18/03/2024
ورۃ الروم آیات نمبر 7,8,9
: سورۃ الروم آیت نمبر 7:
یعلمون ظاھرا من الحیاة الدنیا وھم عن الآخرة ھم غافلون۔" وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں ۔اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس آیت میں من: تبعیض کے لئے ہے ۔اس سے مراد یہ ہے ۔کہ وہ دنیا کے ظاہری امور کو جانتے ہیں ۔کیونکہ اس کی دقائق کو جاننا علومِ حقیقی میں سے ھے ۔یہ تمام دنیا ہی میں حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔اس لئے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ھے ۔دنیا کا جاننا ۔بری بات نہیں ھے ۔مومن دونوں دارین کا شعور اور فہم رکھتا ہے ۔جب کہ مشرک دنیا کے ظاہر کو تو جانتا ہے ۔لیکن معاد سے بے خبر ھوتا ھے ۔اور یہی قابلِ مذمت ھے ۔(التحریر والتنویر)
: سورۃ الروم آیت نمبر 8:
اولم یتفکروا فی انفسھم۔" کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا۔؟" علامہ ابی البقاءؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اولم یتفکروا، اولم ینظروا فی ملکوت السماوات: کی طرح ھے ۔(الاملاء)
امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ وہ اپنے دلوں میں نہیں سوچتے ۔جو اور مخلوقات کی نسبت ان کے زیادہ قریب ہیں ۔اور دوسرے مخلوقات کی بنسبت ان احوال سے زیادہ باخبر ہیں ۔تو بلاتاخیر حکمت کے غرائب میں فکر کرو۔ چاہے ظاہری یا باطنی حکمتیں ہوں ۔
ما خلق اللہ السموات والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمیٰ۔" کہ اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ھے ۔سب کو بہترین قرینے سے مقررہ وقت تک کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔" یعنی ان تمام مخلوقات کو بے فائدے اور بلا حکمت پیدا نہیں کیا ۔اور نہ یہ ہمیشہ قائم رہیں گی ۔ان میں تین چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ۔ان میں حقیقت ،حکمت اور ایک مقررہ وقت تک کے پہلو نمایاں ہیں ۔یعنی قیامت تک اپنے قیام کی مدت پوری کریں گی ۔
وان کثیرا من الناس بلقآئ ربھم لکافرون۔" ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب تعالیٰ کی ملاقات کے منکر ہیں۔" یعنی اکثر لوگ دوبارہ زندگی اور جزا کے منکر ہیں ۔(تفسیر مدارک)
: سورۃ الروم آیت نمبر 9:
اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلھم۔" کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا ۔کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ھوا۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ لاعلمی کے اسباب میں ایک سبب یہ تھا ۔کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی تکذیب کی ۔جو بعث کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے ۔جب ان کے سامنے روز قیامت کی حکمت پیش کی گئی ۔اور بتایا گیا ۔کہ جزا حقیقت ہے ۔تو اس کے بعد دیگر اقوام کے حالات بطورِ پندونصیحت پیش کئے جارہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی ۔اولم یسیروا: کی استفہام تقریری ھے ۔یعنی سرزنش کیلئے ھے ۔یہاں دیکھنے سے مراد آنکھوں سے دیکھنا ہے ۔کیونکہ قریش شام کے سفر کے دوران قوم ثمود اور قوم لوط کے علاقوں میں سے ہو کر گزرتے تھے ۔اور یمن کے سفر کے دوران قوم عاد کے علاقے سے گزرتے تھے ۔انجام کی کیفیت کے بارے میں دعوتِ فکر دینے سے مراد یہ ہے ۔کہ رسولوں کی تکذیب کا انجام تباہی اور بربادی کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔اسی بدحالی سے قریش بھی برباد ہو سکتے ہیں ۔
کانوا اشد منھم قوة و اثاروا الارض وعمروھا اکثر مما عمروھا و جآءتھم رسلھم بالبینات۔" وہ ان سے زیادہ توانا اور طاقتور تھے ۔انہوں نے بھی زمین بوئی جوتی تھی ۔اور ان سے زیادہ آبادی کی تھی ۔ان کے پاس ان کے رسولؑ معجزے لائے تھے۔" تباہی سے دوچار ھونے والی اقوام قریش سے طاقت و توانائی میں زیادہ تھیں ۔اور وہ تعمیر کے لحاظ سے بھی قریش سے بہتر تھیں ۔ان سب کے پاس رسولؑ آئے ۔تاہم ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں بیخ کن عذاب کا سامنا کرنا پڑا ۔قریش اس تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں ۔
فما کان اللہ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون۔" یہ تو ناممکن تھا ۔کہ اللہ تعالی ان پر ظلم کرتا ۔بلکہ دراصل وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔" معجزات کے ساتھ انبیاء کا آنا۔ اس بات کا مقتضی تھا ۔کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جائے ۔انہوں نے یہ جانتے ہوئے ان کی تکذیب کردی ۔کہ یہ انبیاء ہیں ۔دراصل اپنے آپ کے ساتھ ظلم کیا ۔(التحریر و التنویر)
Updated 14 Aug 2017