Junoon e Eshiq

  • Home
  • Junoon e Eshiq

Junoon e Eshiq Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Junoon e Eshiq, Magazine, .

24/11/2020
05/08/2019
کیا رسول اللہ  ﷺ پیدائشی نبی ہیں ؟گزشتہ عرصے میں  ایک " ھوائی فضائی مخلوق" پیدا ھوئی  جو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسل...
06/07/2019

کیا رسول اللہ ﷺ پیدائشی نبی ہیں ؟

گزشتہ عرصے میں ایک " ھوائی فضائی مخلوق" پیدا ھوئی جو
رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی کے نزول سے پہلے نبی ماننے سے انکاری تھی مگر اب اس نظریے کوبزعم خویش ختم نبوت کا رنگ دیکر عوام میں لائی ھے ۔

حالانکہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی نبی تھے جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے

ثبوت حوالہ جات مع حدیث نبوت قبل تخلیق آدم علیہ السلام:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
(جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح 3609
دلائل النبوہ للبیہقی 2/130 وابونعیم فی الدلائل ص 8ح8 المستدرک للحاکم 2/609 اخبار الصبہان لابی نعیم 2/226 کتاب القدر للفریابی ح14تاریخ بغداد للخطیب 1/146امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ھذا حدیث حسن صحیح غریب من حدیث ابی ہریرۃ لانعرفہ الا من ھذا الوجہ)
یہ روایت صحیح ہے۔ولید بن مسلم نے دلائل النبوۃ میں سماع کی تصریح کردی ہے اور اس روایت کے کئی شواہد ہیں۔

۔سیدنامیسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا:
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے"
(مسند احمد 5/59 ح20872،کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد 2/398 ح 864 واللفظ لہ،التاریخ الکبیر للبخاری 7/374 کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح410،کتاب القدر لجعفر بن محمد الفریابی ص 29 ح 17طبقات ابن سعد 7/60 المعجم الکبیر للطبرانی 20/353 ح 822،834 ،ابو یعلیٰ الموصلی اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری 9/8 ح 488 حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی 9/53 الحاکم فی المستدرک 2/608،609 وصححہ ووافقہ الذہبی معجم الصحابہ لعبد الباقی بن قانع ج14 ص 5043 ح 1992ء 1993)“)

۔حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: " وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ "

"اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے"
مسند الإمام أحمد بن حنبل - ج 34 ص 202 ح 20596
تعليق شعيب الأرنؤوط وھابی : إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح
ناصر البانی جو سلفیہ فرقہ کا بانی ھے نے اس کوإسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح کہا ہے
كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 410 صفحہ 189
نیز اس کو سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها - ج4 ح 1856 صفحہ 471 پر درج کیا ہے۔
قال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج بن النعمان قال ثنا حماد عن خالد الحذاء عن عبد الله بن شقيق عن رجل قال قلت : يا رسول الله متى جعلت نبيا قال وآدم بين الروح والجسد
ناصر البانی نے اس کوإسناده صحيح کہا ہے
كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 411 صفحہ 189

یہ "باطل عقیدہ "ابن تیمیہ کا ھے کہ
" اس دنیا میں اپنی مبارک عمر کے چالیسویں سال آپ کو وحی بھیج کر نبوت کے عظیم منصب پر سرفراز کیا گیا "
اور جو " ھماری" طرح " یہ " عقیدہ نہ رکھے
وہ ابن تیمیہ کے نزدیک معاذ اللہ کافر ہے!

ابن تیمیہ کا یہ کلام ہے کہ :
ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ترجمہ:
اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
《الحمدللہ ھم اس باطل فکر سے بری ھیں!》
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص جس چیز سے بھی مترشح ھوتی ھو اس چیز کا پرچار کرناسراسر گمراہی ھے اور اس پر زور دینا کفر کی طرف لے جاتا ہے!

ایمزون کا جنگل دنیا کے 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں سرفہرست برازیل ہے۔ اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے،...
25/04/2019

ایمزون کا جنگل دنیا کے 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، جس میں سرفہرست برازیل ہے۔
اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جبکہ پاکستان کا رقبہ 7 لاکھ 95 ہزار مربع کلومیٹر ہے.
یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے
ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جسکا مطلب لڑاکو عورت ہے
زمین کی 20 فیصد آکسیجن صرف ایمزون کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں
دنیا کے 40 فیصد جانور ، چرند، پرند، حشرات الارض ایمزون میں پائے جاتے ہیں
یہاں 400 سے زائد جنگلی قبائل آباد ہیں، انکی آبادی کا تخمینہ 45 لاکھ کے قریب بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ اکیسیوں صدی میں بھی جنگلی سٹائل میں زندگی گذاررہے ہیں
اسکے کچھ علاقے اتنے گھنے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اور دن میں بھی رات کا سماں ہوتا ہے
یہاں ایسے زیریلے حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ چند سیکنڈ میں مرجائے
ایمزون کا دریا پانی کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے, اسکی لمبائ 7ہزار کلومیٹر ہے،
دریائے ایمزون میں مچھلیوں کی 30 ہزار اقسام پائ جاتی ہیں
ایمزون کے جنگلات میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جو ابھی تک بے نام ہیں
یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں تک کو دبوچ لیتی ہیں
یہاں پھلوں کی 30 ہزار اقسام پائ جاتی ہیں
مہم جو اور ماہر حیاتیات ابھی تک اس جنگل کے محض 10 فیصد حصے تک ہی جاسکے ہیں
اگر آپ ایمزون کے گھنے جنگلات مین ہوں اور موسلا دھار بارش شرع ہوجائے تو تقریبا 12 منٹ تک آپ تک بارش کا پانی نہیں پہنچے گا

آج کل بعض لوگ رسول کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور ت...
24/03/2019

آج کل بعض لوگ رسول کریم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ بعض اوقات اخبارات بھی پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔ عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد کے ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے اور اب تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ جاتی ہیں۔ ۔ اکثر لوگ روضہ رسول سے متعلق ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیتے ہیں ۔ ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ دیکھیے یہ تصویر -

حقیت یہ ہے کہ جس روضۂ رسول کی تصاویر کو دیکھ کرعوام الناس کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ غالباً "مولانا جلال الدین رومی رح کے مزار کی تصویر ہے- نہ کہ نبی مکرم محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبر مبارک ہے -

http://i1077.photobucket.com/albums...asool/mausoleum-rumi-500-copy_zps90a4ba78.jpg

روضۂ رسول آنحضور محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ رضی کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول الله اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ (”وفا الوفاء)-

اب اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، اس دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوسکا- جو سعودی شرتے روضہ رسول کی صفائی پر مامور ہیں وہ بھی قبرمبارک تک نہیں پہنچ سکتے (چار دیواری کے باہر تک محدود ہیں) تو کوئی ایرا غیرا وہاں کیسے پہنچ سکتا ہے؟؟ -

دوسری سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔ اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔

10/03/2019

مشکلات میں لوگوں کے کام آنے پر اجر کا بیان
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اﷲُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المظالم، باب : لا يظلم المسلم المسلم ولا سلمه، 2 / 862، الرقم : 2310، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : تحريم الظلم، 4 / 1996، الرقم : 2580، والترمذي في السنن، کتاب : الحدود عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الستر علي المسلم، 4 / 34، الرقم : 1426، وأبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : المؤاخاة، 4 / 273، الرقم : 4893، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 308، الرقم : 7286، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 91، الرقم : 5646، وابن حبان في الصحيح، 2 / 291، الرقم : 533، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 94، الرقم : 11292.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اﷲُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَي مُعْسِرٍ يَسَّرَ اﷲُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاﷲُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

الحديث رقم 12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الذکر والدعاء والاستغفار، باب : فضل الاجتماع علي تلاوة القرآن، 4 / 2074، الرقم : 2699، والترمذي في السنن، کتاب : الحدود عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الستر علي المسلم، 4 / 34، الرقم : 1425، 1930، 2945، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب :

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل کرے گا جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فرمائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اﷲ تعالیٰ (اس وقت تک) اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔‘‘

(طالب دعا محمد نوید قادری )

تُو نے دیکھا ہے کبھی رقص میں پروانے کو وہ تڑپتا ہے فقط شمْع سے مل جانے کوروز آتا ہے بلاوا مجھے مے خانے سے روز جاتا ہوں ش...
24/01/2019

تُو نے دیکھا ہے کبھی رقص میں پروانے کو
وہ تڑپتا ہے فقط شمْع سے مل جانے کو

روز آتا ہے بلاوا مجھے مے خانے سے
روز جاتا ہوں شبِ غم کی دوا کھانے کو

مذہبِ عشق کی ہر چال نرالی ہے میاں!
زہر پلوا دیا سقراط سے مستانے کو

عشق نے خود ہی اناالحق کا لگایا نعرہ
اور پھر دار پہ لٹکا دیا دیوانے کو

نامراد عشق و جنوں کا نہیں کوئی بھی علاج
چارہ گر نے بھی لکھا ہے مجھے دفنانے کو

موت کا راز محبَّت میں چُھپا ہے شاکر
اب تو جی چاہے مرا عشق میں مر جانے کو

کلام :- شاکر علی شاکر

17/09/2018

🌷⚘موتی جنہاں دی چوگ ہووے او نیی چگدے دانے🌷
🌷⚘پیر جنہاں دے سرتے ہوون کملے وی سیا نے 🌷

09/09/2018

♦♻♦عشق محمدﷺْ ♦♻♦
🔵♻مزاراتِ اولیاء پر جانا کیسا ہے؟♻🔵

🔴مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے۔ جیسا کہ
♦حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا۔ اب زیارت کیا کرو۔

( مسلم شریف ، کتاب الجنائز، ،حدیث نمبر 2260، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

🔴سوال: کیا حضورﷺ بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے؟🔴

جواب
🔴 جی ہاں! حضور علیہ السلام بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی۔ آپﷺ نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپﷺ کے ساتھ تھے وہ بھی روئے۔🔴

(مسلم شریف ، کتاب الجنائز،حدیث 2258، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں:

🔴امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔🔴

(رد المحتار ، باب مطلب فی زیارۃ القبور ،مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

🔵امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپﷺ کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے🔵
(تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)

🔴سوال: کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی کسی کے مزار پر جاتے تھے؟🔴

جواب:
🔴 جی ہاں! صحابہ کرام علیہم الرضوان حضورﷺ کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
🔵 حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ ایک صحابی نبی کریمﷺ کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا۔
♥یارسولﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔🔴
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب)

‼فائدہ:‼ زیارت مزار کے ساتھ، صاحب مزار سے مدد طلب کرنا صحابہ کا طریقہ ہے۔‼

حضرت دائود بن صالح سے مروی ہے کہ
وہ بیان کرتے ہیں کہ
♦ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کی مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے تو اس (مروان) نے کہا کہ
💝کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تودیکھا وہ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں۔ میں رسول اﷲﷺ کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔💝

(مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت )

🔘سوال: حدیث شریف میں ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف) کے سوا کسی جگہ کا سفر نہ کیا جائے۔ پھر لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کی نیت سے سفر کیوں کرتے ہیں؟

جواب:
🔴 اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مسجدوں میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔
♥ چنانچہ مسجد الحرام میں ایک نمازکا ثواب ایک لاکھ کے برابر مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے۔🔴
🔵 لہذا ان مساجد میں یہ نیت کرکے دور سے آنا چونکہ فائدہ مند ہے، جائز ہے۔ لیکن کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا ’’یہ سمجھ کر ‘‘کہ وہاں ثواب زیادہ ملتا ہے۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ ہر جگہ کی مسجد میں ثواب یکساں ہے اور حدیث میں اسی نیت سے سفر کو منع فرمایا ہے۔🔵
🔘 آج لوگ تجارت کے لئے سفر کرتے ہیں۔ علم دین کے لئے سفر کرتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے سفر کرتے ہیں اور بے شمار دنیاوی کاموں کے لئے مختلف قسم کے سفر کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب سفر حرام ہوں گے؟🔘
🔴 ہرگز نہیں بلکہ یہ سارے سفر جائز ہیں اور ان کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ تو پھر مزارات اولیاء کے لئے سفر کرنا ناجائز کیوں ہوگا بلکہ لاکھوں شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں۔ میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہے اور ان کے مزار پر آتا ہوں۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر اﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)🔴

♦فائدہ:امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے۔کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا؟♦

محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں کہ
🔵 امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی۔🔵
(تہذیب التہذیب، حروف العین المہملہ، مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

🔴اگر مزاراتِ اولیاء پر جانا شرک ہوتا تو…‼

♥ کیا حضورﷺ اپنی والدہ ماجدہ اور شہداء احد کے مزاروں پر تشریف لے جاتے؟

♥کیا صحابہ کرام حضورﷺ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے؟ کیا تابعین، محدثین، مفسرین، مجتہدین مزارات اولیاء پر حاضری کے لئے سفر کرتے ؟

پتہ چلا مزارات پر حاضری حضور علیہ السلامﷺ ، آپ کے اصحاب اور امت کے مجتہدین ،محدثین اور مفسرین کی سنت ہے اور یہی اہلِ اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اس مبارک عمل پر شرک کے فتویٰ دینے والے صراط ِمستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں۔

♦👈مزارات ِ اولیاء پر ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین مزاراتِ اولیاء مزارات پر ہونے والی خرافات کو امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزارات اولیاء پر ہونے والی خرافات کا اہلسنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنی تصانیف میں ان کا رد بلیغ فرمایا ہے۔

🔴 عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے🔴
🔵سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔🔵

(جمل النور فی نہی النساء عن زیارۃ القبور، فتاویٰ رضویہ جلد 9، صفحہ 541، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

♦👈مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے، ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے
(فتاویٰ رضویہ جلد 4، ص 8، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)

🔵اگر مزار پر چادر موجود ہو اور وہ پرانی اور خراب نہ ہوتو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو رقم اس میں استعمال کریں، وہ اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں🔵
(احکام شریعت حصہ اول ص62، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

🔴 نیاز کا کھانا لُٹانا حرام ہے۔ کھانے کا ایسا لُٹانا بے ادبی ہے۔🔴
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24، ص 112 رضا فائونڈیشن، لاہور)
♥ مزارات پر سجدہ تعظیمی کرنا حرام ہے♥
(الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ ص 5، بریلی ، ہندوستان)

🔵 مزامیر یعنی آلات لہوولعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں۔ جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح (یعنی صراحت کے ساتھ موجود ہیں) ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔🔵
(فتاویٰ رضویہ جدید ، جلد 24، ص 79، رضا فائونڈیشن، لاہور)

نوٹ: الحمدﷲ! اس پملفٹ میں جتنی بھی احادیث ہیں، وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں، کوئی بھی شخص صبح ِ قیامت تک انہیں ضعیف ثابت نہیں کرسکتا۔
طالب دعا

08/09/2018

توبہ و استغفار کے دنیا اور آخرت میں‌ فائدے
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی۔
فرمایا: استغفار کرو،
دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوارِ زمین میں کمی ہے،
فرمایا: استغفار کرو،
پوچھا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج کیسے تجویز فرمایا؟
تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
”استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“
(سورۃ نوح: 10-11-12)
ترجمہ:۔ ”استغفار کرو اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادے گا۔“

واضح ہے کہ استغفار پر اللہ تعالیٰ نے جن جن انعامات کا اس آیت میں اعلان فرمایا ہے
تو ان چاروں کو انہی کی حاجات درپیش تھیں، لہٰذا حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے سب کو استغفار ہی کی تلقین فرمائی۔

عہد کریں کہ ہم بھی استغفار کو اپنا معمول بنائیں۔ استغفار کے لئے صحيح اور وارد الفاظ

1- سید الاستغفار

"اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ إِلاَّ أَنْت*

[یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میرے تیرے سامنے تیری مجھ پر ہونیوالی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے]
( رواہ البخاری؛ 6306 )

2- اَستغفر الله
[ رواه مسلم؛ 414
میں اللہ سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں.

3- اَستغفر الله وأتوب إليه
( رواہ ابن حبان :928 وصححه الالبانی
میں اللہ سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں.

4- "اَسْتَغْفِرُ اللهَ الْعَظِيْمَ الَّذِيْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ"

[میں عظمت والے اللہ سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، جس کےعلاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہی ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والی ذات ہے، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں]
( رواہ الترمذی؛ 3577 وصححه الالبانی

5- "رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ "

[ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، اور نہایت رحم کرنے والا ہے]

( رواہ الترمذی 3434 وصحیحه الالبانی)
اللہ مجھے گناہوں سے سچی توبہ کی توفیق دے اور جانے انجانے میں سرزد ہونے والے گناہوں سے معافی دے۔

بند دکان میں کہیں سے گهومتا پهرتا ایک سانپ گهس آیا.یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تهی۔اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری س...
02/09/2018

بند دکان میں کہیں سے گهومتا پهرتا ایک سانپ گهس آیا.
یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تهی۔اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری سے ٹکرا کر بہت معمولی سا زخمی ہو گیا. گهبراہٹ میں سانپ نے پلٹ کر آری پر پوری قوت سے ڈنگ مارا. سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا. اگلی بار سانپ نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپٹ کر، اسے جکڑ کر اور دم گهونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی. دوسرے دن جب دکاندار نے ورکشاپ کهولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بهینٹ چڑھ گیا تها.
بعض اوقات غصے میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا زیادہ نقصان کیا ہے.
اچهی زندگی کیلئے بعض اوقات ہمیں

کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
نظر انداز کرنا چاہیئے.

اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیے، ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک رد عمل دکهائیں. ہمارے کچھ رد عمل ہمیں محض نقصان ہی نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری جان بهی لے لیں.

سب سے بڑی قوت۔۔۔قوتِ برداشت ہے

صبر ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو گرنے نہیں دیتی
نہ کسی کے قدموں میں۔۔۔ نہ کسی کی نظروں میں.

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گ...
03/08/2018

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے.“

لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہو گا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہو گا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے، قسم اللہ کی، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے، وہ خود پرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہو گا جب کہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے.“

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

"ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون"

ترجمہ : ”یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں“
سورۃیونس۶۲

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (صحیح) سنن ابو داود 3527 ،

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Junoon e Eshiq posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share