16/04/2024
عنوان: اسلام اور عورت کا پردہ
اللہ نے عورت کو حجاب کا ہرگز حکم نہیں دیا......
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کہتے ہیں...
میرے پاس ایک طالبعلم لڑکی آئی اور پوچھا:
طالبہ : کیا قران پاک میں کوئی ایک بھی ایسی آیت ہے جو عورت پر حجاب کی فرضیت یا پابندی ثابت کرتی ہو؟
ڈاکٹر ذاکر نائیک : پہلے اپنا تعارف تو کراؤ...
طالبہ: میں یونیورسٹی میں آخری سال کی ایک طالبہ ہوں....
اور میرے بہترین علم کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کو حجاب کا ہرگز حکم نہیں دیا، اس لیے میں بے پردہ رہتی ہوں۔
تاہم میں اپنے اصل سے بالکل جڑی ہوئی ہوں اور اس بات پر اللہ پاک کا بہت بہت شکر ادا کرتی ہوں....
ڈاکٹر : اچھا تو مجھے چند ایک سوال پوچھنے دو.
طالبہ : جی بالکل.
ڈاکٹر ذاکر : اگر تمہارے سامنے ایک ہی مطلب والا لفظ تین مختلف طریقوں سے پیش کیا جائے تو تم کیا مطلب اخذ کرو گی...؟
طالبہ: میں کچھ سمجھی نہیں۔
ڈاکٹر ذاکر : اگر میں تمہیں کہوں کہ مجھے اپنا یونیورسٹی گریجویشن کی ڈگری دکھاؤ....
آپ نے پھر کہا: یا میں تمہیں یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجویشن کا رزلٹ کارڈ دکھاؤ۔
آپ نے پھر کہا: یا پھر میں تمہیں یوں کہوں کہ اپنی یونیورسٹی گریجویشن کی فائنل رپورٹ دکھاؤ-
تو تم کیا نتیجہ اخذ کرو گی...؟
طالبہ: میں ان تینوں باتوں سے یہی سمجونگی کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور ان تینوں باتوں میں کوئی بھی تو ایسی بات پوشیدہ نہیں ہے جو مجھے کسی شک میں ڈالے کیونکہ ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ سب ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ میرا رزلٹ دیکھنا چاہتے ہیں.....!
ڈاکٹر ذاکر نائیک : بس، میرا یہی مطلب تھا جو تم نے سمجھ لیا ہے....
طالبہ: لیکن آپ کی اس منطق کا میرے حجاب کے سوال سے کیا تعلق ہے...؟
ڈاکٹر ذاکر : اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں تین ایسے استعارے استعمال کیے ہیں جو عورت کے حجاب پر دلالت کرتے ہیں....
طالبہ: (حیرت سے) وہ کیا ہیں اور کس طرح....؟
ڈاکٹر ذاکر نائیک : اللہ تبارک و تعالی نے پردہ دار عورت کی جو صفات بیان کی ہیں...
انہیں تین تشبیہات یا استعاروں
(الحجاب – الجلباب – الخمار)
سے بیان فرمایا ھے جن کا مطلب بس ایک ہی بنتا ہے۔
تم ان تین تشبیہات سے کیا سمجھو گی پھر۔۔۔۔۔؟
طالبہ : خاموش۔۔۔۔!
ڈاکٹر ذاکر نائیک : یہ ایسا موضوع ہے جس پر اختلاف رائے تو بنتا ہی نہیں بالکل ایسے ہی جیسے تم ڈگری، رزلٹ کارڈ یا فائنل تعلیمی رپورٹ سے ایک ہی بات سمجھی ہو۔۔۔
طالبہ: مجھے آپ کا سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگ رہا ہے مگر بات مذید وضاحت طلب ہے۔
ڈاکٹر ذاکر : پردہ دار عورتوں کی پہلی صفت (اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں –
( وليضربن بخمرهن على جيوبهن)
باری تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو دوسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے
کہ (اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں
–یايها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پردہ دار عورتوں کی جو تیسری صفت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ (گر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو –
(وإذا سألتموهن متاعا فأسالوهن من وراء حجاب}
ڈاکٹر ذاکر نائیک : کیا ابھی بھی تمہارے خیال میں یہ تین تشبیہات عورت کے پردہ کی طرف اشارہ نہیں کر رہیں؟ طالبہ: مجھے آپ کی باتوں سے صدمہ پہنچ رہا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر : ٹھہرو، مجھے ان تین تشبیہات کی عربی گرائمر سے وضاحت کرنے دو۔
عربی گرایمر میں “الخمار” اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے، تاہم یہ اتنا بڑا ہو جو سینے کو ڈھانپتا ہوا گھٹنوں تک جاتا ہو۔
اور “الجلباب” ایسی کھلی قمیص کو کہتے ہیں جس پر سر ڈھاپنے والا حصہ مُڑھا ہوا اور اس کے بازو بھی بنے ہوئے ہوں۔
فی زمانہ اس کی بہترین مثال مراکشی عورتوں کی قمیض ہے جس پر ھُڈ بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔تاہم “حجاب” کا مطلب تو وییسے ہی پردہ ہی بنتا ہے۔۔۔
طالبہ: جی میں سمجھ رہی ہوں کہ مجھے پردہ کرنا ہی پڑے گا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک : ہاں، اگر تیرے دل میں اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے
تو۔اور ایک اور بات جان لے کہ:
لباس دو قسم کے ہوتے ہیں:
پہلا جو جسم کو ڈھانپتا ہے۔
یہ والا تو فرض ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہے۔
دوسرا وہ جو روح اور دل کو کو بھی ڈھانپتا ہے۔ یہ دوسرے والا لباس پہلے سے زیادہ بہتر ہے،
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ :
ً(اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے – ولباس التقوى ذلك خير)۔
ھو سکتا ھے کہ ایک عورت نے ایسا لباس تو پہن رکھا ہو جس سے اس کا جسم ڈھکا ہوا ہو لیکن اس نے تقویٰ کا لباس نا اوڑھ رکھا ہو۔۔۔۔۔۔
تو ٹھیک طریقہ یہی ہے کہ وہ دونوں لباس زیب تن کرے۔۔۔۔۔
اسکو شئیر کریں تا کہ پھیلے
جزاك الله