Naik Muhammad Safi

  • Home
  • Naik Muhammad Safi

Naik Muhammad Safi I am Naik Muhammad Safi..Food Reactions , Tourist , Vlogger , Traveler , Unseen places Explorer

09/04/2024

My old vlog .

15/01/2024

Review about book "I'm Possible"



30/12/2023

Komail Dry Fruits & Salajeet owner full interview about his business life.
Business ideas 💡

12/12/2023

Me with Faizullah Khan

زندگی گزارنے کے طریقے اور اصول اگر ہمیں معلوم ہو جائیں تو ہم کامیاب اور باوقار زندگی گزار سکتے ہیں ۔لوگوں کے دلوں پہ راج...
20/08/2023

زندگی گزارنے کے طریقے اور اصول اگر ہمیں معلوم ہو جائیں تو ہم کامیاب اور باوقار زندگی گزار سکتے ہیں ۔
لوگوں کے دلوں پہ راج کر سکتے ہیں۔
کاروباری ، معاشرتی مسائل ہوں یا خانگی زندگی کے مسائل اگر آپ ان کا بہترین حل چاہتے ہیں تو
" میٹھے بول میں جادو ہے"

کتاب کا مطالعہ ایک بار ضرور کریں ۔
یہ ایک زندگی بدل کتاب ہے جو آپ کے اندر چھپی صلاحیتوں و ہنر کو باہر لانے کی۔ جادوئی کام کرتی ہے ۔
یہ کتاب آپ کے اندر چھپی صلاحیتوں اور طاقتوں کو استعمال میں لانے کا ہنر سکھاتی ہے جس سے آپ میں کچھ کر گزرنے کا جزبہ پیدا ہو گا۔

انتخاب

02/06/2023

A video about Natural Food Online Service parcel 📦 unboxing .
For order & more info 👇
📞 0311-8876611

سر کفیل اسلم  تعلیم جیسے معزز  شعبے سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ نیول کالونی میں انکے زیر نگرانی "ماگرے اکیڈمی" بھی فعال ہے اس...
28/05/2023

سر کفیل اسلم تعلیم جیسے معزز شعبے سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ نیول کالونی میں انکے زیر نگرانی "ماگرے اکیڈمی" بھی فعال ہے اسکے ساتھ ساتھ یہ آن لائن بکس کا کام بھی کرتے ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے امور بھی بجا لاتے ہیں ۔

اس تمہید سے جان لیں کہ سر کو فراغت کے کتنے لمحے میسر آتے ہونگے ؟

اسکے باوجود سر نے مختصر نوٹس پر نہ صرف ہم سے ملنے پر آمادگی کا اظہار کیا بلکہ ملاقات کے لیے ایک ایسے مقام کا انتخاب کیا جو دونوں پارٹیوں کے لئے نصف بنتا تھا ۔ بالفاظ دیگر خود کو کوفت میں ڈالا اور ہمارے لیے سہولت پیدا کی ۔ اللّٰہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر عطا فرمائے اور ہمیں بھی ایسی آسانیاں باٹنے والا بنائے آمین ۔

سر استاد ہیں تو اوصاف بھی اساتذہ کرام والے ہیں ۔ ہمیں جو وقت بتایا تھا مطلوبہ مقام پر ہم سے پہلے ٹھیک اسوقت وہ موجود تھے ❤️

پہلی ملاقات تھی ہماری ۔ ہم جھجک محسوس کر رہے تھے اور وہ فل پر اعتماد ۔ وجہیہ و خوش شکل ۔ داڑھی ان پر تمام تھی ۔ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ بجا طور پر انھیں دیکھ کر کسی کلین شیو کا دل داڑھی رکھنے پر آمادہ ہوسکتا ہے کہ انسان داڑھی میں اتنا خوبصورت بھی لگ سکتا ہے ❤️

نشستوں پر بیٹھتے ہی کاکے کو کتاب کا تحفہ پیش کیا ۔ حال احوال دریافت فرمایا اور ساری ملاقات چہرے پر تبسّم دکھائی دیا ۔ کچھ اپنا احوال بیان کیا اور کچھ ہمارے بارے میں جانا ۔ پیزہ و کولڈرنک سے نہ صرف ہماری تواضع فرمائی بلکہ جاتے جاتے دو پارسل ہماری کاکیوں کیلئے بھی پیک کرائے ❤️

المختصر پرخلوص ملاقات تھی بہت انجوائے کیا۔ اگر زندگی نے وفا کی تو ان شاءاللہ اگلی بار ہم ماگرے اکیڈمی میں ملیں گے 🌹

Dear sir Kafeel Aslam Thank you so much ❤️

27/05/2023

Complete video about عطورات الحرمین outlet visit.

مولانا جمال عتیق صاحب عطورات الحرمین کے نام سے خوشبویات کا کام بھی کرتے ہیں ۔ کچھ ہفتے قبل ہم نے انکی شاپ وزٹ کی ۔ جہاں ...
26/05/2023

مولانا جمال عتیق صاحب عطورات الحرمین کے نام سے خوشبویات کا کام بھی کرتے ہیں ۔ کچھ ہفتے قبل ہم نے انکی شاپ وزٹ کی ۔ جہاں ہم نے مفتی صاحب سے پرفیومز کی فیلڈ میں آنے کی وجوہات کیساتھ ساتھ انکے پاس دستیاب آئٹمز کے حوالے سے کچھ سوالات آن کیمرہ پوچھے ۔
مولانا صاحب نے اس فیلڈ میں کیوں قدم رکھا ؟
انکے پاس عطریات کی کونسی کونسی اقسام موجود ہیں ؟
مدارس اور اسکول کالجز کے طلباء کے لئے وہ کونسا پیکج دے رہے ہیں ؟
ان سب کے جوابات جاننے کیلئے کمنٹ میں دیے گئے لنک کو کلک کرکے ہمارے یوٹیوب چینل کا وزٹ کیجیے

Special Thanks to Press For Peace Foundation For this book 📚
20/05/2023

Special Thanks to Press For Peace Foundation
For this book 📚

Another pic with Komail Ahmad Muaviah Location Food street Rawalpandi
05/03/2023

Another pic with Komail Ahmad Muaviah
Location Food street Rawalpandi

04/03/2023

Chapter چوزہ کہانی 🐥
Episode 2

24/02/2023

بڑھاپا دراصل شعور کی جوانی کا دور ہے 🍂

واصف علی واصف

کتاب: سفر نامہ ابنِ بطوطہمترجم: محمد حسینتبصرہ : ابو نیک محمد صافیسفرنامہ ابنِ بطوطہ نامی دنیا کی اس مشہور تاریخی مستند ...
16/02/2023

کتاب: سفر نامہ ابنِ بطوطہ
مترجم: محمد حسین
تبصرہ : ابو نیک محمد صافی

سفرنامہ ابنِ بطوطہ نامی دنیا کی اس مشہور تاریخی مستند کتاب کے حوالے سے میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پڑھنا بھی نصیب ہوگئی ۔ اس کیلئے میں اس دوست کا مشکور ہوں جس نے اس کتاب کی تلاش کا مجھے ٹاسک دیا تھا ۔

ابن بطوطہ کا اصل نام محمد بن عبداللہ تھا. یہ 1304 عیسوی میں مراکش کے شہر تانگیر میں پیدا ہوا. 21 سال کی عمر میں گھر سے روانہ ہوا اور ستائیس تا اٹھائیس سال دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔

ابنِ بطوطہ حج کی نیت سے گھر سے روانہ ہوتا ہے اور لمبے سفر کے بعد وہ ایک ایسی بندر گاہ پہنچتا ہے جہاں کا حاکم مغلوں سے لڑائی میں برسر پیکار ہوتا ہے ۔ اسی سبب ابنِ بطوطہ کو جہاز نہیں ملتا اور وہ مصر کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ مصر سے شام کا رخ کرتا ہے اور دمشق میں ٹھہر کر علم حدیث حاصل کرتا ہے ۔

بعد ازاں ایک قافلے کیساتھ حج پہ جاتا ہے ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد وہ عراق و ایران سے ہوتا ہوا ہندوستان میں داخل ہوتا ہے ۔ ملتان و سندھ میں قیام کے بعد وہ دہلی کا رخ کرتا ہے ۔ جہاں سلطان محمد تغلق تخت نشین ہے سلطان اگرچہ جابر ہے لیکن سیاحوں اور غیر ملکی مہمانوں کا وہ بہت اکرام کرتا ہے۔ وہ ابنِ بطوطہ کو دہلی کا قاضی مقرر کر دیتا ہے ۔

ایک لمبا عرصہ قاضی کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ سلطان کی جانب سے شاہی تحائف کیساتھ ملک چین کی طرف روانہ کیا جاتا ہے ۔ راستے میں اسکا جہاز ٹوٹ جاتا ہے جسکی وجہ سے لوگ بھی مرجاتے ہیں اور تحائف بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً سلطان کے ڈر سے وہ بھاگ جاتا ہے ۔

یہاں ایک دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ابنِ بطوطہ روز مرہ پیش آنیوالے حالات و واقعات جس ڈائری میں قلم بند کرتا ہے وہ اس واقعے میں باقی سامان کے ساتھ ضائع ہو جاتی ہے ۔ عمر کے آخری ایام میں جو سفر نامہ ابنِ بطوطہ نے لکھا ہے وہ صرف یاداشت کے زور پر ممکن ہوا ۔

خیر واپس موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

جہاز کی تباہی کے بعد ابن بطوطہ سلطان کے غضب کے ڈر سے دہلی کی بجائے دورسرا رخ پکڑتا ہے ۔ غرض حالات و واقعات کا ایک تسلسل ہے۔ وہ کہیں اپنی ڈائری میں ہاتھی کا ذکر کرتا ہے تو کبھی صحرائی "گو" کا ۔ کبھی جنگل کا منظر بیان کرتا ہے تو کہیں بے آب و گیان بنجر زمین کا ۔ کہیں دریا ہے تو کہیں صحرا ۔ کہیں ظلم و بربریت کے مناظر ہیں تو کہیں محبت فاتح عالم ۔

المختصر یہ جوان پورے پچیس سال بعد اپنے آبائی وطن مراکو پہنچتا ہے ۔ کچھ عرصہ آرام کے بعد پھر اسکی حس سفر پھڑ پھڑاتی ہے اور یہ سوڈان جا پہنچتا ہے ۔ زندگی کے آخری ایام میں یہ اپنے اسفار کو ایک ضخیم کتاب کی شکل میں مرتب کرتا ہے جس کو بعد میں مراکو کا ایک ذمہ دار شخص ابنِ جری اختصار کے ساتھ لکھتا ہے۔

اصل سفرنامے کی جگہ یہی خلاصہ بعد میں فرانسیسیوں کے ہاتھ لگا تھا جہنوں نے ہو بہو ترجمہ کرکے اپنی زبان میں چھاپا ۔ فرانسیسی ترجمہ کا 1839 عیسوی میں انگریزی میں ترجمہ ڈاکٹر لی نامی آدمی نے کیا ۔ جو کتاب محمد حسین صاحب نے لکھی ہے انکا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ابنِ جری کے عربی نسخے سے نقل کرکے اردو میں لکھی ہے ۔ کتاب میں پبلشرز نے ابتدائی جو نوٹ راوی کے حوالے سے لکھا ہے اس پر اکتوبر 1913 کی تاریخ درج ہے ۔ واضح رہے کہ ابنِ بطوطہ کا یہ سفر نامہ چودھویں صدی عیسوی کا ہے ۔

آخری اور اہم بات جو اس کتاب میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مغربی اقوام کی تمام تر تجارت کا دارومدار ان دنوں جن زمینی اور سمندری راستوں پر تھا وہ مسلمان ممالک سے ہوکر گزرتا تھا ۔ اسکے توڑ کے لئے غیر مسلموں نے راستے کھوجنا شروع کیے تو سن 1498 میں ایک پرتگیزی "واس کو ڈیگاما" نے افریقہ کے گرد پھیر کر "کیپ" کا راستہ دریافت کیا تھا ۔

اسی طرح دوسرا شخص "کولمبس" تھا جو ملکہ ہسپانیہ کی حکم پر ایسے کی کسی راستے کی تلاش میں نکلا اور اتفاقاً امریکہ جیسا بڑا براعظم دریافت ہوگیا ۔

لکھنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن طوالت کے ڈر سے نہیں لکھ رہا مثلاً چودھویں صدی عیسوی کے بعد آگے کی چھ صدیوں میں کوئی بڑا سیاح یا منصنف تاریخ کے اوراق میں نظر نہیں آتا ۔

ختم شد

میرے پاس جوتے نہیں تھے جس کی وجہ سے میرے پاؤں ننگے تھے ۔ لیکن پھر میں نے سڑک پر ایک پاؤں سے محروم شخص کو دیکھا تو مجھے ا...
14/02/2023

میرے پاس جوتے نہیں تھے جس کی وجہ سے میرے پاؤں ننگے تھے ۔ لیکن پھر میں نے سڑک پر ایک پاؤں سے محروم شخص کو دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس سے کس قدر قیمتی ہوں ۔

From: “How to Stop Worrying & Start Living Book 📗



Me with Komail Ahmad Muaviah  (famous dry fruit brand KDS owner) yesterday night on food street Rawalpandi.
11/02/2023

Me with Komail Ahmad Muaviah (famous dry fruit brand KDS owner) yesterday night on food street Rawalpandi.

Book 📚 نامکمل زندگیAuthor ✒️ Hina SarwarFirst time in Pakistani literary history a disabled girl wrote a book 📖 . Salute...
08/02/2023

Book 📚 نامکمل زندگی
Author ✒️ Hina Sarwar

First time in Pakistani literary history a disabled girl wrote a book 📖 . Salute 🫡 & clapping 👏

08/02/2023

انسان جب کسی کام کا آغاز کرتا ہے یا کوئی نئی چیز سیکھنا چاہتا ہے تو ابتدا میں وہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے ، لیکن جب وہ اس کام کو انجام دے لیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ کام کتنا آسان تھا ۔تب اسے افسوس ہوتا ہے کہ اس نے اس کام کو کرنے میں اتنی دیر کیوں لگائی ۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کیا آپ کبھی ایسے تجربے سے گزرے ہیں ؟

1 ۔ہاں
2۔ نہیں
3۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔

Rich Dad Poor DadAuthor : Robert T. KiyosakiReview coming soon.
05/02/2023

Rich Dad Poor Dad

Author : Robert T. Kiyosaki

Review coming soon.




29/01/2023

Fresh arrived novel " The Pala"
Written by Arif Khattak
urdu version یہ پالا ہے unboxing moment

29/01/2023

Enjoying Sunday as a funday ☺️

ناول : یہ پالا ہے مصنف : عارف خٹک صفحات: 204 کچھ دن پہلے عارف خٹک صاحب نے اپنی ٹائم لائن پر پوسٹ لگائی گئی کہ انکا ناول ...
28/01/2023

ناول : یہ پالا ہے
مصنف : عارف خٹک
صفحات: 204

کچھ دن پہلے عارف خٹک صاحب نے اپنی ٹائم لائن پر پوسٹ لگائی گئی کہ انکا ناول "یہ پالا ہے" پرنٹ ہو کر آگیا ہے ۔ چونکہ اس ناول کی اشاعت سے بہت پہلے ہم اس پر ایک وڈیو بنا چکے تھے لہذا حصول کے لئے کمنٹ کر دیا ۔ جواب میں لالا انباکس وارد ہوئے اور ہمارا اڈریس مانگ لیا ۔

تین چار دن بعد کورئیر رائیڈر کی کال موصول ہوئی کہ آپ کا پارسل آیا ہے ۔ ان دنوں آن لائن کوئی چیز آرڈر نہیں کی تھی ۔ ذہن میں پہلا خیال ہی ناول کا آیا اور پھر "یہ پالا ہے" میرے ہاتھ میں تھی ۔

سرسری سی پوسٹ تو اسی وقت لگا دی تھی ۔ اب زرا اختصار کیساتھ اس ناول کا احاطہ میں اپنے الفاظ میں کرنے کی کوشش کروں گا ۔

کردار :
ناول کا مرکزی میر نامی ایک دس سالہ چرواہا ہے باقی کرداروں میں میر کی دادی ، روزینہ (میر کی بہن) ، ماسٹر رحیم داد (اسکول ٹیچر) ، گلفراز (گاؤں کا نمبر دار) ،تاج بی بی (نمبر دار کی دوسری بیوی) ، قادر ماما (ساربان) ، احمد نواز (میر کے مرحوم بھائی کا دوست) ، سخیل بی بی (احمد نواز کی ماں) ، ملا عبدالقدوس (امام مسجد) ، وسیم خان (ایک ریٹائرڈ فوجی کا صحافی بیٹا) شامل ہیں ۔

ابواب
ناول پانچ حصوں بالترتیب پری ' کنگن ' بیوپار ' جنم جلی ' اور مذہب اور خدا پر مشتمل ہے ۔

پری :
میر اپنے بھائی کی ناگہانی موت کے بعد اسکی جگہ چرواہا بنتا ہے ، وہ گاؤں والوں کے مال و مویشی قریبی پہاڑوں پر چراتا ہے بدلے میں گاؤں والے اسکے گھرانے کو دال سالن کی شکل میں معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ گاؤں کے بچے اسکے میلے کپڑوں اور پھٹی پرانی جرسی کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں لیکن وہ اپنے کام میں مگن رہتا ہے ۔

ماں باپ اسکے بہت سخت گیر ہیں ۔ گھر میں اسکی صرف دادی جان اور بارہ سالہ بہن روزینہ سے بنتی ہے ۔ روزینہ کام پر جاتے وقت میر کے لئے رومال میں سوکھی روٹی پیاز اور ٹماٹر باندھ کر دیتی ہے تو دادی جان سے وہ دل کی باتیں شئیر کرتا ہے ۔ معصوم معصوم سوالات پوچھتا ہے ۔ دادی روز رات کو اسکی کمر سہلاتی ہے اور اسکا دل بہلاتی ہے ۔

ایک رات وہ دادی سے پری اور پرستان کی باتیں کرتا ہے ۔ دادی اسے دادا کی پرانی بانسری نکال کر دیتی ہے کہ اسے سیکھ کر وہ پہاڑوں پر بجائے تو پری حاضر ہو جائے گی ۔ وہ بانسری سیکھنے کے لئے ایک شخص کی بکریاں مفت چراتا ہے اور مہارت حاصل کر لیتا ہے۔

ایک دن اسے پہاڑوں میں خوبصورت نین و نقش والی ایک لڑکی نظر آتی ہے جس پر اسے پری کا گمان ہوتا ہے ، گاؤں کی وہ لڑکی دراصل چھپ کر وہاں اپنے عاشق سے ملنے آتی ہے ۔ چرواہا اس لڑکی سے کہتا ہے کہ مجھے تم اپنے ساتھ پرستان لے چلو ۔ مگر لڑکی اسے آج کل پر ٹالتی رہتی ہے ۔ ایک دن اچانک وہ لڑکی اپنے عاشق کیساتھ پکڑی جاتی ہے اور وہیں پہاڑ پر گولیوں سے بھون دی جاتی ہے ۔ یہ منظر میر کے ہوش اڑا دیتا ہے ۔

تاثرات:
یہاں ناول نگار نے جہاں چراوہے کی معصومیت اور دن بھر کی مصروفیات کو خوبصورتی سے قلم کے ذریعے بیان کیا ہے وہیں قبائلی معاشرت میں غیرت کے نام پر روا رکھے جانے والے ایک پہلو کو نمایاں کیا ۔

کنگن :
چرواہا دادی اور بہن روزینہ کے علاوہ گاؤں کی جس شخصیت سے انسیت رکھتا ہے اسمیں گاؤں کے نمبردار گلفراز کی دوسری بیوی تاج بی بی شامل ہے ۔ اسکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بازار حسن سے خرید کر لائی گئی ہے۔ اسکے ساتھ نمبر دار اور اسکے گھرانے کا برتاؤ بہت ظالمانہ ہے ۔ گاؤں کے سبھی لوگ بھی اس سے کتراتے ہیں کوئی اس سے بات نہیں کرتا ہے ۔
چرواہا تاج بی بی کی بکریاں بھی چرانے لیجایا کرتا ہے ۔ تاج بی بی گاؤں کے لوگوں کی نسبت چرواہے سے پیار سے پیش آتی ہے اور گاہے بگاہے اسے پیسے بھی دیتی ہے ۔ جواب میں چرواہا بھی پہاڑ سے شہد اور سبزیاں وغیرہ اسکے لئے سپشل لیکر آتا ہے ۔
تاج بی بی کے ہاتھ میں ایک خوبصورت کنگن ہوتا ہے جس پر سبز اور سرخ موتی جڑے ہوتے ہیں ۔ معصوم چرواہے کا دل اس کنگن پر آیا ہوتا ہے ۔ وہ آتے جاتے بہانے بہانے سے اسے چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسکے خیالوں میں ہمیشہ یہ کنگن رہتا ہے ۔
ایک دن وہ پہاڑی سے واپسی پر وہ نمبر دار کے گھر پہنچتا ہے تو تاج بی بی بکری لینے دروازے پر نہیں آتی تو چرواہا گھر میں داخل ہو جاتا ہے ۔ وہاں وہ عجیب منظر دیکھتا ہے کہ نمبردار کا بیٹا زمین پر گری تاج بی بی کے سینے پر سوار اسے مار رہا ہے۔
یہ منظر اسے دکھی کر دیتا ہے وہ تاج بی بی کو گھر سے بھاگنے کی صلاح دیتا ہے اور معصومیت سے کہتا ہے کہ بھاگنے سے پہلے یہ خوبصورت کنگن مجھے دیکر جانا ۔ وہ اس سے وعدہ کرتی ہے کہ جانے سے پہلے اپنا کنگن وہ اسے دیکر ہی جائے گی۔
ایک دن گاؤں میں چرچا ہوتا ہے کہ تاج بی بی گھر سے بھاگ گئی ہے ۔ سب لوگ بندوقیں اٹھا کر اسکی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ گاؤں کے نمبردار کی بیوی غائب ہوئی ہے پورے گاؤں کی عزت کا سوال ہے۔
چرواہا ایک طرف خوش ہے کہ تاج بی بی کو ظلم سے رہائی ملی تو دوسری جانب دکھی بھی ہے کہ بی بی اسے کنگن دیکر نہیں گئی ۔ اک دن بارش کے بعد ریت پر اس کا ہاتھ کسی شے سے ٹکراتا ہے وہ اسے ٹٹولتا ہے تو وہ کنگن نکل آتا ہے مگر تاج بی بی کے مردہ ہاتھ سمیت ۔

تاثرات:
پہلے پارٹ کی طرح اس حصے کا آغاز بھی بہت حسین ہے مگر اختتام بہت رنجیدہ کر دینے والا ہے ۔ یہاں ایک بدنام عورت کی لاچارگی اور بیچارگی کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس باکمال انداز سے یہ سب پیش کیا گیا ہے کہ قاری داد دیے بنا رہ نہیں پاتا ۔

بیوپار :
چرواہا کی بہن روزینہ کے کندھوں پر بھی چھوٹی سی عمر میں بہت بار ہے ۔ گھر کے کام کاج کیساتھ ساتھ وہ سخت گیر ماں باپ کی مار اور ڈانٹ ڈپٹ وہ بھی تواتر سے سہتی رہتی ہے ۔
ایک شب انکی حیثیت کے ہم پلہ ایک شخص قادر ماما اپنی بیوی سمیت انکے گھر آتا ہے اور روزینہ کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلئے مانگ لیتے ہیں ۔ ستر ہزار روپے کے حوض یہ رشتہ طے پاتا ہے ۔ روزینہ اور چرواہا اس رشتے پر سخت رنجیدہ ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے ۔کچھ دن روزینہ روتی ہے مگر جب قادر ماما کی طرف سے روزینہ کیلئے نئی چپلیں اور کپڑے آتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتی ہے ۔

کچھ عرصہ بعد بارہ سالہ روزینہ بیاہ دی جاتی ہے ۔ وہ شادی والے دن بہت روتی پیٹتی ہے ۔ یہ منظر بہت دل دہلا دینے والا ہے ۔ گاؤں کی عورتوں کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر ہیں مگر روزینہ کا باپ بیٹی کو زبردستی قادر ماما کے حوالے کر دیتا ہے ۔
چرواہے کو اپنے ماں باپ دشمن لگنے لگتے ہیں کہ پیسے لیکر بارہ سالہ بہن ساربان خاندان کے حوالے کر دی ۔ وہ یہ باتیں گاؤں کے اسکول ماسٹر سے شئیر کرتا ہے وہ اسکی دلجوئی کرتا ہے لیکن یہ جان کر دکھی ہو جاتا ہے کہ محض بارہ سالہ معصوم بیاہ دی گئی ؟
بعد میں روزینہ اپنے میاں کیساتھ اپنے گھر آتی ہے جہاں وہ غم کی پوٹلی دکھائی دیتی ہے ۔ بھائی یہ سب دیکھ کر کڑتا ہے لیکن اسکے ماں باپ داماد کے آگے بچھے رہتے ہیں ۔

کچھ عرصہ بعد ایک مخصوص موسم میں چرواہا چار ماہ کیلئے پہاڑوں پر رہنے کے چلا جاتا ہے ۔ وہاں اسے پہاڑوں پر اپنی بہن میاں کیساتھ اونٹ لاتے ہوئے ایسے حالت میں ملتی ہیں کہ کلیجہ کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ (یہاں میں اپنے آنسو بہنے سے روک نہیں پایا۔)
المختصر روزینہ بچہ جنم دیتے ہوئے چل بستی ہے ۔

تاثرات:
اس حصے میں پشتون معاشرے میں پائی جانے والی ایک اور رسم کم عمری کی شادی اور بیٹی دینے کے عوض ولور کے نام سے لی جانے والی رقم پر لب کشائی کی گئی ہے ۔
یہاں ناول نگار کا قلم اپنی معراج پر ہے ۔ پل پل ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ لفظ نہیں تیز دھار چھریاں ہیں جو اسکے کلیجے پر پھیری جا رہی ہے
یہ رسوم تقریباً ختم ہوچکی ہے مگر اب بھی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں یہ رواج چل رہا ہے

جنم جلی

چرواہا ناصر (میر کا بڑا بھائی) اپنے دوست احمد نواز کے گاؤں چھوڑنے پر رنجیدہ ہے ۔ وہ بے چین ہوکر بار بار چھت پر چڑھ کر انکے گھر کیطرف دیکھتا ہے جہاں انکے اونٹوں پر سامان لدا جا رہا ہے ۔ احمد نواز کے والد کی زمین پر نمبر دار کی نیت خراب تھی ۔ کافی عرصہ سے وہ اسے ہتھیانے کے درپے تھا لیکن اس کا والد کمزور ہونے کے باوجود انکی راہ میں مزاحم رہا ۔ نتیجتاً اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔

سخیل بی بی جانتی ہے کہ اگر گاؤں میں رہی تو ظالم اسکے پانچ معصوم بچوں کو بھی مار دیں گے ۔ اس لئے وہ یہاں سے دور پہاڑوں کا رخ کر رہی ہے ۔گاؤں والے ڈر کے مارے وداع کرنے بھی نہیں جاتے ۔ البتہ انکا قافلہ جاتے جاتے ناصر کے گھر کے آگے رک جاتا ہے ۔ احمد نواز اپنے لنگوٹیا یار ناصر سے مل کر جانا چاہتا ہے مگر وہ گھر پر نہیں ملتا ۔ ناصر اسکے لئے اپنی بانسری دیکر چلا جاتا ہے ۔

ناصر پاؤں پھسلنے کے سبب پہاڑ سے گر کر فوت ہو جاتا ہے تو احمد نواز چھپکے چھپکے اسکی قبر پر پھول بھی رکھنے آتا ہے ۔ ایک دن چرواہے میر کے ریوڑ میں ایک بکری کم ہوتی ہے ۔ وہ اسے شب کی تاریکی میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا قبرستان جا نکلتا ہے جہاں اسکی ملاقات ناصر سے بھائی کی قبر پہ ہوتی ہے ۔

ایک دن میر گولیوں کی ترتراہٹ سنتا ہے اور تھوڑی دیر بعد مسجد کے سپیکر سے صدا بلند ہوتی ہے کہ سخیل بی بی کا بیٹا احمد نواز اللّٰہ کے حضور پیش ہوگیا ہے ۔ احمد نواز کی موت کو لیکر میر انتہائی دکھی ہوتا ہے ۔ یہ زخم مندمل نہیں ہوا ہوتا کہ وہ پہاڑ پر ایک ساتھ کے چرواہے کو بھائی کے بدلے میں قتل ہوتا دیکھ لیتا ہے وہ دادی جان سے اس بابت سوال کرتا ہے کہ گہنگار کو چھوڑ کر بدلے میں معصوموں کو کیوں مارا جاتا ہے ؟

دادی اسے مرد ذات کا اندھا قانون بتاتی ہے کہ یہاں زمین کے لئے بھائی بھائی کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو پیسوں کے لیے بیٹیوں کو اپنی عمر سے بڑے شخص سے بیاہ دیتا ہے عورت بیچاری اس سماج میں بالکل بے بس ہے ۔

تاثرات
یہاں پشتون سماج کی ایک اور رسم "بدل" یعنی انجام سے بے پروا انتقام پر بات کی گئی کہ کیسے اس معاشرے میں بدلہ لینے کے لیے قتل و غارتگری ہوتی ہے ۔ یہ واحد رسم ہے جو پشتون مزاج میں خون کی طرح گردش کر رہی ہے وہ اپنا بدلہ لینا کبھی نہیں بھولتا ۔ یہاں وہ بہت زیادتی کرتا ہے یعنی قتل باپ کرے تو بھائی کو شوٹ کر دیتے ہیں ۔ بیٹا کرے تو بھائی کو مار دیتے ہیں ۔

مذہب اور خدا
دو خاندانوں کے مابین چل رہی دشمنی کے تصفیے کیلئے نمبردار کے حجرے میں جرگہ منعقد ہوتا ہے جسمیں امام مسجد وعظ فرماتا ہے کہ معافی بہت بڑا وصف ہے اس کا اجر بہت ہے۔ اسی طرح وہ نمبردار کا بھی قصیدہ خواں ہوتا ہے ۔ بعد ازاں نمبردار دونوں دشمنوں کو بغلگیر کراتا ہے اور فیصلہ دیتا ہے کہ باہمی محبت کے پروان کیلئے آپس میں لڑکے لڑکیوں کا نکاح بھی کرایا جائے۔ جسکی پولیس حوالدار سمیت تمام جرگہ تائید و توثیق کرتا ہے۔ یہاں بھی وہی ظلم روا رکھا جاتا ہے کہ متحارب گروہوں کے جوڑ نہ کھاتے رشتے بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ عمل چرواہا کیلئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔
اسی دوران پڑوس میں امریکی حملوں کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ گاؤں کی مسجد میں اعلانات شروع ہوتے ہیں ۔ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں ۔ لہو کو گرمانے والی نظمیں گونجنے لگتی ہیں ۔ جوان جوق در جوق پڑوس کا رخ کرتے ہیں ۔ بڑا سا مدرسہ بن جاتا ہے اور عبد القدوس بڑی بڑی گاڑیوں میں نظر آتا ہے۔
نمبر دار کی حیثیت کم ہوجاتی ہے اور غیر مقامی لوگ بڑی تعداد میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسے میں گاؤں کے لوگ بہت پریشان ہیں ۔ ماسٹر رحیم اور ریٹائرڈ آرمی صوبیدار بھی فکر مند رہتا ہے کیونکہ اسکی ایک بیٹی گاؤں میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کر رہی ہوتی ہے جبکہ ایک بیٹا باہر صحافت سے وابستہ ہے ۔ وہ عالمی جرائد میں اس حوالے سے چشم کُشا رپورٹس لکھتا ہے
اس دوران پڑوس میں اس علاقے کے نوجوان دھرے جاتے ہیں جو اسکی رپورٹس کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہیں یوں عالمی برادری حرکت میں اتی ہے ۔ سرکار پر دباؤ بڑھتا ہے تو علاقے میں آپریشن لانچ ہو جاتا ہے ۔ عبد القدوس سمیت بڑے بڑے لوگ دھرے جاتے ہیں ۔ گاؤں سے اسلحہ اکھٹا کر لیا جاتا ہے جسمیں چرواہے میر کے والد کی بندوق بھی شامل ہوتی ہے۔

تاثرات
اس حصے میں بدنام زمانہ رسم "سورہ" جسمیں دو مخالفوں کے درمیان صلح کیلئے عورت ذات کی قربانی دی جاتی ہے یعنی قتل کا حساب برابر کرنے کیلئے آپس میں رشتے داری جوڑی جاتی ہے پر بات کی گئی ہے اسکے علاوہ شدت پسندی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے ۔

ختم شد

"یہ پالا ہے"مصنف اور کالم نگار عارف خٹک صاحب کا نیا شائع شدہ ناول ہے جو "پالا" نامی ایک پہاڑی سلسلے میں واقع گاؤں کے چرو...
24/01/2023

"یہ پالا ہے"

مصنف اور کالم نگار عارف خٹک صاحب کا نیا شائع شدہ ناول ہے جو "پالا" نامی ایک پہاڑی سلسلے میں واقع گاؤں کے چرواہے اور اس سے منسلک کر داروں کے گرد گھومتا ہے

کتاب کا سرورق سادہ مگر جاذب نظر ہے اور ناول کی مناسبت سے بر محل ہے جسمیں معصوم چرواہا ایک پہاڑی ڈھلوان پر شام کے گہرے ہوتے سایوں میں اپنی بھیڑوں کیساتھ دکھائی دیتا ہے ۔

سرورق کے پہلے صفحے کی پشت پر ناول نگار کا عکس انکے مختصر تعارف کیساتھ موجود ہے ۔ طباعت نہایت عمدہ اور معیاری سفید کاغذ پر کی گئی ہے ۔

انتساب ناول نگار نے اپنے مرحوم والد گرامی، پالا ، منزلیے اور درویش خیل نامی گاؤں کے بچوں (جو اکیسویں صدی میں بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں) اور ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے نام کیا ہے جو آج بھی مرد ذات کے صادر کردہ فیصلوں پر سر جھکا کر عمل کرتی ہیں ۔

کتاب پانچ ابواب بنام پری ، کنگن ، بیوپار ، جنم جلی اور مذہب اور خدا پر مشتمل ہے ۔ ٹوٹل 204 صفحات ہیں ۔ ناول کی پشت پر ناول اور ناول نگار سے متعلق ڈراما نگار و قلمکار فصیح باری خان صاحب کے تاثرات جلی حروف سے پرنٹڈ ہیں ۔

ایک اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب سے حاصل ہونے والا منافع ایک روپیہ ماہانہ فیس والے "باب العلم اسکول" ہری پور کے بچوں کے لئے وقف کیا گیا ہے ۔ اس اقدام کو جتنا سراہا جائے ، جتنی تحسین کی جائے کم ہے 👍

ابتک کے لیے اتنا ہی
ملتے مکمل ریویو کے ساتھ جلد

22/01/2023

story of pakistan khapay (پاکستان کھپے)

🄰LC🄷E🄼🄸🅂TWhen you want something, All the universe conspiracies, In helping you to achieve it.Quote from famous book "Th...
21/01/2023

🄰LC🄷E🄼🄸🅂T

When you want something,
All the universe conspiracies,
In helping you to achieve it.

Quote from famous book "The Alchemist"








Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Naik Muhammad Safi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share