Aami Poetry

Aami Poetry Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Aami Poetry, Video Creator, .

20/08/2023

Russia's Luna-25 spacecraft crashes into moon

میں اس کی زندگی کا وہ خسارہ ہوںجو اس کی نسلیں بھی بھگتیں گی...!
02/06/2022

میں اس کی زندگی کا وہ خسارہ ہوں
جو اس کی نسلیں بھی بھگتیں گی...!

03/02/2022

دو بھکاری اٹلی کے شہر روم میں آمنے سامنے بیٹھے بھیک مانگ رہے تھے ایک نے اپنے سامنے صلیب رکھی تھی جب کہ دوسرے نے اپنے سامنے ایک مورتی سجا رکھی تھی جو بھی شخص وھاں سے گزرتا دونوں کو دیکھتا اور عیسائی فقیر کو پیسے ڈال کر چلا جاتا.
یہ سلسلہ جاری تھا کہ وہاں سے اک پادری کا گُزر ہوا اس نے دونوں کو دیکھا پھر ھندو فقیر کو کہا کہ تم غلطی کر رہے ہو یہ ایک عیسائی شہر ہے اور یہاں پر تم کو بھیک نہیں ملے گی اور وہ بھی جب تم ایک عیسائی فقیر کے سامنے بیٹھے ہو یہ کہہ کر پادری نے ایک نوٹ صلیب والے فقیر کو دیا اور وہاں سے چل دیا !!
یہ سن کر مورتی والے فقیر نے اپنے سامنے بیٹھے صلیبی فقیر کو آواز لگائی کہ “شیدے اب یہ ہم پاکستانیوں کو بزنس کے طریقے سمجھاے گا۔ “

03/02/2022

#اہرامِ_مصر


تحریر و تحقیق : سید اکبر حسن شاہ
...................................................................................

یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہیں کہ 146 میٹر کی بُلندی کے حامل "اہرامِ مصر" گُذِشتہ 4500 سال سے لیکر اُنیسویں صدی تک دُنیا کی سب سے بُلند ترین عمارتیں تصور کی جاتی تھی ۔ جیوپولیمر انسٹیوٹ کے پروفیسر "جوسف ڈیویڈوِٹس " نے اپنی پیش کردہ تحقیق میں ثابت کر دیا ہے کہ اہرامِ مصر گیلی مٹی سے بنائے گئے پتھروں سے بنے ہوے ہیں ۔ پتھر بنانے کے مراحل کے دوران اس کیچڑ کو ریلوے کی پٹری جیسی چیز پہ پتھر لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہیں کہ یہ تمام مٹی اور اس میں موجود دوسرے اجزاء دریائے نیل سے لی گئ تھی اور اسی مٹی کو پھر پتھر کے سانچوں میں ڈالا گیا تھا اس کے بعد اس کو زیادہ درجہ حرارت پر گرم کرتا گیا جس سے مٹی کے اندر موجود تمام اجزاء میں باہمی تعامُل پیدا ہو کر آتش فشانی کے پتھر جیسی ساخت اور صورت اختیار کرتی گئ جو لاکھوں سال پہلے تشکیل پا چُکے تھے ۔ ڈیویڈوِٹس نے تصدیق کر دی ہیں کہ اہرام میں استعمال شُدہ پتھر 'چُونے ، گارے اور پانی' پہ مُشتمل ہیں ۔ نینو ٹیکنالوجی ( فزکس کی وہ برانچ جو ۱۰۰ نینو میٹر سے چھوٹے اجزاء پہ تحقیق کرتی ہیں ) کا استعمال کرتے ہوے کئے گئے ٹیسٹس نے ثابت کر دیا کہ ان پتھروں میں بڑی مقدار میں پانی موجود ہیں جبکہ قدرتی طور پر عام پتھروں میں پانی کی اتنی مقدار موجود نہیں ہوتی ۔

پتھروں کے اندرونی ساخت میں موجود توازن اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ بنائے گئے پتھر بہت سوچ سمجھ کر اور کاریگری کے ساتھ بنائے گئے تھے اس پتھروں میں موجود خم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قُدرتی پتھر نہیں تھے ۔ سانچوں کے اندر گارا ڈال دیا گیا تھا جس سے تمام پتھر ایک جیسے بنے ہیں بلکل اس طرح جس طرح آجکل ہم پلاسٹک کے اجزاء "ٹیمپلیٹ " میں ڈال دیتے ہیں جس کے تمام ٹکڑے یکساں اور ایک دوسرے کے ساتھ متوازی ہوتے ہیں ۔

اہرامی پتھروں کے نمونوں کا تجزیہ اور جانچ کرنے کے لیے "الیکٹرونک مائکروسکوپ " کا استعمال کیا گیا ہیں جس سے ڈاکٹر ڈیویڈوِٹس کے نظریے کی تائید ہو جاتی ہیں اور یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ گرم کرنے پر کوارٹز کرسٹل اچھی طرح ظاہر ہوے ہیں ۔ وہ مزید کہتا ہے کہ فطرتی طور ایسے پتھر موجود نہیں تھے بلکہ وقت کے فرعونوں نے ان پتھر کو بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ Mini E سکیل کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ ان پتھروں میں "سلیکان ڈائ آکسائیڈ" موجود ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پتھر قُدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہیں ۔

ڈیویڈوِٹس کی مشہور کتاب "lls ont bati les pyramides" جو فرانسیسی زُبان میں فرانس میں 2002 میں پبلیش ہوی ہے ، اس کتاب نے اہرام کے بارے تمام مُشکلات اور الجھنوں کو حل کر دیا ہیں ۔ اس فیلڈ کے بعض مُحققین کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں برتن اور بُت بنانے کے لیے آتش دان کا استعمال عام تھا ۔ لوگ آگ کے ذریعے مٹی اور مختلف قسم کے مادے سے بنے بُتوں کو مضبوط بناتے تھے بُتوں کو آگ میں رکھا جاتا تھا تا کہ وہ مضبوط ہو جائے ۔ اس طرح کئ تہذیبوں نے مٹی سے آگ کے ذریعے بڑے بڑے پتھر ، بُت اور کئ قسم کے برتن اور اوزار بنا دیتے تھے ۔ اس فیلڈ کے تمام مُحققین کا ماننا ہے کہ ہر زمانے کے فرعون نے یہی طریقہ اپنایا تھا ۔ اہرام کے اندر لکڑی سے بنی اہرام کے ارد گرد گول سیڑھیاں اہرام کے اوپر چڑھنے کا رستہ ھوتا تھا ۔
اس کے علاوہ ایکس رے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اہرام سے لیے گئے نمونوں میں ہوا کے بلبلوں کے نشانات پائے گئے ہیں یہ اس وقت بن گئے ہونگے جب ان پتھر کو ناپختہ حالت میں سانچوں سے نکالا گیا تھا اس کے علاوہ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کے بھی نشانات موجود ہے ۔ اس کے برعکس قدرتی پتھروں میں یہ بلبلے نہیں پائے جاتے ۔ اس سے مزید یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ کہ اہرام میں استعمال ہوے پتھر چونے اور مٹی کے تھے ۔

ایک اور تحقیق کے مطابق وقت کے فرعونان نے چونے اور مٹی کو ارد گرد موجود موجود علاقوں سے اکھٹا کیا تھا اس کے بعد اس کو پانی میں حل کر کے سانچوں میں ڈالا گیا جس کے بعد آگ کی تپش کے ذریعے اس کو پتھر بنائے گے ۔

قرانِ پاک میں اس کا ذکر اسی طرح ہی ملتا ہے کہ اہرام مٹی سے ہی تعمیر کئے گئے ہیں ۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ

اور فرعون نے کہا کہ میرے زعما ئ مملکت! میرے علم میں تمہارے لئے میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہٰذا ہامان تم میرے لئے مٹی کا پجاوا لگاؤ اور پھر ایک قلعہ تیار کرو کہ میں اس پر چڑھ کر موسٰی کے خدا کی خبر لے آؤں اور میرا خیال تو یہ ہی ہے کہ موسٰی جھوٹے ہیں (38).

اس کے علاوہ یہ بات کہ یہ جنات یا ایلین نے تخلیق کئے یہ غیر مستند باتیں ہے ۔ نہ یہ پتھر قدرتی تھے اور نہ کہی اور سے لائے گئے تھے بلکہ دریائے نیل اور اس کے آس پاس کی مٹی اور چونے سے بنائے گئے تھے ۔

03/02/2022

شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو

جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو

یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
اے خسروان شہر قبائیں مجھے نہ دو

ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں
ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو

کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فرازؔ
کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو

احمد فراز

03/02/2022

‏وہ دن, وہ محفلیں, وہ شگفتہ مزاج یار

فکرِ رزق لے گئی کس کس کو, کہاں کہاں

03/02/2022

ہجر کی رات مری جان کو آئی ہوئی ہے
بچ گیا تو میں محبت کی مذمت کروں گا

02/02/2022

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
پروین شاکر

05/01/2022

"وقت کیا ہے ؟ "

وقت کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ اور کب سے ہے ؟ وقت اک ایسی شہ جسے سمجھنا اور سمجهانا خود ایک معمہ ھے ۔

فزکس نے وقت یعنی ٹائم کو سیکنڈ، منٹ، گھنٹوں میں تقسیم کیا ۔ بتایا گیا کے ایک دن میں 24 گھنٹے اور ہر گھنٹے میں 60 منٹ اور ہر منٹ میں 60 سیکنڈ ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کے وقت کی یہ اکائی صرف زمین پر ھی لاگو هو سکتی ھے۔

یہی وقت چاند سورج اور مریخ پر موجود کسی انسان کے مختلف ھے۔ کسی دوسری گیلیکسی یا بلیک ھول کا وقت بلکل مختلف ہے جس کا frame of reference بھی مختلف ہو گا ۔ بلکے بلیک ھول میں تو وقت ہی تھم جاتا ہے۔

ہماری اس مادی دنیا میں اسپیس ٹائم relationship کچھ اور ھے لیکن reference پوائنٹ بدلتے ہی وقت کی زمینی اکائی یعنی سیکنڈ، منٹ اور گھنٹہ اپنا مطلب اور وجود کھو دیتے ہیں۔

مریخ اور پلوٹو کا وقت الگ ۔ سال الگ اور گھنٹے اور سیکنڈ کا حساب بھی الگ۔ اسے اس طرح سمجھیں کے دو جڑوں بچے جنم لیں ایک کو ہم زمین پر اور دوسرے کو روشنی کی رفتار سے پلوٹو پر چھوڑ دیں اور زمین کے وقت کے حساب سے 60 سال بعد دونوں کو اکٹھا کر لیں تو زمین والا شخص بوڑھا اور پلوٹو والا ابھی بچہ ہی هو گا۔

تو یہ وقت ھے کیا ؟ فزکس کی تعریف سے تو وقت کی پمائش زمین کی روٹیشن سے مشروط ھے ۔ آئنسٹائن نے وقت کو گریویٹی اور اسپیڈ سے نتھی کیا ۔ آئنسٹائن کی تھوری کے مطابق وقت سلو ہو جائے گا جیسے جیسے رفتار اور گریویٹی بڑھتی رہے گے ۔ یہاں تک کے اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار کو پا لے تو اس انسان کے لیے وقت کی رفتار کم یا پھر تھم جائے گا۔

پر ذرا ٹھہر جائیں ۔ ذرا بگ بینگ کے دھماکے سے پہلے کے لمحے کو سوچئے۔ جب زمین کائنات اور گیلیکسی ھی اپنا وجود ھی نہیں رکھتے۔ ایسا لمحہ جب کچھ نہیں ھے۔ صرف خدا ہے۔ جب گریوٹی نہیں ہے اور اسپیڈ اور وقت کا بھی کوئی وجود نہیں۔

مذہب کی رو سے تو یہ وقت بھی ایک تخلیق
ھے ۔ مطلب یہ وقت بھی ایک مخلوق ھے ۔ جسے خلق کیا گیا ۔ جیسے ذمیں آسمان سورج چاند تارے، خلق کیے گئے۔ بگ بانگ کے دھماکے کے ساتھ ہی وقت خلق ہوا ھوا ۔

حضرت جبریل نے اپنی عمر کا حساب رسول خدا کو یوں بتایا کے میری عمر کا مجھے معلوم نہیں۔ صرف اتنا جانتا ہوں کے ایک ستارہ 70 ہزار برس کے بعد نظر آتا تھا اور میں (جبرئیل) نے اس ستارے کو 70000 ہزار مرتبہ دیکھا ھے۔ رسول اللّهصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے فرمایا کے اے جبریل وہ ستارہ میں ہوں۔

مطلب اس وقت حضرت جبرئیل کی عمر 4 ارب 90 کروڑ سال تھی۔ لیکن ٹھہر جائیں۔ یہ نوری عمر ھےintertial یا مادی عمر نہیں۔نوری سے مرادلائٹ آئیر نہیں۔

اور یہ نوری وقت بہت طویل ہے۔ قرآن اور حدیث نےبیان کیا کہ نوری دنیا کا ایک دن اس inertial یا مادی دنیا کے 50000 برس کے برابر ہے ۔ جی ہاں پچاس ہزار برس ۔

آپ نے واقع معراج پر غور کیا ۔ رسول خدا نے زمین و آسمان بیت ال مقدس اور ساتوں آسمانوں کا سفر کیا براق پر ۔ یہ براق اسپپد اوف لائٹ سے سفر کرنے والا جنت کا جانور تھا ۔ جب سفر روشنی کی رفتار سے ہوا تو وقت پیچھے رہ گیا ۔ اور رسول خدا نے یہ سفر امر ربی سے مادی دنیا یعنی inertial world کے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مکمل کیا اور واپس بھی آگئے ۔ اتنی جلدی کے رسول اللّه کا بستر گرم رہا اور دروازے کی زنجیر ہلتی رہی۔

آئنسٹائن نے وقت کو اس مادی دنیا اور interial frame of reference کی مدد سے سمجھانا چاہا۔ مطلب ریفرنس پوائنٹ تبدیل ہوتے ھی وقت از خود بدل جائے گا۔ آئنسٹائن نے وقت کو تھیوری اوف relativity میں روشنی کی اسپیڈ اور گریویٹی سے جوڑ کر یہ نتیجہ نکالا کے جو چیز روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وہ مادے matter سے انرجی میں تبدیل هو کر وقت کی قید سے آزاد هو جائے گا۔ ۔ جو چیز روشنی کی رفتار سے سفر کرے اس کا وقت رک جائے گا یا سلو ہو جائے گا ۔

مطلب! یہ ممکن ھے کے انسان وقت کی قید سے آزاد هو کر ماضی یا مستقبل میں چلا جائے ۔ تو کیا ایسا ممکن ھے؟ جی ہاں ممکن تو ھے۔ لیکن یہ بات سمجھ لیں کے وقت کی قید سے آزاد آپ جبھی هو سکتے ہیں جب آپ matter یعنی مادے سے انرجی میں تبدیل هو جائیں ۔ جی ہاں photons میں ۔ لیکن ایسے نہیں ھے کے آپ ماضی میں جا کر اپنا ماضی تبدیل کر سکیں یا مستقبل میں چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں ۔ ایسا کرنا ممکن نہیں۔انسان مادے سے انرجی میں تبدیل هو کر بھی ماضی اور مستقبل کو صرف کسی ڈرامے کی طرح دیکھ سکتا ھے۔ لیکن نا اس ڈرامے میں وقت سے پہلے حصہ لے سکتا ھے اور نا ھی کردار ادا کر سکتا ھے ۔ ایسا سمجھ لیں جیسے آپ کوئی فلم دیکھ رہے ہیں ۔ آپ فلم کو ریورس یا فارورڈ تو کر سکتے ہیں لیکن فلم میں کوئی تبدیلی کرنا ممکن نہیں ۔

وقت میں آگے یا پیچھے چلے جانا کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔ ہماری زمین پر سورج کی جو روشنی اتی ہے یہ8 منٹ اور 20 سیکنڈ پہلے سورج سے نکلتی ہے ۔ مطلب زمین پر نظر آنے والا سورج کا نظارہ ،8 منٹ 20 سیکنڈ پہلے سورج ماضی کا منظر ہے۔ جو ہمارا حال ہے وہ اسی وقت سورج پر موجود مخلوق کا 8 منٹ 20 سیکنڈ پہلے کا گزرا ہوا ماضی ہے ۔ بالکل اسی طرح مستقبل اور ماضی میں جانا ممکن ہے۔ ہماری زمین ، گیلیکسی اور کائنات anti clock wise گھوم رہی ہے ۔ آپ روشنی کی رفتار سے anti clock wise سفر کریں اور مستقبل میں جھانک لیں۔

غور کیجیے ، ایک ہی وقت اور ایک کی گیلیکسی پر ہونے کے باوجود ہماری زمین اور سورج کا وقت الگ الگ ہے ۔
جب بگ بینگ کا دھماکہ ہوا، اسی لمحے وقت بھی وجود پذیر ہوا اور وقت کو بھی تخلیق کیا گیا۔ یہ وقت بھی ایک مخلوق ھے ۔ جس کا ایک حال ھے ۔ ماضی بھی اور مستقبل بھی ۔

جس طرح ہر مخلوق کو موت اتی ھے۔ ویسے ھی وقت کو موت آتی ھے ۔ وقت ایک نہیں ھے ۔ وقت لا محدود اور لا تعداد مخلوقات کا مجموعہ ھے ۔ ہر لمحے نیا وقت پیدا هو ہوتا ھے اور پرانے وقت کو موت آتی ھے اور وہ فنا هو جاتا ھے۔بالکل ہمارے باڈی سیلز کی طرح ،جو ہر وقت بنتے اور مرتے رہتے ہیں ۔

پر یہ وقت روشنی کی رفتار اور گریوٹی سے ہی کیوں منسلک ہے ۔ سوال آسان پر جواب سمجھانا تھوڑا مشکل ہے۔ دراصل اس inertial world مادی دنیا میں ہر چیز کا وزن ہے جس پر گریوٹی اثر کرتی ہے ۔ اور خدا نے اس inertial دنیا کی ہر مخلوق کو pairs میں پیدا فرمایا ہے ۔ بڑی سے بڑی اور الیکٹران جیسی مائکرو تخلیق بھی وزن رکھتی ہے اور اپنا جوڑا بھی ۔ جیسے مرد اور عورت اور ہر جاندار اور پودوں کا pair بنایا گیا ۔ اسی طرح حقیر ترین مخلوق electron کا بھی pair موجود ہے یعنی positron. اس مادی دنیا میں صرف ایک غیر مادی چیز موجود ہے جسے ہم لائٹ یا روشنی کہتے ہیں ۔ یہ روشنی ایک غیر مادی چیز photon سے بنی ہے ۔ جس پر نا ہی کوئی پازیٹو یا نیگیٹو چارج نہیں اور نا اس اس کا کوئی وزن ہے ۔ روشنی انرجی ہے طاقت ہے۔ اور روشنی کی رفتار ultimate رفتار ہے ۔ کوئی inertial چیز اس رفتار سے زیادہ اسپیڈ سے حرکت نہیں کر سکتی ۔ جو مادی چیز جو روشنی کی رفتار کو پا لے وہ چیز خود بھی انرجی بھی تبدیل ہو کر وقت کی قید سے آزاد ہو جائے گی ۔

نہیں سمجھے ۔ چلیں ایک مذہبی مثال سے سمجھ لیں ۔ خدا نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا ۔ اور خدا ہی اس کائنات کو فنا کرے گا ۔ ایسا لمحہ جب وقت بھی تھم جائے گا ۔ پر خدا اس کائنات کو پھر سے زندہ کر کے روز حساب کا دن برپا کرے گا ۔ لیکن پھر کیا ہو گا ؟ وہی ہو گا جو موت کے ساتھ ہوا گا روز قیامت هونا ھے ۔ انسانوں کے جنت اور دوزخ کے فیصلہ ہونے کے بعد، خدا موت کو ایک مینڈھے کی صورت میں ظاہر کر کے موت کو موت دے دے گا۔ اور ساتھ ہی وقت بھی فنا ہو جائے گا ۔ ایسا انتظام جس میں کبھی کوئی بوڑھا نہیں ہو گا ۔ ایسا وقت جہاں کوئی مرے گا نہیں ۔ ایک ایسا انتظام جو کبھی ختم ہی نا ہو گا ۔ جی ہاں ، خدا موت اور وقت کو فنا کر کے، سب کو لا فانی بنا دے گا۔ ایک ایسی دنیا جس میں کوئی وقت نہیں اور کوئی موت بھی نہیں۔ خدا تو ہے ہی لا فانی، پر خدا اپنی ہر مخلوق کو بھی لا فانی بنا دے گا ۔ اور یہ سب انتظام ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔ کیوں کو وہ نوری دنیا ہے ، inertial نہیں۔ بنا اسپیڈ اور گریوٹی کا والی کائنات ۔

ابھی بھی نہیں سمجھے ۔ چلیں ایک کام کریں آئنسٹائن کے time dilation تھیوری کےفارمولا میں velocity کو اسپیڈ اوف لائٹ کے برابر کر دیں ۔ جواب آیا infinity , جی ہاں لا محدود ۔ لا امتناہی مطلب ہمیشہ ہمیشہ رہنا والا وقت ، کیا ہوا الجھ گئے آپ۔

# # # # # # # # # # # # # # #

04/01/2022

اگر آپ سائنس پرھنے کے شوقین ہیں تو یقیناً آپ سائنس فکشن فلمیں بھی دیکھتے ہونگے لیکن کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو رہ جاتی ہیں اور ہم نہیں دیکھ پاتے۔ اس لسٹ میں آج کچھ ایسی فلمیں شامل کی گئی ہیں جو شاید آپ نے دیکھی ہوگی لیکن اگر نہیں دیکھی تو پھر آپکو ضرور یہ فلمیں دیکھنی چائیے خاص کر فلکیات کے شوقین حضرات کو ۔۔۔
1.Interstellar
2. Cosmos (both)
3. How the universe works
4. Gravity
5. Martian
6. Contact
7. Arrival
8. Star stuff
9. Stephen hawking documentaries
10. Life
11. Apollo 13
12. 2001 - A Space Odyssey
13. Passengers
14. Wall-E
15. Agora
16. October Sky
17. Star trek (14 Movies & 10+ Tv series)
18. The expanse (3 seasons)
19.First Man
20. Armageddon
21. The Independence day (1st part only)
22. E.T.
23. The Universe - TV series (88 episodes)
24. Hidden figures
25. Deep Impact
26. Close encounters of the third kind
27. The Elegant Universe (Brian Greene)
28. Prometheus
29. 9000kmph
30. First Men in the moon
31. Guardian of Galaxy
32. Salvation (series)
33. Mars (series)
34. The Fabric of the Cosmos (Brian Greene)
35. Alien covenant
36. The day the Earth stood still.
37. Into the universe with Morgan Freeman.
38. Journey to the edge of the universe (Nat Geo series)
39. Eddington and Einstein
40. E=mc^2
41. The Cloverfield Paradox.
42. Event horizon
43. Galilio
44. The Moon
45. Captain Vyom (Serial)
46. Sunshine
47. The Hitchhikers's Guide to the
48. Star Wars (movies and animated)
49. Lost in Space
50. Apollo 18
51. The Last Man on the Moon (2014)
52: Mission Control: The Unsung Heroes of Apollo (2017)
53: Cosmodrome (2008)
54: Bramhand - The universe serial on Door darshan
55: Edge of the Universe (series)
56: Elysium
57: The leap
58: Sci Fi Science: Physics of the impossible
59: The Red Planet: Mars
60: Avatar
61: The Wandering Earth
62: Europa Report
63: 2067
64: Ad Astra
65: Antimatter
66: Multiverse
67: Time machine
68: the core
69: back to the future
Copied

22/12/2021

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: copied
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس کے مطابق تو سورج آئندہ 5ارب سال تک اسی آب و تاب سے چمکتا رہے گا اس کے بعد ریڈ جینٹ بن کر اربوں سال بعد ایک سفید بونے کی صورت میں باقی رہ جائے گا
جو بات سائنس میں ممکن نہ ہو اُسے کسی مفروضے میں ممکن کر لیا جاتا ہے تو فرض کریں کوئی آن دیکھی پر اسرار اور انتہائی طاقتور ہستی سورج کو لپیٹ دے، سمیٹ لے یا آسان لفظوں میں کہیں کہ اپنے مقام سے غائب کر دے تو پورے نظامِ شمسی کا کیا ہوگا؟
اس بات کا سائینسی نظر سے ایک دلچسپ جائزہ لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
آپ جانتے تو ہُوں گے کہ روشنی کائنات کی تیز ترین چیز ہے۔۔ مگر کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی مادی چیز سے نکلنے والی ثقلی لہریں بھی روشنی کی رفتار کے برابر رفتار رکھتی ہیں یعنی 3لاکھ کیلو میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے ہی سفر کرتی ہیں۔۔۔
ہمارے سورج بابا نے کائناتی دھرتی پر پہلی جب جنم لیا ہوگا اور اس کائنات کو اپنے ہونے کا پہلا پہلا احساس اپنی ثقلی لہروں کی صورت میں دلایا ہوگا اور جس جگہ ہماری زمین ہے اس جگہ تک سورج کے جنم کی خبر روشنی اور ثقلی لہروں کی صورت میں 8 منٹ کے بعد پہنچی ہوگی
اور وہی پہلا پہلا احساس اب بھی کائنات کے دور دراز کونوں کی طرف محو سفر ہے،
اور نا محسوس انداز میں سورج کے ہونے کا احساس اپنے راستے میں آنے والے دیگر فلکیاتی اجسام کو دلاتا جا رہا ہے،
جی ہاں جانب! ویسے تو سورج کی ثقلی گرفت دو نوری سال تک دیگر تمام کائناتی اجسام سے زیادہ ہے مگر دو نوری سال کے بعد ثقلی لہریں رک نہیں جاتیں یہ محو سفر رہتی ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے اگر سورج اچانک اپنی جگہ سے غائب ہوجائے تو ہمیں 8 منٹ 19 سیکنڈ تک جسطرح سورج بدستور چمکتا ہوا نظر آتا رہے گا بالکل اسی طرح سورج کی طرف سے آتی ہوئی ثقلی لہروں کی وجہ سے زمین بدستور اور بےخبر اپنے مدار پر 8 منٹ 19 سیکنڈ تک مصروفِ گردش رہے گی
مگر جیسے ہی گھڑی کی ٹک بیسویں سیکنڈ کی نوید سنائے گی تو ساتھ میں سورج کی ثقلی رسی کے ٹوٹنے کی سنگین خبر بھی لائے گی،
اور پھر زمین کا ہولناک، طویل، اندھیرا اور ہے منزل سرد سفر شروع ہوگا جو زمین پر تمام زندگی کی انواع کے خاتمے کے بعد بھی نہیں رکے گا اور تب تک جاری رہے گا جب تک کہ زمین کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آجاتا اور زمین کی حیثیت اپنے معاشرے (کہکشاں) میں ایک یتیم اور آوارہ سیارے کی صورت میں رہ جائے گی۔۔۔اور اس معاشرے کے تمام گھرانے (نظامِ شمسی) اُسے اپنے گھر میں پناہ دینے سے کرائیں اور گھبرائیں گہ کیونکہ زمین کی حالت اس وقت اس بپھرے ہاتھی کے جیسی ہوگی، جو اپنے ہی لشکر کی صفوں کی صفیں درہم برہم کر دیتا ہے،
زمین بھی اگر کسی سیاروی نظام میں داخل ہوگی اس نظام کو تہہ و بالا کر دے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگر سورج اپنی جگہ سے غائب ہوجائے
تو بالترتیب سورج کے غلام سیارے ان اوقات میں سورج کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوں گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کا سب سے قریبی خادم خاص عطارد
3۔3منٹ کے بعد اپنی راہ لے گا
۔۔۔۔۔۔۔
زہرہ 6منٹ بعد انجانے سفر پر روانہ ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین 8 منٹ 19 سیکنڈ کے بعد آزاد ہوگی
۔۔۔۔۔۔
7۔12منٹ بعد مریخ بھی غلامی کا خ*ل اُتار پھینکے گا
۔۔۔۔۔
پھر 18 سے 27 منٹ کے دوران اسٹرائد بیلٹ کے قیدی پتھر آزاد ہونا شروع ہوجائیں گے، 8 منٹ20 سیکنڈ کے اندر تمام پتھر آزاد ہوکر کچھ مشتری وغیرہ پر دھاوا بول دیں گے ، اور کچھ اپنی جان بخشی ہونے کو ہی عافیت سمجھیں گے اور خلا میں رفو چکر ہوجائیں گے
۔۔۔۔۔۔
مشتری 43 منٹ کے بعد آزادی کے سفر پر روانہ ہوگا
۔۔۔۔۔۔
سیٹرن 8۔1 گھنٹے کے بعد اپنا پروانہ دربدري وصول کرے گا
۔۔۔۔۔۔
نیپچون 2۔4گھنٹے کے بعد سورج کو خیر باد کہہ دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔
5۔5 گھنٹے بعد (سیاروی لسٹ سے خارج ہونے کی وجہ سے) ناراض پلوٹو بھی سلام دعا کئے بغیر نکل جائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات گھنٹے کے اندر اندر کوئپر بیلٹ بھی بکھر جائے گی
۔۔۔۔۔۔
پھر 11 سے 28 دنوں کے دوران ہی اورٹ کلاؤڈ بھی اسطرح چھٹ جائیں گے جیسے پیاسی،خاک اڑاتی دھرتی پر چھائے ہوئے بادل اچانک چھٹ جائیں، اس دھرتی کو چلچلاتی دھوپ کا تحفہ دے کر اس دھرتی کے پیاس اور مایوسی کے احساس کو اور گہرا کر جائیں
۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر دوسال کے اندر سورج کی گرفت میں بندھی ہر چیز آزاد ہوچکی ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو سورج کے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کی صورت میں ہمارا ایک سائینسی تجزیہ تھا،
ماہرین فلکیات کہتے ہیں اگر بالفرض سورج صرف تین سیکنڈ کے لئے بھی اگر غائب ہو گا
تو نظامِ شمسی کا تمام نظام ہی بگڑ اور بکھر کر رہ جائے گا۔۔۔۔۔
اور اس مختصر وقت تھوڑی دیر کے گھپ اندھیرے کے سِوا ہم پر کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہُوں یعنی ہم جم کر مریں گے اور نہ ہی درجہ حرارت پر کوئی اثر پڑے گا،
لیکن سورج کی عدم موجودگی کا یہ مختصر ترین عرصہ نظامِ شمسی کی شکل بگاڑ کے رکھ دے گا،
نظامِ شمسی کے تمام چھوٹے بڑے اجسام (سیارے،سیارچے، دیگر چھوٹے بڑے پتھر) نمایاں طور پر اپنے مداروں سے ھٹ چکے ہوں گے
مثلاً
سورج کے گرد 30 کلو میٹر فی سیکنڈ سے گھومتی ہماری زمین ان 3 سیکنڈوں میں 90کلو میٹر اپنے مدار سے ھٹ کر سیدھی لائن میں سفر کر چکی ہوگی
خلائی پتھروں میں بہت سے پتھر ایک دوسرے سے یا نظامِ شمسی کے سیاروں سے ٹکرا چکے ہوں گے
المختصر اس قلیل عرصہ کے لیے سورج کا غائب ہونا بھی نظامِ شمسی پر تباہی لا سکتا ہے۔۔۔
مگر اس کے بر عکس یہ کائناتی نظام ہماری سوچ سے بھی زیادہ منظم طریقے سے اربوں سالوں سے چل رہا ہے،
اس کائناتی مشین کے پرزوں میں اربوں سالوں میں ذرا سی بھی گڑ بڑی نہیں ہوئی،
کائناتی اجسام کے تصادم، ستاروں کا بننا، پھٹنا، پھولنا، سکڑنا، وغیرہ بھی اصولوں اور قوانین کے تحت جاری ہے، کسی بے اصولی،گڑبڑی کے تحت نہیں اور نہ ہی حادثاتی طور پر۔۔۔۔

12/12/2021

1۔ روزانہ ایک دیسی لہسن ضرور کھائیں.
2۔ ناشتے میں ابلے ہوئے انڈے کا استعمال لازمی کریں۔
3۔ ناشتے کے وقت ایک سیب کا استعمال کریں۔
4۔ گھی کی روٹی کی بجائے خشک روٹی استعمال کریں۔
5۔ دن میں 12 گلاس پانی ہر صورت پیئں۔
6۔ ایک دن چھوڑ کر تخم ملنگہ یا اسپغول چھلکا کا استعمال کریں۔

7۔ادرک۔ سونف۔ دار چینی۔ پودینہ۔ چھوٹی الائچی۔
تمام چیزیں تھوڑی مقدار میں لیں۔زیادہ نہ لیں۔انکا قہوہ بنا کے ایک ایک کپ پیئں۔ آدھا لیموں ملا لیں۔ایک دن چھوڑ کر ایک دن پیئں۔

8- روزانہ پانچ یا سات کجھوریں کھائیں.
9- صبح کے وقت بھگو کے رکھے ھوئے بادام چھیل کر کھائیں 12 عدد
10- بوتل اور ڈبے والے juices ترک کر دیں۔ بہت نقصان دہ ہیں۔ان کی جگہ گھر میں Fresh juice بنا کر پیئں۔

11- روزانہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں پر تیل لگا کر سوئیں۔ ناف میں تین قطرے تیل ڈالیں۔ کافی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

12- تلاوت قرآن پاک، پانچ وقت نماز پابندی سے پڑھیں اور جو تھوڑا سا وقت جب بھی ملے اللہ کا ذکر کریں۔

22/11/2021

‏یونیورسٹی میں ایک پروفیسر تھے
جو اپنی کلائی میں لیڈی گھڑی باندھتے تھے، جسے دیکھ سب طلباء کی ہنسی چھوٹ جایا کرتی تھی،
ایک عرصے بعد وائس چانسلر کے ذریعے جب ہم پر انکشاف ہوا
کہ
پروفیسر صاحب جو زنانہ گھڑی پہنتے ہیں وہ ان کی فوت شدہ بیوی کی ہے۔۔۔
اس واقعے سے سیکھا کہ
‏"کچھ دل بِنا بولے محبوب کی رحلت کے بعد بھی اَلم اور درد محسوس کرتے ہیں۔"
۔۔
ایک دفعہ ہسپتال میں
کسی مریض کی عیادت کے لیے جانا ہوا، کوریڈور میں چلتے ہوئے ایک جواں سال لڑکی کی
وِگ (بال) گر گئی
وہاں موجود تمام لوگ اس پر ہنسنے لگے،
آگے بڑھ کر جب ایک دوسری عورت نے اس کی مدد کی
‏تو وہ روتے ہوئے کہنے لگی
اِس میں میرا کوئی قصور نہیں
"کینسر" نے میرے بال لے لیے
اس لیے مجھے یہ آرٹیفشل وِگ لگانا پڑتی ہے۔۔۔

اسی طرح قبرستان میں
دس سالہ بچے کو ایک قبر پر کھڑا کچھ کہتے ہوئے سنا جو کہہ رہا تھا
"ماما اٹھو میرے ساتھ سکول چلو
استاد مجھے تمام لڑکوں کے
‏سامنے مارتا اور کہتا ہے کہ تمہاری ماں کتنی سست اور کاہل ہے جو تمہاری پڑھائی کا خیال نہیں رکھتی۔۔۔
۔۔

کسی کی ظاہری حالت دیکھ کر ہمیں قطعا مذاق یا کسی قسم کا بھونڈا ری ایکشن نہیں دینا چاہیے،
ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اندر ہزار دُکھ چھپائے ہوئے ہو جس کا ہمیں علم نہ ہو۔۔۔
‏بولنے
سوچنے
اور ری ایکشن
دینے سے پہلے اگلے بندے کی فیلنگز کا خیال رکھیے۔۔۔
بلاشبہ بعض باتیں انسان کو قتل کر دیتی ہیں۔۔۔

بدگمانی بہت سے معاملات خراب کرتی ہے

عربی میں ایک مقوله ہے

"الكلمة كالسيف ذات حدين"
زبان سے نکلنے والے الفاظ دو دھاری تلوار کی طرح ہوتے ہیں۔
احتیاط کریں ❤

02/11/2021

=== برداشت ===

● صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے، وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے، روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آ جاتا تھا اور ایوب خان سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے۔

ایک دن جب وہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے، وہاں ان کا بنگالی بٹلر انہیں سگریٹ دینا بھول گیا، جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔
جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا؛ ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا، مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘۔
بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی، انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔

● آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہو گا۔ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا۔
ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا۔ گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے، گامے نے سر پر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا۔ لوگوں نے کہا
’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی، آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘۔
گامے نے جواب دیا ’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا، میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘۔

● قوت برداشت میں چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ اپنے دور کے تمام لیڈرز سے آگے تھے، وہ 75 سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں دریائے شنگھائی میں سوئمنگ کرتے تھے اور اس وقت پانی کا درجہ حرارت منفی دس ہوتا تھا۔ ماؤ انگریزی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا ۔آپ ان کی قوت برداشت کا اندازا لگائیے کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا تھا، وہ لطیفہ سمجھ جاتے تھے لیکن خاموش رہتے تھے، بعد ازاں جب مترجم اس لطیفے کا ترجمہ کرتا تھا تو وہ دل کھول کر ہنستے تھے ۔

● قوت برداشت کا ایک واقعہ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے انہوں نے زندگی میں صرف ڈھائی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی پہلی کامیابی ایک اژدھے کے ساتھ لڑائی تھی، ایک جنگل میں بیس فٹ کے ایک اژدھے نے انہیں جکڑ لیا اور بابر کو اپنی جان بچانے کیلئے اس کے ساتھ بارہ گھنٹے اکیلے لڑنا پڑا۔ ان کی دوسری کامیابی خارش تھی۔ انہیں ایک بار خارش کا مرض لاحق ہو گیا، خارش اس قدر شدید تھی کہ وہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں پہن سکتے تھے۔ بابر کی اس بیماری کی خبر پھیلی تو ان کا دشمن شبانی خان ان کی عیادت کے لئے آ گیا۔ یہ بابر کے لئے ہزیمت کا مقام تھا کہ وہ بیماری کے حالت میں اپنے دشمن کے سامنے جائے۔ بابر نے فوراً پورا شاہی لباس پہنا اور بن ٹھن کر شبانی خان کے سامنے بیٹھ گیا، وہ آدھا دن شبانی خان کے سامنے بیٹھے رہے، پورے جسم پر شدید خارش ہوئی لیکن بابر نے خارش نہیں کی۔ بابر ان دونوں واقعات کو اپنی دو بڑی کامیابیاں قرار دیتا تھا اور آدھی دنیا کی فتح کو اپنی آدھی کامیابی کہتا تھا۔

دنیا میں لیڈرز ہوں، سیاستدان ہوں، حکمران ہوں، چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو، ان کا اصل حسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ، کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں معاشرے، قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے، خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہر وقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شاید قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ ﷺآپ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آ جاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے 90 فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تو اس کی زندگی کے 90 فیصد مسائل ختم ہو جائیں ۔

02/11/2021

ایک دفعہ آراش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا. ابوجہل نے اس کے اونٹ خرید لئے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا. اراشی نے تنگ آ کر ایک روز حرمِ کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔
دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے. سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا: ''ہم کچھ نہیں کر سکتے، دیکھو وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے''.
اراشی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلا اور قریش کے سرداران نے آپس میں کہا: ''آج لطف آئے گا۔''

اراشی نے جا کر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی شکایت بیان کی. آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابوجہل کے مکان کی طرف روانہ ہوئے. سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ کچھ گذرے اس کی خبر لا کر دے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکٹھائی۔ اس نے پوچھا : ''کون''.
آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : ''محمد (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم )'' .
وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا. آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا : ''اس شخص کا حق ادا کرے''.
اس نے کوئی چون و چرا نہ کی۔ سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی. قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجر سنایا اور کہنے لگا کہ
وﷲ! آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا. ابوجہل جب نکلا تو محمد (ﷺ ) کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمد (ﷺ ) نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں جان نہیں ہے۔
(ابن ہشام)
( صحیح اسلامی واقعات ، صفحہ نمبر ١٢)
🔰WJS🔰

01/11/2021

تمہاری یاد بھی محسن
کسی مفلس کی پونجی ہے
جسے ہم ساتھ رکھتے ہیں
جسے ہم روز گنتے ہیں !

27/10/2021

‏خواہش دید___مر چکی اب تو🔥💯

یوں نا چھیڑو خراب حالوں کو_ 🖤🥀

27/10/2021

مجھ سے لوگ میرا خسارا پوچھتے ہیں!!!!
یعنی مجھ سے میرا نہیں تمھارا پوچھتے ہیں ۔۔۔

27/10/2021

نازک لگتے تھے جو حسین لوگ ..😞

واسطہ پڑا ——— تو پتھر نکلے ...!!💔

27/10/2021

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

24/09/2021

کیرئیر کے متعلق معلوماتی پوسٹ:

10 ویب سائٹس جو نوکری ڈھونڈنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں:
1. Linkedin. com
2. Indeed. com
3. Naukri
4. Monster
5. JobBait
6. Careercloud
7. Dice
8. CareerBuilder
9. Rozee. pk
10. Glassdoor

10 skills جو آجکل کے دور میں ڈیمانڈ میں ہیں

1. Machine Learning
2. Mobile Development
3. SEO/SEM Marketing
4. Web development
5. Data Engineering
6. UI/UX Design
7. Cyber-security
8. Graphic designing
9. Blockchain
10. Digital marketing

11 ویب سائٹس جہاں آپ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں:

1. Coursera
2. edX
3. Khan Academy
4. Udemy
5. iTunesU Free Courses
6. MIT OpenCourseWare
7. Stanford Online
8. Codecademy
9. ict it
10 ict iitk
11 NPTEL

10 ویب سائٹس جہاں آپ Excel فری سیکھ سکتے ہیں:

1. Microsoft Excel Help Center
2. Excel Exposure
3. Chandoo
4. Excel Central
5. Contextures
6. Excel Hero b.
7. Mr. Excel
8. Improve Your Excel
9. Excel Easy
10. Excel Jet

10 ویب سائٹس جہاں آپ اپنی CV مفت ریویو کروا سکتے ہیں:

1. Zety Resume Builder
2. Resumonk
3. Resume dot com
4. VisualCV
5. Cvmaker
6. ResumUP
7. Resume Genius
8. Resume builder
9. Resume Baking
10. Enhance

10 ویب سائٹس جہاں آپ انٹرویوز کی تیاری کر سکتے ہیں:

1. Ambitionbox
2. AceThelnterview
3. Geeksforgeeks
4. Leetcode
5. Gain
6. Careercup
7. Codercareer
8. interview
9. InterviewBest
10. Indiabix

5 ویب سائٹس جہاں آپ فری لانسنگ کی جاب کر سکتے ہیں:

1. Fiverr. com
2. Upwork. con
3. Guru. com
4. worksheet com
5. Freelancer . com

فری گرافک ڈیزائننگ کی ویب سائٹ:
Canva. com

04/07/2021

*تین مشکلات اور ان كا حل:-

1⃣ پہلی مشکل :
💢اگر شھوت میں مبتلا ہوۓ ہو...
✅ اسکا حل:
اپنی نماز میں تجدید نظر كرو ضرور نماز میں سستی کرتے ہو گے...
دلیل:-
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ۔۔۔
(سورہ مریم آیت 59)
پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا۔۔۔

2⃣ دوسری مشکل :
💢اگر تم عدم توفیق اور بد بختی کا احساس كرتے ہو..
✅ اسکا حل :
اپنی والدہ محترمہ کیساتھ تمھارا رابطہ درست نہیں ہے لہذا اس بارے تجدید نظر کرو..
دلیل:-
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا
(سورہ مریم آیت 32)
اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والا بنایا ہے اور ظالم و بدنصیب نہیں بنایا ہے۔

3⃣تیسری مشکل:
💢اگر تنگی اور زندگی کی مشکلات کا احساس کرتے ہو۔
✅ اسکا حل:
قرآن کریم کیساتھ اپنا رابطه درست كرو...
دلیل:-
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا۔۔۔
(سورہ طہ آیت 124)
اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی بھی ہے۔

•┈┈••✾❀🕊💓🕊❀✾••┈┈•

04/07/2021



*آخری لوگ...*
*1950 سے 1999 میں پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں.*
کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔
جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھیں۔
جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔
گاؤں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے.
پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے سڑک کو موٹے موٹے پتھروں سے بند کیا جب بارات والے اپنے ساتھ نہ لے جاتے اور واپسی پر انکو خود صاف کرنا پڑتا

ہم وہ اخری لوگ ہیں
جنہوں نے رمضان شروع ہوتے ہی راتوں میں ایندھن(بدرے) چرانے کیلیئے گھروں پر چھاپے مارے
جیسے ہماری پشتو زبان میں "بدرے پٹاوان" بھی کہا جاتا ہے
اور پھر چند رات پر اس سے ایک بڑا آگ کسی مخصوص گھر میں جلایا جاتا جیسے ہماری زبان میں "شاشپیئے" کہا جاتا ہے
اور پھر گاوں کے سارے بچے اسی آگ کے گرد ساری رات پٹاخے چلاتے اور مختلف کھیل کیلتے ہوئے عید کی خوشی مناتے۔۔۔سردیوں میں تو سارے بچے گھروں سے چارپائی بھی اپنے ساتھ لاتے اور رات وہی آگ یعنی شاشپیئے کے ساتھ گزارتے۔

ہم وہ اخری رلگ ہیں ۔

جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ
ہم گاؤں کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے.
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے
ہم وہ بہترین لوگ ہیں
جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو۔
رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو اکثر گاؤں والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری ہم تھے۔
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب صحن میں سوتے تھے
گرم مٹی پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
اور اب ﻣﻮﺑﻞ ﺁﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔
ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﺭﯾﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺭﺍﺕ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﮐﻮﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔کیونکہ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺞ ﮨﮯ ‘ ﻓﺮﯾﺰﺭ ﮨﮯ ‘
ﺍﺏ ﺗﻨﺪﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺍﺏ ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻠﺘﮯ-
ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔
ﺑﭽﮯ ﺍﺏ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ' ﯾﺎﺭ ‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﻠﺐ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ ﺍﯼ ﮈﯼ ﻣﯿﮟ۔
ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺑﻞ ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮔﺪﮮ۔
ﺍﺏ ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺗﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﯿﺎﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﮉ ﻻﺋﻦ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ خاندان کے بچوں کے لیئے کلونے ' ‘ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﯿﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﺮﺳﯿﺎﮞ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ... ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﺳﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘ ﺳﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺑﮭﯽ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻂ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﺌﮯ ﺳﮯ ﺧﻂ ﭘﮍﮬﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮈﺍﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﮍﮪ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺴﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ' ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻓﺘﺢ ﻗﺮﯾﺐ ‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ '' ﺍﻭﮐﮯ ‘‘ ﻧﮩﯿﮟ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ‘ ‘ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮨﺮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﻮﻧﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ‘ ﭘﻤﭗ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻧﯿﺎﺯ ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ '' ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ " ﺍﻭﺭ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ تھا-
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺩُﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ‘ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ' ﺑﮩﺎﻧﮯ ‘ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔
ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮐﮭﮯ۔
ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﻟﯿﭗ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻟﯿﮑﻦ ... ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔
ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭨﻮﺗﮫ ﭘﯿﺴﭧ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﮩﻮﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮈﺑﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ‘ * ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ‘ ﺳﺮﺩﺭﺩ ‘ ﺑﻠﮉ ﭘﺮﯾﺸﺮ ‘ ﻧﯿﻨﺪ ﺍﻭﺭﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ * ۔💔
اب تو وہ صحن میں سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔

کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل بے حس زمانہ آ گیا۔
لیکن اج کا جینیریشن جب ان باتوں کو سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ اسے جہالت کا نام دیتا ہے۔۔۔کیونکہ ان لوگوں نے یہ دور اپنی زندگی میں محسوس ہی نہیں کی ہے ۔۔تو اس کی قدر کیسے ہوگی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہم ہے جو اج بھی یہ حسرت دل میں بٹھائے ہیں کہ۔۔
"کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے "
کیونکہ
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔
یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔
جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔
کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔
اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔
وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔
شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔
اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔
پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔
اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔
اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔
مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔
ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔
اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔
ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔
ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aami Poetry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share