Fahm-e-Quran

Fahm-e-Quran We are creating this group to enlight our souls and life, with knowledge and Fahm of Quran. Allahس?

18/03/2024

ورۃ الروم آیات نمبر 7,8,9

: سورۃ الروم آیت نمبر 7:
یعلمون ظاھرا من الحیاة الدنیا وھم عن الآخرة ھم غافلون۔" وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں ۔اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس آیت میں من: تبعیض کے لئے ہے ۔اس سے مراد یہ ہے ۔کہ وہ دنیا کے ظاہری امور کو جانتے ہیں ۔کیونکہ اس کی دقائق کو جاننا علومِ حقیقی میں سے ھے ۔یہ تمام دنیا ہی میں حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔اس لئے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ھے ۔دنیا کا جاننا ۔بری بات نہیں ھے ۔مومن دونوں دارین کا شعور اور فہم رکھتا ہے ۔جب کہ مشرک دنیا کے ظاہر کو تو جانتا ہے ۔لیکن معاد سے بے خبر ھوتا ھے ۔اور یہی قابلِ مذمت ھے ۔(التحریر والتنویر)

: سورۃ الروم آیت نمبر 8:
اولم یتفکروا فی انفسھم۔" کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا۔؟" علامہ ابی البقاءؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اولم یتفکروا، اولم ینظروا فی ملکوت السماوات: کی طرح ھے ۔(الاملاء)
امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ وہ اپنے دلوں میں نہیں سوچتے ۔جو اور مخلوقات کی نسبت ان کے زیادہ قریب ہیں ۔اور دوسرے مخلوقات کی بنسبت ان احوال سے زیادہ باخبر ہیں ۔تو بلاتاخیر حکمت کے غرائب میں فکر کرو۔ چاہے ظاہری یا باطنی حکمتیں ہوں ۔
ما خلق اللہ السموات والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمیٰ۔" کہ اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ھے ۔سب کو بہترین قرینے سے مقررہ وقت تک کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔" یعنی ان تمام مخلوقات کو بے فائدے اور بلا حکمت پیدا نہیں کیا ۔اور نہ یہ ہمیشہ قائم رہیں گی ۔ان میں تین چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ۔ان میں حقیقت ،حکمت اور ایک مقررہ وقت تک کے پہلو نمایاں ہیں ۔یعنی قیامت تک اپنے قیام کی مدت پوری کریں گی ۔
وان کثیرا من الناس بلقآئ ربھم لکافرون۔" ہاں اکثر لوگ یقیناً اپنے رب تعالیٰ کی ملاقات کے منکر ہیں۔" یعنی اکثر لوگ دوبارہ زندگی اور جزا کے منکر ہیں ۔(تفسیر مدارک)

: سورۃ الروم آیت نمبر 9:
اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلھم۔" کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا ۔کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ھوا۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ لاعلمی کے اسباب میں ایک سبب یہ تھا ۔کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی تکذیب کی ۔جو بعث کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے ۔جب ان کے سامنے روز قیامت کی حکمت پیش کی گئی ۔اور بتایا گیا ۔کہ جزا حقیقت ہے ۔تو اس کے بعد دیگر اقوام کے حالات بطورِ پندونصیحت پیش کئے جارہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی ۔اولم یسیروا: کی استفہام تقریری ھے ۔یعنی سرزنش کیلئے ھے ۔یہاں دیکھنے سے مراد آنکھوں سے دیکھنا ہے ۔کیونکہ قریش شام کے سفر کے دوران قوم ثمود اور قوم لوط کے علاقوں میں سے ہو کر گزرتے تھے ۔اور یمن کے سفر کے دوران قوم عاد کے علاقے سے گزرتے تھے ۔انجام کی کیفیت کے بارے میں دعوتِ فکر دینے سے مراد یہ ہے ۔کہ رسولوں کی تکذیب کا انجام تباہی اور بربادی کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔اسی بدحالی سے قریش بھی برباد ہو سکتے ہیں ۔
کانوا اشد منھم قوة و اثاروا الارض وعمروھا اکثر مما عمروھا و جآءتھم رسلھم بالبینات۔" وہ ان سے زیادہ توانا اور طاقتور تھے ۔انہوں نے بھی زمین بوئی جوتی تھی ۔اور ان سے زیادہ آبادی کی تھی ۔ان کے پاس ان کے رسولؑ معجزے لائے تھے۔" تباہی سے دوچار ھونے والی اقوام قریش سے طاقت و توانائی میں زیادہ تھیں ۔اور وہ تعمیر کے لحاظ سے بھی قریش سے بہتر تھیں ۔ان سب کے پاس رسولؑ آئے ۔تاہم ان کی تکذیب کی وجہ سے انہیں بیخ کن عذاب کا سامنا کرنا پڑا ۔قریش اس تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں ۔
فما کان اللہ لیظلمھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون۔" یہ تو ناممکن تھا ۔کہ اللہ تعالی ان پر ظلم کرتا ۔بلکہ دراصل وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔" معجزات کے ساتھ انبیاء کا آنا۔ اس بات کا مقتضی تھا ۔کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جائے ۔انہوں نے یہ جانتے ہوئے ان کی تکذیب کردی ۔کہ یہ انبیاء ہیں ۔دراصل اپنے آپ کے ساتھ ظلم کیا ۔(التحریر و التنویر)
Updated 14 Aug 2017

18/03/2024

سورۃ الروم آیات نمبر 4,5,6

: سورۃ الروم آیت نمبر 4:
فی بضع سنین للہ الامر من قبل ومن بعد۔" چند سالوں میں ہی ۔اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالی ہی کا ھے۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ بضع: اس قلیل تعداد سے کنایہ ہے ۔جو دس سے زیادہ نہ ہو ۔ترمذی حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں ۔کہ مشرکین اہلِ فارس کی رومیوں پر برتری سے خوش ھوتے تھے ۔کیونکہ وہ دونوں بت پرست تھے ۔جبکہ مسلمان چاہتے تھے ۔کہ رومی غالب ھوجائیں۔ کیونکہ وہ اہلِ کتاب تھے ۔لوگوں نے اس کا تذکرہ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے کیا ۔تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔عنقریب رومی غالب ھوجائیں گے ۔جب حضرت ابو بکرؓ نے مشرکین سے اس کا ذکر کیا ۔تو وہ کہنے لگے ۔ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کرلو ۔اور اگر اس مدت میں ہم غالب ھوگئے ۔تو تم ہمیں اتنا اتنا دیں گے ۔اور اگر تم لوگ یعنی اہلِ روم فارس پر غالب آگئے ۔تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے ۔چنانچہ پانچ سال کی مدت متعین کر دی گئی ۔لیکن اس مدت میں روم غالب نہ ھوئے ۔جب اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا گیا ۔تو آپ نے ابو بکرؓ سے فرمایا ۔تم نے زیادہ مدت مقرر کیوں نہیں کی ۔راوی کا خیال ہے ۔کہ آپ ﷺ نے دس کے قریب فرمایا ۔سعید کہتے ہیں ۔کہ بضع دس سے کم کو کہتے ہیں ۔راوی کہتے ہیں ۔کہ اس کے بعد روم اہلِ فارس پر غالب آگئے ۔(التحریر والتنویر/ابواب التفسیر القرآن ترمذی:1121)
امام عبدالرزاقؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس کی دیکھا دیکھی مسلمان اور مشرکین آپس میں شرط لگانے لگیں ۔یہاں تک جوئے کی حرمت نازل ہوئی ۔یہ دونوں فریق شرط کی مدت بھی متعین کرنے لگیں ۔تاہم یہ مدت غلط نکلی ۔چنانچہ اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ھوا ۔تو آپ نے فرمایا ۔تم لوگ مدت کچھ بعد میں رکھتے ۔کیونکہ بضع تین یا نو ،دس کی درمیانی مدت کو کہتے ہیں ۔چنانچہ تم شرط موخر کرلیتے ۔انہوں نے شرط کی مدت بڑھا دی ۔چنانچہ نو سال کے میں اہلِ روم فتح یاب ھوگئے ۔ (تفسیر عبدالرزاق: 2270)
امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ امر سے مراد تقدیر و تکوین ھے ۔یعنی اللہ تعالی فتح یا شکست واقع سے پہلے اور بعد میں بھی اس پر قادر تھا ۔کہ نتائج کو بدل دے ۔اس میں مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا ادب پوشیدہ ہے ۔کہ وہ حوادث کے اسباب پر غور کیا کریں ۔اور کاہنوں اور اس طرح کے دیگر لوگوں کی طرح اپنی خواہشات کے مطابق نتائج نہ ڈھونڈ نکالیں ۔جب سورج کو گرہن لگا تھا ۔ یہ عین اس وقت ھوا تھا ۔جب آپ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ وفات پاگئے تھے ۔تو آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔کہ سورج چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔یہ کسی کی موت و حیات سے گرھن میں نہیں آجاتیں ۔(التحریر والتنویر)
ویومںذ یفرح المؤمنون۔" اس روز مسلمان شادماں ھوں گے۔"

: سورۃ الروم آیت نمبر 5:
بنصر اللہ ینصر من یشآء وھو العزیز الرحیم۔" اللہ تعالی کی مدد سے ۔وہ جس کو چاہتا ہے۔ مدد کرتاہے ۔اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد فرماتا ہے ۔کیونکہ ان کی نصرت اپنے دوستوں کے لئے مخصوص ہے ۔تاکہ ان کو اپنے دشمنوں پر غلبہ دلادے۔ اگر دشمن ان کے دوستوں پر غلبہ پالیں ۔تو یہ ان کی نصرت نہیں ۔بلکہ ان کی آزمائش ھوتی ھے ۔اور اس کو ظفر کہتے ہیں ۔وہ انتقام لینے پر غالب ہیں ۔اور اہلِ طاعت پر رحم کرنے والے ہیں ۔(تفسیر قرطبی )

: سورۃ الروم آیت نمبر 6:
وعد اللہ لا یخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔" اللہ تعالی کا وعدہ ھے ۔اللہ تعالی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔" علامہ ابی البقاء ارقام فرماتے ہیں ۔کہ وعد اللہ: مصدر مؤکد ھے ۔یعنی اللہ تعالی کا وعدہ ،وعدہ ہی ہے ۔جو کہ ماقبل کے فعلِ محذوف پر دلالت کرتا ہے ۔یعنی یہ ان کا وعدہ ہے ۔(الاملاء)
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔کہ غالب یا مغلوب کرنے میں اللہ تعالی کی کیا کیا حکمتیں ہیں ۔اور یہ کہ قدرت جب کوئی کام کرنا چاہے ۔تو سب ظاہری رکاوٹیں دور ھوتی چلی جاتی ہیں ۔اسی لئے اکثر ظاہر بین بغیر اسباب ظاہری اللہ تعالی پر بھروسہ نہیں رکھتے ۔اور کسی کا عارضی غلبہ دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں ۔کہ یہ ہی اللہ تعالی کے ہاں مقبول ھوگا ۔(فوائد عثمانی )
Updated 14 Aug 2017

18/03/2024

آغاز : 6-8-2017

*سورۃ الروم *

سورہ روم مکہ میں نازل ہوئی ۔اور اس کی ساٹھ آیات ہیں ۔

علامہ عبدالحقؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس سورت کے کلمات کی تعداد آٹھ سو انیس ہیں ۔اس کے حروف کی تعداد تین ھزار پانچسو چونتیس ہے ۔(الاکلیل شرح تفسیر مدارک)

امام ابن عاشورؒ ارقام۔فرماتے ہیں ۔کہ اس سورت کا نام عہدِ نبوی میں سورۃ الروم رکھا گیا ۔یہ سورت بالاتفاق مکمل طور پر مکی ہے ۔ترمذی حضرت ابو سعید الخدری سے روایت نقل کرتے ہیں ۔کہ یہ سورت بدر کے موقع پر نازل ہوئی ۔اس لئے ان نزدیک یہ مدنی سورت ھے ۔ان کا قول ہے ۔کہ بدر کے دن روم نے فارس کے خلاف فتح حاصل کی ۔مسلمانوں کو یہ اچھی لگی ۔اور انہوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔جس پر اس سورت کی 1تا5 آیات نازل ہوئیں ۔تاہم یہ ایک ایسا قول جس کی کسی نے بھی تائید نہیں کی ۔

یہ نزول کے اعتبار سے چوراسویں سورت ھے ۔یہ سورت انشقاق کے بعد اور سورت عنکبوت سے پہلے نازل ہوئی ۔قتادہ کا قول ہے ۔کہ روم کا فارس پر غالب آنا بیعتِ رضوان کے سال کی بات ہے ۔اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ کے نزدیک اس سورت کی آیات کی تعداد انسٹھ اور اہلِ شام ،بصرہ اور کوفہ کے نزدیک ساٹھ ھے ۔(التحریر والتنویر)

: سورۃ الروم آیات نمبر 1, 2:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

الم۔ غلبت الروم۔" رومی مغلوب ھوگئے ہیں۔" علامہ محمود آلوسیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ روم ایک بڑا قبیلہ تھا ۔جو رومی بن یونان بن علجان بن یافث بن نوحؑ کی اولاد میں سے تھا ۔قول ہے ۔کہ یہ یافان بن یافث کی اولاد میں سے تھا ۔ایک قول یہ بھی ہے ۔کہ یہ رعویل بن عیص بن اسحٰقؑ بن ابراہیمؑ کی اولاد میں سے تھا ۔جوھری کا قول ہے ۔کہ یہ روم بن عیص کی اولاد میں سے تھا ۔یہ واقعہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ھوا ۔کہ فارس نے روم پر فتح حاصل کی ۔(روح المعانی )

: سورۃ الروم آیت نمبر 3:

فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون۔" نزدیک کی زمین پر اور وہ اپنے مغلوب ھونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ 615 ء میں روم اور فارس کے درمیان لڑائی ھوئی ۔جس میں روم کو شکست برداشت کرنا پڑی۔یہ خسرو بن ھرمز کا دور تھا ۔جو فارس کا بادشاہ تھا ۔اس کے اور رومیوں کے درمیان شام اور فلسطین میں لڑائی ھوئی ۔یہ دونوں علاقے قیصر روم کے ماتحت تھے ۔فارس نے پہلے انطاکیہ پر اور بعد میں دمشق پر قبضہ کرلیا ۔یہ روم کی بڑی شکست تھی ۔شام کے سرحدات بلادعرب سے ملتے تھے ۔جن میں بصری اور اذرعات شامل تھے ۔* فی ادنی الارض سے یہی علاقے مراد ہیں ۔ان علاقوں پر اللہ تعالی نے روم کی فتح کی بشارت دی ۔(التحریر والتنویر)
Updated 14 Aug 2017, 20:53
14 Aug 2017, 20:53
Dard FazleRabbi posted in Fahm-e-Quran.
سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 67,68,69

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 67:
اولم یروا انا جعلنا حرما آمنا ویتخطف الناس من حولھم۔" کیا یہ نہیں دیکھتے ۔کہ ہم نے حرم کو باامن بنادیا ۔حالانکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔" امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اے مکہ والوں تم یہ نہیں دیکھتے ۔کہ اللہ تعالی نے تمہارے شہر کو حرمت دی ہے ۔جس کی وجہ سے امن کا گہوارہ ہے ۔حالانکہ اس کے گردونواح میں لوگوں کو اٹھا کر انہیں قتل یا قیدی بنایا جاتا ہے ۔
افبالباطل یؤمنون وبنعمة اللہ یکفرون۔" کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں ۔اور اللہ تعالی کی نعمتوں پر احسان نہیں مانتے۔" یعنی یہ لوگ شیطان اور اصنام پر تو یقین رکھتے ہیں ۔اور محمد ﷺ اور اسلام جیسی نعمتوں کا کفران کرتے ہیں ۔(تفسیر مدارک)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 68:
ومن اظلم ممن افترا علی اللہ کذبا او کذب بالحق لما جاءہ۔" اس سے بڑا ظالم کون ہے۔؟ جو اللہ تعالی پر جھوٹ افترا کرے ۔اور جب حق اس کے پاس آجائے ۔وہ اسے ناجق بتلائے۔" علامہ شوکانیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے ۔جو اللہ تعالی پر شریک رکھنے کا جھوٹ بولے ۔اور اس کے رسول ﷺ اور کتاب کو جھٹلائے ۔سدی کا قول ہے ۔جو توحید کو جھٹلائے ۔
الیس فی جھنم مثوی للکافرین۔" کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ھوگا۔" جہنم ان کے ٹہرنے کی جگہ ھوگا ۔یہاں استفہام سرزنش کے لئے ہے ۔معنی ہیں ۔کیا وہ اس لائق نہیں ہیں ۔کہ دوزخ میں قیام کریں ۔کیونکہ یہی ان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔(فتح القدیر )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 69:
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔" جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ۔ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھائیں گے۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ جو لوگ ہماری مرضی کے حصول کے لئے کفار سے برسرپیکار ہیں ۔سدی کا قول ہے ۔کہ یہ آیت قتال کی فرضیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ابن عطیہ کا قول ہے ۔کہ یہ آیت جہادِ عرفی سے پہلے کی ہے ۔اس وقت جہاد سے مراد دین کی ترویح اور رضائے الٰہی کا حصول تھا ۔
وان اللہ لمع المحسنین۔" یقیناً اللہ تعالی نیک کاروں کا ساتھی ھے۔" (تفسیر قرطبی )
14 Aug 2017

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 67,68,69

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 67:
اولم یروا انا جعلنا حرما آمنا ویتخطف الناس من حولھم۔" کیا یہ نہیں دیکھتے ۔کہ ہم نے حرم کو باامن بنادیا ۔حالانکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔" امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اے مکہ والوں تم یہ نہیں دیکھتے ۔کہ اللہ تعالی نے تمہارے شہر کو حرمت دی ہے ۔جس کی وجہ سے امن کا گہوارہ ہے ۔حالانکہ اس کے گردونواح میں لوگوں کو اٹھا کر انہیں قتل یا قیدی بنایا جاتا ہے ۔
افبالباطل یؤمنون وبنعمة اللہ یکفرون۔" کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں ۔اور اللہ تعالی کی نعمتوں پر احسان نہیں مانتے۔" یعنی یہ لوگ شیطان اور اصنام پر تو یقین رکھتے ہیں ۔اور محمد ﷺ اور اسلام جیسی نعمتوں کا کفران کرتے ہیں ۔(تفسیر مدارک)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 68:
ومن اظلم ممن افترا علی اللہ کذبا او کذب بالحق لما جاءہ۔" اس سے بڑا ظالم کون ہے۔؟ جو اللہ تعالی پر جھوٹ افترا کرے ۔اور جب حق اس کے پاس آجائے ۔وہ اسے ناجق بتلائے۔" علامہ شوکانیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے ۔جو اللہ تعالی پر شریک رکھنے کا جھوٹ بولے ۔اور اس کے رسول ﷺ اور کتاب کو جھٹلائے ۔سدی کا قول ہے ۔جو توحید کو جھٹلائے ۔
الیس فی جھنم مثوی للکافرین۔" کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ھوگا۔" جہنم ان کے ٹہرنے کی جگہ ھوگا ۔یہاں استفہام سرزنش کے لئے ہے ۔معنی ہیں ۔کیا وہ اس لائق نہیں ہیں ۔کہ دوزخ میں قیام کریں ۔کیونکہ یہی ان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔(فتح القدیر )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 69:
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔" جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ۔ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھائیں گے۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ جو لوگ ہماری مرضی کے حصول کے لئے کفار سے برسرپیکار ہیں ۔سدی کا قول ہے ۔کہ یہ آیت قتال کی فرضیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ابن عطیہ کا قول ہے ۔کہ یہ آیت جہادِ عرفی سے پہلے کی ہے ۔اس وقت جہاد سے مراد دین کی ترویح اور رضائے الٰہی کا حصول تھا ۔
وان اللہ لمع المحسنین۔" یقیناً اللہ تعالی نیک کاروں کا ساتھی ھے۔" (تفسیر قرطبی )
14 August 2017 20:53

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 64,65,66

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 64:
وما ھذہ الحیاة الدنیا الا لھو و لعب۔" دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشہ ھے۔" قاضی ابو السعودؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس آیت میں دنیا کی تحقیر اور بے توقیری کی طرف اشارہ ہے ۔اس لئے تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ۔کہ اگر اللہ تعالی کی نظر میں دنیا کے مچھر کے پر کے برابر بھی وزن ھوتا ۔تو اس میں سے کافر پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں پی سکتا ۔اس کی مثال تو بچوں کا کھیل کود ھے ۔کہ ایک گھڑی کے لئے جمع ھوجاتے ہیں ۔اپنی کامیابیوں پر خوشی مناتے ہیں ۔اور پھر اپنے گھروں کی راہ لے لیتے ہیں ۔
وان الدار الآخرة لھی الحیوان۔" البتہ سچی زندگی تو آخرت کا گھر ھے۔" زندگی کا حقیقی گھر آخرت ھے ۔کیونکہ اس پر موت و فنا طاری ہی نہیں ھوتی ۔یا یہ اپنی ذات میں زندگی کامل ھے ۔حیوان : حیی کا مصدر ہے ۔جو حرکت و اضطراب کے معنی دیتا ہے ۔جو زندگی کا لازمی جزو ہے ۔
لو کانوا یعلمون۔" اگر یہ جانتے ھوتے۔" یہ لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔جو دراصل عدم حیات ھے ۔(تفسیر ابو السعود)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 65:
فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدين۔" یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ھوتے ہیں ۔تو اللہ تعالی ہی کو پکارتے ہیں۔" قاضی ثناءاللہؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ جب یہ لوگ کشتی میں سوار ھوتے ہیں ۔تو دریا میں ڈوبنے کے ڈر کیوجہ سے صرف اللہ تعالی ہی کو پکارتے ہیں ۔کیونکہ ان کو پتہ ہے ۔کہ تکلیف دور کرنے والا وہی ایک ذات ہی ہے ۔
فلما نجاھم الی البر اذا ھم یشرکون۔" پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتے ہیں ۔تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔" تو شرک میں لوٹ آتے ہیں ۔عکرمہ کا قول ہے ۔کہ اہلِ جاہلیت جب کشتی میں سوار ھوجاتے ۔تو اپنے ساتھ بتوں کو بھی رکھتے ۔لیکن بحر میں جب تیز آندھی آتی ۔تو وہ اپنے بتوں کو پانی میں پھینک دیتے ۔اور کہتے ۔کہ یا پروردگار ! ۔اور حقیقت میں دین کو اللہ تعالی ہی کے لئے خالص کردیتے ہیں ۔یعنی تکالیف کے دوران شرک کو چھوڑ دیتے ۔اور نجات کی صورت میں واپسی کا راستہ لے لیتے ۔(تفسیر مظہری )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 66:
لیکفروا بما آتیناھم ولیتمتعوا فسوف یعلمون۔"ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے ہیں ۔اور برتتے رہیں ۔ابھی ابھی پتہ چل جائے گا۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ آیت میں مذکور دونوں لام تعلیل کے لئے ہیں ۔یہاں کفر کا لفظ بطورِ کفرانِ نعمت استعمال ہوا ہے ۔جبکہ
فسوف یعلمون: وعید کی دھمکی کے لئے آیا ہے ۔(التحریر والتنویر)
14 August 2017 20:52

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 61,62,63

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 61:
ولںن سالتھم من خلق السماوات والارض وسخر الشمس و القمر لیقولن اللہ ۔" اگر آپ ان سے دریافت کریں ۔کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے ؟ تو ان کا جواب یہی ھوگا ۔کہ اللہ تعالی۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ جب مشرکین مسلمانوں کو غربت کی عار دلاتے تھے ۔اور کہتے ۔کہ اگر تم لوگ حق پر ھو ۔تو غریب کیوں ھوں ۔یہ وہ طنزاً کہتے تھے ۔حالانکہ کفار میں بھی فقراء موجود تھے ۔اللہ تعالی نے اس شبہ کے ازالہ کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔اسی طرح یہ کہنا ۔کہ اگر ہم نے ہجرت کی ۔تو کھائیں گے ۔کہاں سے ۔جب تم اس بات کا اعتراف کرتے ہو ۔کہ مذکورہ تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالی ھے ۔تو رزق میں شک کس بات کا ۔جس کے ہاتھ میں تمام کائنات کا انتظام ھے ۔تو وہ بندے کو رزق دینے سے عاجز ھوسکتا ھے ۔
فانی یؤفکون۔" پھر کدھر الٹے جارہے ھو۔" اس کے باوجود میری توحید کا انکار کیوں کرتے ہو ۔اور میری عبادت سے منہ کیوں موڑ رہے ہو۔ (تفسیر قرطبی )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 62:
اللہ یبسط الرزق لمن یشآء من عبادہ و یقدر لہ۔" اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ۔فراخ روزی دیتا ہے ۔اور جسے چاہے تنگ۔" امام فخرالدین رازیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ رزق اللہ تعالی کی طرف سے ھے ۔اور ان کی مشیئت کے تحت ھے ۔جو کہ مکمل ترین احسان ہے ۔اس لئے اس کا شکر بھی مکمل ترین ھونا چاہیے ۔ہاں اگر کسی کے رزق تنگ کرنا چاہے ۔تو یہ بھی اس کے اختیار اور ارادے پر منحصر ہے ۔
ان اللہ بکل شیء علیم۔" یقیناً اللہ تعالی ھر چیز کا جاننے والا ہے۔" اللہ تعالی کو حاجات اور روزیوں کی مقداریں معلوم ہیں ۔ان کے علم کے اثبات کے بارے میں یہاں چند لطیف نکات کا ذکر ضروری ہے ۔ رزق کامل مشیئت کا حامل ھوتا ھے ۔جب اللہ تعالی اپنے بندے کو دیکھتا ہے ۔کہ وہ محتاج اور بھوکا ھے ۔تو اس کا رزق روکا نہیں جاتا ۔تاہم جب اس کی مشیئت کے نفاذ سے نقصان کا اندیشہ ھو ۔تو اللہ تعالی اپنے رزق کو موخر کردیتا ھے ۔جو ان چار صفات حیات ،قدرت ،ارادہ اور علم سے انکار کردے ۔تو وہ کافر ھے ۔اور جو اللہ تعالی کی صفات سمع، بصر اور کلام سے انکار کردے ۔تو وہ بدعت کا مرتکب ھوجاتا ھے ۔یہاں رزق کا تعلق اللہ تعالی کے نفاذِ مشیئت اور ارادہ سے ھے ۔(تفسیر کبیر )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 63:
ولںن سالتھم من نزل من السمآء مآء فاحیابہ الارض من بعد موتھا لیقولن اللہ۔" اور اگر آپ ان سے سوال کرے ۔کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو موت کے بعد زندہ کرنے والا کون ہے ؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ھوگا ۔اللہ تعالی۔" قاضی ابوالسعودؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ مشرکین عرب اس بات کے معترف تھے ۔کہ تمام ممکنات کا موجد اللہ تعالی کی ذات ھے ۔چاہے اصول ھوں یا فروع۔اس کے باوجود انہوں نے بعض مخلوقات ان کا شرکاء بنادیا ۔اس توھم کے ساتھ کہ بعض چیزوں پر دراصل ان کی قدرت ھے ۔
قل الحمدللہ۔" اقرار کر کہ ھر تعریف اللہ تعالی کے لئے سزاوار ھے۔" آپ اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں ۔کہ یہ باطل پرست انکار کی جرات نہ کرسکیں ۔کیونکہ ان پر حجت غالب آگئی ۔ایک قول ہے ۔کہ اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں ۔کہ ان کی گمراہیوں سے اللہ تعالی نے آپ کو تحفظ عطا فرمایا ۔اس کے بعد یہ بات ثابت ھوگئی۔کہ
بل اکثرھم لایعقلون۔"ؐہاں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔" (تفسیر ابو السعود)
14 August 2017 20:50

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 58,59,60

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 58:
والذین آمنوا وعملوا الصالحات لنبوںنھم من الجنة غرفا تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا۔" جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ۔انہیں ہم یقیناً جنت کے ان بلند بالا خانوں میں جگہ دیں گے ۔جنکے نیچے چشمے بہ رہے ہیں ۔جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ التبوںة: ڈیرہ ڈال کر سکونت کو کہتے ہیں ۔الغرف: یہ غرفة کی جمع ہے ۔وہ گھر جو دوسروں کی نسبت اونچا ہو ۔
نعم اجرالعاملین۔" کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔" اس مزدوری کی مدح بیان کی ۔اور ان کو جو اجر ملے گا ۔اس پر خوشی کا اظہارِ کیا ۔اس حوالہ اس کو بغیر عطف کے لائے ۔(التحریر والتنویر)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 59:
الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون۔" جنہوں نے صبر کیا ۔اور اپنے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ یہ وہ لوگ ہیں ۔جنہوں نے اقامت دین پر صبر کیا ۔اور مشرکین کی ہر اذیت برداشت کی ۔ان کو پتہ تھا ۔کہ ان کے پاس مقابلے کی طاقت نہیں ہے ۔چنانچہ انہوں نے اپنے رب پر توکل کیا ۔اور قوم کے مقاطعہ سے گھبرائے نہیں ۔اور نہ اس بات سے ڈرے۔ کہ وہ اپنے گھربار سے محروم ہوجائیں گے ۔بلکہ انہوں نے اپنے دین کو بچانے کے لئے اپنی زمین چھوڑ دی ۔(التحریر و التنویر)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 60:
وکاین من دآبة لا تحمل رزقھا۔" بہت سے جانور ہیں ۔جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے۔" کائن: کتنے ۔یہاں یہ لفظ استفہام کے لئے آیا ہے ۔ دآبة: جانور ،چلنے والا ،پاؤں دھرنے والا ،رینگنے والا ،دونوں کے لئے مستعمل ہے ۔امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ دآبہ میں عاقل اور غیر ذی عقل دونوں شامل ہیں ۔ان میں یہ طاقت ہی نہیں ھوتی ۔کہ اپنا رزق اٹھائے پھرے ۔
اللہ یرزقھا وایاکم وھو السمیع العلیم۔" ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالی ہی روزی دیتا ہے ۔وہ بڑا ہی سننے جاننے والا ہے۔" ان جانوروں کو رزق اللہ تعالی ہی دیتا ہے ۔اور اے قوی لوگوں تمہیں بھی رزق اللہ تعالی ہی دیتا ہے ۔حسن کا قول ہے ۔کہ جانور رزق اٹھائے پھرتے ہیں ۔اور نہ بچائے رکھتے ہیں ۔صبح ھوتے ہی اللہ تعالی ان کو رزق دیتا ہے ۔قول ہے۔کہ انسان ،چوہے اور چیونٹیاں خوراک کا ذخیرہ کرسکتی ہیں ۔جانور نہیں ۔اللہ تعالی تمہاری فقر سے ڈرنے والی باتوں کو سنتا ہے ۔اور تمہارے دلوں کی باتوں کو جانتا ہے ۔(تفسیر مدارک)
14 August 2017 20:50

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 55,56,57

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 55:
یوم یغشاھم العذاب من فوقھم ومن تحت ارجلھم۔" اس دن ان کے اوپر تلے سے انہیں عذاب ڈھانپ رھے ہوں گے۔" قاضی ثناءاللہؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ جب آگ ان کو چاروں اطراف اور اوپر نیچے سے گھیر لیگی ۔
ویقول ذوقوا ما کنتم تعملون۔" اور کہہ رہے ھوں گے ۔کہ اب اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔" تو اللہ تعالی فرمائے گا ۔یا ان کے زیر حکم فرشتے کہیں گے ۔کہ اپنے اعمال کی جزا کا سامنا کرو۔(تفسیر مظہری )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 56:
یا عبادی الذین آمنوا ان ارضی واسعة فایای فاعبدون۔" اے میرے ایماندار بندو! میری زمین بہت کشادہ ھے ۔سو تم میری ہی عبادت کرتے رھو۔" علامہ محمد جمال الدین القاسمیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے ۔جو اپنی ہی زمین میں اللہ تعالی وحدہ کی عبادت کرنے پر قادر نہیں ہیں ۔کیونکہ ایسا کرنے پر انہیں ظلم اور ایذا کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔تو انہیں کسی ایسے دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنی چاہئے ۔جہاں پر وہ اپنے عقیدہ ،دین اور جان کا تحفظ محسوس کریں ۔یہ اللہ تعالی نے اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی انہیں طریقہ بتایا ۔کیونکہ اللہ کی زمین بڑی کشادہ ھے ۔امام احمد زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں ۔کہ آقائے کریم ﷺ نے فرمایا ۔کہ تمام ممالک اللہ تعالی ہی کے ہیں ۔اور سارے بندے بھی اللہ تعالی ہی کے ہیں ۔چنانچہ وہاں سکونت اختیار کرے ۔جہاں اسے خیر ملے ۔یہی وجہ ہے ۔کہ جب مکہ کمزور لوگوں پر تنگ پڑگئی ۔تو انہوں نے حبشہ ہجرت کی ۔تاکہ وہاں جاکر اپنے دین کی حفاظت کرسکیں ۔چنانچہ وہاں خیر محسوس کرتے ہوئے انہوں نے وہاں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ہاں قیام کیا ۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرامؓ نے مدینہ ہجرت کی ۔اور اس آیت پر عمل کیا ۔(محاسن التاویل )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 57:
کل نفس ذآئقة الموت ثم الینا ترجعون۔" ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے ۔اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤگے۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ بعض مومنین کا خیال تھا ۔کہ شاید مکہ سے ہجرت کے دوران انہیں کافی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے ۔جن میں بھوک کی شدت اور موت بھی ہوسکتی ہے ۔اس خیال کو رد کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ۔کہ موت صرف ہجرت کی وجہ سے نہیں آسکتی ۔یہ تو اٹل بات ہے ۔کہ ہر بندے نے مرکر ہمارے پاس آنا ہے ۔چنانچہ اطاعت کی طرف بڑھو۔اور اللہ تعالی کے دین کے جھنڈے کو لیکر آگے بڑھو۔(تفسیر قرطبی )
14 August 2017 20:49

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 52,53,54

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 52:
قل کفی بالله بینی و بینکم شھیدا یعلم ما فی السماوات والارض۔" کہدیں ۔کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالی کا گواہ ھونا کافی ہے ۔وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا عالم ھے۔" علامہ شوکانیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ آپ ان مکذبین سے کہدیں ۔کہ میرے اور تمہارے درمیان جو واقعات ہوئے ۔ان کے لئے تو صرف اللہ تعالی کی شہادت کافی ہے ۔اس پر آسمان و زمین میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔اور ان تمام واقعات سے آگاہ ہے ۔جو تمہارے اور ان کے رسول ﷺ کے درمیان وقوع پذير ھوئے ۔
والذین آمنوا بالباطل و کفروا بالله اولںک ھم الخاسرون۔" جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالی سے کفر کرنے والے ہیں ۔وہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں۔" جو لوگ اللہ تعالی کے علاوہ دوسروں پر ایمان لاکر ان کی عبادت کرتے ہیں ۔وہ حق یعنی اللہ تعالی کے منکر ہیں ۔وہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان میں ہیں ۔(فتح القدیر )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 53:
ویستعجلونک بالعذاب ولو لا اجل مسمیٰ لجآھم العذاب۔" یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کررہے ہیں ۔اگر میری طرف سے مقرر کیا ھوا وقت نہ ھوتا ۔تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکتا۔" علامہ سیوطیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ ابن جریر قتادہ سے تخریج کرتے ہیں ۔کہ اہلِ جاہلیت کے کچھ لوگوں نے کہا ۔کہ اللہ تعالی اگر یہ دین آپ کی طرف سے ہی ہے ۔تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا ۔یا کوئی دردناک عذاب لے آئیں ۔
ولیاتینھم بغتة وھم لا یشعرون۔" یہ یقینی بات ہے ۔کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچیں گے۔" ابن منذر ،ابن جریج سے تخریج کرتے ہیں ۔کہ یوم بدر کی طرح ۔ ( الدرالمنثور)

سورۃ العنکبوت آیت نمبر 54:
یستعجلونک بالعذاب۔" یہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہیں۔" امام قرطبیؒ ارقام ہیں ۔کہ یہ لوگ انجانے میں جلدی مچا رہے ہیں ۔حالانکہ
ان جھنم لمحیطة بالکافرین۔" تسلی رکھیں ۔جہنم کافروں کو گھیر لینے والا ہے۔" جہنم ان کے لئے تیار پڑا ہوا ہے ۔جو ان کو گھیر لے گا ۔چنانچہ جلدی کس بات کی ۔ایک قول ہے ۔کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی امیہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ۔جو یہ کہہ رہے تھے ۔کہ * او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا* الاسراء :92۔" یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہم پر گرادے ۔جیسا کہ تو کہا کرتا ہے۔" (تفسیر قرطبی )
14 August 2017 20:48

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 49,50,51

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 49:
بل ھو آیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم۔" بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں ۔جو اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔" امام ابن عاشورؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ قرآن کے نزول سے پہلے آپ ﷺ اس کو نہیں پڑھا کرتے تھے ۔بلکہ قرآن کی آیات حضور اقدس ﷺ کے سینے میں محفوظ ہیں ۔اس آیت میں اہلِ علم کے سینوں سے مراد صرف آپ ﷺ کا سینہ ہیں ۔جمع کا صیغہ تعظیماً لایا گیا ہے ۔یہاں علم سے مراد علمِ نبوت ھے ۔چنانچہ معنی آیت یہ ہیں ۔کہ حضور اقدس ﷺ کے سینے مبارک یا حافظے کی وہ شان ھے ۔کہ جو کچھ نازل ھوتا ۔آپ کا حافظہ اس کو محفوظ کرلیتا ۔
وما یجحد بآیتنا الا الظالمون۔" ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں۔" انکار کرنا ظالموں ہی کا وطیرہ ہے ۔کیونکہ وہ واضح دلائل کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔(التحریر والتنویر)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 50:
وقالوا لولا انزل علیہ آیات من ربہ۔" امام قرطبیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ یہ بات آپ ﷺ سے مشرکین کیا کرتے تھے ۔معنی یہ ہیں ۔کہ دیگر انبیاء کی طرح آپ معجزات کیوں نہیں دکھا رہے ہیں ۔جس طرح صالحؑ نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا ۔موسیٰؑ نے لاٹھی اور عیسیٰؑ نے مردہ زندہ کرنے کا معجزہ دکھایا ۔
قل انما الآیات عنداللہ وانما انا نذیر مبین۔" آپ کہدیں ۔کہ نشانات تو سب اللہ تعالی کے پاس ہیں ۔میری حثیت تو صرف کھلم کھلا آگاہ کرنے والے کی ہے۔" آپ بتا دیں ۔کہ معجزات اللہ تعالی کی مرضی کے تحت آتے ہیں ۔معجزات دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ۔میں تو مستقبل کے خطرات سے تم کو آگاہ کرنے والا ھوں ۔(تفسیر قرطبی )

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 51:
اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیھم۔" کیا انہیں یہ کافی نہیں ؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرما دی ۔جو ان پر پڑھی جارہی ہے۔" امام نسفیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ ان کے لئے یہ نشانی یعنی قرآن کافی نہیں ہے ۔جو تمام نشانیوں کا نعم البدل ھے ۔اگر وہ یریشانی پیدا کرنے والوں کے بجائے طالبین حق ھے ۔تو یہ قرآن ایسی نشانی ھے ۔جو ان کو ہر مکان وزمان میں سنایا جارہا ہے ۔یہ ایسی نشانی جو ہروقت ان کے ساتھ رہتی ہے ۔معجزہ تو ایک مکان ومقام تک محدود ہوتا ہے ۔
ان فی ذلک لرحمة و ذکری لقوم یؤمنون۔" اس میں رحمت بھی ہے ۔اور نصیحت بھی ہے ۔ان لوگوں کے لئے جو ایماندار ہیں۔" اس نشانی میں تا قیامت رحمت یعنی بڑی نعمت اور پند و نصیحت ہے ۔ان لوگوں کے لئے جو ایماندار ہیں ۔لغزش اور مشقت میں پڑوانے والے نہیں ہیں ۔(تفسیر مدارک)
30 July 2017 20:19

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 46,47,48

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 46:
ولا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن الا الذین ظلموا منھم۔" اھلِ کتاب کے ساتھ بہت مہذب طریقے سے مناظرے کرو۔مگر ان کے ساتھ جو ان میں بے انصاف ہیں۔" علامہ ابن العربی ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس حوالہ سے تین مسائل ہیں:۔
اول: قتادہ کا قول ہے ۔کہ یہ آیت قتال کی آیت سے منسوخ ھوچکی ہے ۔
دوم: یہ منسوخ کرنے کے بجائے مخصوس کردی گئی ہے ۔کہ بعثت کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ السلام کو حکم ہوا ۔کہ آپ زبان سے لڑیں ۔بعد میں آپ کو تلوار اور زبان دونوں سے لڑنے کا حکم ھوا ۔یہاں تک کہ اللہ تعالی کی مخلوق پر حجت قائم ہوئی ۔اور ساتھ ہی عناد بھی ظاہر ھونے لگی ۔تاہم اس دوران مناظرے کی جنگ کے دس سال بھی مکمل ھوئے ۔جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی قدرت میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ۔چنانچہ بقدرِ ضرورت تلوار و زبان دونوں کا استعمال ھونے لگا ۔مناظرے کا احسن طریقہ جناب ابراہیمؑ کا رہا ۔کہ جب آپ نے کافر سے کہا ۔* ربی الذی یحی و یمیت * سورہ بقرہ :258۔" کہ میرا رب وہ ہے ۔جو زندگی اور موت دیتا ہے۔"ؐ تو کافر نے ان سے کہا ۔کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ھوں ۔چنانچہ انہوں نے خوب مناظرہ کیا ۔جو استدلال پر مبنی تھا ۔کہ میرا اللہ مشرق سے سورج کو نکالتا ہے ۔اور مغرب میں غروب کردیتا ہے ۔تو اس کا الٹا کر ۔یہ حق سے حق اظہر کی طرف انتقال پذیری تھی ۔اور ایک روشن دلیل سے روشن تر دلیل کی طرف مڑنا تھا ۔
الا الذین ظلموا۔ کے حوالہ سے چار اقوال ہیں:۔
اول : مراد اھل الحرب ہیں ۔دوم : جزیہ دینے سے انکار کرنیوالے مراد ہیں ۔
سوم : حجت قائم ھونے کے بعد معاندین مراد ہیں ۔
چہارم : وہ لوگ مراد ہیں ۔جو اپنے مناظرے کے دوران اپنی مباحث میں جھوٹ شامل کرتے ہیں ۔ (احکام القرآن )
وقولوا آمنا بالذی انزل الینا و انزل الیکم والھنا والھکم واحد ونحن لہ مسلمون۔" اور صاف اعلان کردیا کرو۔کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے ۔جو ہم پر اتاری گئی ہے ۔اور اس پر بھی جو تم پر نازل فرمائی گئی ہے ۔ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ۔ہم سب انہی کے حکم بردار ہیں۔" علامہ ابی حیان اندلسیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ یہ مجادلہ احسن میں سے ہے ۔کہ آپ کہیں ۔کہ ہم قرآن کے ساتھ ساتھ توریت ،انجیل اور زبور پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔بخاری حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت نقل کرتے ہیں ۔کہ اھلِ کتاب عبرانی زبان میں توریت کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔اور مسلمانوں کے لئے عربی میں اس کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔کہ اہل کتاب کی تصدیق اور تکذیب کرنے کے بجائے یہ کہا کرو۔کہ ہم اللہ تعالی پر ایمان لائے ۔اور ان پر ایمان لائے ۔جو ہم پر نازل ہوئی ۔اور تم پر نازل ہوئی ۔(بحرالمحیط)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 47:
وکذلک انزلنا الیک الکتاب۔" ہم نے اسی طرح آپ کی طرف اپنی کتاب نازل فرمائی ہے۔" قاضی بیضاویؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس انزال کی طرح ہم نے آپ کو وحی کی ۔جو تمام کتب سماوی کی تصدیق کرتی ہے ۔
فالذین آتینا ھم الکتاب یؤمنون بہ۔" پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے ۔وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔" اس کی مثال حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کی طرح دیگر حضرات ہیں ۔یا حضور اکرم ﷺ سے پہلے اہلِ کتاب اس پر ایمان لائے تھے ۔
ومن ھولاء من یومن بہ۔" اور ان میں سے بعض اس پر ایمان رکھتے ہیں۔" کچھ عرب کے لوگ اور اہلِ مکہ بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔یا مراد وہ اہلِ کتاب ہیں ۔جو رسول کریم ﷺ کے زمانے میں مسلمان ہوگئے تھے ۔
وما یجحدوا بآیتنا الا الکافرون۔" ہماری آیتوں کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں ۔" ہماری آیتوں کے ظہور اور قیامِ حجت کے بعد انکار وہی کرتے ہیں ۔جو کافر ہیں ۔(انوار التنزیل واسرارالتاویل)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 48:
وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک۔" اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے ۔اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔" امام ماوردیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔یعنی قرآن سے پہلے آپ کسی کتاب منزلہ کو نہیں پڑھ سکتے تھے ۔اور نہ لکھنا جانتے تھے ۔تاکہ کتب منزلہ سے آپ سیکھ جاتے ۔اس صورت میں لوگ آپ کی وحی کے حوالہ سے شک کرتے ۔کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے بھی یا نہیں ۔یہ یحیٰی بن سلام کا قول ہے ۔
مجاہد کا قول ھے ۔کہ اہلِ کتاب اپنی کتابوں میں پڑھتے تھے ۔کہ محمد ﷺ پڑھ سکیں گے ۔اور نہ لکھ سکیں گے ۔یہ الفاظ ان کے ہاں بطورِ دلیل نازل ھوئے ۔
اذا لارتاب المبطلون۔" کہ یہ باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے۔" اس حوالہ سے تین اقوال ہیں:۔
مجاہد کا قول ہے ۔کہ ان سے مراد مشرکین قریش ہیں ۔
قتادہ کا قول ہے ۔اگر آپ پڑھ سکتے ۔تو مشرکینِ عرب کہتے ۔کہ یہ آپ کسی سے سیکھتے ہیں ۔
سدی کا قول ہے ۔کہ یہ دروغ گوئی یہود کیا کرتے تھے ۔(النکت والعیون)
30 July 2017 20:18

02/04/2023

سورۃ العنکبوت: آیت نمبر 43,44,45

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 43:
وتلک الامثال نضربھا للناس۔" ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان فرمارہے ہیں۔" قاضی ابو السعودؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ یہ امثال ہم لوگوں کے لئے اسلئے بیان کررہے ہیں ۔تاکہ لوگوں کے اذہان کو مقصد کے قریب ترین لے آئیں ۔
وما یعقلھا الا العالمون۔" انہیں صرف علم والے ہی جانتے ہیں۔" عقل والے وہ ہیں ۔جو ان امثال کے حسن و فوائد کو ڈھونڈتے ہیں ۔جو علم میں راسخ ومتدبر ہیں ۔جب حضور اقدس ﷺ نے یہ آیت پڑھی ۔تو آپ نے فرمایا ۔ عالم وہ ہے ۔جس کو اللہ تعالی کی طرف سے عقل ودیعت کی گئی ہو ۔اور ان کے احکام کے مطابق عمل کرتا ھو ۔اور ان کے غصہ سے اپنے آپ کو بچاتا ھو۔" (تفسیر ابوالسعود)

: سورۃ العنکبوت آیت نمبر 44:
خلق اللہ السمآوات والارض بالحق۔" اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔" قاضی ثناءاللہؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ اس سے مقصود بذات یہی ہے ۔کہ یہ خیر و بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ۔اور یہ تخلیق اللہ تعالی کی ذات اور صفات پر دلالت کررہی ہے ۔
ان فی ذلک لآیة للمومنین۔" ایمان والوں کے لئے تو اس میں بڑی بھاری دلیلیں ھے۔" یہ تخلیق اللہ تعالی کی ذات ،قدرت ،ارادہ ،وحدت اور مناقص سے پاکی کی دلیل ہے ۔خاص کر مومنوں کے لئے ۔کیونکہ یہی ان کو زیادہ فائدہ بہم پہنچاتا ہے ۔(تفسیر مظہری )
: اکیسویں پارے کا آغاز :

سورۃ العنکبوت آیت نمبر 45:
اتل ما اوحی الیک من الکتاب۔" جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ھے اسے پڑھتا رہ۔" قاضی بیضاویؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ قرآن کی قرات کیساتھ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔بار بار قرات سے اس کے الفاظ یاد ہوجاتے ہیں ۔اور معانی کھلتے ہیں ۔بار بار دھرانے سے فکر کرنے والے قاری پر معانی منکشف ھوجاتے ہیں ۔(انوارالتنزیل و اسرارالتاویل)
واقم الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر۔" اور نماز کا پابند رہ ۔یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔" علامہ ابوبکر رازیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔۔کہ ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے ۔کہ نماز امربالمعروف اور نھی عن المنکر کرتی ہے ۔ابن مسعودؓ کا قول ہے ۔کہ نماز صرف اس شخص کو فائدہ دیتی ہے ۔جو اس کی اطاعت کرتا ہے ۔ابوبکر رازیؒ کہتے ہیں ۔کہ اس سے نماز کے موجبات کو قائم رکھنا مراد ہے ۔یعنی نماز کی طرف دل اور اعضاء وجوارح سے توجہ کرنا ۔نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔یہ اس لئے کہا گیا ہے ۔کہ نماز ایسے مخصوص افعال واذکار پر مشتمل ھوتی ہے ۔جن کے درمیان دنیاوی امور خلل انداز نہیں ھوتے ۔کوئی دوسرا فریضہ اس مرتبہ کا نہیں ہے ۔اس لئے یہ منکرات سے روکتی ہے ۔اور معروف کی طرف بایں معنی بلاتی ھے ۔کہ ہر اس شخص کے لئے یہ اس کا مقتضا اور موجب ھے ۔جو نماز کا حق ادا کرتا ھے ۔حسن سے روایت ہے ۔کہ جس شخص کی نماز اسے فحش اور برے کاموں سے نہیں روکتی ۔وہ اللہ تعالی سے اور زیادہ دور ھوجاتا ھے ۔(احکام القرآن )
علامہ ابن العربیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ بزرگ صوفی کہتے ہیں ۔کہ نمازی کی شان یہ ہے ۔کہ وہ فحاشی اور برے کاموں سے رک جاتا ہے ۔جس طرح کہ مومن کی شان یہ ہے ۔کہ وہ متوکل علی اللہ ہوتا ہے ۔جس طرح قول باری ھے۔* وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین * المائدہ :23۔ جس طرح مومن ایمان سے نکل کر توکل نہیں چھوڑنا چاہتا ۔بالکل اسی طرح نمازی نماز سے نکلنا نہیں چاہتا ۔
ولذکر اللہ اکبر۔" یقیناً رب تعالیٰ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔" اس حوالہ سے چار اقوال ہیں:
اول : جب اللہ تعالی تم لوگوں کو یاد کرتے ہیں ۔وہ اس سے بہتر ہے ۔جو تم ان کو یاد کرتے ہو ۔
دوم : اللہ تعالی کا ذکر ہر چیز سے بہتر ہے ۔
سوم : نماز میں اللہ تعالی کا ذکر اور مواقع پر اللہ تعالی کے ذکر سے بہتر ہے ۔
چہارم : نماز میں اللہ تعالی کا ذکر بذاتِ خود نماز سے بہتر ہے ۔(احکام القرآن )
علامہ ابوبکر رازیؒ ارقام فرماتے ہیں ۔کہ ابن عباسؓ ،ابن مسعودؓ ،سلمانؓ اور مجاہد کا قول ھے ۔کہ اللہ تعالی تمہیں اپنی رحمت کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔یہ اس سے بڑھ کر ھے ۔جو تم ان کو اپنی فرمانبرداری کے ذریعے یاد کرتے ہو ۔سلمانؓ سے یہ بھی مروی ہے ۔کہ بندے کا اپنے رب کو یاد کرنا اس کے تمام اعمال سے افضل ھے ۔سدی کا قول ہے ۔کہ نماز میں اللہ تعالی کی یاد نماز سے بھی بڑی چیز ھوتی ھے ۔ (احکام القرآن )
و اللہ یعلم ما تصنعون۔" تم جو کچھ کررہے ھو ۔اس سے اللہ تعالی خبردار ہیں۔"
30 July 2017 20:17

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fahm-e-Quran posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share