Nuqta News, نقطہ نیوز

  • Home
  • Nuqta News, نقطہ نیوز

Nuqta News, نقطہ نیوز We share News papers of all over the country along with important news events on daily basis

08/10/2023
11/05/2023
18/04/2021

ایک شخص خود کے متعلق یوں کہے کہ :
"اجی! میں تو جاہل ہوں، میں بے عقل ہوں، میں عالم نہیں ہوں، میں عاجز ہوں، میں خاکسار ہوں، میں ناچیز ہوں، میں بے وقعت ہوں، اور میں ایک گندا بندہ ہوں ... "

اور جواب میں، اگر بالفرض آپ اسکی بات کی تصدیق میں اسے فرما دیں کہ :
"جی ہاں جناب! آپ نے درست کہا۔ بیشک آپ جاہل ہیں، آپ ناقص العقل ہیں، آپ بے علم ہیں، آپ عاجز ہیں، آپ خاکسار ہیں۔ بلاشبہ آپ ناچیز اور بے وقعت ہیں، نیز آپ نے بالکل صحیح کہا کہ آپ ایک گندے اور ناکارہ آدمی ہیں ... "

اب اگر ردّعمل میں وہ آپ سے ناراض ہو جائے، الجھنے لگے اور آپکو غصے سے دیکھنے لگے۔ تو یقین کر لیجئے کہ، جو کچھ اس نے اپنے بارے میں کہا تھا، وہ بطور کسر ِنفسی نہیں کہا، بلکہ بالکل ٹھیک ہی کہا تھا!

اور ہاں!
بندۂ پُرتقصیر و خطاکار کی اس بات کو، کسی پر آزمانے کے نتائج سے یہ عاصی بریُ الذمہ ہے 😢

(جی، جی ہنسنا سی!!! 😐😑)

14/10/2020

کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے, اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا بادشاہ اسے ان کتوں کے آگے پھنکوا دیتا کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر مار دیتے ایک بار بادشاہ کے ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو بلکل پسند نہیں آیا اس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو کتوں کے آگے پھینک دیا جائے وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور میں نے دس سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں, آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بےلوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف دس دنوں کی مہلت دیں پھر بلاشبہ مجھے کتوں میں پھنکوا دیں بادشاہ یہ سن کر دس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا اور جا کر کہا مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں اور ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا, رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا لیکن پھر اجازت دے دی ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے, اوڑھنے بچھونے, نہلانے تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ سر انجام دیئے دس دن مکمل ہوئے بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزیر ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا کیا ہوا آج ان کتوں کو ؟ وزیر نے جواب دیا, بادشاہ سلامت میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی اور یہ میرے ان دس دنوں میں کئے گئے احسانات بھول نہیں پا رہے, اور یہاں اپنی زندگی کے دس سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیئے لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گزاری کو پس پشت ڈال دیا ،،

بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا اس نے وزیر کو اٹھوا کر مگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیا

نتیجہ : جب اسٹیبلشمنٹ ایک بار فیصلہ کر لے کہ آپ کی بجانی ہے تو بس بجانی ہے یہ پیٹرول میں دو پیسے کم کرکے کتوں سے بچا لیں گے لیکن بجلی کا یونٹ دس روپے بڑھا کر آپکو مگرمچھوں کے آگے پھینک دے گے

لاسٹ بلیٹ

17/08/2020

شانِ عمرؓ فاروق ______________ حور

تاریخی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین شہر جب فتح ہونے جارہا تھا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے اپنے حاکم سے کہا کہ آپ آئیں اور شہر کا چارج سنبھالیں اور یہی شرط اس شہر کے حاکم نے بھی رکھی تھی کہ حاکم آئے گا تو اسے ہی شہر کی کنجیاں دی جائیں گی۔

چنانچہ حاکم نے آنے کی اطلاع کردی اور لوگ اس کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔

جس دن اس حاکم نے شہر میں داخل ہونا تھا، اس دن صبح سویرے لوگ اس کے استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دن چڑھے دور گرد کا غبار اٹھا تو لوگوں کو لگا کہ حاکم کی سواری آگئی۔ جب غبار چھٹی تو دیکھا ایک اونٹنی کی مہار تھامے ایک شخص پیدل چلا آرہا ہے جبکہ دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ پیدل چلنے والے کے جسم پر جو پوشاک تھی اس پر چودہ پیوند لگے تھے، پاؤں کیچڑ میں لت پت ہونے کی وجہ سے جوتے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اونٹنی کو کھینچتا آرہا تھا۔

سپہ سالار نے جب انہیں دیکھا تو پکار اٹھا، اے بیت المقدس والو، تیار ہوجاؤ، ہمارا حاکم عمرفاروق آن پہنچا۔

بیت المقدس والے رومی حکمرانوں کے ٹھاٹھ سے واقف تھے، یہ منظر ان کیلئے ناقابل یقین تھا، پوچھا کہ عمر وہ ہے جو اونٹنی پر سوار ہے؟ جواب ملا، نہیں، اونٹنی پر سوار تو کوئی خادم ہے، عمر وہ ہے جو پیدل چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔

لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، سپہ سالار نے اپنے سامان سے قیمتی پوشاک نکالی اور گھوڑا دوڑا کر عمر کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ یہ پوشاک پہن لیں تاکہ شہر والوں پر رعب پڑ سکے۔ عمر نے جواب دیا کہ عزت کا معیار اس پوشاک میں نہیں بلکہ اللہ کی فرمانبرداری میں ہے۔

جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ غلام اونٹنی پر سوار کیوں تھا؟
جواب ملا کہ سفر طویل تھا، ہمارے پاس سامان کے کچھ تھیلے تھے جن میں ستو، پانی اور کھجوریں تھیں، اونٹنی ایک تھی اور مسافر دو اور ایک وقت میں سامان کے ساتھ صرف ایک ہی بیٹھ سکتا تھا۔ طے ہوا کہ ایک منزل ایک مسافر اونٹنی پر سوار ہوگا اور دوسری منزل دوسرا مسافر۔ اتفاق یہ ہوا کہ جب بیت المقدس داخل ہونے لگے تو اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی، اس نے کہا بھی کہ وہ پیدل چل لے گا لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔

جی ہاں، یہ تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے رقبے کے حکمران تھے ۔ ۔ ۔

یہ تھے وہ صحابہ کہ جن کی تربیت خود نبی پاک ﷺ نے خود کی تھی۔ یہ دنیا اگر سات مرتبہ بھی بنائی جائے تو عمر جیسا ایک بھی حکمران پیدا نہ کرسکے گی کیونکہ عمر کے پاس اللہ کی ہدایت اور نبی ﷺ کی ٹریننگ تھی ۔ ۔ ۔

نبی ﷺ کے تمام صحابہ، خلفائے راشدین اور امہات المومنین ہمارے سر کے تاج اور رہنمائی کے روشن ستارے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔“ آمین

22/07/2020

عمر دراز ریسٹوران : لاسٹ بلیٹ

خوبی صحت اور دراز عمر کا جس سے بھی پوچھو الگ ہی بتاتا ہے کوئی صبح دم بیٹھک لگانے کی تلقین کرتا ہے تو کوئ دیسی گھی کو آب حیات کہتا ہے کوئ کہتا ہے ڈٹ کر اور دبا کر کھاؤ،،جب ایک داڑھ چلے ستر بلا ٹلے،،کوئ بھوکے پیٹ رہنے کا مشورہ دیتا ہے تو کوئ صبح صبح دوڑنے کا بھانت بھانت کی بولی،، آپ ٹی وی اور اخبار اور ریڈیو کے اشتہارات دیکھیں وہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں

ہمارا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے والا عمر بھر زندہ رہتا ہے،،ہمارا بناسپتی گھی کھائیں اور قیامت کے بورے سمیٹیں ،،،ہمارا صابن استعمال کرنے والا کھبی نہیں مرتا،،چورن لکڑ ہضم استعمال کیجیے حضرت نوح علیہ وسلم یہی استعمال کیا کرتے تھے،،
جتنے منہ اتنے ہی ہائے ہائے

پچھلے روز پیارے لال کا باورچی دوست اس سے ملنے آیا تو اپنے پہلوان نما صحت کا راز یہ بتا گئے کہ میں صبح صبح سر کے بل کھڑا ہوتا ہوں اور چنے چباتا ہوں ،، آج تک کھبی زکام بھی نہیں ہوا۔ ساتھ میں اپنے مگدر بھی لایا تھا انکو بھی اوپر نیچے کررہے تھے،،

پیارے لال کے ایک اور دوست خود اس بات سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی باورچی ہی ہے وہ کہتے ہے شہباز شریف بھی ایسے ہی صبح صبح سر کے بل الٹے کھڑے ہوتے ہیں اسلئے انکو دنیا کا ہر مسئلہ الٹا دکھائی دیتا ہے حتی کہ ایک دن یہ ایسے ہی مر جائے گا چنے کھانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ موصوف نے بات تو سولہ آنے ٹھیک کی ہے چنوں میں بڑی طاقت ہے اور اس سے صحت بھی ٹھیک ہوتی ہے لیکن گھوڑوں کی،،انسانوں کو یہ قبض کردیتی ہے۔ باڈی بنانے کے لیے مگدر بھی نہیں اٹھانے چاہیے اگر گر گئے تو پاؤں زخمی ہوسکتا ہے،،

میں نے اس سے پوچھا ویسے آپکی صحت بھی کافی اچھی ہے آپکی صحت کا راز،،،،،،؟
بولے،،،،،، چپلی کباب،،،!!
ہم نے کہا مزید۔۔۔۔!،،
بولے مزید چپلی کباب۔۔۔۔!!،،
ان دو حضرات سے باتیں کر کہ مجھے کافی علم ملا بلکہ علم کے دریا بہا دیے دونوں نے،ایسی نایاب گفتگو سے کم سے کم میں لاسٹ بلیٹ آپ دستک کے چاہنے والوں کو محروم نہیں کرسکتا،، آپ کی آسانی کے لیے میں نے ان سب چیزوں کو یکجا کردیا ہے،،

عمر دراز ریسٹورینٹ میں تشریف لائیں اور پاپڑوں کے ساتھ قسما قسم اچار نوش فرمائے،نہایت اعلی نسل کے چنوں کا بھی بہترین انتظام موجود ہےآپ کے لیے بھی اور آف کورس آپ کے گھوڑے کے لیے بھی،،چپلی کباب بھی نہایت عمدہ اور خالص گھی کے ملے گے،،اور سپر بمپر آفر کہ ان نایاب کھانوں کے ساتھ پنجابیوں کے لیے پان اور پٹھانوں کے لیے چٹکی بھر نسوار نیک نیتی کی بنیاد پہ بلکل فری،،،،جو صاحب مگدر ہلانا چاہے وہ اپنے مگدر ساتھ خود لائے،،سونے پہ سہاگہ کہ ہمارے ریسٹوران میں آپ سر کے بل بھی کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ آپ کے ذوق کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سر کے بل چل بھی سکتے ہیں کیونکہ ہمارا یہ ریسٹوران کوچہ رقیب میں واقع ہے اس عالم میں آپ اپنے محبوب کے رکشے یا موٹر سائکل کے نیچے بھی آجائے تو کوئ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔سرپرائز آفر یہ ہے کہ عمر دراز ریسٹوران نہایت ہی معقول معاوضے پہ آپکی تجہیز و تکفین کا بھی ذمہ لیتا ہے یاد رہے کہ ہماری اور کوئی برانچ نہیں ،،

پروپرایٹر
پیارے لال

19/07/2020

۲۰۱۸ کے حکیم باپ کی اپنے بیٹے کو نصیحت !

1- سگریٹ نوشی سے بچو.

2- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے.

3- بہت سستی چیزیں مت خریدو.

4- بچوں کو اپنے مزاج اور پسند کے مطابق جینے دو، انهیں بالکل اپنے جیسا بنانے کی کوشش مت کرو.

5- تنقید کرنے والوں کے پیچھے پڑ کر اپنا وقت برباد مت کرو

6- کسی سیاست دان پر کبھی اندھا اعتماد مت کرو.

7- جب کسی سے گاڑی ادھار لو تو پورا تیل بھر کر ہی واپس کرو.

8- موبائل کہیں تمہاری زندگی کے خوبصورت لمحات ميں خلل انداز نہ ہو کیونکہ موبائل تمہاری اپنی راحت و سکون کے لئے ہے نہ کہ دوسرے کی.

9- کام مکمل کرنے سے پہلے مزدوری نہ دو.

10- جو تم سے زيادہ مالدار یا غریب ہو اس کے سامنے اپنی دولت کا تذکرہ نہ کرو.

11- دوستوں کو قرض دینے ميں محتاط رہو کیونکہ ممکن ہے قرض اور دوستی دونوں سے ہاتهہ دھو بیٹھو.

12- مخاطب سے اس کی تنخواہ کے متعلق مت پوچھو.

13- ہرچیز لکھ لیا کرو. اپنے دماغ پر ہمیشہ بھروسہ مت کرو.

14- بچے کو سزا اس کے جرم کے مطابق دو.

15- قرض اسے دو جو بغیر مانگے واپس کر دے.

16- ہر کوئی تعریف پسند ہوتا ہے اس لئے کسی کی تعریف کرنے ميں بخیلی نہ کرو.

17- کسی سے اختلاف یا بحث و مباحثے کے وقت اپنے اخلاق اور سلیقہ مندی کا دامن نہ چهوڑو.

18- اپنے علم کو پھیلاؤ اور لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچاو کیونکہ ہمیشہ زندہ رہنے کا یہی واحد راستہ ہے.

19- اپنی ذاتی یا مالی تفصیلات کا اظہار بقدر ضرورت ہی کرو.

20- اگر کوئی تمہارے دوست کی تعریف کرے تو اپنے دوست سے ضرور اس کا ذکر کرو.

21- اگر کوئی تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تو تم اس کے بچے کے ساتھ احسان کر کے اسے سبق سکھاؤ.

22- شادی اس سے کرو جو مال و دولت میں تمہارے برابر یا تم سے کمتر ہو.

23- کوئی چیز جب تمہیں دو بار ادھار لینے کی ضرورت پڑے تو وہ چیز بازار سے خرید لو.

24- روزانہ آدھا گهنٹہ چہل قدمی کرو.

25- تمہاری گهڑی وقت سے پانچ منٹ آگے رہنی چاہیے.

26- تصنع اور بناوٹ سے دور رہو.

27- معمولی چیزوں میں بحث و تکرار مت کرو.

28- جہاں بھی رہو وہاں اپنا اچھا اثر چهوڑنے کی کوشش کرو.

عربی سے منقول

25/06/2020

لبرل بیوی جنت میں : لاسٹ بلیٹ

بھائی فجر کی نماز ادا کرنےکے بعد دعا مانگ رہا تھا... بھابھی کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے مجھے بھی اور انکو بھی دیکھ رہی تھیں...

اچانک ان کی طرف سے بھائی پہ سوال فائر ہوا..

"یہ اتنے خشوع و خضوع سے اللہ میاں سے کیا مانگا جارہا تھا؟"

" میرے لیے دوسری بھابھی" میں نے کہا

" چھپ کر نالائق" بھابھی نے آنکھیں نکال کر کہا

بھائی نے جائے نماز کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا.

"میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ مجھے جنت میں بھی یہی بیوی چاہئیے ... اسی کا ساتھ چاہئیے"

بھابھی کے منہ سے خوشی کے مارے نکلا.

"سچی؟"

بھائی نے ہنستے ہوئے کہا

"مچی"

پھر ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بھائی نے کہا...

"مگر آپ کو بھی وہاں اپنی پالیسیاں کچھ ڈھیلی کرنی پڑیں گی...

کچھ لبرل ہونا پڑے گا"

بھابھی نے حیرت سے دیکھا .

"کیا مطلب؟"

بھائی نے کہا...

"مطلب یہ کہ فرض کریں اگر وہاں کوئی حور مجھ سے بات کر رہی ہے... یا میرا سر دبا رہی ہے یا میرے پیر دبا رہی ہے... تو آپ مائنڈ مت کیجئے گا... ایک لبرل بیوی کی طرح"

بھابھی نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا...

"گلا نہ دبا دوں اس حور کا ... جاکر ڈنڈا اٹھا لا بلیٹ ...

میں بیٹھا یہ سب سن رہا تھا اٹھ کر بھائی کے پاس آکر اقبال کا مصرع پڑھا ،،

"تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا... نہ وہ دنیا"

اور سب ہنسے لگے

12/06/2020

👈 *برصغیر میں انگریزوں کے مقصد* 👉

کچھ دن پہلے ٹی وی پر چائے کا اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
صرف چائے، صرف اشتہار

اشتہار میں پوشیدہ انتہائی گہرے مطلب پر غور کریں۔

لڑکی کچن میں ہے، اچانک اس کا منگیتر دیوار پلانگ کر اندر آتا ہے (محض چائے)۔

لڑکی بالکل مطمئن ہے۔ پوچھتی ہے۔ شادی تک انتظار بھی نہیں کر سکتے ؟ (صرف چائے کا اشتہار)

لڑکا نہایت ڈھٹائی سے۔ چائے کی یاد آرہی تھی۔

لڑکی چائے بناتی ہے اسے پلاتی ہے کچن میں۔

اب لڑکا واپس چپکے سے ان کے گھر سے نکلنے لگتا ہے۔ کہ سامنے لڑکی کے والدین کو پاتا ہے۔

نا والدین حیران، نہ لڑکا لڑکی پریشان ؟

والدہ مسکراتے ہوئے - دیکھا ؟ میری بیٹی کا کمال ؟؟؟
والد غیرت مند محترم ۔ نہیں۔ سب چائے کا کمال۔۔۔۔۔۔

یاد رہے کہ یہ ہماری تہزیب، دین اور اقدار کی دھجیاں صرف اک چائے کے اشتہار میں اڑائی گئیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا اس افئیر دکھانے کے بغیر چائے کی ایڈورٹائزمنٹ ادھوری تھی ؟

ہمارا میڈیا ہمیں اور ہمارے معصوم ذہنوں کو کیا دکھا رہا ہے ؟ اب تو یہ سب کامن ہوگیا ہے۔ کیا ہوا، اشتہار ہی تو ہے۔

اور آج ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ بچے کیوں محفوظ نہیں، ہم سوچتے رہتے ہیں کہ اخلاقی اقدار کدھر گئی

اس سارے سین کو دیکھتے ہوئے مجھے لارڈ میکالے کا وہ جملہ یاد جاتا ہے کہ اس برصغیر میں ہمارا مقصد ایسے نوجوانوں کی تیاری ہے جو بظاہر تو مسلمان ہوں لیکن تھذیب و تمدن میں کافر۔

منقول

10/06/2020

ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیر کروایا جس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔
ایک مرتبہ ایک کتا کسی نہ کسی طرح اس محل میں جا گھسا
رات کے وقت محل کا رکھوالا محل کا دروازہ بند کر کےچلا گیا لیکن وہ کتا محل میں ہی رہ گیا کتے نےجب چاروں جانب نگاہ دوڑائی تو اسےچاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں کتے نظر آئے
اسے ہر آئینے میں ایک کتا دکھائی دے رہا تھا اس کتےنےکبھی بھی اپنے آپ کو اتنے دشمنوں کے درمیان پھنسا ہوا نہیں پایا تھا اگر ایک آدھ کتا ہوتا تو شائد وہ اس سے لڑ کر جیت جاتا لیکن اب کی بار اسے اپنی موت یقینی نظر آ رہی تھی ۔۔
کتا جس طرف آنکھ اٹھاتا اسے کتے ھی کتے نظر آتے تھے اوپر اور نیچےچاروں طرف کتے ہی کتےتھے۔۔ کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانا چاہا۔
دھیان رہے آپ جب بھی کسی کو ڈرانا چاہتے ہیں آپ خود ڈرے ہوئے ہیں ورنہ کسی کو ڈرانےکی ضرورت ہی کیا ہے؟

جب کتے نے بھونک کر ان کتوں کو ڈرانےکی کوشش کی تو وہ لاکھوں کتے بھی بھونکنے لگے اس کی نس نس کانپ اٹھی
اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سےگھر چکا تھا آپ اس کتے کا درد نہیں سمجھ سکتے جب صبح چوکیدار نے دروازہ کھولا تو محل میں کتے کی لاش پڑی تھی اس محل میں کوئی بھی موجود نہ تھا جو اسے مارتا محل خالی تھا لیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے وہ خون میں لت پت تھا اس کتے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟؟؟
خوف کےعالم میں وہ کتا بھونکا جھپٹا دیواروں سے ٹکرایا اور مر گیا ۔۔
آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کے سبھی تعلقات سبھی حوالے آئینوں کی مانند ہیں ان سب میں آپ اپنی ہی تصویر دیکھتے ہیں۔
غور کریں اور دیکھیں کہ۔۔۔۔
نفرت سے بھرا آدمی یہ دیکھ رہا ہے کہ سب لوگ اس سےنفرت کرتے ہیں
لالچی آدمی کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب اس کو لوٹنے کے منصوبے بنا رہے ہیں وہ اپنے لالچ کی تصویر دنیا کے آئینہ خانے میں دیکھتا ہے
شہوانیت کا مریض سوچتا ہے کہ ساری دنیا اسےجسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے
فقیر کہتا ہے کہ ساری دنیا ایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ چھوڑ دو سب کچھ بھاگ جاؤ دنیا سے۔۔
آپ جو کچھ بھی ہیں وہی کچھ آپ کو اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتا ہے اور سارا جگ آئینہ ہے جس میں آپ کو اپنا آپ ہی دکھائی پڑ رہا ہوتا ہے
حیدر علی

05/06/2020

میرے دوستو آج وہ چند اہم باتیں جو کسی بھی باشعور انسان کی سمجھ کو زندگی کی اصل حقیقت سے روشناس کروا سکتی ہیں، آپ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے جا رہا ہوں ...

■ کنارے پر تیرنے والی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا۔ بوجھ جسم کا نہیں سانسوں کا تھا ...

■ سفر کا مزہ لینا ہو تو، ساتھ سامان کم رکھیئے اور زندگی کا مزہ لینا ہو تو دل میں ارمان کم رکھیئے ...

■ زندگی کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ آج تک یہاں سے زندہ بچ کر کوئی نہیں گیا ...

■ دیکھا گیا ہے کہ جن کے پاس صرف سکٌے تھے وہ مزے سے بھیگتے رہے بارش میں، اور جن کے پاس نوٹ تھے وہ چھت کی تلاش میں رہ گئے ...

■ پیسہ انسان کو اوپر لے جا سکتا ہے، لیکن میرے پیارو یاد رہے کہ انسان پیسہ اوپر نہیں لے جاسکتا ۔۔۔

■ میرے دوستو کمائی چھوٹی یا بڑی ہوسکتی ہے، پر روٹی کا سائز لگ بھگ سبھی گھروں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے ...

■ انسان چاہتا ہے، اڑنے کو پر ملے، جب کہ اڑنے والے پرندے سوچتے ہیں کہ رہنے کو گھر ملے ...

■ کام سے ہی پہچان ہوتی ہے انسان کی۔ مہنگے کپڑےتو "پُتلے" بھی پہنتے ہیں دوکانوں میں ...

04/06/2020

جارج فلویڈ ایک سیاہ نسل امریکی تھا۔ اس نے فلسطین سے تعلق رکھنے والے محمود ابو میالہ کی دکان سے کوئی چیز خریدی اور اسے 20 ڈالر اس کی قیمت ادا کی۔ ابو میالہ کو لگا کہ یہ نوٹ جعلی ہے۔ اس نے پولیس کو فون کیا اور فلویڈ پر الزام لگایا کہ :
" "

پولیس موقعہ پر حاضر ہوئی اور وہ واقعہ پیش آیا جس نے امریکہ کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ فلویڈ ایک سیاہ فام امریکی پولیس کے گھٹنوں کے نیچے دم گھٹنے سے فوت ہو گیا جبکہ وہ مسلسل چیخ رہا تھا :
" "

امریکہ جل گیا۔ ابومیالہ کی دکان کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ بعد میں تحقیق سے پتا چلا کہ فلویڈ کا دیا ہوا 20 ڈالر کا نوٹ اصلی تھا اور ابومیالہ کا الزام درست نہیں تھا ...

میرے پیارو! 20 ڈالرز دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کو ختم کرنے کے لیے شاید کافی تھے۔ وہ اربوں ڈالرز جو ٹرمپ دودھ دیتی گائے سے نکال لے گیا تھا اور وہ اربوں ڈالرز جو کمزور قوموں کا استحصال کر کے چوری کر کے لے گیا تھا، اس 20 ڈالرز کے سامنے بے بس دکھائی دئیے۔ شاید نمرود کا قصہ آج کے حالات کے مطابق پھر سے تکرار ہو رہا ہے۔ وہاں ایک مچھر تھا، یہاں 20 ڈالرز ...

04/06/2020

یہ یوگنڈا کے صدر کی حالیہ تقریر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کے سلسلے میں ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے پہ تنبیہہ کرتے ہوئے کی

" خدا کو بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ اسے پوری دنیا کا نظام دیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے پاس ( #معاااذاللہ) اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ صرف یہاں یوگنڈا میں بیٹھ کر احمقوں کی نگہداشت کرے ...

جنگ کے زمانے میں کوئی کسی سے نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہوجائیں۔ آپ برضا و رغبت نہ صرف گھروں میں مقید ہوجاتے ہیں بلکہ اگر آپ کے پاس بیسمنٹ ہو تو آپ حالات بہتر ہونے تک خود کو وہیں تک محدود کرلیتے ہیں ...

جنگ کے دنوں میں آپ آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے۔ آپ اپنی زندگی کی خاطر اپنی آزادی قربان کر دیتے ہیں۔ دوران جنگ آپ "بھوک" کا شکوہ نہیں کرتے۔ آپ اس امید پہ بھوکا رہنا گوارہ کرتے ہیں کہ زندگی رہی تو پھر باہر نکل کر کھا لیں گے ...

جنگ کےدوران آپ اپنا کاروبار کھولنے کا مطالبہ نہیں کرتے۔آپ اپنی دوکانیں بند کردیتے ہیں۔ اگر اس کا بھی وقت ملے تو اور یہ دعا کرتے ہیں کہ جنگ سے بچ جائیں اور واپس آ کر کاروبار دوبارہ شروع کرلیں گے بشرطیکہ اس دوران دوکان لوٹ نہ لی گئی ہو یا مارٹر کے گولوں سے تباہ نہ ہو گئی ہو ...

دوران جنگ آپ ہر نئے دن پہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک اور دن آپ کو زندہ رکھا۔ دوران جنگ آپ اس بات پہ قطعاً پریشان نہیں ہوتے کہ آپ کے بچے اسکول نہیں جا رہے، آپ یہ دعا مانگتے ہیں کہ حکومت ان کی جبری بھرتی کر کے اسی اسکول کی حدود میں جو اب فوجی ڈپو بنا دیا گیا ہے عسکری تربیت کے لیے نہ بلالے ...

دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ایسی جنگ جو بندوقوں اور گولیوں کے بغیر لڑی جارہی ہے۔ ایسی جنگ جس میں جنگی سپاہی نہیں ہیں، ایسی جنگ جس کی کوئی سرحد نہیں، ایسی جنگ جس میں کسی جنگ بندی کے معاہدے کی کوئی امید نہیں، ایسی جنگ جس میں جنگی منصوبہ بندی کے لیے کوئی " " نہیں ہے ...

اس جنگ میں لڑنے والی فوج بےرحم ہے۔ اس میں انسانی ہمدردی کا کوئی عنصر قطعاً نہیں پایا جاتا۔ اس کے دل میں بچوں، عورتوں یا عبادت گاہوں کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ فوج جنگ کی تباہ کاریوں سے لاتعلق ہے۔ اسے حکومت یا نظام حکومت بدلنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسے زیر زمیں دستیاب معدنی وسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اسے مذہب، فرقے یا کسی خاص نظریاتی تسلط سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی خاص نسل کی برتری اس کا مقصد نہیں۔ یہ نادیدہ اور ظالمانہ حد تک موثر فوج ہے ...

اس کا مقصد صرف اور صرف "موت" ہے۔ اس کی شکم سیری ساری دنیا کو موت کا میدان بنانے سے ہی ہوگی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی صلاحیت شک و شبہ سے بالا ہے۔ زمین پہ کسی خاص جگہ پہ بنیاد یا کسی جاسوسی کےنظام کے بغیر یہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔ اس کی نقل و حرکت کسی جنگی قواعد کے ماتحت نہیں۔ مختصراً یہ اپنی ذات میں خود "قانون" ہے۔اسے COVID-19 بھی کہا جاتا ہے۔.کیونکہ اس نے اپنی تباہ کاریوں کا آغاز 2019 میں کیا ہے ...

اللہ کا شکر ہے کہ اس فوج کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں اور اسے شکست دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمارے اجتماعی اقدامات، تنظیم اور روادری کی ضرورت ہے۔ COVID-19 سماجی فاصلوں میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ صرف اسی صورت میں پنپ سکتا ہے اگر آپ اس سے رابطے میں آئیں اور اس سے محاذآرائی کریں۔ یہ محاذ آرائی کو پسند کرتا ہے۔ یہ اجتماعی طور پہ سماجی اور جسمانی دوری کی صورت میں ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔ یہ بالکل معذور ہوجاتا ہے۔ جب آپ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور انہیں حتی الامکان "سینیٹائز" کرتے رہتے ہیں۔

یہ ضدی بچوں کی طرح روٹی مکھن کے لیے رونے پیٹنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مقدس کتاب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ انسان صرف روٹی پہ ہی زندہ نہیں رہ سکتا ...

تو آئیے! ہم اطاعت گذار بنیں اور خالق کی ہدایات پہ عمل پیرا ہوں۔ آئیے کہ ہم COVID-19 کی قاس کو چپٹا کریں۔ صبر کا مظاہرہ کریں۔ بہت جلد ہم اپنی آزادی، سماجی و کاروباری زندگی دوبارہ حاصل کرلیں گے۔ ایمرجنسی کے دوران ہم دوسروں کی خدمت اور دوسروں سے محبت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو ... "

میرے پیارو! مجھ کم فہم فرحان کی ناقص رائے کے مطابق کرونا وائرس کے بارے میں اب تک اتنی جامع اور دانشورانہ تقریر کسی نے نہیں کی۔ اس عظیم لیڈر کو سلام

03/06/2020

چاپانی_طرز_زندگی ____________

ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﻼﺱ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭘﻨﺠﻢ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻀﻤﻮﻥ "ﺍﯾﭩﯿﮑﯿﭩﺲ" ﮐﮯﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﺮﯾﮉ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﻧﺎ ﮬﮯ؟ ﯾﮧ ﺳﯿﮑﮭﺘﺎ ﮬﮯ ۔

ﭘﮩﻠﯽ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﮉﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺁﭨﮭﻮﯾﮟ ﺗﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﻓﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎﺟﺎﺗﺎ ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺗﺮﺑﯿﺖ ،ﻣﻌﻨﯽ ﻭ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﮑﮭﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺻﺮﻑ ﺭﭨﻨﺎ ﺭﭨﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔

ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﻤﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺩﻡ ﺍﻭﺭ ﺁﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﺑﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﮨﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻭ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺑﭽﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ۱۵ ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺪﺭﺳﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻧﺘﯿﺠﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﻋﺠﺰ ﻭ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭ ﮐﺎ ﭘﯿﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺳﺘﮭﺮﺍﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﯿﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ ۔

ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﻮﺗﮫ ﺑﺮﺵ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻣﺪﺭﺳﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻔﻈﺎﻥ ﺻﺤﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﻠﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔

ﻣﺪﺭﺳﮧ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﻨﺘﻈﻤﯿﻦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﻗﺒﻞ ﺧﻮﺩ ﯾﮩﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﻘﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻋﻤﻠﮯ ﮐﻮ "ﮨﯿﻠﺘﮫ ﺍﻧﺠﻨﺌﯿﺮ " ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮨﺎﻧﮧ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ۵۰۰۰ ﺳﮯ ۸۰۰۰ ﮈﺍﻟﺮ ﺗﮏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻭﺭﮐﺮﺯ ﮐﻮ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﭨﯿﺴﭧ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺟﺎﺏ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ۔

ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯼ، ﮨﻮﭨﻠﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ۔ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻣﯿﮞﺴﺎﺋﻠﻨﭧ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﺧﻼﻕ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ۔

ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ۔ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ۔

ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻞ ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﭧ ﮨﻮﻧﮯﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﺎ ﺗﻨﺎﺳﺐ ﺻﺮﻑ ۷ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﭘﺮ ﺍﺋﯿﺮ ﮬﮯ۔ ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﻗﻮﻡ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﻤﺖ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﭧ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ..!

03/06/2020

معذرت
شہر میں 36 گھنٹے انٹرنیٹ معطلی کے باعث پوسٹ نہیں کر سکا بندہ عاجز۔۔۔

01/06/2020

عورت __________________

اگر یہ بیوی کے روپ میں تھی ،
تو فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کے دے دیتا
اگر یہ بیٹی کے روپ میں تھی ، تو نہ صرف کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا جاتا ، بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔
بہن کے روپ میں تھی تو فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی ، تم پیغام بھجوا دیتی ، میں سارے قیدی چھوڑ دیتا۔
ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی ، اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی۔ فرمایا گیا صحابہ کاش میری ماں زندہ ہوتی ، میں نمازِ عشاء پڑھا رہا ہوتا ، میری ماں ’’ ابنی محمد ‘‘ پکارتی ، میں نماز چھوڑ کے اپنی ماں کی بات سنتا۔
عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دورانِ جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرأت مختصر کر دی۔

جس عورت کو ماں ہونے کے باوجود میلے میں بیچ کر بیٹے رقم بانٹ لیتے تھے ، جس عورت کو شوہر کی میت کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا ، باپ بیٹی دفن کرکے فخر محسوس کرتا تھا ،
اسلام ہے جس نے اسے عزت و تکریم دی۔

لیکن

موجودہ معاملہ مرد و عورت کی لڑائی یا حقوق کا ہے ہی نہیں ۔ یہ سارا تماشہ ہمارے رشتوں کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ ہماری بہن بیٹیوں سے حیاء کا لباس چھیننا ہے۔
اللہ ہماری نسل کی حفاظت فرمائے
آمین ثم آمین

31/05/2020

رات کا پچھلا پہر تھا۔ دنیا میٹھی نیند میں تھی، دو آدمی اپنی نیند قربان کرکے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ ایسے میں انہیں چوک میں کوئی کھڑا نظر آیا۔ وہ سرکاری لیمپ کے نیچے کھڑا تھا۔
یہ اس کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا، وہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے دیکھا، وہ اپنا سبق یاد کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا:
"کیا تم دن کے وقت مدرسے میں نہیں پڑھتے کہ رات کے وقت یہاں کھڑے سبق یاد کر رہے ہو؟"
اس کی بات سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا:
"میرے والد مسلمانوں کے بادشاہ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں، میرے والد ہمارے لیے کوئی سرمایہ نہیں چھوڑ گئے۔ اس لیے میری والدہ سارا دن ٹوکریاں بناتی ہیں، میں ان کو بازار میں بیچتا ہوں۔ اس لیے دن میں میرے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ میں روزانہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد محلے کے قاری صاحب سے سبق لیتا ہوں، رات کو یاد کرکے صبح انہیں سنا دیتا ہوں۔ میرا اور بادشاہ کا فیصلہ تو اللہ کی عدالت میں ہوگا۔۔۔ ۔ میں وہاں بادشاہ کا گریبان پکڑ کر عرض کروں گا، یا رب العزت! اس بادشاہ نے تیرے راستے میں شہید ہونے والے مجاہد کے گھرانے کی ذرا بھی خبر گیری نہیں کی۔ اس کے محل میں تو ہزار ہا چراغ جلتے تھے، لیکن مجھے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری لیمپ کی روشنی میں پڑھنا پڑتا تھا۔"
ان دو آدمیوں سے ایک خود بادشاہ تھا۔ وہ بچے کی باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا:
"میں ہی تمہارا بادشاہ ہوں۔ اے لڑکے مجھے معاف کردے۔ اگر تو نے میری شکایت اللہ تعالیٰ کے دربار میں کردی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔"
ساتھ ہی اس نے فرمان جاری کیا:
"اس بچے اور اس کی والدہ کو شاہی محل میں جگہ دی جائے، اسے شہزادوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جائے۔"
دنیا اس بادشاہ کو سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔

30/05/2020

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺑﻦ ﺟﺮﺍﺡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺷﺎﻡ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍکثر ﻋﻼﻗﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ میرے دوستو! ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺭﺩﻥ، ﺷﺎﻡ، ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ اور ﻟﺒﻨﺎﻥ، لیکن ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﯾﮧ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻋﻼﻗﮯ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺑﮧ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺑﻦ ﺟﺮﺍﺡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺗﮭﮯ ...

عزیز دوستو! ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﺻﻮﺑﮧ ﺑﮍﺍ ﺯﺭﺧﯿﺰ ﺗﮭﺎ، ﻣﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﺭﯾﻞ ﭘﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﻋﻼﻗﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﯾﮏ مرتبہ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺷﺎﻡ ﺩﻭﺭﮦ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻئے۔ دورہء شام ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ کہ :
" ﺍﮮ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎہتا ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎئی ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮں ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺭہتے ہو ...؟ "

ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍ ﯾﮯ ﺻﻮﺑﮧ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﻭﺍﻧﯽ ہے، ﺍﺱ لیے ﺍﻧﮑﺎ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﻣﺎﻝ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ :
" ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﭽﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ... "

ﺗﻮ جناب ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
" "

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺐ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺧﺘﻢ ہو گئی ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ فاروق ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ کہ :
" ...؟ "

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
" "

میرے پیارو! ﭘﻮﺭﺍ ﺩﻣﺸﻖ ﺷﮩﺮ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺳﮯ ﺟﮓ ﻣﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ۔ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﺍ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺳﻮائے ﺍﯾﮏ ﻣﺼﻠّﮯ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﻈﺮ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
" ﺗﻢ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ہو ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺯﻭﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺮﺗﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ نہیں ہے، ﺗﻢ یہاں ﮐﯿﺴﮯ ﺭہتے ہو ...؟ "

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ کہ :
" ﺍﮮ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ! ﺍﻟﺤﻤﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ کا ﺳﺎﺭا ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻣﯿﺴﺮ ہے، ﯾﮧ ﻣﺼﻠﯽ ہے ﺍﺱ ﭘﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﺎ ہوں ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ہوں ... "

ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮭﭙﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﻧﮑﺎﻻ ﺟﻮ ﻧﻈﺮ نہیں ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
" "

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺑﺮﺗﻦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﺍ ہوﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﺑﮭﯿﮕﮯ ہوئے ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
" ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺗﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺭہتا ہوﮞ، ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺮﺻﺖ ﻧﮩﯿﮟ ہوﺗﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ہوں ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺳﻮﮐﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺑﻮ ﺩﯾﺘﺎ ہوں ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ہوں ... "

ﺟﻨﺎﺏ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁ ﮔﺌﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
" ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ہی ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﮑﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﭽﻮﮌﻧﮯ کے ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﮔﺎ ... "

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ فاروق ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ تعالٰی ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ :
" ﺍﮮ ﺍﺑﻮ ﻋﺒﯿﺪﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﺱ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﯽ ﺭﯾﻞ ﭘﯿﻞ ﻧﮯ ہم ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ، ﻣﮕﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺗﻢ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ہو ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮐﻮئی ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻻ ... "

عزیز دوستو المختصر و مقصود تحریر منجانب بےعمل یہ کہ دعا فرمائیے کہ رب کریم مجھ ریا کار سمیت ہم تمام مسلمانان عالم کو بھی حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسا بنا دے اور ایسی ہی حالت میں ہم سب کا خاتمہ فرمائے آمین ثمہ آمیـــــــــــــــــن

29/05/2020

عربی اور ہم

ھم پردیسی ھوئے تو بھای اور بھابھی دونوں نے سب سے پہلا سبق پڑھایا کہ جب بھی کوئی آپ سے بات کرے تو آپ نے اسے جواب دینا ھے ” انا عربی ما اعرف ” یعنی مجھے عربی نہیں آتی ھم مخاطب کو جب عربی لہجے میں تجوید کے پورے مخارج کا خیال رکھتے ھوئے بتاتے کہ ھمیں عربی نہیں آتی تو وہ بھی سھیل وڑائچ کی طرح حیران ھو کر پوچھتا کہ عربی بول کر کہتے ھو کہ عربی نہیں آتی ،، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ھے ؟ ھم اسے عربی کہہ کر اپنا چہرہ اپنے دائیں ھاتھ کی ہتھیلی پر لٹا کر اور آنکھیں بند کر کے سمجھاتے کہ ، اس کے بعد ھماری عربی سو گئ ھے ،،

دس تک گنتی سکھائی گئ جس میں ھمیشہ تسعہ(نو) اور ستہ (چھ) نے کنفیوز رکھا ،، ھم ستہ کی جگہ تسعہ کہہ دیا کرتے تھے ،، آخر ھم نے عربی سیکھنے کا ایک کریش پروگرام شروع کیا ،،جس کے لئے طوطا کریسی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا ،، طوطے کو بات چیت پر مجبور کرنے اور پھر کچھ سکھانے کے لئے سبز مرچ کھلائی جاتی ھے ،، بس کھا کر اسے جب مرچیں لگتی ھے تو وہ ٹیں ٹیں کرتا ھے ، اس وقت اسے الفاظ پکڑائے جاتے ھیں کہ ” میاں مٹھو چوری کھاسیں ” یا گڈ مارننگ ،، مگر اصل میں وہ طوطا کہنا چاہتا ہے تواڈی پین دی سری یعنی گالیاں دینا چاھتا ھے اور آپ اس سے مثبت کام لے لیتے ھیں ،وہ ھم پہ اعتبار کر کے سمجھتا ھے کہ یہ جملہ بولوں گا تو مرچیں ختم ھو جائیں گی اور ھم اس کے اعتماد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں ،،پڑوس کے ایک عربی لڑکے کو ھم سارے دوست و بھای گھیر لیتے اور اسے خوب تنگ کرتے ،، جس پر وہ جتنی گالیاں دیتا وہ ھم نوٹ کر لیتے اور شام کو بھائی سے ان کا ترجمہ پوچھتے مگر وہ ایسے بچوں کے ساتھ گھومنے سے منع کرتے جو اس قسم کی عربی بولتے ھیں ، ھمارے ساتھ ھمیشہ یہی واردات ھوتی رہی جب اردو سیکھنے کی کوشش کی تو اردو بولنے والے ایک لاہوری نے بھی گالی سکھا کر دوسرے مچھندر قسم کے اردو بولنے والے کے پاس بھیج دیا کہ پریکٹیکل کر کے آؤ، جب تک ھم اس اردو بولنے والے کو یہ سمجھاتے کہ ھم اردو زبان کے طالب علم ھیں تب تک وہ ھمارے کان لال کر چکا تھا خیر ھم جوابی عربی بھی اس کے ساتھ بولا کرتے جو عموماً گلاساً وۜ چمچًا وَۜ کھیراً و پلیٹاً و‍ۜ حلوی الکتاب و کُکڑ الذین و سیویاں ھُو و دالُہ پر مشتمل ھوتی ،، مگر اس بات کا خاص اھتمام ھوتا کہ لہجہ عربی ھی نظر آنا چاھئے ،،ھماری عربی سن کر اس ” تُلُنگے” عربی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ، تُلُنگا نام اس کو نہایت کمزور اور پتلا ھونے کی وجہ سے ھمارے بھائی نے دیا تھا ،، آخر تنگ آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ یہ لڑکے مجھے تنگ کرتے ھیں ،، اس کا والد سعودی پولیس میں کام کرتا تھا ،،

بھابھی بیمار ھو کر اسپتال داخل تھیں اور ھمیں چالیس دن کی اسکی بیٹی کو سنبھالنا پڑ رھا تھا ،، اس شدید گرمی میں ھم لکڑی کے بنے کمرے میں کہ جس کا فرش کچا اور ریتلا تھا ، ایک گڑھا کھودتے پھر اس کی ریت کو پانی سے بھر کر ٹھنڈا کرتے ،، اور پھر اس پیاری سی حسینہ کو اس میں لٹاتے ،، یہ ہمارا اپنا دماغی کارنامہ تھا ،، نیڈو کا پاؤڈر دودھ فیڈر بنا کر پلاتے ، اور پانی چولہے پہ رکھ کر چاول ڈال دیتے جو کہ ابل ابل کر پانی اندر ھی خشک ھو جاتا اور چاول بھات بن جاتے ،، بھائی بھی صبر شکر کر کے کھا لیتے ،، مگر وہ سمجھ نہیں پائے کہ چاول کا یہ نہایت ہی اعلی ترین بھُرتہ ھم کیسے بناتے ھیں ،، آخر انہوں نے پوچھ ھی لیا کہ یہ چاول ھی ایسے ھیں یا تم ان کے ساتھ کوئی خاص حرکت کرتے ھو ؟ ھمارا نہایت ہی نایاب و قیمتی فارمولہ سن کر انہوں نے سمجھایا کہ کھوتے دیا چاول جب ابل جائیں تو پانی نکال دیتے ھیں ،،

ایک دن ھم تو چاول پکانے میں لگے ھوئے تھے ،، ادھر عربی کلاس کا وقت بھی ھو گیا ،،عربی سیکھنا جہاد ہی ہوگیا تھا ھم نے چھوٹے بھتیجے کو ھی جہاد پر بھیج دیا کہ آج آپ اکیلے ھی جاؤ،، وہ بھی ” چل چل رے نوجوان ،ڈرنا تیرا کام نہیں ،لڑنا تیری شان پڑھتا ھوا چلا گیا ،،

مگر ابھی ھم نے پانی والا دیگچہ رکھا ھی تھا کہ ،، ٹھاہ ٹھاہ ،، تڑال تڑال ،دھما دھما ،، اور رونے دھونے اور ھائے مر گیا ،، اوی بچاؤ،، کی آوازیں آنا شروع ھوئیں ،، ھم باھر دوڑے کہ مسئلہ کیا ھے ؟ کہیں تُلُنگہ آج ڈاکٹر جیکل والا عفریت تو نہیں بن گیا ،،،،،،،

دور سے دیکھا کہ اس تُلنگے کا باپ شرطے کی وردی میں ،، ہمارے چھوٹے بھتیجے کی سروس کر رھا ھے ،، دراصل اس کا باپ چھپ کر دیکھتا رھا ،جونہی میرے بھتیجے نے اس کے بیٹے کا رستہ روکا وہ چیل کی طرح دروازے سے نکلا اور سارے بدلے چکا لئے ،، ھمارے خون نے بھی بے انتہا جوش مارا ،مگر ھم نے اس کا گیئر تبدیل کر کے ریورس میں کر لیا اور دروازے کی اوٹ سے بھتیجے کی درگت بنتے دیکھتے رھے ، دو بار ہماری غیرت نے جوش خوب کھایا لیکن دل بار بار کہتا رہا کہ آگے جاؤں گے تو بھتیجے والا درگت ہونا ہے ،، ہمارے حصے کی بھی مار کھا رہا ہے تو کھانے دو

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nuqta News, نقطہ نیوز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nuqta News, نقطہ نیوز:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share