Balochistan Articles - بلوچستان آرٹیکل

  • Home
  • Balochistan Articles - بلوچستان آرٹیکل

Balochistan Articles - بلوچستان آرٹیکل بلوچستان سے مضامین

جنگ، جنگوں کے خلافتحریر: سلام صابردی بلوچستان پوسٹبلوچستان میں سیاسی بیداری بلوچ انسرجنسی کی پیداوار ہے، ستر کی دہائی می...
18/07/2023

جنگ، جنگوں کے خلاف

تحریر: سلام صابر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں سیاسی بیداری بلوچ انسرجنسی کی پیداوار ہے، ستر کی دہائی میں جنگ کے بعد قومی آزادی کی فکر سے وابستہ افراد خیر بخش مری کی سرکردگی میں افغانستان جلاوطن تھے اور بلوچ سیاست پاکستان کے پارلیمانی راہداریوں میں سرگرداں تھی۔

بلوچستان میں جاری جہد کے سرخیل خیربخش مری قومی آزادی کی جدوجہد میں مسلح جنگ کو فوقیت دیتے تھے کیونکہ طاقت کے بغیر دشمن کو شکست نہیں دی جاسکتی اور طاقت کو صرف طاقت ہی ختم کرسکتی ہے ، حق توار کی احیاء نے بلوچ تحریک کو سمت دی اور مستقبل کی تحریکی رہنماء اس سرکل میں بلوچ فکری کاروان کا حصہ بن کر اکیسویں صدی میں بلوچ انسرجنسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔

خیربخش مری کے فکری ساتھی بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے جب مسلح جنگ کی بنیاد رکھ رہے تھے، اُس وقت بلوچستان میں سیاسی جماعتیں پاکستان کے پارلیمان میں کچھ سیٹوں کے لئے آزادی کی تحریک سے دستبردار ہوچکے تھے، وڈھ کے قومی رہنماء راسکوہ میں سرزمین کے سینے کو ایٹمی دھماکوں سے چھلنی کرنے کے بعد بخوشی پاکستان کے وزیر اعظم کی ڈرائیوری قبول کرچکے تھے اور مڈل کلاس کی رہنمائی کے دعویدار رہنماء ڈاکٹر مالک کے بقول اُن کے ساتھیوں نے انیس سو پچاسی میں ہی مسلح جہد سے تائب ہوکر پاکستان کے پارلیمان کی راہ اپنا لی تھی۔

جاری مسلح جدوجہد کی ابتداء کے وقت بلوچ انسرجنسی میں سیاسی محاذ موجود نہ تھا، اِس نقطے سے اختلاف رکھنے والے موجود ہوں گے لیکن تاریخ سے واقف سیاسی کارکن اس حقیقت سے انکار نہیں کریں گے کہ بلوچستان میں نئے صدی کے آغاز میں مسلح محاذ کے احیاء سے قبل بی ایس او اور بی این ایم ( بلوچستان نیشنل موومنٹ ) قومی آزادی کے جہد سے وابستہ نہ تھے ، بی ایس او اور بی این ایم ( بلوچ نیشنل موومنٹ ) کو نئے سرے سے تشکیل دے کر قومی آزادی کی جہد سے منسلک کرنے میں اہم کردار مسلح جہد نے ہی کردار ادا کیا۔

جنگ کے آغاز اور ابتدائی سالوں میں مسلح محاز ہی بلوچ انسرجنسی کی پہچان تھی، چیئرمین غلام محمد کی قیادت میں قومی سیاسی جماعت کے تشکیل کے ساتھ ہی سیاسی اداروں نے بلوچ جنگ کی آواز بن کر انسرجنسی کو توانائی بخشی اور چئیرمین غلام محمد و صباء دشتیاری نے بلوچ سیاسی محاذ پر قومی جنگ کی ترجمانی کرکے بلوچ قوم کو آزادی کی راہ میں مسلح جنگ کو منتخب کرنے کی تلقین کی ، ریاست نے بلوچ قومی اداروں کو کمزور و ختم کرنے کے لئے جبری گمشدگی کو ہتھیار کے طور استعمال کرکے سیاسی جماعتوں و اداروں کے قائدین کو سب سے پہلے نشانہ بنایا اور بلوچستان و کراچی کے طول و عرض میں جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

جبری گمشدگیوں میں مکتبہ فکر کی تفریق نہیں کی گئی، سیاسی رہنماء، دانشور، استاد، ڈاکٹر، مزدور اور جنگی سپاہی جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے جن کی بعد میں لاشیں پہاڑوں اور ویرانوں میں ملنے شروع ہوئیں۔ ریاست نے بلوچستان میں سیاست پر قدغن لگا دیا، سینکڑوں سیاسی کارکنوں نے خلیج اور یورپ کو مسکن بنالیا، ہزاروں سیاسی جہدکاروں نے پہاڑوں کا رُخ کیا اور مسلح محاذ کو جنگ کا نیا مورچہ بنالیا، لاکھوں لوگ بلوچستان کے مختلف علاقوں اور پنجاب و سندھ اور افغانستان جلاوطن ہوگئے۔

جنگ کی افریت سے متاثر یورپ میں جلاوطن کچھ افراد جو جنگ کے ابتدائی برسوں میں جنگ کا حصہ تھے، وہ کھلے عام یا دبے الفاظ بلوچ انسرجنسی کے حالیہ نئی جنگی حکمت عملیوں کی مخالفت کررہے ہیں کہ خدانخواستہ یورپ میں اُن کی سیاسی پناہ کی درخواست پر اثر پڑ کر اُن کی زندگی متاثر نہ ہو کیونکہ بلوچ انسرجنسی سے وابستہ مسلح ادارے بالادست پاکستان کے ساتھ چین کے سامراجی عزائم کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔

میرے علم میں نہیں کہ وہ جنگی حکمت عملیوں کی مخالفت کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر بالفرض بلوچستان میں سیاست کی اجازت ہوتی تو وہ یورپ میں جلاوطن ہوتے؟ سیاست کو ختم کرنے کی ریاستی پالیسیاں نہ ہوتی تو ڈاکٹر دین محمد اور ذاکر مجید جبری گمشدہ ہوتے؟ بلوچ مزاحمت کا راستہ منطقی نہ ہوتا تو امیر الملک خود ہی آخری گولی کا انتخاب کرتا؟ ریاست کی ہولناکیاں نہ ہوتے تو زبیر سرپرہ ہمیں مسخ شدہ لاش کی صورت میں ملتا؟ اگر ہمارے لئے کوئی پُر امن راستہ بچتا تو کیا شاری و سّمو فدائی حملے کرتے؟ جنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دستور ہوتا تو کیا سولہ نوجوان ایک ہی رات دشمن کے کیمپوں پر حملہ آور ہوتے؟

ہم کیوں اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ بلوچ جنگ کے بدولت ہی دنیا ہماری آواز سُن رہا ہے۔ اگر بلوچستان میں مسلح جہد نہ ہوتی تو آج بلوچستان میں ہماری فریاد سُننے کے لئے بھی کوئی نہیں ہوتا اور جنگی طاقت نہ ہوتی تو قبضہ گیریت کے پنجوں میں پسے ناتواں قوم کی وجود خطرے میں ہوتی۔

سّمی اور مہلب نے چودہ سال سے پاکستان کا کون سا ادارہ ہے جس کا در نہیں کھٹکٹایا، انہیں اب تک جھوٹی تسلیوں کے علاوہ کیا ملا ؟ زاکر کی بوڑھی والدہ پیراں سالی میں پریس کلب کے سامنے فریاد کناں ہے، اُسے انصاف ملا ؟ جب ستر کی دہائی میں پاکستان کو نئی زندگی دینے والے زولفقار علی بھٹو کے بیٹے پاکستان سے ناامید ہوکر الزولفقار کے نام سے پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کا راستہ اپناتے ہیں تو ہم کیوں امید کرتے ہیں کہ اس ملک میں ہمارے لئے مسلح مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟

کیا یورپ میں جلاوطن ہمارے سنگت سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پہ بینر ہاتھ میں لئے انسانی حقوق کی پامالیوں پہ نعرہ لگانے اور انسانی حقوق اداروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو رپورٹ کرنے سے قومی حقوق حاصل ہوجائے گی؟

بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مسلح جہد نہ ہو تو کیا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا تسلسل جاری رہے گا؟

بقول بی این ایم کے سیکرٹری جنرل واجہ دلمراد کہ ” بلوچستان کا مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی بقاء کا ہے “

ہم کیوں اپنی اندرونی خوف و گھبراہٹ کو چھپانے کی خاطر قومی بقاء کی جنگ کو انسانی حقوق کی پامالیوں تک محدود کررہے ہیں؟

بلوچ وائس فار جسٹس سے وابستہ ہمارے دوست لطیف بلوچ کے بقول اگر بلوچستان میں سیاست سے مسائل حل ہوتے تو پارلیمانی سیاست کے علمبردار سردار اختر مینگل وڈھ میں شفیق مینگل کے خلاف مورچہ زن ہوتے؟ پورپ میں جلاوطن ہمارے سنگت کیوں اتنے نادان ہوکر یورپ کی کھوکھلی انسانی حقوق کی سیاست بلوچستان کے جنگی حالات پر نافذ کرنا چاہتے ہیں؟

کیا ہمارے دوست یورپ کی سامراجیت سے واقف نہیں؟ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر یورپ کی خاموشی پر نابلد ہیں؟ سیاہ فام افریقی مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کے برطانوی فیصلے سے آگاہ نہیں ہیں؟ جنگوں میں فیصلے قومی مفادات کے بنیاد پر ہوتے ہیں یا انسانی حقوق کے قوانین پر ؟ جب اقوام متحدہ سامراجی ممالک کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے اور یورپ اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لئے تیار نہیں تو بلوچ جیسے کمزور قوت پر کیوں یہ قوانین تھونپے جاسکتے ہیں؟

عابد میر نے سن زو کے معروف کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش لفظ میں ایک خوبصورت پیراگراف لکھا ہے کہ “جنگ تباہی ہے، بربادی ہے، جنگ انسان دشمن ہے، ارتقاء دشمن ہے ،فن دشمن ہے، فنکار دشمن ہے، اس لئے دنیا کا شاید ہی کوئی فنکار ہوگا جو جنگ سے نفرت کا اظہار نہ کرتا ہو، دنیا بھر کے فنکاروں نے ہمیشہ جنگوں کے خلاف گیت لکھے، قصے تراشے، سماج میں جنگ گریز رجحانات کی ترویج کی ، کہ یہی فن کی اصل معراج ہے۔

لیکن ۔۔۔ جب فنکار کی دھرتی پر غاضبوں کا قبضہ ہو، جبر کا راج ہو ، استحصال کا دیو دھرتی کے معصوم انسانوں کی آزادی پر شب خون مار رہا ہو ، زمین کے محکوم انسانوں پر اس نے اپنے خونی پنجے گھاڑ رکھے ہوں تو ایسے میں قلم کار اپنے قلم کو ہتھیار بنالیتے ہیں ، جنگی ترانے لکھتے ہیں ، جنگوں کی کہانیاں بیان کرتے ہیں اور اپنے عوام کو جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور لڑنے کی ترغیب دیتے ہیں ، کہ یہی فن کی اعلیٰ معراج ہے۔

ظالم اور مظلوم کی لڑائی میں جو اپنے قلم کو مظلوم کے حق میں ہتھیار نہیں بناتا وہ قلم کے ساتھ زنا کاری کا مرتکب ہوتا ہے اور تاریخ کی صلیب پر عصر کی سنگساری کا حقدار ٹہرتا ہے”۔

ہمارا ایمان ہے کہ ہماری جنگ آنے والی نسلوں کو ہر قسم کی جنگوں سے محفوظ بنانے کیلئے ہے، اس لئے ہم ہر حال میں سرخرو رہیں گے۔

جنگ کے کئی پہلو ہیں اور لینن نے خوب کہا ہے کہ جنگ ایک صنعت ہے، جو ہزاروں لوگوں کے لئے تباہی کا باعث بنتا ہے اور کچھ لوگ جنگی صنعت سے سرمائے کا انبار جمع کرتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری انسرجنسی نے ہزاروں خوشحال خاندانوں کو تباہ و برباد کردیا ہے لیکن بلوچ انسرجنسی سے وابستہ کچھ لوگوں نے جہد آزادی کو منافع بخش کاروبار کا ذریعہ بناکر اپنے استحصالی مقاصد پورے کرکے مال و متاع اور ناموری کمایا ہے۔

بلوچستان میں جاری جنگ کے سبب ہزاروں خاندان سندھ، پنجاب، مقبوضہ مغربی بلوچستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں، اور “چند محدود لوگوں” کو چھوڑ کر باقی مہاجروں کی تشویشناک حالت زار قابل دید ہے، لیکن بیرون ممالک گذشتہ ڈیڑھ عشرے کے سیاست، ہمارے بقول دوستوں کے ” سفارت کاری” سے اب تک مذکورہ بالا علاقوں میں آباد مہاجرین کے حوالے سے عالمی اداروں تک معمولی رسائی کیونکر ممکن نہیں بنا پائے ہیں؟

دنیا کی حالیہ جیو پولیٹکس سے ناواقف زوال پذیر یورپ میں بیٹھ کر ہمارے دوست پرامن سیاست و انسانی حقوق کے اداروں کے توسط اور سفارت کاری سے قومی حقوق حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ خطے کے صورتحال و بلوچستان کے زمینی حقائق دوستوں کے دعوؤں کے بالکل برعکس ہے۔

کیا ہمارے دوست کچھ یورپی ممالک میں احتجاج و مظاہروں سفارت کاری قرار دیتے ہیں؟ کیا اِن سرگرمیوں سے بلوچ قومی مسئلہ حل ہوجائے گا؟ اگر قومی و عالمی معاملات احتجاج و مظاہروں سے حل ہوتے تو کیا آج یورپ، امریکہ اور اتحادی یوکرین میں روس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوتے؟ کلسٹر بمبوں کے حوالے سے سو ممالک بشمول یورپ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باجود امریکہ کے یوکرین میں روس کے خلاف کلسٹر بم بیجنے پر پورپی ممالک خاموش ہیں تو کِس بنیاد پر ہمارے دوست یورپ کے انسانی حقوق کے قانون ہمارے جنگ پر لاگو کرنا چاہتے ہیں؟

خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال، چین کی توسیع پسندی اور خطے میں مغربی طاقتوں کے زوال پزیری و بلوچستان مسئلے پر خاموشی نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ اگر اِن حالات میں بلوچ انسرجنسی سے وابستہ قومی جماعتیں اور جنگی ادارے وقت و حالات کے نزاکت کے مطابق سخت فیصلے نہیں کرتے تو مستقبل میں بلوچ قومی جنگ کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

بقول خیر بخش مری اگر کچھ سالوں میں ہم بلوچ انسرجنسی کو انتہا تک لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ہمارے فیصلے کرنے والے اور ہونگے، ہماری قومی بقاء ہمارے جنگ میں پنہاں ہے اور اس فیصلہ کُن موڑ پر ہمارے دوست تذبذب کے بجائے اپنی توانائیاں قومی جنگ پر صرف کریں۔

خلاصہ

دنیا بھر کی تحریکی تاریخ سے یہ ثابت شدہ اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنگ سے راہ فرار ہونے والوں کی رائے کو نہ سابقہ ادوار میں اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی موجودہ زمانے میں ایسے لوگوں کی رائے اہمیت دی جاتی ہے ۔

حرف آخر

یہ شرف انسانیت کے زمرے میں بھی آتا ہے کہ جب اور جہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی مثبت عمل سرانجام دیا جارہا ہے اور ہم انفرادی حوالے سے، اس عمل کا حصہ نہیں بن پاتے ہیں تو انسان کو اپنے اندرونی بغض کو دبا کر “اخلاقی جرأت” کا مظاہرہ کرکے یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ بذات خود ایسے قومی عمل کا حصہ نہیں بن سکتا، لیکن جو لوگ بالخصوص نوجوان جو توانائی رکھتے ہیں، جن میں جذبہ ہے تو ان سے کہہ دیں کہ وہ لازم اس قومی عمل کا حصہ بنیں۔

جنگ، سائی اوپس اور نفسیاتی عِلتیںتحریر: برزکوہیدی بلوچستان پوسٹغلامانہ سماج اور خاص طور پر شورش زدہ اور جنگی ماحول، ہمیش...
12/04/2023

جنگ، سائی اوپس اور نفسیاتی عِلتیں

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

غلامانہ سماج اور خاص طور پر شورش زدہ اور جنگی ماحول، ہمیشہ نفسیاتی امراض کا کارخانہ ہوتا ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ جنگی حالات سے پیدا شدہ نفسیاتی امراض کی نشاندہی و وضاحت ہوتی رہے، بدقسمتی سے حالت جنگ میں اس اہم اور پیچیدہ پہلو کو یا تو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر اس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

نفسیاتی جنگ میں ذہنی یا جذباتی قسم کی لڑائی شامل ہوتی ہے۔ نفسیاتی جنگ مخصوص اجزائے ترکیبی کو استعمال کرتی ہے، جیسے کے پروپیگنڈہ، دھمکی آمیز بیانات اور دشمن کو نفسیاتی الجھنوں و امراض سے دوچار کرنا۔ ان کا مقصد دشمن کی عقلیت اور اعمال کو بری طرح متاثر کرنا ہوتا ہے۔ نفسیاتی جنگ کے متعدد مطلوبہ اثرات میں دماغ اور جسم دونوں پر دشمن کا کنٹرول، دباؤ، یا کمزور کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

نفسیاتی آپریشنز، یا “سائی اوپس”، نفسیاتی جنگ سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ “سائی اوپس” سے مراد وہ فوجی بنیاد پر کام ہیں، جو نفسیاتی جنگ کو انجام دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا منصوبہ عام شہریوں اور/یا دشمن کے فوجیوں کو مطلوبہ انداز میں کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ “سائی اوپس” کو برین واشنگ کی ایک قسم سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کا مقصد لوگوں کے خیالات اور اعمال کا استحصال کرنا اور اپنی تئیں شکل دینا ہے۔

اسکی ایک مثال پروپیگنڈا بھی ہے، مواصلات یا اشتہار کی ایک قسم جس کا مقصد ہدف بنائے گئے گروپ کے سوچنے یا فیصلہ کرنے کے طریقے کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ بالآخر، پروپیگنڈہ مہم کا مقصد ایک آبادی کو بااثر معلومات متعارف کروا کر ایک مخصوص پیغام کے مطابق کارروائی کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس نتیجے کا مقصد اس گروپ کے مفادات کی حمایت کرنا ہے، جو پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ پروپیگنڈا کے مطلوبہ سامعین پورے معاشرے میں وسیع تر پیمانے پر موجود ہوتے ہیں، ہر عمر کے شہریوں سے لے کر فوجی اہلکاروں تک اسکا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک جیتنے والی پروپیگنڈہ مہم اپنے سامعین کو، اس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ٹھوس طریقے سے عمل کرنے کی ترغیب دے گی، نہ کہ صرف زبانی حمایت یا معاہدے کو۔

اسی طرح “سائی اوپس” کا ایک مقصد، دشمن کو شدید نفسیاتی مسائل میں الجھا کر، اسے ذہنی حوالے سے اس قدر ناکارہ بنادینا ہے کہ وہ جسمانی حوالے سے جنگ میں کماحقہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہو۔

بلوچ تحریک میں اسکی مثال دشمن کی عورتوں و بچوں کو زدوکوب کرکے کسی جہدکار کو نفسیاتی دباو میں مبتلا کرنا، بے دریغ چھاپے مارنا، واضح اہداف نا ہونے کے باوجود اندھا دھند فائرنگ یا بمباری کرنا، جہدکاروں کے اہلخانہ یا رشتہ داروں کو شہید کردینا وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد نفسیاتی جنگ میں برتری حاصل کرنا ہوتا ہے۔

جنگ بذات خود جسمانی سے زیادہ ایک نفسیاتی وار ہوتا ہے، طویل اور تھکا دینے والی جنگی ماحول میں فریقین کا ہر وقت کوشش ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نفسیاتی شکست سے دوچار کردیں۔ یہ نفسیاتی اثرات صرف زیر دست قوم کے حصے میں ہی نہیں آتے بلکہ قابض و جارح بھی ان کے لپیٹ میں رہتا ہے۔

جنگ جسمانی اور جذباتی طور پر جنگجو اور غیر جنگجو دونوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ موت، چوٹ، جنسی تشدد، غذائی قلت، بیماری، اور معذوری جیسے مسائل انسانی نفسیاتی پر دوران جنگ گہرے اثر ڈالتے ہیں۔ جنگ کے جسمانی نتائج کی دھمکی، جبکہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، افسردگی اور اضطراب ان میں سے کچھ جذباتی اثرات ہیں۔

اس حوالے سے ہم دوسرے جنگی ذہنی امراض کے ساتھ ساتھ خاص طو پر پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ کیسے پی ٹی ایس ڈی جہدکاروں کو متاثر اور ناکارہ کرسکتا ہے۔

یہ مرض صرف شوررش زدہ خطوں یا غلامانہ سماج میں ہی جنم نہیں لیتا بلکہ ہر خطے و سماج میں یہ انسانی نفسیات کو متاثر کرسکتا ہے لیکن شورش زدہ و غلامانہ سماجوں میں اس کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔

پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) ایک نفسیاتی عارضہ ہے، جو ان لوگوں میں ہوسکتا ہے، جنہوں نے کسی تکلیف دہ واقعے کا تجربہ کیا ہو یا اس کا مشاہدہ کیا ہو۔ ایک فرد اسے جذباتی یا جسمانی طور پر نقصان دہ یا جان لیوا محسوس کرسکتا ہے، یہ انسانی ذہنی، جسمانی، سماجی، اور/یا روحانی بہبود کو متاثر کر سکتا ہے۔

پی ٹی ایس ڈی کو ماضی میں بہت سے مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے، جیسے پہلی جنگ عظیم کے سالوں کے دوران اسے “شیل شاک” اور دوسری جنگ عظیم کے بعد “جنگی تھکاوٹ” کے نام سے پکارا جاتا تھا، لیکن پی ٹی ایس ڈی صرف سابق فوجیوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ تمام لوگوں کو چاہے وہ کسی بھی نسل، قومیت یا ثقافت یا عمر سے تعلق رکھتا ہو، لاحق ہوسکتا ہے۔

پی ٹی ایس ڈی والے لوگ اپنے تجربے سے متعلق شدید پریشان کن خیالات اور احساسات رکھتے ہیں، جو تکلیف دہ واقعے کے ختم ہونے کے بعد طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ وہ فلیش بیکس یا ڈراؤنے خوابوں کے ذریعے واقعے کو زندہ کرسکتے ہیں۔ وہ اداسی، خوف یا غصہ محسوس کر سکتے ہیں؛ اور وہ دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ یا اجنبی محسوس کرسکتے ہیں۔ پی ٹی ایس ڈی والے لوگ ایسے حالات یا لوگوں سے بچ بچ کر رہ سکتے ہیں جو انہیں تکلیف دہ واقعے کی یاد دلاتے ہیں۔

اس امر کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ پی ٹی ایس ڈی ہو یا دوسرے جنگی ذہنی امراض، ضروری نہیں کہ وہ کسی واقعے اور حادثے کے فوری بعد ہی انسانی ذہن کو متاثر کردیں۔ جب ہمیں کسی سانحے یا حادثے کا سامنا ہوتا ہے تو، انسانی ذہن کی اولین ترجیح آپ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے، وہ انسان کے “فائیٹ و فلائیٹ” ذہنی ترکیب متحرک کردیتا ہے، تاکہ آپ کا ذہن اس المناک سانحے کو بغیر “پروسس” کیئے جذب کرسکے، اور زندہ رہنے کیلئے آپکے حواس سالم رہیں تاکہ آپ اپنی حفاظت کرسکیں۔ اس لیئے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگ کسی اچانک حادثے، بری خبر یا المیئے کے بعد کچھ دیر خاموش اور ساکت پڑ جاتے ہیں لیکن اس حادثے کے اثرات کہیں نہیں جاتے اور نا ہی وہ زائل ہوتے ہیں بلکہ آپکا ذہن انہیں کسی کونے میں محفوظ کرلیتا ہے۔

لیکن جب وہ شخص، جنگی ماحول سے نکل کر قدرے پرسکون و پرامن ماحول میں داخل ہوجائے اور آسودگی، خوشحالی اور آسائش کی زندگی اختیار کرنے لگے تو اس وقت مرض بالغ ہوکر اپنی اصل روپ میں نمودار ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ پھر انسانی ذہن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ آپ اب جسمانی حوالے سے محفوظ ہو اور اس “ٹراما” کو “پروسس” کرسکتے ہو۔

مریض کو سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں، کہا جاوں، وہ کسی بھی جگہ مطمئن نہیں رہتا، ہر جگہ، ہر ماحول میں اکتاہٹ اور بے چینی کا شکار رہتا ہے۔

ایسے شخص کو ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں، جسمانی حوالے سے وہ شدید کاہلی کا شکار ہوجاتا ہے، عمومی طور پر ایسے اشخاص رات گئے دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور پھر دوپہر تک سوتے ہیں، کیونکہ وہ رات کو خود کو لاشعوری طور پر محفوظ نہیں سمجھتے۔ انہیں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ ہر کوئی انکے خلاف سازش رچا رہا ہے۔ اور اگر وہ کچھ سوچتا ہے تو منفی ہی سوچتا ہے اور منفی عمل کے بار بار مرتکب ہوتا ہے اور کبھی کبھار خود کو اکیلاپن اور گمنام سمجھ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منفی و متضاد اور متنازع فعل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، اچھے بھلے متحرک انسان، جو ماضی میں انتہائی قابل اور سرگرم ہوتے ہیں، وہ خود کیلئے ایک کمفرٹ زون تخلیق کرکے، وہیں خود کو مبحوس کردیتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں یہ امکان بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ انہیں خودکشی کا خیال یا شراب، چرس افیون یا نشہ آور نیند کی گولیوں کی لَت لگ جائے۔ اگر ایسے شخص جنگی لوگ رہے ہیں، تو وہ بزدلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور دوبارہ جنگی حالات سے گریز کرتے ہیں اور جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر وہ کبھی بھی دوبارہ جنگ میں حصہ بننے کی کوشش کرے وہ حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔ اگر بن بھی جائے تو ان کی ماضی جیسی صلاحیت، ہمت، بہادری اور خطرہ مول لینے والی کردار نہیں ہوگی بلکہ وہ کسی بھی کام کو اول تو شروع نہیں کرسکتے اگر شروع کر لے پھر ادھورا چھوڑ دیتے، ان کو سمجھ ہی نہیں آتا میں کیا کروں اور کیا کرسکتا ہوں؟

ایسے لوگ اپنے لیئے ایک ایسا زہریلا کمفرٹ زون تخلیق کردیتے ہیں، جہاں انکی صلاحیتیں گھٹ گھٹ کر مرنا شروع کردیتے ہیں، اور یہ اسی کمفرٹ زون کے طفیل ہی ہوتا ہے کہ پی ٹی ایس ڈی ان پر اس شدید انداز میں حملہ آور ہوتا ہے۔ اسی کمفرٹ زون کے حوالے سے محمد ارشاد لکھتے ہیں کہ “ہماری اپنی انا تبدیلی کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی قوت ہے۔ دماغ جب ایک کمفرٹ زون بناتا ہے تو پھر لوگ اپنی پوری زندگی اس کمفرٹ زون یعنی جمود کی صورت حال میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کا یہ گروپ ہمیشہ ایسے انسانوں سے نفرت کرتا ہے جو پہل کرتے ہیں۔ وہ اس کمفرٹ زون کو توڑنا چاہتے ہیں کیونکہ سست طبیعت لوگ اکثریت میں ہوتے ہیں، اس لئے وہ بہادر لوگوں کو ہدف بنانا کبھی نہیں بھولتے۔ پہل کرنے والے بہادر جو ہمیشہ خطرہ مول لیتے ہیں اور نئی کامیابیوں کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

میسولینی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں مجھے اس وقت اس امر کا احساس تک نہ تھا کہ کام کے لیے مہلت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تھکان دور کرنے کے لیے آرام کرنا میرے لیے اس طرح لایعنی تھا جس طرح اب ہے۔

تو ذہنی سطح پر تغیر و تبدل کے بغیر زندگی مردہ اور بے معنی ہے۔ دماغ بھی پرانی، بے جان، جامد اور دہرائی جانے والی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔ مثلاً اگر ایک عام آدمی دن میں دو وقت ایک ہی کھانا کھائے تو تیسری بار دماغ وہ کھانا کھانے سے انکار کر دے گا۔ جو لوگ زندگی میں تبدیلی نہیں لاتے وہ دراصل بیمار اور ذہنی امراض کے مریض ہیں، اور بدقسمتی سے اسی گروہ سے متعلق لوگ صحیح اور غلط، ظلم اور مہربانی، محبت و نفرت میں فرق قائم نہیں کرسکتے ہیں۔”

ہم مذکورہ بالا تشریح و تاویلات کو پی ٹی ایس ڈی کے مد میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ امر بھی لحاظ خاطر ہو کہ آسائش و کمفرٹ زون کیسے متحرک جہدکاروں میں ذہنی امراض کے شدت میں اضافہ کرسکتے ہیں اور کیسے ایک قابل جہدکار بہانہ باز بن جاتا ہے۔ بقول بینجمین فرینکلن “جو بہانے بنانے میں اچھا ہوتا ہے، وہ کسی اور چیز میں اچھا نہیں ہوسکتا۔” اسی طرح معروف فرانسیسی مصنف وگٹر ہیوگو کہتا ہے کہ “مصیبت انسان بناتی ہے اور عیش و آرام راکشس بناتا ہے۔”

ایلن ہینڈرکسن جو ‘بوسٹن یونیورسٹی کے سنٹر فار انزائٹی اینڈ ریلیٹڈ ڈِس آرڈرز’ میں کلینیکل اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ “جب ہم اپنے کسی کام یا بہت سے کاموں کو اپنے لیے خطرناک سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، تو ایسے میں ہمارے دماغ میں ’’فائٹ، فلائیٹ یا فریز‘‘ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا جسم بھی اس خطرے کے خلاف اسی انداز میں ردعمل دینا شروع کر دیتا ہے۔ بھلے یہ خطرہ خارجی ہو یا باطنی۔ جب ہمارے سامنے کاموں کی ایک طویل فہرست پڑی ہو تو یہ خطرہ ناکامی کے ممکنہ خطرے میں تبدیل ہو جاتا ہے یا پھر خطرے کا یہی احساس دوسروں کو مغلوب کرنے کے جنون میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ خطرہ انسان کے احمق یا نااہل ہونے کے احساس میں بھی بدل جاتا ہے کیونکہ ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں لگتی کہ کام کہاں سے شروع کریں یا اسے کیسے کریں؟‘‘۔

انزائٹی کے اس احساس کی موجودگی میں انسانی دماغ کا ایگزیکٹو سنٹر اپنا کنٹرول چھوڑ دیتا ہے۔ حالانکہ نفسیاتی امراض سب کے سب اور ان سب کے علامات اور وجوہات بالکل مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک ہیں، وہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں کیونکہ ان کا تعلق اور بنیاد انسانی ذہن سے ہے۔

دراصل قومی آزادی کی جنگ میں کمفرٹ زون قومی جہدکاروں کے لیے ایک ناسور مرض ہے، جس کی وجہ سے ایسے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں، جوجہدوجہد کے لیے زہر قاتل بن جاتے ہیں۔ جو بھی تنظیم یا تحریک خود اگر اپنے ہی لوگوں کو کمفرٹ زون میں دھکیل دیتی ہے تو وہ لاشعوری بنیاد پر اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریک کے پیروں پر کلہاڑی مارتی ہے۔

یہ بالکل ایک غیر انقلابی، غیر نظریاتی اور غیر تنظیمی سوچ و اپروچ ہے کہ جہدکاروں اور تحریکی لوگوں کو پرسکون و پر آسائش زندگی مہیا کرکے تنظیم بڑا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔ جنگ ایک پرآسائش، پرسکون اور پرامن مستقبل کیلئے لڑی جاتی ہے، جنگ خود پرآسائش، پرسکون و پرامن نہیں ہوسکتا۔

اگر بلوچ تحریک پر ایک نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ ذہنی الجھنیں، آپ کو محاذ پر برسرِپیکار کسی جہدکار میں نا ہونے کے برابر ملیں گے، لیکن وہ جہدکار جو محاذ کو ترک کرکے بیرون ممالک منتقل ہوگئے ہیں، ان میں ڈپریشن، انزائٹی اور پی ٹی ایس ڈی کی شدید شکایات پائی جاتی ہے۔

یہ بات اٹل ہے کہ عمل ہی تمام ذہنی الجھنوں و امراض کا ازالہ اور علاج ہے۔

جب امریکہ اور افغان طالبان کی دوحہ میں مذاکرات چل رہے تھے، تو امریکہ اور افغان حکومت کا یہی موقف تھا اور اس بات پر زور دے رہے تھے کہ طالبان چھ ماہ تک جنگ بندی کرے لیکن طالبان مکمل انکار کررہا تھا۔ مختلف رپورٹس کے مطابق طالبان قیادت اس وجہ سے جنگ بندی پر راضی نہیں تھا کہ ہمارے مجاہدین پھر آرام پسند بن جائینگے یا ہر کوئی ذاتی کام و کاج شروع کردیگا، پھر جنگ سے بیگانہ اور دور ہونگے۔

میریلن فرگوسن فرماتے ہیں کوئی بھی شخص کسی کو تبدیل ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا، ہم سب کے اندر تبدیلی کا ایک دروازہ ہوتا ہے۔ جسے صرف اندر کی جانب کھولا جاسکتا ہے ہم دلیل اور جذباتی فیصلے سے کبھی کسی اور کا دروازہ نہیں کھول سکتے ہیں۔

‏‎ڈاکٹر ہینڈرکسن کہتے ہیں کہ “جب آپ اس کام سے گریز کرتے ہیں، جو آپ کے اندر بے چینی اور اضطراب پیدا کرتا ہے تو اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔” وہ انہیں انزائٹی کے دو بڑے جھوٹ کہتے ہیں۔ پہلا جھوٹ یہ کہ وہ کام واقعی بہت مشکل اور خطرناک تھا اور دوسرا جھوٹ یہ کہ آپ اسے نہیں کرسکتے تھے۔ کامیابی کا حقیقی راز اس بات میں مضمر ہے کہ انزائٹی ہونے کے باوجود وہ کام کرگزرو اور اپنے دماغ کو یہ بات سمجھاو کہ وہ اس سے بھی زیادہ دباو میں کام کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ آپ کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ آپ کے اندر ایسی اچھی اور عمدہ عادات پروان چڑھتی ہیں، جو آنے والے دنوں میں کام کرنے میں آپ کے لیے مفید ثابت ہوں۔

بارڈر بچاؤ تحریک کیا ہے ؟تحرير: خالد ولید سیفیدی بلوچستان پوسٹسوشل میڈیا ایک بہت بڑی دنیا ہے ، میری کوشش رہی ہےکہ سوشل م...
06/04/2023

بارڈر بچاؤ تحریک کیا ہے ؟

تحرير: خالد ولید سیفی

دی بلوچستان پوسٹ

سوشل میڈیا ایک بہت بڑی دنیا ہے ، میری کوشش رہی ہے
کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے ساتھ وابستہ رہا جائے ، جب بارڈر بچاؤ تحریک شروع ہوئی تو میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے موثر رابطے کا نظام قائم کیا جو بہت کامیاب رہا ، میں نے اس پلیٹ فارم سے لوگوں کو مخاطب کیا ، بلکہ آپ یہ سمجھ لیں کہ بارڈر بچاؤ تحریک کا ابتدائی مرحلہ سوشل میڈیا پر چلا اور اس بیانیے کو ہزاروں لوگوں ، نوجوانوں اور ہر اس شخص نے سپورٹ کیا جو تبدیلی چاہتا ہے ، جو سماج میں مافیاز کی سرگرمیوں کو اپنی آنے والی نسل کی تباہی سمجھتا ہے ۔

بارڈر بچاؤ تحریک کا بنیادی مقصد کرپشن کا خاتمہ اور آزادانہ کاروبار کی اجازت ہے ، اور اسی بنیاد پر یہ تحریک کھڑی ہے ، اور کھڑی رہے گی ۔

کل 5 اپریل کو ہم نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات میں آل پارٹیز کیچ کی جانب سے 7 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ، کل کی ملاقات ڈپٹی کمشنر کی باضابطہ دعوت پر ہوئی ، یہ چارٹر آف ڈیمانڈ آل پارٹیز کیچ نے مشترکہ ایک ایک نکتے پر بحث کے بعد تیار کیا تھا ، اور ہر نکتے کی افادیت پر رائے سازی کے بعد اتفاق کیا گیا تھا ، کیونکہ تحریک کا بنیادی ہدف کرپشن ( لین ، ٹوکن ، اور چیک پوسٹوں پر بھتے کا خاتمہ ) کا خاتمہ اور آزادانہ کاروبار کا فروغ ہے ، اس لیے اس بنیادی مطالبے کو چارٹر آف ڈیمانڈ میں سرفہرست رکھا گیا ، اس تحریک کا دوسرا بڑا مطالبہ کراسنگ پوائنٹ میں اضافہ کرنا تھا ، اس مطالبے کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ۔

اب یہاں پر ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ کہ کرپشن کا خاتمہ اور آزادانہ کاروبار کس طرح ممکن ہوسکے گا ، یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھا جائے ، اس وقت بارڈر ٹریڈ میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے وہ دو طریقوں سے ہے ، ایک لین کے نام پر ضلعی انتظامیہ ، طاقتور ادارے اور ان کے کارندے ، مقامی سیاسی نمائندے اور ان کے کارندے ، بلوچستان کے بیورو کریٹس اور سی ایم بلوچستان کے کوٹے مقرر کیے گئے ہیں ، کسی کے پچاس ، کسی کے سو ، کسی کے دو سو ، اسی طرح کم و بیش لین کے نام پر سب کو حصہ بقدر جثہ دیا جارہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے وہ سیاسی راہنما جو قوم دوست اور عوام دوست کے نام سے جانے جاتے ہیں انہوں نے بھی بارڈر کے اس میگا کرپشن پر آج تک میڈیا میں ایک مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا ہے ، کیونکہ وہ اس کرپشن کے بینںیفشری ہیں ۔

کرپشن کا دوسرا ذریعہ جعلی اور بوگس ٹوکن ہیں ، جن کا اندراج دو سال قبل اس وقت ہوا جب بارڈر امور ایف سی کے پاس تھے ، کسی شخص کے پاس ایک گاڑی تھی تو اس کے پاس دس ٹوکن ہیں ، کسی کے پاس بیس ۔۔۔

اب یہ کرپشن یعنی لین اور ٹوکن کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوسکے گا ، اس پر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ، کیچ میں کم از کم چار کراسنگ پوائنٹ اوپن کیے جائیں ، جب تک ایک کراسنگ پوائنٹ ہے لین اور ٹوکن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ایک کراسنگ پوائنٹ پر جب ایک گاڑی کا نمبر چالیس روز بعد آتا ہے تو اسے مجبورا لین یا ٹوکن خریدنا پڑتا ہے ، اور جب کراسنگ پوائنٹ بڑھیں گے تو ایک گاڑی ماہانہ تین یا چار دفعہ جاسکے گی ، تو اسے لین یا ٹوکن خریدنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور اسی کرپشن کو دوام دینے کےلیے کراسنگ پوائنٹ کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جارہا ہے ، یعنی کرپشن کا خاتمہ کراسنگ پوائنٹ کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اس لیے ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ میں انہی دو مطالبے کو سرفہرست رکھا گیا ہے ۔

اس وقت کیچ میں عبدوئی بارڈر کے علاؤہ جالگی بارڈر بھی کھلا ہے ، لیکن اس میں روزانہ صرف 20 گاڑیوں کو جانے کی اجازت ہے ، ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ میں اس تعداد کو روزانہ 500 تک لے جانا شامل تھا ، اگر یہ مطالبہ پورا ہو ہے تو یہ بلیدہ زامران کےلیے آزادانہ کاروبار کا ذریعہ ہوگا ۔

اسی طرح دشتک کراسنگ پوائنٹ ، گرے بن کراسنگ پوائنٹ ، چوکاپ مند کراسنگ پوائنٹ ، کپکپار کراسنگ پوائنٹ اوپن ہوں تو نہ لین رہے گا ، نہ ٹوکن اور نہ میگاکرپشن ہوسکے گا ۔

چارٹر آف ڈیمانڈ میں ایک مطالبہ عبدوئی بارڈر سے خوردونوش کی اشیاء لے جانے کی اجازت دینا ہے ، پہلے یہ ہوتا تھا کہ جو گاڑیاں تیل لانے کےلیے ایران جاتی تھیں تو وہ یہاں سے کچھ سامان بھی ساتھ لے کر جاسکتی تھیں ، اس کا ایک فائدہ مقامی دوکانداروں کو ہوتا تھا ، اور دوسرا فایدہ ان محنت کش گاڑی والوں کو بھی ہوتا تھا ، جنہیں وہاں بیچ کر وہ کچھ پیسے کماتے تھے ، پھر وہاں سے تیل لاکر یہاں بیچتے تھے ، اب کچھ عرصے سے اس پر پابندی عائد ہے کہ کوئی گاڑی کھانے پینے کی اشیاء لے کر نہیں جاسکتی ہے ۔

چارٹر آف ڈیمانڈ میں ایک نکتہ اتوار کو بارڈر کھلا رکھنے کا تھا ، جبکہ ساتواں نکتہ بلاک شدہ گاڑیوں کو بحال کرنے کا تھا ، یہ وہ گاڑیاں ہیں جو حق دو تحریک کریک ڈاؤن کے بعد ان کے ورکرز یا ورکرز کے رشتہ داروں کی تھیں ، جنہیں سیاسی انتقام پر بلاک کیا گیا ، جو اپنی باری پر بارڈر نہیں جاسکتی ہیں ، سوشل میڈیا پر اس نکتے کو لے کر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ جب آپ آزادانہ کاروبار چاہتے ہیں تو پھر ان گاڑیوں کو لسٹ میں کیوں ڈال کر لسٹنگ کو دوام دینا چاہتے ہیں ، دراصل ان گاڑیوں کو بحال کرنا لسٹنگ کی حمایت نہیں ، بلکہ اس ناانصافی کا ازالہ کرنا ہے جو سیاسی انتقامی کاروائی اور بدنیتی کی بنیاد پر کی گئی تھی ۔

چارٹر آف ڈیمانڈ پر یہ اعتراض ہے کہ اس میں ٹوکن کا نام کیوں نہیں ہے ؟ پہلے نکتے میں سرکاری کرپشن کا خاتمہ اور آزادانہ تجارت کی اجازت ، سرکاری کرپشن کی تشریح لین ، ٹوکن ، اور چیک پوسٹوں پر بھتہ ہی ہے ، اس چارٹر آف ڈیمانڈ میں کرپشن کے ان تینوں ذرائع کو سرکاری کرپشن کا نام دیا گیا ہے اس لیے اس پر کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔

بارڈر بچاؤ تحریک کرپشن کے خلاف اور آزادانہ تجارت کے فروغ کےلیے شروع کیا گیا ہے اور اسی نکتے پر جاری رہے گی ، البتہ ہر جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں ، پہلے مراحل میں کچھ کامیابیاں سمیٹی جاتی ہیں اور دیگر مراحل میں کچھ اور کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں ، طاقتور طبقات کے جبڑے سے مراعات چھیننا ایک بڑی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اسی جدوجہد کی طرف جارہے ہیں ۔

اس تحریک کے خیرخواہ سوشل میڈیا کے ذریعے طاقتور طبقات کے کارندوں کو جواب دیں ، اپنے اہداف بیان کریں ، ایسا نہ ہو کہ سوشل میڈیا میں بھیٹے مافیاز کے کارندوں کے پروپگینڈے آپ کو متاثر کریں ۔

جدوجہد جاری رہے گی ، مافیاز کا تعاقب کیا جائے گا ، اور اس مافیاز کے سہولت کار سیاستدانوں کو بھی قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا ، جو لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور مافیاز کے سب سے بڑے سہولت کار ہیں ، اس جدوجہد کا مقصد نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اپنی خوشامد پر خرچ کرنے والوں کے خلاف ایک محاذ تیار کرنا ہے ۔
اس تحریک کے ذریعے نیا جذبہ ، نیا خون ، نئے ولولے اور نوجوانوں کی نئی کھیپ تیار کرکے انہیں سیاسی میدان میں اتارا جائے گا ، تاکہ قوم ، عوام ، وطن یا دیگر ناموں سے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو تحفظ دینے والے نام نہاد سیاسی کلاس کی جگہ جواں جذبوں سے سرشار نئی نسل آکر قوم ، وطن ، ملت اور سرزمین کےلیے اپنی تعمیری صلاحتیں بروئے کار لاسکے ۔

https://thebalochistanpost.com/2023/04/%d8%a8%d8%a7%d8%b1%da%88%d8%b1-%d8%a8%da%86%d8%a7%d8%a4-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%da%a9-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%9f-%db%94-%d8%ae%d8%a7%d9%84%d8%af-%d9%88%d9%84%db%8c%d8%af-%d8%b3%db%8c/

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟تحریر : اسد علی (بی بی سی)عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے...
05/04/2023

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟

تحریر : اسد علی (بی بی سی)

عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔

جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا۔

سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔

ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔

مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ (وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی۔‘

🟠ارطغرل کے بارے میں عثمانی روایت

مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘

انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔

روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔

جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔

جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا؟

🟠نامعلوم تاریخ والا سکہ

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔

فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔

🟠تاریخ میں عثمانیوں کا پہلا ذکر

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ 1300 کے قریب ملتا ہے۔

اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔

لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔

مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔

🟠۔عثمان کا خواب

مؤرخُ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔

اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔

اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اولاد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند ان کی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں۔

فنکل لکھتی ہیں کہ ابتدائی عثمانی سلطانوں کو اپنے آغاز کی تاریخ معلوم کرنے سے زیادہ دلچپسی دوسروں پر حکومت کے اپنے حق کو ثابت کرنے میں تھی اور ان کے نزدیک ان کی سلطنت کا آغاز ایک خواب سے ہوا تھا جو عثمان نے ایک بزرگ درویش کے گھر میں قیام کے دوران دیکھا تھا۔

وہ مزید لکھتی ہیں کہ اس خواب کی کہانی کے حق میں دستاویزی ثبوت بھی تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی بھی کچھ شہادت ہے کہ ان کی بیٹی عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھیں۔

🟠ارطغرل کا اناطولیہ

ارطغرل کا اناطولیہ 13ویں صدی کا اناطولیہ تھا۔

کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی، آرمینیائی، کرد، یونانی اور عرب شامل تھے۔

اس علاقے کے مغرب میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔

13ویں صدی کے وسط میں منگولوں کے ہاتھوں شکست نے سلجوقوں کو کمزور کر دیا اور وہ منگولوں کو نذرانے دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ماضی کی دو طاقتور حکومتوں کا اختیار ان کی سرحدوں کے درمیان واقع ’غیر یقینی صورتحال‘ کے اس علاقے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔

لیکن یہ صرف جنگجوؤں کی آماجگاہ نہیں تھا۔ مہم جوئی کرنے والوں کے علاوہ یہاں وہ لوگ بھی تھے جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔

فنکل ’فرنٹیئر‘ کے اس علاقے کی، جہاں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی، تصویر کھینچتی ہوئے بتاتی ہیں کہ ’۔۔۔ اس علاقے میں خانہ بدوشوں، نیم خانہ بدوشوں، لٹیروں، فوجی مہمات کے شوقینوں، مختلف پس منظر والے غلاموں، درویشوں، راہبوں اور بکھری ہوئی آبادیوں کے دورے کرتے پادریوں، پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے بے گھر کسانوں، شہر والوں، سکون اور مقدس مقامات کی متلاشی بے چین روحوں، سرپرستی کے متلاشی مسلمان اساتذہ اور خطرات سے نہ ڈرنے والے تاجروں کی گزرگاہوں کے جال بچھے ہوئے تھے۔‘

فنکل لکھتی ہیں کہ اس بدانتظامی والے علاقے کی خاص بات مسلمان درویشوں کی موجودگی تھی۔ مسیحی راہبوں کی طرح وہ بھی ہر وقت سفر میں رہتے یا پھر اپنے پیروکاروں کے درمیان قیام کرتے اور ان کی زندگی روایات کا حصہ بن گئی۔

’درویشوں کی کھولیاں علاقے میں اسلام کی اس تصویر کی نشانی تھیں جو اناطولیہ میں سلجوقوں کی سلطنت کے سنی اسلام کے ساتھ عام تھا۔‘

سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ترک (خانہ بدوش) جب اناطولیہ آئے تو صوفی بزرگ بھی ان کے ساتھ ہی آ گئے جس پر طاقتور سلجوق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ ان صوفیوں کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نکل جانے پر خوش تھے۔‘

جے شا مزید لکھتے ہیں کہ ’اس عمل میں کچھ مسیحی ہلاک اور اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ تر اپنی جگہ پر رہے۔۔۔ کچھ نے اسلام بھی قبول کیا۔۔۔ کچھ ترک صوفی سلسلے مسیحی مذہبی مقامات میں بھی داخل ہوئے جہاں مسیحی اور مسلمان ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر عبادت کرتے نظر آتے تھے۔‘

🟠۔ارطغرل کا مزار

سوگت کے علاقے (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ارطغرل کو سلجوق سلطان سے ملا تھا) میں ارطغرل کے نام کی ایک چھوٹی سی مسجد اور ایک مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ارطغرل کے بیٹے نے ان کے لیے بنائی اور پھر جس میں عثمان کے بیٹے ارہان نے اضافہ کیا۔

کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ اس مسجد اور مزار پر اتنی بار کام ہوا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر سے کوئی نشانی نہیں بچی اس لیے کسی عمارت کے بارے میں پورے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عثمان کے دور کی ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ 19ویں صدی کے آخر میں سلطان عبدالحمید دوم نے کمزور ہوتی سلطنت کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی شہرت کا سہارا لینے کی کوشش کی اور سوگت میں ارطغرل کا مزار از سر نو تعمیر کیا اور ’عثمانی شہیدوں‘ کا ایک قبرستان بنایا۔

🟠۔ارطغرل کی زندگی پر ٹی وی ڈرامہ کیوں؟

امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘

جوش کارنی کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیمان (1566-1520) اور عبدالحمید دوم (1909-1876) کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے لیکن ارطغرل پر ٹی وی سیریل بننا بغیر وجہ نہیں۔

ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کی دنیا بھر میں انتہائی کامیاب سیریز ’دیریلیس ارطغرل‘ ان کے قائی قبیلے کی اناطولیہ میں مختلف دشمنوں سے لڑتے ہوئے پیشرفت پر مبنی ہے۔

’نتیجتاً جبکہ تاریخی کردار ارطغرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ٹی آر ٹی کا کردار ترکی میں اور ترکی سے باہر مقبول ہے اور لوگ اس سے پیار کرتے ہیں۔‘

سنہ 2018 میں لکھے گئے اس مضمون میں کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈنم کے اشتہاروں میں واضح تھے جس سے ’کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا کر دیا گیا ہے۔‘

کارنی کہتے ہیں کہ ایک ایسے کردار کے بارے میں ٹی وی سیریل بنانے میں، جسے لوگ نہیں جانتے ‘آسانی یہ ہے کہ اس کو کسی بھی رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ (جبکہ) مقبول شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔‘

کارنی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سلطان سلیمان کے بارے میں سیریز اسی لیے اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ’ارطغرل کے بارے میں سیریز بنانا ایسے ہی تھا جیسے خالی سلیٹ پر مرضی کے رنگ بھرنا۔‘

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Balochistan Articles - بلوچستان آرٹیکل posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share