17/12/2023
دانتوں کو صاف کرنے کا آسان فارمولا
Daant chamkaye asaan remedy se . 🪥
A Digital Media Platform
Vlogging & Journalism
Informative Content Creator
دانتوں کو صاف کرنے کا آسان فارمولا
Daant chamkaye asaan remedy se . 🪥
آسٹریلیا نے پرتھ میں پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو 340 رنز سے شکست سے دی ہے۔ میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کو دوسری اننگر میں 480 رنز کا ہدف دیا تھا۔ البتہ پاکستان کی پوری ٹیم 89 رنز پر آؤٹ ہوئی۔
پیاز کے بغیر سالن پکانے پر بحث جاری
پیاز 180 سے 200 روپے کلو
#مہنگائی
مرحبا دسمبر 🥶
کسٹم والے خود پیسے لیکر گاڑیاں اسمگل کراتے اور بعد میں خود ہی پکڑواتے ہیں :چیف جسٹس
صبح بخیر 💕
سوشل میڈیا پر عالمی شہرت یافتہ اسلامی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی وفات کی جھوٹی خبر گردش کررہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب خیریت سے ہیں ۔
کمشنر ہزارہ نے شہر بھر سے گندگی نہ اٹھانے کا معاملہ حل کر دیا۔۔ گندگی دھمتوڑ بائی پاس پر خریدی گئ زمین میں پلانٹ لگنے تک گڑھے کھود کر دفن کی جائیگی۔۔
سردیوں کے دن تھے۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا، "فحاشی بہت بڑھ گئی ہے، کیا بنے گا؟"
بابا جی نے فرمایا، "جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرکے لاؤ"۔
لکڑیاں آگئیں۔
بابا جی نے فرمایا، "آگ جلاؤ"
آگ جلانے کے بعد بابا جی نے ہاتھ سینکتے ہوئے فرمایا،
"دکھ یہ نہیں ہے کہ فحاشی بڑھ گئی ہے، دکھ یہ ہے کہ ہماری جوانی ڈھل جانے کے بعد بڑھی ہے"۔
سوال : بچہ پیدائش کے وقت روتا کیوں ہے ؟
بچے کے رونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے کچھ تکلیف ہو رہی ہے یا اسے کسی چیز کا غم یا خوف ہے- جسے ہم بچے کا رونا کہتے ہیں وہ دراصل بچے کا باقی دنیا سے کمیونیکیشن کا واحد ذریعہ ہوتا ہے- بچے کا رونا ایک جبلی رویہ ہے جسے سیکھنے یا اس کا 'مطلب' سمجھے کی ضرورت بچے کو نہیں ہوتی- انسانی بچوں کی جبلت ہے کہ جب انہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو روتے ہیں (کیونکہ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتے)- پیدائش کے فوراً بعد ماں کے جسم سے آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بچے کو آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور بچہ جبلی طور پر رونے لگتا ہے- رونے سے اس کے ناک، حلق، اور پھیپھڑوں میں بھرا ایمنیوٹک فلوئیڈ خارج ہو جاتا ہے اور آکسیجن بھری ہوا پھیپھڑوں تک پہنچنے لگتی ہے جس سے بچے کے جسم میں آکسیجن کی کمی ختم ہو جاتی ہے
کیا آپ جانتے ہیں؟
ایک بڑے جہاز کا انجن خراب ہو گیا اور کوئی بھی اس کی مرمت نہ کر سکا، اس لیے انہوں نے 30 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھنے والے مکینیکل انجینئر کی خدمات حاصل کیں۔
اس نے اوپر سے نیچے تک بہت غور سے انجن کا معائنہ کیا۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد انجینئر نے اپنا بیگ اتارا اور ایک چھوٹا ہتھوڑا نکالا۔
اس نے آہستگی سے کچھ ٹھٹکا۔ جلد ہی، انجن دوبارہ زندہ ہو گیا. انجن ٹھیک ہو گیا ہے!
ایک ہفتے بعد انجینئر نے جہاز کے مالک سے کہا کہ اس بڑے جہاز کی مرمت کی کل لاگت $20,000 ہے۔
"کیا؟!" مالک نے کہا.
"آپ نے تقریباً کچھ نہیں کیا۔ ہمیں تفصیلی بل دیں۔"
جواب آسان ہے:
ہتھوڑے سے تھپتھپائیں: $2
جانیں کہ کہاں کھٹکھٹانا ہے اور کتنا دستک کرنا ہے: $19,998
کسی کی مہارت اور تجربے کی تعریف کرنے کی اہمیت...کیونکہ یہ جدوجہد، تجربات اور یہاں تک کہ آنسوؤں کے نتائج ہیں۔
اگر میں کوئی کام 30 منٹ میں کرتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسے 30 منٹ میں کرنے کا طریقہ سیکھنے میں 20 سال گزارے۔ تم سالوں کے لیے میرے مقروض ہو، منٹوں کے نہیں۔
افغانستان نے چین کے تعاون سے خام تیل نکالنا شروع کر دیا
جبکہ پاکستان آئی ایم ایف کے تعاون سے عوام کا تیل نکال رہا ہے
آج کل کے طلباء کی بڑی خواہش آئی فون خریدنا ہے لیکن ہمارے دور میں یہ قلم خریدنا ہمارے لیے کسی بھی چیز سے بڑھ کر تھا۔ ورنہ اکثریت کے پاس ایگل یا ڈالر کے پین ہی ہوتے تھے ۔
تمام والدین 31 دسمبر 2023 تک اپنے بچوں کے فارم-ب یا برتھ سرٹیفکیٹ ضرور بنوا لیں کیونکہ آنے والے 2024 سال میں نئے قانون کے مطابق سات (7) سال تک کے بچوں کو فارم-ب یا برتھ سرٹیفیکیٹ جاری ہوگا۔
7 سال سے اوپر کے بچوں کیلئے میڈیکل سرٹیفیکیٹ لازمی چاہئیے ہوگا۔ جس میں آپ والدین کا پیسہ اور وقت دونوں لگے گا-
آج سے دسمبری
عاشقوں کا ماتمی جلوس
اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا پورا مہینہ
محبوب کی گلیوں میں دھکے کھائے گا 🤣
تمہارا شہر لاکھ خوبصورت سہی
مگر وہ ایبٹ آباد نہیں ہو سکتا
جیو ہزارے وال 💕
مزار پر سجدہ تو دور کی بات صرف اس نیت سےجانا کہ میرا وہاں کوئی کام بن جاۓ شرک اکبر ہے کیونکہ کاموں کو بنانے بگاڑنے والا اللہﷻ ہے
عوام ہوشیار باش 🙏
ایبٹ اباد کی عوام الناس سے گزارش ہے کہ ڈٹے رہیں ثابت قدم رہیں تھوڑی سی تکلیف برداشت کر لیں سوزوکی مافیا کو ہرا دیں
ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو دفاتر سے نکل کر خود روڈ پر آنا چاہیے۔ خواتین سواریوں کے ساتھ لب سڑک بدتمیزی کسی صورت قابل قبول نہیں
ایبٹ آباد: سوزوکی یونین کی جانب سے ہڑتال کی کال پر انتظامیہ کی جانب سے
منڈیاں تا کالا پل کوسٹر بس سروس چلا دی گئی۔
بڑی گاڑی سے نکل کر اگر کوئی بندہ آپ کو جپھی ڈال کر ملے اور کہے کہ "میں جناب دا نوکر"
تو سمجھ جاؤ الیکشن سِر
تے نے🫡
ایبٹ آباد سیکریٹری RTA کی جانب سے نیا کرایہ نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔
موبائل کے اندر کوئی ایسا سسٹم (ویب سائٹ، ایپلیکیشن وغیرہ) ہے کہ جس کو قرآن سنایا جا رہا ہو اور اگر کہیں قاری سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ ایپ وغیرہ کوئی آواز کر دے، سکرین پر کچھ شو ہو جائے جس سے سنانے والے کو پتہ لگے کہ میں نے کوئی لفظ غلط کر دیا یا کوئی اور غلطی ہوگئی؟؟
اہل علم رہنمائی فرمائیں ۔۔۔
ایبٹ آباد سے ہری پور کرایا 190 روپے
ایبٹ آباد سے حویلیاں کرایا 60 روپے
حویلیاں سے ہری پور کرایا 60 روپے
اگر لوکل جائیں تو 70 روپے کی بچت بات سوچنے والی ہے
۔ الیکشن شروع ہوتے ہی ایک عجیب و غریب قسم کی مخلوقات روۓ زمین پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً نڈر، بے باک، اعلیٰ تعلیم ، نہ جھکنے والے،نہ بکنے والے، اور غیرت مند وغیرہ وغیرہ ،
پتہ نہیں الیکشن کے بعد یہ ڈگریاں کہاں رکھتے ہیں۔۔اور اپنی اصلی شکل میں پلٹ آتے ہیں ۔۔۔۔
ہے تو یہ پاکستان کا چھوٹا سا شہر لیکن جب تک پورا پاکستان اس چھوٹے سے شہر کی طرح نہیں بن جاتا اس وقت تک پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے
میں بات کر رہا ہوں سیالکوٹ کی !
جی ہاں سیالکوٹ ہے تو چھوٹا سا صنعتی شہر لیکن اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر گلی میں کارخانہ ہے اور تقریباً ہر کارخانہ کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور بناتا ہے جو ایکسپورٹ ہوتی ہے
یہاں کے بچے جوان ہوتے ہیں تو اکثریت کا شوق یہ ہوتا ہے کہ کیسے ایکسپورٹ کا آرڈر پکڑوں اور اس معیار کی چیز بنا کر ڈالر میں پیسے کماؤں
پچھلے دنوں دکان پر چار لڑکے آئے جن کی عمریں بیس بائیس سال تھیں ، ایک لڑکا تیس کے قریب تھا اور وہی ان سب کو لیڈ کر رہا تھا ، ویسے تو وہ جراحی کے آلات بنا کر ایکسپورٹ کرتے ہیں لیکن ان لڑکے نے نرسنگ استعمال کے لیے ایک پاؤچ کا آرڈر بھی پکڑ لیا تھا ، اس پاؤچ میں جراحی کی چھوٹی چھوٹی اشیاء جیسے کہ قینچی وغیرہ رکھی جا سکتی ہے اور آسانی کے لیے اس میں میگنٹس استعمال کیے گئے تھے تاکہ جلدی سے کھولنے بند کرنے میں آسانی رہے
اور کمال یہ ہے کہ وہ پاؤچ پہلے پاکستان میں نہیں بنتا تھا ، لڑکے کو ڈیمانڈ آئی تو اس نے علی ایکسپریس کے زریعے چائنہ سے وہ پاؤچ منگوایا ، اپنے سلائی وغیرہ کے وینڈر سے پوچھا کہ وہ یہ چیز تیار کر لے گا ؟ وینڈر کے اقرار کے بعد وہی سیمپل بھیج دیا اور پھر اسے پندرہ سو عدد کا آرڈر مل بھی گیا
میں نے سیالکوٹ میں آٹھ دس دن گزارے ہیں ، ہر گلی میں کارخانہ موجود ہے ، کاریگر بہت نفاست اور تیزی سے اپنے ہنر مند ہاتھوں کے زریعے آلات بناتے نظر آئے ، کہیں جراحی کے آلات کے لیے را میٹریل تیار ہو رہا ہے تو کہیں ان کی رگڑائی ہو رہی ہے ، کوئی کاریگر ان کو پالش کر رہا ہے تو کسی کارخانے میں کیمیکلز کے زریعے ان کی صفائی کرکے خوبصورت بنایا جا رہا ہے ، ہر شعبے کے الگ الگ کارخانے ہیں
کہیں پر چمڑے کے دستانے بن رہے ہیں تو کوئی کرکٹ کے لیے ہیلمٹ بنا رہا ہے ، جہاں فٹ بال بڑی بڑی فیکٹریوں میں بنتے ہیں وہیں پر یہ سمال انڈسٹری والے بھی مختلف ورائیٹیز بنا کر ایکسپورٹ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ، لوکل استعمال کے لیے بھی کرکٹ بیٹ اور گیند بھی یہیں بنتے ہیں
لیکن ایک بات جو سب سے اہم ہے ، ایکسپورٹ والی چیزوں کے لیے یہ لوگ کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کرتے ، جو لڑکے میرے پاس میگنٹ خریدنے آئے تھے ان کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ ہلکی کوالٹی کے میگنٹ نہیں خریدنے ، پورے سیالکوٹ میں ایکسپورٹ کرنے والوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہم نے جہاں اپنی چیز بیچنی ہے وہاں کوالٹی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہلکی کوالٹی والا دوسری دفعہ آرڈر نہیں لے سکتا
غرض وہاں اس بات کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے کہ " اینا تے چلدا اے پائین "
ہمارے لاہور میں جب کسی کاریگر سے کام خراب ہو جائے یا کسی نے زیادہ منافع کے لیے ہلکی چیز بیچنی ہو تو وہ یہی جملہ کہتے ہیں " اینا تے چلدا اے پائین " ( اتنا تو چلتا ہے بھائی )
دنیا کو چیزوں کی ضرورت ہے تو ان کی ڈیمانڈ ہم کیوں نہ پوری کریں ، جیسے سیالکوٹ والے سوچتے ہیں ہم بھی ان کی طرح کیوں نہ سوچیں ؟
توصیف ملک
ایبٹ آباد، ہائی کورٹ نے واسا اور کینٹونمنٹ بورڈ کو سلہڈ میں گندگی پھینکنے سے روک دیا 14روز میں پڑی گندگی اٹھانے کا حکم
شراب کو ڈرِنک، زَنا کو ڈیٹ، سُود کو اِنٹرسٹ، بے پردگی کو فیشن اور مُفادپرستی کو پولیٹِکس کا نام دے کر آج ہم سب زلیل ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں پوچھا جانے والا قومی سوال : آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟؟
اور قومی جواب : ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ تو نمبر ہے ۔🙂
آج کے دور میں جو اپنا گھر حلال آمدن سے چلا رہا ہے
یقین جانئے وہ جہاد کر رہا ہے!!
پوری دنیا میں اس تصویر کی آگ محسوس ہو گی۔۔۔
مفت کھانا کھائیں ،
جگہ جگہ یہ لکھا دیکھ خیال آتا ہے ، ایسا بینر کہیں نہیں نظر آتا جس پر لکھا ہو ۔
مفت ویلڈنگ سیکھیں
مفت پلمبرنگ سیکھیں
مفت گاڑی مستری بنیں
مفت انجینئرنگ سیکھیں
مفت کمپیوٹر سیکھیں
مفت چائینیز ، کورین ، جاپانی ، عریبک ، انگلش لینگویج کورس کریں
مفت درزی بنیں وغیرہ وغیرہ ۔
خیرات کرنے والے قوم کو نکما اور بھکاری بنا رہے ہیں ۔ دو دیگوں پر جتنا خرچہ آتا ہے اتنے پیسوں میں ویلڈنگ کی مشین اور ضروری آلات آجاتے ہیں آپ تنخواہ پر ایک استاد رکھ لیں اور صرف ایک ہفتے کی ویلڈنگ لرننگ کلاس دیں اور آخر میں دس ہزار کی ایک ویلڈن مشین ہر سیکھنے والے کے حوالے کریں آئندہ کے لئے وہ خود کفیل ہو جائے گا ۔ اور تاحیات عزت کی روزی روٹی کمائے گا ۔
قوم کو بھکاری نہیں ہنر مند بنائیں ، یہ کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے ، آپ سے ایک ضرورت مند نے سوال کیا تو آپ نے اسے کلہاڑا لے کر دیا اور فرمایا جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو 💯
*As received*
*صاحبان علم و فکر کے لیے ایک قابل توجہ تحریر*✍️👇
*ہنری ہشتم سولہویں صدی میں برطانیہ کا بادشاہ تھا‘ وہ 1509ء سے 1547ء تک تخت نشین رہا‘*
وہ نرینہ اولاد کا خواہش مند تھا مگر ملکہ کیتھرائن کوشش کے باوجود اسے ولی عہد نہ دے سکی‘ بادشاہ نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا لیکن کیتھولک فرقے میں دوسری شادی کی اجازت نہیں تھی‘ اس زمانے میں یورپ کے تمام بادشاہ کیتھولک ہوتے تھے‘ وجہ ویٹی کن سٹی اور پوپ تھا‘ بادشاہ جب تک پوپ سے اپنی بادشاہت کی تصدیق نہیں کرا لیتا تھا یورپ کے دوسرے بادشاہ اسے بادشاہ نہیں مانتے تھے چنانچہ بادشاہ کا کیتھولک ہونا لازمی تھا‘
ہنری ہشتم نے دوسری شادی کی اجازت کےلئے پوپ سے رابطہ کیا مگر پوپ نے اس خواہش کو ”حرام“ قرار دے دیا‘ بادشاہ نے دوسری‘ تیسری اور چوتھی بار درخواست کی‘ پوپ نہ مانا‘ بادشاہ بھی بادشاہ تھا‘ وہ غصے میں آ گیا اور اس نے ویٹی کن کے مقابلے میں چرچ بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ اعلان ”چرچ آف انگلینڈ“ کی بنیاد بنا‘ بادشاہ نے 1534ء میں ”چرچ آف انگلینڈ“ بنایا‘ اپنا ”پوپ“ تعینات کیا‘ آرچ بشپ نے بادشاہ کو دوسری کی بجائے تیسری‘ چوتھی اور پانچویں شادی کی اجازت بھی دے دی اور یوں بادشاہ کو ولی عہد اور دنیا کو نیا فرقہ مل گیا‘ آج دنیا کے 160 ممالک میں چرچ آف انگلینڈ کی شاخیں ہیں اور وہ عیسائی مرد جو کیتھولک رہ کر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں وہ چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔
ہم اس واقعے کا تجزیہ کریں تو ہم دو نتائج پر پہنچیں گے‘ مذہب کے بے لچک رویئے اور بادشاہوں کی خوفناک طاقت‘ تاریخ یہ بتاتی جب مذہب اپنی لچک کھو دیتے ہیں‘ جب یہ وقت کے تقاضوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں تو لوگ نیا فرقہ ایجاد کر لیتے ہیں‘ یہ پروٹیسٹنٹ اور چرچ آف انگلینڈ کے نام سے نئی عیسائیت‘ نئی شریعت تخلیق کر لیتے ہیں اور اس فرقہ وارانہ تخلیق کاری کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ آپ یہ جاننے کےلئے ویٹی کن کی تاریخ پڑھ لیں‘ دنیا میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب پوری عیسائی دنیا پر ویٹی کن کی حکومت تھی‘ پوپ کا فرمان پتھر کی لکیر ہوتا تھا‘ یہ اگر کافی کو حرام قرار دیتا تھا تو کافی پانچ سو سال تک عیسائی دنیا میں حرام رہتی تھی لیکن آج وہ ویٹی کن کہاں ہے؟ پوری عیسائی دنیا پر حکومت کرنے والی ویٹی کن سٹیٹ آج صرف 110 ایکٹر تک محدود ہے‘ یہ دنیا کی مختصر ترین ریاست کہلاتی ہے‘ ویٹی کن کو کیا ہوا‘ یہ کہاں چلا گیا؟ *ویٹی کن کو اس کے بے لچک رویئے اور پوپس کے سخت احکامات کھا گئے‘*
یہ اسے ریت کی طرح بکھیرتے چلے گئے‘ ویٹی کن کے پادری اس قدر سخت تھے کہ جب مسلمان عیسائی دنیا کو گھوڑوں کے سموں تلے کچل رہے تھے اس وقت ویٹی کن میں یہ بحث چل رہی تھی حضرت عیسیٰ ؑ نے صلیب پر چڑھنے سے پہلے خمیری روٹی کھائی تھی یا پتیری‘ یہ لوگ گلیلیو جیسے سائنس دانوں کو اس جرم میں جلا دینے کا حکم دے دیتے تھے ”تم نے زمین کو چپٹا کیوں قرار دے دیا“ اور جب گلیلیو رحم کی اپیل کرتا تھا تو پادری جواب دیتے تھے ”تمہاری ریسرچ کو بائبل سپورٹ نہیں کرتی لہٰذا تم سزائے موت کے حق دار ہو“ اور گلیلیو معافی مانگ کر جان بچانے پر مجبور ہو جاتا تھا‘ یہ وہ سختی تھی‘ یہ وہ بے لچک رویئے تھے جنہوں نے ویٹی کن سٹیٹ کو چھوٹا سا شہر‘ پادریوں کو چرچ کا چوکیدار اور بائبل کو ”بک“ بنا دیا‘ ویٹی کن تاریخ کا چوتھا سبق ہے اور یہ سبق بتاتا ہے دنیا میں مذہب جب بے لچک اور سخت ہو جاتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتے ہیں اور یہ اگر ختم نہ ہوں تو بھی یہ طاقوں‘ دیواروں اور نقشوں تک محدود ہو جاتے ہیں‘ تاریخ کا ایک اور سبق بادشاہ بھی ہیں‘ یہ بادشاہ خواہ اتنے طاقتور کیوں نہ ہوں کہ یہ آگسٹس کی طرح اگست اور جولیس سیزر کی طرح جولائی بن کر انسانی کیلنڈر کا حصہ بن جائیں‘ یہ ہنری ہشتم کی طرح دنیا کے سامنے ویٹی کن کا متبادل کھڑا کر دیں‘ یہ اکبر اعظم کی طرح دین اکبری ایجاد کر لیں‘ یہ شاہ جہاں کی طرح تاج محل جیسا عجوبہ بنا دیں اور یہ اورنگ زیب کی طرح فتاویٰ عالمگیری تشکیل دے دیں لیکن یہ بہرحال زوال پذیر ہو جاتے ہیں‘ یہ بالآخر وقت کے پاﺅں تلے کچلے جاتے ہیں‘ آج سے سو سال پہلے تک دنیا کے 90 فیصد حصے پر بادشاہوں کی حکومت ہوتی تھی‘ یہ بادشاہ قانون بھی ہوتے تھے‘ آئین بھی‘ فتویٰ بھی اور ظل الٰہی بھی لیکن یہ آج کہاں ہیں؟ آج دنیا کے 90 فیصد حصے پر جمہوریت ہے اور اگر کسی جگہ کوئی بادشاہ یا ملکہ ہے تو یہ اپنے محل تک محدود ہے یا پھر یہ گرتی ہوئی دیواروں کی آوازیں سن رہے ہیں‘ بادشاہوں کا خاتمہ تاریخ کا پانچواں سبق ہے‘ یہ سبق بتاتا ہے وقت کی اکیسویں صدی میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں‘ اس صدی میں فرد واحد اور اس فرد واحد کی انا کی تسکین ممکن بھی نہیں! آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ دنیا کا نقشہ سامنے بچھا کر بیٹھ جائیں‘ کرہ ارض کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک دیکھیں اور پھر اس سوال کا جواب دیں ”کیا آپ کو دنیا میں کوئی ایسا ملک ترقی کرتا نظر آ رہا ہے جس میں فرد واحد کا حکم سپریم ہے‘ جس میں بادشاہ اور ملکہ ہیں اور مملکت کے تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں“ مجھے یقین ہے آپ کو دنیا کے وہ تمام ملک‘ تمام سیاسی جماعتیں اور تمام کاروباری ادارے زوال پذیر نظر آئیں گے جن میں بادشاہت ہے یا جن میں فرد واحد کا فرمان قانون ہے‘ آپ سوچئے لیبیا کے کرنل قذافی کا کیا حشر ہوا‘ تیونس کے زین العابدین بن علی کہاں ہیں‘ عراق کے صدام حسین کا کیا بنا‘ مصر کے حسنی مبارک کہاں کھڑے ہیں‘ شام کے بشار الاسد تخت بچانے کےلئے کتنے لوگوں کی قربانی دے چکے ہیں اور تاریخ کا یہ سبق اب کتنی رفتار سے سعودی عرب‘ یو اے ای‘ کویت اور قطر کے شاہی خاندانوں کی طرف بڑھ رہا ہے؟ آپ کانگریس اور پیپلز پارٹی کا حشر بھی دیکھ لیجئے اور آپ دنیا کے ان تمام کاروباری اور صنعتی گروپوں کا انجام بھی ملاحظہ کر لیجئے جن کی عنان ایک شخص یا ایک خاندان کے ہاتھ میں تھی‘ آپ کو فیصلے تک پہنچتے دیر نہیں لگے گی ‘دنیا میں بادشاہت‘ فردواحد کی حکمرانی اور بے لگام اختیارات تینوں ختم ہو چکے ہیں‘ دنیا میں بے شک ایک ایسا وقت تھا جب بادشاہ دوسری شادی کی اجازت نہ ملنے پر اپنا چرچ الگ کر لیتا تھا اور خلیفہ ملکہ کو خوش کرنے کےلئے فقہ میں تحریف کر دیتا تھا لیکن وہ زمانے گزر چکے ہیں‘ اب دنیا میں بادشاہ‘ بادشاہت اور شاہانہ مزاج تینوں کی گنجائش نہیں‘ دنیا میں اب بادشاہ کا بچہ بادشاہ ہو گا‘ حکمران کی بیگم حکمران پیدا کرے گی اور سیٹھ کے سارے برخوردار سیٹھ ہوں گے یہ ممکن نہیں رہا‘ تاریخ ثابت کر چکی ہے دنیا میں مذہبی رہنماﺅں کے بے لچک رویئے چل سکتے ہیں اور نہ ہی بادشاہوں کی ضد۔ تاریخ بڑی ظالم ہے‘ تاریخ ایک قبر میں دوسری شادی کی اجازت نہ دینے والے پوپ کو دفن کر دیتی ہے اور دوسری قبر میں غرور شاہی کوگاڑھ دیتی ہے اور پیچھے رہ جاتے ہیں ویٹی کن اور بکنگھم پیلس ۔ویٹی کن مذہب کی علامت بن کر 110 ایکٹر کا ملک بن جاتا ہے اور شہنشاہیت کا غرور آدھے کلو میٹر کے بکنگھم پیلس میں بھٹکتا رہتا ہے‘ یہ تاریخ کا چوتھا اور پانچواں سبق تھا۔
دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا ایک چھٹا سبق بھی ہے اور یہ سبق ہے قانون۔ آپ ایک بار پھر دنیا کا نقشہ میز پر بچھائیں اور کرہ ارض کو دو حصوں میں تقسیم کریں‘ اسلامی دنیا اور کافر دنیا‘ آپ اس کے بعد دونوں دنیاﺅں کا جائزہ لیں‘ آپ کو کافر دنیا میں امن بھی ملے گا‘ خوش حالی بھی‘ اطمینان بھی‘ سکون بھی‘ علم بھی‘ ٹیکنالوجی بھی اور احترام انسانیت بھی‘ آپ کو پتہ چلے گا کعبہ ہمارا ہے لیکن اس کی توسیع کا کام برطانیہ کی ایک ایسی کمپنی کر رہی ہے جس کی مینجمنٹ میں یہودی بیٹھے ہیں‘ ہمارے امام حج کا خطبہ یہودی کمپنی کے ساﺅنڈ سسٹم پر دیتے ہیں اور ہم یہ خطبہ یہودیوں کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں‘آپ کو پتہ چلے گا اسلامی دنیا کے 72 فیصد امراءنے یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں‘ یہ لوگ سال کا 40 فیصد وقت کافر معاشروں میں گزارتے ہیں‘ دنیا کی 93 فیصد ٹیکنالوجی اور علم کافر دنیا کے پاس ہے اور ہم سر کے درد سے لے کر اوپن ہارٹ سرجری تک کافروں کے محتاج ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اور ہم میں اور ان میں اور ہمارے معاشروں میں کیا فرق ہے؟ اس فرق کو قانون کہتے ہیں‘ کافر معاشرے صرف قانون کی حکمرانی کی وجہ سے کافر نہیں رہے اور ہم ایماندار اور مومن لوگ قانون کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر کے جوتے کھا رہے ہیں‘ مذہب ہمارا سچا ہے‘ نبی ہمارا آخری اور برحق ہے‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘ تاریخ ہماری شاندار ہے‘ قدرتی وسائل سے ہم مالا مال ہیں اور صلاحیتیں قدرت نے ہمیں زیادہ دے رکھیں ہیں لیکن ہم اس کے باوجود دنیا سے پیچھے ہیں‘ کیوں؟ وجہ صرف قانون ہے! مومنوں کے پاس سب کچھ ہے لیکن قانون نہیں اور کافروں کے پاس کچھ بھی نہیں مگر قانون ہے اور تاریخ کا چھٹا سبق ہے دنیا کا ہر وہ معاشرہ‘ ملک‘ ریاست ‘ ادارہ اور کمپنی ختم ہو جاتی ہے جس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جس میں قانون کے سامنے پہنچ کر بھی بادشاہ بادشاہ اور غلام غلام ہو‘ یہ دونوں برابرنہ ہو سکیں -
*یہ تاریخ کا آخری سبق ہے‘ ریاست اگر دیوتاﺅں کی بھی ہو اور اس میں قانون اور انصاف نہ ہو تو وہ ختم ہو جاتی ہے*
*اور ہم لوگ پاکستان کو 70* *سال سے قانون اور* *انصاف کے بغیر چلا رہے ہیں* ‘
*یہ آخر کب تک زندہ رہے گا* ؟
ایبٹ آباد کے پرائیوٹ سکول مالکان کی گاڑیاں اور بنگلے دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ
علم بہت ہی بڑی دولت ہے ۔
ٹک ٹاک کی بدولت عام لوگوں کو وہ سب کچھ مفت میں دیکھنے کو مل رہا ہے جس پر مغلوں کے خزانے خالی ہوگئے تھے.🙂
Be the first to know and let us send you an email when Hazara Vibes posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.
Send a message to Hazara Vibes:
Ager Kabhi apko aisy Hajoom Ghair lay tou kya kro gy ? Yeh hai #Pukhtoonistan meri Jaan #Vibes #Mobe #tribes #HazaraVibes
DHQ under construction Aerial view via Drone . Kehal Abbottabad #HazaraVibes
چناروں کے خوبصورت شہر ایبٹ آباد میں عمران خان کا پاور شو ، کہا ہم کسی کے جوتے پالش نہیں کریں گے
Received from Our Friend Afzaal Spectacular presentation of Mansehra City Pics By Afzaal Stay in touch with Hazara Vibes
Want your business to be the top-listed Media Company?
A digital Media Platform offering Informative Videos, Interviews & Updates on Trending topics.
Real life affairs, Fashion, Sports, politics, Islamic Knowledge & more.
Journalism, Vlogging and content creation.