06/12/2023
بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کےنہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا، مگر رویا دسمبر میں
poetry
بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کےنہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا، مگر رویا دسمبر میں
نہیـــں پیتا نہ پی زاہد مگـــر یہ تو سمجھ لیتا
اگر ساقی نے مے آنکھوں سے برسائی تو کیا ہوگا
کر رہی ہی در حقیقت کام ساقی کی نظر
میکدے میں گردشِ ساغر برائے نام ہے ...
کبھی تو لوٹ کے دِلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مُدت سے دَار کا موسم!
محسن بھوپالی
بنا ہے قافیہ پھر سے غزل کا زاویہ پھر سے
میرا ایک شعر آدھا ہے کرو نہ رابطہ پھر سے
چاند کا جھومر رات کے مــاتھے سجتا ہے
روپ کا دریـــــا دھیرے دھیرے چڑھتا ہے.
شبنم اوڑھ کے رات بھی پیاسی رہتی ہے
دل کا آنگــــــن آج بھی سونـــــــا رہتا ہے
بادل گھر گھر آئے کسی انگنــــــــــائی پر
سنتے ہیں ہم میگھ ملہــــــــــار برستا ہے.
دیوانی نے آج سنگھــــــــــار رچایــــا ہے
آنکھیں بوجھــــــــــل ہیں انداز بہکتا ہے
رات تمھاری یاد کی خوشبـــــــو پھیلی
ساراٌ گلشن سجتــــــــــــــا اور مہکتا ہے.
یہ بے رنگیاں کب تک ، اے حُسنِ رنگیں
ادھر آ ، تجھے عشق میں چُور کر دوں
اختر شیرانی
جیسے صحرا میں کہیں رات گئے
چلتے اونٹوں کی گھنٹیاں باجیں
جیسے پاؤں میں گھنگھرو باندھے
دور میلے میں کچھ فقیر ناچیں
۔
جیسے سوکھے ہوئے درختوں پر
تیز بارش کی بوند بوند گائے
جیسے گنبد کے سر پہ بیٹھے ہوئے
اک کبوتر ہو اڑ کے پھڑپھڑائے
۔
جیسے پتھر چٹان کے سر پر
کوئی مدہوش ہو کے مور ناچے
جیسے دریا کنارے رات کہیں
ہولے ہولے سے جلترنگ باجے
۔
جیسے جنگل کے بھیگے کونے میں
کوئی بنسی پہ گیت کو گائے
جیسے بادِ شمال کے آگے
سرخ آنچل کہیں سے لہرائے
۔
جیسے ہر صُبح کو درختوں پر
چڑیا مینا ہوں چہچہاتی ہوں
جیسے مندر میں دن نکلنے پر
داسیاں آ بھجن کو گاتی ہوں
۔
جیسے چندا کی پوری راتوں میں
ہلکے ہولے سے دریا بہتا ہو
جیسے سازندہ گونگا کوئی جو
بات طبلہ بجا کے کہتا ہو
۔
جیسے نازک کسی کلائی میں
آتشیں رنگ چوڑیاں کھنکیں
جیسے بارش کی تیز بوندوں سے
خشک پتوں کے تن بدن مچلیں
۔
اور ان سب کا مول گھٹ جائے
سامنے جب تری ہنسی آئے
آنکھوں میں تری چاہت کا ایسا نشہ دیکھا
میخانے میں جیسے میں نے جام بھرا دیکھا
وہ لب تھے ترے یا وہ تھے مے سے بھرے پیالے
پیتے ہی اسے ساری دنیا کا نشہ دیکھا
✍️ انمول ساورن کاتب
کسی کا نام وظیفے میں ہوگیا شامل
زباں پہ قید لگے بھی تو دل پکار اٹھے
اقبال خلش آکوٹوی
آج پھر حُسنِ دل آراء کی ، وھی دَھج ھو گی
وھی خوابیدہ سی آنکھیں ، وھی کاجَل کی لکیر
"فیض احمّد فیض"
عشق کی آنکھ وہ تخصیص طلب ہے امجد
بھیڑ ہو چاروں طرف اور کوئی تنہا ہو جائے۔
امجد اسلام امجد
راجہ بھی لاجواب تھا____
صحراۓ عشق کا___!!!!!!
لیکن دیارِ عشق میں____
رانی غضب کی تھی______!!!!!
ترے ابرووںکی حسیںکماں نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم نہ کشش ہلال کے خم سے کم
مرشد پیر نصیر الدین نصیر شاہ
سنو! آنکھوں سے پڑھ لینا وہ ساری ان کہی باتیں
کوئی پوچھے تو کہہ دینا، بہت ہی رازداری ہے
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
تصدّق اِس کَرَم کے میں کبھی تنہا نہیں رہتا
کہ جِس دِن تم نہیں آتے، تمھاری یاد آتی ہے
جلیؔل مانک پُوری
حسن محو رنگ و بو ہے عشق غرق ہائے و ہو
ہر گلستاں اس طرف ہے ہر بیاباں اُس طرف..!
ذہین شاہ تاجی
کوئی ترتیب نہیں لادے ہوئے اونٹوں کی
قافلے شکل سے گھبرائے ہوئے لگتے ہیں
لطیف ساجد
کرتے نہیں ہیں عشق میں محبوب سے سوال
جب کہہ دیا جو جھـوم, تو بس جھومتے رہـو
سیدھا نہیں یہ راستہ بل دار بھی نہیں
یہ تـو مـدارِ یار ہـے, بس گھــــــومتے رہو
❥ ══༻◉ آدم ◉༺══ ❥
رات بھر گردشِ افلاک کو تکتے رہنا
یار کے نام کی تسبیح کو جپتے رہنا
کتنی پُرکیف ہے اُس دل میں اترنے کی طلب
کتنا دلچسپ ہے شیشے میں اترتے رہنا
داؤد سیدؔ
ہر اشک سرخ ہے دامان شب میں آگ کا پھول
بغیر شمع کــــے بھی جل رہے ہیں پـــــــروانے
سراج لکھنوی
کیا کام اُنہیں پُرسِشِ اربابِ وفا سے
مرتا ہے تو مرجائے کوئی، اُن کی بَلا سے
حسرت موہانی
روگ دل کو لگا گئیں آنکھیں
اک تماشا دکھا گئیں آنکھیں
مل کے ان کی نگاہ جادو سے
دل کو حیراں بنا گئیں آنکھیں
اس نے دیکھا تھا کس نظر سے مجھے
دل میں گویا سما گئیں آنکھیں
حال سنتے وہ کیا مرا حسرتؔ
وہ تو کہئے سنا گئیں آنکھیں
✍️ حسرت موہانی
اک آہ کر کے تُو نے، اے آہِ قلبِ سوزاں
دنیا ہلا کے رکھ دی فریادِ مختصر سے
بہزاد لکھنوی
تھا آج اہتمــــــامِ تماشائے کائنات
لیکن نگاہ رُک گئی تصویرِ یار پر
✍️مُنشی ہرگوبند دیال
کوئی خواب دشتِ فِراق میں
سَرِ شام چہرہ کشا ھُوا
میری چشمِ تر میں رُکا نہیں
کہ تھا رَتجگوں کا ڈَسا ھُوا
تیری چَشمِ خُوش کی پناہ میں
کسی خواب زار کی راہ میں
میرے غم کا چاند ٹھہر گیا
کہ تھا رات بھر کا تھکا ھُوا
"امجد اسلام امجد"
لفظوں کے ہیر پھیر سے رہتے ہیں دور دور
ہم عام فہم، سہل سے، سادہ سلیس لوگ..!
منسوب ھے تجھی سے ،روشنی کا سفر
تو مجھ میں سمائے تو میں ، اجالا بنوں
از قلم ✍️
عشرت ناصر
تساہل تو نہیں ہم کو قفس محبوب رکھتے ہیں
کہ اب مانوس ہیں صیاد سے چاہت نہیں جاتی
تلاشِ حسنِ یکتا میں کٹی تھی زندگی اپنی
مِرے شوقِ جمالِ یار میں وحشت نہیں جاتی
معین رمزی
ہمیں دریافت کرنے سے، ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک
ہمارے ہجر کے قصّے، سمیٹو گے تو لکھو گے
ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک
ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو چھلکے گا
چلو دو گھونٹ تم بھر لو، ہمیں تاثیر کرنے تک
پرانے رنگ چھوڑو آنکھ کے، اک رنگ ہی کافی ہے
محبّت سے چشم بھر لو، ہمیں تصویر کرنے تک
ہنر تکمیل سے پہلے، مصور بھی چھپاتا ہے
ذرا تم بھی چھپا رکھو، ہمیں تعمیر کرنے تک
🦋🥀
حلقۂ زلف کہیں گوشۂ رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں گلشن دیدار کہیں
مثل موسیٰ کے وہ غش کھا کے گرا بیچارہ
جس نے دیکھا تجھے او موہنی صورت والے
مرشد بیدم شاہ وارثی
تو نے دیوانہ____ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا
یوسفِ مصرِ تمنا۔۔۔ تیرے جلوؤں کے نثار
میری بیداریوں__ کو خوابِ زلیخا نہ بنا
حضرت بابا ذہین شاہ تاجی
یوں آ کے بیٹھــو ، عاشـقِ کامل کے سامنے
آنکھ آنکھ کے ھو سامنے دل دل کے سامنے
داغ دہلوی
🖤
جس شخص کو اک دید بھی تیری ہو میسّر
مسعود ہے، خوش بخت ہے، قسمت کا دھنی ہے!
فِراقؔ گورکھپُوری
نجانے رنگِ حُسن و عِشق کیا ہوگا سَرِ منزِل!
تمنّائیں چلی ہیں کارواں در کارواں ہو کر
بَجا یہ میری مدہوشی، مِری یہ بے خودی برحَق
یہ کِس کا مُجھ کو رہ جاتا ہے اپنے پہ گُماں ہوکر
تمہارے یہ لب ہمارے تکنے سے کھِل رہے ہیں
تمہاری باتیں ہمارے سننے سے معتبر ہیں !
مالا راجپوت
ہُل ہُلارے، نیناں تھارے
ہستی مستی رنگ اُتارے
میل پرِیتم کملی کِیتم
چھم چھم ناچوں چڑھ چُوبارے
زُلفاں چھنڈاں رے
شکّر ونڈاں رے
مورا پِیا موسے مِلّن آیو
شکّر ونڈاں رے
💥🥀🖤
عجب کی ساحری اس من ہرن کی چشم فتاں نے
دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی
میر محمدی بیدار
Be the first to know and let us send you an email when Jan _e _ Nayab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.
" مُحبت " مُحبت تو لب و رُخسار سے آگے بہت آگے کی کوئی منزل ھے۔ جہاں نفس مَر جاتا ھے۔ اور فکر جنم لیتی ھے۔ جہاں کسی کا درد آپ کے وجود میں پَلنے اور پھیلنے لگتا ھے جہاں کسی کے خُشک آنسو آپ کے اندر رونے لگتے ھیں جہاں کسی کی اذیت آپکی نیندوں کو نگلنے لگتی ھے۔ محبت میں لب و رُخسار کے قصے تو پیچھے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور مُحبت آگے بہت آگے نکل جاتی ھے۔
عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا داغؔ دہـــــلوی
Want your business to be the top-listed Media Company?