SA Rehman

SA Rehman Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from SA Rehman, News & Media Website, .

پشاور موڑ ، اسلام آباد... یہ ایک ناشتے کی دکان ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللّٰہ کی راہ ...
08/11/2024

پشاور موڑ ، اسلام آباد... یہ ایک ناشتے کی دکان ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللّٰہ کی راہ میں اچھا کھانا مفت آفر کر رہے ہیں۔۔ یقین مانیں انکے لاہوری چنے، نہاری،حلوہ پوری اور حلیم سب کچھ بہت مزے کا ہے۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اگر آپ آس پاس رہتے ہیں تو ضرور اسے وزٹ بھی کریں۔ دعا کریں اللہ کریم ہمیں بھی ایسا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین

وہ انگریزی میں کہتے ہیں نا کہ

Spend and God will send
منقول

پنجاب حکومت کا 61 کروڑ 24 لاکھ 75 ہزار روپے کی لاگت سے پارلیمانی سیکرٹریز، افسران کیلئے 76 لگژری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ
04/10/2024

پنجاب حکومت کا 61 کروڑ 24 لاکھ 75 ہزار روپے کی لاگت سے پارلیمانی سیکرٹریز، افسران کیلئے 76 لگژری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ

*ملک بھر میں 77 واں یوم آزادی قومی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے*آج ملک بھر میں پاکستان کا 77  واں یوم آزادی  انتہائی ...
14/08/2024

*ملک بھر میں 77 واں یوم آزادی قومی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے*
آج ملک بھر میں پاکستان کا 77 واں یوم آزادی انتہائی جوش و خروش اور قومی جذبے کے ساتھ منایا جا رہاہے ، دن کا آغاز نماز فجر میں ملکی ترقی اور یکجہتی کی خصوصی دعاؤں سے ہوا، وفاقی و صوبائی دارالحکومتوں میں توپوں کی سلامی دی گئی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 توپوں کی سلامی دی گئی جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21۔ 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور ، کوئٹہ اور ملتان سمیت ملک کے کونے کونے میں چراغاں اور آتشبازی کے ساتھ ملی نغموں اور سبزہلالی پرچموں کی بہار آگئی۔

یوم آزادی کی مناسبت سے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ کا انعقاد کیا گیا جہاں کیڈٹس کا مارچ پاسٹ ہوا۔

یوم آزادی کی تقریب میں رات 12 بجتے ہی پرچم کشائی کی گئی، سب نے مل کر قومی ترانہ پڑھا، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور مادر وطن کے شہدا کو خصوصی خراج عقیدت پیش کیا۔

کاکول اکیڈمی میں منعقدہ یوم آزادی کی تقریب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔

رات 12 بجتے ہی جشن آزادی کے آغاز پر لاہور میں گریٹر اقبال پارک میں آتش بازی کی گئی

شیخ عطاء الرحمٰن

ہمیں سسٹم سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ سسٹم چلانے والوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سبز ہلالی...
14/08/2024

ہمیں سسٹم سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ سسٹم چلانے والوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سبز ہلالی پرچم ہماری پہچان ہے، ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ایک سچے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیں۔ اس ملک کے لیے جو کچھ بھی اچھا کر سکتے ہیں، کر گزریں۔ اللہ تعالیٰ اس پاک دھرتی کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ ہمارا یہ سبز ہلالی پرچم تاقیامت یونہی بلند رہے۔ آمین

*جشنِ آزادی مبارک*🫀🙌🏻

پاکستان🇵🇰
زندہ باد💚

شیخ عطاء الرحمٰن

تاریخ میں سب سے لمبی جیولین تھرو 104.80 میٹر تھی، جسے Uwe Hohn نے 1984 میں ایک ایسی تکنیک اور جیولین ڈیزائن کا استعمال ک...
11/08/2024

تاریخ میں سب سے لمبی جیولین تھرو 104.80 میٹر تھی، جسے Uwe Hohn نے 1984 میں ایک ایسی تکنیک اور جیولین ڈیزائن کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کیا تھا جسے "کنٹرول سے باہر" سمجھا جاتا ہے
جیولین تھرو کی تاریخ میں Uwe Hohn کی 104.80 میٹر کی تھرو کو ایک غیر معمولی اور تاریخی سنگ میل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کارنامہ 20 جولائی 1984 کو مشرقی جرمنی کے ایک ایونٹ میں پیش آیا تھا۔ Uwe Hohn نے اس تھرو کو ایک ایسے وقت میں انجام دیا جب جیولین کے ڈیزائن اور تھرو کی تکنیک میں تبدیلیاں جاری تھیں۔

ا Hohn کی یہ تھرو نہ صرف عالمی ریکارڈ بنی، بلکہ جیولین تھرو کے کھیل میں ایک اہم موڑ بھی ثابت ہوئی۔ اس وقت کی جیولین کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ اس کی اڑان بہت دور تک ہوتی تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہوا میں اس کی حرکت غیر مستحکم ہوتی تھی، جس کی وجہ سے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔

اس ریکارڈ کے بعد، کھیل کے قوانین اور جیولین کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ اس طرح کی غیر متوقع تھروز کو روکا جا سکے اور کھیل کو محفوظ اور منصفانہ بنایا جا سکے۔ 1986 میں، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز (IAAF) نے جیولین کے وزن اور ڈیزائن کو تبدیل کر دیا تاکہ اسے ہوا میں زیادہ مستحکم بنایا جا سکے۔ ان تبدیلیوں کے بعد، Hohn کا ریکارڈ ایک ناقابل شکست بن گیا، کیونکہ نئے قوانین کے تحت اتنی لمبی تھرو ممکن نہیں رہی۔

یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور غیر معمولی واقعہ ہے جو کھیلوں کی دنیا میں قوانین اور ڈیزائن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

شیخ عطاء الرحمٰن

پاکستانی بچے آج کل ’ٹک ٹک‘ گیم کھیل کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دو پلاسٹک کی گیندیں ڈوری سے بندھی ہوتی ہیں انھیں ٹکرانے پر ٹ...
08/08/2024

پاکستانی بچے آج کل ’ٹک ٹک‘ گیم کھیل کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دو پلاسٹک کی گیندیں ڈوری سے بندھی ہوتی ہیں انھیں ٹکرانے پر ٹک ٹک کی آواز نکلتی ہے، دراصل یہ امریکی کھلونا ہے، جسے ”کلیکر ٹوائے“ کہا جاتا ہے۔

گلی محلوں میں بچے ہاتھوں میں ٹک ٹک گیم لیے دکھائی دیتے ہیں اور بعض مقامات پر بچوں کے گروپ ٹک ٹک مقابلہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جس میں دیر تک گیندوں کو ایک ہی انداز میں ٹکراتے رہنے کا عمل جاری رکھنا ہوتا ہے، جو شخص زیادہ دیر تک یہ عمل کامیابی سے جاری رکھتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ کھلونا بظاہر سائنس کے انرجی، مومنٹم اور فریکشن جیسے بنیادی اصولوں کے تحت بنایا گیا ہے جس میں آپس میں جڑے دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے مسلسل اچھالا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اور ”ریدھم“ بنا لیتے ہیں۔

ٹک ٹک گیم سے جہاں بچے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں بچوں کے والدین اس کھلونے کے شور سے پریشان دکھائی دیتے ہیں

پس منظر

اس گیم کو دراصل ”کلیکر ٹوائے“ کہا جاتا ہے۔ یہ کھلونا 1960 ءکی دہائی میں امریکا میں بنایا گیا تھا اور 1970 کے بعد یہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ عام طور پر لکڑی یا دھات سے بنائے جاتے تھے، مگر سخت ایکریلک پلاسٹک زیادہ مقبول ہوا۔ یہ کھلونا بولیڈوراس نامی ہتھیار سے مشابہت رکھتا تھا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق 1960 ء اور 1970 ء کی دہائی میں امریکا میں کھلونوں کی حفاظت کی ذمہ داری ایف ڈی اے پر تھی۔ 1966 ء کے ایک ایکٹ کے تحت ایف ڈی اے کو خطرناک کھلونوں پر پابندی کا اختیار ملا، جس میں کلیکر بھی شامل تھا۔ جب کہ 1974 ء میں امریکی مارشل سروس نے کلیکرز کی 50 ہزار کی کھیپ ضبط کی تھی۔ ایس نوولٹی نامی کمپنی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی، مگر عدالت نے کلیکرز کو مکینیکل خطرہ قرار دیا۔

تاہم حال ہی میں مارکیٹ میں موجود کلیکر کھلونے پرانے جان لیوا کلیکرز سے کچھ مختلف ہیں۔ ان میں جدید قسم کا پلاسٹک استعمال ہوتا ہے جو ٹوٹنے کے خطرے کو کم کرتا ہے، مگر ہاتھ سے نکلنے پر یہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔

شیخ عطاء الرحمٰن

یہ چارٹ دیکھیں اور اندازہ لگائیں ہماری اتنی زیادہ آبادی ہے اور سپورٹس میں ہم کتنے پیچھے ہیں۔ یہاں فوکس صرف کرکٹ پر ہوا ہ...
26/07/2024

یہ چارٹ دیکھیں اور اندازہ لگائیں ہماری اتنی زیادہ آبادی ہے اور سپورٹس میں ہم کتنے پیچھے ہیں۔ یہاں فوکس صرف کرکٹ پر ہوا ہے، اس میں بھی اب رو بہ زوال ہیں۔ ہاکی میں ہم نے نام بنایا، ہاکی تو کہیں نظر نہیں آتی۔ سکوائش پر پاکستانی خان چھاۓ رہے لیکن اب اس کا بھی کوئی تذکرہ نہیں۔ برٹش دور میں ہمارے پہلوان اچھے تھے، اس گیم کو ہم گروم نہیں کر سکے۔

اب دیکھیں 24 کروڑ کی آبادی اور ورلڈ اولمپکس کے لئے صرف 07 اتھلیٹ بھیج رہے ہیں۔ انڈیا کی بھی حالت بری ہے، 145 کروڑ آبادی میں صرف 70 اتھلیٹ۔ اب یہ چھوٹے چھوٹے ممالک دیکھیں👇

منگولیا: آبادی 34 لاکھ اتھلیٹ 32
کنگڈم آف ٹونگا: آبادی ایک لاکھ اتھلیٹ 4
نیوزی لینڈ: آبادی پچاس لاکھ اتھلیٹ 195
سربیا: آبادی 70 لکھ اتھلیٹ 112
آسٹریلیا: آبادی 2 کروڑ 60 لاکھ اتھلیٹ 460

آسٹریلیا میڈل جیتنے میں بھی پہلے پانچ ملکوں میں آتا ہے۔ 🤔

شیخ عطاء الرحمٰن

کیا وجہ ہے کہ 100 سے زیادہ کتابوں کے مصنف کو تو معروف تعلیمی ادارے اپنے کسی پروگرام میں نہیں بلاتے، نہ اس سماج میں انہیں...
25/07/2024

کیا وجہ ہے کہ 100 سے زیادہ کتابوں کے مصنف کو تو معروف تعلیمی ادارے اپنے کسی پروگرام میں نہیں بلاتے، نہ اس سماج میں انہیں اتنی علمی پذیرائی ملی ہے، جتنی کے باقی نوٹنکیوں کو، حالانکہ اس پاۓ کا بندہ کسی اور ملک میں ہوتا تو نوم چومسکی کے پاۓ کا سکالر کہلاتا، لیکن یہاں تو وہ شعوری طور پر نظر انداز کئے گئے ہیں۔🤔

شیخ عطاء الرحمٰن

13/07/2024

عمران خان اور بشرا بی بی کی سزائیں کالعدم قرار

13/07/2024

عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشرا بی بی کو عدت نکاح کیس میں بری قرار دے دیا

کیا آپ جانتے ہیں ۔۔۔!!!موبائل فون کا بانی کون ہےاور کس نے بنایا؟؟ آئیے اس تحریر کو پڑھ کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں......۔(...
26/06/2024

کیا آپ جانتے ہیں ۔۔۔!!!
موبائل فون کا بانی کون ہےاور کس نے بنایا؟؟
آئیے اس تحریر کو پڑھ کر جاننے کی کوشش کرتے ہیں......۔
(موبائل فون کا موجد مارٹن کوپر)
مارٹن کوپر کوئی بہت معروف نام نہیں ہے لیکن دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ان کی ایجاد سے آشنا ہے۔
فون ہاتھ میں لے کر گھومنے کا خیال ان ہی کے ذہن میں آیا تھا اور پھر موٹرولا کی ٹیم کے ساتھ انہوں نے انیس سو تہتر میں پہلا دستی ٹیلی فون بنایا جس کا وزن دو کلو تھا۔
نیویارک کی ایک سڑک پر جب انہوں نے اس دستی فون سے پہلی کال کی تھی اس وقت وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ ایجاد اتنی مقبول اور اتنی عام ہو جائے گی۔
اب دنیا بھر میں ایسی صنعتوں کا جال بچھ گیا ہے جو موبائل فون کی مختلف ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔
19 سو تراسی تک ایک موبائل فون کی قیمت چار ہزار ڈالر تھی جو ڈالر کی آج کی قدر کے لحاظ سے دس ہزار ڈالر بنتے ہیں۔
کوپر نے کہا کہ ان کی ٹیم کو جو سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ ہزار کی تعداد میں آلات کے حجم کو کم سے کم کرنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صنعتی ڈیزائنزبنانے والوں نے یہ کام کر دکھایا اور جب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ان کے پاس صرف چند ڈالر بچے تھے۔
اس نئے فون کا دراصل ایک بڑا حصہ اس کی بیٹری پر مشتمل تھا اور اس کا وزن باقی فون کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ تھا۔
اس بیٹری کی زندگی صرف بیس منٹ تھی لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ فون کا وزن اتنا تھا کہ اسے کوئی اتنی دیر تک کان سے لگا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔
فون بنانے کے بعد ایک بڑی مرحلہ یہ تھا کہ اس وقت گاڑیوں میں نصب فون کے لیے لگائے گئے نظام کو کسی طرح وسیع کیا جائے تاکہ وہ موبائل فون کا بوجھ بھی برداشت کر سکے۔
اس وقت نیا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح ایک ایسا نیٹ ورک یا نظام بنایا جائے جو تین میگا ہرٹز یا پانچ ٹی وی چینلز کے برابر ایک قوس بنا ئے اور جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق پوری دنیا کا احاطہ کرلے۔
مارٹن نے بی بی سی کے پروگرام کلک میں بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹرولا کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچا آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام انجینیئر جو اس فون پر کام کر رہے تھے انہیں حقیقتاً مقید رکھا گیا۔
انیس سو تراسی تک ایک موبائل فون کی قیمت چار ہزار ڈالر تھی جو ڈالر کی آج کی قدر کے لحاظ سے دس ہزار ڈالر بنتے ہیں۔
کوپر نے کہا کہ ان کی ٹیم کو جو سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ ہزار کی تعداد میں آلات کے حجم کو کم سے کم کرنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صنعتی ڈیزائنزبنانے والوں نے یہ کام کر دکھایا اور جب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ان کے پاس صرف چند ڈالر بچے تھے۔
اس نئے فون کا دراصل ایک بڑا حصہ اس کی بیٹری پر مشتمل تھا اور اس کا وزن باقی فون کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ تھا۔
اس بیٹری کی زندگی صرف بیس منٹ تھی لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ فون کا وزن اتنا تھا کہ اسے کوئی اتنی دیر تک کان سے لگا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔
فون بنانے کے بعد ایک بڑی مرحلہ یہ تھا کہ اس وقت گاڑیوں میں نصب فون کے لیے لگائے گئے نظام کو کسی طرح وسیع کیا جائے تاکہ وہ موبائل فون کا بوجھ بھی برداشت کر سکے۔
اس وقت نیا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح ایک ایسا نیٹ ورک یا نظام بنایا جائے جو تین میگا ہرٹز یا پانچ ٹی وی چینلز کے برابر ایک قوس بنا ئے اور جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق پوری دنیا کا احاطہ کرلے۔
نھوں نے کہا کہ ان کی ٹیم کو امید تھی کہ ایک دن ہر کسی کے پاس اپنا دستی فون ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں اندازہ نہیں تھا صرف پینتیس سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا۔
مارٹن کوپر نے یہ انٹرویو بی بی سی کو 24 اپریل 2010 کو دیا تھا ۔
ابتدا میں دستی فون کو بنانے کا مقصد ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے باہم رابطوں کو بہتر بنانا تھا۔
انھیں امید تھی کہ اس ایجاد سے لوگوں میں تحافظ اور آزادی کا احساس پیدا ہو گا لیکن چار دہائی قبل انھیں اس کے سماجی اثرات کا مکمل طور پر اداراک نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ فیس بک اور ٹویٹر بھی کبھی وجود میں آئیں گے۔
جدید دور کے موبائل فون نے اس صنعت میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے استعمال کے نئے طریقے بھی نکل آئے ہیں۔
اب تو لگتا ہے یہ ڈیوایس جسم کا ایک حصہ ہے۔
جہاں بے بے شمار فوائد ہیں وہ پر سماج پر اس کے منفی اثرات بھی رونما ہو رہے ہیں۔
اس طرح اب پوری دنیا میں
مجموعی طور پر، سمارٹ اور فیچر فون رکھنے والوں کی تعداد 7.26 بلین ہے، جو دنیا کی آبادی کا 91.62 فیصد بنتی ہے۔
2020 تک ، پاکستان میں موبائل سبسکرپشنز کی تعداد 175.62 ملین تھی۔
تحریر وتحقیق: شیخ عطاء الرحمٰن

ٹیسلا اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس(ٹویٹر) کے مالک ایلن مسک کا کہنا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کو فون کی ضرورت نہیں رہ...
25/06/2024

ٹیسلا اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس(ٹویٹر) کے مالک ایلن مسک کا کہنا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کو فون کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہ دماغ میں implant ایک ننھی سی chip کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے. جی ہاں یہ اسی ٹیلی پیتھی کی شکل ہے جس کے بارے میں ہم سائنس فکشن میں پڑھا کرتے تھے۔ ویسے تو انسان خیالوں میں صدیوں سے باتیں کرتا آیا ہے لیکن اب ان کا یہ خواب سچا ہونے جا رہا ہے۔
اس پروجیکٹ کو جو 2016 میں شروع ہوا تھا سب سے زیادہ فنڈنگ مسک' ہی کر رہا ہے اور دنیا بھر سے نیورو سائنس دانوں کی ایک ٹیم اس میں شامل ہے۔ جنوری 2024 میں ایک 29 سالہ نوجوان پر اس کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا ہے۔
سوچتا ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جاۓ گی 🤔

تحریر و تحقیق : شیخ عطاء الرحمٰن

کیا آپ جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!!!1956ء میں ایک پاکستانی فلم بنی تھی جس کا نام "سرفروش" تھا اس فلم کے مرکزی کردار  سنتوش کمار ا...
25/06/2024

کیا آپ جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!!!
1956ء میں ایک پاکستانی فلم بنی تھی جس کا نام "سرفروش" تھا
اس فلم کے مرکزی کردار سنتوش کمار اور صبیحہ خانم تھے۔ فلم میں سنتوش کمار صبیحہ خانم کے گھر چوری کرنے آتے ہیں۔ چوری کے دوران فجر کی آذان ہو جاتی ہے اور وہ نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صبیحہ خانم اُٹھ گئی تھیں ‏اور حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی
بس اس ادا پر ان کو سنتوش سے پیار ہو جاتا ہے ‏ پہلے زمانے کی فلموں میں ایسا ہی ہوتا تھا… بہرحال صبیحہ خانم نے سنتوش سے پوچھا کہ "یہ کیا؟"
تو سنتوش نے وہ تاریخی ڈائیلاگ ادا کئیے جس کو ہماری قوم نے پلّو میں باندھ لیا اور اسے اپنے نظام میں شامل کرلیا ‏وہ ڈائیلاگ تھا،

*”چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض“*

اس ڈائیلاگ کو اتنی پزیرائی ملی کہ چور، رشوت خور، ذخیرہ اندوز ، بھتے خور، ڈاکو سب اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔
75 سال سے یہ ڈائیلاگ آج بھی زندہ ھے !!

شیخ عطاء الرحمٰن

میرے رب کی شان دیکھو ۔انسانی جسم کی رگیں کئی سو میٹر لمبی ہیں دنیا کا بڑے سے بڑا پائپ بھی سات ہزار (7000) فٹ تک پانی دے ...
24/06/2024

میرے رب کی شان دیکھو ۔
انسانی جسم کی رگیں کئی سو میٹر لمبی ہیں دنیا کا بڑے سے بڑا پائپ بھی سات ہزار (7000) فٹ تک پانی دے سکتا ہے لیکن الله نے انسان کے جسم میں چھوٹا سا دل لگایا ہے جو جسم کی لاکھوں رگوں کو خون کی سپلائی دیتا ہے۔وہ بھی نان سٹاپ۔
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ (13)

پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔(سورہالرحمٰن)

شیخ عطاء الرحمٰن

کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔۔۔!!!یہ تصویر چار مئی 1838ء کو کھینچی گئی تھی۔ یہ پہلی تصویر ہے، جس میں کیمرے کے سامنے کوئی انسان دکھ...
23/06/2024

کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔۔۔!!!
یہ تصویر چار مئی 1838ء کو کھینچی گئی تھی۔ یہ پہلی تصویر ہے، جس میں کیمرے کے سامنے کوئی انسان دکھائی دیا تھا کیونکہ اس سے پہلے والے کیمروں میں تصویر کھینچنے کے لئے 8 گھنٹے کا ایکسپوژر شاٹ چاہیے ہوتا تھا، جس وجہ سے ان میں کسی بڑے علاقے (جنگل، صحرا وغیرہ) کی تصویر تو کھینچی جاسکتی تھی مگر حرکت کرتی ہوئی شے (انسان، جانور، پرندوں وغیرہ) کی تصویر نہیں کھینچی جاسکی تھی۔ سن 1838ء کو Louis Daguerre نے ایک کیمرہ ایجاد کیا، جس کے ذریعے ایکسپوژر ٹائم کو 8 گھنٹے سے کم کرکے پانچ منٹ کردیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اپنی کھڑکی سے پیرس کی یہ تصویر کھینچی تو اس وقت گلی چلتی پھرتی گھوڑا گاڑیوں اور انسانوں سے بھری ہوئی تھی مگر وہ ایکسپوژر ٹائم زیادہ ہونے کی وجہ سے تصویر میں نہ آسکے مگر اس گلی میں ایک مقام پر دو انسانوں کی شبیہ ریکارڈ ہوگئی۔ ان میں سے ایک وہ انسان تھا جو اپنے شوز پالش کروانے کے لیے چند منٹ رکا تھا جبکہ دوسرا انسان وہ موچی تھا جو شوز پالش کررہا تھا۔ یوں یہ دو انسان تاریخ انسانی میں کسی بھی کیمرے میں ریکارڈ ہونے والے پہلے انسان بن کر امر ہوگئے۔ اس تصویر کو Boulevard du Temple کا نام دیا گیا۔

شیخ عطاء الرحمٰن

پہلی تصویر دیکھیں جب قریب آٹھ ماہ پہلے وانکاڈے اسٹیڈیم انڈیا، ورلڈ کپ کے اہم میچ میں میکسویل نے ان کا دھواں نکال دیا تھا...
23/06/2024

پہلی تصویر دیکھیں جب قریب آٹھ ماہ پہلے وانکاڈے اسٹیڈیم انڈیا، ورلڈ کپ کے اہم میچ میں میکسویل نے ان کا دھواں نکال دیا تھا اور ڈبل hundred مارا تھا۔ دوسری تصویر آج کی ہے۔وقت کیسے بدلتا ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا زندگی کا میدان، ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ایک دن آپ کا ضرور آتا ہے۔
بس be patient رہیں ❤

شیخ عطاء الرحمٰن

بجلی کے بلوں میں پروٹیکٹ اور نان پروٹیکٹ کیٹگری کا فرق سمجھنے کے لیے دو بلوں کا موازنہ200 یونٹس بل  3083201 یونٹس بل  81...
23/06/2024

بجلی کے بلوں میں پروٹیکٹ اور نان پروٹیکٹ کیٹگری کا فرق سمجھنے کے لیے دو بلوں کا موازنہ
200 یونٹس بل 3083
201 یونٹس بل 8154
فرق 5071
مطلب ایک یونٹ زیادہ استعمال کرنے کی صورت میں آپ کا بل 5071 روپے زیادہ آسکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ ریٹ آپ کو اگلے 6 ماہ تک مسلسل بھرنا ہوگا، مطلب ایک یونٹ آپ کو 30 ہزار کا پڑتا ہے۔
ہم 75 سال تک کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے دھواں دار ہوتے رہے، جبکہ ظالمانہ نظام سے آزادی کی سب سے زیادہ ضرورت ہمیں کو ہے۔

18/05/2024

چہرے پر میک اپ اور پاؤں پر دھول کی موٹی تہہ دو مختلف زاویے ضرور ہیں لیکن یہ ایک ہی فرد کی کہانی کا ابتدائیہ ہے
میری جگہ تم پیدا ہو جاتے تُو!
میں بھی ایک جیتی جاگتی انسان ہوں
حوس سے آگےبھی دُنیا بہت خوبصورت ہےمیرے دوست
خواجہ سراوں کی زندگی دہکتے انگاروں پر رقص کرتی ہے ۔شاید ہم اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں ان تڑپتی زندگیوں کے دکھ درد کا ادراک ہی نہیں بلکہ ہم کسی نہ کسی طرح ان انگاروں میں تپش بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ بالکل ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، ہماری ہی طرح سوچتے اورمحسوس کرتے ہیں لیکن انہیں انسان سمجھا نہیں جاتا۔ وہ جیتے تو ہیں مگر مر مر کے،سانس تو لیتے ہیں مگر گھٹ گھٹ کے،انہیں جینے کا حق تو ہے مگر اس کے لیے انہیں بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ان کے رنگ برنگے لباس،چمکتے زیورات،روشن ورنگین چہرے،کھنکتے پائل اورلڑکھڑاتے بل کھاتے بدن میں زندگی گھسٹتی تو ہے مگر دہکتے انگاروں پہ۔ان کی ظاہری چمک دمک کے پیچھے نجانے کتنی اندوہناک کہانیاں ہیں جنہیں سننے کی سکت شاید ہم میں نہ ہو۔ ہو سکتا ہے ہماری روح ان کہانیوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے۔ایسی کہانیا ں اسی دنیا میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں مگر شاید غم کے ان جھروکوں میں جھانکنے کی ہم میں ہمت نہیں یا ان کی طرف غور کرتے ہوئے ہمارے پر جلتے ہیں خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا اور کمزور طبقہ ہے جس کی کمزوریوں ، پریشانیوں اور دکھوں کا ہمیں احساس تک نہیں۔وہ پیدائش سے لے کر مرگ تک کس کرب سے گزرتے ہیں ہم اس پہ غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ یہ تو وہ محروم طبقہ ہے جسے اپنے حتیٰ کہ ان کےماں باپ بھی اپنانے سے ڈرتے ہیں۔اپنوں اور بیگانوں کی بے اعتنائیاں اور بے وفائیاں سینوں میں لیے مٹکتے ، ہاتھوں پہ ہاتھ مارتے اور لوگوں میں مسکراہٹ بانٹتے ان خواجہ سراوں کے حوصلےکی دادکون نہیں دے گا ۔ ان میں سے ایک ایک کی ایسی درد بھری کہانی ہے کہ سن کرشایدہی کوئی دردمند اپنے ٓانسو اور ہچکیاں روک سکے۔ویوں اور رجحانات کا شکار ہیں۔وہ پیدا ہوتے ہیں، بلوغت تو کیا شاید ابھی پہلی سانس بھی نہیں لے پاتے کہ ان سے نفرت کا آغاز ہوجاتا ہے۔طرح طرح کے حیلے بہانوں کے ذریعے ان سے جان چُھڑانے کے راستے نکالے جاتے ہیں۔ ذرا بڑے ہوں تو معاشرے، بہن بھائیوں اور والدین کا امتیازی اور دردناک رویہ انہیں ان “مکمل” انسانوں کی نام نہاد مہذب دنیا چھوڑ کر اپنے جیسے “نامکمل” لوگوں کے ساتھ شہرکےکسی کونے میں رہنے پر مجبور کردیتا ہے۔ رشتوں کے ٹوٹنے پہ انہیں بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی دوسرے لوگوں کو،ان کے بہن بھائی ان سے رابطہ رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ انہیں اپنے ماتھے کا کلنک سمجھتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اس معاشرے کے ماتھے کا کلنک خواجہ سرا نہیں بلکہ وہ بہن بھائی اور والدین ہیں جو معاشرے کے خوف سے انہیں خود سے جدا ہونے پہ مجبور کرتے ہیں۔بیمار ہو جائیں تو ان جیسے خواجہ سراوں کے علاوہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا، مر جائیں تو ان کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔باہر نکلیں تو طرح طرح کے طعنوں سے ان کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔نوجوان اپنی جوانی کے زعم میں ان پر آوازیں کستے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی کچھ متوالوں کا ضبط اور ظرف ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ان تماش بینوں کی سیٹیوں سے ان کی “تہذیب” چھلکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور تو اور چھوٹے بچےبھی ان کے گرد اس طرح طواف کرتے ہیں جیسے انہیں مفت کے کھلونے مل گئے ہوں۔ مگرکوئی اس محروم اور مظلوم طبقے کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں ٓاتا۔معاشرے کے تلخ اور غیر انسانی رویوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سراوں کی معاشی حالت بھی نہایت نا گفتہ بہ ہے۔ہمارے سماجی رویوں کی وجہ سے نہ وہ کسی ادارے میں کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی تعلیم ان کا مقدر بن پاتی ہے ۔معاشی طور پرانہیں کنارے سے لگا دیا گیا ہے ۔شادی بیاہ کی تقریبات، بچوں کی پیدائش یا کسی اور اہم دن پے یہ اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اور ناچ گا کے کچھ کما لیا کرتے تھے مگر اب ان رجحانات میں کمی کی وجہ سے ان کا یہ اہم ذریعہ معاش بھی تقریباَ ختم ہو گیا ہے۔حکومت کی طرف سے بھی ان کی معاشی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ ان کی تربیت اور تعلیم کے ایسا مراکز بھی نہیں جہاں یہ کوئی ہنر سیکھ کر اپنا معاش کما سکیں۔ایسے میں ان کے پاس بھیک مانگنے اور سیکس ورکرز کے طور پر کام کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ معاشرے کا یہی رویہ ان کے بدترین استحصال کا باعث بنتا ہے۔خواجہ سرا معاشرے کا وہ طبقہ ہے جن کے مسائل پہ بہت کم ہات ہوتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ بھی مکمل انسان ہیں اور ہمیں ان کی طرف اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔انہیں برابر کے حقوق اور معاشرے میں باوقار مقام دینے کی ضرورت ہے
تحریر اور آواز: شیخ عطاء الرحمٰن

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when SA Rehman posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share