05/12/2023
سبق لکھ کھا ہوا ملتا ہے اس کو نقطہ دانوں میں
کہ بچہ بیٹھ کے پڑھتا ہے جب گھر کے سیانوں میں
قدر کچھ کم نہیں ہے عافیاجیسے دماغوں کی
جنہیں معلوم ہے رکھے گا ان کو مرتبانوں میں
اگرچہ رنگ ہے یکتا کسی کا قیمتی سستا
لہو کا ترجمہ کب ایک ہے ساری زبانوں میں
خرد کی شہ سے ماروں تو وہ جی اٹھ٘ے خیالوں میں
یہ کس شطرنج کی بازی لگادی ہے گمانوں میں
فرنگی نے کبھی رنگون کا قاضی نہیں بدلا
ظفر وہ آج بھی اندھا ہے اپنے ترجمانوں میں
عرب کے سو گڑوڑوں میں مری بیوی اکیلی ہے
سکونِ دل نہیں ملتا اسے پختہ مکانوں میں
زمیں کے سب گلے شکوے اسی بادل سے ہوتے ہیں
جسے سایہ نہی ملتا زمین و آسمانوں میں
ہزاروں کام ہیں لیکن میں اینٹیں گیوں اٹھاؤں گا
مجھ ایسے ذہن سازوں کا تھکن ہوتی ہے شانوں میں
گھڑی کے ایک بازو کو فلک تک کھینچ کے دیکھوں
پھر اس پہ بیٹھ کے جھانکوں زمانوں میں مکانوں میں
ورائے عقل تھے واصف ترے شعر و سخن اب تک
حسِ باطن سے سنتا ہوں تو ہیں گویا اذانوں میں
یہ جس کی چاہ تجھ کو کھینچ کے لائی ہے دنیا میں
وہی تو آن ملتا ہے گیا نوں میں دھیانوں میں
جہاں میں جب بنے غالب تو دلی لٹ ہی جاتی ہے
اسی غم کے ہیں سب شہزاد مارے آستانوں میں
(Shahzad khan)