31/01/2023
مُجھ سے ملیٸے۔۔۔
میں اُن باٸیس کروڑ بدنصیبوں میں سے ایک ہوں۔ جس پر حیات تنگ کی جارہی ہے۔ میری حب الوطنی کا مذید امتحان لیا جارہا ہے۔ مجھ سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے وطن پہ قرضہ ہے اُس کی اداٸیگی کرنی ہے۔
اِن لوگوں سے کوٸی پوچھے کہ باہر کے ملکوں اور اداروں سے قرضہ میں نے یا مجھ جیسے غریبوں نے لیا۔ یا کیا وہ قرضہ مجھ پر یا میرے جیسوں پر خرچ کیا گیا۔
ستر پچھتر سال سے جن لوگوں نے لیا اور اپنے محل بناٸے ۔۔ اُن کے پیٹ پھاڑ کر وصول کریں۔ اگر وہ مرگٸے ہیں تو ان کی نسلوں سے وصول کریں مگر یہ کیا ۔۔۔
اس ملک کے غریب کا جینا کیوں تنگ کیا جارہا ہے۔
اُس کا گلا کیوں دبایا جارہا ہے۔
کوٸی ہے ہمارا حمایتی۔۔۔۔
کوٸی ہے ان باٸیس کروڑ بدنصیبوں کا وکیل جو جاکے بین الاقوامی اداروں سے بات کرے کہ ہم نے قرضہ نہیں لیا۔۔۔
نہ ہم پر خرچ ہوا۔
اس ملک پر جو اشرافیہ حکومت کرتی رہی ہے۔ اسی نے قرضہ لیا ہے۔
اُسی نے کھایا۔
ان سے وصول کرو۔
ان کی نسلوں سے وصول کرو۔
اس وصولی میں ہم بھی تمہارا ساتھ دیں گے۔ ان کے محلات کی۔۔ ان کی گاڑیوں کی۔۔۔ ملوں کی فیکٹریوں کی نیلامی کرو۔۔۔
ہم تالیاں بجاٸیں گے۔
اگر تم نے ان کی چمڑی بھی اُدھیڑ دی۔
ہم عوام کچھ نہیں کہینگے بلکہ تمہارے حق میں نعرے لگاٸیں گے۔
لیکن ہمیں تو مت پِیسو ۔۔۔
ہمیں تو مت مارو۔
ہم تو بے گناہ ہیں۔۔۔
بے قصور ہیں۔۔
مظلوم ہیں۔
ہاں ہمارا اتنا قصور ضرور ہے کہ ہم وقتاً قوقتاً انہیں خود پر مسلط کرتے رہے۔ یہ ہمیں لوٹتے رہے مگر ہم ان کے نام کے ساتھ ”جٸے“ کے نعرے لگاتے رہے۔ ان کے جلسوں کو بھرتے رہے۔ اتنی خطا ہے ہماری۔
اس خطا کی جتنی سزا ہمیں ملنی چاہیئے ۔۔
اُس سے زیادہ مل گٸی ہے۔
بس اب اور نہیں۔
فقط
*ایک مجبور پاکستانی* 🇵🇰