Makhzan e ilm - Monthly Magazine

  • Home
  • Makhzan e ilm - Monthly Magazine

Makhzan e ilm - Monthly Magazine Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Makhzan e ilm - Monthly Magazine, Magazine, .

مارچ اور اپریل 2022 کا شمارہ۔۔۔ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔
23/03/2022

مارچ اور اپریل 2022 کا شمارہ۔۔۔
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔

فروری 2022 کا شمارہ۔۔۔ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔
11/02/2022

فروری 2022 کا شمارہ۔۔۔
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔

اپنے جوابات 28 جنوری تک ارسال فرما دیں۔ شکریہ
19/01/2022

اپنے جوابات 28 جنوری تک ارسال فرما دیں۔ شکریہ

جنوری 2022 کا مجلہ مخزنِ علم شائع ہو چکا ہے۔قیمت: 80 روپےحاصل کرنے لے لیے رابطہ کیجیے:03312802001
15/01/2022

جنوری 2022 کا مجلہ مخزنِ علم شائع ہو چکا ہے۔
قیمت: 80 روپے

حاصل کرنے لے لیے رابطہ کیجیے:
03312802001

جنوری 2022 کا شمارہ۔۔۔ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔
10/01/2022

جنوری 2022 کا شمارہ۔۔۔
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں۔

نومبر اور دسمبر کا شمارہ،ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں
10/12/2021

نومبر اور دسمبر کا شمارہ،
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں

اپنے جوابات 20 دسمبر تک ارسال فرما دیں۔ شکریہ
09/12/2021

اپنے جوابات 20 دسمبر تک ارسال فرما دیں۔ شکریہ

ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیجیے۔
06/12/2021

ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیجیے۔

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، قاضی ومفتی نارتھ امریکہ علامہ قمر الحسن قمر بستوی صاحب (خطیب و امام النور مسجد ہیوسٹن) گزشتہ تی...
30/11/2021

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، قاضی ومفتی نارتھ امریکہ علامہ قمر الحسن قمر بستوی صاحب (خطیب و امام النور مسجد ہیوسٹن) گزشتہ تیس سال سے امریکہ میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ کی کراچی آمد پر مجلہ مخزن علم کے مدیر اعلی محمد انس رضا قادری کی آپ سے خصوصی ملاقات، آپ سے مجلہ مخزن علم کے لیے خصوصی انٹرویو لیا گیا، ان شاء الله یہ انٹرویو مجلہ مخزن علم کے جنوری 2022 کے شمارے میں شائع ہوگا۔

ستمبر اور اکتوبر کا شمارہ،ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں
15/10/2021

ستمبر اور اکتوبر کا شمارہ،
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں

مجلہ مخزن علم کے تحت یومِ آزادی کے سلسلے میں ہونے والے مقابلہ مضمون نویسی میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبا کے نام۔
13/08/2021

مجلہ مخزن علم کے تحت یومِ آزادی کے سلسلے میں ہونے والے مقابلہ مضمون نویسی میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبا کے نام۔

اگست کا شمارہ،ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں
10/08/2021

اگست کا شمارہ،
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں

جولائی کا شمارہ،ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں
14/07/2021

جولائی کا شمارہ،
ان شاء اللہ جلد آپ کے ہاتھوں میں

مقابلہ مضمون نویسی خود بھی حصہ لیجیے اور شیئر بھی کیجیےمزید معلومات کے لیے انباکس میں یا پوسٹ میں دیے گئے نمبر پر رابطہ ...
11/07/2021

مقابلہ مضمون نویسی
خود بھی حصہ لیجیے اور شیئر بھی کیجیے
مزید معلومات کے لیے انباکس میں یا پوسٹ میں دیے گئے نمبر پر رابطہ کیجیے

*خطبات جمعہ کی اہمیت* (ادارتی مضمون، مجلہ مخزن علم، جون 2021)از: محمد انس رضا قادری(مدیر اعلی مجلہ مخزن علم)اسلام میں جم...
02/07/2021

*خطبات جمعہ کی اہمیت*
(ادارتی مضمون، مجلہ مخزن علم، جون 2021)

از: محمد انس رضا قادری
(مدیر اعلی مجلہ مخزن علم)

اسلام میں جمعۃ المبارک کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ اس نام سے موجود ہے۔ اس سورۃ میں رب کائنات نے مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے لیےسعی کرنے کا واضح حکم ارشاد فرمایا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ- ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الجمعۃ:9)
ترجمہ: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
نبی کریمﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت شہر مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر بستی قباء میں جلوہ فرما ہوئے ، دس سے کچھ زیادہ دن یہاں قیام فرمایا، مسجد کی تعمیر فرمائی، جسے مسجد قباء کہا جاتا ہے، پھر آپ جمعہ کے دن یہاں سے شہر مدینہ کے لیے روانہ ہوئے، راستہ میں بنی سالم بن عمر بن عوف کے محلہ میں پہنچے تو نماز جمعہ ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا، چند لمحوں میں تمام صحابہ نے ایک کھلے میدان میں اپنی صفوں کو درست کرلیا، سید عالم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس نے سامعین پر وجد کی ایک عجیب کیفیت کو طاری کردیا۔ یہ اسلام کی پہلی نماز جمعہ اور جمعہ المبارک کا پہلا خطبہ تھا۔
رب کائنات نے نا صرف نماز جمعہ کے لیے سعی کو مسلمانوں پر ضروری قرار دیا بلکہ خطبۂ جمعہ کی اہمیت کو بھی قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًاؕ-قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْن(سورۃ الجمعۃ:11)
ترجمہ: اور جب (دورانِ خطبۂ جمعہ) انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا تواس کی طرف چل دیئے اور تمہیں(جب آپ خطبہ دے رہے تھے) کھڑا چھوڑ گئے، تم فرماؤ: جو اللّٰہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللّٰہ بہترین روزی دینے والا ہے۔
سید عالم ﷺ نے جمعہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِين (صحیح مسلم: حدیث856)
ترجمہ: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز رہیں ورنہ اﷲ ان کے دلوں پر مہر کردے گا پھر وہ غافلوں سے ہوجائیں گے۔
مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ (جامع الترمذی: حدیث 500)
ترجمہ: جو تین جمعے سستی سے چھوڑ دے اﷲ اس کے دل پر مہر کردے گا۔
قَالَ لِقَوْمٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ:لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَى رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُيُوتَهُم (صحیح مسلم: حدیث652)
ترجمہ: نبی کریمﷺنے اس قوم کے متعلق فرمایاجو جمعہ سے پیچھے رہ جاتی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر ان لوگوں پر جو جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔
مَنْ قَالَ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ: أَنْصِتْ،فَقَدْ لَغَا (جامع الترمذی: حدیث 512)
ترجمہ: اگر کوئی جمعہ کے دن (اپنے ساتھی سے) کہے کہ ”چپ رہو “جب کہ امام خطبہ پڑھتا ہو تب بھی اس نے بےہودہ کام کیا۔
نماز جمعہ کی زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ تبلیغ دین، احکامات الہیہ کی ترویج کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اکثریت کے پاس ہفتہ بھر میں حصولِ علمِ دین کا یہی ایک موقع ہوتا ہےکہ روز وشب کی دیگر مصروفیات میں وہ خدائی احکامات کو سننے سے قاصر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سید عالم ﷺ اور آپ کی اتباع میں صحابہ کرام ،تابعین عظام، علمائے امت نے ہمیشہ نماز جمعہ میں بڑے اجتماع کو فوقیت دی ہے اور اپنے عمل سے خطبۂ جمعہ کو اسلام کی اشاعت کا ایک مؤثر طریقہ قرار دیا ہے،آغاز جمعہ سے لیکر آج تک روئے زمین پر مسلمان جہاں کہیں بس رہے ہیں، نماز جمعہ کاخاص اہتمام کرتے ہیں اور خطبۂ جمعہ کے ذریعہ اپنے ہفتہ بھر کے اعمال و افعال کو اللہ عز وجل کے فرامین کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اگر ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے اب جمعۃ المبارک کا اہتمام کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے، جمعۃ المبارک کو ایک عام دن کی طرح اور نماز جمعہ کو بس ایک ضروری رسم کے طور پر ادا کیا جانے لگا ہے، بعض حضرات تو جمعہ کی نماز صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ کہیں کافر نہ ہوجائیں(العیاذ باللہ)، خطبۂ جمعہ مسنونہ عربی زبان میں مختصر ہوتا ہے، اس لیے بس سر جھکائے5 سے7 منٹ ہم رسماً بیٹھ جاتے ہیں لیکن ائمہ مساجد جو ہمارے لیے ہماری زبان میں وعظ کرتے ہیں اس میں شرکت ہمارے لیے ناگوار ہے، جیسے ہی مسجد سے پہلی اذان کی آواز آتی ہے ہم مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلہ میں جہاں قصور وار عوام ہے وہیں خطباء حضرات بھی ہیں، کیونکہ خطباء کی اکثریت عوام کے موجودہ مسائل اور پیش آمدہ چیلنجز سے متعلق گفتگو کرنے کے بجائے روایتی رٹی رٹائی تقاریرپر اکتفاء کرتی ہے، ان کے پاس سوائے زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر کے کوئی اور موضوع ہی نہیں ہے، انہیں عموماً حقیقی زمینی مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوتا، چہ جائے کہ اس مسائل کا قرآ ن و سنت کی روشنی میں حل بیان کریں۔ انہیں محنت کرنے کا بالکل بھی شوق نہیں ہوتاہے ، سبحان اللہ ، ماشاء اللہ کی داد وصول کرنے کے علاوہ ان کا کوئی مقصود نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ باشعور نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ جمعہ کے دن تقریر کے اختتام سے 5 منٹ قبل مسجد میں داخل ہوتا ہے۔
تبلیغ دین کے اس مؤثر ذریعہ کی پامالی کی وجہ یہ بھی ہے کہ خطباء حضرات وقت کی پابندی کا خیال نہیں کرتے، اکثر مقامات پر خطباء اپنی تقریر 15 سے 20 منٹ تاخیر سے ختم کرتے ہیں، کہیں تو آدھا گھنٹہ زیادہ لے لیتے ہیں، یوں نماز جمعہ اپنے وقت پر ادا نہیں ہوتی، الا ماشاء اللہ۔ انہیں خطباء حضرات کو دیکھا گیا ہےکہ نماز میں لمبی قراءت سے اجتناب کرتے ہیں اور کہتے ہیں نمازیوں کا خیال کرنا چاہیے، لیکن دوران تقریر اس خیال سے اپنے خیال کو پاک رکھتے ہیں۔ایک خطیب صاحب نے تو نمازیوں سے یہ کہہ دیا کہ ”اگر آپ کو یہاں نماز پڑھنی ہے تو پڑھیں ورنہ کسی اور مقام پر جمعہ کی نماز ادا کرلیا کریں یہاں آنے کی زحمت نہ کریں۔“ ایک خطیب صاحب کو دوران تقریر پرچی دی گئی کہ ”حضرت نماز جمعہ میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے نمازی حضرات پریشان ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے دفتر میں مخصوص وقت پر پہنچنا ہوتا ہے“ ، خطیب صاحب فرمانے لگے:” ہماری تو راتیں حرام ہوئی پڑی ہیں تقریر کی تیاری میں اور آپ جلدی مچا ر ہے ہیں۔“
بھلا بتائیں کیا یہ دین کی خدمت ہورہی ہے؟ کیا یہ لوگوں کو مساجد سے دور نہیں کیا جارہا؟ کیا ہمیں اپنی مکمل تقریر عوام کو سنانا ضروری ہے؟ وہ بھی وہ تقریر جس کا موجودہ حالات و واقعات سے دُور کا تعلق بھی نہ ہو، کیا ہمارے خطباء کی تقاریر اللہ تعالی کے اس فرمان اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے) پر پورا اترتی نظر آتی ہیں؟ کیا ہمارے خطباء سید عالم ﷺ کی اس عادت کریمہ پر عمل کرتے ہیں جسے حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کیا کہ كَانَ رسول اللهﷺ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا (حضور ﷺ وعظ میں ہمارا لحاظ رکھتے تھے ہمارے اکتا جانے کے خوف سے)؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہمارے خطباء کے اس رویہ کی وجہ سے لوگ بد مذہبوں کے پیچھے اپنی نمازیں بربارد کر آتے ہیں ؟ کیا ہمیں اپنے اس نظام کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے؟
24 مئی2021 بروز پیر کو اسلامی نظریاتی کونسل کا 224 واں اجلاس ہوا جس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی خواہش پر جمعہ کے خطبات کے حوالہ سے یہ فیصلہ ہوا کہ:
”اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے خطباتِ جمعہ کے موضوعات کی فہرست جاری کی جائے گی اور ائمہ خطباء سے کہا جائے گا کہ وہ ان موضوعات پر جمعہ میں وعظ فرمائیں، لیکن ان موضوعات پر گفتگو کرنا اختیاری ہوگا جبری نہیں۔ “
سوشل میڈیا پر حسب سابق ملک میں انارکی پھیلانے اور مذہبی حلقوں اور حکومت کے درمیان محاذ کھڑا کرنے کے لیے اس خبر کو یوں نشر کیا:
”آئندہ پاکستان بھر میں جمعہ کے خطبات حکومتی ہدایات پر ہوں گے۔“
اس خبر کے آتے ہی مذہبی حلقوں میں اضطراب برپا ہوا، یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ فیصلہ جبری ہے نہ کہ اختیاری۔ یہ خبر کتنی سچی ہے اس کی تصدیق کسی نے نہیں کی، بنا کسی تحقیق کے حکومت کی مخالفت شروع کردی، حتی کے کچھ اہل سنت کے نامور علماء نے سوشل میڈیا پر مخالفت میں بیان دینا شروع کردیا، جو کہ کسی صورت مناسب رویہ نہیں تھا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(سورۃ الحجرات: 6)
ترجمہ: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان میں آئندہ خطبات جمعہ حکومت کی ہدایات کے مطابق دینا لازمی ہو ں گے؟ جواباًسب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ ایسا ایک مرتبہ جنرل مشرف کے زمانہ میں بھی کہا گیا تھا جس پر کوئی عمل نہیں ہوا، دوسری بات یہ ہے کہ یورپی یونین کو خوش کرنے کے لیے محدود وقت تک کے لیے اسے جبراً نافذ کیا جا سکتا ہے، اس وقت کے لیے علماء اہل سنت کو اپنی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی، یہ کہنا کہ” ہم اس وقت حکومت کے اس فیصلہ کو نہیں مانیں گے“، تو حسب سابق فیصلہ کو نہ ما ننے والاایک محدود طبقہ ہی ہوگا، اکثریت اس فیصلہ پر عمل کرلے گی جس کی واضح مثال ”صف کے درمیان فاصلہ “کی موجود ہے۔
اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔ آمین

*یہود کی سید عالمﷺ سے دشمنی*حافظ احمد (نائب مدیر مجلہ مخزن علم)نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل ہی اس دنیا میں آپ کی آمد کے چرچے...
28/06/2021

*یہود کی سید عالمﷺ سے دشمنی*

حافظ احمد
(نائب مدیر مجلہ مخزن علم)

نبی کریم ﷺ کی آمد سے قبل ہی اس دنیا میں آپ کی آمد کے چرچے تھے۔ ہر نبی نے وعدے(1) کے مطابق اپنی امت کے سامنے نبی آخر الزماں ﷺ کی آمد کے قصیدے پڑھے اور ان سے اس بات پر عہد لیا کہ اگر وہ اس نبی کا زمانہ پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔
قرآن پاک خود سورہ بقرہ(2) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور سورہ صف (3) میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت کا تذکرہ کرتا ہے۔جسے نبی کریم ﷺ نے بھی ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کہ: میں اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو دی۔
(مسند احمد، حدیث العرباض بن ساریۃ،۶/۸۷،حدیث: ۱۷۱۶۳۔معجم کبیر، ۱۸/۲۵۲،حدیث: ۶۳۰)
پھر قرآن پاک سے قبل نازل ہونے والی آسمانی کتابوں تورات، انجیل وغیرہ میں بھی نبی کریم ﷺ کی آمد کا تذکرہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود و نصاری نبی کریم ﷺ کو آپ کی نشانیوں سمیت بہت اچھی طرح جانتے تھے اور یہود تو کافروں کے خلاف نبی کریم ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ
ترجمہ: اور اس سے پہلے یہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں کے خلاف فتح مانگتے تھے۔
(سورہ البقرۃ، آیت 89)
اور پھر یہود نبی کریم ﷺ کو کس قدر اچھے سے جانتے تھے اس کا اندازہ سورہ بقرہ کی اس آیت سے کیجیے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوۡنَ اَبْنَآءَہُمْؕ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوۡنَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوۡنَ
ترجمہ: وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں۔
(سورۃالبقرۃ، آیت 146)

یہودی علما میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی الله عنه جب مشرف باسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنه نے ان سے دریافت کیا کہ اس آیت میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے (یعنی کیا آپ واقعی محمد ﷺ کو ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹے کو پہچانتے تھے)؟
انہوں نے فرمایا کہ اے عمر! ، میں نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا تو بغیر کسی شک و شبہ کے فوراً پہچان لیا اور میرا حضور انور ﷺ کو پہچاننا اپنے بیٹوں کو پہچاننے سے زیادہ کامل و مکمل تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنه نے پوچھا، وہ کیسے؟ انہوں نے کہا کہ سید المرسلین ﷺ کے اوصاف توہماری کتاب توریت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں جبکہ بیٹے کو بیٹا سمجھنا تو صرف عورتوں کے کہنے سے ہے۔ (یعنی حضور پر نور ﷺ کی پہچان تو اللہ تعالیٰ نے کرائی لہٰذا وہ تو قطعی و یقینی ہے جبکہ اولاد کی پہچان تو عورتوں کے کہنے سے ہوتی ہے۔) حضرت عمر فاروق رضی الله عنه نے یہ سن کر ان کا سر چوم لیا۔(تفسیر صراط الجنان، ج 1، ص 240 بحوالہ خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۱/۱۰۰)

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه جو کہ یہود کے ایک بہت بڑے عالم تھے ان کے الفاظ پر غور کیجیے اور اندازہ کیجیے کہ یہود نبی کریم ﷺ کو کس قدر اچھے سے جانتے تھے اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه تو اپنے قبول اسلام کے واقعے میں یہاں تک فرماتے ہیں کہ جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ (نور سرمدی، ج 1، ص 66)
ایک طرف تو یہود کے یہ حق گو عالم ہیں جنہوں نے توفیقِ الہی سے بنا کسی حیل و حجت کے جونہی حق کو پہچانا اسے قبول کر لیا اور ہمیشہ کے لیے مصطفی ﷺ کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں باندھ لیا اور سعادت دارین کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا جبکہ دوسری طرف یہود کی اکثریت نے محض ذاتی بغض و عناد اور حسدو منافرت کی وجہ سے حق کو پہچاننے کے باوجود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مصطفی ﷺ سے دشمنی کا اعلان کر کے ہمیشہ کے لیے لعنت الہی کا طوق اپنے گلے میں باندھ لیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ٘-فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْن
ترجمہ: تو جب ان کے پاس وہ جانا پہچانا نبی تشریف لے آیا تواس کے منکر ہوگئے تو اللہ کی لعنت ہو انکار کرنے والوں پر۔(سورہ بقرہ آیت 89)

لیکن آخر کیا وجہ تھی یہود نے نبی کریم ﷺ کو اتنے اچھے سے پہچاننے کے باوجود آپ کو ماننے سے انکار کر دیا تو یاد رکھیے یہ ان کی محض فطرتِ بد، ضد، ہٹ دھرمی تھی۔ اور اس کی گواہی خود انہی کے ہم قوم حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه نے اسلام لانے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ یہود بہت بہتان طراز قوم ہے۔ اگر انہیں میرے قبول اسلام کی خبر ہوگئی تو وہ آپ کے سامنے مجھ پر بہتان طرازی کریں گے۔
چنانچہ جب یہود نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا : تم میں سے عبد اللہ بن سلام کون ہے؟
انہوں نے جواب دیا: وہ ہم میں سے سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہے۔
آپ نے پوچھا: سب سے بہتر اور سب سے بہتر کا بیٹا اگر اسلام لے آئے تو تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہوگی ؟
انہوں نے کہا: خدا اس کی حفاظت فرمائے۔
اسی دوران حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه اس کے سامنے آئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
یہود نے یہ سنا تو کہنے لگے: وہ ہم میں سے بدترین اور بدترین کا بیٹا ہے۔ پھر آپ رضی الله عنه کی عیب جوئی کرنے لگے۔ (نور سرمدی، ج 1، ص 68)

اس واقعے نے اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا کہ یہود کا حضور ﷺ کو نہ ماننا صرف ان کے بغض و حسد اور تعصب کی بنیاد پر تھا کہ آپ بنو اسحاق کے بجائے بنو اسماعیل میں مبعوث کیے گئے پھر آپ حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی اتنا ہی قابلِ تکریم مانتے تھے جتنا حضرت موسی علیہ السلام کو اور یہ دونوں باتیں انہیں کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھیں۔ ورنہ قرآن پاک نے تو واضح کر دیا ہے کہ وہ حضورﷺ کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے تھے۔ آپ کب پیدا ہوں گے وہ تاریخ اور مہینہ بھی انہیں معلوم تھا۔ آپ کہاں مبعوث ہوں گے اور کہاں ہجرت فرمائیں گے یہ تک انہیں معلوم تھا تبھی تو وہ عرب کی سرزمین مدینے کے قریب آباد ہوئے تھے تا کہ جب آپ کی آمد ہو تو آپ پر ایمان لائیں لیکن برا ہو تعصب کا جس نے انہیں مصطفی کریم ﷺ کا منکر بنا دیا بلکہ صرف منکر ہی نہیں بلکہ ان کا بدترین دشمن بھی بنا دیا۔ اور پھراس بد فطرت قومِ یہود سے بد اخلاقی، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، غداری اور اس جیسے دیگر خصائل رزیلہ کی ایسی مثالوں کا صدور ہوا جس نے قوم یہود کی تاریخ کے صفحات کو تاریک تر کر دیا۔

یہود کی اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف دشمنی اور سازشی احوال کی ایک طویل فہرست ہے۔

نبی کریم ﷺ جیسے ہی مدینہ منورہ ہجرت فرماتے ہیں یہود کی شرانگیزیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
آپﷺ نے یہود کو ان کے عقیدے، مذہبی معاملات اور معاشرتی رسم و رواج اور کاروبار کی حفاظت کی ضمانت دی نیز میثاق مدینہ نامی پہلی تحریری تاریخی دستاویز میں انہیں صرف مذہبی، معاشرتی اور معاشی آزادی کی ضمانت ہی نہیں دی بلکہ انہیں یہ یقین دلایا اور ان کے ساتھ یہ عہد کیا کہ اگر کوئی ان پر حملہ کرے گا تو مسلمان اسے اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑیں گے لیکن یہودیوں نے ہر بار مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس ضمن میں انہوں نے ہر طریقہ اپنایا۔
انہوں نے ابتدائی طور پر یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ہم نے جادو سے مسلمان عورتوں کو بانجھ بنا دیا ہے۔ اب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوگا جس سے مسلمانوں کے درمیان ایک اضطراب سا پیدا ہوگیا جو بالآخر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنه کی ولادت کے ذریعے ختم ہوا۔
پھر انہوں نے کس انداز سے مسلمانوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے اور ان کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کی اس کی ایک مثال آپ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی الله عنه سے متعلق پڑھ بھی چکے ہیں۔
انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھڑکایا کہ تم اپنی محنت کا پیسہ مہاجروں پر بے دریغ لٹا رہے ہو۔
اوس اور خزرج کے درمیان جنگ بعاث کا تذکرہ چھیڑ کر انہیں ایک بار پھر آپس میں لڑوانے کی سازش کی۔
اللہ تعالی، کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں بار بار ہرزہ سرائی کی۔
حضور ﷺ کو تین مرتبہ قتل کرنے کی کوششیں کیں۔
اسلام کو بدنام کرنے کے لیے بظاہر اسلام قبول کر کے پھر اسلام سے پھر گئے۔
اسلام اور اہلِ اسلام سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے۔ ۔غزوہ بدر کے بعد مشرکین مکہِ کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر ابھارا۔
جنگِ احد میں مسلمانوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
غزوہ خندق کے موقع پر ایک طرف مشرکین مکہ کی مکمل پشت پناہی کی اوردوسری طرف اپنے عہد کو توڑ کر مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوگئے۔
بالآخران معاہدوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نبی کریم ﷺ نے مدینے کے اطراف میں بسنے والے تینوں مضبوط یہودی قبیلوں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو شہر سے نکال دیا۔

اندازہ کیجیے کہ وہ نبی جو رحمۃ اللعالمین ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں تک کو معاف کر دیا وہ بھی یہود کی شر انگیزیوں اور وعدہ خلافیوں کی بنیاد پر انہیں شہر سے نکالنے پر مجبور ہوگئے۔ اور حقیقت بھی ایسی ہی تھی آپ خود دیکھیے کہ یہود نے اپنی دشمنی نکالنے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ یہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کو نقصان پہنچانے میں ہر حد تک گئے ۔ انہوں نے پروپیگنڈہ سے لے کر دشمن کے ساتھ ساز باز تک کی، حضور ﷺ کی شان میں گستاخی سے لے کر ان کو قتل کرنے تک کی کوششیں کی اور اہلِ اسلام کے کردار کو داغدار کرنے لے کر ان کے خلاف جنگ کرنے تک کی کوشش کی۔

حرفِ آخر:
نبی کریم ﷺ جب اپنے بچپن میں اپنے چچا کے ساتھ ملک شام کے تجارتی سفر پر گئے تھے وہاں بحیرہ نامی راہب نے حضور ﷺ کو پہچاننے کے بعد آپ کے چچا ابو طالب کو ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ: جتنا جلد ہو سکے انہیں اپنے شہر لے کر لوٹ جائیں کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ یہود انہیں دیکھیں گے تو انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔
اور پھر بالآخر ایسا ہی ہوا جب حضور ﷺ کا یہود سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے آپ کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جن کا مختصرا ذکر ہم نے اس مضمون میں کیا اور ان کی اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے خلاف دشمنی کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جس سے ان کے خبثِ باطن کا پردہ چاک ہو اور مسلمان سمجھ جائیں کہ آج یہود جو کچھ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں وہ اسی کا تسلسل ہے اور صدیوں پرانا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔

حواشی:
1۔ اس وعدے کا ذکراللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ (آل عمران، آیت81) ترجمہ: اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔

2۔ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(سورۃ البقرۃ،آیت129)ترجمہ: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

3۔ وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (سورۃ الصف، آیت6)ترجمہ: اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کُھلا جادو ہے۔

’’اسرائیل کے خلاف جغرافیائی حکمت عملی‘‘انجینئر سید عمید احمد(لیکچرار کراچی یونیورسٹی)نظریات کی بنیاد پر قائم کی جانی وال...
24/06/2021

’’اسرائیل کے خلاف جغرافیائی حکمت عملی‘‘

انجینئر سید عمید احمد
(لیکچرار کراچی یونیورسٹی)

نظریات کی بنیاد پر قائم کی جانی والی ریاست " اسرائیل " کو دنیا کے نقشے پر دیکھیں۔یہ خطہ مسلمانوں کی عظیم الشان، خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد زیر بحث آیا۔ اب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں، یہ زمین بے یار و مددگار تھی۔
برطانیہ اور امریکہ دونوں اس سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری کو ممکن بناتے ہیں۔ عرب ممالک اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں مگر 1948 میں یہاں باقائدہ طور پر اسرائیل کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ یہاں زمین کا بٹوارا کر دیتا ہے۔ ہمارا موضوع اس خطے کا ماضی نہیں بلکہ حال کی موجودہ حکمت عملی ہے جو اسرائیل کی 'جغرافیائی حیثیت' پر مشتمل ہے۔
اپنے دشمن کا خاتمہ کرنے کیلئے نگاہِ بصیرت درکار ہے !
اس کی سرحدیں نقشے پر نمودار ہیں۔ بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کی جانب دیکھیں اس کی سرحد پر لبنان (Lebanon)ہے اور دوسری طرف مصر (Egypt)ہے۔ زمینیں سرحدوں میں اسے اُردن (Jordan)اور شام (Syria)نے گھیرا ہوا ہے۔ اور اگر مزید پیچھے کی جانب جائیں تو اردن کی کمر پر (بلکل اس کے پیچھے) عراق اور سعودی عرب کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اسی طرح شام کے کمر سے ترکی کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اور مصر سے لیبیا اور سوڈان کی سرحدیں۔
ممالک کے علاوہ اگر بات کی جائے تو ہمارے پاس فلسطین میں صرف 'غزہ اور ویسٹ بینک' موجود ہیں جو موجودہ فلسطین ہے۔ اس میں سے 'ویسٹ بینک' غیر مسلح ہیں جبکہ غزہ پٹی میں فلسطینی مجاہدین(حماس)موجود ہیں۔ جو کہ اکثر اپنے(غیر جدید)ہتھیاروں سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ہمارا دشمن چاروں طرف سے 'مسلمان ممالک' کی آغوش میں سانسیں لے رہا ہے۔
1948 میں اس کے وجود کے بعد، اس سے عرب ممالک نے جنگ شروع کی۔ پہلی جنگ میں اس نے اپنا بھرپور دفاع کیا۔ تمام عرب مسلمان ممالک بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
دوسری جنگ(1967) کے موقع پر،جب اس کا دوسرا سمندری راستہ بحیرہ احمر (Read Sea) جو کہ اسرائیل میں نچلی جانب مصر اور اردن کے درمیان ہے،بند کرنے کی کوشش کی گئی، تو اس نے دفاع کے ساتھ ساتھ، طاقت سے بھرپور مقابلہ کیا اور مصر کا ثنائی پلاٹیو ، اور لبنان کا گولان ہائٹ تک قبضے میں لے لیا۔
غور کیجئے سارے مسلمان مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے۔اس مختصر خطے کی طاقت اور رسوخ سمجھنے کیلئے چند باتیں غور طلب ہیں۔
اس نے دنیا میں پٹنے کے بعد اپنی حیثیت کو مضبوط کیا۔ اس وقت یہ دنیا کے بڑے ہتھیار بیچنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر اپنی جی ڈی پی کا4.7% حصہ مختص کرتا ہے۔ یہ حکمت عملی سے سازشیں کرتا ہے۔ یہ اپنے مخالفین کو سازشی حکمت عملی سے شکست خوردہ کرنا جانتا ہے۔ جیسے کہ ہماری نظریاتی ریاست پاکستان کے دشمن انڈیا سے اس کے مراسم عروج پر ہیں اور کئی ہتھیار یہ ہمارے حریف کو فراہم کرنے میں مشہور ہے۔
سب سے پہلے یہ مسلم ممالک (جن میں کچھ غیرت باقی ہے)کے قریب بسنے والے ان کے دشمنوں کو مضبوط کرتا ہے۔ تاکہ دشمن پر نئے انداز سے وار کرے۔ اس کے علاوہ یہ جو ممالک اندرونی خلفشار کا شکار ہیں مثلاً شام۔ اس میں دلچسپی اور کردار ادا کرنا اس کا خاصہ ہے۔
ان کا اپنا دفاعی نظام مضبوط ہے۔ پورے ملک میں کسی بھی وقت کیلئے حفاظتی اقدامات ہیں۔ انکے پاس بم پروف (آئرن ڈوم اور جدید بنکر)جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔یہ ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے بعد ، اپنے تمام رفقاء ممالک کو پہنچاتے ہیں۔ یہ اپنے دوستوں کو مضبوط کرتے ہیں۔
اس نے اپنے اندرونی نظام حکومت کو اس قدر مؤثر اور محفوظ بنایا ہے کہ یہاں پیسہ لگانا سب سے زیادہ منافع بخش اور مفید ہے۔ اس نے اقوام عالم کو اپنے اعتماد میں لے لیا ہے۔
یہاں ہر مرد و عورت کیلئے فوجی ٹریننگ لینا لازم و ملزوم ہے۔یہ اپنے ماضی کو نہیں بھولتے۔ اپنی مستقل کو روشن رکھنے کیلئے انتہائی حساس ہیں ان کے پاس 250 سے زیادہ میوزیم ہیں۔ جن میں ان کا کلچر محفوظ ہے۔
اس کا دفاعی بجٹ ۲۰ بلین ڈالر ہے۔ جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ اس سے قریباً آدھا ہے۔ اس کا رقبہ قریباً ۲۲ ہزار کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان کا صرف خیبر پختونخوا ایک لاکھ کلومیٹر اسکوائر پر مشتمل ہے۔ اس مختصر خطے کو امریکہ اپنے بچوں کی طرح پالتا ہے۔
اقبالؔ نے اس حقیقت سے آگاہ کیا تھا:
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے !
اس کا قتل صرف اور صرف اُمت مسلمہ کے اتحاد سے ممکن ہے۔ اس خطے کو تباہ کرنے کیلئے تمام قوتیں جو کہ سرحدوں میں بٹ چکی ہیں ان کا تعلق قائم ہونا ضروری ہے۔ ہر ملک کو اس کے خلاف حکمت عملی کے ساتھ اقدامات کرنے ہونگے اور اسکی حیثیت اور روابط کو سمجھتے ہوئے یلغار کرنی ہوگی۔ اس کے تجارتی راستے (سمندری) میں خلل ڈالنا ہوگا۔ اس کو چاروں طرف سے گھیرنے کے بعد اسے تنہائی کی وادیوں میں دھکیلنا ہوگا اور یہ سب کچھ مؤثر انداذ میں کرنے کیلئے ہمیں اتفاق کی دولت درکار ہے۔
اقبالؔ ہم سے کہہ رہے ہیں:
ہے جذب باہمی سے قائم نظم سارے
پوشیدہ ہے یہ نقطہ تاروں کی زندگی میں !نظریات کی بنیاد پر قائم کی جانی والی ریاست " اسرائیل " کو دنیا کے نقشے پر دیکھیں۔یہ خطہ مسلمانوں کی عظیم الشان، خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد زیر بحث آیا۔ اب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں، یہ زمین بے یار و مددگار تھی۔
برطانیہ اور امریکہ دونوں اس سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری کو ممکن بناتے ہیں۔ عرب ممالک اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں مگر 1948 میں یہاں باقائدہ طور پر اسرائیل کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ یہاں زمین کا بٹوارا کر دیتا ہے۔ ہمارا موضوع اس خطے کا ماضی نہیں بلکہ حال کی موجودہ حکمت عملی ہے جو اسرائیل کی 'جغرافیائی حیثیت' پر مشتمل ہے۔
اپنے دشمن کا خاتمہ کرنے کیلئے نگاہِ بصیرت درکار ہے !
اس کی سرحدیں نقشے پر نمودار ہیں۔ بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کی جانب دیکھیں اس کی سرحد پر لبنان (Lebanon)ہے اور دوسری طرف مصر (Egypt)ہے۔ زمینیں سرحدوں میں اسے اُردن (Jordan)اور شام (Syria)نے گھیرا ہوا ہے۔ اور اگر مزید پیچھے کی جانب جائیں تو اردن کی کمر پر (بلکل اس کے پیچھے) عراق اور سعودی عرب کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اسی طرح شام کے کمر سے ترکی کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اور مصر سے لیبیا اور سوڈان کی سرحدیں۔
ممالک کے علاوہ اگر بات کی جائے تو ہمارے پاس فلسطین میں صرف 'غزہ اور ویسٹ بینک' موجود ہیں جو موجودہ فلسطین ہے۔ اس میں سے 'ویسٹ بینک' غیر مسلح ہیں جبکہ غزہ پٹی میں فلسطینی مجاہدین(حماس)موجود ہیں۔ جو کہ اکثر اپنے(غیر جدید)ہتھیاروں سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ہمارا دشمن چاروں طرف سے 'مسلمان ممالک' کی آغوش میں سانسیں لے رہا ہے۔
1948 میں اس کے وجود کے بعد، اس سے عرب ممالک نے جنگ شروع کی۔ پہلی جنگ میں اس نے اپنا بھرپور دفاع کیا۔ تمام عرب مسلمان ممالک بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
دوسری جنگ(1967) کے موقع پر،جب اس کا دوسرا سمندری راستہ بحیرہ احمر (Read Sea) جو کہ اسرائیل میں نچلی جانب مصر اور اردن کے درمیان ہے،بند کرنے کی کوشش کی گئی، تو اس نے دفاع کے ساتھ ساتھ، طاقت سے بھرپور مقابلہ کیا اور مصر کا ثنائی پلاٹیو ، اور لبنان کا گولان ہائٹ تک قبضے میں لے لیا۔
غور کیجئے سارے مسلمان مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے۔اس مختصر خطے کی طاقت اور رسوخ سمجھنے کیلئے چند باتیں غور طلب ہیں۔
اس نے دنیا میں پٹنے کے بعد اپنی حیثیت کو مضبوط کیا۔ اس وقت یہ دنیا کے بڑے ہتھیار بیچنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ دنیا میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر اپنی جی ڈی پی کا4.7% حصہ مختص کرتا ہے۔ یہ حکمت عملی سے سازشیں کرتا ہے۔ یہ اپنے مخالفین کو سازشی حکمت عملی سے شکست خوردہ کرنا جانتا ہے۔ جیسے کہ ہماری نظریاتی ریاست پاکستان کے دشمن انڈیا سے اس کے مراسم عروج پر ہیں اور کئی ہتھیار یہ ہمارے حریف کو فراہم کرنے میں مشہور ہے۔
سب سے پہلے یہ مسلم ممالک (جن میں کچھ غیرت باقی ہے)کے قریب بسنے والے ان کے دشمنوں کو مضبوط کرتا ہے۔ تاکہ دشمن پر نئے انداز سے وار کرے۔ اس کے علاوہ یہ جو ممالک اندرونی خلفشار کا شکار ہیں مثلاً شام۔ اس میں دلچسپی اور کردار ادا کرنا اس کا خاصہ ہے۔
ان کا اپنا دفاعی نظام مضبوط ہے۔ پورے ملک میں کسی بھی وقت کیلئے حفاظتی اقدامات ہیں۔ انکے پاس بم پروف (آئرن ڈوم اور جدید بنکر)جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔یہ ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے بعد ، اپنے تمام رفقاء ممالک کو پہنچاتے ہیں۔ یہ اپنے دوستوں کو مضبوط کرتے ہیں۔
اس نے اپنے اندرونی نظام حکومت کو اس قدر مؤثر اور محفوظ بنایا ہے کہ یہاں پیسہ لگانا سب سے زیادہ منافع بخش اور مفید ہے۔ اس نے اقوام عالم کو اپنے اعتماد میں لے لیا ہے۔
یہاں ہر مرد و عورت کیلئے فوجی ٹریننگ لینا لازم و ملزوم ہے۔یہ اپنے ماضی کو نہیں بھولتے۔ اپنی مستقل کو روشن رکھنے کیلئے انتہائی حساس ہیں ان کے پاس 250 سے زیادہ میوزیم ہیں۔ جن میں ان کا کلچر محفوظ ہے۔
اس کا دفاعی بجٹ ۲۰ بلین ڈالر ہے۔ جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ اس سے قریباً آدھا ہے۔ اس کا رقبہ قریباً ۲۲ ہزار کلومیٹر ہے جبکہ پاکستان کا صرف خیبر پختونخوا ایک لاکھ کلومیٹر اسکوائر پر مشتمل ہے۔ اس مختصر خطے کو امریکہ اپنے بچوں کی طرح پالتا ہے۔
اقبالؔ نے اس حقیقت سے آگاہ کیا تھا:
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے !
اس کا قتل صرف اور صرف اُمت مسلمہ کے اتحاد سے ممکن ہے۔ اس خطے کو تباہ کرنے کیلئے تمام قوتیں جو کہ سرحدوں میں بٹ چکی ہیں ان کا تعلق قائم ہونا ضروری ہے۔ ہر ملک کو اس کے خلاف حکمت عملی کے ساتھ اقدامات کرنے ہونگے اور اسکی حیثیت اور روابط کو سمجھتے ہوئے یلغار کرنی ہوگی۔ اس کے تجارتی راستے (سمندری) میں خلل ڈالنا ہوگا۔ اس کو چاروں طرف سے گھیرنے کے بعد اسے تنہائی کی وادیوں میں دھکیلنا ہوگا اور یہ سب کچھ مؤثر انداذ میں کرنے کیلئے ہمیں اتفاق کی دولت درکار ہے۔
اقبالؔ ہم سے کہہ رہے ہیں:
ہے جذب باہمی سے قائم نظم سارے
پوشیدہ ہے یہ نقطہ تاروں کی زندگی میں !

Makhzan e ilm (June 2021) PDF Link:
https://www.mediafire.com/file/nee6589hk8q3v7u/13._june_2021.pdf/file

’’یہ لو۔۔!!فلسطینی بچوں کا خون ہے۔۔!!‘‘بابر عارف(متعلم جامعۃ المدینہ کراچی)موت کی آغوش میں سُلانے والا عقیدت و  محبت  کا...
23/06/2021

’’یہ لو۔۔!!فلسطینی بچوں کا خون ہے۔۔!!‘‘

بابر عارف
(متعلم جامعۃ المدینہ کراچی)

موت کی آغوش میں سُلانے والا عقیدت و محبت کاسحرِ پُر جلال اپنی تمام تر رعنائیوں اورطِلِسْماتی قوتوں کے ہمراہ خوب جوبَن پر تھا۔ مجھےخون کی چندبوتلیں دستیاب تھیں۔میرا متاعِ حیات آج خطرے میں تھا۔بہکے ہوئے غلام کی مانند زنجیروں میں جکڑا بھاگتا چلا جا رہا تھا۔بوکھلائے ہوئے شخص کی جیب میں چند کھوٹے سکّوں کے سوا کچھ نہ تھا۔۔سفر تھا محض قلّاش کی مانند۔۔پِیرانِ عشق کے فیض سےمیرے پیرہن کا دامن لبریز تھا۔۔بہتی آنکھوں کو اچانک ایک لیباٹری کا بورڈ دکھائی دیا۔ امید کی گرہوں میں بندھا زینے طے کیے جارہا تھا کہ شاید لہو کی کچھ بوندیں یہیں سے مل جائیں۔۔میں نہایت مودبانہ انداز اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں عرض گزار ہوا۔۔’’بھائی صاحب۔۔! خون کی دو بوتلوں کا سوال ہے‘‘۔۔وہ میری خستہ حالت کی جانب نظر کرتے ہوئے بولا:’’قیمت چُکا دو گے؟؟‘‘۔۔اس کی بات سنتے ہی نمکین بوندیں میرے رخسار پر گرنے لگیں۔۔ اپنی جیب سے ساری جمع پونجی نکال کر اس کی چوکھٹ پر رکھ دی جوکہ اس کے آفتاب کے سامنے سراب تھی۔۔مجھے چبھتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا ڈی فریزر کی جانب بڑھا اور ایک بوتل اٹھا کر مجھے دی اوربولا:’’یہ لو۔۔!!فلسطینی بچوں کا خون ہے‘‘۔۔میں بڑے انہماک سے اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔۔وہ میری آنکھوں میں پنہاں سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا:’’ورلڈمارکیٹ میں سب سے سستا یہی چل رہا ہے‘‘۔
میں خوابوں کو توڑتا اور جکڑے ہوئے قدموں سے زنجیریں اتارتا ہوا لائبریری کی جانب بڑھا اور چند کتابیں اٹھا کر تاریخ کی حقیقتوں سے پردہ فاش کرنےکا ذہن بنایا۔۔ مختلف بحروں میں بکھری کہانی کو کچھ ایسا پایا کہ ۔۔:حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسی دو عظیم ہستیوں کے والدتھے جو مرتبہ نبوت پر فائز ہوئے ۔اسمعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام۔پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کو بھی دو بیٹے عطا کیے گئے۔یعقوب اور عیسو۔یعقوب علیہ السلام کو بارہ بیٹوں سے نوازا گیا۔اُن میں سے ایک کا نام ’’یہودا ‘‘تھا۔لفظِ یہودی بھی اسی سے بنا ہے۔پروردگار جل جلالہ نے بنی اسرائیل یہودیوں کی جانب بہت سے انبیا بھیجے۔ لیکن یہودی انبیا کے خلاف بھی عجیب و غریب سازشیں کرتے رہے۔انہوں نے انبیا کو مسلسل جھٹلایا،رب کریم کی طرف سے بھیجی گئی عظیم ہستیوں کےساتھ ناشائستہ سلوک کیا۔پروردگار کے دو برگزیدہ بندوں حضرت موسی اورحضرت ہارون کے ساتھ ان کی بداخلاقی کا ذکر تو قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے۔سرکش یہودیوں نے تو انبیا کی ایک جماعت کوقتل کردیا۔ان کے بدکار ہاتھوں شہید ہونے والے انبیا میں سر ِفہرست ’’حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام‘‘ ہیں۔اوربقول اُن کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی انہوں نے پھانسی دے دی تھی۔یہ الگ بات ہےکہ خداوندِ قدوس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمانوں کی جانب اٹھا لیا اور یہودیوں کے لیے شبیہ بنا دی ۔
اوراقِ تاریخ سے نکلنے والی ہر آہٹ اس بات کی گواہی میں برابر کی شریک ہے کہ یہودی شروع ہی سے ایک سفاک، شاطر ،فتنہ پرور،دھوکے باز ،عیش پرست ،بت پرست ،اور بدبخت قوم رہی ہے۔ اس قوم کا قیام ایک زمانے سے خطہ عرب میں تھا۔1025قبلِ مسیح میں بنی اسرائیل کا پہلا بادشاہ تخت نشین ہوا۔جس کا نام ’’ساؤل / طالوت‘‘تھا۔اس کے بعد بادشاہت کا تاج حضرت داؤد علیہ السلام کے سر سجا۔ اُس وقت بنی اسرائیل کی حکومت سرزمینِ فلسطین میں قائم ہوئی۔حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ سلیمان علیہ السلام کے دورِ حکومت میں سلطنتِ بنی اسرائیل اپنے عروج کو پہنچی۔ القُدس یعنی یروشلم اس وقت کی دنیا کا سب سے مضبوط اورمستحکم شہر بنا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد 930قبلِ مسیح میں عظیم سلطنتِ بنی اسرائیل دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہودی قوم فسق و فجور میں مبتلا ہوگئی ۔بت پرستی ،فحاشی اور عیش پرستی جیسی مصیبتوں میں یہ مبتلا ہوگئے۔اور یہ تمام روگ مغرب بلکہ اب تو مشرق کو بھی ان ہی کے سکھائے ہوئے ہیں۔فتنے سے لبریز ذہنوں سے نکلنے والی بدبو آج بھی ہمارےمعاشرے میں بتدریج پھیل رہی ہے۔
تاریخ میں پھرایک سال ایسا آیا کہ جس نے یروشلم کی ساکھ ہلاکررکھ دی اور اسےریزہ ریزہ کر دیا ۔ وہ سال تھا 586 قبلِ مسیح۔یہ وہ سال تھا جب بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یہودیہ کے سر پسندباشندوں کو ان کی وعدہ خلافیوں کی سزا دینے کے لیے القدس پر بڑا شدید حملہ کردیاتھا ۔اور یروشلم کے اس وقت کے حکمران ’’یہویاکیم JEHOIKIN‘‘ کو گرفتار کر لیاتھا۔جیتا جاگتا یروشلم راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔پچاس برس تک یہاں کوئی آباد نہ ہوا۔
639 قبلِ مسیح میں کسریٰ نے ’’بابل‘‘ کی فتح کے بعد یہودیوں کو القُدس جانے کا اجازت نامہ دے دیا۔لیکن یہودی کسی صورت اپنی حرکتوں سے باز آنے والے نہیں تھے۔ 70 عیسوی میں انہوں نےرومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔جس کا بھاری بھرکم نتیجہ یہ اٹھانا پڑا کہ شہنشاہِ روم ’’طیطس رومی‘‘ نے انہیں صفحۂِ ہستی سےمٹا نے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ القدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کو نکال دیا اور ان کا معبد ختم کر کے ان کے داخلے پر پابندی لگا دی ۔
اس تباہی کے بعد رومیوں نے یروشلم کو دوبارہ تعمیر کیا۔330 عیسوی سے یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں پر مشرقی روم ، قسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت کا تسلط قائم ہوگیا تھاجو اسلامی عہد 634ء تک قائم رہا۔سن 636ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب نے اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھ کر القدس کو امان دی۔اور یہ تاریخی شہر مسلمانوں کے زیرِ انتداب آگیا۔
1099ء میں یورپ سے اٹھنے والے عیسائی طوفان نے ایک مرتبہ پھر القدس پرقبضہ کر لیااور اگلے تقریباً 90 سال تک یہاں عیسائیوں کی حکومت رہی۔4 جولائی 1181ء کو اسلام کے ایک عظیم اور دلیر مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان تھک محنت اورجنگ بازی کے سبب اسے عیسائیوں کے قبضے سے نجات دلائی اوریہ علاقہ پھر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا ۔
1516ء میں یہ علاقہ دیگر عرب علاقوں کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ سایہ آگیا اور اگلے چار سو سال یعنی 1918ء تک یہاں عثمانی ترکوں کی حکومت رہی۔(The Revolution Arab؛تاریخِ انقلابِ عرب)
یہودی ہر بار ذلیل و خوار ہونے کے بعد اب دنیا کے مختلف ممالک میں دھکے کھا رہے تھے۔لیکن انہیں اپنی تاریخ یاد رہی۔یہ مسلمانوں سے ہونے والی اپنی ہار کبھی نہیں بھولے۔یہ ہمیشہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے موقعے ڈھونڈتے رہے۔حقیقت میں ’’ عیسائی‘‘ اور ’’یہودی ‘‘دو دشمنوں کا نام ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے یہ دونوں طاقتیں جمع ہوگئیں تاکہ مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچایا جا سکے۔یہ یہودی کثیر تعداد میں یورپ کے مختلف ممالک میں جابسے ۔جرمنی میں بھی یہودیوں کی کثیر تعداد موجودتھی۔جبکہ جرمنی کا چانسلر’’ ایڈولف ہٹلر ‘‘ان سے بہت نفرت کرتا تھا۔وہ ان کا نام تک مٹا دینا چاہتا تھا۔ لاکھوں مرد ، خواتین اور بچوں کے قتل کا ذمہ دار ہٹلر ایک قوم پرست اور نسل پرست نظریاتی تھا۔ اس میں امتیازی سلوک اور خاتمے کی پالیسی تھی جس نے مختلف نسلی، سیاسی اور معاشرتی گروہوں کو متاثر کیا۔ اس کے دور حکومت میں نازی گروپ جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا جبکہ اس پر 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودی بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے ہاتھوں ہونےوالے اس قتل عام کو یہودی’’ہولوکاسٹ‘‘ کے نام سے یادکرتے ہیں۔ہولو کاسٹ کے بعد یہودیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔۔ یہ دربدر ہوگئے۔۔انہیں انتہائی غصہ تھا۔جبکہ برطانیہ قدم بہ قدم ان کے ساتھ تھا۔
1917ء میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک یہودی ریاست بنانے کا اعلان کر دیا ۔جس کے بعد یہودی ساری دنیا سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہونے لگے۔فلسطین کی آبادی 6لاکھ سے 16 لاکھ پر پہنچ گئی۔ اسرائیل شحاک اپنی کتاب ’’اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی‘‘میں لکھتا ہے کہ: 1948میں اسرائیل میں آکر آباد ہونے والے یہودییوں کی اکثریت ان کی تھی جو یورپ میں 1932 میں سامیت دشمنی میں اضافے اور بالخصوص جرمنی میں ہٹلر کی حکومت میں آنے کے بعد فلسطین کی طرف نقل مکانی کر آئے تھے۔یہ سارا کھیل برطانیہ نے اس لیے رچایا تھاتاکہ وہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والی شکستوں کا بدلہ لے سکے اور اس کے لیے اس نے اسلامی تہذیب و تمدن کو نقصان پہنچانے کی گھناؤنی سازش کی تھی۔ فلسطین مشرق وسطی کا وہ بدنصیب خطہ رہا ہے جو برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے سیاسی کھیل کا سب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد29 نومبر 1947ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے روس اور امریکہ کی یہ تجویز بھی منظور کر لی کہ فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔یہودیوں نے اپنے اکثریتی علاقوں میں عرب پر سخت مظالم کیے جس کے نتیجے میں عربوں کو وہ علاقے چھوڑنے پڑے اور نتیجتاً 10 لاکھ عرب بے گھر ہوگئے۔14 مئی کی شب برطانوی انتداب ختم ہوا اور اسی رات تل ابیب میں ’’ڈیوڈ بن گوریان‘‘ نے ملکِ اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔اسرائیل کا معاشی مرکز ’’تل ابیب‘‘ ہے جبکہ سب سے زیادہ آبادی والا شہر’’ القدس یعنی یروشلم‘‘ہے۔اور حقیقت یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی طور پر بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا۔
خیرفلسطین جو کہ انبیاءِ کرام کی سرزمین تھی ،عربوں کی ملکیت تھی بالآخر اس کا کثیر حصہ اسرائیل کی صورت میں بدل گیا۔فلسطین کا دل اور مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ان کے قبضے میں چلا گیا۔جس کا تقدس آئے دن پامال کیا جاتا ہے۔ستر سال سے فلسطینی صرف قربانیاں دے رہے ہیں اور مسلمانوں کے 57 ممالک کے سربراہ محض گفتگو سے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ہماری ڈیڑھ ارب آبادی صرف واٹس ایپ کے اسٹیٹس اور فیس بک کی پوسٹ تک محدود ہے ۔ ہمارے وزراء اور چند احتجاجی جماعتیں محض کریڈٹ لینا چاہتی ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر دیاہے۔۔اگر بات ایسی ہی ہے تو ایک سوال ہمارا بھی ہے کہ دنیا میں اور بیسیوں جگہ قتلِ عام ہورہا ہے یہ لوگ وہاں کیوں نہیں بولتے۔کشمیر کے لوگ بلکتے تڑپتے مر رہے ہیں انہیں دیکھ کر اِن کا دل کیوں نہیں تڑپتا۔ان کی آزادی کے لے احتجاجی ریلی کیوں نہیں نکالی جاتی ۔حالانکہ وہ ہماری آن بان اور شان ہیں۔ اُن کے بہتے خون پر اِن کےآنسو کیوں نہیں گرتے۔ان کی پستول وہاں کیوں نہیں اٹھتی۔ہمارے پڑوس افغانستان میں گزشتہ دو ہفتوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مرنے والے مسلمانوں کی تعداد فلسطینیوں سے زیادہ ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے آخری عشرے میں ایک دھماکے میں ستر سے زیادہ بے گناہ ننھی منھی لاشوں کو خون میں نہلایا گیا۔نجانے کیوں کوئی قرارداد پاکستان میں منظور نہ ہوئی۔نجانے کیوں کسی جماعت نے کوئی احتجاجی جلسہ نہیں نکالا۔۔۔۔!کیا مسلمانوں کے خون میں فرق ہے۔۔۔۔؟یہ سیاست ہے یا مسلمانوں کا غم۔۔؟

Makhzan e ilm (June 2021) PDF Link:
https://www.mediafire.com/file/nee6589hk8q3v7u/13._june_2021.pdf/file

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Makhzan e ilm - Monthly Magazine posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share