13/11/2024
سموگ کا آغاز لندن سے ہوا تھا۔ 5 دسمبر 1952ء کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تو پورا شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوبا ہوا تھا۔ حد نگاہ صفر ہو گئی تھی، گاڑیاں اور ٹرینیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں، اور لوگ اپنے پیاروں کو بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ شام کو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہ دھند نہیں بلکہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے، جو اگلے دن چار ہزار افراد کی جان لے گیا۔ لوگ کھانستے ہوئے دم توڑنے لگے، ٹریفک رک گئی، ٹرینیں اور فلائٹس معطل ہو گئیں، دفاتر اور اسکول بند ہو گئے، اور شہر میں خوف کا عالم طاری ہو گیا۔ پانچ دن بعد، 9 دسمبر کو بارش ہوئی اور فضا کچھ صاف ہو گئی، مگر اموات کا سلسلہ دسمبر کے آخر تک جاری رہا، جس کے نتیجے میں بارہ ہزار افراد انتقال کر گئے اور ڈیڑھ لاکھ لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ ماہرین نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ لندن کی فضاء میں روزانہ ہزار ٹن سموگ پارٹیکلز پیدا ہو رہے تھے، جن میں زہریلے مادے شامل تھے۔ اس سانحے کو "گریٹ سموگ آف لندن" کہا گیا۔ سر گیرالڈ ڈیوڈ نے لندن کی فضاء کو صاف کرنے کی ذمہ داری لی اور 1956ء میں "کلین ائیر ایکٹ" منظور کرایا، جس کے تحت شہر میں کوئلے کے استعمال پر پابندی، فیکٹریوں کی منتقلی، درختوں کی حفاظت اور گرین ایریاز کے تحفظ جیسے اقدامات کیے گئے۔ چار سال کے اندر لندن کی فضاء مکمل طور پر سموگ سے پاک ہو گئی۔
اب ہم گریٹ سموگ آف لندن سے لاہور کی طرف آتے ہیں۔ پنجاب گزشتہ تین سالوں سے شدید سموگ کا شکار ہے، خاص طور پر نومبر کے مہینے میں لاہور، بہاولنگر، پاکپتن، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں ڈوب جاتے ہیں۔ لاہور کی فضاء میں زہریلے مادوں کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، جس سے روزانہ کی فضاء میں سانس لینے کا نقصان سگریٹ کے استعمال کے برابر ہے۔ بھارت میں فصلوں کی باقیات جلانا، لاہور میں بڑھتی ہوئی فیکٹریاں، پاور پلانٹس اور گاڑیوں کی تعداد اس آلودگی کے بڑے اسباب ہیں۔ مزید برآں، ٹائر جلانا، مونجی کی باقیات کا جلایا جانا اور درختوں کی کٹائی نے لاہور کو سموگ میں ڈبو دیا ہے۔ ترقی کا یہ انداز لاہور کو قبرستان بنا رہا ہے۔
ہماری درخواست ہے کہ پنجاب حکومت فوری طور پر "کلین پنجاب کمیشن" بنائے، فضائی آلودگی کی وجوہات تلاش کرے اور اصلاحات کرے۔ لاہور کو صاف کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے جیسے کہ فیکٹریوں کی منتقلی، گاڑیوں کی تعداد پر کنٹرول، پٹرول کا معیار بہتر بنانا، اور درختوں کی حفاظت۔ تعلیمی ادارے بند کرنا سموگ کا حل نہیں، بلکہ یہ بچوں کی تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، جو سموگ کے نقصانات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔