذریعے نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے ۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی ۔

29/01/2023

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تشبیہ کی ایک تیسری قسم بھی ہے‘ اور وہ ہے خالق(اللہ عز وجل)کو معدوم‘ مستحیل(محال)‘ اور ناقص چیزوں یا اسی طرح جمادات سے تشبیہ دینا، اور جہمیہ و معتزلہ تشبیہ کی اسی قسم میں واقع ہوئے ہیں۔

29/01/2023

آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ ’’ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا ۔ پس جس کی ہجرت ( ترک وطن ) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے ۔‘‘(صحیح البخاري)

Address

Gujranwala

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al Haram Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share