Quetta news

Quetta news تاریخی الفاظ

 #مکان بنانے والے مستری مزدور اٙن پڑھکار ، بائک ٹھیک کرواتے ہیں اٙن پڑھگھر میں بجلی کی وائرنگ کروانی ہو یا ایک سوئچ لگوا...
27/09/2021

#مکان بنانے والے مستری مزدور اٙن پڑھ

کار ، بائک ٹھیک کرواتے ہیں اٙن پڑھ

گھر میں بجلی کی وائرنگ کروانی ہو یا ایک سوئچ لگوانا ہو تو اٙن پڑھ سے

مکان رنگ روغن کروانا ہو تو اٙن پڑھ

گھر کی ٹی وی ، واشنگ مشین ، استری وغیرہ ٹھیک کروانی ہو تو اٙن پڑھ

شیو ، بال کٹوانے کے لیے اٙن پڑھ

شادی بیاہ پے کھانے پکوانے ہوں تو اٙن پڑھ

کار ، کوچ ، ٹرک ، وغیرہ کا ڈرائیور اٙن پڑھ

گھر میں ہر کام کرنے والے ملازم اٙن پڑھ

فیکٹری ملز میں ورکر (مزدور) ان پڑھ

گوشت ، سبزی ، کپڑے ، جوتے وغیرہ لینے جاتے ہیں دوکاندار اٙن پڑھ

منڈی سے گائے ، بھینس ، بکرا وغیرہ لینے جاتے ہیں اُن کو پالنے و بیچنے والے اٙن پڑھ

ہوٹل سے چائے پینے جاتے ہیں اٙن پڑھ

لکھی ہوئی لِسٹ میں اکثریت انہی کی تعداد ہے جنہوں نے سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہوا۔

اس ملک و نظام کا بیڑہ غرق اٙن پڑھ نے نہیں تعلیم یافتہ نے کیا،بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں ترقی کے لیے تعلیم بڑی ضروری ہے آج گھر گھر محلے محلے سکول و کالج کھلے ہیں مگر آج معاشرے و نظام کی حالت چالیس سال پہلے سے بدتر سے بدتر ہے کیوں؟

آج کرپشن کون کر رہا ہے آخر ہمارا نظام تعلیم پڑھے لکھے اور اٙن پڑھ میں فرق پیدا کیوں نئی کر سکا؟

اٙن پڑھ جن کا ذکر پہلے کر چکا ہوں آپ کو ذلیل نہیں کرے گا مگر آپ جب کسی بنک ، دفتر ، تھانہ ، کچہری جائیں وہاں ڈگری ہولڈر لوگ ہوتے ہیں جو اپنا فرض تو نبھا نہیں سکتا الٹا لوگوں کو ذلیل کرتے رہتے ہیں فیصلہ آپ خود کریں ۔ کہ ان پڑھ اور تعلیم یافتہ میں کیا فرق ہوا.... ؟؟؟

23/02/2021
22/02/2021

سیٹی بجے گی ۔۔🎺 لاہور قلندر پھسے گی ۔۔😷
ڈڈو پکے گا۔۔۔۔ 🐸
لاہور کھاۓ گا۔۔۔۔ 😅
شعلہ چلے گا ۔۔۔🔥
ملتان جلے گا۔۔۔👹
دنیا روۓ گی ۔۔😭
کراچی سوۓ گی۔۔۔🙇
گیم دوڑے گی ۔۔۔۔🏃
اسلام آباد چھوڑے گی۔۔۔😖
دنیا سیکھے گی۔۔👍
کوٸٹہ جیتے گی۔۔💪
# # # #کیونکہ # # # #
جیت ہے ہار ہے_👑___زلمی بیمار ہے .😮
ہاتھ میں شلوار ہے 👖__کوئٹہ تیار ہے ✌
کھیل بے لگام ہے➰ ___لاہور کو زُکام ہے۔😅
کرتے تو کچھ نہیں😔__ملتان تو بدنام ہے😝
کھلاڑیوں کی شان ہے🏏_ کراچی تو بے ایمان ہے۔
دنیا کو جوش ہے😤__اسلام آباد بیہوش ہے😂
# # کوٸٹہ تیار ہو تیار ہیں ایک بار پھر میلا لوٹنے کے لئے
#👉Quetta jeetiga insha'Allah

اے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ  کفر آج بھی تیرے نام سے لرزتا  ھے۔شیطان اج بھی عمر بن خطاب کا نام سن کر راستہ تبدیل کرتا ھے...
20/08/2020

اے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کفر آج بھی تیرے نام سے لرزتا ھے۔
شیطان اج بھی عمر بن خطاب کا نام سن کر راستہ تبدیل کرتا ھے۔
عمر بن خطاب اللہ تعالی آپکی مرقد اطہر پہ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ۔

20/08/2020

40 سال کی عمر میں زیادہ پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو کم تعلیم یافتہ افراد، کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔
50 سال کی عمر میں بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔
60 سال کی عمر میں بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر پھرے بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔
70 سال کی عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کی درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چاہئیے۔
80 سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں، تو کونسا سکھ خریدلو گے؟
90 سال کی عمر میں سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے؟

لہذا آج سے ہی اپنی زندگی کے ایک ایک پل کو اللہ کی رضا میں صرف کرو اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہو۔

( فَبِأَيّ اٰلَآءِ رَبِِّّكُمَا تُكَذِِّبَان )

20/08/2020

ﻋﺮﺍﻕ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﻠﮏ ﻓﯿﺼﻞ ‏( ﺍﻭﻝ ‏) ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ” ﮨﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺩﺟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺩﻓﻦ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﺩﻓﻦ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ “
ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮧ ﺩﯼ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﭘﮭﺮ ﯾﮩﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﺋﯿﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮧ ﺩﯼ۔
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ” ﻧﻮﺭﯼ ﺍﻟﺴﻌﯿﺪ ﭘﺎﺷﺎ ‘ ‘ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ : ” ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ “
ﺍﺏ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺁﺧﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺩﯾﮟ ﺗﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ۔
ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ جسم مبارک ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﯽ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻋﯿﺪﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔
ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﺧﺒﺮ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺍﮌﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺣﺞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﺣﺞ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﺠﺎﺯ ‘ ﻣﺼﺮ ‘ ﺷﺎﻡ ‘ ﻟﺒﻨﺎﻥ ‘ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ‘ ﺗﺮﮐﯽ ‘ ﺍﯾﺮﺍﻥ ‘ ﺑﻠﻐﺎﺭﯾﮧ ‘ ﺭﻭﺱ ‘ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﮦ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﯾﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺣﺞ ﮐﮯ ﺩﺱ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﻭﮦ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻟﻨﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﮔﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺩﺟﻠﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﻓﺮﻻﻧﮓ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ۔
ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺳﻔﯿﺮﻭﮞ ‘ ﻋﺮﺍﻗﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺬﯾﻔﮧ ﺑﻦ ﯾﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ کے جسم ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﻮ ﮐﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ کے جسم مبارک ﮐﺮﯾﻦ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﭘﺮ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﺁﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﮐﺮﯾﻦ ﺳﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﮐﺮﮐﮯ ﺷﺎﮦ ﻓﯿﺼﻞ ‘ ﻣﻔﺘﯽ ﺍﻋﻈﻢ ‘ ﻭﺯﯾﺮ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﮧ ﺗﺮﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﻭﻟﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﺼﺮ ﻧﮯ ﺳﭩﺮﯾﭽﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺗﺎﺑﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ کے جسم مبارک کو نکالا گیا، ﺩﻭﻧﻮﮞ کے جسم مبارک کے ﮐﻔﻦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺗﮭﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮈﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻼﻣﺖ ﺗﮭﮯ۔ اجسام مبارک ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﻄﻌﺎً ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﻮﮞ ﮔﻤﺎﮞ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﯿﺰ ﭼﻤﮏ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ۔ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔
ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻔﻦ ﻣﯿﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ !!..
ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﯾﮟ !!..

بیروت دھماکے: حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے کی دھمکی دے دیتفصیلات جانئے:  https://urdu.geo.tv/latest/228784-
15/08/2020

بیروت دھماکے: حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے کی دھمکی دے دی

تفصیلات جانئے: https://urdu.geo.tv/latest/228784-

ترکی ابوظبی میں اپناسفارت خانہ بند کرنے پر اور متحدہ عرب امارت  کے ساتھ سفارتی تعلقات منسوخ کرنے پر غور کررہا ہے رجب طیب...
14/08/2020

ترکی ابوظبی میں اپناسفارت خانہ بند کرنے پر اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ سفارتی تعلقات منسوخ کرنے پر غور کررہا ہے رجب طیب اردگان
استنبول اسراٸیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے جو کہ اس وقت بین لا اقومی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے،، اس معاملے پر ترکی کی جانب سے نہایت سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اور معاہدےکی سخت الفاظ میں مزمت کی گٸی ہے جبکہ ایران بھی اس پر تحفظات کا اظہار کر رہاہے ترک صدر اجب طیب اردگان نے صحافیوں کے ساتھ واضح الفاظ میں اعلان کرتے ہوٸے کہا کہ اسراٸیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے معاہدے باعث ترکی ابوظبی میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات منسوخ کرنے غور کر رہا ہے
رجب طیب اردگان سلامت رہو ❤❤❤❤

عرب امارات یو اے ای دبئی کی طرف سے ناجائز یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے پر نماز جمعہ کے بعد فلسطینیوں نے مسجد اقصٰی ...
14/08/2020

عرب امارات یو اے ای دبئی کی طرف سے ناجائز یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے پر نماز جمعہ کے بعد فلسطینیوں نے مسجد اقصٰی اور ہیبرون میں احتجاجی مظاہرے کیے جس میں متحدہ عرب امارات کے پرچم کو نظر آتش کردیا ، اور فلسطینیوں کا یو اے ای سے شدید غموں غصے کا اظہار

‏"بھیڑیا" واحد ایسا جانور ہے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا جبکہ شیر سمیت ہر جانو...
14/08/2020

‏"بھیڑیا" واحد ایسا جانور ہے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا جبکہ شیر سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔
بھیڑیا کبھی ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ کھاتا اور یہی جنگل ‏کے بادشاہ کا طریقہ ہے اور نہ ہی بھیڑیا محرم مؤنث پر جھانکتا ہے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف بھیڑیا اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں۔
بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اس کے علاؤہ ‏کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح مؤنث بھیڑیا کے ساتھ وفاداری کرتی ہے۔
بھیڑیا اپنی اولاد کو پہنچانتا ہے کیونکہ ان کے ماں و باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔
جوڑے میں سے اگر کوئی ایک مرجائے تو دوسرا مرنے والی جگہ ‏پر کم از کم تین ماہ کھڑا بطور ماتم افسوس کرتا ہے۔
بھیڑئیے کو عربی زبان میں "ابن البار" کہا جاتا ہے، یعنی"نیک بیٹا" کیونکہ جب اس کے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لئے شکار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال رکھتا ہے۔
‏اس لئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑئیے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ
"شیر جیسا خونخوار بننے سے بہتر ہے بھیڑیے جیسا نسلی ہونا"

13/08/2020

Reality....!!
جب لوگ آپ کا مقابلہ نہ کر پائیں
تو پھر وہ آپ پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔

13/08/2020

پہلا مضمون
بات نائن الیون سے شروع کرتے ہیں. کیونکہ اس واقعے نے دنیا کی سوچوں کا رخ مکمل طور پر موڑ دیا تھا. میں اسے امریکہ کی سب سے بڑی حماقت سمجھتا ھوں. اب تو بہت کچھ سامنے آ چکا ہے. یہاں تک سرعام کہا جا رہا ہے کہ طیاروں کے ٹکرانے سے بہت دیر پہلے مسافروں کو جہاز کے تمام عملے سمیت ایک زہریلی گیس کے ذریعے جان سے مار دیا گیا تھا اور طیاروں کو آٹو پر کرکے نیچے سے کنٹرول کیا جا رہا تھا.. مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ کنٹرول کرنے والے لوگ اس قدر طاقتور تھے کہ ان کے سامنے امریکہ کے تمام ادارے بھی بے بس تھے.. میڈیا پر بھی انہی کی مکمل گرفت تھی چنانچہ جیسے ہی واقعہ کی لائیو کوریج شروع ہوئی اسکرین کے ایک کونے میں اسامہ بن لادن کی چھوٹی سی تصویر دکھائی جانے لگی. یعنی ایک طرف ٹی وی اسکرین خوف و دھشت کو پھیلا رہی تھی اور ساتھ ہی ایک کونے میں نفرت کی چنگاری سلگا کر اس خوف کو آگ کے الاؤ میں تبدیل کر رہی تھی. ابھی واقعے کو پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے تحقیقات کے مراحل ابھی کئی مہینوں کے فاصلے پر تھے لیکن فیصلہ سنا دیا گیا تھا کہ تم سب کا دشمن اب دین اسلام تھا. یہ ایک نئی جنگ کا آغاز تھا جسے بعد میں بش نے صلیبی جنگ کا نام دیا تھا. پچھلی صدی کا سب سے بڑا دشمن کمیونسٹ روس تھا جو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن چکا تھا. اس سے نچلے درجے پر امریکہ تھا..روس کی شکست کے بعد امریکہ اب واحد عالمی چیمپئن تھا. شاید کسی کو یاد ھوگا کہ روس کی شکست کے بعد امریکہ میں ایک زبردست جشن منایا گیا تھا جس میں ایک جنرل نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ھمارا اگلا دشمن اسلام ھے... روس کی تباہی کے بعد اب دنیا میں تین بڑے ایٹمی ممالک باقی رہ گئے تھے جن کے مقابلے میں یورپ اور امریکہ کھڑا تھا. بھارت، چین اور پاکستان.. بھارت ایٹمی طاقت تھا لیکن اس کی ایٹمی طاقت اور سارا اسلحہ صرف پاکستان کے لیے تھا اس کی اول و آخر دشمنی صرف پاکستان کے ساتھ تھی.. یعنی اس سے مغرب کو کوئی خطرہ نہیں تھا. ویسے بھی یہ ناچنے گانے والے لوگ تھے اپنی حسیناؤں کے جلوے دکھا کر پیسہ کمانے والے (فلمی صنعت) اور پھر ان حسیناؤں کے ذریعے عرب حکمرانوں کے دل فتح کرنے والے یہ لوگ کسی کے لیے خطرہ نہیں تھے ان کی ھزاروں سال پرانی تاریخ سے ثابت ھوتا ھے کہ ان کو بیرونی حملہ آوروں نے ہی ھمیشہ فتح کیا اور یہ آرام سے سبھی کو حکمران کے طور پر تسلیم کر لیا کرتے تھے چند صدیاں پہلے ھزار سال تک مسلمانوں کی حکمرانی اس بات کا ثبوت ہے..

اس لیے ان کے ایٹم بم سے یورپ اور امریکہ کو کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ھو سکتا
ھے ان کی آج تک کی سب جنگیں پاکستان کے ساتھ تھیں جن میں ھر بار چھوٹے سے ملک پاکستان نے انڈیا کی کتوں جیسی کی ھے. دوسرے نمبر پر چین تھا. جب روس تباہ ھوا تھا تب چین کو وجود میں آئے چالیس سال گزر چکے تھے یہاں بھی کمیونسٹ نظام تھا لیکن چینی قوم ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ھو رہی تھی دوسری بات یہ تھی کہ چینی جنگ و جدل سے دور رھنے والی قوم تھی ماھرین کا کہنا تھا اول تو اتنی بڑی غریب آبادی والا ملک اگلے کئی سو سال تک بمشکل اپنی روٹی روزی پوری کر سکے گا دوسرا یہ لوگ اور تو ھر چیز بنا سکتے ہیں لیکن عسکری لحاظ سے امریکہ یا باقی دنیا کے مقابلے میں نہیں آ سکیں گے ان کے لیے لیے اکیلا انڈیا ہی کافی تھا تیسری یہ بات کہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن کبھی امریکہ کو نہیں للکار سکتے. چین نے ماھرین کے یہ تینوں اندازے غلط ثابت کر دیے ہیں.. تیسری طاقت پاکستان تھا.. یہ شروع سے ہی ایک عجیب و غریب ملک تھا . یہ اتنا چھوٹا تھا کہ بھارت میں اس جیسے کئی ممالک سما سکتے ہیں. معیشت کا یہ حال تھا کہ قرضوں پر چل رہی تھی. امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی لیکن اسی چھوٹے سے ملک نے روس جیسے دیو کو جس سے امریکہ بھی ڈرتا تھا دھول چٹا دی تھی اور ھمیشہ کے لیے روس کا نقشہ ھزاروں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا.. تھوڑا عرصہ پہلے آزاد ھونے والے اس ملک نے بھیک مانگ کر اور امریکہ جیسے شاطر ملک اور عالمی طاقت کو بلیک میل کر کے ان کی ناک کے نیچے ایٹم بم بھی بنا لیا تھا. اور امریکہ کچھ بھی نہیں کر سکا تھا..

بن گوریان، اسرائیلی وزیر اعظم نے ساٹھ سال پہلے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ھمارا اصل خطرہ عرب نہیں. بلکہ نیا آزاد ھونے والا ملک پاکستان دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ھوگا. اس وقت تو کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ اس کی کہی ہوئی بات سو فیصد درست تھی..

کمیونزم کے بعد اسلام کو سب سے بڑا خطرہ سمجھ لیا گیا. لیکن مصیبت یہ تھی کہ کمیونزم انسانوں کا تخلیق کیا ھوا ایک نظام تھا جبکہ اسلام آسمانی دین تھا. اس کی سچائی ہی اس کی طاقت تھی. اس طاقت سے نمٹنے کے لیے دو طریقے تھے. ایک یہ کہ مسلمانوں کو فرقہ پرستی کے ذریعے آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کے ھاتھوں مروا دیا جائے یا پھر پوری دنیا کو اسلام کا دشمن بنا کر اسلام کے مقابلے میں لا کر کھڑا کرنا ضروری تھا.. پہلا طریقہ ایران عراق کی جنگ میں آزمایا گیا یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا یہ درست ہے کہ اس جنگ کے دوران دونوں ممالک کے لاکھوں مسلمان قتل ہوئے تھے لیکن واضح طور پر اسے پوری دنیا کے مسلمانوں میں امریکہ کی سازش کے طور پر دیکھا گیا تھا. مرگ بر امریکہ اور بزرگ شیطان امریکہ کے نعرے اسی دور کی پیداوار ہیں.. اب دوسرا طریقہ یہ کہ پوری دنیا کو مسلمانوں کے خلاف کیسے متحد کیا جائے.. ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو روس کے خلاف جنگ کو جہاد قرار دیا گیا تھا اور جنگ لڑنے والے مسلمانوں کو مجاہد قرار دے کر انہیں پوری دنیا میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا تھا اب اتنی جلدی مسلمانوں کو ویلن کیسے بنایا جاتا. ایک ولن تھا.. صدام... روس کے فورا بعد صدام کو انگلی دے کر پہلے کویت پر چڑھائی کروائی گئی اور پھر عراق پر امریکہ نے ڈائریکٹ حملہ کر دیا. اسلامی ممالک دو حصوں میں تقسیم ہو گئے.. کچھ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے اور کچھ امریکہ کے خلاف جلوس نکال رھے تھے یہ تجربہ بھی کامیاب رہا تھا جس سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو قتل کیا جائے تو آدھے خوش ھوتے ہیں اور آدھے گالیاں دیتے ہیں.

وقت کم تھا.. جو کچھ بھی کرنا تھا وہ جلد از جلد ھونا ضروری تھا کیونکہ چند سال بعد نئی صدی شروع ھونے والی تھی... اس نئی صدی میں کیا ھونے والا تھا؟

نئی صدی میں دو شخصیات کی آمد کی توقع تھی. پوری دنیا کے عیسائیوں کا اس بات پر ایمان ھے کہ نئی صدی کے اوائل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دوبارہ واپسی ھوگی. آپ کی آمد کے بعد ایک بہت بڑی عالمی جنگ شروع ھوگی آسمان سے بلائیں وبائیں اور مصیبتیں نازل ھونگی. ایسے میں حضرت عیسٰی علیہ السلام تمام عیسائیوں کو ساتھ لیکر آسمان پر چلے جائیں گے اور وہاں سے نیچے زمین پر عیسائی ان جنگوں اور مصیبتوں کو اسی طرح دیکھیں گے جیسے سینما ھال میں بیٹھ کر فلم دیکھی جاتی ہے.. دنیا آپس میں لڑ رہی ھوگی مر رہی ھوگی بیماریوں مصیبتوں کا شکار ھو رہی ھوگی اور عیسائی یہ سب آسمان پر بیٹھ کر دیکھیں گے.. جب سارے لوگ مر جائیں گے تو یہ لوگ پھر واپس زمین پر اتر آئیں گے ان سب میں امریکی یورپی عیسائی ٹرمپ وغیرہ شامل ہیں..ویسے اس وقت اس کے الٹ چل رہا ہے سبھی عیسائی ممالک کے خود عیسائی ہی دھڑا دھڑ کرونا پر سوار ھو کر لاکھوں کی تعداد میں آسمان پر جا رہے ہیں اور ھم غریب غربا مسلمان ان کو دیکھ رہے ہیں..

دوسری شخصیت کا انتظار یہودی کر رہے ہیں. وہ شخصیت ان کا مسیحا (جسے ھم دجال کہتے ہیں) ہے.. ان کے نزدیک ان کے مسیحا حضرت داؤد علیہ السلام ہیں.. وہ حضرت داؤد علیہ السلام کی دوبارہ واپسی پر ایمان رکھتے ہیں. ان کا کہنا ھے کہ حضرت داؤد علیہ السلام پہلے کی طرح دنیا میں واپس آ کر پہلے کی طرح پوری دنیا میں اپنی حکومت قائم کریں گے اور باقی سب اقوام کو قتل کر دیا جائے گا..

عیسائی اور یہودی ایک بات پر متفق ہیں کہ ان دونوں کے مسیحا کی آمد اس وقت ھوگی جب ھیکل تعمیر کر دیا جائے گا.. کرونا کی بیماری کو اس بات کا عذاب سمجھا جا رہا ہے کہ کیونکہ ھیکل کی تعمیر میں دیر ھو رہی ہے اس لیے اللہ ناراض ہو چکا ھے.. یہ دونوں مذاھب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نشانیوں کے مطابق اپنی ٹائم لائن ترتیب دیتے ہیں.. جبکہ میں بھی اسی ٹائم لائن کو فالو کرتا ہوں جو میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ آٹھ ارب انسانوں میں سے ایک صرف مجھے یقین تھا کہ اس سال حج میں کسی بھی بہانے سے رکاوٹ بنا دی جائے گی..

ھم واپس 90 کی دہائی میں چلتے ہیں جب روس ٹوٹ چکا تھا اور اب دنیا کو ایک نیا دشمن اسلام کی شکل میں دیا جانا تھا لیکن اس نئے دشمن کے خلاف پوری دنیا کو کیسے متحد کیا جا سکتا تھا؟ یہ اھم سوال تھا...

ھالی ووڈ کی فلموں جیسا ایک ایسا حقیقی منظر تخلیق کرنے کی ضرورت تھی جو ایک لمحے میں پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا اور پھر اس اس توجہ کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی طرف موڑ دیا جاتا. عجیب بات یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے امریکی عوام کی اکثریت نہ تو اسلام کو جانتی تھی نہ مسلمانوں کو اور نہ ہی پاکستان کو.. اس کی وجہ امریکہ کی ایک خاص طرز معاشرت ھے وہاں کا طرز زندگی کچھ ایسا ہی ہے کہ لوگ اپنی خواھشات اور ضروریات سے آگے کچھ بھی نہیں سوچتے اور نہ ہی کچھ جانتے ہیں یہاں تک وہ پاکستانی جو امریکہ میں کچھ عرصہ قیام کر لیتے ہیں ان کو اپنا پچھلا سب کچھ بھول جاتا ہے یہی کم و بیش یورپ کی صورتحال ھے ان ممالک کے عوام کی اکثریت تو اپنے مذھب سے بھی کچھ خاص واقفیت نہیں رکھتی. ایسے حالات میں تمام سوئے ہوئے امریکیوں اور یورپین عوام کو اسلام اور مسلمانوں سے ڈرانا بہت ہی عجیب تھا. پھر ھالی ووڈ کا سین سوچ لیا گیا.. نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ منظر نائن الیون کی صورت میں سامنے تھا.. دنیا میں دو ہی اسلامی ممالک خطرہ تھے. پاکستان اور ابھرتا ھوا اسلامی افعانستان.. طالبان خالص اسلامی ریاست قائم کر چکے تھے جس کے خدوخال خلافت راشدہ سے ملتے جلتے تھے.. علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے لبرل سیکولر بیٹے جسٹس جاوید اقبال نے افغانستان کے دورے کے بعد بے اختیار یہ کہہ دیا تھا کہ اسلام اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں موجود ہے تو وہ افغانستان ھے.. ترکی اس وقت اسلامی سوچ میں نہیں ڈھلا تھا بلکہ یورپ میں شامل ھونے کے لیے ھاتھ پاؤں مار رہا تھا.. ایران صرف ایک مسلک کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا اسے کسی بھی وقت مسلکی جنگ میں الجھا کر دوسرے مسلمان ملک کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا. عرب عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے ان کے حرم یہودی عورتوں نے آباد کر رکھے تھے وہ ان کے کنٹرول میں تھے. افریقی ممالک غربت سے تباہ حال تھے.. پوری دنیا میں صرف دو ممالک یہی بچتے تھے جنہوں نے جہاد کی طاقت سے روس کو دفن کر دیا تھا... پھر ایک طویل جنگ شروع ہوئی.. اس میں انہی دونوں مجاہد ملکوں کو آپس میں لڑوانے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں ممالک ہی اس چالاکی کو سمجھ رھے تھے انہوں نے بڑی صفائی سے ایک دوسرے کو بچا لیا اور پھر نیٹو بدمعاشوں کی ٹھکائی شروع کر دی.. اس موقعے پر انڈیا جیسے بزدل اور مراثی قسم کے ملک کو بھی افغانستان میں کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا تاکہ جب امریکہ افغانستان پر فتح حاصل کر لے گا اس کے بعد اس کا کنٹرول انڈیا کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ پاکستان اب ان کے لیے قابل اعتبار نہیں رہی تھا..

یہ سب خواب تھے..... اور خواب ہی رہ گئے... افغان مجاہدوں نے نیٹو والوں کو نانی یاد دلا دی تھی .. تابوت کم پڑنے لگے تو امریکہ کے لیے اپنی جھوٹی چودھراہٹ قائم رکھنا مشکل ہو گیا.. افعانستان سے عزت کے ساتھ نکلنے کے بہانے تلاش کیے جانے لگے . امریکہ کی قسمت کچھ ایسی بری ھے کہ دنیا کی واحد سپر پاور ھونے کے باوجود ھمیشہ چھوٹے چھوٹے ممالک سے بری طرح چھتر کھا کر نکلنے پر مجبور ھوا پہلی بار افغانوں کے ھاتھ سے اپنے ساتھ نیٹو کو بھی جوتے مروا دیے تھے .. اسی دوران خطے میں خاموشی سے ایک اور کام ھو رہا تھا جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی.. چین.... جس کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں تھی.. دنیا اسلام کو مٹانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھی اور اس دوران چین اندر ہی اندر معاشی سپر پاور اور عسکری سپر پاور بن چکا تھا.. کمیونزم سے نفرت پیدا کرکے دنیا کو روس کے خلاف کیا گیا تھا. نائن الیون کرکے اسلام کو دنیا کی نفرت کا مرکز بنایا گیا تھا اب چین کے خلاف دنیا میں کیسے نفرت پیدا کی جائے جبکہ دنیا کے کسی بھی انسان کا گھر ایسا نہیں جہاں چین کی بنی ہوئی کوئی چیز استعمال نہ کی جاتی ھو اس ملک کے خلاف نفرت پیدا کرنا ناممکن تھا.

چین نے جنگوں میں حصہ لینے کی بجائے ھمیشہ اپنی معاشی ترقی پر توجہ دی ہے.. چنانچہ چین نے اپنے مال کی سپلائی کو پوری دنیا تک آسان اور تیز-رفتار بنانے کے لیے اقتصادی راھداری منصوبہ شروع کیا.. یہ منصوبہ پاکستان کے مستقبل کے لئے غیبی امداد جیسا ھے.. ادھر امریکہ کے تھنک ٹینک امریکی حکومتوں کو 2008 سے ہی بتاتے آ رہے ہیں کہ امریکہ کو اپنی معیشت کو بچانے کے لیے ایک بڑی جنگ کی ضرورت ھے.. افغانستان جیسی گھاٹے والے جنگ نہیں بلکہ دو پلی ھوئی مضبوط معیشت والی موٹی تازی گائے کے درمیان ایک جنگ کی ضرورت تھی جس سے اسلحہ کی فروخت کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے فوائد حاصل کیے جاتے. ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ علاقے میں ایک عدد چوھدری کی ضرورت تھی. فیصلہ کیا گیا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار میراثیوں کے منڈے (بھارت) کو چوھدری بنا دیا جائے.. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پورا پنڈ مر جائے تو بھی میراثی کا پتر چوھدری نہیں بن سکتا.. یہ تجربہ کرنا ضروری تھا. یعنی پورے پنڈ کو مارنا ضروری تھا جس میں چین بھی شامل ھے تاکہ میراثی کا بچہ چوھدری بنایا جا سکے. میراثیوں کے منڈے کی شرط بھی یہی ہے کہ اگر مجھے خطے کا چوھدری بنانا ہے تو پہلے سارے پنڈ کو ختم کرو.. اس جنگ کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت کو وقت سے پہلے ہی جنگ میں جھونک کر کمزور کر دیا جائے. اس کے روس بننے سے پہلے اس کا بندوبست کیا جانا ضروری ہے..

میں آپ کو موجودہ زمانے تک وہاں لے آیا ھوں جہاں ابھی چین کا انڈیا کے ساتھ پھڈا شروع نہیں ھوا دوسرے حصے میں ھم انڈیا چین اور خطے کی موجودہ صورتحال پر بات کریں گے تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ ھم اس وقت کہاں موجود ہیں... تیسرے حصے میں ھم مشرق وسطیٰ سے ھوتے ہوئے اسرائیل اور وہاں مسیحا کی تیاریوں اور پھر اس کی آمد کے وقت کی طرف چلیں گے.. ان شا اللہ تعالیٰ.
🇵🇰

* ﺍﺑﻮ ﮬﺮﯾﺮۃ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ *"* ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﺎﭨﮫ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ** ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ *"* ﭘ...
13/08/2020

* ﺍﺑﻮ ﮬﺮﯾﺮۃ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ *
"* ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﺎﭨﮫ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ *
* ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ *"
* ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ : ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ؟؟ *
* ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﮐﻮﻉ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺗﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺳﺠﻮﺩ *
* ﻧﺎ ﻗﯿﺎﻡ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺧﺸﻮﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ *
* ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
* ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ *
* ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺭﮐﻌﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ *
* ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﺎ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ؟ *
* ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
* ﺍﺳﻨﮯ ﻧﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﮐﻮﻉ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺳﺠﻮﺩ *
* ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ *
* ﺍﯾﮏ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ *"
* ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ *
* ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﯾﮩﯽ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ *"
* ﺍﻣﺎﻡ ﺍﮔﺮ ﺁﺝ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺁﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺘﮯ ؟؟ *
* ﺍﻣﺎﻡ ﻏﺰﺍﻟﯽ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ *:
* ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﺠﺪﮦ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺗﻘﺮﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ *
* ﺍﺱ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺳﺠﺪﮮ ﮐﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺑﻠﺪ ﮬﻼﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ *
* ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ؟؟
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ *:
* ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﮭﮑﺎﺗﺎ ﮨﮯ *
* ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ،ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ، ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮩﻮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ *
* ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺳﺠﺪﮦ ﮨﮯ ؟؟؟ *
* ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ *
* ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﻥ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ *
* ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﻮ ﺁﭘﮑﮯ * * ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺑﻨﯽ ﮨﻮ ؟؟؟ *
* ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﭘﻠﭩﮯ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ؟؟ *
* ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﯿﺎ ؟؟ *
* ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺮﺳﮯ ؟؟ *
* ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﯿﺎ *
* ﺗﺎﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ؟؟ *
* ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ
))* ﺃﻟﻢ ﻳﺄﻥ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﺃﻥ ﺗﺨﺸﻊ ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ ﻟﺬﻛﺮ ﺍﻟﻠﻪ *((
* ﮐﯿﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺮﻡ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ؟؟؟؟ *
* ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ *
* ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺳﻼﻡ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ *
* ﺍﺱ ﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ *
* ﮨﻢ ﺳﺐ ﺑﮩﺖ ﺭﻭﯾﮯ *
* ﺍﭘﻨﮯ ﻗﻠۃ ﺧﺸﻮﻉ ﭘﺮ *
* ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻋﺘﺎﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺎ ؟؟؟ *
))* ﺃﻟﻢ ﻳﺄﻥ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﺃﻥ ﺗﺨﺸﻊ ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ ﻟﺬﻛﺮ ﺍﻟﻠﻪ *(( * ﮐﯿﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﻮﻣﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ * * ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺮﻡ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ؟؟؟؟ *
* ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﮔﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ *
* ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﺘﺎﺏ ﭘﺮ *
* ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ؟؟*
* ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ؟؟ *
* ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﯿﮟ *
* ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﺴﻤﻮﺍﺕ ﺍﻟﺴﺒﻊ ﻭﺭﺏ ﺍﻟﻌﺮﺵ ﺍﻟﻌﻈﻴﻢ

13/08/2020

خداکی قسم مسجد اقصی کو ان ظالموں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دوں گا
غیرت مند لیڈر کا ریاست مدینہ کی طرز کا جرآتمندانہ بیان
ترق صدر رجب طیب اردگان اللہ ہمیشہ سلامت رکہیں
امین

12/08/2020

🤔

شام کے شہر دمشق میں ایک نوجوان لڑکی روزانہ اکیلی یونیورسٹی جاتی تھی۔ اسی یونیورسٹی میں اسکا والد ایک ڈپارٹمنٹ کا انچارج تھا- ایک دن چھٹی کے فورا بعد اچانک بادل گرجنے لگے اور زوردار بارش ہونے لگی، ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا،
سردی کی شدت بڑھنے لگی، آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے،
یہ لڑکی بھی یونیورسٹی سے نکلی اور جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی، اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھا-
لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ اسے پناہ کہاں ملے گی، جب بارش تیز ہوئی تو اس نے ایک دروازہ بجایا، گھر میں موجود لڑکا باہر نکلا اور اسے اندر لے آیا اور بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی، دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے۔ اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے، ایک کمرہ برامدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا- نوجوان نے اسے کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اسکے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہو جائے گا تو وہ ہیٹر نکال لے گا،
تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی، کمرہ گرم ہونے پر اسے نیند آ گئی۔ نوجوان ہیٹر لینے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بستر پر سوئی ہوئی لڑکی جنت کی حوروں کی ملکہ لگی- وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیا
لیکن شیطان جو کہ اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھا اسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوبصورت بنا کر دکھانے لگا۔ تھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی، جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کی طرف دوڑنے لگی اس نے برامدے میں اسی نوجوان کو بیہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کی عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا تھا۔ اس نے باپ کو تمام واقعات من و عن سنا دیے اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میں میری آنکھ لگی کیا ہوا میرے ساتھ کیا کیا گیا، کچھ نہیں پتا، اسکا باپ انتہائی غصے کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلبہ کے بارے میں پوچھا تو پتا لگا کہ ایک لڑکا شہر سے باہر گیا ہے اور ایک بیمار ہے، ہسپتال میں داخل ہے، باپ ہسپتال پہنچ گیا تاکہ اس نوجوان کو تلاش کرے اور اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے، ہسپتال میں اسکی تلاش کے بعد جب اسکے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اسکی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھی اس نے ڈاکٹر سے اس مریض کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اسکے دونوں ہاتھ جلے ہوئے تھے باپ نے نوجوان سے کہا کہ تمہیں اللہ کی قسم ہے! مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا ہے باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا، وہ بولا ایک لڑکی کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لیے آئی، میں نےf اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دی لیکن شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلانے لگا تو میں اسکے کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا، وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی، میں فورا باہر نکل آیا لیکن شیطان مجھے مسلسل اسکے بارے میں پھسلاتا رہا اور غلط خیالات میرے ذہن میں آتے رہے تو جب بھی شیطان مجھے برائی پر اکساتا میں اپنی انگلی آگ میں جلاتا تاکہ جھنم کی آگ اور اسکے عذاب کو یاد کروں اور اپنے نفس کو برائی سے باز رکھ سکوں یہاں تک کہ میری ساری انگلیاں جل گئی اور میں بے ہوش گیا، مجھے نہیں پتا کہ میں ہسپتال کیسے پہنچا .... یہ باتیں سن کر باپ بہت حیران ہوا۔ بلند آواز سے چلایا
اے لوگوں! گواہ رہو میں نے اس پاک سیرت لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا ہے۔ سبحان اللہ یہ ہے اللہ سے ڈرنے والوں کا ذکر، اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس لڑکی کی عزت محفوظ نہ رہ سکتی۔
● جو بھی لڑکا یا لڑکی ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں یا غیر شرعی دوستیاں یا محبتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے اس برے فعل کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان کے ان کاموں سے بے خبر رہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ ان کے ہر فعل سے با خبر ہے۔ پھر بھی انکے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا ایسا کیوں ہے۔؟
کیونکہ والدین نے بچپن سے ان کے دل و دماغ میں اللہ کےخوف کے بجائےاپنا ذاتی خوف،رعب و دبدبہ سزا کا ڈر ہی بٹھایا ہے۔
اسی لیے آج وہ اللہ سے بےپرواہ ہوکر والدین سے چھپ کر گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور ایسے بھی والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت خوف خدا پر کی تو انکی اولاد نے بھی ہمیشہ برائیوں سے اپنے آپ کو باز رکھا۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴

12/08/2020

مودی سرکار فوری پابندیاں اٹھائے امریکی صدارتی امیدوارجوبائیڈن کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسیوں پر کڑی تنقید


امریکا میں صدارتی الیکشن کے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے نئی دہلی سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مسلم فار بائیڈن پلیٹ فارم کے تحت منعقدہ ورچوئل فنڈ ریزنگ کے شرکا سے گفتگو میں جو بائیڈن نے کشمیر میں بھارتی اقدامات کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا۔امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور نسلی امتیاز کااعتراف کرتے ہوئے جو بائیڈن نے یقین دلایا کہ ان کی انتظامیہ میں مسلمانوں کو ہر شعبے میں نمائندگی ملے گی۔اس دوران انہوں نے برائی کو روکنے سے
متعلق رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث سنائی اور اسلام سے متعلق گہری معلومات کا اظہار کیا۔اس فنڈ ریزنگ میں جو بائیڈن کی مہم کے لیے 13 لاکھ امریکی ڈالر اکٹھے کیے گئے، جو بائیڈن نے انتخابی مہم میں حصہ ڈالنے والے ڈیموکریٹ رہنما طاہر جاوید اور دیگر کا شکریہ ادا کیا۔

ایسے لوگوں کی قدر کریں دنیا کے مشہور فٹ بال کھلاڑی "سڈیو  مانے (سینیگال مغربی افریقہ) ، جس کی پاکستانی روپے میں ہر ہفتہ ...
12/08/2020

ایسے لوگوں کی قدر کریں

دنیا کے مشہور فٹ بال کھلاڑی "سڈیو مانے (سینیگال مغربی افریقہ) ، جس کی پاکستانی روپے میں ہر ہفتہ آمدنی 3 کروڑ روپے ہے ، ان کا موبائل فون بھی پرانا اور کم قیمت ہوتا ہے اور کبھی کبھی ٹوٹا بھی ہوتا ہے۔
ایک انٹرویو میں جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں اسے ٹھیک کردوں گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نیا کیوں نہیں خرید رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ایک ہزار ، 10 فراری گاڑیاں ، 2 جیٹ طیارے ، ڈائمنڈ گھڑیاں وغیرہ سب خرید سکتا ہوں ، لیکن مجھے ان سب کی ضرورت کیوں ہے۔
میں نے غربت دیکھی ، میں سیکھ نہیں پایا ، میں نے اسکول ایسے بنائے کہ لوگ سیکھیں ، میرے پاس جوتے نہیں تھے ، میں جوتے کے بغیر کھیلتا ہوں ، میرے پاس اچھے کپڑے نہیں تھے ، میرے پاس کھانا نہیں تھا۔ آج میرے پاس بہت کچھ ہے کہ میں اسے دکھاوے کے بجائے اپنے لوگوں کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔....

‏بچی نےطیب اردگان سے کہا اگر آپ شہید ہوجائے تو؟؟؟طیب اردگان نے روتی ہوئی چھوٹی سی بچی کو کہا شہادت ہر کسی کے قسمت میں نہ...
12/08/2020

‏بچی نےطیب اردگان سے کہا اگر آپ شہید ہوجائے تو؟؟؟
طیب اردگان نے روتی ہوئی چھوٹی سی بچی کو کہا شہادت ہر کسی کے قسمت میں نہیں ہے خالد بن ولید نےاس امید سے100جنگیں لڑی تھی...!!!!
اللہ اکبر❤

12/08/2020

مست توکلی: عظیم بلوچی شاعر۔

توکلی1828 میں مانڑک بند کوہلو کے علاقے میں پیدا ہوئے۔
مست توکلی کا انتقال 1896 میں ہوا.
مست توکلی نہ صرف بلوچی کے نامور شاعر تھے بلکہ اس دور کے ایک عظیم صوفی بھی تھے۔ وہ ایک جملے میں کہتے ہیں
"نیندوں کاہان تو بیثغو’ کوہانی مری؛ وا رضا بیثا خدا بہاناۓ سمو کثئ ۔۔یہ اللہ ہی تھا اور اس کی قبولیت میں نے حاصل کی ، سمو محض ایک ذریعہ تھا)

لوگ دنیاٸی تعلیم سیکھنے کہا سے کہا تک جارہےہیں یہ تعلیم صرف اور صرف دنیا ہی میں کام آٸے گی اگر آگٸی تو لیکن آج کل لوگ دی...
12/08/2020

لوگ دنیاٸی تعلیم سیکھنے کہا سے کہا تک جارہےہیں یہ تعلیم صرف اور صرف دنیا ہی میں کام آٸے گی اگر آگٸی تو لیکن آج کل لوگ دین سے دور بھاگ رہے ہیں پتہ نہیں کیو ہر کسی کو پتہ ہے کہ دنیا ایک دن ختم ہونے والا ہے پھر بھی لوگوں کو سمجھ نیہں آتی لوگ انگریزی سیکھنے کہا سے کہا تک پہنچ گٸے ہے لوگوں کےلیٸے انگریزی اتنا ضروری ہے کہیں وہ اپنی مادری زبان بھول نہ جاٸیں قبر میں انگریزی زبان نہیں بولی جاٸیگی میدانے حشر میں انگریزی نہیں بولنے پڑیگی وہاں ایک ہی زبان ہوگی وہ ہے عربی پاکستان میں عربی بولنے والوں کی تعتداد بہت کم ہوگی ہے لیکن انگریزی بولنے والو کی تعداد عروج پر ہے لوگ قرآن مجید تلاوت نہیں کرتے اور دن رات صبہح شام دنیا کے لیٸے کتنے کتاب پڑتے ہےکتنا محنت کرتے ہے میرے بھاٸیوں دوستوں دنیاکی زندگی عارضی ہے اپنی بچوں کو دینی تعلیم دو ,,,
اللہ حافظ

12/08/2020


مائیکل جیکسن ایک ایسا انسان جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا، اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی,
اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی, وہ گوروں کی طرح دکھائی دینا چاہتا تھا۔
اسے گمنامی سے نفرت تھی, وہ دنیا کا مشہور ترین شخص بننا چاہتا تھا۔
اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی, وہ اپنے ماضی کو اپنے آپ سے کھرچ کر الگ کردینا چاہتا تھا۔
اسے عام لوگوں کی طرح ستر, اسی برس میں مر جانے سے بھی نفرت تھی, وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔
وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایک سو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے, اپنا آخری گانا گائے, پچیس سال کی گرل فرینڈ کے ماتھے پر بوسہ دے اور کروڑوں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے۔
مائیکل جیکسن کی آنے والی زندگی ان چار خواہشوں کی تکمیل میں بسر ہوئی۔
اس نے 1982ء میں اپنا دوسرا البم ’’تھرلر‘‘ لانچ کیا, یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ ایک ماہ میں اس کی ساڑھے چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا تھا۔ مائیکل جیکسن اب دنیا کا مشہور ترین گلوکار تھا، اس نے گمنامی کو شکست دے دی تھی۔
مائیکل نے اس کے بعد اپنی سیاہ جلد کو شکست دینے کا فیصلہ کیا اور پلاسٹک سرجری شروع کرا دیی، امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں، یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت، جلد، نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔
سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔
اس کے بعد ماضی کی باری آئی، مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کر دیا، اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے، اس نے کرائے پر گورے ماں باپ حاصل کر لئے اور تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا، وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔
اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کر لی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی۔
اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی، اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی۔
لہٰذا اب اس کی آخری خواہش کی باری تھی۔ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا۔ مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئے دلچسپ حرکتیں کرتاتھا، مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا، وہ جراثیم، وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا۔ وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے۔
یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے، اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا، اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں، گردوں، آنکھوں، دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔
یہ وہ ڈونر تھے، جن کے تمام اخراجات مائیکل اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے، چنانچہ اسے یقین تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہے گا۔
لیکن پھر 25 جون کی رات آئی، اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی، اس کے ڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا، یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے تو ہسپتال لے گئے۔
وہ شخص جس نے ڈیڑھ سو سال کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا، جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے چڑھا لیتا تھا، جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتی تھیں اور جس نے 25 برس تک کوئی ایسی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹروں نے اسے منع کیا ہو۔ وہ شخص صرف 50 سال کی عمر میں اور صرف تیس منٹ میں انتقال کر گیا۔
اس کی روح چٹکی کے دورانیے میں جسم سے پرواز کر گئی۔ مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ میں آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی، یہ گوگل کی تاریخ کا ریکارڈ تھا اور اس ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو 25 منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی۔
مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ بہت زیادہ احتیاط کی وجہ سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا، وہ سر سے گنجا ہو چکا تھا، اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، اس کے کولہے، کندھے، پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشان تھے۔
وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ’’پین کلرز‘‘ کا محتاج ہو چکا تھا، چنانچہ وہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجیکشنز، یہ احتیاط اور یہ ڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہیں بچا سکے اور وہ ایک دن چپ چاپ اُس جہاں سے چلا گیا اور یوں اس کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔
مائیکل جیکسن کی موت ایک اعلان ہے، انسان پوری دنیا کو فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ موت اور اس موت کو لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ کوئی راک سٹار ہو یا فرعون
وہ دو ٹن مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا۔
وہ موت کو شکست نہیں دے سکتا۔
لیکن حیرت ہے کہ ہم مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی خود کو فولاد کا انسان سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہم موت کو دھوکہ دے دیں گے، ہم ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہیں گے۔
اللہ کریم ھمیں عمل کی توفیق بخشے اور آپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثمہ

Address


10/100

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Quetta news posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share