Al Rasheed Media

  • Home
  • Al Rasheed Media

Al Rasheed Media Stay with us to get updated with latest Islamic contents.. If you don't want to miss our Articles, v
(8)

سابق وزیر جناب شاہد علی خان کی چھٹی برسی پر خراج عقیدت اور کمبل تقسیمسیتامڑھی/  محمد امین الرشید سیتامڑھی بہار سرکار کے ...
04/01/2024

سابق وزیر جناب شاہد علی خان کی چھٹی برسی پر خراج عقیدت اور کمبل تقسیم
سیتامڑھی/ محمد امین الرشید سیتامڑھی
بہار سرکار کے سابق وزیر شاہد علی خان کی چھٹی برسی پر بدھ کو خراج عقیدت اور قرآن خوانی کی تقریبات کرکے 200 سے زیادہ غریب و لاچار کے درمیان کمبل تقسیم کی گئی
سماجی کارکن و صحافی رام شنکر شاستری مجلس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ایم ٹی ہاسپٹل کے ڈائریکٹر اور سابق وزیر کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ساجد علی خان نے کہا کہ ان کے بڑے بھائی شاہد علی خان صاحب کی پوری زندگی معاشرے کے لیے وقف تھی، وہ غریب اور بے سہارا لوگوں کے بچوں کو تعلیم دلانے اور اپنے ذاتی فنڈ سے اسکالرشپ دیکر بچوں کو آگے بڑھانے انکی قابلیت، صلاحیت کو اجاگر کرنے میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے ہم نے اپنے والد مرحوم بدیع الزماں خان صاحب سے سماجی خدمت کی تعلیم حاصل کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔
محمد شاداب احمد خان نے کہا کہ شاہد علی صاحب نے ضلع میں تین پولی ٹیکنیک کالج اور ایک انجینئرنگ کالج قائم کرکے اعلیٰ تکنیکی تعلیم کا ایک منفرد ادارہ کا قیام کر ضلع کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو تعلیم کی طرف لاکر اچھا کام ہی نہیں کیا بلکہ سیاسی میدان میں ایک اونچی لکیر کھینچی۔
اپنے صدارتی خطاب میں رام شنکر شاستری نے کہا کہ زمین نہ ہونے کی وجہ سے شاہد علی خان نے اپنی جگہ منتقل کردی۔ جانی پور میں اپنی والدہ کے گھر، والد کے نام پر زمین خرید کر پولی ٹیکنک کالج قائم کر سیاست دانوں کے لیے مشعل راہ بنے ۔
آزادی کے بعد وزیر بننے پر انہوں نے اس ضلع میں انجینئرنگ کالج کھول کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ساجد علی خان ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلسل سماجی خدمات میں مصروف ہیں۔
اسی تناظر میں آج خراج عقیدت اجلاس میں کمبل تقسیم کیے گئے۔
پروگرام میں مدرسہ کے درجنوں بچوں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور علمائے کرام نے مرحوم کے لئے ایصال ثواب اور مغفرت کی دعائیں کی ، اس موقع پر محمد نعیم انصاری، مفید احمد خان، نورالحق، وطن جھا، عطا کریم، محمد اشرف، سجیت جھا اور سجیت سنگھ۔ اور آئے ہوئے مہمانوں نے شاہد علی خان کو عوام کا سچا خادم اور غریبوں کا لیڈر قرار دیا۔

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی طرف سے ٹاؤن ہال  میں "رکتاویر سمان سماروہ - 2023" کا انعقاد** تقریب میں میئر، ڈپٹی میئر، ڈاکٹرز...
25/12/2023

سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کی طرف سے ٹاؤن ہال میں "رکتاویر سمان سماروہ - 2023" کا انعقاد*

* تقریب میں میئر، ڈپٹی میئر، ڈاکٹرز، پروفیسرز، سماجی کارکنان اور بلڈ ڈونرز نے اپنے خیالات پیش کیے*

*کم از کم تین بار خون دینے والے 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو اعزاز سے نوازا گیا*
خون کا عطیہ انسانیت کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دربھنگہ میونسپل کارپوریشن کی میئر انجم آرا نے یہ باتیں ٹاؤن ہال میں سوسائٹی فرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام ’’رکت ویر سمان سماروہ - 2023‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور تمام خون عطیہ کرنے والوں کو مبارکباد دی۔
ڈپٹی میئر نازیہ حسن نے بطور مہمان خصوصی کہا کہ آج کا دن شاندار اور یادگار دن ہے۔ اب کسی بھی مذہب یا ذات کے نوجوان مرد و خواتین خون کا عطیہ دے رہے ہیں جو کہ انسانیت کی عظیم علامت ہے۔ یہ بہت ہی نیک عمل ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے بے پناہ راحت ملتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ خون کے عطیات کے لیے زیادہ سے زیادہ لوک آگے آئیں۔ مہمان خصوصی کے طور پر ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اتسو راج نے کہا کہ خون کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں مائیں اور بچے مر جاتے ہیں۔ بلڈ بینک میں ہمیشہ زیادہ خون ہونا چاہیے، تاکہ لاوارث، دور دراز اور غریب مریضوں کو بھی بلاتعطل خون مل سکے۔
ریڈ کراس سوسائٹی کے سکریٹری منموہن سراوگی نے آرگنائزنگ تنظیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ خون عطیہ کرنے والے عظیم ہیں۔ لوگوں کو خون کا عطیہ دینے کے لیے آگاہی اور ترغیب دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ دربھنگہ میں آئی بینک کام کر چکا ہے۔ اس لیے مرنے والے کے اہل خانہ کو بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ عمار یاسر نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے ہمیں عطیہ کرنے کا احساس ملتا ہے۔ اس سے ہماری انا بھی دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے لیے معاشرے کو پہلے آنا چاہیے۔ ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے سونو نے کہا کہ خون دینے والوں کے چہروں پر خوشی ہے۔ وہ کسی ذات، مذہب، رنگ یا علاقے کے پابند نہیں ہیں۔
صدارتی خطاب میں متھیلا یونیورسٹی کے سنسکرت پروفیسر ڈاکٹر آر این چورسیا نے کہا کہ خون کا عطیہ زندگی کا عطیہ اور ایک عظیم عطیہ ہے، جس سے حتمی سکون اور اندرونی خوشی ملتی ہے۔ یہ دکھی انسانیت کے تحفظ اور سماجی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ خون کا عطیہ کرنے سے کسی قسم کی کمزوری یا نقصان نہیں ہوتا بلکہ خون بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کے مفت ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 18 سے 65 سال کی عمر کا کوئی بھی صحت مند شخص ہر تین سے چار ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا ایک یونٹ عطیہ کرنے سے 3 سے 4 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر حادثے کا شکار ہونے والے، آپریشن کے مریض، ڈیلیوری کرنے والی خواتین، بلڈ کینسر کے مریض، تھیلیسیمیا کے مریض یا ہیموگلوبن کی کمی کے شکار افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے خون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی جانوروں اور پرندوں کے خون سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
پروقار تقریب میں 150 سے زائد خون عطیہ کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس اور یادگاری نشانات سے نوازا گیا جبکہ مہمانوں کا استقبال کپڑوں، چادروں اور یادگاری نشانات سے کیا گیا۔ پروگرام میں گریس ہسپتال مدھوبنی کے ڈاکٹر اقبال حسن، ٹارگٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عامر حسن، ایڈوکیٹ محمد اشفاق، بلڈ ڈونیشن فار ہیومینٹی ممبر عبدالمالک، سوسائٹی فرسٹ ممبر ایم کے نذیر، محمد ریحان انصاری، عبدالمالک، ماحولیات سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ دوستو۔سنجے کمار، 21 بار بلڈ ڈونر دیویانگ بیدیا ناتھ کمار، 25 بار بلڈ ڈونر پرکاش جھا، محمد جاوید، بلڈ ڈونر آنند انکت، جئے پرکاش کمار ساہو، منوج کمار، مکیش کمار جھا اور پرناو کمار وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ .
مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوسائٹی فرسٹ کے صدر اور پروگرام کوآرڈینیٹر نذیر الہدا نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تعلیمی اور سماجی تنظیم ہے جو خون کے عطیہ کیمپوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ خون کے عطیہ سے متعلق آگاہی پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے اور خون کے عطیات دینے والوں کو آگاہ کرتی ہے۔ اعزازی تقریبات وغیرہ۔

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات 🖋️ محمد فرمان الہدیٰ فرمان نماز دینِ اِسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے اور اس کی اہمیت ک...
21/12/2023

نماز کی اہمیت اور ہمارے حالات

🖋️ محمد فرمان الہدیٰ فرمان

نماز دینِ اِسلام کی اہم تعلیمات میں سے ایک ہے اور اس کی اہمیت کو ہماری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہایت بلند مقام دیا گیا ہے۔ نماز ایک انسان کی روحانیت کو بڑھانے اور اس کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ نماز کفر اور ایمان کے درمیان ایک دیوار ہے ۔نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے ۔نماز مومن کی معراج ہے ۔نماز جنت کی کنجی ہے ۔ایمان کے بعد نماز ہی کا درجہ ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ نماز کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔ نماز کی اہمیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی عبادت کا ذریعہ ہے اور اس سے توحید (اللہ کی واحدنیت) کا اظہار ہوتا ہے۔ احادیث میں ہے کہ بے شک قیامت کے روز بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔
روز محشر کہ جانگدازبود
اول پرسش نماز بود
پس اگر اس کی نمازٹھیک نکلی تو کامیاب رہا اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نقصان میں پڑے گا اور کامیابی سے محروم ہوگا۔ جہاں بھی اللہ نے نیک بندوں کا ذکر کیا ہے وہاں سب سے پہلے نماز کا ذکر ہے " میرے نیک بندے نماز پڑھتے نہیں نماز قائم کرتے ہیں" (اور کسی چیز کو قائم کرنا یہ ہے کہ اسے اس کا پورا حق دے دیا جائے) نماز کو نماز کا پورا حق دینے کا مطلب یہ ہے کہ نماز مقررہ اوقات میں ادا کیا جائے، نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، نماز کو اطمینان سے ادا کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ نماز کی اہمیت میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ انسان اپنی نیت کو صاف رکھے اور صرف اللہ کے لئے نماز قائم رکھے۔ نماز کے بہت سارے فوائد ہیں۔ جیسے:نماز کی پابندی روحانی تعزیت فراہم کرتی ہے اور انسان کو اللہ کے قریبی ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو سادگی اور تواضع کی طرف لے جاتی ہے اور اسے دنیا کے فتنے، نفس کی اطاعت سے بچاتی ہے۔ نماز کی پابندی سے انسان کی دنیاوی زندگی میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ نماز انسان کو دنیا کے تناؤ اور فشاروں سے دور رکھتی ہے اور دل کو امن و محبت کی طرف منتقل کرتی ہے۔ نماز کی پابندی انسان کو روحانی تربیت دیتی ہے اور ان کی نیک عادات کو بڑھاتی ہے. اس سے ان کی معاشرتی اخلاقی زندگی میں بہتری آتی ہے۔ نماز کی مداومت سے انسان کی ذہانت اور فہم میں افزائش ہوتی ہے، اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہتری سے سمجھتا ہے۔ جہاں نماز پڑھنے والوں کے لئے بہت سی انعامات کی بشارت ہے، وہیں اس کو چھوڑنے، سستی برتنے، اس سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزائیں اور وعیدیں بھی ہیں۔ جس میں سب سے بری سزا یہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ تا ہے، اس کا نام جہنم کےاس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا" دوسری سب سے بڑی سزا جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے۔ "جس نے بغیر کسی عذر کے فرض نمازیں چھوڑ دی اس کا عمل ضائع ہوگیا" دو سزاؤں کا ذکر میں نے کیا ہے واللہ یہ دو سزاؤں کو لکھتے ہوۓ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں حیران ہوں اتنی بڑی بڑی سزاؤں کے باوجود ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کے ہم محض حقیر دنیاوی و ذاتی مفادات کی خاطر نمازوں کو یا تو وقت پر ادا نہیں کرتے ہیں اور یا پھر مکمل طور پر اس کو ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں ۲۴ گھنٹا (24hrs) دیا ہے دن بھر میں ہمارے پاس ۱۴۴۰ منٹ (1440 minutes) ہوتے ہیں اور ایک نماز ادا کرنے میں ۱۵ (15) منٹ سے زیادہ نہیں لگتا ہے اگر ہم پانچ نمازوں کا حساب کریں تو ۷۵ منٹ (75 minutes) ہوتا ہے اور اگر فیصد (persentage %) میں دیکھا جائے تو ہمارے پاس جتنا وقت ہوتا ہے دن بھر میں اسکا صرف ۵.۲ فیصد ( 5.2%) وقت نماز میں لگتا ہے پھر بھی ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ہم اپنے جاب، اپنے کاروبار وغیرہ میں دن بھر کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت لگا دیتے ہیں لیکن اللہ کے لئے (جس نے ہمیں زندگی دی جو ہمیں کھلا پلا رہا ہے جس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائی) ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا
بے شک ہم اپنے وقت کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد (40to 50%) وقت اپنے جاب، کاروبار وغیرہ میں لگائیں یہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اللہ کا حق بھی تو ادا کریں ۵.۲ فیصد (5.2%) وقت جو نماز میں لگتا ہے وہ نماز میں بھی لگائیں۔ ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے میں کلاس ختم کر کے آ رہا تھا ظہر کا وقت ہو چکا تھا تو میں میٹھن پورہ مسجدمیں نمازظہر ادا کرنےکے لئےرکا۔ اس دن میں نے جو منظر دیکھا وہ واقعی قابلِ تعریف اور لائق تقلید تھا، ایک زوماٹو ڈیلیوری بوائے (zumato delevery boy) بالکل وقت پر مسجد میں داخل ہوا سامان ایک کونے میں رکھ کر انہوں نے وضو کیا اور با جماعت نمازِ ظُہر ادا کیا۔ میں حیران تھا کہ ہم کتنی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کے ہمیں وقت نہیں ملتا نماز کے لئے کیوں کہ ہم جاب، کاروبار وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ان سے، انہیں فوڈ ڈیلیور (food deliver) کرنا تھا پھر بھی انہوں نے نماز با جماعت ادا کیا پھر ہمارے پاس کون سی عذر ہے؟ افسوس صد افسوس اللہ کی دی ہوئ ہر چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اسی کا کھاتے ہیں اسی کا پیتے ہیں اسی کی دی ہوئ زمین پر چلتے ہیں لیکن اس کی یاد کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے
اللہ ہمیں ذوق و شوق کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں اپنے مقربین بندوں میں شامل فرماے
آمین یارب العالمین

18/12/2023

اف! بہت برا ہوا
ریحان غنی
ان دنوں پوری امت مسلمہ بہت سنگین دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف ملک میں عدم تحمل اور فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول ہے تو دوسری طرف ہمارے ملی اور مذہبی ادارے بکھر رہے ہیں اور ہماری صفوں میں بری طرح انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے۔ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ امارت شرعیہ ، ادارہ شرعیہ ، جمعیت علماء ،جماعت اسلامی ہمارے بڑے ملی اور مذہبی ادارے ہیں ۔ اان کےعلاوہ ہمارے کئی دوسرے چھوٹے چھوٹے ادارے بھی ہیں ۔ ان سب کی خدمات ہیں۔امت مسلمہ کو ان اداروں پر ناز ہونا چاہئیے ۔یہ ادارے ہمارے اسلاف،ہمارے قابل قدر علماء اور ہمارے بزرگوں کی قیمتی امانت ہیں ۔ انہیں سنبھال کر رکھنا ہمارا ملی ، مذہبی اور دینی فریضہ ہے۔ یہ تمام ادارے اپنی اپنی سطح سے ملت کی فلاح وبہبود، ان کی ترقی اور ان کی شیرازہ بندی کے لئے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں ۔ ان میں بلا شبہ خامیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں ۔ اس سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ ان اداروں اور تنظیموں کو سنبھال کر رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اگر ان میں سے کسی ادارے میں بھی کسی وجہ سے انتشار پیدا ہوتا ہے تو اس پر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئیے ، ان کی کارکردگی اور کاموں کا تمسخر نہیں اڑانا چاہئیے ، ان میں کیڑے نہیں نکالنے چاہیئیں ۔بلکہ انہیں انتشار اور بکھرنے سے بچانے کے لئے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے ۔ امارت شرعیہ بھی ہمارا ایک بڑا اور معتبر ملی اور مذہبی ادارہ ہے۔ ہمارے بزرگوں اور اکابر قوم وملت نے اس کی بنیاد اپنےآشیانوں کو پھونک کر رکھی ہے۔ اس کی تعمیر وترقی میں ان کا خون اور پسینہ بہا ہے ۔ جس طرح تنکا تنکا جمع کر کے پرندے گھونسلے بناتی ہے اسی طرح ہمارے بزرگوں نے گھرگھر،گلی گلی ، قریہ قریہ گھوم گھوم کر اور اپنے تمام ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمارے لئے ایسے ادارے بنائے جو مشکل حالات میں ہمارے کام آ سکیں ۔ آزادی کے بعد اج ہم ایک مرتبہ پھر بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہمارے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے ۔ ہمیں ایک مرتبہ پھر مشتبہ نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے یہ ادارے ہمارے لئے ڈھال ہیں ۔ انہیں ٹوٹنے اور بکھرنے مت دیجئے۔تعمیری کام میں بہت وقت لگتا ہے۔ لیکن تخریب کے اثرات پلک جھپکتے مرتب ہوتے ہیں۔ اسے ہمیں سمجھنا چاہیئے ۔ بدھ کو سوشل میڈیا پر جیسے ہی یہ خبر آئی کہ جھار کھنڈ میں ایک الگ امارت شرعیہ بن گئی اور اس کے امیر بھی منتخب کر لئےگئےتو کچھ حلقوں میں شادیانے بجے لگے۔خوشیاں منائی جانے لگیں ۔ فیس بک پر طرح طرح کے تبصرے ہونے لگے ۔ اس سنگین دور میں ایسا کر کے ہم نے ذہنی طور پر بیمار ہونے کا ثبوت دیا۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اس باغیانہ قدم کی مذمت کی جاتی،اس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا لیکن اس کے برعکس اس معاملے میں عمومی طور پر ہمارا طرز عمل ، خاص طور پر سوشیل میڈیا پر ہمارا طرز عمل انتہائی گھٹیا اور افسوسناک رہا۔اگر ہمارا ملی اور مذہبی پلیٹ فارم بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح ہو جائے تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا؟ جھارکھنڈ تو بہت پہلے سیاسی اور جغرافیائی طور پر بہار سے الگ ہو گیا تھا اب امارت شرعیہ بھی الگ ہو گئی ۔ سیاست میں تو کچھ بھی ممکن ہے ۔ لیکن جو کام اہل سیاست کرتے ہیں وہی کام ہمارے مذہبی اور ملی رہنما کرنے لگیں تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟. اکیسویں صدی کے سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں میں فرق یہ ہے کہ سیاسی رہنما اقتدار کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں، یوپی اے بنا لیتے ہیں ، این ڈی اے بنا لیتے ہیں ،انڈیا بنا لیتے ہیں لیکن ہم اتنے گئے گذرے ہیں کہ اقتدار کے لئے اپنے ہی گھر میں سینددھ ماری کرتے ہیں اور اپنی دکان الگ کھول لیتے ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے ۔اس وقت جو عالمی منظر نامہ ہے اس میں کسی ملی اور مذہبی تنظیم میں انتشار اچھی علامت نہیں ۔اس وقت اتحاد اور تفاق کے ساتھ مل بیٹھ کر ملی ،قومی اور مذہبی مسائل پر غور و فکر کرنے اور قیادت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ہماری بنیاد ہل جائے یہ اچھی بات نہیں ۔ماضی میں علمائےکرام نے ملت کی پریشانیاں دور کی ہیں ،انہیں منجدھار سے نکالا ہے اور ان کی بہترین رہنمائی کی ہے۔ یہ کام آج بھی ہو رہا ہے ۔ لیکن ادھر دیکھا یہ جارہا کہ جو ادارے مضبوط ہیں یا ہو رہے ہیں انہیں منصوبہ بند طریقے سے کمزور کیا جا رہا ہے ۔ پٹنہ کے سبل پور میں معروف عالم دین مولانا محمد قاسم علیہ رحمہ نے ایک مدرسہ قائم کیا ۔یہ جب مضبوط ہو گیا اور جب حضرت مولانا کا انتقال ہو گیا تو اس میں ایسا جھگڑا ہوا کہ مقدمہ بازی اور جیل جانے کی نوبت آ گئی ۔یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ ملک گیر سطح پر ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ خدا کے لئے ذاتی مفاد اور عہدے اور منصب کے لئے اپنی تنظیموں اور اداروں کو کمزور مت بنائیے ۔یقین جانئے ہمارے ادارے کمزور ہوں گے تو پوری امت مسلمہ کمزور ہوگی۔ نفرت ، عداوت، عدم تحمل اور مذہبی منافرت کے اس دور میں ملی اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی پونجی ہے ۔ اسے سنبھال کر رکھنا علمائے کرام کا اولین فریضہ ہے ۔ علماء متحد ہوں گے تو امت بھی متحد ہوگی ۔ جھارکھنڈ میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔ ماضی میں بھی اکابرین ملت میں اختلافات ہوئے ہیں ۔ بہار میں ہی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ڈاکٹر سید ضیاء الہدی علیہ رحمہ جماعت اسلامی سے الگ ہوئے ۔ لیکن انہوں نے جماعت سے الگ ہو کر اپنی کوئی الگ دکان نہیں کھولی۔ بہت پہلے امارت شرعیہ کے بانی ناظم ، مفتی اور اس کے اولین ترجمان "امارت " کے مدیر حضرت مولانا مفتی محمد عثمان غنی علیہ رحمہ بھی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے امارت شرعیہ سے الگ ہوئے لیکن انہوں نے بھی امارت کے متوازی اپنا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا۔یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے نا موافق حالات میں بھی ہمیشہ ملی مفاد کو مقدم رکھا اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے قوم وملت کو نقصان پہنچے۔لیکن آج حالات بدل گئے ہیں ۔ ذاتی مفادات ہم پر حاوی ہیں اور ہم شعوری یا لاشعوری طور پر سازش کے شکار ہو رہے ہیں ۔ ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا چاہئیے اور اتحاد ہم آہنگی کی طرف قدم بڑھانا چاہئے ۔اس پس منظر میں جھارکھنڈ میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیمجوانو!  یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے  محمد توقیر اختر  ( ڈائریکٹر  ریڈینس پبلک اسکول،  دھرم پور،...
18/12/2023

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جوانو! یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے

محمد توقیر اختر
( ڈائریکٹر ریڈینس پبلک اسکول، دھرم پور، سمستی پور )
موبائل:9835289255

اسلامی معاشرہ میں تجرد کی زندگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ اسلام ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ کا قیام چاہتا ہے اورپاکیزگی نکاح کے ذریعے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا تمام نوجوانوں کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا“۔ (النور:۲۳)
اس مضمون کی اور بھی متعدد آیات قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی متعدد احادیث میں نکاح کی تاکید فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا:
ٌ٭ ”نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے کتراتا ہے وہ میرا نہیں ہے“۔
٭ ”کنوارے کی نماز سے شادی کی نماز کئی درجہ فضیلت رکھتی ہے“۔
٭ ”دنیا ایک متاع ہے جس کا بہترین سامان نیک عورت ہے“۔
٭”حضرت انس ؓ کی حدیث سے ارشاد ہوا: جو اللہ سے طاہر و مطہر (پاک و صاف) ہو کر ملنا چاہے، اسے شادی کرنا چاہیئے“۔
٭ ”عورتوں سے نکاح کرو، وہ تمہاری آمدنی میں برکت کا ذریعہ ہونگی“۔
٭”حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ تین اشخاص کی اعانت اللہ اپنے ذمہ لیتا ہے۔ ایک غلام آزاد کرنے والا، دوسرے بنجر زمین آباد کرنے والا اور تیسرے وہ جو خدا کے بھروسے پر شادی کرتا ہے“۔
رسول اکرم ﷺ نے ایک بار نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”نوجوانو ! تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن ہو جاتا ہے۔ ہاں، جو شخص نکاح کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کی شہوانی جذبات کو کم کردے گا“۔ (بخاری و مسلم)
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اور احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جو معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اس میں رہبانیت اور جنسی انارکی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے اسلام نے زنا کے خلاف جتنا سخت محاذ قائم کیا ہے، نکاح کو اتنا ہی آسان بنادیا ہے۔ وہ معاشرہ میں کسی نوجوانوں کو مجرد دیکھنا پسند نہیں کرتا یہاں تک کہ لونڈیوں اور بیواؤں کی شادی کی ترغیب بھی دیتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ و پاکیزہ ترین اور شریف ترین معاشرہ کے سانچے میں ڈھل جائے۔ لیکن افسوس! آج کہیں مال و دولت نے تو کہیں حسن وجمال اور ذات برادری نے مسلم معاشرہ میں نکاح کو مشکل سے مشکل تریں بنا دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کے نکاح کا پیغام پہنچے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو دنیا میں بڑا فتنہ برپا ہو گا‘۔ (ترمذی)
اس فتنہ کی ایک بڑی وجہ ہمارے قائم کردہ معیارات ہیں۔ معیار ایک ایسا جھوٹاپیمانہ ہے جس نے عام مسلمان گھرانوں کو آزمائش میں بلکہ فتنہ میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایک ایسا مکڑی کا جالا ہے جس میں مسلم معاشرہ پوری طرح جکڑ چکا ہے اور جتنا ہی ہاتھ پیر ہلاتا ہے اتنا ہی اسی میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
ذرا سوچئے! آپ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ معیار کہتے کسے ہیں؟ تو آپ کا سیدھا سا جواب ہوگا کہ ’کفو‘ ۔
بہت سے لوگ کفو کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں، حسب و نسب اور ہڈی کی تلاش کے سبب اس سلسلے میں اتنی شدت برتتے ہیں کہ ان کی بہنوں اور لڑکیوں کی زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے حالانکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کی جڑ ہی کاٹ دی ہے یہ فرما کر کہ:
”لو گو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے“۔ (الحجرات)
آج جب ہم معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نائی، دھوبی، لوہار، سبزی فروش، بڑھی وغیرہ یہ ساری ذاتیں مسلمانوں میں بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں اور اونچ نیچ کی بنیاد پر غیر کفو میں شادی بیاہ سے پرہیز ایک ایسا فتنہ ہے جس میں تقریبا سارے ہی مسلمان مبتلا ہیں حالانکہ ہر پڑھے لکھے جانتے ہیں کہ اسلام میں اس تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن پاک تو صاف صاف کہتا ہے کہ فضیلت خاندان اور نسب کو نہیں عمل اور تقویٰ کو ہے۔ آپ پھر بھی خاندان اور شجرہ ٹٹولتے ہیں، ہڈی دیکھتے ہیں اور اپنے مسلمان کہتے نہیں شرماتے حالانکہ آپ کا یہ طرز عمل اسلام کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے اور آپ کے ملی وجود کے لئے اہم ترین خطرہ!
اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو ’خیر امت‘ بنا کر پیدا کیا تھا اور قیامت تک کے لئے سارے انسانوں کو برابر کر دیا تھا۔ کہاں ہے وہ ہدایت جس میں قریش کو غیر قریش اور آل رسول ﷺ کو غیر اہل بیت سے شادی سے منع کیا گیا ہو۔ اسوہٗ رسول ﷺ دیکھ لیجیے۔ امہات المو منین کس شجرے کی بنیاد پر رسولﷺ کے گھرانے میں داخل ہوئی تھیں؟ حضور اکرم ﷺ نے خود اپنے غلام کی شادی قریش جیسے اعلی ترین خاندان کی حسین ترین اپنی پھوپھی زاد بہن سے کر کے وہ ساری رسمیں توڑدی تھیں جن کو ہم اتنی اہمیت دیتے چلے آرہے ہیں۔ آپ کا یہ عمل بہت سے غیر مسلموں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
معیار ہر گز یہ نہیں ہے کہ جب تک ہڈی نہ ملے اور پھر کوئی بڑا افسر یا عہدیدار نہ ملے جس کی تنخواہ بھاری بھرکم ہو تبھی آپ اپنی لڑکی کی شادی کی بابت سوچیں ورنہ اسے بٹھائے رکھیں۔ یاد رکھئے! بلوغ کے بعد دو چار سال سے زیادہ لڑکی کو”معیار“ کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانا اسلام کے احکام کی ہی صریح خلاف ورزی نہیں بلکہ فطرت کے بنائے ہوئے قانون سے روگردانی ہے اور اس کی سزا آپ کو جتنی بھی بھگتنی پڑے کم ہے۔ ہمارے بنائے ہوئے رسوم و رواج سے اسلام کو بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ آخر ایک غیر مسلم کیوں اسلام کرے جب کہ مسلم معاشرے کا جز بننے کے بعد پھر اسے اسی چھوت چھات یا ذات پات سے واسطہ پڑے گا جو خود اس کے مذہب کا جز ہے اگر آپ اپنے حالیہ معیار پر اصرار کرتے ہیں تو بتائیے کہ نو مسلموں کو آپ کن ذاتوں میں بانٹیں گے؟ کوئی راجپوت ہے، کوئی برہمن ہے، کوئی چمار ہے، کوئی تیلی ہے، کوئی موچی ہے! اگر آپ نے ان کے ساتھ تنگ نظری برتی اور اسی طرح ذات اور برادری میں جکڑ کر رکھنے کی کوشش کی تو آپ کا یہ طرز عمل دوسرے ہی دن اسے واپس بھاگ جانے پر مجبور کردیگا۔ آپ کے اندر کون سی خصوصیت یا کون سا امتیاز باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے معاشرے سے کٹ کر آپ کے ساتھ آملیں اور پھر اپنی اسی طرح توہین کرائیں جیسی خود انکے اپنے معاشرے میں ہو رہی ہے۔ اگر اسلام بھی ذات پات اور برادری کا نظام ہے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ وہ غیر مسلم بنے رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری انہی جاہلانہ رسوم اور ناعاقبت اندیشانہ رواجوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلام کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اسلام کی نظر میں سارے مسلمان برابر ہی نہیں بھائی بھائی ہیں۔ کفو کا یہ مفہوم ہر گز نہیں کہ سیدوں کی لڑکی سیدوں میں ہی جائے کسی اور جگہ اس شادی کرنا حرام ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ”عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے۔ ۱۔ مال و دولت ۲۔ حسن و جمال ۳۔ حسب و نسب ۴۔ دین۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ تم دین دار عورت کو حاصل کرو، یہ بات گرہ میں باندھ لو“۔
عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کے رجحانات مختلف ہوتے ہیں۔
۱۔ جو لوگ مال و دولت کے پجاری اور لالچی ہیں وہ مالدار عورتوں سے نکاح کر کے اپنی معاشی پوزیشن کو زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کے پیش نظر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنی ماں کی ساری جائیداد کی وارث قرار پائے گی۔ کوئی اور خوبی اس عورت میں صاحب جائیداد کے علاوہ پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو اس سے ان کو دلچسپی نہیں ہوتی۔
۲۔ انسانی فطرت کا ذوق جمال پسند ہے۔ اس کے ساتھ اکثر افراد کے مزاج میں حیوانی جبلت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بیوی کے انتخاب میں اس کے شباب، تناسب اعضاء اور خوبصورتی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہتے ہیں جو حسن و جمال کا پیکر ہو، چاہے وہ اخلاقی اور دینی حیثیت سے قابل رشک ہو یا نہ ہو اور اس کا خاندان اچھی شہرت کا حامل ہو یا نہ ہو۔
۳۔ بعض لوگ عزت و جاہ کے حصول کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ وہ اپنی جاہ پسندی کی تسکین کے لئے، معاشرے میں نمایاں ہونے کے لئے ایسی لڑکی سے نکاح کرتے ہیں جس کی فیملی معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہو، آپ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ آج معاشرے میں کسے احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
۴۔ لیکن ایک مہذب اور شائستہ آدمی عورت سے نکاح کرنے میں سب سے زیادہ جس صفت کو تلاش کرتا ہے وہ ہے اس کی دینداری۔ وہ اس عورت سے نکاح کرتا ہے جو دیندار ہو خواہ پہلی تین صفتوں میں کوئی صفت اس میں پائی جاتی ہو یا نہ ہو پائی جاتی ہو۔ آپ کا یہ منشا نہیں ہے کہ دوسرے اوصاف۔ حسب و نسب، مال و دولت اور حسن و جمال۔ کو ملحوظ رکھنا گناہ ہے بلکہ آپ ﷺ نے تو بڑی تاکید اور شفقت کے ساتھ اپنے امتیوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر تم دنیا میں کامیاب مسلمان کی طرح ازدواجی زندگی سے مسرت حاصل کرنا چاہتا ہو تو نکاح کے سلسلہ میں تمہیں اس عورت کو اہمیت دینی ہوگی جو دیندار ہو، پاکدامن ہو، سنجیدہ مزاج ہو، نیک سیرت ہو اور دین کے کاموں میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے والی ہو۔
کسی باشعور مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی حسین اور خوبصورت عورت سے شادی کرے جو دین اور اخلاق سے کوسوں دور ہو۔ اور نہ کوئی ہوش مند آدمی یہ گوارہ کر سکتا ہے کہ عورت کے صرف مالدار ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کر لے، اور یہ نہ دیکھے کہ اس کی سیرت کیسی ہے۔ حسن اگر تقویٰ کی رسی سے بندھا ہوا نہ ہو تو کم از کم تین چار خاندانوں کے گھروں کے سکون کو تباہ کر سکتا ہے۔ مال اور دولت کی گھوڑی کو اگر دین کی لگام سے قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ بہت سے کھیتوں کو اجاڑ کر رکھ دے۔
اب ذرا ایک بات اور سن لیجیے! مسلمان میں جن بے جا رسوم نے قدم جما لئے ہیں ان میں سے ایک جہیز یا تلک کی لعنت بھی ہے۔ جہیز کی برائیاں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی لیکن جب وقت آتا ہے تو ہم خود ہی جہیز لینے پر اڑ جا تے ہیں، جہیز بھی تھوڑا قبول نہیں، بنگلہ، گاڑی، ٹی وی، فریز، فرنیچر، برتن وغیرہ کی فرمائش ہوتی ہے اور نقد و کیش الگ سے۔۔۔۔
بہت سے عیار و مکار لوگ تو اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسؤہ مبارک کی مثال پیش کر نے سے بھی نہیں چوکتے۔ کہتے ہیں کہ آخر نبی ﷺ نے بھی تو حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز دیا تھا اور حضرت علیؓ نے اسے قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی تھی اگر رسولﷺ دے سکتے ہیں اور ان کے قریب ترین صحابیؓ اسے قبول کر سکتے ہیں تو ہم تو ان کے گنہگار امتی ہیں، ہم کو لینے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
ہاں! جہیز کے حامیوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن جہیز کے حامیوں کی عقلوں پر ضرور اعتراض کیا جا سکتا ہے جو اتنے بے حیا ہیں کہ جس نبیﷺ کو ان تمام جاہلی رسوم کو ختم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا اپنے اس عمل غلط کو اس نبی سے منسوب کرتے ہیں!!
حضرت محمد ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرہ ؓ کو جو کچھ بھی دیا تھا اس کو بنیاد بنا کر جہیز کو وجہ جواز فراہم کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ آپ ﷺ نے جو کچھ بھی دیا وہ ضرورت کا چند سامان تھا نہ کہ فرمائش کی تکمیل، پھراس حقیقت کو بھی یہ نادان فراموش کر دیتے ہیں کہاگر محمد ﷺ ایک طرف اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے وکیل تھے تو دوسری طرف حضرت علیؓ کے کفیل بھی تھے۔ چچا ابو طالب اور چچی فاطمہ بنت اسود کے بعد حضرت علیؓ کی تمام تر ذمہ داری آپ ہی پر تھی اس صورت حال میں آپ نے جو کچھ بھی دیا اپنی زیر کفالت حضرت علیؓ کو نئی زندگی شروع کرنے کے لئے بنیادی ضرورت کا سامان دیا نہ کہ مروجہ جہیز۔۔۔
پھر اس شرارت کو کیا نام دیا جائے کہ جب لینے کی باری تھی تو نبی ﷺ کی مثال پیش کردیا اور دینے کی باری یعنی مہر کی ادائیگی کی باری آئی تو آنا کانی کرنے لگے۔ مہر کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو گئے یا تو اتنی کم مہر طے کرتے ہیں کہ لڑکی بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے یا اتنی بھاری بھرکم مہر طے کرتے ہیں کہ ادائیگی بس سے باہر ہوتی ہے۔ بہر حال کم ہو یا زیادہ شوہر نامدار کو بھولے بھٹکے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ اس کی ادائیگی کرنی ہے اور پوری عمر اس امید پر گذار دیتے ہیں کہ آخر میں بیوی سے معاف کرالیں گے،گویا ادا کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ذیل کی حدیث رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے:
”جس نے اس طرح شادی کی کہ اس کا مہر ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تو ایسا مرد زانی ہے“
اب آپ میرے چند سوالات کے جواب دیجئے:
۱۔ کیا آپ نے ”مہر“ ادا کردیا ہے؟ جو رسول ﷺ کی سنت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ اس ادا کرنے میں آپ کتنے نیک نیت ہیں؟
۲۔ لڑکی کے باپ یا بھائی کو آپ کی ”خوشی“ کے لئے کتنا مقروض ہونا پڑا ہے؟ اگر اس نے یہ رقم کسی سے سود پر ادھار لی ہے یا گھر کے زیور اور جائیداد گروی رکھ کر پیسے جمع کئے ہیں تو اس کا گناہ آپ کے سر ہوگا یا آپ کی بیوی کے باپ اور بھائی پر؟
۳۔ کیا واقعی نبی ﷺ نے اسی طرح جہیز لیا اور دیا تھا جیسا آج ہم مسلمانوں میں پاتے ہیں؟
چھوٹا موٹا جہیز تو آنکھوں کو بھاتا ہی نہیں ارے محلے والے کیا کہیں گے۔ رشتہ داروں میں تو ناک ہی کٹ جائے گی، میرے فلاں رشتہ دار کو تو اتنا جہیز ملا تھا کہ اٹھا کر گھر تک لانے کے لئے شہر میں مزدور نہیں مل رہے تھے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس نے تقریبا ہر جگہ مسلم معاشرے کو گھن لگا دیا۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی باپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کو کوستا ہوا اسی دن سے جہیز جوڑنا شروع کر دیتا ہے، اگر دو چار لڑکیاں ہو گئیں تو خود کشی کے سونچنے لگتا ہے اس طرح آج بھی لڑکیاں مسلم معاشرہ کا بوجھ بن کر رہ گئی ہیں جس طرح دور جاہلیت میں بوجھ تھیں اور زندہ در گور کر دی جاتی تھیں لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔ آج تو صورت حال اور بھی سنگین ہے، وہ تو پھر بھی کسی حد تک رحم کرتے تھے کہ ایک ہی بار میں قصہ پاک کر دیتے تھے لیکن آج اسے سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جا تا ہے۔
اسی لئے میں خصوصا نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ آگے آئیں اور جہیز کے جائز اور ناجائز ہونے کے چکر میں نہ پڑیں بلکہ آج یہ عہد کریں کہ ہم نہ جہیز لینگے اور نہ دینگے۔ جہیز نہ لیں، ہر گز نہ لیں، میں تو کہتا ہوں کہ اگر لڑکی والے کی طرف سے اصرار ہو تب بھی واپس کردیں۔
نوجوانو! آپ خود مثال بن کر دکھائیں، میرے مخاطب آپ ہیں ہر وہ فرد جو عقل رکھتا ہے اور ہوش و حواس میں اسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ آپ خواہ لڑکے کے باپ یا ولی کی حیثیت رکھتے ہوں یا خود دولہا میاں ہوں۔
جہیز ہر گز مت دیں۔ آپ اپنے ہونے والے داماد اور اس کے گھر والوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ جہیز سے شادی کرنی ہو تو کوئی اور گھر ڈھونڈ لیں۔ ہم تو ’موتی‘ جیسی لڑکی دینگے بس۔
اگر نوجوان یہ طے کر لیں تو انشا ء اللہ ہمارے معاشرے سے یہ لعنت آہستہ آہستہ دور ہو سکتی ہے کیوں کہ اس صورت حال کی وجہ سے نکاح جیسا اہم دینی فریضہ ایک ٹیڑھی کھیر بن کر رہ گیا ہے۔ یہ تمام متذکرہ بالا مسائل نوجوانوں کو تجرد کی زندگی گذارنے کا جواز فراہم کرتے ہیں، لہذٰا ان بوجھل زنجیروں اور طوق سے مسلم سماج کو آزاد کرائیں۔
جوانو ! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا
٭٭٭

🎯 خاندانی نظام اور اس کے مسائل✍🏼 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان او...
17/12/2023

🎯 خاندانی نظام اور اس کے مسائل

✍🏼 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک اکائی ہونے کے باوجود خاندان سے رشتوں کے اعتبار سے جڑا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے خوشی وغمی میں مربوط رہتا ہے، اس ارتباط سے ایک کو دوسرے سے قوت ملتی ہے اس لیے اس کو اسرۃ کہتے ہیں، کیوں کہ اس لفظ میں قوت وطاقت کا مفہوم پوشیدہ ہے۔

میرے علم ومطالعہ کی حد تک قرآن کریم اور فقہاء کرام کے یہاں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے اس کی جگہ آل، اہل وعیال، ذریۃ، ابن، بنت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، موجودہ دور میں اسرۃ کا اطلاق مرد، اس کی بیوی اور اس کے ان اصول وفروع پر ہوتا ہے، جس کا نفقہ اس کے ذمہ ہو، البتہ ابو جعفر نحاس صرف مرد کے پدری رشتہ دار کو ’’اسرۃ‘‘ مانتے ہیں، جو بدیہی طور پر صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول سے سب سے زیادہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں باپ، بیٹا، بھائی، بیوی اور قبائل کا ایک ساتھ ذکر موجود ہے، جن کی محبت زیادہ ا نسان کے دلوں میں جا گزیں ہوتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو خاندان میں یہ سب آجاتے ہیں، البتہ ان میں سے بعض کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں، بعض کی کفالت ضرورتا کی جاتی ہے اور بعض اس دائرے سے بھی باہر رہ جاتے ہیں، لیکن خاندان کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں کا یہ عرف عام ہے اور فقہ میں عرف عام کا بھی اعتبار ہوتا ہے، بخلاف مغرب کے کہ ان کے یہاں فیملی کا مطلب میاں بیوی اور بیٹے، بٹیاں ہوا کرتے ہیں، ان کے خاندان میں والدین کی جگہ نہیں ہوتی ہے یا تو وہ اکیلے رہتے ہیں یا انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے، اسلام میں سماجی زندگی میں جو خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ ہے اس کا والدین کے بغیر کوئی تصور نہیںہے ۔ یہ خاندانی نظام سماج میں دو طرح رائج ہے، ایک مشترکہ خاندانی نظام اور دوسرا انفرادی خاندانی نظام۔

مشترکہ خاندانی نظام میں ایک میاں بیوی کے تمام لڑکے، بلکہ بسا اوقات بھائی اور بچے ان کے بھی ساتھ ہوتے ہیں، اس نظام میں اگر آپس میں الفت ومحبت رہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشیں حائل نہ ہوں تو مشترک ہونے کی وجہ سے یہ بڑا طاقتور ہوتا ہے، لوگ اس کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کی لاٹھی مضبوط ہوتی ہے اورمالی اعتبار سے بھی وہ عموما فائق ہوتے ہیں، اور وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ دیہاتی زبان میں ان سے ’’پھریا نا‘‘آسان نہیں ہوتا اس لیے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں اور ان کی قوت کی وجہ سے ان پر کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔

اس نظام کی چند خرابیاں بھی ہیں، اس میں خاندان کے بہت سارے ارکان دوسرے کی کمائی پر بھرسہ کرنے لگتے ہیں، ایک کماتا ہے اور سب بیٹھ کر کھاتے ہیں، اس کی وجہ سے خاندان کے بہت سارے افراد کاہل ہوجاتے ہیں اور وہ معاش کے حصول میں تگ ودو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

دوسری خرابی اس مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ہے کہ شریعت کے پردہ کے اصول پر عمل یہاں دشوار ہوتا ہے، ایک آنگن اور ایک چہار دیواری میں رہنے کی وجہ سے پردہ کا نظام باقی نہیں رہتا اور کبھی کبھی اس بے پردگی اور غیر محرموں سے اختلاط کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خصوصا آج کے دور میں جہاں رشتوں کا احترام باقی نہیں ہے اور رشتوں کی پاکیزگی کو تار تار کرنے کے واقعات کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں، بظاہر مشترکہ خاندانی نظام میں اختلاط سے بچنا ممکن نہیں ہے۔

تیسرا نقصان یہ ہے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلہ لینے کی قوت کم ہوجاتی ہے اور نفسیاتی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلے گھر کے گارجین لیتے ہیں اور اسی فیصلے پر سب کو چلنا پڑتا ہے، گارجین کے یہ فیصلے کبھی تو مشورے سے ہوتے اور کبھی بغیر مشورہ کے ہی خاندان کے مفاد میں فیصلہ لے لیا جاتا ہے، اس سے خاندان میں اجتماعی مزاج پیدا ہوتا ہے اور سمع وطاعت کی ڈور میں سارے افراد خانہ بندھے ہوتے ہیں یہ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو ہے۔

اس کے مقابلے جو انفرادی خاندان ہوتا ہے، اس میں آپس میں ربط وہم آہنگی کی کمی ہوتی ہے، ایک دوسرے سے حسد اور جلن کا مزاج پیدا ہوتا ہے ہر افراد خود کو آگے بڑھانے کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے، یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوتا ہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی مٹ جاتی ہے اور ترکہ وغیرہ کی تقسیم میں بھی لوگ آنا کانی کرنے لگتے ہیں، اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں خود کمانے کھانے آگے بڑھنے اور اپنے مفادات میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، انہیں سر براہ اور گارجین بننے کے لیے اپنے سے بڑے کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ بڑوں کی موجودگی میں ہی اپنے بیوی، بچوں کے گارجین ہونے کی حیثیت سے بڑے ہوجاتے ہیں، انفرادی خاندانی ڈھانچے میں جھگڑے لڑائی کا مزاج بھی کم ہوتا ہے، اس لیے کہ ان کے ساتھ رہنے والے ان کے دست نگر ہوتے ہیں اور جھگڑے کے لیے دوسراکوئی موجود نہیں ہوتا۔

مشترکہ خاندانی نظام میں ساس، بہو، نند، دیور وغیرہ کے جھگڑے عام ہوتے ہیں، امراء کے یہاں چوں کہ کسی چیز کی محرومی نہیں ہوتی، ان کے یہاں وافر مقدار میں دولت ہوتی ہے، جس سے گھر کا ہر فرد اپنے ذوق کی چیزیں خرید لیتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھتی؛ لیکن اوسط آمدنی والے یا غریب خاندان میں قوت لا یموت کے ساتھ زندگی گذرتی ہے، ایسے میں من پسند آرائشی چیزوں کے لیے گنجائش یا تو ہوتی نہیں ہے او رہوتی ہے تو کم ہوتی ہے، چنانچہ چِک چِک شروع ہوتی ہے اور پورا خاندان اس کی زد میں آجاتا ہے۔

خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے، مرد کی قوامیت اپنی جگہ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’الرجال قوامون علی النسائ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم میں کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اور مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔

مرد کی قوامیت کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عوتوں پر ان کے ذریعہ انفاق مال کو قرار دیا گیا، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں، عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت زر خرید غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے، اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبیں کھڑی کرتی رہتی ہے ۔

مردوں پر گھریلوتشدد کرنے والی عورتوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے، جسے لو’’ میریج‘‘ کے نام پر بیوی بنایا جاتا ہے، محبت، پیار، عشق کبھی اچھی چیز رہی ہوگی، ان دنوں لڑکیوں اور عورتوں کے حوالہ سے یہ ہوسناکی کا دوسرا نام ہے، در اصل یہ جسم کی بھوک ہے، شادی کے بعد جسم کی یہ بھوک مٹ جاتی ہے تو مرد کے ہر کام میں خامی نظر آنے لگتی ہے، پھر حالت یہ ہوجاتی ہے کہ پہلے سال شوہر بولتا رہتا ہے، بیوی سنتی رہتی ہے، دوسرے سال بیوی بولتی ہے، شوہر سنتا ہے اور تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور پورا محلہ سنتا ہے،ا س قسم کی عورتیں اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کر لیتی ہیں اور شوہر اس قدر مظلوم ہوجاتا ہے اس کے لیے گھر میں رہنا محال ہوجاتا ہے، میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں، جس کے شوہر نے ایک مکان میں رہتے ہوئے ڈھائی برسوں سے اپنی منکوحہ کا چہرہ نہیں دیکھا، سارے بچے بھی ماں کے ساتھ ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور شوہر گھر کے بر آمدے کے ایک حصے میں کس مپرسی کی زندگی گذاررہا ہے۔

خاندان کے ٹوٹنے، بکھرنے کے جو اسباب وعلل ہیں، ان میں لڑکیوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری بھی ہے، وہ اپنے شوہر کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں ہیں جو شوہر کو اسے دینی چاہیے، لڑکیوں کے مدارس میں بھی جو کچھ ا نہیں پڑھایا جا رہا ہے اس سے وہ ان بیلنس ہو رہی ہیں، ان میں اپنے حقوق کے تئیں حساسیت زیادہ آجاتی ہے اور فرائض کا خیال باقی نہیں رہتا، اس لیے عالمہ، فاضلہ لڑکیوں میں بھی طلاق کا تناسب کم نہیں ہے ۔ خاندانی نظام میں مرد کی قوامیت تسلیم کرنے کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، ’’ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘ ان دونوں کے درمیان الفت ومحبت رہے گی تو خانگی زندگی پُر سکون گذرے گی، ورنہ گھر جہنم کا نمونہ ہوجائے گا۔ اللہ رب العزت نے گھر کو ٹینشن فری زون بنایا ہے، جس کی طرف ’’وجعلنا بینکم مودۃ ورحمۃ ‘‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے، ہمیں اس اشارہ کی معنویت کو سمجھنا چاہیے۔

🎁 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al Rasheed Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Al Rasheed Media:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share