Defeat dowry

Defeat dowry Raise your voice against the dowry practice. It has been demolishing the society as many father and

26/11/2021
 جہیز ایک معاشرتی المیہ
20/08/2021


جہیز ایک معاشرتی المیہ

شادیاں دشوار تر کرنے لگی رسم جہیز لب پہ آسانی سے آتا ہی نہیں دختر کا نام
16/08/2021

شادیاں دشوار تر کرنے لگی رسم جہیز
لب پہ آسانی سے آتا ہی نہیں دختر کا نام

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جہاز ( سامان ) ہے،کلام پاک میں اس لفظ کا ذکر آیا ہے:وَ لَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِه...
24/07/2021

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جہاز ( سامان ) ہے،کلام پاک میں اس لفظ کا ذکر آیا ہے:
وَ لَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِهِمۡ ــــ [ سورة یوسف: 59 ]
”جب انھیں ( یوسف علیہ السلام) کا ( واپسی کا) سامان تیار کر دیا“
اس آیت سے ہم واقف ہوگئے کہ جہیز کا معنی سامان ہے مثلاً جہاز المیت ( میت کا سامان )، جہاز المدرسة ( مدرسے کا سامان ) ــــ
احادیث میں تین خواتین کا ذکر اس الفاظ کے متعلق ہے۔سیدہ صفیہ،سیدہ ام حبیبہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہن۔
جب غزوہ خیبر میں مسلمانوں نے فتح حاصل کی،تو رسول الله ﷺ نے سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو قیدیوں سے آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا۔صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:
جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ ـــ [ بخاری،کتاب الصلاۃ: 371 ]
”سیدہ ام سلیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا ( سیدنا انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی والدہ ) نے سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو تیار کرکے رسول الله ﷺ کی خدمت میں پیش کیا“
اسی طرح ام حبیبہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے متعلق اس الفاظ کا ذکر حدیث میں اسطرح ہوا ہے:
ثم جھزتھا من عنده وبعث بھا الی الرسول الله ﷺ ـــ وجھازھا کل من عند النجاشی [ مسند احمد :٦\٤٢٧ ]
” پھر نجاشی بادشاہ نے ام حبیبہ کو تیار کروایا اور انکو رسول الله ﷺ کی طرف بھیج دیا اور انکی ساری تیاریاں نجاشی کی طرف سے تھیں “
ان دو احادیث میں جہیز کا معنی دلہن کو تیار کرنا،لباس اور آرائش سے سجانے کا ہے۔ ان دو احادیث میں کسی اور سامان کی ذکر نہیں ہے خاص طور پر گھریلو سامان کی ذکر بالکل بھی نہیں ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے جہیز کے متعلق آج کل بہت ساری غلط فیمیاں لوگوں نے اپنے دل و دماغ میں پالی ہیں۔ حدیث میں اسکا ذکر اس طرح آیا ہے:
جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ ـــ [سنن نسائی: ۳۳۸۲]
’’رسول اللّٰہﷺنے{حضرت علیؓ کے پاس بھیجنے کے لیے} حضرت فاطمہؓ کو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘
ان احادیث میں جہیز کا معنی مختلف نہیں ہے۔لیکن آج ہمارے معاشرے میں اس بات کےلئے ایک لڑکی پہ اتنا ظلم کیا جاتا ہے کہ اسکا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ خودکشی کا شکار ہوجاتی ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری بن گئی ہے جو ہمارے معاشرے کی معصوم بچیوں کے خواب کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج کتنی ہی بالغ لڑکیاں نکاح کے بغیر اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہیں۔اگر نکاح ہو بھی جاتا ہے تو اسکو وہاں ستایا جاتا ہے۔اسکو سسرال میں طعنے،مار پیٹ، اور بعض اوقات قتل بھی کیا جاتا ہے۔ ایک بچی کے والدین کا خواب ہوتا ہے،ہماری بیٹی کا نکاح ہوجائے،یہ اپنے گھر سے رخصت ہوکر سکون کی زندگی بسر کرے،لیکن ہوتا کیا ہے۔جب بیٹی کا نکاح ہوجاتا ہے۔اس سے پہلے ہی لڑکے والی اپنی مانگیں ایک لاچار اور بے بس باپ کے سامنے رکھتے ہیں۔یہ لاچار باپ اپنی اس معصوم بیٹی کے جہیز کو بنانے کےلیے اپنے دن اور رات کا آرام صرف کرتا ہے۔جب اسے لگتا ہے کہ اب میری بیٹی کا جہیز مکمل ہوگیا۔وہ اسکےلیے نکاح کی تلاش کرتا ہے۔کیسا ظلم ہے۔نبی ﷺ کے دور میں جب بچی بالغ ہوجاتی تھی تو اسکا نکاح کردیا جاتا تھا مگر آج بیٹی کا جہیز مکمل ہوجائے،پھر چاہیے اسکی عمر میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہوجائے لیکن جہیز بن گیا تو نکاح ہوگیا۔نکاح کا مقصد یہ نہیں تھا۔نکاح رحمت تھی۔مگر آج ہم نے اسے ظلم بنا دیا ہے۔نکاح کا مقصد ہے کہ ہم اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کریں۔رسول الله ﷺ نے فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ[صحیح البخاري:5066]
”اے نوجوانوں کی جماعت ، تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔“
یہ نکاح کا اصل مقصد ہے کہ ہم اپنی نگاہوں کو پاک رکھ سکے مگر ہمارے معاشرے کا نظام ہی بدل گیا ہے۔والدین اپنی بیٹی،لخت جگر کو پال کر،اسے تعلیم و تربیت فراہم کرکے اپنی دل کے ٹکڑے کو کسی اور کے ہاتھوں میں سپرد کرتے ہیں۔اس احسان کے بدلے ہمارے معاشرے کے بے رحم لوگ انکو انکی بیٹی کی میت واپس کرتے ہیں۔شوہر کو حکم دیا گیا تھا۔جو خود کھاؤ اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ،جب خود کےلیے نئے لباس بناؤ گے اپنی بیوی کےلئے بھی بنانا کیونکہ وہ اسکی ذمہ داری ہے مگر ہوا یوں کہ وہ بے رحم شوہر خود کھاتا ہے،اپنی بیوی کو کم جہیز لانے پر طعنے دیتا ہے،اپنی بیوی کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔نکاح میں سکون تھا مگر ہم نے نے اسے پھانسی کا فندہ بنا دیا۔
جہیز غیر مسلموں کی رسم تھی مگر آج اس رسم کے زیادہ قائل مسلمان بن گئے۔ہمیں رسول الله ﷺ کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی تھی مگر ہم نے اسی تعلیم کو چھوڑ دیا۔ہماری سوچ اتنی پست ہوگئی ہے کہ ہم نکاح کے فوائد کے بدلے مال و دولت کو ترجیح دے کر ایک بااخلاق،دین دار لڑکی کو ٹھکراتے ہیں۔کچھ لوگ بولتے ہیں،ہم اپنے بیٹے کا نکاح بڑے گھر میں ہی کریں گے جہاں انہیں زیادہ جہیز کی توقع ہوتی ہے اور جن سے یہ توقع نہیں ہوتی وہ بچیاں نکاح کی نعمت سے محروم رہتی ہیں۔
طلبِ جہیز نے چھین لی انکی تمام شوخیاں
دیکھو، اُداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں،
سسرال والے کے مسلسل طعنے بازی سے باز نہیں آتے۔شادی سے پہلے ہی ایک بڑی لسٹ دیکھنی کو ملتی ہے،جس میں سب فرمائش لکھی جاتی ہے کہ لڑکے کو کس کس چیز کی ضرورت ہے۔اس رسم کی وجہ سے نکاح سخت اور بےحیائی عام ہوگئی ہے۔اس رسم کا اسلام میں کوئی تصّور بھی نہیں،نہ کوئی واسطہ ہے۔یہ بات الگ ہے کہ بغیر کسی ظلم و جبر کئے، والدین اپنی حثیت کے مطابق اپنی بچی کو تحفے میں جو دینا چاہے دے سکتے ہیں۔
یہ سب رسومات اور بدعات اسلئے عام ہوگئے کیونکہ ہم نے دین اسلام،شرعی احکام سے دوری اختیار کی۔ہم اپنے ہی طریقے ایجاد کرتے ہیں جن سے کسی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔سیدنا جریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَىْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَىْءٌ ‏”‏ ‏ــــ [ مسلم،کتاب الصلاۃ،باب باب الحث على الصدقة:1017 ]
” جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا،تو اسکو خود اس پر عمل کرنے کا اجر بھی ملے گا اور انکا بھی اجر ملے گا جو اسکے بعد اس پر عمل کریں گے،بغیر اسکے کہ انکے اجروں میں کچھ کمی ہو، اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا،تو اس پر ( اسکے اپنے عمل کا بھی) بوجھ ہوگا اور ان سب کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اسکے بعد اس برائی پر عمل کریں گے بغیر اسکے کہ انکے بوجھوں میں کوئی کمی ہو “
اگر اس بری عمل کو ختم کرنا ہے،اس ظلم سے ہر ایک کو آزادی دینی ہیں،تو ہمیں دین اسلام کی تعلیمات کو اپنا کر اس برائی کو جڑ سے ختم کرسکتے ہیں۔والدین کو چاہیے،اپنی بیٹی کو اس شخص کے ساتھ رخصت کرے جو دین دار،عمدہ اخلاق والا،جو عورت کو عزت کرنے والا اور دین اسلام میں عورت کے مقام سے باعلم ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ـــ[ ترمذی: 1084 ]
”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
کچھ لڑکیوں نے سسرال والوں کی طعنے بازی سے تنگ آکر خودکشی کا راستہ اختیار کیا اور اپنی آخرت کو بھی برباد کیا۔اس کا ذمہ دار ہمارا ظالم سماج ہے مگر میں اپنی تمام بہنوں سے کہوں گی۔اگر آپ ایسے حالات سے گزر رہے ہو،اگر زندگی جینا آپ کےلئے دشوار بن جائے تو آپ اس رب العالمین کی طرف رجوع کریں جس نے ہمیں زندگی سے نوازا۔ اگر آپ الله کے بنائے ہوئے تقدیر ( جس میں خیر اور شر موجود ہے) اس سے مایوس ہوگئیں ہو تو آپ کا ایمان کمزور ہوگیا ہے۔آپ کو الله کی طاقت پہ،الله کی رحمت پہ بھروسہ نہیں ہے۔اپنے یقین،ایمان کو مضبوط بناؤ،الله تعالی ضرور کوئی نہ کوئی بہترین فیصلہ آپ کے حق میں قبول کرے گا إن شاء الله ،بس صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔الله تعالی کا ارشاد ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ــــ [ البقرہ: ١٥٣ ]
اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے
الله کی رحمت سے مایوس مت ہوجائے ۔خودکشی آپ کے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔آج آپ اپنی زندگی ختم کرکے چُپ ہوجائیں گے کل کوئی اور۔اس سے یہ رسم مسلسل قائم رہے گی۔ہمیں خاتمہ کرنا ہے ان ساری رسومات،بدعات کا جو ہمارے معاشرہ کےلئے غلط ثابت ہو۔ان تمام رسموں کا خاتمہ کرنا ہے جن سے بدکاری عام اور آسان، اور نکاح مشکل ہوگیا ہے۔ہم ہر بار یہی کہیں گے۔کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم دین اسلام کی تعلیم و تربیت کو عام کرے۔جب والدین اپنی بیٹیوں کو حق کی تعلیم دے۔بہت ساری لڑکیاں ایسے حالات کا رخ کرنے کے بجائے خودکشی کا رخ اختیار کرتی ہیں۔جو کہ بالکل ناجائز ہے۔والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو زندگی کی کڑواہٹ میں حالات کا سامنا کرنا سکھائے۔کم ہمتی کسی ڈر کا اعلاج نہیں۔ہمت رکھو،الله پہ پکا یقین رکھو،آپ کو انصاف ملے گا إن شاء الله،
معاشرے میں جہیز کی مانگ کا خوف اور ظلم ختم کریں۔سننے میں آیا ہے کہ جب بچی پیدا ہوجاتی ہے تو اسکے والدین اسکا جہیز بنانے میں لگ جاتے ہیں۔اگر یہی خرچہ والدین اسکی اچھی اور بہترین تعلیم و تربیت پر صرف کریں تو سوچئے کتنا بہتر ہوگا۔یہی بچی کل ایک اچھی بیٹی،اچھی بہن،اچھی بیوی، اچھی بہو اور ایک اچھی ماں ثابت ہوسکتی ہے۔اسکی وجہ سے دو گھر سکون کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔اس کی وجہ سے ایک معاشرہ کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔آج سے ہی شروعات اگر ہم اپنے گھروں سے کریں۔کل کا انتظار کیوں۔۔۔!!
الله تعالی ہم سب کو دور حاضرے کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ہم سب کو ہر بدعت جو جہنم کی آگ کا باعث ہو،اس سے دور رکھے۔ہم سب کی حفاظت کرے۔۔۔
اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن

15/07/2021

Media adopt from society and society adopts from media ....


جہیز ایک معاشرتی المیہ

Thanks for triggering this issue 🙏🏻

15/07/2021


جہیز ایک معاشرتی المیہ

07/07/2021

جہیز اور بےروزگاری نے ایک اور جان لے لی

 جہیز ایک معاشرتی المیہ
06/07/2021


جہیز ایک معاشرتی المیہ

04/07/2021


جہیز ایک معاشرتی المیہ

اک  اور ظلم کی داستاں
03/07/2021

اک اور ظلم کی داستاں

The Supreme Court has reiterated that the bridal gifts given at the time of marriage are the wife’s property, and remain...
10/03/2021

The Supreme Court has reiterated that the bridal gifts given at the time of marriage are the wife’s property, and remains hers. These gifts can be added to but not taken away, according to the Sharia law.

"Radical awakening was brought about by the Holy Quran and hitherto before unfamiliar women’s rights were established for the first time in the [Muslim] scripture,” said a 12-page judgment authored by Justice Qazi Faez Isa after hearing a property matter.

“[The Sharia highlights] a woman’s right to own and dispose of her property; her right to retain – both before and after her marriage – her income and property; her ability to do business without permission of her father or husband and keep and spend what she earns," it stated.



https://tribune.com.pk/story/2288462/1

The Supreme Court has reiterated that the bridal gifts given at the time of marriage are the wife’s property, and remains hers

02/03/2021


11/02/2021

کہتےہیں کہ میر تقی میر نے اپنا گھر بیچ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز دیا تھا

شادی کےبعد بیٹی کو کسی نے کہا تیرے باپ نے اپنا گھر اجاڑ کر تیرا گھر بسا دیا
بیٹی بہت حساس تھی، یہ سُن کر وہ بیمار پڑگئی اور اسی غم میں گُھل گُھل کرکچھ ہی دنوں میں انتقال کرگئی

میر تقی میر بیٹی کا آخری دیدارکرنے گئے٬ کفن اٹھا کر بیٹی کو دیکھا اور کیسا غضب کاشعرکہا (جوان کی زندگی کا آخری شعر کہا جاتا ھے)

اب آیا ھے خیال اے آرامِ جاں اس نامُرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولےتھے ہم اسبابِ شادی میں

منقول

How to make Pakistan Dowry Free ...??Is it really enough to said humen kuch ni chaiye ? jo apne dena apni beti ko hi den...
07/02/2021

How to make Pakistan Dowry Free ...??

Is it really enough to said humen kuch ni chaiye ? jo apne dena apni beti ko hi dena hai - Humen kuch ni chaiye ?

Picture Details:
It's Ali Xeeshan Theater Studio Bridal Couture 2021 Theme
NUMAISH قبول نہیں ...!!!

Thought Provoking Piece of Art 💥
#2021

27/01/2021

دس لاکھ کا جہیز
پانچ لاکھ کا کھانا
گھڑی پہنائی
انگوٹھی پہنائی
مکلاوے کے دن کا کھانا
ولیمے کے دن کا ناشتہ
پھر بیٹی کو رخصت کیا تو سب سسرالیوں میں کپڑے بھیجنا
برات کو جاتے ہوئے بھی ساتھ میں کھانا بھیجنا
بیٹی ہے یا کوئی سزا ہے
اور یہ سب تب سے شروع ہو جاتا ہے جب منگنی آ کر دی جاتی ہے کبھی نند آرہی ہے کبھی جیٹھانی آرہی ہے کبھی چاچی ساس آرہی ہے کبھی ممانی ساس آ رہی ہے ٹولیاں بنا کے آتی ہیں اور بیٹی کی ماں ایک مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سب کو اعلی سے اعلی کھانا پیش کرتی ہے اور سب کو اچھے طریقے سے ویلکم کرتی ہے باپ کا ایک ایک بال قرضے میں ڈوب جاتا ہے اور ایسے میں بیس لوگ گھیرے میں لے کے کہتے ہیں جی کتنے بندے برات میں ساتھ لے کر آئے 100یا 200 بندہ تو ہمارے اپنے رشتے دار ہی ہیں اور باپ جب گھر آتا ہے شام کو تو بیٹی سر دبانے بیٹھ جاتی ہے کہ اس باپ کا بال بال میری وجہ سے قرضے میں ہے خدا کا واسطہ ہے آپ کو خدارا ان ہندوؤں کی رسموں کو ختم کر دو تاکہ ہر باپ اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کر سکے♥

اور پھر جب بہن حِصہ مانگتی تو بُرا مان جاتے ہو
22/01/2021

اور پھر جب بہن حِصہ مانگتی تو بُرا مان جاتے ہو

30/08/2020

قدم اپنی منزل کی جانب گامزن۔۔۔۔
30/06/2020

قدم اپنی منزل کی جانب گامزن۔۔۔۔

Need a glance ....
30/06/2020

Need a glance ....

“I maybe from a third world country but I have a heart like you do, emotions like you have, and dreams to pursue. On my first Eid as a married girl, I wanted to dress up and celebrate my new beginning instead of being in a hospital bed recovering from the effects of abuse.”

I got married in March 2014 in Chicago with dreams of starting a new life and a future built out on love and trust in my new home. My parents were so assured that they were giving me into the hands of an educated guy; someone who would value their daughter and appreciate her.

The day I got married, not even 24 hours after my parents left Chicago, I was evaluated on the dowry that I was given. My in-laws felt that it wasn’t enough – even though my dad had given all that he could. He had fulfilled every demand my in-laws had made and yet it did not satisfy them.

My husband, and in-laws, felt that all that I had brought in with me was not enough. The iron and ironing board were missing and there just weren’t enough comforter-sets to keep the entire family warm. They were so disappointed that they began scheming on ways to end my marriage.

My resistance infuriated my husband and then he became violent. I hid his brutality from my parents because of their heath condition. I never spoke of his foul behaviour in worry that it would affect their health.

My mother-in-law would summon me and make dowry requests. When I discussed this with my husband, he would say,

“Even our Prophet (PBUH)’s daughter got a dowry” which is completely wrong. His Islamic concepts were self-created. And he made up stuff on his own just in his greed to get things.
As we all know there is NO concept of dowry in Islam.

And then he would yell at me and say,

“If you won’t get anything, you can sleep on the mattress.”

I was shocked and horrified that someone who held the position of a Vice President at a bank, and who could afford a house was fixated on asking my father for furniture. As if this wasn’t deplorable enough, he demanded a 50-inch TV saying I was lucky he demanded only that because,

“I want a smart TV, but I will settle for the 50-inch TV.”

Finally, I resorted to asking my sister for help who paid for those things after marriage. I ordered everything my in-laws demanded on my sister’s credit card and went to pick them up with my husband. I was ashamed of being married to a man who was forcing me to take funds from my younger sister.

Despite succumbing to their requests, my husband and in-laws treated me akin to a slave. They would sn**ch away food from my plate if I did not finish cleaning the house. I would be forced to mow the lawns, while he would sit and watch. I was overburdened with domestic chores and on top of that, my in-laws’ attitude towards me left me emotionally and physically exhausted.

But my husband would brazenly vindicate this abuse by saying,

“I am giving you a roof, food and shelter.”

My health started to deteriorate with each passing day. I had become an emotionally torn person. I became deprived of my individuality. With each day getting worse than the last, my life turned into a living hell.

My marriage was completely devoid of any respect; I got none from my husband or his family. I was treated like a servant, was confined to the four walls of our house and was advised to ‘win hearts’ and not mope about my situation. Despite being his wife, I enjoyed no such place or position. There were restrictions laid upon me on going out by myself, cooking for myself, or my husband, and even staying in touch with my friends or family.

They wanted to exert control over every aspect of my life; I was forbidden from working or socialising, and bound to them in every way. I was to say I felt suffocated it would be a gross understatement. I was imprisoned in my own house and would cry to my sister about my pain, if I had the fortunate opportunity of talking to her. I would keep giving in to save my marriage and kept preventing the possibility of being a societal taboo; a divorced woman.

About a week before my six-month visa was expiring, he asked me to sign a postnuptial agreement. At that point, I was not aware of what that was. I was not even allowed to ask questions and was expected to blindly trust my husband. I was shown the document only minutes before reaching the notary office where I had to sign it. I was horrified to read the contents of the agreement. It stated,

‘The wife will not get alimony’

‘The wife will not have the right to contest divorce’

And the cherry on top of the cake was,

‘The wife has transparency to everything’.

In my five months of marriage, I had never had any transparency to his assets or his salary because he never considered me his partner. I was a slave from a third world country with parents far away from home.

Finally in Ramazan, one day before Eid in 2014, I was able to escape. I can never forget that day. He physically attacked me and then sn**ched my phone to stop me from reaching out for help. I thank God that I was able to find a laptop and use it to call my sister on Skype for help. I thought they were going to kill me, because when they sn**ched my phone, I had heard his mom say,

“We have to do something about her.”

I shudder when I recall the day I left their residence, bruised. I was 70 pounds in weight and shaking. On the day of Eid, I was in a hospital bed traumatised at my state, my health and my condition.

Since then, I have been going for counselling to bring myself, and my life, back together, and today, after months, I feel I have battled what thousands of women are still suffering. Every day thousands of girls suffer such form of abuse in silence and put up with domestic violence. Every day, thousands of parents become victims of threats and feel the urge to save their daughters from divorce.

To them, all I can say is, save your daughter. Educate and empower her, don’t allow her life to be put through hell. Her life is as important as any boys, it is as important as anyone else’s; don’t deprive her of the joy of living. I thank God for the support I have gotten from my family and friends, and they will thank you too. Please give them the opportunity to live. Be more vigilant. It is time that we stop using the words divorce and taboo synonymously. It is time we let our mothers, daughters, wives, sisters and female friends know that they have the right to live their lives as they please as much any man has that right.

If my message and story has had an impact on even one person, I believe I have saved a life. Here is to a new year with hope of a better society that doesn’t oppress anyone’s daughter in any way.

Via: ET blogs.

“I maybe from a  third world country but I have a heart like you do, emotions like you have, and dreams to pursue. On my...
31/05/2020

“I maybe from a third world country but I have a heart like you do, emotions like you have, and dreams to pursue. On my first Eid as a married girl, I wanted to dress up and celebrate my new beginning instead of being in a hospital bed recovering from the effects of abuse.”

I got married in March 2014 in Chicago with dreams of starting a new life and a future built out on love and trust in my new home. My parents were so assured that they were giving me into the hands of an educated guy; someone who would value their daughter and appreciate her.

The day I got married, not even 24 hours after my parents left Chicago, I was evaluated on the dowry that I was given. My in-laws felt that it wasn’t enough – even though my dad had given all that he could. He had fulfilled every demand my in-laws had made and yet it did not satisfy them.

My husband, and in-laws, felt that all that I had brought in with me was not enough. The iron and ironing board were missing and there just weren’t enough comforter-sets to keep the entire family warm. They were so disappointed that they began scheming on ways to end my marriage.

My resistance infuriated my husband and then he became violent. I hid his brutality from my parents because of their heath condition. I never spoke of his foul behaviour in worry that it would affect their health.

My mother-in-law would summon me and make dowry requests. When I discussed this with my husband, he would say,

“Even our Prophet (PBUH)’s daughter got a dowry” which is completely wrong. His Islamic concepts were self-created. And he made up stuff on his own just in his greed to get things.
As we all know there is NO concept of dowry in Islam.

And then he would yell at me and say,

“If you won’t get anything, you can sleep on the mattress.”

I was shocked and horrified that someone who held the position of a Vice President at a bank, and who could afford a house was fixated on asking my father for furniture. As if this wasn’t deplorable enough, he demanded a 50-inch TV saying I was lucky he demanded only that because,

“I want a smart TV, but I will settle for the 50-inch TV.”

Finally, I resorted to asking my sister for help who paid for those things after marriage. I ordered everything my in-laws demanded on my sister’s credit card and went to pick them up with my husband. I was ashamed of being married to a man who was forcing me to take funds from my younger sister.

Despite succumbing to their requests, my husband and in-laws treated me akin to a slave. They would sn**ch away food from my plate if I did not finish cleaning the house. I would be forced to mow the lawns, while he would sit and watch. I was overburdened with domestic chores and on top of that, my in-laws’ attitude towards me left me emotionally and physically exhausted.

But my husband would brazenly vindicate this abuse by saying,

“I am giving you a roof, food and shelter.”

My health started to deteriorate with each passing day. I had become an emotionally torn person. I became deprived of my individuality. With each day getting worse than the last, my life turned into a living hell.

My marriage was completely devoid of any respect; I got none from my husband or his family. I was treated like a servant, was confined to the four walls of our house and was advised to ‘win hearts’ and not mope about my situation. Despite being his wife, I enjoyed no such place or position. There were restrictions laid upon me on going out by myself, cooking for myself, or my husband, and even staying in touch with my friends or family.

They wanted to exert control over every aspect of my life; I was forbidden from working or socialising, and bound to them in every way. I was to say I felt suffocated it would be a gross understatement. I was imprisoned in my own house and would cry to my sister about my pain, if I had the fortunate opportunity of talking to her. I would keep giving in to save my marriage and kept preventing the possibility of being a societal taboo; a divorced woman.

About a week before my six-month visa was expiring, he asked me to sign a postnuptial agreement. At that point, I was not aware of what that was. I was not even allowed to ask questions and was expected to blindly trust my husband. I was shown the document only minutes before reaching the notary office where I had to sign it. I was horrified to read the contents of the agreement. It stated,

‘The wife will not get alimony’

‘The wife will not have the right to contest divorce’

And the cherry on top of the cake was,

‘The wife has transparency to everything’.

In my five months of marriage, I had never had any transparency to his assets or his salary because he never considered me his partner. I was a slave from a third world country with parents far away from home.

Finally in Ramazan, one day before Eid in 2014, I was able to escape. I can never forget that day. He physically attacked me and then sn**ched my phone to stop me from reaching out for help. I thank God that I was able to find a laptop and use it to call my sister on Skype for help. I thought they were going to kill me, because when they sn**ched my phone, I had heard his mom say,

“We have to do something about her.”

I shudder when I recall the day I left their residence, bruised. I was 70 pounds in weight and shaking. On the day of Eid, I was in a hospital bed traumatised at my state, my health and my condition.

Since then, I have been going for counselling to bring myself, and my life, back together, and today, after months, I feel I have battled what thousands of women are still suffering. Every day thousands of girls suffer such form of abuse in silence and put up with domestic violence. Every day, thousands of parents become victims of threats and feel the urge to save their daughters from divorce.

To them, all I can say is, save your daughter. Educate and empower her, don’t allow her life to be put through hell. Her life is as important as any boys, it is as important as anyone else’s; don’t deprive her of the joy of living. I thank God for the support I have gotten from my family and friends, and they will thank you too. Please give them the opportunity to live. Be more vigilant. It is time that we stop using the words divorce and taboo synonymously. It is time we let our mothers, daughters, wives, sisters and female friends know that they have the right to live their lives as they please as much any man has that right.

If my message and story has had an impact on even one person, I believe I have saved a life. Here is to a new year with hope of a better society that doesn’t oppress anyone’s daughter in any way.

Via: ET blogs.

31/05/2020

آپ کیا کہتے ہیں ؔ؟ متفق ہیں توشئیر کریں

09/04/2020
جہیز ایک معاشرتی المیہ
11/02/2020

جہیز ایک معاشرتی المیہ

27/01/2020

Dear daughters !!! Save your father’s income
14/01/2020

Dear daughters !!!
Save your father’s income

10/01/2020
10/01/2020

Interview by Sana Hamid
Camera: Maria Yousaf

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Defeat dowry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Defeat dowry:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share