05/08/2021
حوصلے کی چٹان ...تحریر وارث خان
شہرفیض و اقبال کا ایک دور دراز گاؤں چوہڑمنڈا جس میں لگ بھگ پچھتر سالہ بوڑھی عورت مٹی کی ایک کچی کوٹھری میں سموسے پکوڑے بناتی ہے ..شدید گرمی کے موسم میں جب انسان سورج کا سامنا کرنے سے بھی پناہ مانگتا ہے یہ جھکی ہوئی کمر لیے , لکڑیوں کے چولہے کے سامنے ایک پھونکنی پکڑے آگ بھڑکاتی نظر آتی ہے .اس کا بوڑھا شوہر ایک چھابڑے میں پکوڑے اٹھائے پیدل مضافاتی گاؤں میں صدائیں دیتا دکھائی دیتا ہے .. یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری یے .. صبح سے لیکر سہ پہر تک روزی روٹی کرنے کے بعد یہ خدا کے سونپے ہوئے کاموں کی تکمیل کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے ..
اکبر بٹ کو اللہ نے چار بیٹیاں دیں ...ایک ایک کر کے سب کی شادیاں کر دیں جس کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے دونوں اپنے گھر میں تنہائی کی کشتی میں سوار زندگی کے دریا کو عبور کر رہے ہیں .
بوڑھی عورت کو کمر کا شدید عارضہ ہونے کے ساتھ ساتھ شوگر اور دل کا مسئلہ بھی ہے جبکہ دوسری جانب ٹانگ کی شدید تکلیف ک باوجود اکبر اپنے کام سے وفا کرتا ہے اور کوئی کوتاہی نہیں ہونے دیتا ..کئی کئی میل پیدل چل کر پکوڑے بیچتا ہے ..روزی روٹی اچھی چل رہی ہے ...لیکن جس کام کے لیے اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے شائد وہ کچھ اور ہے ...اور وہ ہے خدا کے گھر کو,اپنی مسجد کو ,خوبصورت سے خوبصورت بنانا ..
اکبر نے امام مسجد صوفی فیروز دین کے زیر سایہ کام شروع کیا ..ان کی تربیت نے اسے اس جانب راغب کیا ...کہتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے انسان کو جو مقصد حیات دیا جاتاہے اس کے مطابق صلاحیت اور ٹیلنٹ سے بھی نواز دیا جاتا ہے ..اکبر کے پاس علم کا خزانہ تو نہیں لیکن اسے ایک فن پر پوری مہارت ہے وہ ہے کسی سے پیسے نکلوانا ... گاؤں میں بہت سے لوگ آئے .چلے گئے ..اللہ والے آئے پردہ کر گئے .. سب اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے کرتے کوچ کر گئے مگر جس کام کا بیڑا اکبر نے اٹھایا وہ کوئی اور نہیں کر سکا... یہ آسان کام نہیں تھا ...مشکل کام تھا ...دنیا کا سب سے مشکل کام یعنی کسی سے پیسہ نکلوانا...یہ مہارت سیکھنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی یہ فن نہیں آتا.. اکبر بٹ نے اپنا یہ ٹیلنٹ اللہ کے گھر کی تعمیر میں لگا دیا .کہا جاتا ہے کہ خدا شناسی کا ساحل ,انسانیت کی خدمت اور احسنِ تقویم کے سمندر سے گزر کر ہی حاصل ہوتا ہے ..اکبر بٹ نے پہلے ایک مسجد تعمیر کروائی ..دوسرے شہروں کے چکر کاٹے ,اپنے رشتہ داروں کی منت سماجت کی ...لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کے نام پکارے پیسے اکٹھے ہوئے ..ایک خوبصورت شاہکار مسجد بنا ڈالی ...جنازہ گاہ کا بیڑا اٹھایا کہیں سے سو روپے ملے تو لے لیے...تو کہیں سے ہزاروں روپے بھی مل گئے ...کام کیا ,لوگوں پر اپنا اعتبار قائم کیا .اور اپنے مقصد کے حصول میں آج تک برسر پیکار ہے .......
اکبر بٹ کی انسان دوستی تیزی سے بڑھی اس کی اس رفتار کا جواب گاؤں کے چند لوگوں نے بغض اور چغل خوری کے کانٹے بچھا کر دیا .اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے بعد اس کے سرپر مایوسی کے بادل تو منڈلائے , مشکل راستہ اس کا منہ چڑانے لگا, گاؤں والوں نے اس کا دل توڑ کر رکھ دیا تھا ..کبھی اس کی تلخ زبان کے چرچے ہوئے کبھی اس کی بے علمی پر قہقہے بلند ہوئے .مسجد کے لئے پیسے مانگنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی گئی , برادری ازم کا ہاتھی اس کے عزم کو اپنے پاؤں تلے روندتا رہا لیکن پہاڑ جیسا جگرا رکھنے والا اکبر بڑی منزل کا مسافر تھا .ہمت نہیں ہاری ..کئی بار خیال آیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھر سے چھابا اٹھائے اور اپنی روزی کمانے کی خاطر آوازیں لگاتا رہے ..دو وقت کی اچھی روٹی کھانے کو مل جائے گی لیکن حوصلہ دیکھئے.! ایک ٹانگ میں تکلیف کے باوجود ہمت کی سیڑھی کے ذریعے مشکلات کی ساری دیواریں پھلانگ ڈالیں .
مجموعی مالی حالات میں ابتری گاؤں دیہاتوں کے مسائل پر بوجھ ڈالتی رہتی ہے .نالیوں اور گلیوں کی حالت سنوارنے کے لیے بھی سیاسی لوگوں کے پاؤں پکڑے جاتے ہیں , اپنے حق کے لئے بھی جوتیاں چٹخائی جاتی ہیں تاہم مسجدوں میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی خوبصورتی پر بھی کام کر لیا جائے ...لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا .. گاؤں والے تو اپنی بساط کے مطابق مدد کرتے ہی تھے لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو گاؤں چھوڑ کے جا چکے تھے .اکبر نے ان کے فون ملائے دست بستہ گزارشات کیں ,خدا ترس رشتہ داروں کو ڈھونڈا .جس زبان پہ آنگلیاں اٹھائی گئیں اسی زبان سے ہزاروں روپے کی امداد آنے لگی .گاؤں والی مسجد خوبصورتی میں شہری مساجد کو بھی زیر کرتی دکھائی دی ..سفید رنگ کے خوش نما مینار ,دلکش دروازے اور عمدہ فرنٹ دیہاتی سطح پر کسی بھی شاہکار سے کم نہ تھا .یہی نہیں , جب جنازہ گاہ کی باری آئی ..وہی الٹا سیدھا بولتی زبان ,وہی پھیلے ہوئے ہاتھ وہی انداز ..اور پھر وہی نتیجہ .... پورے گاؤں کے باسیوں نے اب اکبر کے قدم سے قدم ملا دئے...جہاں پر رکے خدا پرستوں نے ترغیب دی ...کام شروع ہوا ...مزدوراور راجگیراپنے کام پر لگ گئے ...بالآخر جنازہ گاہ کا ایک ڈھانچہ کھڑا ہو گیا ...کسی نے اینٹیں دے دیں ,کسی نے سریا اور کسی نے سیمنٹ ...
.اور آج ..ایک بہت بڑا کام جس کی شروعات کا نام لیتے سب کی زبانیں جلتی تھیں ,اب اس عمارت کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے نہیں تھکتے ..اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانےوالے کچھ اور لوگ بھی ہیں جن میں شاہد باجوہ , حافظ امتیاز گردیزی ,لیاقت باجوہ اور رانا عبدالغفور بھی شامل ہیں جو اس کام کے لیے ہمہ وقت دستیاب بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ کچھ گمنام لوگ بھی حصہ ڈالتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کام بہت تیزی سے اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے لیکن جو خدمات اکبر بٹ نے پیش کی ہیں ان کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا....
اس سارے واقعے کا مقصد یہ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے , غلطیاں کرتا ہے , بد زبانی ہو جاتی ہے مگر دل چیر کر دیکھنے کا کوئی کلیہ ملے تو نیت کا بھی پتا چلے نا .... عام طور پر جس جگہ کی ٹکٹ لی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسافر کہاں اترنے کے نیت رکھتا ہے ..منزل آپ کے راستے خود طے کر دیتی ہے ...آپ کی سمت ہی آپ کے صحیح سفر کا تعین کرتی ہے ..ورنہ انسان بھٹک بھی سکتا ہے ..اچھے کام کے لیے اگر آپ اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے ,سیمنٹ نہیں منگوا سکتے سریا نہیں منگوا سکتے یا کچھ کر نہیں سکتے تو خدارا دوسروں کی خدمات کا محض اعتراف کر لیجیے ..ان کے لئے دیواریں مت کھڑی کیجیے . کیونکہ...... دیواریں وہیں کھڑی ہوتی ہیں جہاں پر ناطے ٹوٹ جاتے ہیں یا تعلق میں لالچ کی ملاوٹ ہو جاتی ہے .....