100 News وکلاء کی اواز

  • Home
  • 100 News وکلاء کی اواز

100 News وکلاء کی اواز Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from 100 News وکلاء کی اواز, Media/News Company, .

20/07/2024

میاں طارق شفیق ایڈووکیٹ کی والدہ ماجدہ قضائے الٰہی سے وفات پا گئیں تھیں انکے ایصال ثواب کے لئے چہلم کا ختم شریف کل بروز اتوار جامعہ مسجد مدینہ پرانا رحمان پورا میں بعد نماز ظہر ادا کیا جائے گا ۔ سب دوستوں سے شرکت کی اپیل ہے۔

18/07/2024

جو کربلا میں ہوا اصل میں تو کب کا ہے

🔷 کربلا اچانک نہیں ہوئی ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی 🔷

آپ نے کبھی سوچا کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی پانچ چھ سال کی عمر تک تو واقعات ملتے ہیں مگر اس کے بعد تاریخ میں ان کا ذکر صرف تب ہوا جب ان کی شہادت ہوئی۔

کئی نامور اصحاب حضرت سلمان فارسی کہ جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو اہل فارس وہاں پہنچ جائیں۔

حضرت ابوذر کہ جنہیں زمین پر سب سے سچا انسان قرار دیا۔

حضرت مقداد جن کی جنت مشتاق ہے۔

حضرت ایوب انصاری جو نبی کریم کے مدینہ میں میزبان تھے۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری جو نبی کریم سے لے کر ان کی پانچویں نسل تک حیات رہے۔

حضرت عمار یاسر جن کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔

حضرت بلال حبشی جو موذنِ رسول تھے۔

تاریخ ان کے بارے میں مکمل خاموش نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وفات نبی کریم ص کے بعد وہ اس دنیا سے غائب رہے اور بس شہادت یا وفات کے وقت دنیا میں کچھ دیر کے لئے آئے۔

آخر کہیں تو کچھ غلط ہوا ہے کہ ان شخصیات کا ذکر کرنا عیب سمجھا گیا۔

دوسری طرف جو افراد نبی کریم ص کی وفات سے سال دو سال قبل مسلمان ہوئے, ان کی سوانح عمری سے تاریخ بھری نظر آتی ہے۔

نبی کریم ص کی وفات کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ان کی آل اور بہت سے وفادار اصحاب کو تاریخ نے مکمل نظرانداز کر دیا۔

کہاں کچھ غلط ہوا کہ نبی کریم ص کی وفات کے بعد ان کی آل کے کسی بھی فرد کی طبعی وفات نہ ہوئی۔

تمام قتل ہوئے اور قاتل بھی وہ جو ان کے جد کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔

آج چودہ صدیاں بعد بھی ہم جانتے ہیں کہ حسن و حسین علیہم السلام جنت کے سردار ہیں۔

ایسا کیا ہوا کہ جنت کے طلب گاروں نے سرداروں کو انتہائی اذیت کے ساتھ قتل کر دیا۔

مورخ نے آخر ان تمام ہستیوں کو اتنا غیر اہم کیسے سمجھا کہ تاریخِ اسلام میں ان کا حصہ ایک صحابی جتنا بھی نہیں رکھا۔

کربلا اچانک نہیں ہوئی۔
ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا, نفرت بڑھتی رہی اور ہر ہستی کے بعد دوسری ہستی پر پہلے سے زیادہ ظلم ہوتا نظر آیا۔

اتنی نفرت کہ اس مقدس گھرانے کی مطہرات پر ظلم کرنے سے بھی نہ چوکے۔

چھ ماہ کے بچے کا سر کاٹنا بھی ثواب سمجھا گیا حالانکہ بدترین دشمن کے چھ ماہ کے بچے سے بھی کوئی دشمنی کا بدلہ لینے کا نہیں سوچتا۔

امت نے تو آل رسول پر ظلم کیا ہی تھا مگر مورخین نے ان سے کہیں زیادہ ظلم کیا کہ جن کے فضائل تھے, انہیں چھپایا جبکہ ان کے دشمنوں کے فضائل سے کتابیں سیاہ کیں۔

24 ذوالحجہ کو واقعہ مباہلہ کی یاد منائی گٸی۔ اس واقعہ میں بنص قران پانچ ذواتِ مقدسہ میدان میں توحید کے گواہ بن کر پیش ہوئے اور قران مجید نےانہیں صداقت کی سند عطا کی۔
واقعہ مباہلہ کے کچھ مدت بعد ان پانچ ہستیوں میں بزرگ ترین ہیستی کا وصال ہوا جنازے میں کتنے کلمہ گو تھے؟؟

پھر 75 دن بعد اس گھر کا دوسرا جنازہ رات کی تاریکی میں اُٹھا اور چند مخلصین کی موجودگی میں بڑی خاموشی اور مظلومیت سے دفن کردیا گیا اور نشانِ قبر تک مٹا دیا گیا جو آج تک نہ مل سکا۔

پھر اسی گھرانے کا تیسرا جنازہ 40 ہجری میں کوفہ سے آدھی رات کے وقت اٹھا اور پشتِ کوفہ ریت کے ٹیلوں کے درمیان خاموشی سے دفن کر دیا گیا اور مدتوں قبر کا نشان نامعلوم رہا۔

پھراسی جماعت کے چوتھے فرد کا جنازہ 50 ہجری میں شہر مدینہ سےاُٹھا اور نانے کی مزار کی طرف چلا مگر کچھ لوگ تیروں سے مسلحہ راستے میں حاٸل ہوٸے کہ نواسے کو نانے کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیں گے آخر وہ جنازہ بقیع کے عوامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

پھر 61 ہجری میں اصحاب مباہلہ کے آخری فرد کا جنازہ اٹھایا بھی نہ جا سکا بلکہ جنازہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر دیا گیا۔
ایک بات تمام اہل ایمان پر فرض ہے کہ اس پہ غور و فکر کریں کہ آٸمہ اطہار کی جگہ کتنے امام پیدا کیے گٸے اور ہم آل ِ محبوب خدا کہ جگہ ان سے دینی و فکری رہنماٸی کیوں حاصل کرتے ہیں ۔ گویا جن کے سینوں میں رسول کریم کی طرف سے منتقل ہونے والا علم القرآن و حدیث اور علم الدنیا کو پورے منصوبے سے پس ِ پشت ڈال کے ان گنت اماموں کے اقوال اور وضاحت فقہ حاصل کرتے ہیں اور یہ غفلت میں نسل در نسل ہوتی نظر آتی ہے ۔
بحثیت مسلمان کیا ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کم از کم ہم مورخ اسلام سے یہ تو پوچھیں کہ جنکی صداقت کا گواہ خود اللہ ہے اور وہ توحیدِ خدا کے گواہ ہیں امت رسول نے انکے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا۔؟
ہمارا یہ سوال امت مسلمہ پر قیامت تک قرض رہے گا اور اگر اس دنیا میں اس کا جواب نہ ملا تو میدان محشر میں عدالت خداوند تعالیٰ میں ہم یہ سوال اٹھائیں گے۔ بقول شاعر
وہ ساری جنگ محمد سے دشمنی کی تھی
جو کربلا میں ہوا اصل میں تو کب کا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

08/07/2024

ناصر کاظمی کتوں سے بہت ڈرتے تھے۔ کتے کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل جاتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ پیٹ میں آٹھ ٹیکے لگوانے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنا سفر دو فرلانگ اور لمبا کر لے۔ انہوں نے چڑیوں‘ راستوں‘ گلیوں اور سڑکوں سے آشنائی پیدا کی مگر کتے سے راہ ورسم نہ بڑھا سکے۔ کبھی کبھی وہ اس خوف سے کسی نہ کسی کو اپنا ہم سفر بنا لیتے تھے جو انہیں گھر تک پہنچا آئے۔
شدید سردی کا موسم تھا۔ رات کو ایک بجے مجھے ہاسٹل کے چپڑاسی نے کہا کہ آپ کو ناصر کاظمی بلا رہے ہیں۔ میں نیچے اترا تو ولز ہوسٹل کے لان میں ناصر کاظمی ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے:
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پڑھ رہا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم پڑھ رہے ہو۔ رات کا قافلہ روانہ ہونے کو ہے۔‘‘
میں اپنے کمرے میں گیا۔ میرا روم میٹ دانش رضا سو رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اس کا اوورکوٹ اٹھایا جو اس نے پچھلی شام ہی لنڈے سے خریدا تھا اور نیچے اتر کر ناصر کاظمی کے ساتھ ہو لیا۔ انار کلی‘ سٹیشن‘ میکلوڈ روڈ مال سے ہوتے ہوئے ہم کرشن نگر میں داخل ہوئے۔ تین بج چکے تھے۔ کتے بوکھلائے ہوئے پھر رہے تھے۔ کتوں کے سلسلے میں‘ میں ناصر سے بھی زیادہ ڈرپوک تھا مگر میں نے کبھی ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ہم کتوں سے بچتے بچاتے ناصر کاظمی کے گھر تک آئے۔ انہوں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا وہ اندر داخل ہوئے۔ مجھے خدا حافظ کہا اور دروازہ بند کر لیا۔ میں واپسی کے لئے پلٹا تو دس کتوں کا ایک جاندار دستہ میرے سامنے کھڑا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا تو وہ بھونکنے لگے۔ میں چلا تو پیچھے دوڑے۔ میں دوڑا تو انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ناصر کاظمی کا گھر بالکل چند قدم پر تھا۔ مجھے اور تو کچھ سوجھا نہیں میں نے اوورکوٹ اتار کر چاروں طرف لہرایا تو کتے اور شیر ہو گئے۔ اپنے اس دفاعی قدم میں میں نے ذرا تیزی دکھائی تو کوٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک کتے پر جا گرا اور گرا بھی اس طرح کہ اوورکوٹ کے بازوؤں میں اس کا سر پھنس گیا۔ وہ اس وقت آفت ناگہانی سے گھبرا گیا اور اوورکوٹ کے بازو سے اپنا سر نکالنے کے لئے چاروں طرف گھومنے لگا۔ کتے کو اپنے سر کی پریشانی تھی۔ مجھے اس کوٹ کی پریشانی تھی جو دانش رضا نے کل خریدا تھا۔ کتے کے چاروں طرف چکر لگانے سے سب کتے کوٹ کو اک بلا سمجھ کر بھاگ گئے اور میں کتے سے کوٹ چھیننے کی تگ ودو کرنے لگا۔ کتا 50 گز کے دائرے میں دیر تک بھاگتا رہا اور میں کتے کے پیچھے دوڑتا رہا۔ آخر کتے نے زور لگا کر سر کو کوٹ کے بازو سے نکالا۔ کوٹ اچھل کر دور جا گرا۔ کتے کے چہرے پر بلا کا خوف تھا۔ اس نے چند لمحے کوٹ کے بے ترتیب بکھرے بازوؤں کو دیکھا اور پھر بھونکنے کی بجائے ایک خوفناک چیخ مار کر بھاگ گیا۔ میں نے جا کر کوٹ اٹھایا تو ناصر کاظمی نے اپنی کھڑکی سے جھانک کر کہا:
’’یار کتے سے بچنے کا یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔ Good‘ میں یوں ہی ڈرتا رہا۔ کل میں بھی ایک اوورکوٹ خریدوں گا۔‘‘ اور کھڑکی بند کر لی۔

-پروفیسر عقیل روبی

06/07/2024

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے ، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے ۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے ۔ حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے دور کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جو بغیر کہے گواہی دینے کے لیے تیار ہو جایا کرے گی اور ان میں خیانت اور چوری اتنی عام ہو جائے گی کہ ان پر کسی قسم کا بھروسہ باقی نہیں رہے گا ۔ اور نذریں مانیں گے لیکن انہیں پورا نہیں کریں گے ( حرام مال کھا کھا کر ) ان پر مٹاپا عام ہو جائے گا ۔

Sahih Bukhari #3650

17/06/2024
01/02/2023

.
دنیا کا گندہ ترین دریا ۔

بنارس میں گنگا کنارے مانیکارنیکا شمشان گھاٹ۔
ہر ہندو کی خواہش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس ک لاش کو اس گھاٹ پر چتا دی جائے۔ بہت سے جاں بلب مریض اپنی موت سے پہلے یہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں تاکہ مرنے کے فورا" بعد ان کی چتا کو اس متبرک مقام پر آگ نصیب ہو سکے۔

اس مقصد کے لئے گھاٹ کنارے باقاعدہ کمرے بھی دستیاب ہیں جہاں مریض اور اس کے ساتھ آئے رشتے دار قیام کرتے ہیں۔ بنارس کے مختلف گھاٹوں پر روزانہ تقریبا" سو چتائوں کو آگ لگائ جاتی ہے جہاں ہر وقت جلے گوشت کی چراند پھیلی رہتی ہے۔ لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے بعض اوقات چتا کو جلانے والے متوفی کے لواحقین کے جانے کے بعد لکڑی بچانے کے لئے ادھ جلی لاش کو ہی کھینچ تان کر گنگا برد کردیتے ہیں جہاں اکثر ادھ جلی لاشیں پانی میں تیرتی نظر آتی ہیں ۔

بعض اوقات کنارے سے لگ جانے والی لاشوں کو کتے بھنبھؤڑتے ہیں۔ ان لاشوں کی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ھے اور اسی پانی میں یاتری خود کو غوطے دے کر اشنان کرتے ہیں اور اپنے پاپ دھوتے ہیں۔ اس مقام پر گنگا دنیا کا غلیظ ترین دریا بن جاتا ھے ۔

بنارس کے یہ چتا گھاٹ زمین پر جہنم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کہیں ارتھیاں پڑی ہوتی ہیں تو کہیں چتا میں مردے کی لاش آگ سے اکڑ رہی ہوتی ھے ۔
لکڑی اور چتا کو آگ لگانے والوں سے مول تول کرتے لوگ۔ کہیں لاش جل کانے کے بعد بانسوں کی مدد سے کھوپڑی پر ضربیں لگا کر اس کے ٹکڑے کہے جا رہے ہوتے ہیں۔
رات میں یہ منظر مزید بھیانک ہو جاتا ھے جب جگہ جگہ جلتی چتائیں اور دھوتی میں ملبوس آسیب نما افراد چتائوں کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف راکھ کوئلے آگ کیچڑ اور بدبو کا راج ہوتا ھے ۔
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور پاکیزگی ہمارا ایمان ہے
اللہ نے انسان کے لئے قبر کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جیسے اس کا بھرم بھی رہ جائے اور اس کی پاکیزگی بھی برقرار رہے...

04/05/2022

عید الفطر
دوسرا دن مبارک۔۔۔۔۔۔

25/04/2022

اللہ اکبر

وکلا کا خون سستا ہے بہت کیا؟ ظلم کی انتہا
23/04/2022

وکلا کا خون سستا ہے بہت کیا؟ ظلم کی انتہا

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 100 News وکلاء کی اواز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share