Awaking news

Awaking news Sindhi,urdu and ENGLISH news, Articals and novels page like share and comment....

26/01/2022

faheem shaikh ne rishwat ki bazar garam kardi

silent msg
03/08/2021

silent msg

14/04/2021

ماھ رمضان پيڪج مرگي 500 رپيا ڪلو واھ رمضان کان اڳ 400 رپيا ھئي راتو رات ريٽ ئي مٽجي ويو جيو

Hidayatullah Bughio8.2.2021 سر مارئي داستان ستون .؛ بيت 9:تن ساڏوھين سڏ مران ڏنگا جنين ڏار؛ڀڻي ساڻ ڀتار پائر پيرون چوندي...
09/02/2021

Hidayatullah Bughio
8.2.2021 سر مارئي داستان ستون .؛ بيت 9:
تن ساڏوھين سڏ مران ڏنگا جنين ڏار؛
ڀڻي ساڻ ڀتار پائر پيرون چونديان.
مارئي ماروئڙن کي ياد ڪري چوي ٿي ته ساڏوھين بنا ڪنھن به ساٿ کي نه ٿي مڃان بيت 10 ۾ به ساڳيو ذڪر آھي بيت ھن طرح آھي :
پاڻھ پچي پيئون رء واھيت رء واڙ
جوء ڪشادي جيڏيين ملير موڪ مھاڙ ؛
ات اباڻاجنھن جا سا ماڙي چاڙھ؛
جي اڪنڍيون آراڙ لوھ تنيين کي لاھين؛ ””واڙ“ لوڙھو رڍن ٻڪرين يا مال کي جتي ٿانيڪو ڪبوآ تنھن واڙ چئبو آھي جھن کي چوڌاري لوڙھو ڏنل ھوندو آھي . ”” پاڻھ پچي“ ساڏوھيون بنا ڪنھن رک يا واڙ جي پاڻھ پچي پييون آھن ؛” موڪ“ موڪري ؛ ڪشادي ”” مھاڙ“ آڳو مھاڳ ؛ ”” جوء ڪشادي “ ملير منھجي جيڏين ساھيڙين جي رھڻ ؛ گھمڻ ڦرڻ لاء ڪشادي آھي ڇو ته وڏا ميدان سندن مھاڳ ۾ آھن مارئي جنھن کليل ميدان ۾ گزاريو ھو تنھن جو ڪوٺين ۾ من منجھيو پوي تنھن ڪري ديس ملير جي موڪرن ميدانن کي پئي ساريان:: بيت 11:
در دروازا دريون ھاڻي ھتي ھو
ڪوڙيين اڏيا ڪيترا تنبو مٿان تو
جي مل نه آيا مارئي! تنين رڙ م رو
ڪو ڪٽ آھي ڪو پسي پنھوارن ۾ ؛
ھن بيت ۾ عمر مارئي ھرکائي چوي ٿو ته ” تنھنجي مائٽن ته توکي مورڳو من تان ميٽي ڇڏيو آھي سوھاڻي مون ئي رھي پؤ! ” تنين“ تن لاء ”” ڪوڪٽ آ“ ھل ھنگامو ويڌن ” پسي پنھوار “ پنھوارن جي پسي تي گزران ڪن ٿا؛ ” ڪوڪٽ آھي“ پنھوارن سان ڪا ويڌن ٿي ڏسجي جو تنھنجي سار سنڀال نه لڌي آٿن .
بيت 12: سنھيء سئيء سبيو مون ماروء سين ساھ ؛
ويٺي ساريان سومرا! گولاڙا ۽ گاھ
ھيون منھنجو ھت ٿيو ھت مٽي ۽ ماھ؛
پکن منجھ پساھ قالب آھي ڪوٽ۾
ھن بيت ۾ مارئي عمر کي مٿيئين بيت جو جواب ڏي ٿي ” سنھي سئي“ مون پنھنجو روح ماروء سان محبت جي سنھي سئيء سان بخيو ھڻي ڳنڍي ڇڏيو آھي ؛ سو مرڻ کي مري ويدس پر ساڻس يعني مارو کيت سان سنڱ مور نه ڇندس؛ سنھي سئي سان بخيو ياٽوپو ھڻبو آھي ته ڪپڙو ڦاٽڻ کي ڦاٽي ويندو پر بخيو نه اڊڙندو آھي. محبت جو پيوند به پڪو ۽ مظبوط آھي ؛عمر! ڇابه ڪر پر منھن جي ماروء سان محبت کي ٽوڙي نه سگھندين ”” قالب“ بدن جسم منھنجو جسم به ماروء جي محبت ۾ قيد آھي تنھنجو قيد ماري ڇڏيندو پر ماروء جي محبت ۾ موت سدا زندگي ڏيندو. بيت 13
سنھيء سبيو مون ماروء سين من ؛
ھڻي کڻ حلم جا تھ وڌائين تن
ڪن ٽوپايا ڪن اباڻي ابر رء { الف کي زير ب ر کي زبر}
”” کڻ“ بخيا ٽوپا ” حلم“ نرمي مھر ”” تھ“ قابو ڪرڻ {سنڌي اصطلاح} جينء رلي جي ٻن تھن ۾ ڪپھ قابو ڪبي آھي تينء منھن جومن به ماروء جي من۾ قابو آھي . ” ھڻي کڻ“ مارئيء مٿي چيو آھي ته ” ماروء منھن جو من سنھي سئي سان سبي ڇڏيو آھي “ ته ھت چوي ٿي ته ” ماروء نه فقط منھن جو من قابو ڪيو آھي پر مھر جا بخيا ھڻي منھن جو تن جسم به قابو ڪيو آھي“ ابر“ سئي“ عربي لفظ ابرة مان ورتل آھي“ ڪنء ٽوپايان“ اباڻي سئي کان سواء ڪينء پنھنجا ڪن ٽوپائي انھنن ۾ عمر جا ڳن پايان؟ عشق محبت جو عجيب داستان آھي جنھن ۾ ملير ديس جي به محبت فرش کان عرش تائين پکڙيل آھي جنھن کي سمجھڻ عام ماڻھوء جي شعور کان مٿي آھي.

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ) افسانہ نمبر 305 : رادھا آج نہیں پکائے گی ۔۔۔پوربی باسو کی بنگالی کہانی انگریزی س...
29/05/2020

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 305 : رادھا آج نہیں پکائے گی ۔۔۔
پوربی باسو کی بنگالی کہانی
انگریزی سے اردو ترجمہ : ڈاکٹر فاطمہ حسن (کراچی)

صبح رات کے آخری کونے پر معلق ہے۔ نسیمِ سحر آہستہ خرامی کے ساتھ طلوع ہوتی صبح کے گرد منڈلا رہی ہے۔ بستر پر نیم دراز رادھا شیفالی کے سفید اور نارنجی پھولوں کی خوشبو سانسوں میں بسا رہی ہے۔ گزرنے والی رات معمول کے خلاف پُر سکون رہی ہے— شوہر، ساس اور نند کے مسلسل جھگڑوں سے آزاد۔ اُس کے بدن کی حرارت بھی نارمل ہے۔ اُسے بخار نہیں ہے، طبیعت میں کوئی خرابی نہیں۔ وہ تو تھکی ہوئی بھی نہیں ہے۔ باہر بارش نہیں ہو رہی۔ آسمان صاف ہے— خوب صورت اور نیلا۔ نہ تو زیادہ سردی ہے نہ ہی بہت گرمی۔ رادھا کا اکلوتا بچہ سادھن بھی تندرست ہے۔ شوہر اور بچہ اُس کے پاس ہی گہری نیند سو رہے ہیں۔ بس یوں ہی رادھا نے طے کرلیا ہے وہ آج نہیں پکائے گی۔

رادھا آج نہیں پکائے گی۔

رادھا نے سورج سے کہا، ”ابھی مت نکلو، آج میں بستر میں دیر تک رہوں گی۔“

اُس کو رات سے مخاطب ہونے کا موقع نہیں ملا۔ رات تو گزر چکی تھی جب تک رادھا یہ ارادہ کرتی۔

رادھا نے چڑیوں کو آواز دی اور کہا، ”گاتی رہو، صبح سویرے کے گیت، آج میں بستر پر ہی رہنا چاہتی ہوں اور تمھیں گاتے سننا چاہتی ہوں۔“

اُس نے بادل کو آواز دی اور کہا، ”سورج کی مدد کرو، اُسے اپنی ساڑھی کے آنچل میں چھپا لو۔“

اُس نے شیفالی کے پھولوں کو کہا، ”اپنا جوبن ابھی ختم نہ کرنا، تم تصور کرلو کہ دن ابھی نہیں نکلا۔“

اُس نے شبنم سے کہا، ”گرتی رہو، چھوٹے چھوٹے قطروں پہ، گھاس پر۔“

سورج نے رادھا کو سنا۔ وہ دیر تک آسمان پر نمودار نہیں ہوا۔ بادل نے خود کو پھیلایا اور نیلے آسمان کو ڈھانپ لیا۔

چڑیاں مسلسل گاتی رہیں۔

شیفالی کے غنچے مضبوطی سے شاخوں کو تھامے بہار دکھاتے رہے۔

شبنم کی بوندیں مسلسل گرتی رہیں اور گھاس کو اپنی محبت کے لمس سے نم کرتی رہیں۔

رادھا نے جماہی لی اور اپنے بدن کو بستر پر پھیلا دیا۔

اس دوران گھر میں ہلچل مچی رہی۔ آج ہر ایک دیر سے اُٹھا۔ اپنے حساب کے پہاڑے اور ہجے کا سبق بُھلا کر سادھن باہر نظریں جمائے رہا۔

یہ رادھا کے شوہر آیان کے بازار جانے کا وقت ہے۔

اس وقت رادھا کی نند کو سکول جانا ہے۔

رادھا کی ساس نے صبح کی عبادت ختم کرلی ہے اور اب ناشتے کا انتظار کر رہی ہے۔

مگر رادھا ابھی تک بستر پہ ہے۔

رادھا آج نہیں پکائے گی۔

نہیں، وہ نہیں پکائے گی۔

رادھا آج نہیں پکائے گی۔

کیا ہوگیا ہے؟ کیا غلط ہوا ہے؟ کیا آج سب بھوکے رہیں گے؟ میری سمجھ میں نہیں آرہا، کیا معاملہ ہے؟ ساس، نند، شوہر— سب حیران ہیں۔

رادھا کو پروا نہیں۔ وہ آہستہ سے بستر سے اُٹھی۔ اُس نے ایک کونے سے بالٹی اٹھائی اور کاہلی سے تالاب کی طرف چلی۔

”کیا میرا بیٹا آج کام پر بھوکا جائے گا؟“

رادھا نے جواب نہیں دیا۔ اُس کی ساس کو غصہ آگیا، ”میں پوچھ رہی ہوں، تم نے کہاں سے اتنی سرکشی سیکھی؟ یہ کیا معاملہ ہے؟“

رادھا نے جواب نہیں دیا۔

اُس کی نند اُداس اور حیران ہو گئی۔ رادھا تالاب کے کنارے خاموش بیٹھ گئی اور اپنے پاؤں پانی میں ڈال دیے۔ اُس کے پیچھے ہلچل مچتی رہی۔ ساس کی چیخ و پکار نے لوگوں کو اُس کے گرد جمع کردیا۔ رادھا لاتعلق رہی۔ وہ پانی پہ نظریں جمائے بیٹھی رہی۔

چھوٹی مچھلیاں، پُٹی، بجُوری، کجلی، جھرمٹ میں آکر رادھا کے پاؤں کے پاس جمع ہوگئیں۔

چلی جاؤ— آج مجھے چھوڑ دو، میں تمھارے لیے کھانا نہیں لائی ہوں۔

لیکن مچھلیاں خوشی سے اُچھلتی رہیں۔ اُن کے لیے رادھا کی موجودگی ہی کافی تھی۔ اُنھیں اور کچھ نہیں چاہیے۔

رادھا نے آسمان کی طرف دیکھا۔

سورج اُس پر ہنسا، ”کیا تم ناراض ہو؟“ سورج نے پوچھا۔

”تم نے کیوں کچھ دیر اور انتظار نہیں کیا۔“ رادھا نے خفگی اور دکھ کے ساتھ پوچھا۔

”تم کھیت پر نظر ڈالو تو اندازہ ہوجائے گا کہ اگر میں مزید دیر کرتا تو کیا ہوجاتا۔“

تالاب کے قریب بیٹھے بیٹھے رادھا نے سوکھے مرجھاتے کھیت پر نظر ڈالی۔ رادھا فکر مند ہوئی، ”کیا یہ بچ جائیں گے؟“

”بس مسکراؤ، یہ سب زندگی کی طرف واپس آجائیں گے۔“

رادھا کھڑی ہوگئی۔ گول گول گھومتے ہوئے ہنستی رہی— ہنستی رہی۔ اُس نے اپنے بازو پھیلا دیے۔

”رادھا— ہنسو— اور ہنسو— اور ہنسو۔“

اناج کے خوشے اچانک جیسے نیند سے جاگ اُٹھے۔ اُنھوں نے خود کو لہرایا اور سیدھے اونچے کھڑے ہوگئے۔ اچانک رادھا کو پتا چلا کہ اُس کا شوہر اُسے کاندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہا ہے۔ اُس کی ساس غصے میں تپ رہی ہے اور کوس رہی ہے۔

اُس کی نند کھڑی مایوسی سے رو رہی ہے۔

لیکن رادھا مسلسل ہنس رہی ہے— ہنس رہی ہے— ابھی تک ہنس رہی ہے۔

ہوا میں پتّوں کی سرسراہٹ رادھا سے ہم آہنگ ہے۔

تالاب میں پانی کی لہریں خوشی سے ہنس رہی ہیں۔

چڑیاں بڑی نغمگی کے ساتھ یک آواز ہوکر چہچہا رہی ہیں۔ مچھلیاں رقص کرتی، اُچھلتی، تیرتی اور غوطہ لگاتی، پھول شاخوں پر پتّوں کے ساتھ دھیرے دھیرے جھوم رہے ہیں۔

”رادھا ہنسو— ہنسو— اور ہنسو۔“

اُس کے شوہر نے چاول کا خالی برتن پٹخ کر توڑا اور بازار چلا گیا۔

اُس کی ساس نے پوری آواز میں چیخنا چلّانا اور کوسنا جاری رکھا۔

اُس کی نند چپکے سے پڑوس میں جا کر چھپ گئی۔

اُس کا بیٹا سادھن آہستہ آہستہ تالاب کے قریب آیا اور رادھا کے پاس کھڑا ہوگیا۔

لیکن رادھا نہیں پکائے گی۔

وہ نہیں پکائے گی۔

رادھا آج نہیں پکائے گی۔

رادھا نے آہستہ سے اپنا سر گھمایا۔ ایک لمحے کو وہ ڈگمگائی، پھر ساکن ہوگئی۔

رادھا زمین پر بیٹھ گئی۔ پھر وہ فوراً کھڑی ہوگئی۔ اُس کو معلوم ہے کہ وہ بیمار نہیں ہے، اُسے ایک لمحے کے لیے یہ ادراک ہوا کہ زندگی میں سب سے زیادہ نارمل چیزیں بھی کسی کو بیمار کرسکتی ہیں، اس لیے وہ خوف زدہ نہیں ہے۔

”ماں مجھے بھوک لگی ہے۔“ بار بار یہ چیخ جیسے دُور سے سنائی دے رہی ہے— ”ماں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔“

رادھا کے دل میں اضطراب پیدا ہوا۔ ساکت سمندر میں جیسے طوفان آگیا ہو۔ بیٹے کو سینے سے لگا کر رادھا مسلسل پانی کو گھورتی رہی۔ پھر اُس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ اوپر سورج کو دیکھا۔ اُس نے درختوں کو، چڑیوں کو پھولوں کو اور پتّوں کو دیکھا۔ رادھا نے اپنے گرد ہر چیز کو بڑے اشتیاق سے دیکھا۔

ایک کوّا معلوم نہیں کہاں سے آگیا اور ایک پکا ہوا پپیتا رادھا کی گود میں گرا دیا۔

اُس کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر رادھا نے چھیلا اور اپنے بیٹے کو کھلا دیا۔ سادھن کی بھوک کو تسکین نہیں ہوئی۔ رادھا نے سارَس کو آواز دی۔ تالاب کے بیچ اُگے کنول گِٹّے مجھے لا دو۔ کنول گِٹّا رادھا کے بیٹے کی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہے مگر اُس نے تھوڑا سا ہی کھایا۔

”ماں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کیا تم آج پکاؤ گی نہیں؟“

سادھن صرف چار سال کا ہے۔ اُسے بہت بھوک لگی ہے۔ ایک چھوٹا سا پھل اُس کی بھوک کہاں مٹا سکتا ہے۔

”ماں کیا آج تم پکاؤ گی نہیں؟“

اُس کا دل تڑپ اُٹھا۔ وہ مشکل سے برداشت کرتی ہے۔ پھر بھی رادھا کسی طرح کہتی ہے:

”نہیں، رادھا نہیں پکائے گی۔“

”رادھا نہیں پکائے گی۔“

”نہیں وہ نہیں پکائے گی۔“

آج رداھا نہیں پکائے گی۔

سادھن کو سینے سے لگائے رادھا کھلیان کی طرف جاتی ہے۔ وہاں گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتی ہے اور سادھن کو اپنی گود میں لٹا لیتی ہے۔ پھر وہ اپنے چاروں طرف دیکھتی ہے۔ وہاں کوئی بھی قریب نہیں۔

شریفے اور کٹھل کے پتے ہوا میں لہرا رہے ہیں اور رادھا کے سر پر چھتری سی بنا دی ہے۔ رادھا بہت احتیاط سے اپنی چھاتی سے کپڑا ہٹاتی ہے، اُس کے گول پستان آسمان کے نیچے سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں۔ رادھا اپنا بایاں پستان اٹھاتی ہے اور نپل اپنے بیٹے کے منھ میں دے دیتی ہے۔

دائیں ہاتھ سے وہ سادھن کا سر، اُس کے بال، پیشانی، آنکھیں اپنے سینے پر بھینچتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے سادھن مچلتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ نپل کو چوسنا شروع کرتا ہے۔ پہلے وہ بہت نرمی سے چوستا ہے، پھر ذرا سختی سے اور آخر کار وہ اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے کہ اپنی ماں کے جسم سے سارا رس چوس لے۔

رداھا فکرمند ہے۔ رادھا پریشان ہے مگر کچھ نہیں ہوتا۔ اب وہ کیا کرے۔ اپنی پیٹھ سیدھی کرکے دونوں پاؤں سامنے پھیلا کر آرام سے بیٹھی ہے۔

ایک مرتبہ وہ چاروں طرف نظر ڈالتی ہے۔ وہ اپنے دانت کچکچاتی ہے۔ اپنے ہونٹ کاٹتی ہے۔ کسی چیز کے لیے دعا کرتی ہے اور پھر یوں ہوجاتا ہے۔ آبشار کی طرح اُبلتا ہوا دونوں طرف چڑھتے دریا کی صورت کنارے سے چھلکتا سیلانی دھارا سارے بدن کو لرزاتے ہوئے رادھا کے پستان سے نکلنے لگا۔ رادھا نے اپنے بیٹے کا منھ دیکھا۔ سادھن کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔ اُس کے دہانے کے کونے سے سفید دودھ کے قطرے زمین پر گر رہے تھے۔

رادھا ہنسنے لگی۔

سادھن ہنسنے لگا۔

بادل آگئے اور اُنھوں نے سورج کا چہرہ ڈھانپ دیا۔

بگلا ایک پیر پر کھڑا آرام کر رہا ہے۔

ٹھنڈی ہوا نرمی سے چل رہی ہے۔

رادھا ہنسی۔

سادھن ہنسا۔

رادھا نے فیصلہ کیا ہے، وہ آج نہیں پکائے گی۔

وہ نہیں پکائے گی، نہیں پکائے گی۔

رادھا آج نہیں پکائے گی۔

(بنگالی سے انگریزی ترجمہ: نیاز زمان و شفیع احمد)

ماہتاک سنگت کوئٹہ مئی 2020ء

English Title: Radha Will Not Cook Today

Written by :

Purabi Basu is a Bangladeshi short-story writer, pharmacologist and activist. She won Anannya Literary Award in 2005 and Bangla Academy Literary Award in 2013. As of 2005, she has been working as a senior executive at Wyeth Pharmaceuticals, a drug company based in New York.

 #کیرا :میں مرکزی کمرے میں واپس چلی آئی ، جہاں مولانا روم اور شمس تبریز باہم گفتگو تھے۔۔" تمہیں ہمارا رقص دیکھنا چاہیے۔۔...
29/05/2020

#کیرا :

میں مرکزی کمرے میں واپس چلی آئی ، جہاں مولانا روم اور شمس تبریز باہم گفتگو تھے۔۔

" تمہیں ہمارا رقص دیکھنا چاہیے۔۔۔ " شمس تبریز نے مجھے وہاں آتے دیکھ کر کہا۔۔

" کیسا رقص ؟ " میں نے پوچھا۔۔
روحانی رقص کیرا۔۔۔ ایسا جو تم نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔۔

میں نے تعجب سے اپنے شوہر کو دیکھا۔۔ کیا ہو رہا تھا؟ وہ کس رقص کی بات کر رہے تھے۔۔؟

مولانا آپ ایک معزز عالم ہے لوگوں کی تفریح طبع کا سامان نہیں۔۔ لوگ آپ کے متعلق بھلا کیا سوچیں گے۔۔۔؟ یہ پوچھتے ہوئے مجھے اپنا چہرہ سرخ پڑتا محسوس ہوا۔۔۔

" فکر مت کرو۔۔ " مولانا رومی نے کہا ، " شمس تبریز اور میں اس بارے میں عرصے سے بات کرتے آرہے ہیں۔۔ ہم درویشوں کا صوفی رقص متعارف کروانا چاہتے ہیں۔۔ اسے سماع کہا جاتا ہے۔۔ عشق الٰہی کا کوئی بھی طلب گار خوشی سے ہم میں شامل ہوسکتا ہے۔۔ "

میرے سر میں شدید درد شروع ہوگیا ، لیکن درد کا موازنہ میرے دل کے کرب سے نہ کیا جاسکتا تھا۔۔

" کیا ہو ، اگر لوگ اسے پسند نہ کریں ؟ ہر کوئی رقص کو اچھا نہیں سمجھتا۔۔ "

میں نے اس امید میں شمس تبریز سے کہا کہ شاید یہ سن کر وہ اپنی اگلی بات کہنے سے رک جائیں۔۔

" کم از کم اس رقص کو زرا ملتوی ہی کر دیں۔۔؟ "

" ہر کوئی خدا کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔۔ " شمس تبریز نے اسی سانس میں جواب دیا ، کیا ہم اس پر یقین کو بھی ملتوی کر دیں۔۔ ؟ "

اور یوں بحث انجام کو پہنچ گئی۔۔!!

°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
:

" بظاہر حسن دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے۔۔ "

شمس تبریز کہتے ، ہر کوئی رقص دیکھے گا ، مگر ہر کوئی اسے مختلف طور پر دیکھے گا۔۔ سو پریشانی کیسی ؟ کچھ لوگوں کو پسند آئے گا ، کچھ کو نہیں۔۔"

کچھ دیر بعد آواز سنائی دی ، پہلے کہیں دور اور پھر وہ قریب آتی گئی۔۔ وہ اس قدر دلفریب صدا تھی کہ سب سانس روک کر سننے لگے۔۔

" یہ کس قسم کا ساز ہے۔۔ " سلیمان نے ملی جلی مرعوبیت اور مسرت سے سرگوشی کی۔۔۔

" اسے " نے " بانسری کہتے ہیں۔۔ " میں نے بابا اور شمس تبریز کے مابین گفتگو یاد کرتے کہا :

" اور اسکی سدا ، محبوب کے لیے آہ بھرتے محب کی سی ہے۔۔۔"

" نے " کے قدرے دھیما ہونے پر میرے والد سامنے آئے۔۔ نپے تلے قدم بڑھاتے وہ سامنے آئے اور خاضرین کو سلام کیا۔۔

انکے پیچھے چھ درویش نمودار ہوئے وہ سب میرے والد کے شاگرد تھے ، ان سب نے لمبے سفید چغے پہن رکھے تھے۔۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سینے پر باندھے اور دعا لینے میرے والد کے سامنے جھکے۔۔۔

پھر موسیقی شروع ہوئی اور ایک ایک کر کے ، درویش گھومنے لگے ، پہلے آہستہ اور پھر سانس روک دینے والی تیز رفتاری سے ، جس پر ان کے چغے کھل کر کنول کے پھول دیکھائی دینے لگے۔۔۔

وہ قابلِ دید منظر تھا۔۔۔ میں فخر اور خوشی سے مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔

تمام درویش گھومتے رہے ، رقصاں رہے ، جیسے ابد تک۔۔۔۔۔

پھر موسیقی تیز ہوگئی اور پردے کے پیچھے رباب کی آواز بھی " نے " اور دمامہ کے ساتھ شامل ہوتی چلی گئی۔۔۔

تبھی تھا کہ شمس تبریز کسی سرکش صحرائی بگولے کی طرح نمودار ہوئے۔۔ باقی درویشوں کی نسبت گہرے رنگ کا لبادہ پہنے ، وہ بھی تیزی سے گھومنے لگے۔۔۔ انکے ہاتھ آسمان کی طرف کھولے ہوئے تھے اور چہرہ اوپر کے جانب یوں اٹھا ہوا تھا ، جیسے سورج کی جستجو میں سورج مکھی کا پھول۔۔۔

میں نے حاضرین میں کئی لوگوں کو مرغوب ہوکر گہری سانس بھرتے سنا۔۔۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جو شمس تبریز سے نفرت کرتے تھے۔۔

آخر کار موسیقی مدھم ہوئی۔۔ یکایک تمام درویش تھم گئے ، کنول کے ہر پھول نے اپنا منہ بند کر لیا۔۔۔ ایک گہری خاموشی چھا گئی۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا ردعمل ظاہر کرے۔۔ کسی نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ نہ دیکھا تھا۔۔۔

میرے والد کی آواز نے اس خاموشی کو چھید دیا :

" میرے دوستو : اسے سماع کہتے ہیں۔۔ رقص درویش۔۔۔ آج کے بعد ہر عمر کے درویش سماع کریں گے۔۔۔ آسمان کی جانب اشارہ کرتا ایک ہاتھ ، دوسرا زمین کی طرف جھکا ہوا۔۔

محبت کا ہر ذرہ جو ہم خدا سے وصول کرتے ہیں، ہم اسے لوگوں میں بانٹنے کا عہد کرتے ہیں۔۔ "

حاضرین مسکرائے اور زیر لب ان سے اتفاق کیا۔۔!!

==================================

ناول : چالیس چراغ عشق کے
مصنفہ : ایلف شفق
مترجم : ہما انوار
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال

سنڌ جي تاريخ مان پروڙ پوي ٿي تہ مادر وطن سنڌ ۾ مختلف دور هن ريت رهيا آهن؛• قديم سنڌو سلطنت (اوائلي) 7000 ق.م کان ..........
29/05/2020

سنڌ جي تاريخ مان پروڙ پوي ٿي تہ مادر وطن سنڌ ۾ مختلف دور هن ريت رهيا آهن؛

• قديم سنڌو سلطنت (اوائلي) 7000 ق.م کان .......
• عظيم سنڌو سلطنت (دراوڙ دور) 2500 ق.م ـ 1600 ق.م
• عظيم سنڌو سلطنت جو زوال 1600 ق.م کان ......
• قديم سنڌو سلطنت (آريا دور) 1000 ق.م ـ 579 ق.م ـ 221 سال
• ايراني هخامنشي بادشاهي 579 ق.م ـ 450 ق.م ـ 129سال
• جدا جدا حڪومتون هيون 450 ق.م ـ 330 ق.م ـ 125 سال
• سڪندر اعظم يوناني 329 ق.م ـ 323 ق.م ـ 07 سال
• موريا خاندان 323ق.م ـ 187 ق.م ـ 137 سال
• بيڪٽريا يوناني 187ق.م ـ 70ق.م ـ 114 سال
• سٿين 70ق.م ـ 46ع ـ 116 سال
• پارٿين 46ع ـ 78ع ـ 32 سال
• ڪشن 78ع ـ 175ع ـ 113 سال
• جدا جدا 176ع ـ 283ع ـ 107 سال
• ايراني ساساني 284ع ـ 367ع ـ 83 سال
• گپت ۽ وهليڪا 324ع،367ع ـ 470ع ـ 103 سال
• هوڻ Hun 475ع ـ 499ع ـ 24 سال
• راءِ خاندان 499ع ـ 632ع ـ 137 سال
• برهمڻ خاندان 632ع ـ 711ع ـ 79 سال
• عربن جو سنڌ تي حملو 711ع
• عرب اموي 712ع ـ 750ع ـ 38 سال
• عرب عباسيه 750ع ـ882ع ـ 132 سال
• عرب هباري 882ع ـ 1010ع ـ 128 سال
• سومرا خاندان 1010ع ـ 1351ع ـ 341 سال
• غزنوي دور 1051ع کان ......
• غوري دور 1181ع .......
• دهلي سلطان شاهي ....ع (مختلف عرصا)
• خوارزم حملا 1221ع کان .........
• منگول حملا 1243ع کان .....
• خلجي دور 1297ع ـ 1316ع ـ 19 سال
• تغلق دور 1327ع
• سما خاندان 1351ع ـ 1520ع ـ 169 سال
• ارغون دور 1520ع ـ 1552 ع ـ 32 سال
• ترخان دور 1552 ع ـ1661ع ـ 109سال
• پورچوگيزي حملا 57 ـ 1556 ع
• مغل دور 1661ع ـ1700ع ـ 79 سال
• ڪلهوڙا خاندان 1700ع ـ 1783ع ـ 83 سال
• نادرشاهي حملا 1739ع
• قنڌاري حملا 1747ع کان پوءِ
• ٽالپور خاندان 1783ع ـ 1841ع ـ 60 سال
• تيموري حملا 1779ع
• قنڌاري حملا 1780ع
• برطانيه جا حملا 1843ع (مِياڻي جنگ، دُٻي جنگ)
• انگريز دور 1843ع ـ 1947ع ـ 104 سال
• پاڪستان آگسٽ 1947 ع . .

موھن جو دڙو سنڌو تھذيب جي سُڃاڻ!موھن جو دڙو سنڌو درياءَ جي ساڄي ڪَپَ تي ڏوڪري شھر کان 8 ڪلوميٽرن جي مفاصلي تي ۽ لاڙڪاڻي ...
29/05/2020

موھن جو دڙو سنڌو تھذيب جي سُڃاڻ!

موھن جو دڙو سنڌو درياءَ جي ساڄي ڪَپَ تي ڏوڪري شھر کان 8 ڪلوميٽرن جي مفاصلي تي ۽ لاڙڪاڻي کان 20 ڪلوميٽرن جي مفاصلي تي واقع آھي.
پھريون ڀيرو انڊين آرڪيالاجي کاتي جي عملدار ۽ آرڪيالاجسٽ مسٽر رکلداس بئنرجي 1922 ۾ ان دڙي جي کوٽائي ڪرائي، جنھن کان پوءِ انڊين آرڪيالاجيڪل کاتي جي ڊائريڪٽر سرجان مارشل موھن جي دڙي تي وڌيڪ کوٽائي ڪرائي ۽ موھن جي دڙي جي ڪيل کوٽائيءَ مان مليل مورتين، ٺڪر جي ٿانون، مُھرن تي لکيل انڊس اسڪرپٽ، سون ۽ چاندين جا زيور، ڏاند گاڏي، ۽ اتان مليل ٻين ڪيترن ئي ناياب نوادرات ۽ موھن جي دڙي جھڙي سولائيزڊ شھر جي جوڙجڪ بابت تصويرن سان 1931 ۾ ”موھن جو دڙو ۽ انڊس سولائيزيشن“ جي نالي سان ٽن جُلدن ۾ لنڊن پريس مان ڇپرايو، جنھن ڪتاب ۾ موھن جي دڙي جھڙي عاليشان تھذيب جو ذڪر ڪندي سر جان مارشل چوي ٿو تہ موھن جو دڙو واري تھذيب مصر، عراق ۽ ايران کي بہ ڪيترين ئي شين ۾ شھ ڏئي بيٺي آھي ۽ خاص طور تي سندس گھٽين جي بيھڪ، جڳھين جي جوڙجڪ، ھر ھڪ جڳھ ۾ ننڍن وڏن کوھن جو ملڻ ۽ خاص طور تي وڏو تلاءُ، ڍڪيل ناليون يعني ڊرينيج سسٽم وغيرہ.
سر جان مارشل ھن شھر جي قدامت جي حوالي سان ٻُڌائي ٿو تہ ھي قديم شھر 3000 ق. م جو آھي. سرجان مارشل کان پوءِ انڊين آرڪيالاجيڪل کاتي جي ڊائريڪٽر ارنيسٽ مئڪي پڻ موھن دڙي تي ڪم ڪيو ۽ ان حوالي سان ٻن جُلدن ۾ ڪتاب ”انڊس سويلائيزيشن“ ڇپرايو، جنھن پڻ موھن جي دڙي جي قدامت سرجان مارشل واري ساڳي ئي ڄاڻائي.
موھن جي دڙي جي قدامت جي حوالي سان سنڌ ۽ ھند جي تاريخدانن ۽ آرڪيالاجسٽن جا رايا انگريز محققن کان مختلف آھن، سنڌ جي ترقي پسند تاريخدان، انڊس اسڪرپٽ جي ڄاڻو ۽ بھترين ترجمانگار سائين عطا محمد ڀنڀري جي چوڻ موجب تہ موھن جي دڙي جي 7 ليئرز مان صرف ٽن ليئرز جي کوٽائي ٿي آھي، جنھن جي عمر 5000 سال قديم آھي، پر جيڪڏھن سندس ٻين باقي 4 ليئرز جي کوٽائي ٿئي تہ اندازن موھن جو دڙو جي تھذيب 12000 سال کان 15000 سال قديم ٿي سگھي ٿي. ان کان علاوہ سنڌ ۽ ھند جي وڏي تاريخدان ۽ آرڪيالاجسٽ دادا گنگارام سمراٽ، جيڪو سرجان مارشل سان گڏ موھن جي دڙي جي کوٽائيءَ ۾ پڻ گڏ ھو، تنھن سنڌ جي تاريخ تي لکيل پنھنجن ناياب ڪتابن ”سنڌو سئووير“ ۽ ” موھن جو دڙو“ ۾ ھن ريت لکيو آھي تہ، ” انگريزن وٽ انگ وديا جو علم ئي نہ ھو مسٽر بلئنفورڊ چواڻي تہ، ” اسان وٽ جيڪي انگ آھن، اھي ھڪ ھزار تائين مس ھُئا، جيڪي پڻ اسان وٽ رومن وٽان آيا آھن“ ۽ رومن وارن جو چوڻ اھو آھي تہ اھي انگ اسان وٽ عرب کان آيا آھن ۽ عربن وٽ انگ وديا جو علم وري ھند مان ويو، سو چوڻ جو مطلب تہ جڏھن انگريزن وٽ ھزار کان وڌ ڪو انگ ئي نہ ھو تنھن ڪري ھنن عيسائي عقيدي پرستيءَ ۽ انگ وديا جي اڻڄاڻائيءَ جي ڪري ھن دنيا جي تخليق کي پڻ 6000 سال کان وڌيڪ قديم نہ پئي ڄاڻايو، اھو تہ ھاڻي 150 سال کن اڳ کان وٺي سائنسي، آرڪيالاجيڪل ۽ جيالاجيڪل کوجنائن کان پوءِ وڃي سندن عقيدو تبديل ٿيو آھي دنيا جي عمر بابت، سو اسان جي سنڌ ڌرتيءَ جي قديم تھذيب کي وري اھي ڪيئن ٿا بائيبل جي خلاف وڃي وڌيڪ قديم ڄاڻائي سگھن.
موھن جي دڙي جي تھذيب گھٽ ۾ گھٽ 25000 سال کان 40000 سال قديم آھي، ڇو تہ موھن جي دڙي جي ابتدا لڳ ڀڳ وچئين پٿر جي دور جي آھي، ڇو تہ موھن جي دڙي جي کوٽائيءَ مان ڪيترائي پٿر جا چاڪو ۽ ٻيا اوزار پڻ مليا آھن. تازو ھندستان جي آرڪيالاجسٽن پاران موھن جي دڙي جي قدامت جي حوالي سان ھڪ بيان نظر مان گُذريو،جن موھن جي دڙي جي تھذيب کي 10000 سال قديم ڄاڻايو آھي ۽ ان کان علاوہ تازو ڪجھ وقت اڳ سنڌ جي ھڪ ٻئي اھم تاريخدان يوسف شاھين پڻ عوامي آواز اخبار ۾ انٽرويو ڏيندي موھن جي دڙي کي 10000 سال قديم ڄاڻايو آھي.
موھن جو دڙو سنڌ جي سُڃاڻ آھي، اسان کي ان جي نہ صرف سار سنڀال لھڻ گھرجي پر ان سان گڏ موھن جي دڙي جي قدامت جي حوالي سان ان اُلجھيل سُٽ کي سُلجھائڻ جي پڻ ضرورت آھي.

ميھڙ نيوز: ميھڙ م واپڊا ايس ڊي او رمضان م شيطان بڻجي عوام ء واپڊا ملازمن لاء آزار ڪري ڇڏيو.خبر موجب ميھڙ شھر م واپڊا ايس...
20/05/2020

ميھڙ نيوز: ميھڙ م واپڊا ايس ڊي او رمضان م شيطان بڻجي عوام ء واپڊا ملازمن لاء آزار ڪري ڇڏيو.
خبر موجب ميھڙ شھر م واپڊا ايس ڊي او واپڊا ملازمن کان في اي سي ڪنڪشن ھلاۂڻ لاء ھر مھيني ھڪ لک وٺڻ جو فيصلو ڪري ڇڏيو جنھن تي پيغام يونين ميھڙ جي اڳوان لياقت مھيسر جي اڳواڻي م ڪاريون پٽين ٻڌي گدو شيخ، اڪبر مھيسر توقير ڪولاچي ء ٻين احتجاج ڪندي چيو تہ ايس ڊي او ميھڙ واپڊا وارن کي ھٿرادو ڪرپشن لاء چۂي انھن کان مھيني تي ڏيڍ لک تاۂين ھٿرادو رشوت وٺي رھيو آھي جيڪي ملازم ھن جي چوڻ م ناھن انھن کي خيرپور دادو ء سکر بدلي ڪرڻ جو ڌمڪيون پيو ڏۂي ء ميھڙ جي آس پاس جي ڳوٺن م ھٿرادو اڻ اعلانيل لوڊشيڊنگ جو بہ واپڊا گرڊ واري کي چۂي عوام کي پورو رمضان مھينو بجلي جي ٽرپنگ ڪري عوام ء روزاۂتن جو دشمن بڻيون پيو آھي اسان مطالبو ڪيون ٿا تہ راشي ايس ڊي او ھٽاۂي ايماندار ايس ڊي او ميھڙ لاۂن تي رکيون وڃي تہ جيۂن واپڊا مان ڪرپشن ء ھٿرادو لوڊشيڊنگ جو خاطمو ٿي سگھي. پيغام يونين ميھڙ

تکبراور تعصب: لازوال انگریزی ناول کا اردو ترجمہجین اوسٹن ادبی شہرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے آگے نہ سہی‘ زیادہ پیچھے بھی نہ...
09/04/2020

تکبراور تعصب: لازوال انگریزی ناول کا اردو ترجمہ

جین اوسٹن ادبی شہرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے آگے نہ سہی‘ زیادہ پیچھے بھی نہیں رہی۔
مصنفہ نے عام‘ بے رنگ‘ ہنگاموں اور ہلچل سے خالی زندگی گزاری۔ صرف اکتالیس برس کی عمر پائی۔ جو حضرات اس غلط فہمی میں مبتلارہتے ہیں کہ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لئے بڑی تہلکہ خیز زندگی گزارنی چاہئے‘ طرح طرح کے تجربوں سے مستفید ہوناچاہیے، وہ جین اوسٹن یا مشہور امریکی شاعرہ’ایملی ڈکنسن‘ کی زندگی پر نظر ڈال لیں تو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

جین اوسٹن کی زندگی کے دوران میں انقلاب فرانس برپا ہوا‘ نپولین کی وجہ سے یورپ بھر میں بلکہ مصر تک جدال و قتال کا میدان گرم رہا۔ ان اضطراب آمیز برسوں کی جھلک بھی اس کے ناولوں میں نظر نہیں آتی۔ جین اوسٹن نے زندگی کے ان معاملات سے سروکار رکھا جو تمام روایتی معاشروں میں ہمیشہ کشمکش کی ایک زیریں رو کے طور پر‘ برانگیختہ رہتے ہیں۔ والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بیٹیوں کے لئے کوئی اچھا‘ کھاتا پیتا بر ہاتھ آ جائے‘ لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں کہ انہیں اپنی پسند کا‘ چاہنے والا اور چاہے جانے کے قابل‘ شوہر نصیب ہو‘ زندگی آرام سے گزرے‘ تصادم کے بغیر اچھا فکشن وجود میں نہیں آتا۔ تصادم اوسٹن کے سب سے مشہور ناول ’’تکبر اور تعصب‘‘ میں بھی موجود ہے لیکن کبھی تشدد یا خوں ریزی کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ صرف یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ جو بن بیاہے جوان دستیاب ہیں اور جنہیں دام میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے انہیں کوئی حریف خاندان نہ لے اڑے۔ فرق اتنا ہے کہ ناول میں جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت انگلستان میں مردوں عورتوں کو ملنے جلنے کی تھوڑی بہت آزادی تھی۔ اس کی وجہ سے اس طرح کی جستجو اور ڈورے ڈالنے کا رنگ چوکھا ہو جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مردوں سے ملنے یا اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت بالکل نہ تھی۔ آج بھی صورت حال کم کم بدلی ہے۔ بہر حال‘ یہ موضوع ایسا ہے جو ہمیں ’’تکبر اور تعصب‘‘ سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

کہا جاتا ہے کہ اب جین اوسٹن ادبی شہرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے آگے نہ سہی‘ زیادہ پیچھے بھی نہیں رہی۔ اس کے ناول‘ لڑکپن کی ناپختہ تحریریں‘ حالات زندگی‘ ان دنوں ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ یہ سب کروڑوں اربوں پاؤنڈ کا کھیل ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب اس نے ناول لکھے تو وہ اس کے نام سے نہیں چھپے۔ ان پر لکھا ہوتا تھا ’’ایک خاتون کے قلم سے‘‘ وجہ یہ ہے کہ عورتوں کا ناول لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ممکن ہے بعض قدامت پسند گھرانوں میں لڑکیوں کو ناول پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہو۔ جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی کہیں بڑی مشکل سے بیسویں صدی میں ملی (یہ آزاد خیال مغرب کے صنفی تعصبات کا حال ہے!) وہاں انہیں بطور مصنف یا مصور یا شاعر کیسے گوارا کیا جا سکتا تھا۔ فلابیر کے ناول ’’ مادام بواری‘‘ کی ہیروئن کے بگڑنے کی بڑی وجہ جاننے والوں نے یہ فرض کی تھی کہ وہ عشقیہ ناول بہت پڑھتی تھی۔

’’تکبر اور تعصب‘‘کا ترجمہ شاہد حمید نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ زیر نظر اس کی دوسری اشاعت ہے۔ شاہد حمید سے زیادہ پر خلوص‘ دیانت دار اور محنتی مترجم فی زمانہ اردو دنیا میں کوئی اور نظر نہ آئے گا۔ اس سے پہلے وہ دنیا کے دو بڑے ناولوں کو بھی اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں جو عظیم ہی نہیں صحیح معنی میں ضخیم بھی ہیں۔ ایک تو تالستائی کا ’’جنگ اور امن‘‘ اور دوسرے دوستوئیفسکی کا ’’کاراما زوف برادران‘‘ دونوں تراجم میں قارئین کی سہولت کے لئے صدہا صفحات پر مشتمل حواشی ہیں جو مترجم کی ناقابل تردید لیاقت اور محنت کا ثبوت ہیں۔ میری رائے میں ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا ترجمہ زیادہ شگفتہ اور خواندنی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اصل متن‘ اپنی تمام باریکیوں اور لطافتوں کے ساتھ‘ ان کے سامنے تھا۔ اس طرح درپیش چیلنج تو دو چند ہو جاتا ہے مگر یہ اطمینان رہتا ہے کہ اصل متن سے انصاف کا موقع مل گیا ہے۔ تالستائی اور دوستوئیفسکی کے ضمن میں انھیںترجموں پر تکیہ کرنا پڑا۔ مصیبت یہ تھی کہ ان مختلف تراجم میں اختلاف متن بہت تھا۔ کسی جملہ کا ترجمہ ایک مترجم کس طرح کرتا تھا تو دوسرا مترجم کسی اور طرح۔ اس گڑبڑ کی وجہ سے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اصل میں کیاکہا گیا ہو گا۔

سوال آخر میں یہ رہ جاتا ہے کہ ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا مزاج ہے کیا؟ کسی ناول کو محض ناقدین کا زور قلم دوام نہیں بخش سکتا۔ خود ناول میں اتنی جان ہونی چاہئے کہ بدلتے زمانوں کی یلغار بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اوسٹن کے ناول کوا یک سطح پر قصباتی ماحول میں رہنے سہنے اور متوسط طبقے کے افراد پر ایسا طنز ملیح سمجھا جا سکتا ہے جس میں مزاح بھی موجود ہے اور بشری کمزوریوں کے لئے ہمدردی بھی۔ یہ سمجھنا کہ روایتی انداز میں بسر کی ہوئی زندگی‘جس میں افراد ہر طرف سے سماجی‘ خاندانی اور معاشی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوں‘ تشویش اور ابہام سے خالی ہو گی‘ بالکل ہی مہمل معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایلزبتھ اور ڈارسی کے تعلقات ہی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مصنفہ کچھ یہ کہتی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی فطرت ناقابل فہم اور سیال ہے ا ور ان دونوں میں سے ہر کوئی نہ اپنے آپ سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے نہ دوسرے سے ۔اس ناول کو ایک سطح پر اس مصرعے کی تفسیر سمجھنا چاہئے: ’’شاد بایدزیستن ناشاد بایدزیستن‘‘ چوں کہ انسان روز اول سے اپنی اپنی زندگیوں میں قید و بند کے نئے سلسلے بننے اور انھیں سلسلوں کو از سر نو ادھیڑنے کے مشغلوں میں الجھے رہتے ہیں اس لئے اس بظاہر سادہ مگر بباطن پرکار ناول کی دل آویزی کبھی ختم نہ ہو سکے گی۔n

(ان دونوں کتابوں کو القا پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے)

بقلم
محمد سلیم الرحمٰن
بحوالہ
ایکس نیوز

"..مترجم.." | The Translator 📚✒🌹ازقلم ’Paulo Coelho‘ | مترجم  #مُسافرشب`★اقتباس از Like The Flowing River 💜💦مَیں اُنہیں ...
07/04/2020

"..مترجم.." | The Translator 📚✒🌹
ازقلم ’Paulo Coelho‘ | مترجم #مُسافرشب`★
اقتباس از Like The Flowing River 💜💦

مَیں اُنہیں صبح سے کہتا رہا ہوں کہ ’مجھے آپ کے ملک کے لوگوں میں زیادہ دلچسپی ہے، عجائب گھروں اور گرجاوں میں بالکل بھی نہیں، اِس لیے مجھے کسی بھرے پُرے بازار لے جائیں، یہ زیادہ بہتر ہے‘۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ آج اُن کا قومی دِن ہے اس لیے تمام بازار بند ہیں۔

"تو پھر آج ہم کہاں جائیں گے؟" مَیں نے پوچھا۔
"ایک گرجا گھر میں..."
مجھے پتا تھا۔

"آج ہم ایک ولی اللہ کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ ہم سب کے لیے بہت خاص ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ آپ کے لیے بھی بہت خاص ہوں گے۔ ہم اُس ولی اللہ کے مزار پر جا رہے ہیں۔ اب ہم سے مزید کچھ نہ پوچھیے گا، بس یہی ذہن میں رکھیے گا کہ بعض اوقات ہم لوگ مہمان لکھاریوں کو حیران کر دینا پسند کرتے ہیں۔" اُنہوں نے پہیلی نما تفصیل بیان کی۔

"ٹھیک ہے، کتنا دُور ہے؟"
"بس یہی کوئی 20 منٹ لگیں گے۔"

اُس مُلک میں 20 منٹ ایک میعاری جواب ہوتا ہے جیسے آپ بھی اکثر ’ایک منٹ‘ کہہ دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ولی اللہ کا مزار 20 منٹ سے کہیں زیادہ دور ہو گا وقت کے فاصلوں میں۔ میرے میزبان ابھی تک میری ہر بات مانتے آئے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ اب مَیں بھی اُن کی ایک آدھ بات مان ہی لوں۔

آج اتوار ہے اور مَیں آرمینیا کے دارالحکومت یروان میں موجود ہوں۔ آرمینیا یورپ اور ایشیا کی سرحد سلسلہ کوہِ قاف کے جنوب میں واقع ہے۔ مشرق میں آزربائیجان اور عظیم کاسپیئن جھیل ہیں، جبکہ مغرب میں جارجیا، ترکی اور بحیرہ اسود ہیں۔ مذکورہ پانیوں کا کوئی کنارہ آرمینیا تک نہیں پہنچتا، یعنی آرمینیا ایک محبوسُ الزمیں (لینڈ لاکڈ) سلطنت ہے۔ آرمینیا عیسائیت کا قدیم ترین تاریخی مقام ہے، گزشتہ صدی میں سوویت یونیئن کا حصہ تھا، اب آجکل آزاد ملک ہے۔ ممکن ہے یہ معلومات اِس داستان کو سمجھنے میں مدد فراہم کریں۔

مَیں نہ چاہتے ہوئے بھی کار میں بیٹھ گیا اور اب ہم سب ایک سمت کو چلے جا رہے ہیں۔ دور افق پر مجھے شدید خوبصورت کوہِ آرارات نظر آ رہی ہے۔ کار جس سڑک پر چل رہی ہے، آس پاس بہت نکھرا ستھرا ماحول ہے، سرسبز اور روشن، کاش مَیں اِس وقت کُھلی فضا میں چل رہا ہوتا، اِس دھاتی پنجرے میں بند نہ ہوتا۔ میرے میزبان بہت خوش اخلاقی سے پیش آ رہے ہیں مگر مَیں بنیادی طور پر اِس "خاص سیاحتی منصوبہ" پر شدید بددِل اور خاموش ہو چکا ہوں۔ آخرکار اُنہوں نے بھی گفتگو بند کر دی ہے، اب باقی کا سفر نہایت خاموشی سے طے ہو رہا ہے۔ بس ٹھیک ہے۔

کوئی 50 منٹ بعد (مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ یہ 20 منٹ گپ ہی ہوتی ہے) ہم ایک گاؤں میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ سامنے ایک بڑا سا گرجا نظر آ رہا ہے۔ ہم اُسی جانب جا رہے ہیں۔ گاڑی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ پورا قصبہ، بلکہ پوری سرزمین کے مرد و زن یہاں موجود ہیں۔ مَردوں نے سیاہ کوٹ پتلون سفید قمیض بوٹائی وغیرہ پہنے ہوئے ہیں، عورتیں بھی نفاست سے تیار باش ہیں۔ یعنی یہ تو نہایت رکھ رکھاؤ والی تقریب لگ رہی ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ولی اللہ واقعی شدید سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔ مگر میرا حال ملاحظہ کیجیے کہ مَیں یونہی ٹی-شرٹ اور نیلی جِینز میں اُٹھ کر آ گیا ہوں اور اب سب کے درمیان بے وقوف لگ رہا ہوں۔ آخر گاڑی گرجا کے قریب رک گئی ہے مگر مجھے باہر نکلنے میں شدید تامل ہو رہا ہے۔

بہرحال نکلنا تو تھا ہی۔ جیسے ہی باہر نکلا ہوں، ادیبوں کی قومی تنظیم کے کچھ اراکین نے مجھے پہچان کر گھیرے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کا گلدستہ پکڑا دیا ہے اور اب ہم جمِ غفیر میں سے راستہ بناتے نکالتے اندر جا رہے ہیں۔ اندر بھی بے انتہا عوام ہے۔ وہاں بھی کسی طرح راستہ دریافت کر کے ایک خاص مقام پر آ گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اِس مقام پر جو چبوترہ سا بنا ہوا ہے، وہ ولی اللہ کی آرامگاہ ہے، گرجا میں یہ ایک مزار ہے جس کے لیے یہاں سب لوگ آئے ہیں۔

لیکن مَیں یونہی پھول پیش نہیں کروں گا۔ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ مَیں کسے پھول پیش کر رہا ہوں۔

"مقدس مترجم...." جواب ملا ہے۔
مقدس مترجم! اف، اِس تعرف سے میری آنکھوں میں نمی سی آ رہی ہے۔ تھوڑا سا رو لُوں؟

آج 9 اکتوبر 2004ء ہے۔ اِس قصبہ کا نام ’اوشاکن‘ ہے۔ اور میرے علم کے مطابق آرمینیا دنیا میں واحد ملک ہے جس نے ایک مترجم کو مقدس ہستی کا درجہ دے کر اُس کے نام کا قومی دن مقرر کیا ہے۔ یہ ہیں، مقدس مترجم حضرت مصروب۔

حضرت مصروب نے آرمینی زبان کی حروفِ تہجی ایجاد کی تھی، مطلب مقامی طور پر زبان بولی تو جاتی تھی مگر لکھی نہ جاتی تھی۔ حضرت نے اپنے خاص اصحاب کے ذریعے اپنی پوری زندگی دنیا بھر کے اہم فارسی، یونانی، قدیم رُوسی اور دیگر وسطی ایشیائی ادبی فن پاروں کا آرمینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اِسی دوران انہوں نے انجیل مقدس کا بھی ترجمہ کیا۔ یوں آرمینی زبان گم نامی کی زمین سے اُٹھ کر شناسی کے آسمانوں میں محوِ پرواز ہو گئی۔ آج آرمینی زبان دنیا کی اہم زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔

مقدس مترجم...... آج میرے ہاتھوں میں گلاب کا گلدستہ ہے اور مَیں اُن بے شمار انسانوں کے متعلق سوچ رہا ہوں جن سے مَیں کبھی نہیں ملا اور شاید نہ ہی کبھی مل پاؤں گا۔ مگر اُن کے ہاتھ میں میری کوئی کتاب ہے اور وہ مکمل دیانت داری سے اُس کا ترجمہ کر رہے ہیں۔ یوں جو مَیں کہنا چاہتا ہوں، وہ لوگ اُنہیں باقی دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

مجھے اپنے سُسر کرسچیانو مونٹیرو کا بھی خیال آ رہا ہے۔ وہ بھی مترجم ہیں۔ اور عین اِس وقت وہ فرشتوں اور حضرت مصروب کے ہمراہ کسی پوشیدہ سمت میں سے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اپنے ٹائپ رائیٹر پر جھک کر حروف کو دباتے چلے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے چلے جاتے تھے کہ مترجمین کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے، اِنہیں اِن کی حیثیت کے مطابق صلہ نہیں دیا جاتا۔ مگر وہ یہ شکایت بیان کر کے فوراً ہی کہنے لگتے تھے کہ ’پھر بھی ہم نے اپنا کام دیانت داری اور شوق سے کرنا ہے کیونکہ اگر مترجمین اپنا کام نہیں کریں گے تو دنیا بھر کے علوم و فنون اور افکار ہماری قوم تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ جو قوم بھی ترقی کرتی ہے اُس کے پیچھے اصل ہاتھ مترجمین کا ہوتا ہے۔‘

مَیں اپنے سُسر کے لیے دعاگو ہوں۔ مَیں اُن لوگوں کے لیے بھی دعاگو ہوں جنہوں نے میری کتب کی تیاری، اشاعت اور تراجم کے سلسلے میں اپنی محنت و محبت پیش کی، یوں میری کتب برازیل سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ جی ہاں، آپ جو میری انگریزی کتب پڑھ لیتے ہیں، اُن کے پیچھے بھی مترجمین کا کردار ہے۔ مَیں تو پرتگالی زبان میں لکھتا ہوں۔ مَیں اُن لوگوں کے لیے بھی دعاگو ہوں جنہوں نے دوسرے فن پاروں کے تراجم کیے اور تب مَیں اپنی ذاتی و ادبی زندگی میں رنگ شامل کر سکا اور یوں میری کردار سازی ہوئی اور یہی سب کچھ میری کتب کے ذریعے آپ تک واپس لوٹ آتا ہے۔ مترجمین کے بغیر یہ سب کچھ کبھی ممکن نہ ہوتا۔

مَیں اب گرجا سے باہر نکل رہا ہوں۔ درودیوار پر مقامی بچوں نے پھولوں اور مٹھائیوں کے ذریعے آرمینی زبان میں کچھ الفاظ لکھ رکھے ہیں۔

جب انسان شدید ہوس زدہ ہو گیا تب خدا نے مینارہء بابل کو ڈھا دیا۔ تمام انسان ایک دوسرے سے مختلف زبانیں بولنے لگے اور اُنہیں ایک دوسرے کی سمجھ نہ آتی تھی۔ ترقی رک گئی۔ مگر خدا نے پھر ہم پر رحم فرما دیا اور ایسے لوگ تخلیق کیے جنہوں نے انسانوں میں سمجھ بوجھ کے لیے راہیں ہموار کِیں، پُل تعمیر کیے، تاکہ سب ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور تمام علوم مشترکہ ہو جائیں۔

وہ شخص.. کہ جب ہم کوئی بھی ایسی کتاب کھولتے ہیں جو کسی اور سرزمین سے تعلق رکھتی ہے مگر ہمیں سمجھ آ رہی ہوتی ہے.. اُس شخص کا نام پڑھنا تک گوارا نہیں کرتے.. وہ شخص، جس کے آپ سب احسان مند ہیں.. وہ مظلوم شخص...... مترجم ہے۔


Note: اب مترجم مسافرِشَب کا بھی شکریہ ادا کیجیے

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Awaking news posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share