Mir Javed Yousuf

  • Home
  • Mir Javed Yousuf

Mir Javed Yousuf This is Mir Javed Yousuf's personal page.

16/07/2022

The eagle has to make a painful decision at around age 40. Die or go through a painful process of rebirth which will extend its life for 30 more years. This process involves the painful task of knocking out its own beak and plucking out its talons so that new ones can grow. This entire process takes about 5 months to complete. Life lesson: No pain, no gain. Many of us want success or change, but without the sacrifice, handwork, disappointments and heartbreak that comes with it. To survive and grow, we must be willing to change. And sometimes, we may even need to go a step further — a death of the old self and a total rebirth. Ending toxic relationships, leaving toxic jobs, getting rid of destructive habits, thoughts, traditions and mind-sets that no longer serve us.

04/06/2022
04/06/2022

Number rules the Universe.......

27/05/2022

ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ایسا ہوگیا ہے کہ کسی کے بارے میں بہت جلد کوئی بھی رائے (مثبت یا منفی) بغیر تحقیق کے قائم کرلی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں دوسرے لوگوں سے سن کر بھی فوراً رائے قائم کرلی جاتی ہے۔ علم و تحقیق کی دنیا میں بھی اب یہی رویہ چل نکلا ہے کہ کسی نے کچھ لکھ دیا، تو حمایت میں چاند تک پہنچا دیتے ہیں یا پھر مخالفت میں آسمان تک۔ اب مزید ظلم یہ ہورہا ہے کہ اگر کسی شخص نے کچھ لکھا (معیشت، سیاست، تجارت، تاریخ اور مذہب وغیرہ) تو پڑھے بغیر لوگوں سے سن کر رائے (مثبت یا منفی) قائم کرلی جاتی ہے۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر ہم رائے قائم کیوں نہ کریں، کیا ہمارا حق نہیں ہے، کیا ہم اس معاشرے میں نہیں رہتے، کیا ہم اس (شخص/ لوگوں ) کی اصلاح نہیں چاہتے، وغیرہ۔ آئیے! بات کرتے ہیں علمی طریقہ پر، یعنی کسی بھی معاملے میں چاہے وہ معاشرتی ہو یا معاشی، سیاسی ہو یا ثقافتی، تاریخی ہو یا مذہبی، ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے (یعنی ہماری رائے کن بنیادی اصولوں پر قائم ہونی چاہیے)۔ یہاں چند علمی گزارشات سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں۔

شخصیت سے زیادہ اُس کی دی ہوئی دلیل پر غور کیا جائے

جب کسی صاحبِ علم کی کوئی ایسی بات ہمارے سامنے آئے جو ہماری فکر، ہماری سوچ اور ہماری روایات کے خلاف ہو، تو سب سے پہلے بجائے اُس شخصیت کا تجزیہ کرنے کے، ہمیں اُس کے استدلال (اس کی دی ہوئی دلیل) پر غور کرنا چاہیے، تاکہ اُن دلائل پر تبصرہ یا تجزیہ کیا جاسکے۔
لوگوں نے یہ رویہ اپنا لیا ہے کہ کسی شخص کی دی ہوئی دلیل ایک طرف رکھ کر اُس کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے شخصیت کو ایک طرف رکھیے، پہلے دلائل پر غور کیجیے۔ ایک پڑھے لکھے معاشرے کی یہی نشانی ہے۔

دلیل کا ماخذ

دلائل سننے یا پڑھنے کے بعد اگلا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس شخص کی دی ہوئی دلیل کا ماخذ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس نے جس ماخذ کا سہارا لیا وہ کس حد تک مصدقہ ہے۔ یعنی ایسا تو نہیں کہ وہ ماخذ اُس لائق ہی نہ ہو کہ اس کو قبول کیا جائے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اصل ماخذ (primary source) کے بجائے ان ماخذات کا سہارا لیتا ہے جو سیکنڈری سورسز secondary sources)) کہلاتے ہیں۔ اس طرح کے حوالہ جات کسی طور پر قابل قبول نہیں ہوتے۔ جیسے کسی شخص نے ایک موضوع (مثلاً مذہب سے متعلق) پر کچھ نیا لکھا اور اس میں بطورِ سند، چند احادیث بھی لکھیں۔ لیکن ان احادیث کا حوالہ اصل کے بجائے اُس کتاب سے دیا جو اصل حدیث کی کتاب سے تھا ہی نہیں۔ اور جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اصل کتاب میں اس طرح وہ روایت بیان ہوئی ہی نہیں جس طرح دوسری کتاب میں موجود ہے (مثلاً، الفاظ کا فرق، سیاق و سباق کا مسئلہ، وغیرہ)، تو اُس کے موضوع کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی اصلاح (علمی انداز میں) کی جائے گی۔ تاہم! اگر کوئی ایسا موضوع لکھتا ہے جو معاشرے کےلیے ابھی نیا ہے، لیکن اس کے دلائل قوی ہیں، تو اس کی بات کو تحمل سے سنا جائے۔ اگرچہ قبولِ عام فوراً نہیں ہوگا، لیکن اُس پر غور و فکر کرنا شروع کردیا جائے تاکہ مزید کچھ کام آگے بڑھایا جاسکے۔
تنقید برداشت کیجیے

اب دلیل دینے والے شخص کا بھی فرض ہے کہ وہ تنقید کو تحمل سے سنے اور پھر اس کا جواب دے یا پھر اُس تنقید کو اصلاح کے طور پر لے، تاکہ آنے والے وقتوں میں وہ مزید کچھ سیکھ سکے اور اپنی دلیل پر رجوع کرے یا مزید مضبوط کرے۔

تنقید کو ہمیشہ مثبت لیجیے

تنقید کے معنی ہیں ، کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا۔ ہمارے یہاں تنقید کا یہ مطلب سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہمیں بُرا بھلا کہا جارہا ہے، حالانکہ تنقید (صحت مند تنقید، جس میں ذاتیات شامل نہ ہوں) اصلاح کا ایک ایسا عمل ہے کہ اگر روک دیا جائے تو پوری دنیا جامد ہوجائے گی۔ اگر آپ ماضی کی طرف جائیں تو لفظ ’تنقید‘ ہمیشہ لوگوں کےلیے مثبت رہا۔ بد قسمتی سے جس معاشرے میں آج ہم جی رہے ہیں وہاں ایسا عجیب مضحکہ خیز رویہ لوگوں کا ہوگیا ہے کہ لفظ ’تنقید‘ سنتے ہی لوگوں کا مائنڈسیٹ یہ ہوجاتا ہے کہ اب برائی ہوگی۔

رجوع کرنا سیکھیے

اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کیجیے کہ اگر آپ کی رائے غلط ثابت ہوگئی ہے تو اب رجوع کرنا بھی سیکھیے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک عرصے تک کلیسا یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘۔ پادریوں نے بہت کوشش کہ لوگ اس نظریے پر قائم رہیں کہ ’سورج زمین کے گرد گھومتا ہے‘ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا کے تمام انسانوں کو رجوع کرنا پڑا اور آج سب اس بات پر (دلیل کے ساتھ) قائل ہوگئے ہیں کہ ’زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘۔ اگر رجوع کرنا سیکھ لیا، تو سمجھ لیجیے کہ اب علم کے دریچے مزید کھلتےجائیں گے اور ترقی کی منازل طے ہوتی چلی جائیں گی۔

مغرب، علم کے معاملے میں رجوع کرچکا ہے

بحیثیتِ مجموعی ہم ایک مشکل قوم ہیں۔ ہم ہر بات پر فوراً اپنا تبصرہ دینے کےلیے تو تیار رہتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت تک پہنچنا گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت تک پہنچنا تو کجا، ہم تو وہ قوم ہیں کہ جب دیکھا کہ سب ایک ڈگر (مثلاً غلط راہ پر چل رہے ہیں) پر چل رہے ہیں تو ہم بھی اسی ڈگر پر چل پڑیں گے۔ ہمیں اس ڈگر سے واپس لانا بہت مشکل کام ہے۔ لو گ دلائل دے دے کر تھک جاتے ہیں، لیکن ہماری قوم جب کوئی فیصلہ کرلے تو پھر سوائے خدا سے دعا کے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر اپنی حالتِ زار پر غور کیا جائے اور تھوڑا سا توقف کیا جائے، تو ہم آج علم کے ہر میدان میں مغرب سے پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے (شاید سو سال یا اس سے بھی زیادہ) ہیں۔ مغرب نے علم کے میدان میں ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ تنقید کو اب مثبت انداز میں لے لیا ہے۔ لوگوں کے دلائل کو قبول کرنا سیکھ لیا ہے۔ دلائل کو ڈھونڈنا شروع کردیا ہے۔ شخصیت کے بجائے لوگوں کے کاموں پر تنقید کرنا سیکھ لی۔ اسی لیے روزانہ مغرب سے علم کی دنیا میں کچھ نہ کچھ نیا (دلیل کے ساتھ) آتا رہتا ہے (اور ہم پہلے برائی کرتے ہیں اور انھیں برا بھلا کہتے ہوئے اُنھی کی تحقیقات پر عمل پیرا بھی ہورہے ہوتے ہیں)۔ لوگ تنقید کرتے ہیں تو وہ تنقید برداشت بھی کرتے ہیں، اصلاح بھی کرتے ہیں اور دوبارہ کام پر جُت جاتے ہیں، جب کہ ہم پر تنقید ہوجائے تو بس!

27/05/2022

کافی دن ہوے ہیں میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید فیروز شاہ صاحب نے خود پر بیتا ایک قصہ سنایا تھا۔ وہ اتنا دلچسپ اور سبق آموز تھا کہ آپ بھی سن لیجیے:

65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر وہاں بھیجا کہ کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔ میں اور میرا خاندان پوری طرح محفوظ ہیں اگر ایسی کوئی صورت حال دکھی تو میں ایسا ہی کروں گاجیسا وہ۔چاہتے ہیں۔ اور تم اب آ ہی گئے ہو تو دو تین دن رکو اور پھر واپس چلے جانا۔ واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے اور فرسٹ کلاس کا ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دے کر قدم بڑھا چکی تھی۔ بھاگم بھاگ ایک ڈبے کا ڈنڈا پکڑ کر سوار ہوا کہ اگلے سٹیشن پر درست جگہ ڈھونڈھ لوں گا۔ وہ ڈبہ تھرڈ کلاس کا اور کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک انگریزی رسالہ تھا ایک جگہ ٹک کر اسکی ورق گردانی کرنے لگا۔ ساتھ ایک ریٹائرڈ فوجی، جو ہنگامی بنیادوں پر بلاے گیے تھے بیٹھے تھے اور اوپر برتھ پر ایک صاحب لیٹے پان چبا رہے تھے۔ موضوع گفتگو جنگ اور ہندوستان کو چھٹی کا دودھ دلانے کا عظم تھا۔ ہر بندہ بڑھ چڑھ کر جوش و جذبے کا اظہار کر رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے مجھے مخاطب ہو کر کہا بابو صاحب یہ انگریزی اخبار والے کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اس اخبار کی راے ہے کہ ہندوستان ہم سے دس گنا بڑا ملک ہے ہماری افواج بہت بے جگری سے لڑ رہی ہیں مگر جنگ نے طول کھینچا تو ہماری فتح کے سامنے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ برتھ پر بیٹھے ہوے صاحب پیرا شوٹر کی طرح چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور پان کی پیک میری قمیض پر تھوک کر میرے منہ پر تھپڑ جڑ دیا اور نعرہ مارا ہندو کی اتنی جرات جو ہمیں سبق سکھا سکے۔ میں اس اچانک حملے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ پاس بیٹھے فوجی بھی مجھ پر پل پڑے۔ سب ہندوستانی جاسوس کے نعرے مار مار کر مجھے مارنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر کسی اللہ کے بندے نے ہنگامی سٹاپ کی زنجیر کھینچ دی ۔ گاڑی رکنے پر پولیس ڈبے میں آئی اور مجھے گرفتار کر کے پیچھے کسی جگہ لے گئی۔ وہاں ایک ڈی ایس پی بیٹھا تھا ۔ بھلا آدمی تھا اس نے مجھے پانی پلانے کا حکم دیا اور کچھ وقت سنبھلنے کو جب میرے حواس بحال ہوے تو میں نے اپنے خاندان اور بھائی صاحب کے تعارف کے ساتھ سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے مجھے ایک تولیا دیا کہ لو چھوٹے شاہ جی اپنے سر منہ پر لپیٹ لو اچھی طرح جوں ہی گاڑی رکے چھلانگ مار کر بھاگ جانا۔ تمہارے پاس چند لمحے ہوں گے ورنہ ہجوم اکٹھا ہو گیا تو ہم سے نہیں سنبھلے گا۔ جب اگلا سٹیشن آیا گاڑی آہستہ ہونی شروع ہوئی تو ڈی ایس پی نے مجھے اشارہ کیا ۔ میں نے قدم اٹھاتے ہوئے ممنونیت سے اسے دیکھا تو اس نے میری طرف انگلی اٹھا کر ایک بات کہی:
یاد رکھنا، جو باتیں فرسٹ کلاس والی ہوں، انہیں تھرڈ کلاس میں بیٹھ کر نہیں کرتے۔

27/05/2022

جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھے تو ایک مومنہ بوڑھی عورت روز اللہ کے نبی کے پاس اپنی گھٹری لیکر آتی اور کہتی" اے اللہ کے نبی ، کب کشتی روانہ ہوگی؟ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ابھی دیر ہے وہ عورت شام تک بیٹھی رہتی پھر اٹھ کر چلی جاتی۔
ایک دن حضرت نوح علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے عورت، جب جانا ہوا تو تمہیں مطلع کر دیا جائےگا۔یہ عورت واپس چلی گئی اور انتظار کرنے لگی کہ کب نوح بلائینگے۔ اس دوران عذاب آگیا اور کشتی روانہ ہو گئی لیکن حضرت نوح علیہ السّلام نے اس عورت کو نہ بلایا ( ظاہری طور پر نوح علیہ السلام کو اسکو بلانا بھلا دیا گیا)
جب طوفانِ تھما تو ایک دن حضرت نوح علیہ السلام کے دل نہیں محبت اٹھی کے شہر کو دیکھوں جہاں سے چلا تھا ۔وہاں آئے اور سامنے جاکر دیکھا تو ایک جھونپڑی میں دیا جل رہا تھا۔
حضرت نوح نے یہ دیکھکر چونک گئے کہ روۓ زمین پر کوئی ایسا گھر بھی ہے کے اتنے عظیم طوفانِ کے بعد بھی جس میں چراغ جل رہا ہو۔ انہوں نے وہاں تکبیر بلند کی تو وہ عورت سامان لیکر آگئی اور کہنے لگی "یا نبی اللہ٫ کیا کشتی تیار ہے چلیں؟ حضرت نوح علیہ السلام نے حیرت سے اسکو دیکھا اور کہا روکو "بڑھیا کیا تمہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلا؟ بھڑیا کہنے لگی یا نبی اللہ بس ایک دن بادل گرجے تھے اور کچھ ہلکی سے فوہار پڑی تھی حضرت نوح علیہ السلام حیران ہوکر آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کہ " میرے اللہ، یہ کیا ماجرا ہے ؟"
اللہ تعالٰیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ اے میرے پیارے نبی، اس عورت کے دل میں تمہاری محبت تھی اور تم نے اسے پابند کر دیا تھا اور چونکہ تمہارا اس سے وعدہ بھی تھا کہ نجات کی کشتی میں اسے لے جاؤ گے ، تب تمنے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ لیکن اے نوح علیہ السّلام، میں تو تمہارے وعدے کا ذمے دار تھا، اس لئے میں نے اس بڑھیا تک عذاب پہنچنے ہی نہیں دیا۔۔۔

26/05/2022

میں کچی دھاتوں اور پتھروں کی دنیا میں زندگی بسر کرتا تھا
پھر میں نوع بنوع پھولوں کی مسکراہٹ میں ظاہر ہوا

پھر میں جنگلی جانوروں اور آوارہ وقت کے ساتھ اڑا پھرا

زمین میں ، فضا میں اور سمندروں کے دوش پر چلا

ہر بار ایک نئی زندگی سے شادکام ہوا

کئی بار ڈوبا اور ابھرا

رینگا اور بھاگا

میرے جواب کے تمام بھید کھل رہے

کیونکہ شکل وصورت نے انہیں دیدنی بنادیا

اور اب ...... ایک انسان

اور میری منزل

دبیز بادلوں اور چرخ نیلی فام سے پرے ہے

اس دنیا میں جہاں نہ تغیر ہے اور نہ موت

فرشتے کی شکل میں اور پھر ان سے بھی دور

لیل و نہار کی حد بندیوں سے ماوراء

دیدنی نادیدنی موت وحیات کی قید سے آزاد

جہاں سب کچھ ہے سب کچھ جو پہلے دیکھا نہ سنا

بالکل ایک اور اس کل میں سب کچھ سمایا ہوا ہے ۔۔۔۔

Social media analogy is merely a coincidence....
26/05/2022

Social media analogy is merely a coincidence....

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mir Javed Yousuf posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mir Javed Yousuf:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share