Facts Ki Baatain

  • Home
  • Facts Ki Baatain

Facts Ki Baatain This page is about interesting new and old facts in world. We will share different fact videos here.

19/04/2024

شوگر کے مریضوں کے لئے دیسی اور سستی دوا۔

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہ...
24/01/2024

عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا،
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،"
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی،
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان،
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا،
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں...

16/01/2024

‏پاکستان میں سب سے گندی اور بری رسم جہیز نہیں بلکہ میت کے گھر سے کھانا کھانا هے۔ اور اس رسم میں کہیں نہ کہیں ہم سب شامل ہیں

🌹‏جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ ان ہی دنوں سعو...
07/01/2024

🌹‏جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔

ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کا سونے کاہار پہنایا گیا تھا ۔🌹

مسلم حکمرانوں کے لیے وہ کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو ‏خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔!

کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔۔۔۔۔!🌹

پھر معتصم سے کہا :
" کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ 🌹"

بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
‏بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟ "

ہلاکو نے فورا کہا :🌹
" پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا،
کچھ جواب نہ دے سکا۔۔۔۔۔!🌹

ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے 🌹
اور ‏سوال کیا:
" تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟
تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟"

خلیفہ نے تأسف سے جواب دیا:🌹
" اللہ کی یہی مرضی تھی "

‏ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا:
" پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی "🌹

ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔۔۔!🌹

ہلاکو نے کہا " آج میں نے بغداد کو ‏صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔۔۔۔!"
اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔🌹

تاریخ تو فتوحات گنتی ہے
محل،
لباس،
ہیرے،
جواہرات
اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں۔۔۔۔۔!🌹

🌹رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔

ذرا تصور کریں۔۔۔۔۔۔!🌹
جب یورپ کے چپےچپے پر تجربہ گاہیں
اور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا 🌹
اور
اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔!🌹

‏جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہےتھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔!🌹

🌹‏جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔۔۔

🌹تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟🌹
شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟

🌹‏درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟🌹

تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی۔۔۔۔!🌹

🌹اور جن لوگوں کو اس حقیقت کا ادرک نہیں ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔
یااللہ تبارک تعالیٰ میرے پیارے وطن پاکستان کو سلامت رکھنا اور ہمارے اوپر نیک اور ایماندار حکمران مسلط کرنا آمین ثم آمین🌹

کووں کی عدالت:حیوانات پر جدید تحقیق کے مطابق کووں کے ہاں باقاعدہ عدالتی نظام ہے اور یہ عدالت کسی کو فرد یا جماعت پر ظلم ...
06/01/2024

کووں کی عدالت:
حیوانات پر جدید تحقیق کے مطابق کووں کے ہاں باقاعدہ عدالتی نظام ہے اور یہ عدالت کسی کو فرد یا جماعت پر ظلم کرنے نہیں دیتی۔ کووں کے نظام عدالت میں ہر جرم کی مخصوص سزا ہے جیسے:
٭کووے کے بچے(چوزے) سے کھانا چھیننے کی سزا یہ ہے کہ کووں کا ایک گروپ اکھٹا ہو کر کھانا چھیننے والے کے پَر نوچتے ہیں یہاں تک کہ وہ بھی بچے کی طرح اڑ نہیں پاتا گویا ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کا اسلامی قانون نافذ ہے!!
٭اسی طرح گھونسلا خراب کرنے اس کو گرانے یا اس پر قبضہ کرنے کی سزا یہ ہے کہ کووں کی ایک جماعت مجرم کو وہ گھونسلا دوبارہ بنانے پر مجبور کرتی ہے یعنی بالکل اسلامی قانون ہے!!
٭کسی دوسرے کوے کی جوڑی(بیوی)کووے کے ساتھ غلط کاری یا ریپ کی سزا یہ ہے کہ کووں کی ایک جماعت مجرم کو چونج مار مار کر قتل کردیتی ہے!!
ماہرین کے مطابق کووں کی عدالت لہلہاتے کھیتوں اور کھلے میدانوں میں لگتی ہے یعنی کسی بند کمرے میں نہیں، مقررہ وقت پر کووے اکھٹے ہو جاتے ہیں اور جج بیٹھ جاتے ہیں ملزم کووے کو لایا جاتا ہے عدالتی کاروائی شروع ہوتی ہے تو ملزم کوا سر جھکائے پر پھیلائے انتہائی سیکورٹی میں عدالت کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اپنے جرم کے اعتراف میں کائیں کائیں بند کر دیتا ہے یعنی خاموش رہتا ہے۔
جب عدالت کسی کوے کو سزائے موت سناتی ہے تو سیکورٹی پر مامور کوے اس مجرم پر حملہ آور ہوتے ہیں اور چونج مار مار کر اس کو قتل کر دیتے ہیں اس کے بعد ایک کوا اس کو اپنے چونج سے اٹھالیتا ہے اور اس کو دفنانے کے لیے لے جاتے ہیں پھر اس کے جسم کے برا بر قبر کھود کر اس کو دفناتے ہیں اورمکمل احترام سے اس پر مٹی ڈال کر دفناتے ہیں۔
یوں کووں کو اللہ کا عدل معلوم ہے اور انہوں نے اس کو نافذ کیا ہوا ہے مگر افسوس انسان پر جو اللہ کے قانون کی بجائے خودساختہ قوانین کے ذریعے حکومت کرتا ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ "زمانے کی قسم انسان نقصان میں ہے"۔
کیا پاکستان جس کو کلمہ کے نام پر بنا یا گیا تھا کے با اثر لوگ کوے کے برابر عقل بھی نہیں رکھتے؟!حالانکہ کوا گندگی کھا کر بھی اتنا عقلمند ہے !! یہ لوگ آخر کیا کھاتے ہیں؟

مفت کھانا کھائیں ۔۔ !!جگہ جگہ یہ لکھا دیکھ کے خیال آتا ہے ، ایسا بینر کہیں نہیں نظر آتا جس پر لکھا ہو ۔مفت ویلڈنگ سیکھیں...
05/01/2024

مفت کھانا کھائیں ۔۔ !!
جگہ جگہ یہ لکھا دیکھ کے خیال آتا ہے ، ایسا بینر کہیں نہیں نظر آتا جس پر لکھا ہو ۔
مفت ویلڈنگ سیکھیں , مفت پلمبرنگ سیکھیں , مفت گاڑی مستری بنیں , مفت انجینئرنگ سیکھیں , مفت کمپیوٹر سیکھیں , مفت چائینیز ، کورین ، جاپانی ، عریبک ، انگلش لینگویج کورس کریں , مفت درزی بنیں وغیرہ وغیرہ ۔
خیرات کرنے والے قوم کو نکما اور بھکاری بنا رہے ہیں ۔ دو دیگوں پر جتنا خرچہ آتا ہے اتنے پیسوں میں ویلڈنگ کی مشین اور ضروری آلات آجاتے ہیں آپ تنخواہ پر ایک استاد رکھ لیں اور صرف ایک ہفتے کی ویلڈنگ لرننگ کلاس دیں اور آخر میں دس ہزار کی ایک ویلڈنگ مشین ہر سیکھنے والے کے حوالے کریں آئندہ کے لئے وہ خود کفیل ہو جائے گا ۔ اور تاحیات عزت کی روزی روٹی کمائے گا ۔
قوم کو بھکاری نہیں ہنر مند بنائیں

04/01/2024

مالی حالت خراب ہونے کی بارہ بڑی وجوہات ؟
1۔ خاندان میں ہر شخص اسمارٹ فون کا مالک ہے۔
2۔ معاشرتی اور خود ساختہ مذہبی رسومات کے تحت چھٹیاں کرنا۔
3۔ اسٹیٹس علامت کے طور پر بلا وجہ نئی نئی گاڑیاں اور گیجٹس خریدنا۔
4۔ گھر کے بنے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا اور ہفتے کے آخر میں بلاوجہ باہر کا کھانا کھانے چلے جانا۔
5۔ سیلون، پارلر اور کپڑوں کے لئے نئے نئے برانڈ منتخب کرنا۔
6۔ بگڑا ہوا طرز زندگی اپنانا، جس کی وجہ سے طبی اخراجات میں اضافہ۔
7۔ ایک ساتھ مل کروقت گزارانے کی بجائے، زیادہ پیسہ خرچ کرکے سالگرہ منانا اور سالگرہ کو خاص بنانے کی کوشش کرنا۔
8۔ شادی بیاہ کی تقریب کو بہت شاہی بنانے کی کوشش کرنا اور بے وجہ و بے مقصد فیملی تقریبات منعقد کرنا۔
9۔ ہسپتالوں، اسکولوں اور ٹیوشنوں کی کمرشلائزیشن وغیرہ۔
10۔ آج ہم وہ کچھ خرچ کر رہے ہیں جو ابھی تک کمایا ہی نہیں ہوتا، یعنی قرضوں اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعہ سے اور بعد میں سود کے ساتھ واپس کی ٹینشن الگ۔۔۔۔
11۔ گھر اور دفتر کے اندرونی حصوں پر بے تحاشا پیسے خرچ کرنا اور اس سے دیکھ بھال کی لاگت اور وقت کے ضیاع میں اضافہ کرنا....
12۔ ہم اپنی ضروریات اور آمدنی کا لحاظ کئے بغیر دوسروں کے طرز زندگی کی نقل کر رہے ہیں۔ اگر اس سے بروقت گریز نہ کیا گیا تو گزرتے سالوں کے ساتھ بہت زیادہ ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سامنا کرنا ہوگا۔کیونکہ جو عادات ایک بار بن جائیں ، انہیں ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

‏✈🛫🛬‏*ناقابل یقین پی آئی اے* PIA ‏‘مالٹا کا رقبہ صرف 315 مربع کلومیٹر اور آبادی چار لاکھ 29 ہزار ہے ‏یوں یہ یورپ کے مختص...
02/10/2023

‏✈🛫🛬
‏*ناقابل یقین پی آئی اے* PIA

‏‘مالٹا کا رقبہ صرف 315 مربع کلومیٹر اور آبادی چار لاکھ 29 ہزار ہے

‏یوں یہ یورپ کے مختصر لیکن خوبصورت ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے‘

‏یہ ملک یورپ میں ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ایک دلچسپ رشتے میں بندھاہوا ہے‘ یہ رشتہ آپ کو بھی حیران کر دے گا‘

‏مالٹا نے 1971ء میں اپنی ائیر لائین بنانے کا فیصلہ کیا‘ البرٹ میزی کو منصوبے کا چیئرمین بنایا گیا‘ میزی نے سول ایوی ایشن اور ائیر لائین تشکیل دینی تھی‘ انٹرنیشنل ٹینڈر ہوا۔

‏ہماری پی آئی اے ایشیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ائیر لائین تھی‘ پی آئی اے نے ٹینڈر بھر دیا‘

‏مالٹا کو یورپ‘ مشرق بعید اور امریکا کی کمپنیوں کی طرف سے بھی کاغذات موصول ہوئے تھے

‏*بورڈ نے پڑتال کی امریکا یورپ اور مشرق بعید کے ٹینڈرز مسترد کیے اور پی آئی اے کو سلیکٹ کر لیا‘*

‏پی آئی اے نے مالٹا کے ساتھ ائیر لائین پارٹنر شپ کی اور صرف ایک سال میں ائیر مالٹا کے نام سے یورپ میں ایک شاندار ائیر لائین کھڑی کر دی‘

‏*ائیر مالٹا 31مارچ 1973ء کو بنی اور پی آئی اے نے یکم اپریل 1974ء کو اس کا پہلا طیارہ ٹیک آف کرا دیا۔*

‏پاکستانی ماہرین نے اس ایک برس میں مالٹا کی سول ایوی ایشن بنائی‘ ائیرپورٹس کو یورپین لُک دی اور ائیر لائین کو بھی آپریشنل کر دیا

‏آج ائیر مالٹا یورپ کی کامیاب اور منافع بخش ائیر لائینز میں شامل ہے یہ یورپ افریقہ اور امریکا کو بھی کور کرتی ہے اور اس کی فلائیٹس مشرق بعید بھی جاتی ہیں‘

‏*ائیر مالٹا کو 49 برس ہو چکے ہیں‘ مالٹا کے لوگوں نے ان 49 برسوں میں پی آئی اے کا احسان یاد رکھا‘*

‏مالٹا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے پی آئی اے کو اپنے تعلیمی سلیبس میں شامل کر رکھا ہے

‏*یہ لوگ آج بھی ساتویں جماعت کے بچوں کو پی آئی اے کی مہربانی پڑھاتے ہیں اور مالٹا کے بچے پی آئی اے پر مضمون لکھ کر آٹھویں جماعت میں جاتے ہیں۔*

‏یہ اس پرانے زمانے کی بات ہے جب پی آئی اے نے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا

‏ہماری قومی ائیر لائین نے اس گولڈن دور میں بے شمار کمالات کیے

‏اس نے ائیر مالٹا کی طرح سنگا پور ائیر لائین بنائی‘ کوریا کو سول ایوی ایشن اور ائیر لائین بنانے میں مدد دی‘ ملائشین ائیر لائین بنائی اور ایمریٹس کی بنیاد رکھی‘ یہ بات آج کے زمانے میں شیخی محسوس ہوتی ہے

‏ کہ ہم نے ایمریٹس کو کرائے پر جہاز بھی دیے تھے اور پائلٹ اور ائیر ہوسٹس بھی‘

‏ہم نے دنیا کی پانچ بڑی ائیر لائینز کے عملے کو ٹریننگ بھی دی تھی‘

‏آپ کو یہ بات بھی عجیب لگے گی کراچی کبھی ایشیا کا دروازہ ہوتا تھا
‏۔
‏ایشیا کے 80فیصد مسافر کراچی سے ہو کر یورپ‘ افریقہ اور امریکا جاتے تھے اور یورپ‘ افریقہ اور امریکا کے مسافر بھی ایشیا میں داخل ہونے سے پہلے کراچی میں اترتے تھے

‏لیکن وہ شاندار ماضی اور وہ شاندار ائیر لائین آج کہاں ہے؟

01/10/2023

دنیا کے امیر ترین شخص کی عبرت ناک داستان ۔
ایک وقت تھا جب حکمران اس کے اشاروں پر ناچتے تھے پھر وقت نے اسے بے بسی کی تصویر بنا دیا۔
25 اکتوبر 2020ء کا دن تھا۔ ڈاکٹر نے مریض کا بازو سیدھا کیا اور مایوسی سے سر ہلا دیا‘ بیٹے نے آہستہ آواز میں پوچھا ”کیا کوئی چانس نہیں“ ڈاکٹر نے جواب دیا ”سر اب نہیں‘ ہمیں وینٹی لیٹر بند کرنا ہوگا“ بیٹے نے سر نیچے کیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ مریض مئی 2014ء سے کومے میں تھا۔
مریض کی کہانی 1940ء میں شروع ہوئی تھی‘ اس کے والد نے جنوبی کوریا کے شہرٹائیگومیں چھوٹی سی کمپنی بنائی‘ کوریائی زبان میں تین ستاروں کو ”سام سنگ“ کہتے ہیں‘ قدیم روایات کے مطابق اکٹھے طلوع ہونے والے تین ستارے کبھی غروب نہیں ہوتے۔
والد لی بیونگ چل نے خوش شگونی کے لیے کمپنی کا نام سام سنگ رکھ دیا‘ یہ لوگ شروع میں فروٹ اور فروزن فش ایکسپورٹ کرتے تھے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد تعمیر نو شروع ہوئی تو سام سنگ خوراک سے کنسٹرکش انڈسٹری میں آگئی اور اس نے دھڑا دھڑ عمارتیں‘ پل اور سڑکیں بنانا شروع کر دیں‘ لی بیونگ چل نے ان ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کمائے‘ یہ سمجھ دار انسان تھے‘ یہ جانتے تھے انسان کو اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں چناں چہ یہ کنسٹرکشن کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل‘ فیشن اور الیکٹرانکس کے کاروبار میں بھی آ گئے‘ گروپ بڑا ہوتا چلا گیا‘
لی کن ہی لی بیونگ چل کے تیسرے بیٹے تھے‘ یہ کند ذہن اور لاابالی مزاج کے لڑکے تھے‘ پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن والد انہیں ہرحال میں پڑھانا چاہتے تھے‘ لی کن ہی نے وسیڈا یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری لی اور بزنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا میں داخلہ لے لیا‘ جارج واشنگٹن کا دورلی کی زندگی کا فضول اور ناقابل بیان زمانہ تھا‘ یہ اپنی ڈگری تک مکمل نہ کر سکے‘ والد نے انہیں واپس بلایا اور کنسٹرکشن اور ٹریڈنگ کے کام میں لگا دیا‘ یہ گرتے پڑتے یہ کام کرتے رہے‘ والد ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا یہ پوری کمپنی کو ڈبو دیں گے‘ والد 1987ء میں انتقال کر گئے اور لی کو مجبوراً کمپنی سنبھالنا پڑ گئی‘ کمپنی اس وقت 34 مختلف شعبوں میں کام کر رہی تھی۔
لی کے لیے اگلے پانچ سال بہت مشکل تھے‘ یہ ایک دفتر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف دوڑتے رہتے تھے یہاں تک کہ 1993ء آ گیا‘ لی کو اچانک محسوس ہوا ہم بہت زیادہ مصنوعات بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم کوالٹی میں مار کھا رہے ہیں جب کہ ہمارے حریف صرف ایک ایک کام کرتے ہیں اور ان کی مصنوعات کی کوالٹی سام سنگ سے بہت بہتر ہے‘ لی کو محسوس ہوا ہم نے اگر اپنے حریفوں کو کوالٹی میں مار نہ دی تو ہم پٹ جائیں گے ۔

چناں چہ اس نے ایک دن اپنے تمام ایگزیکٹوز کو جمع کیا اور ان سے کہا ”ہم آج سے اپنی بیوی اور بچوں کے علاوہ سب کچھ بدل رہے ہیں‘ تم لوگ نقصان کی پرواہ نہ کرو‘ ہم اگر فٹ پاتھ پر بھی آ جائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں‘ آپ بس صرف اور صرف کوالٹی پر توجہ دیں‘ ہماری پراڈکٹس ہر صورت مارکیٹ میں نمبر ون ہونی چاہییں‘ سام سنگ کے لوگو کو گارنٹی ہونا چاہیے“ یہ میجر شفٹنگ تھی‘ کمپنی کی انتظامیہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ڈٹے رہے۔

وہ ہر قسم کا نقصان برداشت کرنے کے لیے بھی تیار تھے‘ ایگزیکٹوز نے ہار مان لی اور تعداد کی بجائے معیار پر چلے گئے‘ شروع کے سال بہت مشکل تھے‘ کمپنی کے گودام کباڑ خانہ بن گئے‘ مارکیٹ میں سام سنگ کا انبار لگ گیا‘ لوگ اس کے سائن بورڈز کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے‘ ڈسٹری بیوٹرز تک بھاگ گئے مگر یہ پیچھے نہ ہٹے‘ 1995ء میں ایک طرف کمپنی کا بیڑہ غرق ہو گیا اور دوسری طرف لی کن ہی پر جنوبی کوریا کے صدر روح تائے ووہ کو30 ملین ڈالر رشوت دینے کا الزام لگ گیا۔

یہ تفتیش‘ انکوائریاں اور عدالتی مقدمات کا سامنا بھی کرنے لگے‘ وہ دور مشکل تھا مگر اس دور نے انہیں پگھلا کر کندن بنا دیا‘ یہ نکھرتے چلے گئے‘ سام سنگ اس دوران ٹیلی ویژن کی انڈسٹری میں آگیااور اس کا ٹی وی دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ لیڈر بن گیا اور یہ چند ماہ میں پیداوار‘ معیار اور فروخت میں سونی کو بہت پیچھے چھوڑ گیا یوں کمپنی 2006ء میں اعلیٰ معیار کا گارنٹی کارڈ بن گئی‘ یہ ہر گھر تک پہنچ گئی‘ لی کن ہی نے 1998ء میں سمارٹ فونز کا یونٹ بھی لگا لیا۔

یہ یونٹ گلیکسی کہلاتا تھا‘ گلیکسی مارکیٹ میں آ یا اور اس نے کشتے کے پشتے لگا دیے‘ یہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے عالمی برینڈ بن گیا جس کے بعد سام سنگ 350 بلین ڈالر کی کمپنی بن گئی‘ لی کن ہی کو فوربس نے 2014ء میں دنیا کے100 بااثر ترین لوگوں کی لسٹ میں بھی شامل کر لیااور یہ کوریا کا امیر ترین شخص بھی بن گیا‘ یہ سٹیٹ سے بھی امیر ہو گیا۔لی کن ہی کی کام یابی کا پہلا ستون ٹیکنالوجی تھی‘سام سنگ کا آر اینڈ ڈی بہت مضبوط ہے۔

اس نے اہل ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئرز بھرتی کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے یہ گروپ پچھلے دس برسوں سے مارکیٹ کو لیڈ کر رہا ہے‘ دوسرا یہ گروپ معیار پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ آپ ان کی کوئی پراڈکٹ اٹھا کر دیکھ لیں‘ پیکنگ سے لے کر سائز تک آپ کو اس کا معیار حیران کر دے گا اور تیسرا لی کن ہی خریدوفروخت کا ایکسپرٹ تھا‘ یہ راستے کی ہر رکاوٹ کو خرید کر یا گرا کر آگے نکل جاتا تھا‘ یہ جنوبی کوریا کے قوانین تک بدل دیتا تھا۔
یہ اپنی مرضی کی حکومتیں بھی لے آتا تھا اور اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی بدل دیتا تھا چناں چہ یہ سٹیٹ کے اندر ایک سٹیٹ بن گیا اور یہ سٹیٹ اصل سٹیٹ سے بڑی اور مضبوط تھی‘ آپ جنوبی کوریا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ملک کے ہر سیاسی اتار چڑھاؤ کے پیچھے سام سنگ اور لی کن ہی ملے گا‘ یہ درجنوں مرتبہ انکوائریوں‘ تفتیشوں اور مقدمات کا ہدف بنا‘ اس پر صدور کو رشوت دینے کے الزام بھی لگے اور اسے سیاسی خریدوفروخت کا بیوپاری بھی کہا گیا‘ 2008ء میں اس پر ٹیکس چوری کے الزامات ثابت ہو گئے۔
اسے سزا بھی ہوئی لیکن اس نے عدالت اور حکومت دونوں کو خرید لیا‘ سزا معاف ہو گئی تاہم اسے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا عہدہ واپس کرنا پڑ گیا‘ یہ پورے کوریا میں بدنام تھا مگر اسے کوئی ندامت‘ کوئی پریشانی نہیں تھی‘ یہ میدان میں ڈٹا رہتا تھا‘ یہ خود اپنے منہ سے کہتا تھا آپ اگر دولت سے آسانیاں نہیں خرید سکتے تو پھر آپ کو دولت مند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں چناں چہ یہ سامنے موجود ہر شخص کو چند لمحوں میں خرید لیا کرتا تھا‘ اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ اس نے آخر میں زندگی کو بھی خریدنے کی کوشش شروع کر دی۔
چیئرمین لی کن ہی کو 2014ء میں ہارٹ اٹیک ہوا اور یہ کوما میں چلا گیا‘ اس کی وصیت کے مطابق اسے وینٹی لیٹر پر شفٹ کر دیا گیا اور اس کے لیے نئی ادویات کی ایجاد کا کام شروع کر دیا گیا‘ سام سنگ نے درجنوں ریسرچ اداروں کو فنڈنگ کی‘ بڑے سے بڑے ڈاکٹر کا بندوبست کیا اور قیمتی سے قیمتی ترین ادویات بنوائی گئیں مگر لی کن ہی کومے سے باہر نہ آ سکا‘ اس کے بیٹے لی جائے یونگ نے کمپنی کی عنان سنبھال لی‘ یہ اپنے والد کو ایک بار اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی شدید خواہش تھی یہ ایک بار اپنے منہ سے بولیں یہ اپنے ہاتھ سے کھائیں اور ایک بار!جی ہاں ایک بار اپنی کھلی آنکھوں سے سام سنگ کی نئی سکرین دیکھیں لیکن لی جائے یونگ کی کوئی کوشش بارآور نہ ہوسکی اور یوں 25 اکتوبر 2020ء کی وہ شام آ گئی جب ڈاکٹروں نے مایوسی کا اعلان کر دیا‘ لی کن ہی کومے کے عالم میں انتقال کر گیا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا‘ ڈاکٹر نے اس کا بازو سائیڈ پر رکھا اور مایوسی میں سر ہلا دیا‘ سام سنگ کا مالک مر چکا تھا لیکن مرنے کے باوجود اس کے اکاؤنٹ میں 20 بلین ڈالرز تھے اور یہ 350 بلین ڈالرز کی کمپنی کا مالک تھا مگر 350 بلین ڈالرز کی کمپنی اور 20 بلین ڈالرز کے اکاؤنٹس موت کا مقابلہ نہ کر سکے‘ مسافر چھ سال کی طویل نیند کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گیا۔
لی کن ہی کی موت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا انسان دنیا میں دولت کے ذریعے سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن یہ کتنا ہی بڑا بیوپاری کیوں نہ ہو جائے یہ ایک بھی اضافی سانس نہیں خرید سکتااور اس کے پاس قدرت کے سامنے ہارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ کہتے ہیں انسان اگر زندگی خرید سکتا تو ہم آج بھی نمرود اور فرعون کی خدائی میں سانس لے رہے ہوتے‘ موت وہ امر ربی ہے جس کے ذریعے اللہ لی کن ہی جیسے لوگوں کو یہ پیغام دیتا ہے‘ جاؤ تم جتنا بھاگ سکتے ہو بھاگ لو لیکن تم نے آخر میں میرے پاس ہی آنا ہے‘
میں تمہیں کائنات کے کسی کونے میں چھپنے نہیں دوں گا اور یہ چھپنے دیتا بھی نہیں‘ تاریخ انسانی خداؤں کا قبرستان ہے‘ آپ کسی دن تاریخ کے قبرستان میں جھانک کر دیکھیں‘آپ کو ہر قبر میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص لیٹا ملے گا جو خود کو ناگزیر بھی سمجھتا تھا اور ناقابل شکست بھی لیکن پھر کیا ہوا؟سن کنگ سے لے کر مون کوئین تک دنیا کے ہر ناگزیر کے لیے مٹی آخری لحاف ثابت ہوئی‘ اللہ کی اس دنیا میں لی کن ہی جیسا شخص بھی چھ چھ سال ہسپتال میں بستر پر لیٹ کر آنکھ نہیں کھول پاتا
اوراس سے امیر تیمور اور ہٹلر جیسا شخص بھی خالی ہاتھ واپس جاتا ہے لیکن ہم اس قبرستان میں پوری زندگی ”میں میں“ کی آوازیں لگاتے رہتے ہیں اور ہمیں شرم بھی نہیں آتی‘ بھائی میرے! اپنی اوقات دیکھ کر بولو‘ تم کورونا کا مقابلہ تو کر نہیں سکتے‘ زندگی اور موت دینے والے کا کیا خاک مقابلہ کرو گے مٹی کی مٹھی ہو مٹی بن کر رہو خدا نہ بنو کیوں کہ خدا اپنے سوا کسی کو خدا نہیں رہنے دیتا۔
منقول ۔

ان پڑھ سرجن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“کیپ ٹاؤن” کا ان پڑھ سرجن مسٹر " ھملٹن " جس کو ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری دی...
28/09/2023

ان پڑھ سرجن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیپ ٹاؤن” کا ان پڑھ سرجن مسٹر " ھملٹن " جس کو ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری دی گئی، جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، یہ کیسے ممکن ھے آئیے دیکھتے ھیں۔
کیپ ٹاﺅن کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا‘
اس یونیورسٹی نے چند سال پہلے ایک ایسے سیاہ فام شخص کو
”ماسٹر آف میڈیسن“
کی اعزازی ڈگری سے نوازا جس نے زندگی میں کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔
جو انگریزی کا ایک لفظ پڑھ سکتا تھا
اور
نہ ہی لکھ سکتا تھا.....
لیکن 2003ء کی ایک صبح دنیا کے مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اعلان کیا:،
"ہم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے،
جو ایک غیر معمولی استاد، ایک حیران کن سرجن ہے، اور
جس نے میڈیکل سائنس
اور
انسانی دماغ کو حیران کر دیا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی پروفیسر نے " ہیملٹن " کا نام لیا،
اور
پورے آڈیٹوریم نے کھڑے ہو کر اُس کا استقبال کیا۔
یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا“۔
”ہیملٹن کیپ ٹاﺅن کے ایک دور دراز گاﺅں " سنیٹانی " میں پیدا ہوا۔
اس کے والدین چرواہے تھے، وہ بکری کی کھال پہنتا تھا اور پہاڑوں پر سارا سارا دن ننگے پاﺅں پھرتا تھا،
بچپن میں اس کا والد بیمار ہو گیا لہٰذا وہ بھیڑ بکریاں چھوڑ کر "کیپ ٹاﺅن" آگیا۔ ان دنوں "کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی" میں تعمیرات جاری تھیں۔
وہ یونیورسٹی میں مزدور بھرتی ہو گیا۔
اسے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد جتنے پیسے ملتے تھے، وہ یہ پیسے گھر بھجوا دیتا تھا
اور خود چنے چبا کر کھلے آسمان تلے گراﺅنڈ میں سو جاتا تھا۔
وہ برسوں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا، تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوا تو وہ یونیورسٹی میں مالی بھرتی ہوگیا......
اسے ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا........
وہ روز ٹینس کورٹ پہنچتا اور گھاس کاٹنا شروع کر دیتا......
وہ تین برس تک یہ کام کرتا رہا......
پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا
اور وہ میڈیکل سائنس کے اس مقام تک پہنچ گیا جہاں آج تک کوئی دوسرا شخص نہیں پہنچا۔
یہ ایک نرم اور گرم صبح تھی۔”پروفیسر رابرٹ جوئز" زرافے پر تحقیق کر رہے تھے، وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ:
"جب زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا،"
انہوں نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا، اسے
بے ہوش کیا،
لیکن جوں ہی آپریشن شروع ہوا، زرافے نے گردن ہلا دی،
چنانچہ انہیں ایک ایسے مضبوط شخص کی ضرورت پڑ گئی جو آپریشن کے دوران زرافے کی گردن جکڑ کر رکھے۔
پروفیسر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے، سامنے 'ہیملٹن' گھاس کاٹ رہا تھا،
پروفیسر نے دیکھا وہ ایک مضبوط قد کاٹھ کا صحت مند جوان ہے۔ انہوں نے اسے اشارے سے بلایا اور اسے زرافے کی گردن پکڑنے کا حکم دے دیا۔ " ہیملٹن" نے گردن پکڑ لی،
یہ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا۔ اس دوران ڈاکٹر چائے اورکافی کے وقفے کرتے رہے، لیکن ہیملٹن
زرافے کی گردن تھام کر کھڑا رہا۔
آپریشن ختم ہوا تو وہ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کر گھاس کاٹنا شروع کر دی۔
دوسرے دن پروفیسر نے اسے دوبارہ بلا لیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا ہوگیا، اس کے بعد یہ اس کی روٹین ہوگئی وہ یونیورسٹی آتا آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے لگتا، وہ کئی مہینے دوہرا کام کرتا رہا،
اور
اس نے اس ڈیوٹی کا کسی قسم کا اضافی معاوضہ طلب کیا اور نہ ہی شکایت کی۔
پروفیسر رابرٹ جوئز اس کی استقامت اور اخلاص سے متاثر ہو گئے
اور انھوں نے اسے مالی سے ”لیب اسسٹنٹ“ بنا دیا۔
"ہیملٹن " کی پروموشن ہوگئی۔
وہ اب یونیورسٹی آتا، آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا۔
یہ سلسلہ بھی برسوں جاری رہا۔
1958ء میں اس کی زندگی میں دوسرا اہم موڑ آیا۔
اس سال " ڈاکٹر برنارڈ " یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی منتقلی کے آپریشن شروع کر دیئے۔
" ہیملٹن " ان کا اسسٹنٹ بن گیا، وہ " ڈاکٹر برنارڈ"
کے کام کو غور سے دیکھتا رہتا، ان آپریشنوں کے دوران وہ اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا۔
اب ڈاکٹر آپریشن کرتے
اور آپریشن کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا فریضہ سونپ دیتے، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا، اس کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی، اس نے ایک ایک دن میں پچاس پچاس لوگوں کے ٹانکے لگائے۔
وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہوئے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا....
چنانچہ
بڑے ڈاکٹروں نے اسے جونیئر ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔
وہ اب جونیئر ڈاکٹروں کو آپریشن کی تکنیکس سکھانے لگا۔
وہ آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔
وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے ناواقف تھا،
لیکن وہ دنیا کے بڑے سے بڑے سرجن سے بہتر سرجن تھا۔
1970ءمیں اس کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا، اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کردی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی۔
اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں کو حیران کر دیا،
آج جب دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کے جگر کا آپریشن ہوتا ہے
اور مریض آنکھ کھول کر روشنی کو دیکھتا ہے

تو اس کامیاب آپریشن کا ثواب براہ راست " ھملٹن " کو چلا جاتا ہے، اس کا محسن 'ہیملٹن'' ہوتا ہے“
" ہیملٹن " نے یہ مقام اخلاص اور استقامت سے حاصل کیا۔
وہ 50 برس کیپ ٹاﺅن یونیورسٹی سے وابستہ رہا، ان 50 برسوں میں
اس نے کبھی چھٹی نہیں کی۔
وہ رات تین بجے گھر سے نکلتا تھا، 14 میل پیدل چلتا ہوا یونیورسٹی پہنچتا اور
ٹھیک چھ بجے تھیٹر میں داخل ہو جاتا۔
لوگ اس کی آمدورفت سے اپنی گھڑیاں ٹھیک کرتے تھے،
ان پچاس برسوں میں اس نے کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا،
اس نے کبھی اوقات کار کی طوالت
اور
سہولتوں میں کمی کا شکوہ نہیں کیا.......
پھر
اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا جب اس کی تنخواہ اور مراعات یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے زیادہ تھیں
اور
اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک میڈیکل سائنس کے کسی شخص کو نہیں ملا۔
وہ میڈیکل ہسٹری کا پہلا
ان پڑھ استاد تھا۔
وہ پہلا ان پڑھ سرجن تھا جس نے زندگی میں تیس ہزار سرجنوں کو ٹریننگ دی،
وہ 2005ء میں فوت ہوا تو اسے یونیورسٹی میں دفن کیا گیا
اور اس کے بعد یونیورسٹی سے پاس آﺅٹ ہونے والے سرجنوں کے لئے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں، تصویر بنوائیں
اور
اس کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوجائیں....“
میں رکا اور اس کے بعد نوجوانوں سے پوچھا:
”تم جانتے ہو اس نے یہ مقام کیسے حاصل کیا“
نوجوان خاموش رہا، میں نے عرض کیا:
”صرف ایک ہاں سے‘
جس دن اسے زرافے کی گردن پکڑنے کے لئے آپریشن تھیٹر میں بلایا گیا تھا
اگر وہ اس دن انکار کر دیتا، اگر وہ اس دن یہ کہہ دیتا میں مالی ہوں میرا کام زرافوں کی گردنیں پکڑنا نہیں
تو
وہ مرتے دم تک مالی رہتا.
یہ اس کی ایک ہاں اور آٹھ گھنٹے کی اضافی مشقت تھی جس نے اس کے لئے کامیابی کے دروازے کھول دیئے اور وہ سرجنوں کا سرجن بن گیا“ ۔
”ہم میں سے زیادہ تر لوگ زندگی بھر جاب تلاش کرتے رہتے ہیں.
جبکہ
ہمیں کام تلاش کرنا چاہیے“
” دنیا کی ہر جاب کا کوئی نہ کوئی کرائی ٹیریا ہوتا ہے اور
یہ جاب صرف اس شخص کو ملتی ہے جو اس
کرائی ٹیریا پر پورا اترتا ہے
جبکہ
کام کا کوئی کرائی ٹیریا نہیں ہوتا۔ میں اگر آج چاہوں تو میں چند منٹوں میں دنیا کا کوئی بھی کام شروع کر سکتا ہوں اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس کام سے باز نہیں رکھ سکے گی۔
"" ہیملٹن"" اس راز کو پا گیا تھا لہٰذا اس نے جاب کی بجائے کام کو فوقیت دی. یوں اس نے میڈیکل سائنس کی تاریخ بدل دی۔
ذرا سوچو، اگر وہ سرجن کی جاب کے لئے اپلائی کرتا
تو
کیا وہ سرجن بن سکتا تھا؟ کبھی نہیں،
لیکن
اس نے کھرپہ نیچے رکھا، زرافے کی گردن تھامی
اور
سرجنوں کا سرجن بن گیا اور ہم اس لئے بے روزگار اور ناکام رہتے ہیں کہ صرف جاب تلاش کرتے ہیں، کام نہیں

چین میں آئی فون پر پابندی، ایپل کو دو دن میں 200 بلین ڈالر کا نقصانجمعرات کے روز ایپل کے حصص میں 2.9 فیصد کی کمی واقع ہو...
08/09/2023

چین میں آئی فون پر پابندی، ایپل کو دو دن میں 200 بلین ڈالر کا نقصان

جمعرات کے روز ایپل کے حصص میں 2.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ چینی حکومت کی جانب سے حمایت یافتہ ایجنسیوں اور کمپنیوں پر آئی فونز کے استعمال پر پابندی کو بڑھایا جارہا ہے۔

اس سے قبل ایپل نے بدھ کے روز ایک ماہ کے دوران اپنے کاروبار میں سب سے بڑی یومیہ کمی ریکارڈ کی۔ کمپنی کو دو دن میں تقریباً 200 بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور اس کا اسٹاک اس وقت ڈاؤ جونز انڈسٹریل میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے پابندیاں، ایپل کے کاروبار کے لیے ایک خطرناک علامت ہوسکتی ہیں۔

چین، ایپل کمپنی کی مصنوعات کے لیے سب سے بڑی غیر ملکی مارکیٹ ہے اور چین میں ایپل کی فروخت گزشتہ سال کمپنی کی کل آمدنی کا تقریباً پانچواں حصہ تھی۔ ایپل ملکوں کے لحاظ سے آئی فون کی فروخت اور کمائی کا انکشاف نہیں کرتا، لیکن ریسرچ فرم ٹیک ان سائٹس کے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ پچھلی سہ ماہی میں امریکہ کے مقابلے میں چین میں آئی فون کی زیادہ تعداد فروخت ہوئی۔ ایپل اپنے آئی فونز کی اکثریت چینی فیکٹریوں میں بھی تیار کرتا ہے۔

ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺻﺪﺭ ﻧﮯ ﻭﺍﺋﭧ ﮬﺎﻭﺱ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻭ ﺭﻭﻏﻦ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ‏ﭼﯿﻨﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﻠﯿﻦ...
08/09/2023

ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺻﺪﺭ ﻧﮯ ﻭﺍﺋﭧ ﮬﺎﻭﺱ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻭ ﺭﻭﻏﻦ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ

‏ﭼﯿﻨﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﻠﯿﻦ ﮈﺍﻟﺮ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ لگایا

اور ﯾﻮﺭﭘﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺳﺎﺕ ﻣﻠﯿﻦ ﮈﺍﻟﺮ خرچ بتایا

ﺍﻭﺭ پھر ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺩﺱ ﻣﻠﯿﻦ ﮈﺍﻟﺮ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﺎﯾﺎ

صدر ﻧﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ‏تین ملین ڈالر تخمینہ کیسے لگایا۔۔۔؟
ٹھیکیدار نے جواب دیا کہ ایک ملین کا پینٹ 1ملین لیبر کی مزدوری کے لئے اور ایک ملین پرافٹ کا ۔

صدر نے یورپی ٹھیکدار سے سات ملین کا پوچھا
اس نے جواب دیا تین ملین کا پینٹ دو ملین لیبر کا دو ملین پرافٹ کا

صدر نے پاکستانی ‏سے پوچھا کہ تم نے کس طرح دس ملین کا تخمینہ لگایا
پاکستانی ٹھیکیدار بولا چار ملین تمہارے لیے، تین ملین میرے لیے، باقی تین ملین چائنیز کو دے کر پینٹ کروالیں گے

اور پاکستانی کنٹریکٹر کو ٹھیکہ مل گیا 🤣

Copied. . . . . .

‏گاڑی پانی میں گر جائے تو کیا کرنا ہے؟ ‏بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے ڈوب گئے کہ وہ نہیں جانتے تھے:-‏ اگر آپ خود کو گاڑی میں ...
08/09/2023

‏گاڑی پانی میں گر جائے تو کیا کرنا ہے؟

‏بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے ڈوب گئے کہ وہ نہیں جانتے تھے:-

‏ اگر آپ خود کو گاڑی میں پانی کے اندر پاتے ہیں تو گھبرائیں نہیں۔

‏ 1۔ دروازے کو دھکیلنے کی کوشش میں اپنی توانائی ضائع نہ کریں۔
‏ 2۔ کھڑکی مت کھولیں، گاڑی میں داخل ہونے والا پانی آپ کو باہر نہیں نکلنے دے گا۔ اور اگر اندر داخل ہو گیا تو گاڑی مکمل پانی میں ڈوب جائے گی۔ شیشے اور دروازے بند رہنے دیں۔
‏ 3۔ سر کے پیچھے والے ہیڈ ریسٹ کو کھینچ کر اوپر کی سمت نکالیں۔
‏4۔ اس کی اسٹیل کی تیز نوک کا استعمال کریں اور پچھلی کھڑکی کے شیشے کو توڑ دیں جو ڈگی کے اوپر لگا ہوتا ہے۔

‏ ▶️ انجنیئرنگ اور ڈیزائن کے لحاظ سے کار پانی میں تیرتی ہے اور پچھلی کھڑکی ہمیشہ باہر نکلنے کی سمت ہو گی۔ جیسا کہ تصویر میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ آپ کی جان بچا سکتا ہے۔

‏انجن بھاری ہوتا ہے اس لئے وہ حصہ پانی میں ڈوب جائے گا مگر ٹائروں کی ہوا کے باعث تیہہ تک نہیں جائے گا۔ پچھلے ٹائروں کی وجہ سے پچھلا حصہ تیرتا رہے گا اور پانی سے باہر رہے گا۔ گاڑی ڈوبے گی تب جب پانی اس کے اندر جا کر اسے بھاری کر دے گا۔

‏اپنے حواس ٹھیک رکھیں۔ پینک مت ہوں۔ دماغ اور سائنس کا استعمال کریں۔ تیرنا نہیں آتا تو بھی کوئی بات نہیں۔ پچھلی سیٹ میں سالڈ فوم ہوتا ہے وہ فلوٹ کر سکتی ہے۔ اسے آرام سے نکالیں اور پچھلے شیشے سے باہر نکال کر کچھ سواریوں کو اسے پکڑ کر پانی پر تیرنے دیں اس کے اوپر نہ چڑھیں بلکہ سائیڈوں پکڑ کر تیریں۔ کوئی چھوٹا بچہ البتہ بٹھا دیں اور اسے پکڑ کر رکھیں۔ کشتی کی طرح ہاتھوں سے پانی پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کنارے کی سمت بڑھیں۔ دوسرا سپیئر وہیل یا سٹپنی نکال کر اس کی مدد سے بھی تیرا جا سکتا ہے۔ پچھلی سیٹ کی بیک بھی آرام سے اتر سکتی ہے اسے بھی تیرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

‏زندگی بچانے کے لئے اعصاب اور ڈر پر قابو پانے سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اپنی گاڑی میں لگی اور پڑی ہر چیز پر ریسرچ کیا کریں۔ یہ ریسرچ آپ کی جان بچانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

‏انجن کی جانب سے اگر پانی اندر آنا شروع ہو تو فوری طور پر نکلنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں گاڑی بنانے والے نے ہر سوراخ سیل کیا ہوتا ہے۔ ہمارے مکینک ان کو کھول دیتے ہیں لاپرواہی سے۔ جو جان لیوا ہو سکتا ہے۔ احتیاط کریں۔ چیک کرتے رہا کریں اپنی گاڑی کو۔

‏اللہ پاک آپ اور ہم سب کو اپنی امان میں رکھیں۔

اہل اسلام کو ہماری جانب سے عید کی خوشیاں مبارک
29/06/2023

اہل اسلام کو ہماری جانب سے عید کی خوشیاں مبارک

۔ ساٸنس کا ماننا ہے کہ چکن کے پنجے کھانا صحت کے لٸے بہت زیادہ فاٸدہ مند ہے،،، چکن کے پاٶں میں کیا کچھ نہیں ہے،،،،،،،،، ا...
28/06/2023

۔ ساٸنس کا ماننا ہے کہ چکن کے پنجے کھانا صحت کے لٸے بہت زیادہ فاٸدہ مند ہے،،، چکن کے پاٶں میں کیا کچھ نہیں ہے،،،،،،،،، اکثر لوگ چکن کے پاٶں کو پھینک دیتے ہیں۔۔۔۔ لیکن چکن کے پاٶں میں جو کچھ ہے وہ پوری چکن میں نہیں ہے۔ میں نے بہت بڑے بڑے ڈاکٹروں کو چکن کے پاٶں کھاتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بالکل بھی شرم محسوس نہیں ہوتی،، کہ لوگ اس وقت میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔۔۔۔ کہ یہ چکن کے پاٶں کھاتا ہے اگر آپ کو اپنے آپ سے محبت ہے تو آپ بھی ایک بار ضرور ٹراٸی کریں اگر آفاقہ نہ ہوا تو میں حاضر ہوں۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں لوگوں کی بجاٸے پہلے اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔

چکن کے پاؤں ہڈیوں، جلد اور "tendons" پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن اس میں کوئی عضلات نہیں ہوتی۔۔ چکن کے پاٶں پروٹین،کیلشیم،ٹریس منرلز، کولیجن اور کارٹلیج سے بھرپور ہوتے ہیں جو جسم میں آسانی سے جذب ہوجاتے ہیں،جسکی وجہ سے جوڑوں کے درد کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔۔ اس کے علاوہ جوڑوں کی ازادانہ نقل و حرکت کے لیے یہ ضروری غذائی اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔چکن کے پاؤں سے ایک زبردست ذائقہ دار اور "غذائیت" سے بھرپور "شوربہ" بناٸی جاتی ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ہمارے قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں،اسکے علاوہ یہ آپ کے آنتوں کو بہت غذائیت بخشتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی جلد، جوڑوں اور ہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں۔۔۔۔۔ پاؤں چکن کا سب سے زیادہ جیلیٹنس والا حصہ ہے۔ اور اس میں کولیجن کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

یقینا آپ میں زیادہ تر لوگ یہ نہیں کھاتے ہوں گے، لیکن اپنے بچوں کو ضرور کھلاتے رہیۓ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ بچوں کی جلد، ناخن، جوڑوں اور ہڈیوں کی نشوونما کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چکن کے پاؤں میں گلوکوز اور کونڈرو ٹین سلفیٹ A، B، اور C بھی پاۓ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔مزید یہ کہ چکن پاٶں میں ننانوے فیصد کیلشیم اور معدنیات ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔اور یہ کارٹلیج اور جوڑوں کی مصنوعی مرمت کا پیش خیمہ ہیں۔

غریب لوگ شاید اس لٸے زیادہ مضبوط اور سخت جان ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ چیز بہت شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ تحریر چینی زبان میں لکھی ہوئی تھی،۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے جب گوگل سے چیک کیا تو یہ لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوا۔سوچا آپ لوگوں سے شٸیر کروں۔۔ میں نے چکن کے پاٶں کو order کیا ہے۔ اپ بھی جلدی کیجۓ اس سے پہلے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اس پر کوئی ٹیکس لگاۓ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہی ایک چیز رہ گئ ہے۔۔۔ جس کو فی الحال ڈائریکٹکلی ٹیکس سے استثنا حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
Copied

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Facts Ki Baatain posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share