23/04/2022
امیر "امت مسلمہ"محترم ملک اظہر اسماعیل اپنی شہرہ اآفاق کتاب " امت مسلمہ کی تشکیل نو"میں لکھتے ہیں: "عرصہ دراز سے ایک بات دن رات مجھے پریشان کر رہی تھی نہ صرف مجھے بلکہ ان لاکھوں افراد کو بھی جو میری طرح سوچتے ہیں۔ جو میری جیسی فکر کے حامل ہیں۔ جو میرے جیسا دین کا درد اپنے سینوں میں رکھتے ہیں۔ وہ بات تھی غلبہ دین حق کی بحالی کی۔ دن رات میں اسی فکر میں گم رہا کہ پاکستان کو قائم ہوئے پون صدی گزرنے کو ہے۔درجنوں کے حساب سے مذہبی جماعتیں ملک میں کام کر رہی ہیں لیکن نفا ذ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا تو در کنار، مزیددھند لاتا ہی جا رہا ہے۔ اور قوم دن بدن مایوسی کے گڑھے میں اترتی جا رہی ہے۔ اور مذہبی جماعتیں روز بروز اسلامی نظام کے نفاذ سے دور اور نام نہاد جمہوریت کے زیادہ قریب ہو رہی ہیں حالانکہ جمہوریت مذہبی جماعتوں کیلئے ایک دلدل سے کم نہیں اور مذہبی جماعتیں بری طرح اس دلدل میں پھنس چکی ہیں۔ بہر حال میں اس بحث میں پڑ کر اپنا اور آپکا وقت ضائع نہیں کرناچاہتا کہ جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف اپنی فکر کا نچوڑ اور ان لاکھوں افراد کا نکتہ ء نظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو میرے ہم خیال ہیں اور اسی پاکستان میں مختلف جماعتوں کے اندر یا باہر اس کشمکش میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں کہ کب وہ وقت آئے گا جب حق کا بول بالا ہوگا۔ اسلام کا غلبہ ہوگا اور اقتدار اہل حق کے پاس آئے گا۔کب غریب کے دن بدلیں گے، کب لٹیروں، بد معاشوں، سمگلروں اور منشیات فروشوں سے عنان حکومت چھینی جائے گی۔ کب حق دار کو اس کا حق ملے گا۔ کب مظلوم کی داد رسی ہوگی اور ظالم کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ میں اور وہ لاکھوں افراد اس فکر کے حامل ہیں کہ انتخابات کے ذریعے اقتدار اہل حق کو کسی قیمت پر نہ مل سکتا ہے نہ دیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ سب کچھ کیسے ہوگا۔ اللہ کا دین غالب کیسے ہوگا۔ اقتدار اہل حق کے پاس کیسے آئے گا۔ ان سوالوں کا اور اس طرح کے بے شمار سوالوں کا جواب آپکو اسی کتابچے کی آئندہ سطور میں ملے گا پڑھیے غور کیجئے اور پھر کوئی رائے قائم کیجئے۔ ہماری تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور مسلمانوں کو فلاح کے راستے پر گامزن کرنا اورغلبہ دین حق کیلئے جدو جہد کرنا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا یہ بدترین دور ہے۔ اس سے پہلے مسلمان اتنے ذلیل و رسوا کبھی نہ تھے۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ مسلمان پونے دو ارب ہونے کے باوجود، امت مسلمہ اتنے گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ایسے انتشار کا شکار ہو چکی ہے کہ اسے پھر سے اکٹھا کرنا بعض اوقات بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے۔درحقیقت نا ممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ اسی مشکل کے حل میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اگر ایک مرتبہ،صرف ایک مرتبہ مسلمان متحد ہو گئے تو پھر صدیوں تک انہیں منتشر نہیں کیا جا سکے گا۔ گویا ساری مشکل متحد ہو نے میں ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرا ط مستقیم پر گامزن ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا ہے۔ قرآن مجید ہی تو در اصل صراط مستقیم ہے۔ قرآن مجید میں دو قسم کے لوگوں کا بیان کثرت سے ملتا ہے جنہیں ہم اچھا اور برا، جنتی اور دوزخی، مسلمان اور کافر اور انعام یافتہ اور مغضوب وغیرہ کے الفاظ سے پہنچانتے ہیں۔ اسی طرح دو راستوں کی بھی واضح نشاندہی فرمادی گئی۔ جنہیں ہم حق اور باطل کہتے ہیں۔ انعام یافتہ لوگوں اور حق پرستوں کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے"۔