اگاھی

اگاھی Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from اگاھی, Digital creator, .

02/03/2024

*جنگ یمامہ*

مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی جہاں 1200 صحابہ کرامؓ کی شہادت ہوئی
اور اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا۔
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے: لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے،اہل بدر ہوں
یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو"
بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے:
مدینہ میں کوئی نہ رہے حتٰی کہ جنگل کے
درندے آئیں اور ابوبکرؓ کو گھسیٹ کر لے جائیں"

صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ اگر علی المرتضیؓ
سیدنا صدیق اکبرؓ کو نہ روکتے تو وہ
خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔

13 ہزار کے مقابل بنوحنفیہ کے 70000 جنگجو
اسلحہ سے لیس کھڑے تھے۔
یہ وہی جنگ تھی جس کے متعلق اہل مدینہ کہتے تھے: "بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ کبھی پہلے لڑی
نہ کبھی بعد میں لڑی"
اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں بدر احد
خندق خیبر موتہ وغیرہ صرف 259
صحابہ کرام شہید ھویے تھے۔ ختم نبوت ﷺ کے دفاع میں 1200صحابہؓ کٹے جسموں کے
ساتھ مقتل میں پڑے تھے۔

اے قوم! تمہیں پھر بھی ختم_نبوتﷺ کی
اہمیت معلوم نہ ہوئی۔

انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس ہاں وہی
جس کی بہادری کے قصے عرب و عجم
میں مشہور تھے
اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا:
اےالله ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں
اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں"
چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب
وہ اکیلا ہزاروں کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم
پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیر
و سناں کا زخم نہ لگا ہو۔

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا لاڈلا بھائی۔۔۔۔ ہاں وہی زید بن خطابؓ جو اسلام لانے میں
صف اول میں شامل تھے انہوں نے مسلمانوں
میں آخری خطبہ دیا:
والله ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے
بات نہ کرونگا جب تک کہ انہیں شکست
نہ دے دوں یا شہید نہ کر دیا جاؤں"

اے قوم! تمہیں پھر بھی ختم نبوتﷺ کی
اہمیت معلوم نہ ہوئی۔

وہ بنو حنفیہ کا باغ "حدیقۃ الرحمان" تھا جس میں اتنا خون بہا کہ اسے "حدیقۃ الموت" کہا جانے لگا۔ وہ ایسا باغ تھا جس کی
دیواریں مثل قلعہ کے تھیں
کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا
لشکر ہو اور براء بن مالکؓ کہے:
*"لوگو! اب ایک ہی راستہ ہے تم مجھے
اٹھا کر اس قلعے میں پھینک دو میں
تمہارے لئے دروازہ کھولونگا"*
اس نے قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر
منکرین ختم نبوت کے اس لشکر جرار
کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں
چھلانگ لگا دی
قیامت تک جو بھی بہادری کا دعوی کرے گا
یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا!!!
ایک اکیلا شخص ہزاروں سے لڑ رہا تھا
ہاں اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور
پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوتؐ
کو کاٹ کر رکھ دیا

*اے قوم! کاش کہ تم جان لیتے کہ
تمہارے اسلاف نے اپنی جانیں دے کر
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی
ختم نبوت کا دفاع کیا ہے۔۔۔۔

کاش تمہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم
کے ان صحابہؓ کے جذبوں کا علم ہوتا جو ایک
مٹھی بھر جماعت کے ساتھ حد نگاہ تک
پھیلے لشکر سے ٹکرا گئے۔۔۔۔

قادیانیت ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں نمودار ہے
پس ہر صاحب ایمان کے ذمے ہے کہ وہ
اس کے سدباب کی کوششوں میں شریک ہو.
اے مسلمانوں، تحفظ ختم نبوتؓ کے جہاد میں
اپنا اپنا کردار ادا کرو تا کہ قیامت کے دن خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم کی شفاعت نصیب ہو. آخر میں میری آپ سب سے التماس ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس داستان عشق وقربانی کو تمام مسلمانوں
کے سامنے رکھنے کی غرض سے اس تحریر کو
آگے منتقل کرنے کےلئے اپنا اپنا کردار ادا کیجئے۔
انشااللہ تعالی
حضور ﷺ
خاتم النبین
خاتم المرسلین

کی عزت حرمت اور أبرو کی خاطر جاگتے رھیں کیونکہ
اسی میں نجات ھے

کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ھم تیرے ھیں

یہ جہاں چیز ھے کیا لوح و قلم تیرے ھیں.

08/02/2024

کارلافے ٹکر ایک Prostitutes کے یہاں پیدا ہوئی اس کی ولدیت کے خانے میں اس کی ماں ہی کا نام لکھا گیا- ماں کی گوناگوں " مصروفیات " کی باعث ٹکر کی تربیت کا مناسب بندوبست نہ ہوسکا لہذا گندے ماحول اور عدم توجہ کے باعث 8 برس کی عمر میں اس نے سگریٹ نوشی شروع کر دی اور بمشکل دس برس کی عمر میں اس نے چرس پینا بھی شروع کر دی- 13 برس کی عمر میں اس کی ماں اسے پہلی بار "ساتھ" لے کر "باہر" نکلی جس کے بعد وہ مسلسل 11برس تک گناہ کی گھاٹیوں میں اترتی رہی اور ذلت کے صحراؤں میں ننگے پیر چلتی رہی-

پھر 1983ء کی وہ رات آگئی جب اس نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر ایک جوڑے سے موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش میں جوڑے کو ہلاک کر دیا اور یہ دونوں فرار ہو گئے لیکن چند ہی ہفتوں میں پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا- مقدمہ چلا اور ٹیکساس کی عدالت نے دونوں کو سزائے موت سنا دی، جس کے بعد اپیلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا- اسی دوران اس کا بوائے فرینڈ بیمار ہوکر جیل میں انتقال کر گیا جس کے بعد وہ تنہا رہ گئی-
جیل حکام کو اس حادثے کا کوئی علم نہیں جس نے اس کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا، وہ لڑکی جو بات بات پر جیل انتظامیہ کو گندی گالیاں دیا کرتی تھی وہ اچانک اپنا ذیادہ تر وقت بائبل کے مطالعے میں گزارنے لگی، وہ نشئی عورت جو ہر وقت سگریٹ اور شراب کا مطالبہ کرتی رہتی تھی اب ذیادہ تر روزے سے رہنے لگی اور اب اللہ اور مسیح کے سوا کسی چیز کا نام نہیں لیتی تھی- وہ ایک Prostitutes کی بیٹی اور قاتلہ کی جگہ مبلغہ بن گئی، ایک ایسی مبلغہ جس کے ایک ایک لفظ میں تاثیر تھی، پھر اس نے جیل ہی میں شادی کرلی اور تبلیغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا-

اس کی بدلی ہوئی شخصیت کی مہک جب جیل سے باہر پہنچی تو اخبارات کے رپورٹر جیل پر ٹوٹ پڑے اور امریکہ کی معاشرتی زندگی میں بھونچال آگیا، یہاں تک کہ پوپ جان پال نے بھی زندگی میں پہلی بار عدالت میں کسی قاتلہ کی سزا معاف کرنے کی درخواست کر دی-

سزائےموت سے پندرہ روز قبل جب لیری کنگ جیل میں ٹکر کا انٹرویو کرنے گیا تو دنیا نے سی این این پر ایک مطمئن اور مسرور چہرہ دیکھا جو پورے اطمینان سے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا- لیری نے پوچھا " تمھیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا"- ٹکر نے مسکرا کر جواب دیا " نہیں! اب مجھے صرف اور صرف موت کا انتظار ہے، میں جلد اپنے رب سے ملنا چاہتی ہوں، اپنی کھلی آنکھوں سے اس ہستی کا دیدار کرنا چاہتی ہوں جس نے میری ساری شخصیت ہی بدل دی"-

انٹرویو نشر ہونے کے دوسرے روز پورے امریکہ نے کہا: " نہیں یہ وہ ٹکر نہیں ہے جس نے دو معصوم شہریوں کو قتل کیا تھا، یہ تو ایک فرشتہ ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اور فرشتوں کو سزائے موت دینا انصاف نہیں ظلم ہے"- رحم کی اپیل " ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول " کے سامنے پیش ہوئی- 18 رکنی بورڈ نے کیس سننے کی تاریخ دی تو 2 ممبروں نے چھٹی کی درخواست دیدی جبکہ باقی 16 ممبران نے سزا معاف کرنے سے انکار کر دیا- بورڈ کا فیصلہ سن کر عوام سڑکوں پر آگئے اور ٹکر کی درخواست لےکر ٹیکساس کے گورنر " جارج بش " کے پاس پہنچ گئے- امریکہ کے معزز ترین پادری جیسی جیکسن نے بھی ٹکر کی حمایت کر دی- گورنر نے درخواست سنی، جیسی جیکسن اور ہجوم سے اظہار ہمدردی کیا، لیکن آخر میں یہ کہہ کر معذرت کرلی: " مجھے قانون پر عملدرآمد کرانے کے لئے گورنر بنایا گیا ہے، مجرموں کو معاف کرنے کے لئے نہیں، اگر یہ جرم فرشتے سے بھی سرزد ہوتا تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا"-

موت سے 2 روز قبل جب ٹکر کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو چیف جسٹس نے یہ فقرے لکھ کر درخواست واپس کر دی: " اگر آج پوری دنیا کہے کہ یہ عورت کارلافے ٹکر نہیں، ایک مقدس ہستی ہے تو بھی امریکن قانون میں اس کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے کیونکہ جس عورت نے قتل کرتے ہوئے دو بے گناہ شہریوں کو کوئی رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی منصف رعایت نہیں دے سکتا، ہم خدا سے پہلے ان دو لاشوں کے سامنے جوابدہ ہیں، جنہیں اس عورت نے ناحق مار دیا"-

3 فروری 1998ء کی صبح پونے چھ بجے ٹیکساس کی ایک جیل میں 38 سالہ " کارلافے ٹکر " کو زہریلا انجیکشن لگا کر سزائےموت دیدی گئی-

4 فروری کو جب سی این این سے کارلافے ٹکر کی موت کی خبر نشر ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ضمیر سے پوچھا کہ وہ کیا معجزہ ہے جو امریکہ جیسے سڑے ہوئے بیمار معاشرے کو زندہ رکھے ہوئے ہے تو حافظے میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول زریں چمکنے لگا: " معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں"-
جو عدالتیں عوامی احتجاج یا حکمرانوں سے متاثر ہو کر اپنے فیصلے بدل دیں، تو وہ عدالتیں نہیں بادبانی کشتیاں ہوتی ہیں جن کی منزلوں کا تعین ملاح نہیں ہوائیں کرتی ہیں-
_____________منقول

جب جوان ہُوا ہو گا تو پہلے غریب ماں کے لئے جان مارتا رہا ہوگا، پھربہن بھائیوں کے لئے درد برداشت کرتا رہا ہوگا، پھر جوانی...
19/01/2024

جب جوان ہُوا ہو گا تو پہلے غریب ماں کے لئے جان مارتا رہا ہوگا، پھربہن بھائیوں کے لئے درد برداشت کرتا رہا ہوگا، پھر جوانی بھر بیوی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زمانے کے ستم برداشت کرتا رہا ہوگا اور اب بچوں کے لیئے اپنی ہڈیاں گال رہا ھے بہن بھائی اب کہتے ھوں گے اس نے ہمارے لئے کیا ہی کیاہے؟ بیوی کہتی ہوگی میری تو قسمت ہی خراب تھی جو تجھ سے شادی ہوگئی اور بچے کہتے ہوں گے ابا جی آپ کوئی ڈھنگ کا کام کر لیتے تو آج ہم بھی مزے میں ہوتے۰۰۰۰۰! 💔

18/01/2024

ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے ہیں کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔
بہر حال
سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ شخص وہیں موجود تھا۔۔
سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔
آج سے تم میرے مشیر خاص ہو،
دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟
سفید پوش نے کہا
اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، اور بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔
جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔

میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔

کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟
بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔
سچ کا راستہ دشوار ہوتا ہے اس میں بے شمار تکلیفیں ہونگی، آزمائشیں، مصیبتیں سب ہونگی مگر گناہ کا راستہ ہمیشہ ہموار ہوگا۔۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین

22/09/2023
خدا کرے تمھارا بھی کوئی یوسف ہو خدا کرے تجھے اسکی قمیض بھی نہ ملے
19/09/2023

خدا کرے تمھارا بھی کوئی یوسف ہو
خدا کرے تجھے اسکی قمیض بھی نہ ملے

میری وفات کے بعد... ایک بار ضرور ضرور پڑھیے۔بہت عرصہ پہلے دل کو چُھو لینے والی یہ تحریر پڑھی تھی پھر لاکھ ڈھونڈنے پر نا ...
19/09/2023

میری وفات کے بعد...
ایک بار ضرور ضرور پڑھیے۔

بہت عرصہ پہلے دل کو چُھو لینے والی یہ تحریر پڑھی تھی پھر لاکھ ڈھونڈنے پر نا ملی۔۔۔ اب جو ملی تو اس "فن پارے" کو آپ کی نذر کر رہا ہوں۔
ہو سکتا ہے آپ پہلے پڑھ چکے ہوں لیکن حقیقت سے بھرپور یہ تحریر بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔۔۔

ایک نامعلوم ڈائری سے۔

میری وفات کے بعد۔۔۔

موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔

اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔

دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔

لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔
رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی.
میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔

عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔

بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:
” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“
مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور........... میری زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔

مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسے ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جا پہنچا۔
بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی. یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔

لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی تھی۔ کراچی سے چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔
بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کر دی گئی۔

شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی لوگ آ گئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی موجود تھے۔

لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر
آ گئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔
پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا۔

یہ کیفیت ختم ہوئی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہو چکے ہیں تمہیں فوت ہوئے ۔
پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی:
” ہم تمہیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں دنیا میں کسی کو نظر نہیں آؤ گے. گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو،
پھر اگر تم نے کہا تو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آ جانا “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور ہاں کر دی۔

پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔

اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ماڈل کی خریدی تھی دھچکا سا لگا۔
گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟
بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں تھیں تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟

دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟
کتابیں تھیں نہ الماریاں
رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔

مجھے فارسی کی قیمتی ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا.

داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا. سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی.

میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا؟
اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے سُوت سے بُنے ہوئے چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے وہ غائب تھے۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہو گئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟
ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟
میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں؟
مگر... میں بول سکتا تھا نہ وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو اس طویل گفتگو سے میں سمجھا یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے بضد تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی.

میری بیوی کو میری یہ نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔
گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہو گی۔

اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔
یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔
میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے خریدی تھی. اچھا... تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے.
میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھتا رہا۔

ایک ایک بیٹے بیٹی کے گھر جا کر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا وہ بھی سرسری سا۔
ہاں...
زینب، میری نواسی اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی:
” اماں... یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھےنا جب میں چھوٹی سی تھی اسے پھینکنا نہیں“
ماں نے جواب میں کہا:
” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کردینا“

میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔
اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں بھی الماری سے ہٹا دی تھیں۔

ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔
میری قبر کا برا حال تھا. گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔

ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زرہ بھر بھی نہیں.
بیوی یاد کر لیتی تھی تاہم بچے پوتے نواسے پوتیاں سب مجھے بھول چکے تھے ۔

ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔

دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر. پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی تھیں اور آئے جا رہی تھیں.

ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آ چکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔

فرض کیجئے،
میں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں بھی ویلکم نہ کہا جاتا. بچے پریشان ہو جاتے ، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں میری گنجائش کہیں نہ تھی.

ہو سکتا تھا کہ بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آ کر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مکان بک چکا،
میں تنہا تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے.
دوست تھوڑے بہت باقی بچے تھے۔
وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل طے کر رہے تھے. میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔
جدید بستی میں پرانے مقبرے کی طرح.

میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں.
فرشتہ مسکرایا۔ اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا “
-------------
ہمارے سبھی کے دماغوں میں بھی یہی سوچ ہے کہ یہ گھر، یہ کاروبار، یہ نوکری، یہ دنیا کی، گھر کی، بچوں کی ضرورتیں اور سارے کام کاج میری وجہ سے ہی جاری ہیں.اگر میں نہ رہا تو دنیا کی گردش رک جائے گی۔۔۔

مگر صرف ایک پل کو صرف ایک پل کو سوچئے ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ دنیا تو ہمارے سے پہلے جانے والوں کے بغیر بھی چل رہی ہے اور ہمارے جانے کے بعد بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔

اک خیال ہے، سراب ہے، وہم ہے، گماں ہے اور بس کچھ بھی نہیں۔۔۔کچھ بھی نہیں۔
سلامت اور آباد رہئے۔
کاپیڈ

شمش آباد مری روڈ پر برج النور پلازہ پر چھابہ کنکریٹ کی خفیہ دیواروں میں سے  ڈیجٹل سیف برآمد پرائیویٹ بنک بنایا ھوا تھا  ...
17/09/2023

شمش آباد مری روڈ پر برج النور پلازہ پر چھابہ کنکریٹ کی خفیہ دیواروں میں سے ڈیجٹل سیف برآمد پرائیویٹ بنک بنایا ھوا تھا ایف آئی اے چھاپہ کے دوران اربوں مالیت کے نوٹ اور غیر ملکی کرنسی پکڑی گئی ہے جو مبینہ طور پر ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی اور اخبار کے مالک کی ملکیت بتائے جاتے ہیں۔

افسوس صد افسوس اشاھد ہے ضمیر اشخاص کے لئے ایک تصویر سے زیادہ اس کی وقعت نہیں۔  یہ ایک ناکام ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا...
05/09/2023

افسوس صد افسوس ا

شاھد ہے ضمیر اشخاص کے لئے ایک تصویر سے زیادہ اس کی وقعت نہیں۔
یہ ایک ناکام ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔جس میں ادارے مظلوم کے حقوق کا محافظ بننے کی بجائے اپنے اصل و رسوخ اور اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کو ملک و قوم سے زیادہ ترجیح دیتے رھے ۔شاھد ان کے اذھان میں یہ بات ذہن نشین ھو چکی ھے ۔ادارے ملک و قوم سے بالاترھیں۔لیکن اگر ملک وقوم کی بقا خطرے میں پڑ گئی تو ادارے کیسے باقی رہ سکتے ہیں ۔میرے رب العالمین کا نظام ہے جب ظلم وجبر حد سے زیادہ بڑھ جاتا ھے تو مٹ جاتا ھے ۔ارباب ختیاد سے التماس ھے وہ وقت آنے سے پہلے اپنی تصحیح کر لیں۔
(سوات: خلع کیس دائر کرنے پر شوہر نے بچے کے سامنے بیوی کو قتل کردیا)

افغان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم اور مہنگائی کم ہوئی ہے، ورلڈبینک رپورٹ.افغان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابلے ...
05/09/2023

افغان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم اور مہنگائی کم ہوئی ہے، ورلڈبینک رپورٹ.

افغان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم اور مہنگائی کم ہوئی ہے، ورلڈبینک رپورٹ
ویب ڈیسک 03 ستمبر ، 2023
افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی: ورلڈ بینک— فوٹو: فائل
افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی: ورلڈ بینک— فوٹو: فائل
ورلڈ بینک نے افغانستان کے معاشی حالات پر رپورٹ جاری کردی۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم ہوئی ہے اور افغانستان میں گزشتہ سال کے مقابلے مہنگائی 9 فیصد سے زائدکم ہوئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی اور مہنگائی میں کمی کی وجہ طلب میں کمی، رسد میں اضافہ ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں مہنگائی میں کمی کی دوسری وجہ کرنسی ایکسچینج ریٹ مستحکم ہونا ہے، افغان کرنسی ڈالر کے مقابلے میں پچھلے سال کی نسبت مزید مستحکم ہوئی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغان کرنسی کے استحکام کی ایک وجہ اندرون ملک خرید و فروخت میں ڈالر کے استعمال پرپابندی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت نے ورلڈ بینک رپورٹ کا خیر مقدم کیا اور رپورٹ کو درست حقائق قرار دیا۔

حکام نے کہا کہ عالمی برادری کا مثبت کردار، پابندیوں کاخاتمہ افغانستان کی ترقی میں اہم کرداراداکریں گے، افغان منجمد اثاثوں کی بحالی افغانستان کی جامع معاشی ترقی کا سبب بنے

‏اگر CSS کرنے والے اتنے قابل ہیں تو پاکستان کے ادارے تباہ حال کیوں ہے؟ اور TCS میں ایک بھی CSS آفیسر کام نہیں کرتا لیکن ...
03/09/2023

‏اگر CSS کرنے والے اتنے قابل ہیں تو پاکستان کے ادارے تباہ حال کیوں ہے؟ اور TCS میں ایک بھی CSS آفیسر کام نہیں کرتا لیکن TCS پاکستان پوسٹ سے زیادہ منافع میں کیوں ہے؟
آپ ریلوے کا حال دیکھ لیں؟
آپ پولیس کا حال دیکھ لیں؟
آپ پاکستان کے تمام بڑے کاروباری اور منافع بخش ادارے دیکھ لیں وہاں کوئی CSS افسر نہیں ہے تمام کامیاب اور منافع بخش اداروں میں آپ کو پروفیشنل لوگ ملیں گے۔
اینگرو گروپ
عارف حبیب گروپ
ڈی جی خان سیمنٹ سمیت تمام کامیاب ادارے پروفیشنل لوگ چلا رہے ہیں ۔
دنیا میں پروفیشنل لوگوں انجینئرز، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں اور اساتذہ کی عزت ہے۔ ایسے پروفیشنلز جو اپنے ممالک کو آسمان تک لیے گئے اور بدقسمتی میں ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک پروفیشنل ڈاکٹر اور انجنیئر کے اوپر ڈپٹی کمشنر روعب جماتا ہے۔
جس کی قابلیت صرف انگریزی کا امتحان پاس کرنا ہے ۔اگر انگریزی کو سی ایس ایس سے نکالا جائے تو پاس کرنے والے ہزاروں امیدوار ہونگے ۔

عرب ممالک میں سی ایس ایس جیسا امتحان نہیں ہوتا پر وہاں کے مضبوط اداروں کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔
جاپان اور تائیوان کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں لیکن وہ ٹیکنالوجی میں دنیا سے آگے ہیں ۔
پاکستان کو ترقی کے لئے سرکاری افسر شاہی نہیں بلکہ ڈاکٹرز ۔سائنسدانوں اور انجینرنگ پروفیشنلز کی ضرورت ہے۔
اگاھی

حلال رزق اور قرض کی ادائیگی کی دعا
30/08/2023

حلال رزق اور قرض کی ادائیگی کی دعا

30/08/2023

( خوبصورت واقعہ )

ہماری تاریخ میں بہت بڑا خوبصورت نام عبداللہ بن زید رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ نے ساری زندگی نکاح نہیں کیا، جوانی گزر گئی بڑھاپا آیا ایک دن بیٹھے حدیث مبارکہ پڑھ رہے تھے تو اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ:

"جنت میں کوئی اکیلا نہیں ہو گا جو نکاح کی عمر میں نہیں پہنچا یا پہنچا بھی تو کسی وجہ سے نہیں ہوا اور وہ مسلمان ہی مرا تو اللہ مسلمان مردوں اور عورتوں کا جنت میں آپس میں نکاح کر دے گا"۔

جب یہ حدیث پاک پڑھی تو دل میں خیال آیا کہ یہاں تو نکاح نہیں کیا تو جنت میں ہونا ہی ہونا ہے تو جنت میں میری بیوی کون ہو گی دعا کی کہ یا اللہ مجھے دکِھا تو سہی جنت میں میری بیوی کون ہو گی؟

پہلی رات دعا قبول نہیں ہوئی دوسری رات بھی دعا قبول نہیں ہوئی تیسری رات دعا قبول ہو گئی، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کالے رنگ کی عورت ہے حضرت بلال حبشی کے دیس کی رہنے والی حبشہ کے دیس کی اور وہ کیا کہتی ہے کہ:

"میں میمونہ ولید ہوں اور میں بصریٰ میں رہتی ہوں"۔

پتہ مل گیا آنکھ کھلی حضرت کی تہجد کا وقت تھا نوافل پڑھے نماز فجر باجماعت ادا کی اور سواری لے کر حضرت عبداللہ بن زید بصریٰ گۓ وہاں لوگوں نے بڑا استقبال کیا حضرت کا نام ہی بہت بڑا تھا بیٹھا کر پوچھا حضرت بتاۓ بغیر کیسے آنا ہوا خیر تو ہے آپ نے پوچھا یار یہ تو بتاؤ یہاں کوئی میمونہ ولید رہتی ہے لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا حضرت آپ اتنے دٗور سے چل کر میمونہ ولید سے ملنے آۓ ہیں آپ نے فرمایا کیوں اُس سے کوئی نہیں مل سکتا نہیں حضور وہ تو دیوانی ہے لوگ اُسے پتھر مارتے ہیں، حضور نے پوچھا کیوں مارتے ہیں حضور کام ہی ایسے کرتی ہے کوئی رو رہا ہو تو اسے دیکھ کر ہنسنے لگتی ہے اور کوئی ہنس رہا ہو تو رونا شروع کر دیتی ہے اور وہ اجرت پر پیسے لیکر لوگوں کی بکریاں چراتی ہے آج بھی وہ ہماری بکریاں لیکر جنگل میں گئ ہے آپ آرام فرمائیں عصر کے بعد آ جائے گی آپ مل لیجیے گا۔
حصْرت نے فرمایا عصر کس نے دیکھی کہا وہ کس سمت گئ ہے لوگوں نے کہا حضور جنگل نہ جائیں بہت خوفناک جنگل ہے آپ نے فرمایا بتاؤ کس طرف گئ ہے لوگوں نے بتایا آپ فرماتے ہیں کہ میں نکل گیا آپ فرماتے ہیں کہ جب میں جنگل گیا واقعی خوفناک جنگل تھا جنگلی جانوروں کی بھرمار تھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی چیز کھڑی ہے آپ فرماتے ہیں کہ قربان جاؤں اس عورت کی مردانگی پر وہ اس جنگل میں کس طرح بکریاں چرا رہی ہے شیروں نے اس کی بکریوں کو ابھی تک کھایا نہیں اتنے درندے ہیں سارے مل کر حملہ کر دیں تو کیا کرے یہ اکیلی عورت کس کس کو روکے گی؟ خیر آپ فرماتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں لوگوں نے مجھے بتائی تھی میں وہاں پہنچ گیا جب میں وہاں پہنچا تو منظر دیکھ کر میں حیران رہ گیا دو حیران کر دینے والے منظر تھے۔

پہلا میمونہ ولید ؒ بکریاں نہیں چرا رہی تھی بلکہ اُس جنگل میں جاۓ نماز بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی پر بکریاں چرانا تو بہانہ تھا یہ تو بہانہ تھا کنارہ کشی کا، لوگ یہی سمجھتے تھے میمونہ سارا دن بکریاں چراتی ہے لیکن میمونہ بکریاں نہیں چرا رہی تھی۔

دوسرا کیا دیکھا کہ میمونہ تو نماز پڑھ رہی ہیں پھر بکریاں کون چرا رہا ہے بکریاں تو ایک جگہ نہیں رکتی کہیں اِدھر جاتی ہیں کہیں اُدھر آپ فرماتے ہیں کہ میمونہ نماز پڑھ رہی تھی اور شیر بکریاں چرا رہے ہیں بکریاں چر رہی ہیں شیر انکے اردگرد گھوم رہے ہیں اگر کوئی بکری بھاگتی ہے اس کی فطرت ہے شرارت کرنا تو شیر اُسے پکڑ کر واپس لے آتا ہے لیکن کہتا کچھ نہیں۔

آپ فرماتے ہیں میں حیران و پریشاں کھڑا تھا کہ یہ کیسے ہو گیا ہے یہ فطرت کیسے بدل گئ لوگ کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی یہ شیروں اور بکریوں میں یاری کیسے ہو گئ آپ فرماتے ہیں میں دنگ حیران و پریشاں کھڑا ہوں مجھے نہیں پتہ کہ کب میمونہ ولید نے نماز ختم کر دی اور مجھے مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ:

"اے عبداللہ ملنے کا وعدہ تو جنت میں تھا آپ یہاں آ گئے"۔

آپ فرماتے ہیں میں حیران رہ گیا اس سے پہلے تو ملاقات بھی نہیں ہوئی تو حضرت میمونہ ولید کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا

تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میمونہ ولیدؒ سے سوال کیا اِس سے پہلے ہم ملے نہیں ملاقات نہیں ہوئی ہماری تو میرا نام کیسے پتہ چلا آپ کو تو جواب کیا ملا حضرت میمونہ ولیدؒ فرماتی ہیں عبداللہ جس اللہ نے رات کو تجھے میرے بارے میں بتایا ہے اُسی اللہ نے مجھے آپکے بارے میں بتایا ہے

آپ فرماتے ہیں کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھا کہ یہ فطرت کیسے بدلی میں نے حضرت میمونہ ولید ؒ سے پوچھا آپ یہ تو بتاؤ یہ شیروں نے بکریوں کے ساتھ یاری کیسے کر لی یہ تو غذا ہے انکی اگر شیر بکریوں کے ساتھ یاری لگاۓ گا تو کھاۓ گا یہ معاملہ کیسے ہو گیا تو حضرت میمونہ ولید ؒ فرماتی ہیں جب سے میں نے رب سے صلح کر لی ہے اُس دن سے اِن شیروں نے میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔

*ہم سب بھی صلح کر لیں، یاری لگا لیں کہیں دیر نہ ہو جاے رب کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لیں، کتنے سال گزر گئے ہم نے کوئی اللہ کی بات مانی لیکن وہ کِھلا بھی رہا ہے، پِلا بھی رہا ہے، دِکھا بھی رہا ہے، سُنا بھی رہا ہے، سُلا بھی رہا ہے، جگا بھی رہا ہے، نماز پڑھیں اللہ کی یاد میں زندگی بسر کریں، یہی حقیقی کامیابی ہے
▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭▬▭

[ یہ پیغام صدقہ جاریہ کے لیے شئیر ضرور کریں].

یہ الفاظ دل چیر گئے
29/08/2023

یہ الفاظ دل چیر گئے

جوئے کی آمدنی سے حصہ نہیں چاہیے،اسٹار پاکستانی کرکٹرزکا فیصلہ،شراب،جوئے،سیروگیٹ بیٹنگ کے اسپانسرز کالوگو کٹ پر نہیں لگائ...
29/08/2023

جوئے کی آمدنی سے حصہ نہیں چاہیے،اسٹار پاکستانی کرکٹرزکا فیصلہ،شراب،جوئے،سیروگیٹ بیٹنگ کے اسپانسرز کالوگو کٹ پر نہیں لگائیں گے،شق لیگ کنٹریکٹس کا حصہ، فیس یا بونس ایسی کمپنیز سے ملنے والی رقم سے نہیں دیا جائے،پی سی بی سے بھی شرائط کو کنٹریکٹ کا حصہ بنانے کا مطالبہ

*دستک دینا مرد کی فطرت ہے*دستک دینا مرد کی فطرت ہےاور دروازہ نہ کھولنا عورت کا حسن ....!!ہر دستک پر دروازہ کبھی نہیں کھو...
26/08/2023

*دستک دینا مرد کی فطرت ہے*

دستک دینا مرد کی فطرت ہےاور دروازہ نہ کھولنا عورت کا حسن ....!!

ہر دستک پر دروازہ کبھی نہیں کھولنا، نہ دل کا دروازہ، نہ دماغ کا دروازہ، نہ سوچوں کا دروازہ، نہ جذبات کا دروازہ، یہ دروازہ زندگی کے اصل ساتھی کی آمد پر ہی کھلنا چاہیئے۔

سنو۔۔۔!!
کبھی بھی کسی اجنبی کو اپنا ذاتی وقت نہ دینا ایک وقت آۓ گا وہ آپکے کردار پر انگلی اٹھاۓ گا آپکو ذہنی ٹینشن دے گا۔ سو فاٸنل بات یہ کہ ہر ایک کے ساتھ ایک لمٹ میں رابطہ رکھیں اس سے آپ خود بھی محفوظ رہو گی اور آپکا ذہنی سکون بھی۔

کسی کو پسند کرنا ایک فطری امر ہے مگر!
اس جذبے کا غلط استعمال کبھی مت کیجئے-
سیدھا راستہ اور نکاح کا جائز اور پاک رشتہ بنائیے۔
اور اگر آپ سمجھیں کہ آپ کے گھر برادری والے اس رشتے کے حق میں نہیں ۔۔۔۔ اور یہ رشتہ آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔۔۔ تو بعد کے دکھ تکلیف سے بچنے کیلئے اس بات کو وہیں ختم کر دیجئے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو یہ بات جان لینی چاہئے۔

جوانی کے جوش میں مردوں کو ہر عورت، ہر لڑکی اچھی لگتی ہے اور عورت کو ہر مرد کی محبت سچی لگتی ہے۔ عورت کا بس دیکھ لینا بھی مرد کو ادا لگتی ہے، اور مرد کی ذرا سی ہمدردی عورت کو اعترافِ محبت نظر آتی ہے۔ یہ عمر اس طرح کی بیوقوفیوں کی ہوتی ہے اور دل کو خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے۔

تو ہوتا یوں ہے کہ ذرا سا خیال بھی کسی کا آجائے، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں محبت ہو گئی ہے یا کسی کی کوئی بات ہمیں پسند آ جائے تو ہمیں لگتا ہے کہ اسکو ہم سے محبت ہو گئی ہے۔ اور پھر زندگی کے بہت بڑے فیصلوں پہ ہم جلد بازی کر دیتے ہیں۔۔۔ اسطرح کی محبتیں تو ہوتی رہتی ہیں۔

کسی کے بھروسے کے ساتھ مت کھلیں اور واقعی محبت ہے تو نکاح کریں، کیونکہ محبت کو عزت لازم ہے، باقی جسمانی خواہشات کو محبت کا نام نہ دیں۔

کہ ﻣﺮﺩ ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ سچے دل سے ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ اپنی عزت مانتا اور بناتا ہے، سب سے ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ اس پر ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﻧﮯ دینا چاہتا۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت اس کے دل میں نہیں اتری، صرف دکھاوے کی چیز ہے جو دوستوں میں خود کی اہمیت بڑھانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے کہ میرے پاس بھی دل بہلاوے کو ایک اچھی چیز ہے، اس سے صرف غرض یا مفاد کا رشتہ ہوتا ہے، عزت کا نہیں!

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہر بيٹی کی، ہر بہن کی عزت کی حفاظت فرمائے۔ اور اپنا مقام سمجھنے کی توفيق عطا فرمائے۔

یہ بات نادان کم عقل بیوقوف لڑکیوں کو سمجھنی چاہیئے۔ مرد ہمشیہ اسی لڑکی سے محبت کرتا ہے اور عزت دیتا ہے جو اسکو حلال رشتے میں ملتی ہے یعنی نکاح میں محرم بن کر۔
اور ایسی لڑکی جو نامحرم کے لیے سجتی ہے سنوارتی ہے وہ اپنی وقعت بھی ختم کرتی ہے اپنی شرم وحیا کا سودا کرتی ہے۔
اور بڑے افسوس کے ساتھ جس کے لیے یہ کرتی ہے وہی کل کو ٹائم پاس کرنے کے بعد، اس کو سب کے سامنے بدکردار، آوارہ اور بدچلن کہہ کر چلا جاتا ہے ایک نیا شکار ڈھونڈنے کے لیے۔
اور لڑکی کا کردار سب کے لیے سوالیہ نشان بنا کر خود اپنی زندگی میں مگن ہو جاتا۔ اور لڑکی کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا!
میری پیاری بہنوں اس فریب اور خوابوں سے باہر آجاؤ نامحرم مرد نہ کبھی دوست ہوسکتا ہے، نہ بھائی، نہ محافظ، نہ محبت ..!

محبت کی منزل نکاح ہے زنا نہیں.
شوہر ہی عورت کا اصل محافظ ہوتا ہے۔ عورت سے سچی محبت اسکا شوہر ہی کر سکتا ہے، کوئی نا محرم نہیں....!!!

اللہ نے ہمیں نامحرم سے فضول بات کرنے نرم لہجے میں بات کرنے سے منع کیا کہ خرابی پیدا نہ ہو۔ کیونکہ یہ خرابی بہت نقصان سے دوچار کرتی ہے۔

قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے:

"يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ ۚ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّـذِىْ فِىْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔" (سورۃ الاحزاب۔ 32)
ترجمہ:
اے نبی کی بیبیو! اگر تقوٰی اپناؤ تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، لہذا ہوس انگیز قسم کی گفتگو نہ کیا کرو۔ کہیں کوئی بیمار دل شخص تمھارے بارے میں لالچ میں نہ پڑ جائے اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔

تو میری پیاری بہنوں حرام رشتوں میں محبت مت ڈھونڈو اس میں لذت ہوسکتی ہے، پر سکون نہیں، عزت نہیں، سب سے بڑی بات اللہ کی رضا نہیں، ناراضگی اور غضب ہوگا، اور ذلت الگ، اس لیے اپنے جذبات کو اپنے محرم کے لیے بچا کر رکھیے، جس میں نہ ذلت کا ڈر ہو، نا رسوائی کا، نہ اللہ کے غضب اور نہ ناراضگی کا۔
اللہ ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے اس لیے اس نے ہمیں حلال چیزیں اور حلال رشتے دئیے ہیں، اور حرام چیزوں سے بچنے کو کہا ہے۔
خدارا! حدود اللہ مت توڑیں اور خود کو بچائیں حرام کاموں اور چیزوں اور حرام رشتوں سے ... !

اللہ رب العزت سے دعا ہے۔
مسلمانوں کی بیٹیوں اور بیٹوں کو پاک دامن رکھے اور حرام رشتوں حرام چیزوں سے دور رکھے۔ آمین یارب العالمین۔

اندھا قانون جو پیسہ دیکھ کر سب کچھ دیکھتی ہےچیئر لفٹ کا ملک گرفتار جس نے لاکھوں روپے  لگا کر وہاں کے لوگوں کو سہولت فراہ...
26/08/2023

اندھا قانون جو پیسہ دیکھ کر سب کچھ دیکھتی ہے
چیئر لفٹ کا ملک گرفتار جس نے لاکھوں روپے لگا کر وہاں کے لوگوں کو سہولت فراہم کی ہوئی تھی کیا اس غریب نے جان بوج کر حادثہ کیا ہے کچھ دن پہلے ٹرین حادثہ ہوا پچاس لوگ شہید ہوگئے کیا ریلوے وزیر گرفتار کیاگیا ریلوے چیرمین گرفتار کیا گیا دو دن پہلے ایک بس حادثہ پیش آتا ہے جس میں پندرہ لوگ آگ کی نذر اتش ہوجاتے ہیں کیا بس کے مالک کو گرفتار کیا گیا عجیب بات ہے حکومت ریسکیو آپریشن میں ناکام ہوئے تو غصہ اب چیئر لفٹ کے مالک پر نکال رہی ہے

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when اگاھی posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to اگاھی:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share