Islamic History With Ms

  • Home
  • Islamic History With Ms

Islamic History With Ms Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Islamic History With Ms, Media, .

21/11/2021

*بوسنیا کی المناک داستان*

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"

زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔

شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔

ایک طرف سے آواز آئی فائر۔

تڑخ تڑخ تڑخ۔۔۔۔۔۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔

ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔

اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔

شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔

لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔

انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔

اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔

جولائی 1995 سے جولائی 2020 تک پچیس سال گذر گئے۔ آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔

جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔

گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔

غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا؟ پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔

اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں__

10/08/2021

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا۔
طبيب نے كہا:
اے امير المؤمنين! وصيت كر ديجيے اسليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا:
ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جن كو رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى، جس كو اللہ، اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا۔۔۔
حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا، حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں ، كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟
حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے لگے :
اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے، ميں اس كو مرتے دم تك كسى كو نہيں بتا سكتا۔۔۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے: حذيفہ! بلاشبہ يہ رسول اللہﷺ كا راز ہے ، بس مجھے اتنا بتا ديجيے كہ رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين كے جدول ميں شمار كيا ہے يا نہيں؟
حذيفہ كى ہچكى بندھ گئى ، روتے ہوئے كہنے لگے: اے عمر! ميں صرف آپ كو يہ بتا رہا ہوں اگر آپ كے علاوہ كوئى اور ہوتا تو ميں كبھى بھى اپنى زبان نہ كھولتا، وہ بھى صرف اتنا بتاؤں گا كہ رسول اللہﷺ نے آپ كا نام منافقين كى لسٹ ميں شمار نہيں فرمايا۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے بيٹےعبداللہ سے كہنے لگے: عبداللہ اب صرف ميرا ايك معاملہ دنيا ميں باقى ہے۔۔۔ پِسر جانثار كہنے لگا: اباجان بتائيے وہ كون سا معاملہ ہے؟
سيدنا عمر رضى اللہ گويا ہوئے بيٹا، میں رسول اللہ اور ابوبكر رضى اللہ عنہ كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہوں۔۔۔
اے ميرے بيٹے! ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب كرو كہ عمر اپنے ساتھيوں كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہے۔۔۔ ہاں بيٹا، عائشہ رضى اللہ عنہا كو يہ نہ كہنا كہ امير المؤمنين كا حكم ہے بلكہ كہنا كہ آپ كا بيٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے۔۔۔
ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كہنے لگيں، ميں نے يہ جگہ اپنى قبر كے ليے مختص كر ركھى تھى، ليكن آج ميں عمر كے ليے اس سے دستبردار ہوتى ہوں۔۔۔
عبداللہ مطمعن لوٹے اور اپنے اباجان كو اجاز ت کا بتایا، سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے رخسار كو زمين پر ركھ ديا، آداب فرزندى سے معمور بيٹا آگے بڑھا اور باپ كى چہرے كو اپنے گود ميں ركھ ليا ، باپ نے بيٹے كى طرف ديكھا اور كہا اس پيشانى كو زمين سے كيوں اٹھايا۔۔۔۔
اس چہرے كو زمين پر واپس ركھ دو، ہلاكت ہوگى عمر كے ليے اگر اس كے رب نے اس كو قيامت كے دن معاف نہ كيا۔۔۔ ! رحمك اللہ يا عمر
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ بيٹے عبدأللہ كو يہ وصيت كركے اس دار فانى سے كوچ كر گئے:
جب ميرے جنازے كو اٹھايا جائے اور مسجد نبوى ميں ميرا جنازہ پڑھا جائے، تو حذيفہ پر نظر ركھنا كيونكہ اس نے وعدہ توڑنے ميں تو شايد ميرا حيا كيا ہو، لیکن دھيان ركھنا وہ ميرا جنازہ بھى پڑھتا ہے يا نہيں؟
اگر تو حذيفہ ميرا جنازہ پڑھے تو ميرى ميت كو رسول اللہﷺ كے گھر كى طرف لے كر جانا، اور دروازے پر كھڑے ہو كر كہنا : يا ام المؤمنين! اے مومنوں كى ماں، آپ كے بيٹے عمر كا جسد خاكي آيا ہے۔۔۔ ہاں يہاں بھي ياد ركھنا امير المؤمنين نہ كہنا عائشہ مجھ سے بہت حياء كرتى ہے۔۔۔ اگر تو عائشہ رضى اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما ديں تو ٹھيك، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفنا دينا۔
عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ كہتے ہيں ابا جان كا جنازہ اٹھايا گيا تو ميرى نظريں حذيفہ پر تھيں، حذيفہ آئے اور انھوں نے اباجان كا جنازہ پڑھا۔۔۔ ميں يہ ديكھ كر مطمعن ہوگيا، اور اباجان كى ميت كو عائشہ رضى اللہ عنہا كے گھر كى طرف لے كر چلے جہاں اباجان كے دونوں ساتھى آرام فرما تھے۔۔
دروازے پر كھڑے ہو كر ميں نے كہا: يا أمّنا، ولدك عمر في الباب هل تأذنين له؟
اماں جان! آپ كا بيٹا عمر دروازے پر كھڑا ہے، كيا آپ اس كو دفن كى جازت ديتى ہيں؟
اماں عائشہ رضى اللہ عنہا نے كہا: مرحبا ، امير المؤمنين كو اپنے ساتھيوں كے ساتھ دفن ہونے پر مبارك ہو۔ رضى اللہ عنہم ورضوا عنہ
اللہ راضى ہو عمر سے جنہوں نے زمين كو عدل كے ساتھ بھر ديا ، پھر بھى اللہ سے اتنا زيادہ ڈرنے والے، اس كے باوجود كہ رسول اللہﷺ نے عمر كو جنت كى خوشخبرى دى۔۔

02/05/2021

*آج 18 رمضان المبارک 21 ہجری یوم وصال حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ*
*اگر جہاد کرنے سے موت وقت سے پہلے آتی ہوتی تو خالد بن ولید بستر پر فوت نہ ہوتے*
‏ *حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگی مہارت وصلاحیت کے حوالے سے لاثانی تھے آپ کے بارے میں سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے*

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Islamic History With Ms posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share