Ali Raza

Ali Raza Mathematician, Videos about Islamic Point of Views,

With Staff Islamic Education School System Domala
25/02/2022

With Staff Islamic Education School System Domala

With District Governor Rotory International
25/02/2022

With District Governor Rotory International

01/02/2022
03/01/2022

12/10/2021
04/09/2021



*آخری لوگ...*
*1950 سے 1999 میں پیدا ہونے والے ہم خوش نصیب لوگ ہیں.*
کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔
جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھیں۔
جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔
گاؤں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے.
پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے سڑک کو موٹے موٹے پتھروں سے بند کیا جب بارات والے اپنے ساتھ نہ لے جاتے اور واپسی پر انکو خود صاف کرنا پڑتا

ہم وہ اخری لوگ ہیں
جنہوں نے رمضان شروع ہوتے ہی راتوں میں ایندھن(بدرے) چرانے کیلیئے گھروں پر چھاپے مارے
جیسے ہماری پشتو زبان میں "بدرے پٹاوان" بھی کہا جاتا ہے
اور پھر چند رات پر اس سے ایک بڑا آگ کسی مخصوص گھر میں جلایا جاتا جیسے ہماری زبان میں "شاشپیئے" کہا جاتا ہے
اور پھر گاوں کے سارے بچے اسی آگ کے گرد ساری رات پٹاخے چلاتے اور مختلف کھیل کیلتے ہوئے عید کی خوشی مناتے۔۔۔سردیوں میں تو سارے بچے گھروں سے چارپائی بھی اپنے ساتھ لاتے اور رات وہی آگ یعنی شاشپیئے کے ساتھ گزارتے۔

ہم وہ اخری رلگ ہیں ۔

جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ
ہم گاؤں کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے.
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے
ہم وہ بہترین لوگ ہیں
جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو۔
رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو اکثر گاؤں والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری ہم تھے۔
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب صحن میں سوتے تھے
گرم مٹی پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
اور اب ﻣﻮﺑﻞ ﺁﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ ۔
ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﺴﯽ ﺍﺏ ﺭﯾﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺭﺍﺕ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﭘﻮﺭﯼ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮈﻧﺮﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﺑﺠﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﭘﻮﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭨﺮ ﮐﻮﻟﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﺑﺮﻑ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔کیونکہ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺞ ﮨﮯ ‘ ﻓﺮﯾﺰﺭ ﮨﮯ ‘
ﺍﺏ ﺗﻨﺪﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺗﮯ۔
ﺍﺏ ﻟﻨﮉﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﻠﺘﮯ-
ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﻭﺍﻻ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﯿﮓ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ۔
ﺑﭽﮯ ﺍﺏ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ' ﯾﺎﺭ ‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﻠﺐ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮﺭ ﺍﯾﻞ ﺍﯼ ﮈﯼ ﻣﯿﮟ۔
ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ‘ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮈﺑﻞ ﺑﯿﮉ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﭽﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮔﺪﮮ۔
ﺍﺏ ﺑﭽﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻼﺗﮯ ‘ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﺮ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔
ﺟﻦ ﺳﮍﮐﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻧﮕﮯ ﺩﮬﻮﻝ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﮔﺎﮌﯾﺎﮞ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺍﮌﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﯿﺎﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺲ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﯽ ﺳﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﯿﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﮉ ﻻﺋﻦ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﮏ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮﮔﻔﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ خاندان کے بچوں کے لیئے کلونے ' ‘ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﯿﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮔﻮﻟﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﺮﺳﯿﺎﮞ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ... ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ‘ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﺳﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ‘ ﺳﺴﺘﯽ ﺑﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﯽ ﺑﮭﯽ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺏ ﺍُﺳﺘﺎﺩ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻂ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﺌﮯ ﺳﮯ ﺧﻂ ﭘﮍﮬﻮﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﮈﺍﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺧﻂ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﮍﮪ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺴﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔
ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺁﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ' ﻧﺼﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﻓﺘﺢ ﻗﺮﯾﺐ ‘ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮐﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﯾﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ '' ﺍﻭﮐﮯ ‘‘ ﻧﮩﯿﮟ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ‘ ‘ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮨﺮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺎﻟﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﻠﯿﭧ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ‘ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻗﻤﯿﺺ ﮐﺎ ﮐﻮﻧﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎﺋﮯ ‘ ﭘﻤﭗ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻧﯿﺎﺯ ﺑﭩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺟﺎﺗﯽ '' ﺑﭽﻮ ﺁﺅ ﭼﯿﺰ ﻟﮯ ﻟﻮ " ﺍﻭﺭ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ تھا-
ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ ﭘﯿﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﺩُﮐﺎﻧﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ‘ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ' ﺑﮩﺎﻧﮯ ‘ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻭﻗﺖ ﮨﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ۔
ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﭽﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﮯ ﺣﻘﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮐﮭﮯ۔
ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﻟﯿﭗ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﺳﺨﺖ ﮔﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻟﯿﮑﻦ ... ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﮯ ﺟﺪﯾﺪ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔
ﻣﻨﺠﻦ ﺳﮯ ﭨﻮﺗﮫ ﭘﯿﺴﭧ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ ‘ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﮩﻮﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮨﻤﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮈﺑﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ‘ * ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ‘ ﺳﺮﺩﺭﺩ ‘ ﺑﻠﮉ ﭘﺮﯾﺸﺮ ‘ ﻧﯿﻨﺪ ﺍﻭﺭﻭﭨﺎﻣﻨﺰ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ * ۔💔
اب تو وہ صحن میں سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔

کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل بے حس زمانہ آ گیا۔
لیکن اج کا جینیریشن جب ان باتوں کو سنتا یا دیکھتا ہے تو وہ اسے جہالت کا نام دیتا ہے۔۔۔کیونکہ ان لوگوں نے یہ دور اپنی زندگی میں محسوس ہی نہیں کی ہے ۔۔تو اس کی قدر کیسے ہوگی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ہم ہے جو اج بھی یہ حسرت دل میں بٹھائے ہیں کہ۔۔
"کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے "
کیونکہ
ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔
یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔
جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔
مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔
کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔
اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔
دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔
اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔
لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔
وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔
اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔
اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔
اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔
شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔
اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔
پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔
اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔
اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔
مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔
ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔
اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔
ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔
ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا

تحریک آزادئ کشمیر کے جرات مند اور بے مثال قائد سید علی گیلانی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ انا للہ وانا اليه راجعون۔ اللہ ت...
02/09/2021

تحریک آزادئ کشمیر کے جرات مند اور بے مثال قائد سید علی گیلانی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ انا للہ وانا اليه راجعون۔ اللہ تعالی اپنی رحمت میں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب اللعالمین۔

حوصلے کی چٹان ...تحریر وارث خان شہرفیض و اقبال  کا ایک دور دراز گاؤں چوہڑمنڈا جس میں لگ بھگ پچھتر سالہ بوڑھی عورت مٹی کی...
05/08/2021

حوصلے کی چٹان ...تحریر وارث خان
شہرفیض و اقبال کا ایک دور دراز گاؤں چوہڑمنڈا جس میں لگ بھگ پچھتر سالہ بوڑھی عورت مٹی کی ایک کچی کوٹھری میں سموسے پکوڑے بناتی ہے ..شدید گرمی کے موسم میں جب انسان سورج کا سامنا کرنے سے بھی پناہ مانگتا ہے یہ جھکی ہوئی کمر لیے , لکڑیوں کے چولہے کے سامنے ایک پھونکنی پکڑے آگ بھڑکاتی نظر آتی ہے .اس کا بوڑھا شوہر ایک چھابڑے میں پکوڑے اٹھائے پیدل مضافاتی گاؤں میں صدائیں دیتا دکھائی دیتا ہے .. یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری یے .. صبح سے لیکر سہ پہر تک روزی روٹی کرنے کے بعد یہ خدا کے سونپے ہوئے کاموں کی تکمیل کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے ..
اکبر بٹ کو اللہ نے چار بیٹیاں دیں ...ایک ایک کر کے سب کی شادیاں کر دیں جس کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے دونوں اپنے گھر میں تنہائی کی کشتی میں سوار زندگی کے دریا کو عبور کر رہے ہیں .
بوڑھی عورت کو کمر کا شدید عارضہ ہونے کے ساتھ ساتھ شوگر اور دل کا مسئلہ بھی ہے جبکہ دوسری جانب ٹانگ کی شدید تکلیف ک باوجود اکبر اپنے کام سے وفا کرتا ہے اور کوئی کوتاہی نہیں ہونے دیتا ..کئی کئی میل پیدل چل کر پکوڑے بیچتا ہے ..روزی روٹی اچھی چل رہی ہے ...لیکن جس کام کے لیے اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے شائد وہ کچھ اور ہے ...اور وہ ہے خدا کے گھر کو,اپنی مسجد کو ,خوبصورت سے خوبصورت بنانا ..
اکبر نے امام مسجد صوفی فیروز دین کے زیر سایہ کام شروع کیا ..ان کی تربیت نے اسے اس جانب راغب کیا ...کہتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے انسان کو جو مقصد حیات دیا جاتاہے اس کے مطابق صلاحیت اور ٹیلنٹ سے بھی نواز دیا جاتا ہے ..اکبر کے پاس علم کا خزانہ تو نہیں لیکن اسے ایک فن پر پوری مہارت ہے وہ ہے کسی سے پیسے نکلوانا ... گاؤں میں بہت سے لوگ آئے .چلے گئے ..اللہ والے آئے پردہ کر گئے .. سب اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے کرتے کوچ کر گئے مگر جس کام کا بیڑا اکبر نے اٹھایا وہ کوئی اور نہیں کر سکا... یہ آسان کام نہیں تھا ...مشکل کام تھا ...دنیا کا سب سے مشکل کام یعنی کسی سے پیسہ نکلوانا...یہ مہارت سیکھنے کے لیے لوگ لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی یہ فن نہیں آتا.. اکبر بٹ نے اپنا یہ ٹیلنٹ اللہ کے گھر کی تعمیر میں لگا دیا .کہا جاتا ہے کہ خدا شناسی کا ساحل ,انسانیت کی خدمت اور احسنِ تقویم کے سمندر سے گزر کر ہی حاصل ہوتا ہے ..اکبر بٹ نے پہلے ایک مسجد تعمیر کروائی ..دوسرے شہروں کے چکر کاٹے ,اپنے رشتہ داروں کی منت سماجت کی ...لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کے نام پکارے پیسے اکٹھے ہوئے ..ایک خوبصورت شاہکار مسجد بنا ڈالی ...جنازہ گاہ کا بیڑا اٹھایا کہیں سے سو روپے ملے تو لے لیے...تو کہیں سے ہزاروں روپے بھی مل گئے ...کام کیا ,لوگوں پر اپنا اعتبار قائم کیا .اور اپنے مقصد کے حصول میں آج تک برسر پیکار ہے .......

اکبر بٹ کی انسان دوستی تیزی سے بڑھی اس کی اس رفتار کا جواب گاؤں کے چند لوگوں نے بغض اور چغل خوری کے کانٹے بچھا کر دیا .اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے بعد اس کے سرپر مایوسی کے بادل تو منڈلائے , مشکل راستہ اس کا منہ چڑانے لگا, گاؤں والوں نے اس کا دل توڑ کر رکھ دیا تھا ..کبھی اس کی تلخ زبان کے چرچے ہوئے کبھی اس کی بے علمی پر قہقہے بلند ہوئے .مسجد کے لئے پیسے مانگنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی گئی , برادری ازم کا ہاتھی اس کے عزم کو اپنے پاؤں تلے روندتا رہا لیکن پہاڑ جیسا جگرا رکھنے والا اکبر بڑی منزل کا مسافر تھا .ہمت نہیں ہاری ..کئی بار خیال آیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پھر سے چھابا اٹھائے اور اپنی روزی کمانے کی خاطر آوازیں لگاتا رہے ..دو وقت کی اچھی روٹی کھانے کو مل جائے گی لیکن حوصلہ دیکھئے.! ایک ٹانگ میں تکلیف کے باوجود ہمت کی سیڑھی کے ذریعے مشکلات کی ساری دیواریں پھلانگ ڈالیں .

مجموعی مالی حالات میں ابتری گاؤں دیہاتوں کے مسائل پر بوجھ ڈالتی رہتی ہے .نالیوں اور گلیوں کی حالت سنوارنے کے لیے بھی سیاسی لوگوں کے پاؤں پکڑے جاتے ہیں , اپنے حق کے لئے بھی جوتیاں چٹخائی جاتی ہیں تاہم مسجدوں میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی خوبصورتی پر بھی کام کر لیا جائے ...لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا .. گاؤں والے تو اپنی بساط کے مطابق مدد کرتے ہی تھے لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو گاؤں چھوڑ کے جا چکے تھے .اکبر نے ان کے فون ملائے دست بستہ گزارشات کیں ,خدا ترس رشتہ داروں کو ڈھونڈا .جس زبان پہ آنگلیاں اٹھائی گئیں اسی زبان سے ہزاروں روپے کی امداد آنے لگی .گاؤں والی مسجد خوبصورتی میں شہری مساجد کو بھی زیر کرتی دکھائی دی ..سفید رنگ کے خوش نما مینار ,دلکش دروازے اور عمدہ فرنٹ دیہاتی سطح پر کسی بھی شاہکار سے کم نہ تھا .یہی نہیں , جب جنازہ گاہ کی باری آئی ..وہی الٹا سیدھا بولتی زبان ,وہی پھیلے ہوئے ہاتھ وہی انداز ..اور پھر وہی نتیجہ .... پورے گاؤں کے باسیوں نے اب اکبر کے قدم سے قدم ملا دئے...جہاں پر رکے خدا پرستوں نے ترغیب دی ...کام شروع ہوا ...مزدوراور راجگیراپنے کام پر لگ گئے ...بالآخر جنازہ گاہ کا ایک ڈھانچہ کھڑا ہو گیا ...کسی نے اینٹیں دے دیں ,کسی نے سریا اور کسی نے سیمنٹ ...
.اور آج ..ایک بہت بڑا کام جس کی شروعات کا نام لیتے سب کی زبانیں جلتی تھیں ,اب اس عمارت کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے نہیں تھکتے ..اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانےوالے کچھ اور لوگ بھی ہیں جن میں شاہد باجوہ , حافظ امتیاز گردیزی ,لیاقت باجوہ اور رانا عبدالغفور بھی شامل ہیں جو اس کام کے لیے ہمہ وقت دستیاب بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ کچھ گمنام لوگ بھی حصہ ڈالتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کام بہت تیزی سے اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے لیکن جو خدمات اکبر بٹ نے پیش کی ہیں ان کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا....
اس سارے واقعے کا مقصد یہ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے , غلطیاں کرتا ہے , بد زبانی ہو جاتی ہے مگر دل چیر کر دیکھنے کا کوئی کلیہ ملے تو نیت کا بھی پتا چلے نا .... عام طور پر جس جگہ کی ٹکٹ لی جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسافر کہاں اترنے کے نیت رکھتا ہے ..منزل آپ کے راستے خود طے کر دیتی ہے ...آپ کی سمت ہی آپ کے صحیح سفر کا تعین کرتی ہے ..ورنہ انسان بھٹک بھی سکتا ہے ..اچھے کام کے لیے اگر آپ اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے ,سیمنٹ نہیں منگوا سکتے سریا نہیں منگوا سکتے یا کچھ کر نہیں سکتے تو خدارا دوسروں کی خدمات کا محض اعتراف کر لیجیے ..ان کے لئے دیواریں مت کھڑی کیجیے . کیونکہ...... دیواریں وہیں کھڑی ہوتی ہیں جہاں پر ناطے ٹوٹ جاتے ہیں یا تعلق میں لالچ کی ملاوٹ ہو جاتی ہے .....

بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے ات...
30/06/2021

بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا: ہم ملک کے مسائل حل کرنے کیلیئے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے ۔۔۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔ راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا: وہ تو ٹھیک ہے مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟ دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا: دیکھا رحیمے: آگیا یقین تجھے میری بات پر ، میں نہیں کہتا تھا کہ یہ قوم اپنے بارے کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو بس گدھے کی ہی فکر ہو گی 🤷‍♂️...🤪🤫🤫🤫😂

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھاايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیااور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے ک...
27/05/2021

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا اور چلا گیا لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا
مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں ۔۔

ایاز وہ ڈبیا لے کر بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔۔

بادشاہ نے وہ ڈبا لی اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین بڑے ڈبے شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے
آپ تین ڈبے کیوں دے رہے ہیں ۔۔

بادشاھ نے ایاز سے کہا ایاز
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے
ہم بادشاہ ہیں ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں ۔۔

آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ
مانگیں تو صحیح ۔
اگر کہانی پوری پڑ لی هے توایک بار درود شریف پڑ کر کمینٹ میں ماشااللہ لکھے...

❤ماشاءاللہ اللہ پاک آپ کو صحت یاب ھی رکھے❤عزت مآب حافظ اللہ بخش حطار پنڈ دادنخان ضلع جہلم  عمر 120 سال ہے۔ تاریخ پیدائش ...
25/05/2021

❤ماشاءاللہ اللہ پاک آپ کو صحت یاب ھی رکھے❤

عزت مآب حافظ اللہ بخش حطار پنڈ دادنخان ضلع جہلم
عمر 120 سال ہے۔ تاریخ پیدائش 1898
1913 میں عمر 15 سال ھوئی تو 15 سال کی عمر میں نمازاور روزہ قائم کیا تب سے لیکر آج 2021 کے اس ماہ رمصان تک میرا ان کا کوئی روزہ قضا ھوا اور نہ ھی کوئی نماز قضا ھوئی
استاد صاحب فرماتے ہیں کے اس ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد میرے 108 ماہ رمضان مکمل ھو گئے ان 108 سالوں میں میرا ایک روزہ بھی قضا نہیں ھوا یہ ہمارے ملک کے ولی ہیں
رپورٹ فیصل شیخ

*ڈبل شاہ*ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا.ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر بی ایس سی اور بی ایڈ کیا،اوروزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورن...
17/05/2021

*ڈبل شاہ*ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا.

ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر بی ایس سی اور بی ایڈ کیا،
اور
وزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔

غربت زیادہ تھی اور خواب اونچے،
وہ نوکری سے اکتا گیا۔
اس نے چھٹی لی
اور 2004ء میں دوبئی چلا گیا۔

وہ چھ ماہ دوبئی رہا۔
چھ ماہ بعد وزیر آباد واپس آگیا۔

وزیر آباد میں اس نے ایک عجیب کام شروع کیا۔

اس نے ہمسایوں سے رقم مانگی۔
اور
یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے واپس کردی۔

ایک ہمسایہ اس کا پہلا گاہک بنا‘
یہ ہمسایہ جاوید ماربل کے نام سے ماربل کا کاروبار کرتا تھا۔

ہمسائے نے رقم دی
اور ٹھیک پندرہ دن بعد
دوگنی رقم واپس لے لی۔

محلے کے دو لوگ اگلے گاہک بنے‘
یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے‘
یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے۔

اور پھر
یہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔

یوں دیکھتے ہی دیکھتے
لوگوں کی لائین لگ گئی۔

لوگ زیورات بیچتے،
گاڑی، دکان، مکان اور زمین فروخت کرتے،
اور رقم اس کے حوالے کر دیتے۔
وہ یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا۔

یہ کاروبار شروع میں صرف نظام آباد تک محدود تھا۔

لیکن پھر یہ وزیر آباد‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے
وہ معمولی سکول ماسٹر ارب پتی ہو گیا۔

یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔
اس شخص نے ان 18 مہینوں میں
43 ہزار لوگوں سے
7 ارب روپے جمع کر لئے.

جب کاروبار پھیل گیا
تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔

یہ رشتے دار سمبڑیال‘ سیالکوٹ‘ گجرات اور گوجرانوالہ سے رقم جمع کرتے تھے۔
پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے،
اور باقی رقم اسے دے دیتے۔

وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا۔
یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی۔
پھر دو مہینے
اور آخر میں 70 دن ہو گئی۔

یہ سلسلہ چلتا رہا۔
لیکن
پھر اس کے برے دن شروع ہوگئے۔

وہ خفیہ اداروں کی نظر میں آ گیا۔

تحقیقات شروع ہوئیں
تو پتہ چلا وہ شخص
*"پونزی سکیم"*
چلا رہا ہے۔

پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے ،
جس میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔
شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہے۔
لیکن
آخری گاہک سارے سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

مجھے چند برس قبل امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
انٹرویو کرنے والے نے ان سے سوال کیا:
"آپ کو اگر اپنی عملی زندگی دوبارہ شروع کرنی پڑے تو آپ کون سا کاروبار کریں گے ”؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا:
”میں نیٹ ورکنگ کا کاروبار کروں گا۔“

میرے لئے یہ کاروبار نیا تھا‘
میں نے تحقیق کی،
پتہ چلا نیٹ ورکنگ بھی پونزی سکیم جیسا کاروبار ہے۔

اس کاروبار میں بھی گاہک کو رقم دگنی کرنے کا لالچ دے کر سرمایہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔
یہ سرمایہ بعد ازاں میگا پراجیکٹس میں لگا دیا جاتا ہے
اور ان میگا پراجیکٹ کا منافع گاہکوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
نیٹ ورکنگ نسبتاً اچھی پونزی ہوتی ہے،
لیکن دونوں میں شروع کے گاہک فائدے اور آخری نقصان میں رہتے ہیں۔

یہ وزیرآبادی شخص بھی اپنے گاہکوں کے ساتھ پونزی کر رہا تھا۔

یہ لوگوں کو لالچ دے کر لوٹ رہا تھا۔

خفیہ اداروں نے اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا.

اس دوران *”ڈیلی نیشن“* میں اس کے خلاف خبر شائع ہوگئی۔

گوجرانوالہ ڈویژن میں کہرام برپا ہوا۔
اور
یہ شخص اپریل 2007ء میں گرفتار ہو گیا۔

جی ہاں
۔آپ کا اندازہ درست ہے
یہ شخص تھا
*سید سبط الحسن
عرف ڈبل شاہ*

وہ ڈبل شاہ
جس کا شمار پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیوں میں ہوتا تھا۔

اس نے صرف ڈیڑھ سال میں
تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔

آپ اب اس شخص کی چالاکی ملاحظہ کیجئے۔

یہ 2007ءمیں نیب کے شکنجے میں آ گیا۔

نیب نے اس کی جائیداد‘ زمینیں‘ اکاﺅنٹس اور سیف پکڑ لئے‘

یہ رقم تین ارب روپے بنی،
اور اس نے یہ تین ارب روپے
چپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیئے.

ڈبل شاہ کا کیس چلا.

اسے یکم جولائی 2012ءکو 14 سال قید کی سزا ہو ئی.

جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے
چنانچہ
ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے.

عدالتیں پولیس حراست‘ حوالات اور مقدمے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں.

ڈبل شاہ 13 اپریل 2007ءکو گرفتار ہوا تھا‘
وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا‘
یہ پانچ سال بھی
اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے‘
پیچھے رہ گئے دو سال‘

ڈبل شاہ نے محسوس کیا
چار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں،

چنانچہ
اس نے پلی بارگین کی بجائے
سزا قبول کر لی.

جیل میں اچھے چال چلن‘ عید‘ شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی
قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے.

ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی.

چنانچہ
وہ عدالتی فیصلے کے 23ماہ بعد
جیل سے رہا ہوگیا.

ڈبل شاہ 15مئی 2014ءکو
کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا،
تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا.

یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے.

وزیر آباد میں
ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا.

پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو
ہار پہنائے گئے.
اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں،
اور اسے مسجدوں کے لاﺅڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی.

وہ ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا.

وہ سکول ٹیچر تھا.
وہ معاشرے کا تیسرے درجے کا شہری تھا.

اس نے فراڈ شروع کیا
اور 18 ماہ میں سات ارب روپے کا مالک بن گیا.

نیب نے اسے گرفتار کر لیا‘
وہ گرفتار ہو گیا‘
نیب ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود
اس سے چار ارب روپے نہیں نکلوا سکا.

سزا ہوئی،
اور وہ بڑے آرام سے
سزا بھگت کر باہر آ گیا.

اس نے قید کے دن بھی جیل کے ہسپتال اور سیکنڈ کلاس میں گزارے‘

اسے جیل میں تمام سہولتیں حاصل تھیں.

چنانچہ وہ جب رہا ہوا،
تو وہ مکمل طور پر کلیئر تھا.

اس نے اب کسی کو کچھ ادا کرنا تھا،
اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی.

یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے.
یہ اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھا

ایک سابق سکول ٹیچر کےلئے
چارب ارب روپے کی رقم
قارون کے خزانے سے کم نہیں تھی.

وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا،
اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا.

لیکن اب
*اللہ کا نظام بھی ملاحظہ کیجئے*

سید سبط الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ
کو رہائی کے 16 ماہ بعد
اکتوبر 2015ءمیں لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا.

یہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا‘
اس کی طبیعت تھوڑی سی بحال ہوئی‘
یہ گھر آیا،
لیکن
پھر یہ شخص
30 اکتوبر 2015ءکو انتقال کر گیا.

یہ شخص
چار ارب روپے کا مالک ہونے کے باوجود
دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو گیا.

ڈبل شاہ کی
ساری بے نامی جائیداد‘ خفیہ اکاﺅنٹس‘ کیش رقم‘ فیکٹریاں اور پلازے
دنیا میں رہ گئے،
اور وہ خالی ہاتھ
اگلے جہاں چلا گیا.

وہ جائیداد‘ وہ رقم‘ وہ پلازے اور وہ خفیہ اکاﺅنٹس آج کہاں ہیں؟

دنیا کا مال دنیا کے کتے چاٹ گئے۔

یہ کیا ہے؟
یہ ہماری زندگی‘ ہمارے نہ ختم ہونے والے لالچ
اور ہماری لامتناہی حرص کی اصل حقیقت ہے

ہم انسان اپنے گرد لالچ کی وسیع دیوار بناتے ہیں‘
ہم مال جمع کرتے ہیں‘
ہم دوسروں کی عمر بھر کی کمائی لوٹتے ہیں
اور قارون کی طرح خزانے بناتے ہیں.

لیکن آخر میں
ہم چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.
اور یہ مال
دوسروں کے کام آ جاتا ہے.

نورجہاں کا مقبرہ
نشئیوں کی پناہ گاہ بن جاتا ہے.

اور شاہ جہاں کے تاج محل میں
انگریزوں کے گھوڑے باندھے جاتے ہیں.

ہم انسان
ان چیونٹیوں سے بھی بدتر ہیں
جو عمر بھر اپنے جثے سے بڑے دانے کھینچتی رہتی ہیں،
انہیں کھینچ‘ دھکیل کر بلوں تک لاتی ہیں،
اور جب دانوں کا انبار لگ جاتا ہے،
تو وہ ان کے سرہانے گر کر مر جاتی ہیں.
اور پھر
ان کی عمر بھر کی جمع پونجی
چوہوں کا نوالہ بن جاتی ہے.
ہم میں سے زیادہ تر لوگ چونٹیاں ہیں.
میں اکثر حیران ہوتا ہوں.

ہم انسان جانتے ہیں
*ہم خسارے کے سوداگر ہیں.*

17/05/2021

قَالَ رَسُول اللّٰهﷺ *مَن سبَّ نَبِیًّا فَاقتُلُوہُ* حضورپاکﷺ نے فرمایا : قیامت تک کوئی نبی کے بارے میں گستاخی کرے اس کو کاٹ کر رکھ دو

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو انکے جاسوسوں نے بتایا کہ ایک عالمِ دین ہیں جو بہت اچھا خطاب کرتے ہیں لوگوں میں...
16/05/2021

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو انکے جاسوسوں نے بتایا کہ ایک عالمِ دین ہیں جو بہت اچھا خطاب کرتے ہیں لوگوں میں بہت مقبول ہو گئے ہیں.
سلطان نے کہا آگے کہو
جاسوس بولے "کچھ غلط ہے جسے ہم محسوس کر رہے ہیں مگر الفاظوں میں بیان نہیں کرپا رہے"

سلطان نے کہا "جو بھی دیکھا اور سنا ہے بیان کرو"

جاسوس بولے کہ وہ کہتے ہیں کہ "نفس کا جہاد افضل ہے، بچوں کو تعلیم دینا ایک بہترین جہاد ہے، گھر کی زمہ داریوں کیلئے جد وجہد کرنا بھی ایک جہاد ہے۔
سلطان نے کہا تو اس میں کوئی شک ہے؟؟
جاسوس نے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں لیکن اس عالم کا کہنا ہے کہ:
"جنگوں سے کیا ملا؟؟ صرف قتل وغارت گری صرف لاشیں، جنگوں نے تمہیں یا تو قاتل بنایا یا مقتول "

سلطان بے چین ہو کر اٹھے، اسی وقت عالم سے ملنے کی ٹھانی، ملاقات بھیس بدل کر کی اور جاتے ہی سوال کر دیا کہ "جناب ایسی کوئی ترکیب بتائیے کہ بیت المقدس کو آزاد اور مسلمانوں کے خلاف مظالم کو بغیر جنگ کے ختم کرایا جاسکے؟؟"

عالم نے کہا دعا کریں

سلطان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا، وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ عالِم پوری صلیبی فوج سے بھی زیادہ خطرناک ہے.

سلطان نے سب سے پہلے اپنے خنجر سے اُس عالم کی انگلی کاٹ دی، وہ بری طرح چیخنے لگا.

اب سلطان نے کہا کہ اصلیت بتاتے ہو یا گردن بھی کاٹ دوں

پتہ چلا کہ وہ سفید پوش عالم ایک یہودی تھا یہودیوں کو عربی بخوبی آتی تھی جسکا اس نے فائدہ اٹھایا.
سلطان نے پایا کہ اسکے جیسا درس اب خطبوں میں عام ہو چلا تھا، بڑی مشکل سے یہ فتنہ روکا جاسکا.

یہ فتنہ اس وقت بھی پوری آب وتاب سے رواں دواں ہے۔
جبکہ کھلی حقیقت ہے کہ ظالم کا سامنا کئے بغیر ظلم کا مداوا ہوجائے یہ ممکن ہی نہیں.
سب مسلمانوں کو مل کر اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی.

03/05/2021

ترکی ميں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک کی زيارت💗💗
زیارت کرکے شیئر ضرور کریں💗💗

03/05/2021

حضرت خالد بن ولید
لقب: سیف اللہ(اللہ کی تلوار)


03/05/2021

کیا آپ جانتے ہیں اسلام کی 1000 سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ مسند امام علی علیہ السلام لکھنے والی شخصیت کا نام حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے جنہوں نے تاریخ میں موجود ابہام کا مٹایا اور سند کے ساتھ بتایا کے صحابہ کرام (رض) میں سے سب سے ذیادہ احادیث مولا علی شیر خدا سے مروی ہیں اور ان کی تعداد 12 ہزار ہے جبکہ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی مرویات کی تعداد 5 ہزار ہے

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ...
02/05/2021

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ، ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ، ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچیے

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﺳﻮﺍﺭﯼ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ، ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ 7 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯿﮍ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔

ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ 22 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺳﭙﺮ ﭘﺎﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺑﺪﻭﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﻧﺼﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﭼﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺋﮯ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.

ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﻧﮯ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺎﻡ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ،

✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ
✅ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪ ﻭ ﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.
✅ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔
✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔
✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯿﺎ
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔
✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘۔

◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
◾ ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔"

◾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

◾ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔

ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ*، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

*ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ( ﺣﻀﺮﺕ ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ( ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ "اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا."

ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻋﻤﺮ ﮨﻮتا-`

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ali Raza posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ali Raza:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share