Zar Waya Distt Nowshera

  • Home
  • Zar Waya Distt Nowshera

Zar Waya Distt Nowshera Social Media Team/Social Media Activist

26/10/2023
22/09/2023

مانکی والا سم کار لاندے کڑے

سحر پرویزخٹک سرہ اعلان اوکی او شپے لہ لیاقت خٹک سرہ 😜

نوشہرہ،تھانہ اکوڑہ خٹک کے پولیس چوکی اہلکاروں نے مسافر بس سے سمگل شدہ درجنوں غیرملکی ٹائرز اتار کر سوریاخیل چوکی میں جمع...
20/09/2023

نوشہرہ،تھانہ اکوڑہ خٹک کے پولیس چوکی اہلکاروں نے مسافر بس سے سمگل شدہ درجنوں غیرملکی ٹائرز اتار کر سوریاخیل چوکی میں جمع کررہے تھے کہ افسران کی طرف سے انہیں کال ملا کہ تمام ٹائرز واپس کردے،مسافر بس کافی سفر طے کرچکا تھا اور ڈاٹسن گاڑی کے زریعے ٹائرز اسی بس تک پہنچایا گیا اور اسی طرح غیرملکی ٹائرز پنجاب سمگل ہوگئے افغانستان سے سمگلنگ کا انوکھا طریقہ شروع ہیں،بائیس ویلر ٹریلر ٹرکوں میں نیا ٹائرز لگا کر پشاور رنگ روڈ اور تھانہ اضاخیل کے قریب یہ ٹائرز ان ٹریلوں سے نکال کر پرانے ٹائرز لگادیتے ہیں اور مبینہ سمگلرز پولیس کی ملی بگھت سے یہ ٹائرز بسوں میں لوڈ کرکے پنجاب اور ملک کے کونے کونے میں پہنچایا جاتا ہے،حکومت آجکل سمگلنگ کے خلاف بھرپور مہم چلارہے ہیں لکن اکوڑہ پولیس افسران کے طرف سے سمگلنگ کا مال بس کے پھیچے پہنچانا خیران کن ہیں،یہ بھی کہاجارہاہے کہ پشاور حاجی کیمپ اڈہ سے روانہ ہوکر اٹک تک تمام تھانہ جات اور پولیس چوکیوں پشاور کسٹم کے ساتھ مبینہ منتھلیاں اور بتھہ خوری کی داستانیں عام ہیں۔۔

20/09/2023

علاقے میں نئی آنے والے ہر حکومتی نوکر کو سب سے پہلے ہار پہنانے والے اور کھانے کی دعوت دینے والے علاقے کے سب سے بڑے ڈاکوں ہوتے ہیں۔

اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ ملک اور یہ قوم سدھر جائے گی تو اس پوسٹ کو غور سے دیکھیں۔  یہ اب تک صرف اور اس وجہ سے نیست و ناب...
20/09/2023

اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ ملک اور یہ قوم سدھر جائے گی تو اس پوسٹ کو غور سے دیکھیں۔ یہ اب تک صرف اور اس وجہ سے نیست و نابود نہیں ہوئی ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی سے وعدہ کیا تھا کہ اس امت کو قیامت سے پہلے نیست و نابود نہیں کرے گا، مگر اس قوم کی حرکتیں بلکل انہیں قوموں کی طرح کی ہیں جنہیں اللّٰہ پاک نے نافرمانی کی سزا کے طور پر نیست و نابود کردیا ، ان میں کم تولنے والے اور زنا کرنے والے سر فہرست تھے

20/09/2023

مذہبی جماعتونہ یو بل تہ د نظمونو پہ شکل کی پہ خوگ آواز اخلاقی کنزل کوی او قوم تہ خائی چی بداخلاقی ھم پہ اخلاقو کی مزہ کوی ۔

19/09/2023

ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹرز کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کر دیئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2018ء میں 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ووٹرز رجسٹرڈ تھے لیکن اب یہ تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جن میں سے خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے جب کہ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار258 بتائی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری شدہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار 582 ہے، سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 66 لاکھ 51 ہزار 161 ہوچکی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 16 لاکھ 92 ہزار 381 ہے اور صوبہ بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 52 لاکھ 84 ہزار 594 ہے جب کہ اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 554 ہے۔

19/09/2023

ذلالت کا گڑھا

بھارت سعودی عرب اور یو اے ای پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے آپ پاکستانی ورکرز کو نکال دیں

پی ٹی آئی کے دور میں آرمی چیف اور وزیر خزانہ امداد مانگنے کے لیے ابوظہبی گئے‘ سلطان نے بات سن کر نہایت پتے کی بات کی‘ ان کا کہنا تھا ’’ایک وقت تھا جب آپ کا ہاتھ اوپر ہوتا تھا اور ہمارا نیچے‘ ہم امداد کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔ آج ہمارا ہاتھ اوپر ہے اور آپ کا نیچے‘ آپ ہمارے بھائی ہیں‘ ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں لیکن میرا مشورہ ہے ہم اوپر یا نیچے والا ہاتھ بننے کے بجائے ایک دوسرے سے برابری سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ آپ کسی ملک سے امداد نہ لیں‘ آپ ملکوں سے بزنس کریں۔ آپ اس طریقے سے امیر ہوں گے‘‘۔ پاکستانی وفد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیے۔

دوسری مثال سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز کی ہے‘ یہ بادشاہ بننے سے پہلے 48سال ریاض کے گورنر رہے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے سفیر ایڈمرل شاہد کریم اللہ صدر کا پیغام لے کر ان کے پاس گئے۔ شاہ سلمان نے پاکستانی سفیر سے کہا ’’ہم پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں لہٰذا ہم ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں یہ جذبہ صرف ہم تک ہے‘ ہمارے بچے پریکٹیکل ہیں۔ ہمارے بعد یہ آپ کا خیال نہیں رکھیں گے چناں چہ آپ کے لیے بہتر ہے آپ ہماری زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں‘‘۔ سفیر نے یہ پیغام من وعن سائفر بنا کر ایوان صدر بھجوا دیا۔

تیسری مثال چین کی ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ 2021 میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے بیجنگ گئے‘ صدر شی نے انھیں صرف دو مشورے دیے‘ آپ ایک ہی بار یہ فیصلہ کر لیں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ یاد رکھیں ترقی اور لڑائی میں ترقی پہلے نمبر پر آتی ہے اور لڑائی دوسرے پر‘ آپ لوگ ترقی پر کمپرومائز نہ کریں۔ بھارت سے لڑیں لیکن پہلے ترقی کریں۔ انھوں نے چین کی مثال دی ’’ہمارے بھارت کے ساتھ 70 سال سے تنازعے چل رہے ہیں‘ ہماری تازہ تازہ جھڑپ بھی ہوئی مگر اس کے باوجود بھارت کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ ہم لڑائی کے بعد بھارت سے زیادہ تجارت کر رہے ہیں۔‘‘

آپ تھوڑی دیر کے لیے ان تمام مشوروں کو سائیڈ پر رکھیں اور دہلی میں 9 اور 10 ستمبر کے جی 20 سربراہی اجلاس پر فوکس کریں‘ بھارت نہ صرف دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے بلکہ یہ آج بڑی معیشتوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔

دوسری حقیقت جی 20 میں انڈونیشیا‘ جنوبی کوریا‘ میکسیکو‘ جنوبی افریقا اور ترکی بھی شامل ہیں اور یہ پانچوں ملک ہمارے سامنے اس ریس میں شامل ہوئے‘ آپ ترکی کو 2000میں دیکھیں اور اس کے بعد اسے 2010 اور 2023 میں دیکھیں‘ ترکی نے کساد بازاری اور ری سیشن کے باوجود ٹھیک ٹھاک ترقی کی‘ جنوبی کوریا نے 1960 کی دہائی میں پاکستان سے ’’پانچ سالہ معاشی منصوبہ‘‘ مستعار لیا تھا اور اپنے تین سو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس بھجوائے تھے تاکہ یہ ڈاکٹر صاحب سے نوبل پرائز جیتنے کا طریقہ سیکھ سکیں۔

انڈونیشیا ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ملکوں میں سب سے پہلے دہشت گردی اس ملک میں شروع ہوئی تھی‘ 12 اکتوبر 2002 کو دہشت گرد اسلامی جماعت نے بالی میں 204 لوگ قتل کر دیے تھے جس کے بعد انڈونیشیا کی سیاحتی انڈسٹری تباہ ہوگئی لیکن صرف 20سال بعد 2022 میں انڈونیشیا نے جی 20 کی میزبانی کی‘ ایک وقت تھا انڈونیشیا کے سیاست دانوں‘ فوجی سربراہوں اور ارب پتی بزنس مینوں کے بچے تعلیم کے لیے پاکستان آتے تھے لیکن آج وہ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟

میکسیکو بھی چند برس پہلے تک لاطینی امریکا کا غریب ملک ہوتا تھا‘ اس کا مافیا آج بھی پوری دنیا میں بدنام ہے لیکن یہ بھی اب جی 20 میں شامل ہے اور جنوبی افریقہ 1994 میں آزاد ہوا اور اس سے پہلے وہاں خوف ناک نسلی فسادات ہوئے‘ لاکھوں لوگوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی تھیں‘ آج بھی اس ملک میں گوروں اور کالوں کے درمیان اختلافات ہیں لیکن یہ بھی آج جی 20 میں شامل ہے‘ بھارت نے ان کے علاوہ بنگلہ دیش‘ مصر‘ نائیجیریا‘ متحدہ عرب امارات‘ عمان‘ سنگاپور‘ نیدرلینڈ‘ اسپین اور ماریشیس کو بھی بطور مہمان دعوت دی‘ یہ تمام ملک کبھی پاکستان کے دوست ہوتے تھے۔

بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ پاکستان کی بنیاد ہی بنگالیوں نے رکھی تھی‘ آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکا میں بنی تھی اور 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی‘ ہم نے 1971 میں بنگالیوں کو نالائق‘ پس ماندہ اور گندہ قرار دے کر الگ کر دیا لیکن آج بنگلہ دیش معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے ہے اور یہ جی 20 ملکوں کے ساتھ بھی بیٹھا ہے۔

ہم نے بھٹو دور میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر‘ اردن اور شام کی مدد کی تھی‘ نائیجیریا جیسے درجن بھر افریقی ملک پاکستان سے ٹیکنالوجی سیکھا کرتے تھے‘ نائیجیریا کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں تربیت حاصل کرتے تھے‘ متحدہ عرب امارات نے اسٹارٹ ہی پاکستان سے لیا تھا‘ ایمریٹس ایئرلائن کا مخفف آج بھی ای کے ہے اور ای ایمریٹس سے لیا گیا اور کے کراچی سے‘ دنیا کی یہ بڑی ایئرلائن کراچی سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور ہم نے اسے جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی‘ یو اے ای کے تمام صحرا پاکستانی ہنرمندوں نے آباد کیے لیکن آج یہ کہاں ہے اور ہم کہاں؟ عمان ہمارا دوست تھا‘ آج بھی عمان میں اڑھائی لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں۔

سلطان قابوس پاکستان آتے تھے تو انھیں کراچی کا ڈپٹی کمشنر ریسیو کرتا تھا اور ان کی صدر سے ملاقات کے لیے سفیر کو ٹھیک ٹھاک پاپڑ بیلنے پڑتے تھے‘سنگا پور نے بھی پاکستان سے ترقی کا سفر شروع کیا تھا‘ سنگاپور ایئرلائن ہو یا پھر سنگا پور پورٹ یہ پاکستانیوں نے بنائی اور ایک وقت تھا جب لی کو آن یو نے پاکستان کے سب سے زیادہ دورے کیے اور یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور مشہور لوگوں کو جانتے تھے۔

نیدر لینڈ نے 1960کی دہائی میں پاکستان کو ٹیلی ویژن سیٹ بیچے تھے‘ فلپس نیدر لینڈ کا برینڈ ہے‘ پاکستان نے فلپس کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی اور ہالینڈ نے اسے اس وقت کی سب سے بڑی ڈیل قرار دیا تھا‘ اسپین یورپ کا واحد ملک تھا جو ہر قسم کے پاکستانی کو امیگریشن بھی دے دیتا تھا اور کام کی اجازت بھی‘ آج بھی اسپین میں لاکھوں پاکستانی ہیں۔

مونس الٰہی بھی ان میں شامل ہیں اور پیچھے رہ گیا موریشیس تو ہم نے آج تک اسے دوستی کے قابل ہی نہیں سمجھا لیکن یہ تمام ملک اس وقت جی 20 کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھے ہیںاور ہم دور بیٹھ کر انھیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔

ہم اب سعودی عرب کی طرف آتے ہیں‘ دنیا نے ہمیشہ ان دونوں ملکوں کو اکٹھا دیکھا‘ 1979 میں خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تو صرف پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا‘ یمن میں حوثی باغیوں کے ایشو پر بھی پاکستان نے سعودی عرب کی مدد کی‘ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں‘ اس وقت سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا‘ ہمیں مفت پٹرول تک دیا گیا‘ آج بھی پاکستان کے 20 لاکھ ورکرز عرب ملکوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں اور ان کی رقوم سے ملک چل رہا ہے۔

بھارت سعودی عرب اور یو اے ای پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے آپ پاکستانی ورکرز کو نکال دیں ‘ ہم آپ کو سستے اور زیادہ ہنرمند دے دیتے ہیں مگر عرب یہ پیش کش قبول نہیں کر رہے لیکن سوال یہ ہے عرب ممالک کب تک انکار کریں گے؟ہمیں ماننا ہوگا دنیا بدل چکی ہے‘ عرب ملکوں میں نئی نسل اقتدار اور بزنس میں آچکی ہے اور یہ نسل بھائی چارے کے بجائے کاروبار کو اہمیت دیتی ہے‘ یو اے ای میں حکومت نے انویسٹمنٹ کمپنی بنا رکھی ہے۔

یہ کمپنی پانچ سو بلین ڈالر کی مالک ہے اور اس کے کارندے پوری دنیا میں کاروباری مواقعے تلاش کر رہے ہیں‘ یہ ایسے ملازمین کو سال بعد نکال دیتے ہیں جو کمپنی کے پیسے انویسٹ نہیں کرتے لہٰذا ان حالات میں عربوں کو پاکستان میں کیا دل چسپی ہو گی؟ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر حقیقت یہی ہے ہم دنیا اور اپنے دوستوں کی نظروں میں اس قدر بے وقعت ہو چکے ہیں کہ ہم نے سعودی ولی عہد کو بھارت جاتے وقت چند گھنٹے پاکستان میں گزارنے کی دعوت دی مگر ولی عہد تیار نہیں ہوئے۔

دوسری طرف کانفرنس10 ستمبرکو ختم ہوئی مگر ولی عہد 11ستمبرکی رات تک بھارت میں رہے‘ یہ کانفرنس کے بعد بھی بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ انھیں بھارت میں بزنس کے مواقعے نظر آرہے ہیں‘ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت 5 کھرب ڈالر کی تجارت ہے جب کہ ہم جب بھی سعودی عرب جاتے ہیں پیسے مانگنے جاتے ہیں چناں چہ یہ لوگ پھر ہماری عزت کیوں کریں‘ یہ پاکستان کیوں آئیں؟۔

ہمارے پاس اب صرف دو آپشن بچے ہیں‘ ہم ذلالت کے اس گڑھے میں گرے رہیں اور گل سڑ کر ختم ہو جائیں یا پھر ہم غیرت کھائیں اور ایک بار جی ہاں آخری بار اٹھ کر اس ملک کی سمت ٹھیک کر لیں اور عزت کے ساتھ زندگی گزاریں‘ چوائس صرف ہماری ہے تاہم ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا ہم افغانستان سے لے کر امریکا تک پوری دنیا کے لیے بوجھ بن چکے ہیں اور ہم نے اگر آج اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو دنیا زیادہ دیر تک ہمارا بوجھ برداشت نہیں کرے گی۔

یہ ہمیں مرنے اور مٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دے گی‘ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیںہے‘ ہم نے جو کرنا ہے بس چھ ماہ میں کرنا ہے‘ ہم نے کر لیا تو بچ جائیں گے ورنہ اس بار واقعی ہماری داستاں تک بھی نہیں رہی گی!ذلالت کا گڑھا

بھارت سعودی عرب اور یو اے ای پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے آپ پاکستانی ورکرز کو نکال دیں

پی ٹی آئی کے دور میں آرمی چیف اور وزیر خزانہ امداد مانگنے کے لیے ابوظہبی گئے‘ سلطان نے بات سن کر نہایت پتے کی بات کی‘ ان کا کہنا تھا ’’ایک وقت تھا جب آپ کا ہاتھ اوپر ہوتا تھا اور ہمارا نیچے‘ ہم امداد کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔ آج ہمارا ہاتھ اوپر ہے اور آپ کا نیچے‘ آپ ہمارے بھائی ہیں‘ ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں لیکن میرا مشورہ ہے ہم اوپر یا نیچے والا ہاتھ بننے کے بجائے ایک دوسرے سے برابری سے ہاتھ ملاتے ہیں‘ آپ کسی ملک سے امداد نہ لیں‘ آپ ملکوں سے بزنس کریں۔ آپ اس طریقے سے امیر ہوں گے‘‘۔ پاکستانی وفد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیے۔

دوسری مثال سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز کی ہے‘ یہ بادشاہ بننے سے پہلے 48سال ریاض کے گورنر رہے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے سفیر ایڈمرل شاہد کریم اللہ صدر کا پیغام لے کر ان کے پاس گئے۔ شاہ سلمان نے پاکستانی سفیر سے کہا ’’ہم پاکستان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں لہٰذا ہم ہر مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں یہ جذبہ صرف ہم تک ہے‘ ہمارے بچے پریکٹیکل ہیں۔ ہمارے بعد یہ آپ کا خیال نہیں رکھیں گے چناں چہ آپ کے لیے بہتر ہے آپ ہماری زندگی میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں‘‘۔ سفیر نے یہ پیغام من وعن سائفر بنا کر ایوان صدر بھجوا دیا۔

تیسری مثال چین کی ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ 2021 میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے بیجنگ گئے‘ صدر شی نے انھیں صرف دو مشورے دیے‘ آپ ایک ہی بار یہ فیصلہ کر لیں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا یہ یاد رکھیں ترقی اور لڑائی میں ترقی پہلے نمبر پر آتی ہے اور لڑائی دوسرے پر‘ آپ لوگ ترقی پر کمپرومائز نہ کریں۔ بھارت سے لڑیں لیکن پہلے ترقی کریں۔ انھوں نے چین کی مثال دی ’’ہمارے بھارت کے ساتھ 70 سال سے تنازعے چل رہے ہیں‘ ہماری تازہ تازہ جھڑپ بھی ہوئی مگر اس کے باوجود بھارت کے ساتھ ہمارا تجارتی حجم بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ ہم لڑائی کے بعد بھارت سے زیادہ تجارت کر رہے ہیں۔‘‘

آپ تھوڑی دیر کے لیے ان تمام مشوروں کو سائیڈ پر رکھیں اور دہلی میں 9 اور 10 ستمبر کے جی 20 سربراہی اجلاس پر فوکس کریں‘ بھارت نہ صرف دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے بلکہ یہ آج بڑی معیشتوں کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔

دوسری حقیقت جی 20 میں انڈونیشیا‘ جنوبی کوریا‘ میکسیکو‘ جنوبی افریقا اور ترکی بھی شامل ہیں اور یہ پانچوں ملک ہمارے سامنے اس ریس میں شامل ہوئے‘ آپ ترکی کو 2000میں دیکھیں اور اس کے بعد اسے 2010 اور 2023 میں دیکھیں‘ ترکی نے کساد بازاری اور ری سیشن کے باوجود ٹھیک ٹھاک ترقی کی‘ جنوبی کوریا نے 1960 کی دہائی میں پاکستان سے ’’پانچ سالہ معاشی منصوبہ‘‘ مستعار لیا تھا اور اپنے تین سو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس بھجوائے تھے تاکہ یہ ڈاکٹر صاحب سے نوبل پرائز جیتنے کا طریقہ سیکھ سکیں۔

انڈونیشیا ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ملکوں میں سب سے پہلے دہشت گردی اس ملک میں شروع ہوئی تھی‘ 12 اکتوبر 2002 کو دہشت گرد اسلامی جماعت نے بالی میں 204 لوگ قتل کر دیے تھے جس کے بعد انڈونیشیا کی سیاحتی انڈسٹری تباہ ہوگئی لیکن صرف 20سال بعد 2022 میں انڈونیشیا نے جی 20 کی میزبانی کی‘ ایک وقت تھا انڈونیشیا کے سیاست دانوں‘ فوجی سربراہوں اور ارب پتی بزنس مینوں کے بچے تعلیم کے لیے پاکستان آتے تھے لیکن آج وہ کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟

میکسیکو بھی چند برس پہلے تک لاطینی امریکا کا غریب ملک ہوتا تھا‘ اس کا مافیا آج بھی پوری دنیا میں بدنام ہے لیکن یہ بھی اب جی 20 میں شامل ہے اور جنوبی افریقہ 1994 میں آزاد ہوا اور اس سے پہلے وہاں خوف ناک نسلی فسادات ہوئے‘ لاکھوں لوگوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی تھیں‘ آج بھی اس ملک میں گوروں اور کالوں کے درمیان اختلافات ہیں لیکن یہ بھی آج جی 20 میں شامل ہے‘ بھارت نے ان کے علاوہ بنگلہ دیش‘ مصر‘ نائیجیریا‘ متحدہ عرب امارات‘ عمان‘ سنگاپور‘ نیدرلینڈ‘ اسپین اور ماریشیس کو بھی بطور مہمان دعوت دی‘ یہ تمام ملک کبھی پاکستان کے دوست ہوتے تھے۔

بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ پاکستان کی بنیاد ہی بنگالیوں نے رکھی تھی‘ آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکا میں بنی تھی اور 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی‘ ہم نے 1971 میں بنگالیوں کو نالائق‘ پس ماندہ اور گندہ قرار دے کر الگ کر دیا لیکن آج بنگلہ دیش معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے ہے اور یہ جی 20 ملکوں کے ساتھ بھی بیٹھا ہے۔

ہم نے بھٹو دور میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر‘ اردن اور شام کی مدد کی تھی‘ نائیجیریا جیسے درجن بھر افریقی ملک پاکستان سے ٹیکنالوجی سیکھا کرتے تھے‘ نائیجیریا کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں تربیت حاصل کرتے تھے‘ متحدہ عرب امارات نے اسٹارٹ ہی پاکستان سے لیا تھا‘ ایمریٹس ایئرلائن کا مخفف آج بھی ای کے ہے اور ای ایمریٹس سے لیا گیا اور کے کراچی سے‘ دنیا کی یہ بڑی ایئرلائن کراچی سے اسٹارٹ ہوئی تھی اور ہم نے اسے جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی‘ یو اے ای کے تمام صحرا پاکستانی ہنرمندوں نے آباد کیے لیکن آج یہ کہاں ہے اور ہم کہاں؟ عمان ہمارا دوست تھا‘ آج بھی عمان میں اڑھائی لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں۔

سلطان قابوس پاکستان آتے تھے تو انھیں کراچی کا ڈپٹی کمشنر ریسیو کرتا تھا اور ان کی صدر سے ملاقات کے لیے سفیر کو ٹھیک ٹھاک پاپڑ بیلنے پڑتے تھے‘سنگا پور نے بھی پاکستان سے ترقی کا سفر شروع کیا تھا‘ سنگاپور ایئرلائن ہو یا پھر سنگا پور پورٹ یہ پاکستانیوں نے بنائی اور ایک وقت تھا جب لی کو آن یو نے پاکستان کے سب سے زیادہ دورے کیے اور یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور مشہور لوگوں کو جانتے تھے۔

نیدر لینڈ نے 1960کی دہائی میں پاکستان کو ٹیلی ویژن سیٹ بیچے تھے‘ فلپس نیدر لینڈ کا برینڈ ہے‘ پاکستان نے فلپس کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی اور ہالینڈ نے اسے اس وقت کی سب سے بڑی ڈیل قرار دیا تھا‘ اسپین یورپ کا واحد ملک تھا جو ہر قسم کے پاکستانی کو امیگریشن بھی دے دیتا تھا اور کام کی اجازت بھی‘ آج بھی اسپین میں لاکھوں پاکستانی ہیں۔

مونس الٰہی بھی ان میں شامل ہیں اور پیچھے رہ گیا موریشیس تو ہم نے آج تک اسے دوستی کے قابل ہی نہیں سمجھا لیکن یہ تمام ملک اس وقت جی 20 کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھے ہیںاور ہم دور بیٹھ کر انھیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔

ہم اب سعودی عرب کی طرف آتے ہیں‘ دنیا نے ہمیشہ ان دونوں ملکوں کو اکٹھا دیکھا‘ 1979 میں خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تو صرف پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا‘ یمن میں حوثی باغیوں کے ایشو پر بھی پاکستان نے سعودی عرب کی مدد کی‘ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگیں‘ اس وقت سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا‘ ہمیں مفت پٹرول تک دیا گیا‘ آج بھی پاکستان کے 20 لاکھ ورکرز عرب ملکوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں اور ان کی رقوم سے ملک چل رہا ہے۔

بھارت سعودی عرب اور یو اے ای پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے آپ پاکستانی ورکرز کو نکال دیں ‘ ہم آپ کو سستے اور زیادہ ہنرمند دے دیتے ہیں مگر عرب یہ پیش کش قبول نہیں کر رہے لیکن سوال یہ ہے عرب ممالک کب تک انکار کریں گے؟ہمیں ماننا ہوگا دنیا بدل چکی ہے‘ عرب ملکوں میں نئی نسل اقتدار اور بزنس میں آچکی ہے اور یہ نسل بھائی چارے کے بجائے کاروبار کو اہمیت دیتی ہے‘ یو اے ای میں حکومت نے انویسٹمنٹ کمپنی بنا رکھی ہے۔

یہ کمپنی پانچ سو بلین ڈالر کی مالک ہے اور اس کے کارندے پوری دنیا میں کاروباری مواقعے تلاش کر رہے ہیں‘ یہ ایسے ملازمین کو سال بعد نکال دیتے ہیں جو کمپنی کے پیسے انویسٹ نہیں کرتے لہٰذا ان حالات میں عربوں کو پاکستان میں کیا دل چسپی ہو گی؟ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر حقیقت یہی ہے ہم دنیا اور اپنے دوستوں کی نظروں میں اس قدر بے وقعت ہو چکے ہیں کہ ہم نے سعودی ولی عہد کو بھارت جاتے وقت چند گھنٹے پاکستان میں گزارنے کی دعوت دی مگر ولی عہد تیار نہیں ہوئے۔

دوسری طرف کانفرنس10 ستمبرکو ختم ہوئی مگر ولی عہد 11ستمبرکی رات تک بھارت میں رہے‘ یہ کانفرنس کے بعد بھی بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ انھیں بھارت میں بزنس کے مواقعے نظر آرہے ہیں‘ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت 5 کھرب ڈالر کی تجارت ہے جب کہ ہم جب بھی سعودی عرب جاتے ہیں پیسے مانگنے جاتے ہیں چناں چہ یہ لوگ پھر ہماری عزت کیوں کریں‘ یہ پاکستان کیوں آئیں؟۔

ہمارے پاس اب صرف دو آپشن بچے ہیں‘ ہم ذلالت کے اس گڑھے میں گرے رہیں اور گل سڑ کر ختم ہو جائیں یا پھر ہم غیرت کھائیں اور ایک بار جی ہاں آخری بار اٹھ کر اس ملک کی سمت ٹھیک کر لیں اور عزت کے ساتھ زندگی گزاریں‘ چوائس صرف ہماری ہے تاہم ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا ہم افغانستان سے لے کر امریکا تک پوری دنیا کے لیے بوجھ بن چکے ہیں اور ہم نے اگر آج اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو دنیا زیادہ دیر تک ہمارا بوجھ برداشت نہیں کرے گی۔

یہ ہمیں مرنے اور مٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دے گی‘ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیںہے‘ ہم نے جو کرنا ہے بس چھ ماہ میں کرنا ہے‘ ہم نے کر لیا تو بچ جائیں گے ورنہ اس بار واقعی ہماری داستاں تک بھی نہیں رہی گی!

19/09/2023
ویلکم ٹو بہت پرانا پاکستان. نہ خرچہ نہ پرچہ نہ ایکسڈنٹ کا خدشہ
19/09/2023

ویلکم ٹو بہت پرانا پاکستان.
نہ خرچہ نہ پرچہ نہ ایکسڈنٹ کا خدشہ

ھم جناب خالد اقبال صاحب کو ڈپٹی کمشنر  ضلع نوشہرہ   تعیناتی پر  مبارک باد پیش کرتے ھیں۔
19/09/2023

ھم جناب خالد اقبال صاحب کو ڈپٹی کمشنر ضلع نوشہرہ تعیناتی پر مبارک باد پیش کرتے ھیں۔

19/09/2023

پشاورہائی کورٹ نےنوشہرہ میں محکمہ تعلیم میں معذور کے کوٹے پر فراڈ اورجعلسازی سےبھرتی ہونے والا نام نہاد صحافی مشتاق پراچہ کی بیٹی اور بھائی افتخار پراچہ جو کہPST ٹیچرگریڈ 7سے16غیر قانونی ترقی اور پبلک سروس کمیشن کاامتحان پاس نہ کئے بغیر ADEOپوسٹ پر غیر قانونی تقرری کی گئی جس پرصوبائی گورنمنٹ۔سیکٹری ایجوکیشنDEOp.DEOmڈپٹی کمشنر نوشہرہ اورفنانس سمت 8فریقین کو نوٹسزز جاری معزز عدالت کے دو روکنی بینچ نے تمام محکموں سے وضاحت طلب بلی کی ماں کب تک خیر منائی گی

Passenger Bus, Khyber Pass, October 1990. ان بسوں پے لوگوں کو جلدی نہیں ہوتی تھی يا پھر اس وقت لوگوں میں صبر اور تحمل زی...
25/03/2023

Passenger Bus, Khyber Pass, October 1990.
ان بسوں پے لوگوں کو جلدی نہیں ہوتی تھی يا پھر اس وقت لوگوں میں صبر اور تحمل زیادہ تھا پرانی و سنہری یادیں

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم ....تاریخ اور ادب کے طلبہ طالبات کے لئے نادر تحفہ۔۔۔۔۔"جمال خان خٹک عرف فقیر بابا...
25/03/2023

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم ....تاریخ اور ادب کے طلبہ طالبات کے لئے نادر تحفہ۔۔۔۔۔
"جمال خان خٹک عرف فقیر بابا" فقیر خیل
جمال خان خٹک ، جو جمیل بیگ اور فقیر بابا کے نام سے بھی مشہور ہیں دسویں صدی ہجری کے مغلیہ دور میں خیبر پختونخواہ کی اہم سیاسی شخصیت شہباز خان خٹک کے ہاں پیدا ہوئے ۔ خوشحال خان خٹک کے بھائی تھے ان کی تاریخ وفات 1116 ہجری ہے ۔ خوشحال و جمال کا خاندان اپنے وقت کا سردار اور رزم و بزم کا خاندان تھا جبکہ جمال خان نے فقیری اختیار کی ۔ روایات کے مطابق ایک مرتبہ حضرت کاکا صاحب علیہ الرحمۃ اپنے مریدوں کے جلو میں آبادی سے باہر ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے ۔ ایک مرید نے عرض کیا کہ 249249 جنت کے سوار کیسے ہوں گے ،، ؟ ۔ حضرت کاکا صاحب نے نظر اٹھائی تو سامنے جمیل خان خٹک اپنے خوبصورت گھوڑے پر سوار شکار کے لیے چلے آرہے تھے ۔ کاکا صاحب نے جمیل خان خٹک کی طرف اشارہ کیا اور اپنے مرید سے کہا کہ یہ سامنے دیکھو جنت کے سوار ایسے ہوں گے ۔ حضرت کاکاصاحب کے منہ سے یہ سنتے ہی جمیل خان خٹک کی کیفیت بدل گئی گھوڑے سے گر گئے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب حواس بحال ہوئے تو کاکا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے نوکروں کو واپس کیا خانی کا لباس اتار کر درویشی کا لباس زیب تن کیا تو حضرت کاکا صاحب نے فرمایا کہ بس اب تم 249249 فقیر ،، ہوگئے ہو ۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے 249249 فقیر بابا ،، کے نام سے شہرت پائی ۔خاورئی اور درگئی سے مغرب کی طرف اور چشمئی سے جنوب کی طرف تنگاڑوُ کے مقام پر ان کا مزار واقع ہے ۔ فقیر خیل خاندان میں بڑے نامی گرامی علمی سیاسی اور سماجی شخصیات گزری ہیں جن میں سے بیشتر خیبر پختونخواہ کے طول و عرض میں مقیم ہیں ۔ انجمن اتحاد فقیر خیل کے صدر چشمئی کے میاں فردوس شاہ فقیر خیل نے ان کا شجرہ نصب مرتب کیا ہے ۔
فقیر بابا چونکہ پشتون تاریخ کے درخشندہ ستارے خوشحال خان خٹک کے بھائی تھے اس لیے پشتون تاریخ کی تمام کتابوں میں ان کا تذکرہ موجود ہے ۔ مثال کے طور پر
تاریخ مرصع ۔ افضل خان خټک
پښتانه د تاریخ په رنړا کښي ۔ بہادر شاہ ظفر کاکاخیل
خوشحال خان خټک ۔ دوست محمد خان کامل
پشتون کون ؟ ۔ پریشان خټک
پشتو ادب ۔ صدیق اللہ ریښتین
پښتانہ شعراء ۔ حبیبی صاحب
مناقب د جمال خان ۔ میاں شمس الدین کاکا خیل ۔ ترتیب وتحقیق راجولی شاہ خټک
اور ایسے بہت ساری پشتو کی تاریخی کتب میں جمال خان خٹک کے حالات زندگی کے بارے میں تفاصیل موجود ہیں ۔
اگرچہ ان کے مزار پرلوگوں کی آمد و رفت صدیوں سے جاری تھی لیکن یہاں باقاعدہ لنگر ،کمروں ،پانی و بجلی ، مہمان خانے اور دربار کی تعمیر موضع جلبئی کے زردان شاہ باچا کی آمد سے ہوئی ۔ ربع صدی پہلے وہ یہاں آئے یہاں چلہ کاٹا اور پھر یہیں کے ہو کررہے اور اپنے آپ کو فقیر بابا کے دربار کی خدمت کے لیے وقف کردیا ۔ آج کل ملی خیل پایاں کا نیازبین خان ان کا خلیفہ ہے جبکہ فقیر بابا کی اولاد میں سے بیشتر یہاں سے نہال پورہ اور کُنڈ منتقل ہو گئے ہیں صرف افسر جان اور خان محمد سمیت یہاں چند خاندانوں کی سکونت ہے ۔
مرور ایام میں بعض تبدیلیاں ایک فطری امر ہے جہاں دوسرے مزارات پر آمدورفت کم ہورہی ہے فقیر با با لوگوں کی آمد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے شاید اس میں کھلی فضاء ، سرسبز ماحول اور سہولیات کا بھی اثر ہو جمعہ اور اتوار یا چھٹیوں اور عیدین میں تو یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ۔ سال کے ہر اسلامی مہینے صفر کے آخری جمعرات کو فقیر بابا کا سالانہ عرس میلہ لگتا ہے اس میلے میں اور عام دنوں میںیہاں لوگوں کی آمد و رفت سے بعض چیزیں ہمارے دین و مذہب ، ملکی قوانین اور روایات سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ بعض امورخوشحال خان خٹک کی غیرت ، فقیر بابا کے فقر اورفقیر خیل قوم کی عزت وقارکے خلاف ہیں لیکن چونکہ یہاں اس مقام کو اگر ایک طرف مذہبی تقدس حاصل ہے تو دوسری طرف سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہے اور بیشتر سیاسی شخصیات یہاں آتی رہتی ہیں اس لیے ادارے بھی چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
فقیر خیل قوم جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ اس میں بڑی بڑی شخصیات موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے جد امجد کے وقار میں اضافہ کرنے کے لیے یہاں سالانہ عرس کی سرپرستی اور نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس میلے کو ایک علاقائی ثقافتی میلہ بنائیں جہاں شعر و ادب کی محفلیں ہوں دوڑ ، نشانہ بازی کے مقابلے اور مختلف قسم کے علاقائی کھیلوں کی نمائش ہو اور یہاں ایک عظیم الشان مسجد، لائبریری اور مدرسہ تعمیر کریں تاکہ یہاں سے لوگ خوشحال خان خٹک کے ننگ اور جمال حان خٹک کے پرہیز گاری کادرس حاصل کرسکیں ۔

سُر پل [لال پُل]  نوشہرہ کی ایک نایاب تصویر جب یہ  عام گزر گاہ تھی ۔ اس پل پر مسافر ٹرانسپورٹ بھی رواں دواں رہتی تھی ۔او...
20/03/2023

سُر پل [لال پُل] نوشہرہ کی ایک نایاب تصویر جب یہ عام گزر گاہ تھی ۔ اس پل پر مسافر ٹرانسپورٹ بھی رواں دواں رہتی تھی ۔اور ریل گاڑی بھی ریل گاڑی گزرنے سے کچھ دیر قبل مسافر ٹرانسپورٹ روک دی جاتی تھی ۔

‏پیدل چلنے کے لیے دنیا کی سب سے لمبی سڑک، کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) سے مگدان (روس) تک ہے۔  ہوائی جہازوں یا کشتیوں کی ضرورت...
30/11/2022

‏پیدل چلنے کے لیے دنیا کی سب سے لمبی سڑک، کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) سے مگدان (روس) تک ہے۔ ہوائی جہازوں یا کشتیوں کی ضرورت نہیں، اس پر پل ہیں۔ یہ 22,387 کلومیٹر (13911 میل) طویل ہے اور اسے سفر کرنے میں 4,492 گھنٹے لگتے ہیں۔ اس پر 187 دن نان اسٹاپ پیدل چل کر عبور کیا جا سکتا ہے۔ ‏یا دن میں 8 گھنٹے پیدل چلیں تو561 دن کا سفر ہوگا۔ راستے میں آپ 17 ممالک، چھ ٹائم زونز اور سال کے تمام موسموں سے گزرتے ہیں

ایک درویش حضرت مولانا شیر علی شاہ مدنی مرحوم و مغفور کا سفرِ آخرت ۔ حامد میریہ ایک ناقابل فراموش جنازہ تھا، یہ ایک ایسے ...
06/11/2022

ایک درویش حضرت مولانا شیر علی شاہ مدنی مرحوم و مغفور کا سفرِ آخرت ۔ حامد میر

یہ ایک ناقابل فراموش جنازہ تھا، یہ ایک ایسے عالم کا جنازہ تھا جس نے اپنی موت کے بعد بھی اپنے جنازے کے زریعے مجھ ناچیز کے علم میں اضافہ کیا،اس جنازے میں شرکت سے مجھے اصلی حکومت کی جھلک دیکھنے کا موقع ملا، مجھے پتا چلا کہ اصلی حکمران وہ نہیں ہوتے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر حکم جاری کرتے ہیں،اصلی حکمران تو وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور مجھے ایک ایسے ہی بے مثال انسان کے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جو تمام عمر اقتدار کے ایوانوں سے دور رہالیکن وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا تھا،میری گنہگار آنکھوں نے مختلف سیاسی رہنماؤں کے جنازوں میں بڑے بڑے ہجوم دیکھے ہیں لیکن میں نے اور آپ نے کسی ایسے درویش کے جنازے میں اتنے انسان نہیں دیکھے ہوں گے جس کی موت کی خبر نہ کسی ٹی وی چینل کے لئے بریکنگ نیوز تھی اور نہ ہی کسی بڑے اخبار کے صفحہ اول کی زینت بن سکی، مجھے بھی یہ خبر ایک دوست کے ایس ایم ایس کے زریعے ملی اگلے روز میں جنازے کے مقام پہنچا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا ،یہ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو ٹھا ٹھیں مارنے کے بجائے غم اور افسردگی کی تصویر بنا ہوا تھا،انسانوں کا سمندر دیکھ کر مجھے علم ہوا کہ میڈیا کی طاقت کے دعوے سوائے فریب کے کچھ نہیں،طاقتور لوگوں سے خوفزدہ رہنے والا میڈیا کئی خبروں کو مصالحے دار چاٹ بنا کر بیچتا رہااور بلدیاتی انتخابات میں ہونی والی قتل و غارت پر بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخ و پکار کرتا رہا
۔
اس میڈیا نے اپنے عہد کے ایک جید عالم دین ،ایک قلندر اور ایک محسن قوم کی موت کی خبر کو چند سکینڈ کے لئے بھی اہمیت دی اور نہ جنازے کا وقت بتایا لیکن جنازے میں انسانوں کے سمندر کی موجودگی دراصل خلق خدا کی طرف سے میڈیا کی طاقت سے انکار کا اعلان تھا،اصل طاقت ان لوگوں کے پاس نہیں جو میڈیا پر نظر آتے ہیں ،اصل طاقت ان لوگوں کے پاس ہے جو طاقت حاصل کرنے کی خواہش سے آزاد رہ کر لوگون کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں،ایسے ہی ایک عظیم انسان کا نام مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ تھا جو 29 اکتوبر 2015 کو بعد از نماز جمعہ اکوڑہ خٹک میں انتقال کر گئے،ڈاکٹر صاحب نے تمام عمر علم کی روشنی پھیلائی اور ان کاجنازہ بھی یہ روشنی پھیلا رہا تھا، انہوں نے تمام زندگی ایک عام انسان کی طرح گزاری لیکن جنازے پر پتا چلا کہ وہ تو اپنے وقت کے بہت بڑے حاکم تھے،جو لاکھوں کروڑوں دلوں پر حکومت
کرتے تھےلوگ اپنے اس حکمران سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے،
۔
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے جنازے میں کوئی وی آئی پی شریک نہ تھا،کوئی وزیر یا مشیر بھی نظر نہیں آیا لیکن عام لوگ دور دور سے آئے تھے،کراچی اور کوئٹہ کے علاوہ افغانستان کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد 30 اکتوبر کی صبح گیارہ بجے جنازے میں شرکت کے لئے اکوڑہ خٹک پہنچ چکی تھی،کئی لوگ مرحوم کی مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی بخشوانے آئے تھے،لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا شیر علی شاہ صاحب صرف ایک عالم ہی نہیں بلکہ ولی اللہ تھے اور ولی اللہ کے جنازے میں شرکت سے ان کے گناہ بخشے جائیںگے،سینئر صحافی جناب رحیم اللہ یوسف زئی اس جنازے میں شرکت کے لئے پشاور سے نکلے تو جی ٹی روڈ پر انسانوں کلا جم غفیر تھا،بڑی مشکل سے اوکاڑہ خٹک پہنچے تو مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے لئے لوگوں کی عقیدت اور وارفتگی دیکھ کر حیران رہ گئے،جنازے کی طرف رواں دواں ایک شخص سے پوچھا کے تم کہاں سے آئے ہو؟اس نے کہا کہ وہ افغانستاں سے آیا ہے،پوچھا کیا تم ڈاکٹر شاہ صاحب کے شاگرد ہو؟اس نے جواب نفی میں دیا،پوچھا کیا تم زندگی میں کبھی ان سے ملے تھے؟اس کا جواب نفی میں تھا،پوچھا تم اتنی دور سے کیوں آئے ہو؟اس افغان نے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ولی اللہ تھے،ان کے جنازے میں شریک ہو کر ثواب کما نا چاہتا ہوں،رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے جنازے دیکھے ہیں لیکن مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کا جنازہ سب سے بڑا تھا،مولانا سمیع الحق کو دارالعلوم حقانیہ سے کچھ ہی دور واقع میدان میں جنازے کے لئے پہنچنا تھا لیکن یہ چند سو گز طے کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہوگیا تھا،وہ جناز گاہ میں پہنچے اور چاروں طرف نظر دوڑائی تو بے اختیار کہنے لگے کہ یہ جنازہ جنرل ضیاءالحق کے جنازے سے بہت بڑا ہے،مولانا شیر علی شاہ صاحب کے جنازے کی عظمت کو بیان کر کے مولانا سمیع الحق کو کوئی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ خدشہ ہے کہ کچھ لوگ ناراض ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود مولانا سمیع الحق نے درجنوں علماء کی موجودگی میں جو کہا وہ ان کی حق گوئی اور خدا خوفی تھی،ایک اصلی حکمران کی شان و شوکت کا اعتراف تھا،
۔
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دارالعوم حقانیہ ا کوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث تھے،انہوں نے مولانا عبدالحق کے ساتھ مل کر اس مدرسے میں پڑھانا شروع کیا اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے مدینہ یونیورسٹی چلے گئے،مدینہ یونیورسٹی میں انہوں نے حسن بصری کی تفسیری روایات پر پی ایچ ڈی کی،یہ پی ایچ ڈی ان کے لئے مشکل نہ تھی کیونکہ وہ اردو اور پشتو کے علاوہ عربی،فارسی اور انگریزی پر بھی خوب دسترس رکھتے تھے لیکن انہوں نے اس پی ایچ ڈی پر ضرورت سے زیادہ سال لگا دئے،وجہ صرف یہ تھی کہ وہ مدینہ کی محبت میں گرفتار تھے اور مدینہ میں اپنے قیام کو لمبا کرنے کے لئے کئی دفعہ جان بوجہ کر امتحان میں فیل ہو جاتے،مدینہ سے واپسی پر کراچی اور میران شاہ کے مدارس میں کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد واپس دارالعلوم حقانیہ ا کوڑہ خٹک آگئے اور مرتے دم تک اس ادارے سے وابستہ رہے،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سیرت و کردار میں ایک حقیقی استاد تھے ،مولانا سمیع الحق کی سیاست سے دور رہتے لیکن دارالعلوم حقانیہ کی علمی و تدریسی سرگرمیوں میں آگے آگے رہتے،موت سے چند لمحے پہلے انہوں نے اہل خانہ کے علاوہ ایک خط مولانا سمیع الحق کو بھی لکھا اور ان کے مدرسے کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا،
۔
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے ساتھ میری ذاتی نیاز مندی بہت پرانی تھی،کئی سال قبل راولا کوٹ میں ایک کشمیر کانفرنس میں مجھے ان کے ہمراہ خطاب کا موقع ملا تو میں ان کی علمیت کا پرستار بن گیا،وہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی بہت مثالیں دیا کرتے تھے،ڈاکٹر صاحب بتایاکرتے تھے کہ پاکستان کے قیام کے وقت ان کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پاکستان کے حق میں نارے لگایا کرتے تھے،پاکستان ان کے ایمان کا حصہ تھا اور وہ پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے تھے،2007ء میں لال مسجد آپریشن کے بعد دینی طبقے میں عسکریت اور تشدد نے زور پکڑا تو مولانا شیر علی شاہ صاحب سے پاکستان کے اندر عسکریت کا راستہ روکنے کے لئے بڑے بڑے خطرات مول لئے،انہوں نے قبائلی علاقوں میں جا کر عسکریت پسندوں کو پیار سے بھی سمجھایا اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی،پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے شروع ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں اردو اور پشتو میں بیان رکارڈ کرا کر نشر کروایا،ان کے جنازے پر مولانا فضل الرحمان خلیل نے درست کہا کہ اگر آج پاکستان میں تشدد اور بم دھماکے کم ہوگئے ہیں تو اس میں ضرب عضب آپریشن کے علاوہ مولانا ڈاکٹرشیر علی شاہ صاحب کی ان کاوشوں کا بھی دخل ہے جن کا میڈیا پر کبھی ذکر نہیں ہوا،کچھ علما ڈاکٹر صاحب کی پاکستان نوازی سے اختلاف کرتے تھے لیکن انہیں بھی ڈاکٹر صاحب کے خلوص و نیت پر شک نہیں تھا اور یہ علما بھی مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے جنازے میں شرکت کے لئے آئے،وہ ایک صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی تھے،مشکل سے مشکل حالات میں سچ بولنے سے باز نہ آتے،آخری دنوں میں ان کا جسم بیمار لیکن سوچ نوجوانوں سے زیادہ صحت مند تھی،ڈاکٹر صاحب کی موت نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کی،وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
تحریر ۔ حامد میر

اٹک پل (Red Bridge) کے کچھ خوبصورت کلکس۔پاکستان میں ریلوے اور سڑک کا پل اٹک خورد اور خیر آباد کنڈ کے درمیان دریائے سندھ ...
04/11/2022

اٹک پل (Red Bridge) کے کچھ خوبصورت کلکس۔
پاکستان میں ریلوے اور سڑک کا پل اٹک خورد اور خیر آباد کنڈ کے درمیان دریائے سندھ پر واقع ہے۔ اسے عرف عام میں پرانا اٹک پل کہا جاتا ہے۔ اس پل کا افتتاح 24 مئی 1883 کو ہوا اور 1929 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ پل دو منزلہ ہے۔ اوپری منزل کو ٹرینوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جب کہ نچلی منزل کو گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب یہ پل صرف ریلوے ٹریفک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور گاڑیوں کے لیے نیا پل بنایا گیا ہے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zar Waya Distt Nowshera posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share