مجھ میں ان کی ثنآ کا سلیقہ کہاں۔۔۔
وہ شاہ دو جہاں
وہ کہا?
02/06/2020
12/01/2020
پریشان نہ ہوں۔۔۔🍀
کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔
کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔
کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔
نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔
اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان انجنیئر ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے. کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔
�زندگی ایک سفر ہے
15/12/2019
آفت زدہ علاقے کے حوالے سے داٸر کی گٸی رِٹ میں فاٸنل بحث
شیخ عادل مسعود بنام آزاد حکومت کیس اہم رُخ اختیار کر گیا۔۔۔کل بروز پیر حتمی دلاٸل روبرو عدالت العالیہ سرکٹ میرپور جسٹس شیراز کیانی اور جسٹس خالد یوسف ڈبل بینچ نوجون قانون دان شیخ عادل مسعود ایڈووکیٹ پیش کریں گے۔۔۔
میرپور کی عوام کے لیے نوجوان قانون دان عملی میدان میں۔۔۔ داٸر کردہ رِٹ میں شیخ عادل مسعود ایڈووکیٹ ، خواجہ محمّد آفاق ایڈووکیٹ ، راجہ یاسر محمود ایڈووکیٹ، راجہ احتشام مجید اور دیگر پٹیشنرز شامل ہیں۔۔۔ میرپور میں ٢٤ ستمبر کو ہولناک زلزلے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا جس کے بعد حکومت نے میرپور اور بھمبر کی ٣ یونین کونسلز کو بذریعہ نوٹیفیکیشن جاری کردہ 01.10.19 آفت زدہ قرار دیا۔۔۔۔ نوجوان قانون دان شیخ عادل مسعود ایڈووکیٹ نے ابتداٸی دلاٸل میں یہ مٸوقف اختیار کیا کہ آفت زدہ علاقوں میں
Natural Calamaties Act 1976
کے تحت گھریلو صارفین کے بِلات اور قرضہ جات کی معافی ریلیف کمشنر کی ذمہ داری میں آتا ہے۔۔۔ابتداٸی طور پر حکم امتناعی جاری کیا گیا اور محکمے کو بلات دینے اور لینے سے روک دیا گیا۔۔۔ رہسپانڈنٹس کی جانب سے تبصرہ بھی پیش کیا گیا۔۔۔اب کل حتمی دلاٸل شیخ عادل مسعود ایڈووکیٹ کی جانب سے پیش کیے جاٸیں۔۔۔ عدالت العالیہ کے حکم امتناعی جاری کرنے کے بعد عوام علاقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گٸی اور نوجوان قانون دانوں کی اس کاوش کو سراہا۔۔۔اب عوام کو عدالت العالیہ کے کل کے فیصلے کا انتظار ہے۔۔۔
12/10/2019
جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ایک بڑے میدان میں لایا گیا۔ بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حد نگاہ تک نظر آتا تھا۔ جب جنازہ پڑھنے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا وکیل ہوں۔ حضرت نے ایک وصیت کی تھی۔ میں اس مجمعے تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمعے پر سناٹا چھاگیا۔ وکیل نے پکار کر کہا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔
زندگی میںاس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔
اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔
جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات سنائی گئی تو مجمعے پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ کافی دیر گزر گئی، کوئی نہ آگے بڑھا۔ آخر کار ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آئے۔ جنازہ سے چادر اٹھائی اور کہا۔ حضرت! آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کردیا۔
اس کے بعد بھرے مجمعے کے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ یہ شخص وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھے۔
12/10/2019
سوچ یا پھر موچ۔۔۔
زلزلہ آنے کی بڑی وجہ جو پہلے بیان نہ کی گئی!
میرپور میں آنے والے زلزلہ کو ایک عام انداز میں بیان کیا جا رہا ہے اور ٹکٹانک پلیٹس کی موومنٹ کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے جبکہ اس کی اصل وجہ یعنی میرپور میں موجود پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم یعنی منگلا ڈیم ہے۔ پچھلے چند دنوں سے میں زلزلہ ہونے کے اسباب اور اسکے محرکات کو انتہائی قریبی مشاہدہ سے دیکھ رہا ہوں اور دنیا کے چند اہم ماہر ارضیات و زلزلہ دانوں کی تحقیقوں کو جاننے کے بعد اس بات کو بتانے جا رہا ہوں کہ بڑے ڈیموں نے دنیا بھر میں ایسے زلزلے لائے ہیں۔
حال ہی میں ، ڈیم کی سرگرمی کی وجہ سے سب سے زیادہ طاقتور زلزلہ مغربی ہندوستان میں 1967 میں ہوا تھا۔ بلڈروں کے کوئینہ ڈیم مکمل کرنے کے تین سال بعد ، 6.5 شدت کے زلزلے نے اس علاقے کو نشانہ بنایا ، جس میں 180 افراد ہلاک ہوگئے۔
سائنسدانوں نے چین کے تھری گورجز ڈیم کے خوفناک نتائج کی انتباہ بھی کیا تھا، جو کہ جیؤوانسی اور زیگوئی-بڈونگ فالٹ لائنوں پر بنایا گیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہےممکنہ طور پر یہ صوبہ سیچوان میں 2008 میں آنے والے زلزلہ سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ڈیم سے متحرک ہونے والے زلزلے کے رجحان کو آبی ذخائر سے متاثر زلزلہ کہا جاتا ہے۔
جب ایک ڈیم بن جاتا ہے اور پانی سے بھرا ہوا ذخیرہ ہوتا ہے ، تو اس علاقے میں زمین پر دباؤ کی مقدار ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جب کسی ذخیرےکی سطح بلند ہوجاتی ہے تو ، زیرِ زمین پلیٹوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ جب پانی کی سطح کم ہوجائے تو ، دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ سطح کے نیچے ٹیکٹونک پلیٹوں کے درمیان نازک توازن کو دباؤ ڈال سکتا ہےاور ممکنہ طور پر ان کی منتقلی کا سبب بنتا ہے۔
ایک اور عنصر پانی خود ہے۔ جب پانی کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس میں سے زیادہ تر دراڑوں کو بھرتے ہوئے زمین سے اپنا راستہ بناتا ہے اور پانی کا یہ سارا دباؤ ان دراڑوں کو بڑھا سکتا ہے اور یہاں تک کہ چٹان میں نئے ، چھوٹے ٹکڑے پیدا کرسکتا ہے ، جس سے زمین کے نیچے زیادہ عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ایک بات سمجھنا یہ بھی ضروری ہے کہ ایک ڈیم خود ہی زلزلے کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ خطرے کے عوامل ، خاص طور پر غیر مستحکم غلط لائنیں ، پہلے ہی وہاں موجود ہونا ضروری ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا میں کہیں بھی اگر ڈیم بنانا مقصود ہوں تو ڈیم انڈسٹری پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ کا مکمل سروے کرے اور اس علاقہ میں موجود آبادی کو محفوظ مقامات پر خاص نوعیت کے گھر بھی بنا کر دے۔ورنہ کسی ایسی جگہ پر ڈیم بنانا اصل میں انسانوں کی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
واپڈہ جو کہ ایک قومی ادارہ ہے اور اس تمام تر معاملہ میں اسکا رول نہایت غیر زمہ دارانہ نظر آتا ہے نے کسی بھی سطع پر اس خاص بات پہ وضاحت نہیں دی اور نہ ہی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متاثرین کی مدد کا ذمہ لیا۔ اس کی وجہ عام لوگوں میں معلومات کا نہ ہونا بھی ہے اورایسے اداروں کو جو کہ ڈیموں سے اربوں کا کاروبار کرتے ہیں انکو احتساب کے کٹہرہ میں لانا بھی ضروری ہے۔
آج سوچنا ہو گا ورنہ اس شہر میرپور کا مستقبل داؤ پہ تو لگ ہی چکا ہے۔
سوچ یا پھر ۔۔۔۔۔
12/10/2019
میرپور آزاد کشمیر میں زلزلے کے جھٹکے
11:16pmاستغفراللّٰہ
ریکٹر اسکیل پر شدت 3.1 ریکارڈ
Be the first to know and let us send you an email when Mera Mirpur - Azad Kashmir posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.