تھانہ مندرہ میں ملک نذیر احمد گھیبہ نئے ایس ایچ او تعینات۔
سابقہ ایس ایچ او کے خرد برد کی تفصیلات کچھ دیر بعد
17/06/2024
ڈونگی ڈیم نے ایک اور چراغ گل کر دیا
15/06/2024
پاکستانی بجٹ اور عوام
تحریر: محمد طارق (ناروے)
15/06/2024
اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام،خراج تحسین"
15/06/2024
راجہ شوکت عزیز بھٹی
14/06/2024
"فکشن ہاوس گوجرخان" میں منعقدہ پروگرام خراج تحسین میں بطور تحسین کاخراج،زاہد قریشی کی مزیدار تحریر کا چسکا لیں۔
مت سہل ہمیں جانو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل محمدخان نے چکوال کے بارے میں لکھا تھا ،یہاں مونگ پھلی اور فوجی بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی گوجر خان کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ۔۔۔یہاں مونگ پھلی، فوجی اور راجے بکثرت ہیں۔ مگر" الف" سے لکھا جانے والا راجا صرف ایک ہے۔۔۔۔۔ جاوید اقبال راجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہتا ہے راجا کو راجہ لکھنا غلط ہے۔ مگر اکثر لغات میں راجا نہیں ، راجہ لکھا ملتا ہے تو یہاں ہم سوال اٹھا سکتے ہیں ،مگر نہیں اٹھاتے ۔کیونکہ سوال اٹھانے والے یہاں اکثر اٹھا لیے جاتے ہیں۔
راجا نے مجھے کل ہی فون پر حکم دیا کہ گوجرخان ٹی ہاؤس میں میرے اعزاز میں تقریب ہے ،تو تم نے وہاں مجھ پر مضمون پڑھنا ہے۔ عرض کیا، میں نے سچ بولا تو برداشت کر لیں گے؟ راجا نے حیرت سے پوچھا ،کیا مطلب؟ کہا مطلب یہ کہ ایسی مجالس تو دراصل" انجمن ستائش باہمی" ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ جہاں پہلا دوسرے کو "ملاجی" اور دوسرا جواباً پہلے کو " حاجی صاحب" کہتا ہے۔ پھر یونہی گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ راجے نے زور کا قہقہ لگایا اور پھر کہا۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے تم ہی میرے بارےمیں گفتی نا گفتی پھیلاتے ہو۔ عرض کیا بندہ بے تقصیر ہے۔ اس حوالے سے آپ اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیریں گے تو نیچے سے محمودالحسن ملک نکلے گا۔سامعین اب پوچھیں گے کہ یہ محمودالحسن ملک کون ہے تو ایک واقعہ عرض کیے دیتا ہوں۔ اس واقعے سے اگرچہ انہیں یہ تو پھر بھی پتہ نہیں چلے گا کہ محمودالحسن ملک کون ہے۔ البتہ اتنا ضرور جان جائیں گے وہ چیز کیا ہے۔
اسلام آباد کی ایک خوبصورت شام کا ذکر ہے۔ چند سفید ریش دوست بغرض ملاقات جمع تھے کہ راجہ خصاب سے چہرے کو گل حکمت کیے آ وارد ہوا۔ بزرگان میں سے ایک کی رگ ظرافت پھڑکی اور راجا کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔۔
"جب ہم سب سفید بالوں کے ساتھ یہاں موجود ہیں تو تمہیں یہ منہ کالا کرنے کی کیا ضرورت تھی"۔
اس اچانک حملے سے راجہ سٹپٹا گیا۔ اس نے کمک کے لیے آگے پیچھے، دائیں بائیں دیکھا تو ہم دم دیرینہ محمودالحسن ملک مدد کے لیے آیا اور حملہ آور بزرگ کی طرف منہ کر کے تحکمانہ انداز میں ڈانٹ پلائی۔۔۔ "بزرگو! راجا منافق نہیں، یہ جیسا اندر سے ہے ، ایسا ہی باہر سے دکھنا چاہتا ہے"۔
راجے نے اپنی زندگی کا "پرائم ٹائم" سرکار کے زیرسایہ شعبہ تعلیم وتعلم کو دیا۔ مگر اس نے اس مقتل میں بھی اپنی فطر ی بذلہ سنجی، زندہ دلی، تخلیقی صلاحیت اور سادگی کو مرنے نہ دیا۔ راجا کی پہلی کتاب " قافلے دل کے چلے" دوران ملازمت ہی قارئین کے ہاتھوں میں تھی۔ کتاب کیا تھی؟ راجے کے سفر حج کی روداد۔ مگر قیام حجاز کے دوران قلب وذہن پر اترنے والی روشن کیفیات کا ایسا اظہار کہ عقیدتیں جن کے آگے سرنگوں ہو جائیں۔ کہیں ایسا کہ ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ ابھرے اور کہیں ایسا کہ آنکھیں برس پڑیں۔
یقین جانیں یہی کچھ مہرشاہ نیازی کے ساتھ ہوا۔ آپ پھر پوچھیں گے کہ مہرشاہ نیازی کون ہے تو ان کا تعارف بھی کرائے دیتا ہوں۔
مہرشاہ نیازی اس سکول کے ہیڈ تھے جہاں راجہ استاد کے طور پر تعینات تھا۔ راجے کی کتاب منظرعام پر آئی تو پاکستان کے رواج کے مطابق اس کی ایک کاپی اپنے سکول کے ہیڈ کو بھی ہدیتاً پیش کی۔ نیازی صاحب نے کتاب رکھ تو لی مگر اسے اس خیال سے طاق نسیاں کی زینت بنا دیا کہ آخر ایک ماسٹر لکھ بھی کیا سکتا ہے؟ اس بات کو کئی ماہ گزر گئے تو ایک رات نیازی کونیند نہ آنے کے سبب مطالعے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تب قرعہ فال "قافلے دل کے چلے" کے نام نکلا۔ آگے کی روداد خود نیازی کی زبانی سنیے۔
کتاب کے چند اوراق ہی پڑھے تھے کہ نیند کیا آتی، جو تھی وہ بھی اڑ گئی۔ کتاب کو پڑھتے ہوئےمیں مسکراتا، کبھی ہنستا۔۔ کبھی ہنستے ہنستے رو نے لگتا اور روتے روتےپھر ہنسی آ جاتی۔ نجانے رات کا کون سا پہر تھا کہ میری بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے مجھے یوں باری باری ہنستے اور روتے دیکھا تو پریشان ہو گئی۔ پوچھا کیا ہوا؟ میں نے مختصراً جواب دیا کہ کچھ نہیں اور پھرکتاب کے مطالعےمیں غرق ہو گیا۔ صبح کتاب ختم کر کے اسے سینے پر رکھے، آنکھیں بند کیے لیٹا تھا کہ اہلیہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ وہ اپنے بھائی کو کال کر رہی تھی۔ فوراً پہنچو، نیازی کا دماغ چل گیا ہے۔ کبھی مسکراتا ہے،پھر ہنستا ہے، پھر روتا ہےاور پھر روتے روتے قہقے لگانے لگتا ہے۔آؤ اور اسے ہسپتال لےجاؤ۔ اب اسے کیا پتہ کہ یہ دماغ کاخلل یا کسی جن بھوت کا سایہ نہیں ،بلکہ راجے کے فن تحریر کا جادو تھا جو رات کے پچھلے پہر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
راجہ بظاہر دہقانی مزاج کا آدمی ، مگر بباطن صاحب علم و فضل ہے۔ سچ کہوں تو یہ دنیائے علم وادب کا ملامتی درویش ہے۔۔۔ جیسا ہے ویسا دکھنا نہیں چاہتا۔ جیسا دکھ رہا ہے، ویسا ہے نہیں۔ اس وقت وہ تین شاہکار کتب کا مصنف اورایک کا مولف ہے۔ مگر ان کتب کا ذکر آئے تویوں شرماتا اوراپنے کارنامے کو چھپاتا ہے گویا کتب نہ لکھی ہوں، چھپ چھپا کر شادیاں کی ہوں، بھیدکھل گیا تو مار پڑے گی۔
تعلیم کے شعبے میں راجے نے جتنا کام تن تنہا کیا، اتنا اس ملک میں کئی ادارے مل کر بھی نہیں کر سکتے۔ راجا کی لکھی درسی کتب وفاقی وزارت تعلیم، وفاقی ٹیکسٹ بک بورڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ کینٹ گریژنز کے سکولز، آزادکشمیر، گلگت بلتستان، آرمی پبلک سکولز اور دنیا بھر میں پاکستان ایمبیسی سکولز میں راجے کی لکھی نصابی کتب پڑھائی جا رہی ہیں۔ مگر اسے پاکستان تو کیا گوجرخان میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ جو جانتے ہیں وہ مانتے نہیں۔ کیونکہ اپنے علم وہنر کے سبب راجا ایک بڑا آدمی ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ بونوں کے عہد میں پیدا ہوا ، جہاں لوگ کسی کا قد اپنے سےاوپر نکلتا پائیں تو، سر نہیں تو پاؤں ضرور کاٹ دیتے ہیں، تا کہ وہ ان سے بڑا نظر نہ آئے۔
مجھےخوشی ہوئی کہ گوجرخان فکشن ہاؤس نے جاوید اقبال راجا کے لیے" خراج تحسین" کی یہ مجلس آراستہ کی، مگر میں یہ " خراج" ادا نہیں کروں گا۔ کیونکہ خراج بزور لیتے ہیں بخوشی ادا نہیں ہوتا۔اس لیے راجا بھی یقیناً وصول کرتے متردد ہو گا اس لیے کہ وہ جانتا ہے ۔۔۔۔
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا ۔ ۔ ۔۔۔
لہٰذا میں آج کی مجلس میں راجا کو اس کی علمی وادبی خدمات پر"ہدیہ تبریک" پیش کروں گا۔ جسے کائنات کے سب سے بڑے انسان نے دینے کی ترغیب دی اور لینے کی بھی۔ ہدیہ تبریک کے طور پر میر تقی میر کا یہ شعر میں راجے کی نذر کرتا ہوں۔۔۔۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ مضمون گوخرخان ٹی ہاؤس میں محترم جاوید اقبال راجا کے اعزاز میں منعقد تقریب میں پڑھا گیا۔ راجا صاحب، محمودالحسن ملک صاحب اور نیازی صاحب میرے لیے محترم ترین شخصیات ہیں ۔۔۔ یہ طرز تحریر کی ضرورت تھی کہ ان کے لیے صیغہ واحد استعمال کروں ۔۔۔ ورنہ وہ اتنے قابل قدر ہیں کہ ان کے پاؤں دھوئے جائیں اور پھر اس پر فخر کیا جائے۔ زاہد قریشی)
انجم رشید وارثی کانام اسکی خوبصورت شخصیت کا مکمل احاطہ کرتا ہے ۔ یہ بیک وقت علم ادب، سماجی اور سیاسی افق کا ایک روشن ستارہ ہے۔ اسکی تحریر رشد و ہدایت کے پیغام سے بھرپور ہوتی ہیں،اور برصغیر پاک و ہند کے ایک عظیم روحانی سلسلے وارثیہ کا یہ پاکستان میں منتظم بھی رہا ہے۔ ایسی ہمہ جہت شخصیات خال خال ہوتی ہیں۔ گذشتہ روز انجم رشید اپنے ایک بھتیجے اور ایک استاد دوست کے ہمراہ فکشن ہاؤس گوجرخان تشریف لائے، بہت دیر علم و ادب کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے پاکستان میں مستقبل کے موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع کی کچھ یادگار تصاویر ۔
مبین مرزا۔
06/06/2024
راجہ شوکت عزیز بھٹی اساتذہ کی آواز بن گئے۔
03/06/2024
سی پی او سید خالد محمود ہمدانی...
03/06/2024
#انجینئر راجا قمرالسلام #
لاہور اکیڈمی میں اسسٹنٹ کمشنرز سے اے ڈی سی آر پروموٹ ہونے والے افسران کے ٹریننگ کورس کے افسران کو Role of Public Representatives in Policy formulation کے موضوع پر ممبر قومی اسمبلی Qamar Ul Islam Raja کا ڈیڑھ گھنٹے کا لیکچر اور سیشن کے اختتام پر سوال جواب کا سیشن ۔
02/06/2024
راجہ شوکت عزیز بھٹی ایم پی اے گوجرخان اور جناب شریف شاد نے اج فکشن ہاؤس گوجرخان کے کانفرنس ھال کا افتتاح کیا۔
01/06/2024
اعلامیہ از راجہ شوکت عزیز بھٹی
31/05/2024
جنڈنجار میں قتل کی واردات
30/05/2024
پانچ جون سے پلاسٹک شاپرز پر مکمل پابندی اے سی گوجرخان جناب خضر ظہور گورائیہ کی چیف آفیسر بلدیہ اظہر مجید اور انفورسمنٹ انسپکٹر چاند مبین کے ہمراہ اگاہی مہم۔
Be the first to know and let us send you an email when Voice Of Pothohar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.