Enjoin good, forbid evil

  • Home
  • Enjoin good, forbid evil

Enjoin good, forbid evil Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Enjoin good, forbid evil, News & Media Website, .

26/06/2024
24/06/2024

ملٹری آپریشن نا منظور۔
خان صاحب نے ملٹری اپریشن کی مخالفت کر دی۔
علی امین گنڈاپور

10/06/2024

سیرت النبی ﷺ

عنوان: نرالی شان کا مالک

حضرت آمنہ کے انتقال کے پانچ دن بعد ام ایمن آپ کو لے کر مکہ پہونچیں۔ آپ کو عبدالمطلب کے حوالے کیا۔آپ کے یتیم ہوجانے کا انہیں اتنا صدمہ تھا کہ بیٹے کی وفات پر بھی اتنا نہیں ہوا تھا۔
عبدالمطلب کے لیے کعبہ کے سائے میں ایک کالین بچھایا جاتا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کا احترام اس قدر تھا کہ کوئی اور اس قالین پر بیٹھتا نہیں تھا، چنانچہ ان کے بیٹے اور قریش کے سردار اس قالین کے چاروں طرف بیٹھتے تھے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں تشریف لاتے تو سیدھے اس قالین پر جا بیٹھتے۔ اس وقت آپ ایک تندرست لڑکے تھے، آپ کی عمر نو سال کے قریب ہو چلی تھی، آپ کے چچا عبدالمطلب کے ادب کی وجہ سے آپ کو اس قالین سے ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے ;
میرے بیٹےکو چھوڑ دو، اللّٰہ کی قسم ! یہ بہت شان والا ہے۔
پھر وہ آپ کو محبت سے اس فرش پر بٹھاتے، آپ کی کمر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے، آپ کی باتیں سن سن کر حد درجے خوش ہوتے رہتے۔
کبھی وہ دوسروں سے کہتے;
ُُ میرے بیٹے کو یہیں بیٹھنے دو، اسے خود بھی احساس ہے کہ اس کی بڑی شان ہے، اور میری آرزو ہے یہ اتنا بلند رتبہ پائے جو کسی عرب کو اس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہو اور نہ بعد میں کسی کو حاصل ہوسکے۔
ایک بار انہوں نے یہ الفاظ کہے;
" میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اس کے مزاج میں طبعی طور بلندی ہے.... اس کی شان نرالی ہوگی"۔
یہاں تک کہ عمر کے آخری حصے میں حضرت عبدالمطلب کی آنکھیں جواب دے گئی تھیں، آپ نابینا ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں ایک روز وہ اس قالین پر بیٹھے تھے کہ آپ تشریف لے آئے اور سیدھے اس قالین پر جا پہنچے۔ ایک شخص نے آپ کو قالین سے کھینچ لیا۔ اس پر آپ رونے لگے، آپ کے رونے کی آواز سن کر عبدالمطلب بے چین ہوئے اور بولے:
"میرا بیٹا کیوں رو رہا ہے "
"آپ کے قالین پر بیٹھنا چاہتا ہے... ہم نے اسے قالین سے اتار دیا ہے۔"
یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا:
"میرے بیٹے کو قالین پر ہی بٹھا دو، یہ اپنا رتبہ پہچانتا ہے، میری دعا ہے کہ یہ اس رتبے کو پہنچے جو اس سے پہلے کسی عرب کو نہ ملا ہو، اس کے بعد کسی کو نہ ملے۔"
اس کے بعد پھر کسی نے آپ کو قالین پر بیٹھنے سے نہیں روکا۔‌
ایک روز بنو مدلج کے کچھ لوگ حضرت عبدالمطلب سے ملنے کے لئے آئے... ان کے پاس اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ۔بنو مدلج کے لوگوں نے آپ کو دیکھا، یہ لوگ قیافہ شناس تھے، آدمی کا چہرہ دیکھ کر اس کے مستقبل کے بارے میں اندازے بیان کرتے تھے۔انہوں نے عبدالمطلب سے کہا:
" اس بچے کی حفاظت کریں، اس لیے کہ مقام ابراہیم پر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کا نشان ہے، اس بچے کے پاؤں کا نشان بالکل اس نشان سے ملتا جلتا ہے، اس قدر مشابہت ہم نے کسی اور کے پاؤں کے نشان میں نہیں دیکھی... ہمارا خیال ہے... یہ بچہ نرالی شان کا مالک ہوگا.. . اس لیے اس کی حفاظت کریں۔"
مقام ابراہیم خانہ کعبہ میں وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ معجزے کے طور پر اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پیروں کے نشان پڑگئے تھے۔ لوگ اس پتھر کی زیارت کرتے ہیں ۔ یہی مقام ابراہیم ہے۔ چونکہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس لیے ان کے پاؤں کی مشابہت آپ میں ہونا قدرتی بات تھی۔
ایک روز حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں حجر اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ایسے میں ان کے پاس نجران کے عیسائی آگئے۔ان میں ایک پادری بھی تھا ۔ اس پادری نے عبدالمطلب سے کہا۔:
"ہماری کتابوں میں ایک ایسے نبی کی علامات ہیں جو اسماعیل کی اولاد میں ہونا باقی ہے، یہ شہر اس کی جائے پیدائش ہوگا، اس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی۔"
ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ کوئی شخص آپ کو لے کر وہاں آپہنچا۔ پادری کی نظر جونہی آپ پر پڑی، وہ چونک اٹھا، آپ کی آنکھوں، کمر اور پیروں کو دیکھ کر وہ چلا اٹھا:
" وہ نبی یہی ہیں، یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ۔"
عبدالمطلب بولے
" یہ میرے بیٹے ہیں ۔"
اس پر وہ پادری بولا:
" اوہ! تب یہ وہ نہیں... اس لیے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کے والد کا انتقال اس کی پیدائش سے پہلے ہوجائے گا۔
یہ سن کر عبدالمطلب بولے:
" یہ دراصل میرا پوتا ہے، اس کے باپ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب یہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔"
اس پر پادری بولا:
" ہاں! یہ بات ہوئی نا... آپ اس کی پوری طرح حفاظت کریں۔"
عبدالمطلب کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو کہتے:
"میرے بیٹے کو لے آؤ۔"
آپ تشریف لاتے تو عبدالمطلب آپ کو اپنے پاس بٹھاتے ۔ آپ کو اپنے ساتھ کھلاتے۔
بہت زیادہ عمر والے ایک صحابی حیدہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
" میں ایک مرتبہ اسلام سے پہلے، جاہلیت کے زمانے میں حج کے لئے مکہ معظمہ گیا۔وہاں بیت الله کا طواف کررہا تھا ۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، جو بہت بوڑھا اور بہت لمبے قد کا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا۔اور کہہ رہا تھا، اے میرے پروردگار میری سواری کو محمد کی طرف پھیر دے اور اسے میرا دست و بازو بنادے۔میں نے اس بوڑھے کو جب یہ شعر پڑھتے سنا تو لوگوں سے پوچھا:
"یہ کون ہے؟ "
لوگوں نے بتایا یہ عبدالمطلب بن ہاشم ہیں ۔ انہوں نے اپنے پوتے کو اپنے ایک اونٹ کی تلاش میں بھیجا ہے۔ وہ اونٹ گم ہوگیا ہے، اور وہ پوتا ایسا ہے جب بھی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں اسے بھیجاجاتا ہے تو وہ چیز لے کر ہی آتا ہے۔ پوتے سے پہلے یہ اپنے بیٹوں کو اس اونٹ کی تلاش میں بھیج چکے ہیں، لیکن وہ ناکام لوٹ آئے ہیں، اب چونکہ پوتے کو گئے ہوئے دیر ہوگئی ہے، اس لئے پریشان ہے، اور دعا مانگ رہےہیں ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کو لئے تشریف لا رہے ہے۔عبدالمطلب نے آپ کو، دیکھ کر کہا ؛
"میرے بیٹے ! میں تمہارے لئے اس قدر فکر مند ہوگیا تھا کہ شاید اس کا اثر کبھی میرے دل سے نہ جائے۔
عبدالمطلب کی بیوی کا نام رقیہ بنت ابو سیفی تھا ۔ وہ کہتی ہیں :
قریش کئی سال سے سخت قحط سالی کا شکار تھے. بارشیں بالکل بند تھیں. سب لوگ پریشان تھے، اسی زمانے میں، میں نے ایک خواب دیکھا، کوئی شخص خواب میں کہہ رہا تھا.
اے قریش کے لوگو. تم میں سے ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس کے ظہور کا وقت آ گیا ہے. اس کے ذریعے تمہیں زندگی ملے گی، یعنی خوب بارشیں ہوں گی، سرسبزی اور شادابی ہوگی تم اپنے لوگوں میں سے ایک ایسا شخص تلاش کرو جو لمبے قد کا ہو، گورے رنگ کا ہو، اس کی پلکیں گھنی ہوں، بھنویں اور ابرو ملے ہوئے ہوں، وہ شخص اپنی تمام اولاد کے ساتھ نکلے اور تم میں سے ہر خاندان کا ایک آدمی نکلے، سب پاک صاف ہوں اور خوشبو لگائیں، وہ حجر اسود کو بوسہ دیں پھر سب جبل ابو قیس پر چڑھ جائیں. پھر وہ شخص جس کا حلیہ بتایا گیا ہے، آگے بڑھے اور بارش کی دعا مانگے اور تم سب آمین کہو تو بارش ہو جائے گی.
صبح ہوئی تو رقیقہ نے اپنا یہ خواب قریش سے بیان کیا. انہوں نے ان نشانیوں کو تلاش کیا تو سب کی سب نشانیاں انہیں عبد المطلب میں مل گئیں، چنانچہ سب ان کے پاس جمع ہوئے. ہر خاندان سے ایک ایک آدمی آیا. ان سب نے شرائط پوری کیں. اس کے بعد سب ابو قیس پہاڑ پر چڑھ گئے. ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. آپ اس وقت نو عمر تھے. پھر عبد المطلب آگے بڑھے اور انہوں نے یوں دعا کی.
اے اللہ یہ سب تیرے غلام ہیں، تیرے غلاموں کی اولاد ہیں، تیری باندیاں ہیں اور تیری باندیوں کی اولاد ہیں، ہم پر جو برا وقت آ پڑا ہے، تو دیکھ رہا ہے، ہم مسلسل قحط سالی کا شکار ہیں. اب اونٹ، گائیں، گھوڑے، خچر اور گدھے سب کچھ ختم ہو چکے ہیں اور جانوروں پر بن آئی ہے. اس لیے ہماری یہ خشک سالی ختم فرما دے ہمیں زندگی اور سرسبزی اور شادابی عطا فرما دے
ابھی یہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی. وادیاں پانی سے بھر گئیں لیکن اس بارش میں ایک بہت عجیب بات ہوئی اور وہ عجیب بات یہ تھی کہ قریش کو یہ سیرابی ضرور حاصل ہوئی مگر یہ بارش قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کی قریبی بستیوں میں بالکل نہ ہوئی. اب لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہوئی. ایک قبیلے پر بارش اور آس پاس کے سب قبیلے بارش سے محروم.... تمام قبیلوں کے سردار جمع ہوئے، اس سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی. ایک سردار نے کہا.
ہم زبردست قحط اور خشک سالی کا شکار ہیں جب کہ قریش کو اللہ تعالٰی نے بارش عطا کی ہے اور یہ عبد المطلب کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے ہم سب ان کے پاس چلتے ہیں، اگر وہ ہمارے لیے دعا کر دیں تو شاید اللہ ہمیں بھی بارش دے دے.
یہ مشورہ سب کو پسند آیا، چنانچہ یہ لوگ مکہ معظمہ میں آئے اور عبد المطلب سے ملے. انہیں سلام کیا پھر ان سے کہا.
اے عبد المطلب ہم کئی سال سے خشک سالی کے شکار ہیں ہمیں آپ کی برکت کے بارے میں معلوم ہوا ہے، اس لیے مہربانی فرما کر آپ ہمارے لیے بھی دعا کریں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کی دعا سے قریش کو بارش عطا کی ہے.
ان کی بات سن کر عبد المطلب نے کہا.
اچھی بات ہے میں کل میدان عرفات میں آپ لوگوں کے لیے بھی دعا کروں گا.
دوسرے دن صبح سویرے عبد المطلب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے. ان کے ساتھ دوسرے لوگوں کے علاوہ ان کے بیٹے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے. عرفات کے میدان میں عبد المطلب کے لیے ایک کرسی بچھائی گئی. وہ اس پر بیٹھ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے گود میں بٹھا لیا، پھر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی.
اے اللہ، چمکنے والی بجلی کے پروردگار، اور کڑکنے والی گرج کے مالک، پالنے والوں کے پالنے والے، اور مشکلات کو آسان کرنے والے. یہ قبیلہ قیس اور قبیلہ مضر کے لوگ ہیں، یہ بہت پریشان ہیں، ان کی کمریں جھک گئی ہیں، یہ تجھ سے اپنی لا چاری اور بے کسی کی فریاد کرتے ہیں اور جان و مال کی بربادی کی شکایت کرتے ہیں پس اے اللہ، ان کے لیے خوب برسنے والے بادل بھیج دے اور آسمان سے ان کے لیے رحمت عطا فرما تاکہ ان کی زمینیں سرسبز ہو جائیں اور ان کی تکالیف دور ہو جائیں.
عبد المطلب ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک سیاہ بادل اٹھا، عبد المطلب کی طرف آیا اور اس کے بعد اس کا رخ قبیلہ قیس اور بنو مضر کی بستیوں کی طرف ہو گیا. یہ دیکھ کر عبد المطلب نے کہا.
اے گروہ قریش اور مضر جاؤ تمہیں سیرابی حاصل ہو گی.
چنانچہ یہ لوگ جب اپنی بستیوں میں پہنچے تو وہاں بارش شروع ہو چکی تھی.
آپ سات سال کے ہو چکے تھے کہ آپ کی آنکھیں دکھنے کو آگئیں. مکہ میں آنکھوں کا علاج کرایا گیا لیکن افاقہ نہ ہوا. عبد المطلب سے کسی نے کہا.
عکاظ کے بازار میں ایک راہب رہتا ہے وہ آنکھوں کی تکالیف کا علاج کرتا ہے.
عبد المطلب آپ کو اس کے پاس لے گئے. اس کی عبادت گاہ کا دروازہ بند تھا. انہوں نے اسے آواز دی. راہب نے کوئی جواب نہ دیا. اچانک عبادت گاہ میں شدید زلزلہ آیا. راہب ڈر گیا کہ کہیں عبادت خانہ اس کے اوپر نہ گر پڑے. اس لئے ایک دم باہر نکل آیا.
اب اس نے آپ کو دیکھا تو چونک اٹھا. اس نے کہا.
اے عبد المطلب. یہ لڑکا اس امت کا نبی ہے. اگر میں باہر نہ نکل آتا تو یہ عبادت گاہ ضرور مجھ پر گر پڑتی. اس لڑکے کو فوراً واپس لے جاؤ اور اس کی حفاظت کرو. کہیں یہودیوں یا عیسائیوں میں سے کوئی اسے قتل نہ کر دے.
پھر اس نے کہا
اور رہی بات ان کی آنکھوں کی... تو آنکھوں کی دعا تو خود ان کے پاس موجود ہے.
عبد المطلب یہ سن کر حیران ہوئے اور بولے.
ان کے اپنے پاس ہے، میں سمجھا نہیں. ہاں. ان کا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگائیں.
انہیں نے ایسا ہی کیا، آنکھیں فوراً ٹھیک ہو گئیں.
پرانی آسمانی کتابوں میں آپ کی بہت سی نشانیاں لکھی ہوئی تھیں. اس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے.
یمن میں ایک قبیلہ حمیر تھا. وہاں ایک شخص سیف بن یزن تھا. وہ سیف حمیری کہلاتا تھا. کسی زمانے میں اس کے باپ دادا اس ملک پر حکومت کرتے تھے لیکن پھر حبشیوں نے یمن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا. وہاں حبشیوں کی حکومت ہو گئی. ستر سال تک یمن حبشیوں کے قبضے میں رہا، جب یہ سیف بڑا ہوا تو اس کے اندر اپنے باپ دادا کا ملک آزاد کرانے کی امنگ پیدا ہوئی، چنانچہ اس نے ایک فوج تیار کی. اس فوج کے ذریعے حبشیوں پر حملہ کیا اور انہیں یمن سے بھگا دیا. اس طرح وہ باپ دادا کے ملک کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا، وہاں کا بادشاہ بن گیا. یہ یمن عرب کا علاقہ تھا. جب اس پر حبشیوں نے قبضہ کیا تھا تو عربوں کو بہت افسوس ہوا. 70 سال بعد جب یمن کے لوگوں نے حبشیوں کو نکال باہر کیا تو عربوں کو بہت خوشی ہوئی. ان کی خوشی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی حبشیوں نے ابرہہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تھی. چاروں طرف سے عربوں کے وفد سیف کو مبارک باد دینے کے لیے آنے لگے.
قریش کا بھی ایک وفد مبارک دینے کے لیے گیا. اس وفد کے سردار عبد المطلب تھے. یہ وفد جب یمن پہنچا تو سیف اپنے محل میں تھا. اس کے سر پر تاج تھا، سامنے تلوار رکھی تھی اور حمیری سردار اس کے دائیں بائیں بیٹھے تھے. سیف کو قریش کے وفد کی آمد کے بارے میں بتایا گیا، اسے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ لوگ کس رتبے کے ہیں. اس نے ان لوگوں کو آنے کی اجازت دے دی. یہ وفد دربار میں پہنچا. عبد المطلب آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے. انہوں نے بات کرنے کی اجازت چاہی، سیف نے کہا.
اگر تم بادشاہوں کے سامنے بولنے کے آداب سے واقف ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے
تب عبد المطلب نے کہا.
اے بادشاہ، ہم کعبہ کے خادم ہیں، اللہ کے گھر کے محافظ ہیں، ہم آپ کو مبارکباد دینے آئے ہیں. یمن پر حبشی حکومت ہمارے لیے بھی بوجھ بنی ہوئی تھی. آپ کو مبارک ہو، آپ کے اس کارنامے سے آپ کے بزرگوں کو بھی عزت ملے گی اور آنے والی نسلوں کو بھی وقار حاصل ہو گا.
سیف ان کے الفاظ سن کر بہت خوش ہوا، بے اختیار بول اٹھا.
اے شخص تم کون ہو، کیا نام ہے تمہارا؟
انہوں نے کہا.
میرا نام عبد المطلب بن ہاشم ہے.
سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا.
تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو.
عبد المطلب کی والدہ مدینے کے قبیلے خزرج کی تھیں اور خزرج کا قبیلہ دراصل یمن کا تھا. اس لیے سیف نے ہاشم کا نام سن کر کہا، تب تو تم ہماری بہن کے لڑکے ہو. پھر اس نے کہا.
ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں، آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں.
اس کے بعد قریش کے وفد کو سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا. ان کی خوب خاطر مدارت کی گئی... یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا. ایک ماہ کی مہمان نوازی کے بعد سیف نے انہیں بلایا. عبد المطلب کو اپنے پاس بلا کر اس نے کہا.
اے عبد المطلب، میں اپنے علم کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز تمہیں بتا رہا ہوں، تمہارے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں ہر گز نہ بتاتا، تم اس راز کو اس وقت تک راز ہی رکھنا جب تک کہ خود اللہ تعالٰی اس راز کو ظاہر نہ فرما دے. ہمارے پاس ایک پوشیدہ کتاب ہے وہ پوشیدہ رازوں کا ایک خزانہ ہے. ہم دوسروں سے اس کو چھپا کر رکھتے ہیں. میں نے اس کتاب میں ایک بہت عظیم الشان خبر اور ایک بڑے خطرے کے بارے میں پڑھ لیا ہے... اور وہ آپ کے بارے میں ہے.
عبد المطلب یہ باتیں سن کر حد درجے حیرت زدہ ہوئے اور پکار اٹھے.
میں سمجھا نہیں، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں.
سنو، عبد المطلب، جب تہامہ کی وادی یعنی مکہ میں ایسا بچہ پیدا ہو جس کے دونوں کندھوں کے درمیان بالوں کا گچھا (یعنی مہر نبوت) ہو تو اسے امامت اور سرداری حاصل ہو گی اور اس کی وجہ سے تمہیں قیامت تک کے لیے اعزاز ملے گا، عزت ملے گی.
عبد المطلب نے یہ سن کر کہا.
اے بادشاہ. اللہ کرے آپ کو بھی ایسی خوش بختی میسر آئے، آپ کی ہیبت مجھے روک رہی ہے، ورنہ میں آپ سے پوچھتا کہ اس بچے کا زمانہ کب ہو گا.
بادشاہ نے جواب میں کہا.
یہی اس کا زمانہ ہے، وہ اسی زمانے میں پیدا ہو گا یا پیدا ہو چکا ہے اس کا نام محمد ہو گا، اس کی والدہ کا انتقال ہو جائے گا، اس کے دادا اور چچا اس کی پرورش کریں گے. ہم بھی اس کے آرزو مند رہے کہ وہ بچہ ہمارے ہاں پیدا ہو، اللہ تعالٰی اسے کھلے عام ظاہر فرمائے گا اور اس کے لیے ہم میں سے (یعنی مدینے کے قبیلے خزرج میں) اس نبی کے مددگار بنائے گا (ہم میں سے اس نے اس لیے کہا کہ خزرج اصل میں یمن کے لوگ تھے) ان کے ذریعے اس نبی کے خاندان اور قبیلے والوں کو عزت حاصل ہو گی اور ان کے ذریعے اس کے دشمنوں کو ذلت ملے گی اور ان کے ذریعے وہ تمام لوگوں سے مقابلہ کرے گا اور ان کے ذریعے زمین کے اہم علاقے فتح ہو جائیں گے. وہ نبی رحمان کی عبادت کرے گا، شیطان کو دھمکائے گا. آتش کدوں کو ٹھنڈا کرے گا (یعنی آگ کے پجاریوں کو مٹائے گا) بتوں کو توڑ ڈالے گا، اس کی ہر بات آخری فرمان ہو گی، اس کے احکامات انصاف والے ہوں گے، وہ نیک کاموں کا حکم دے گا، خود بھی ان پر عمل کرے گا، برائیوں سے روکے گا، ان کو مٹا ڈالےگا ۔
عبد المطلب نے سیف بن یزن کو دعا دی۔پھر کہا۔
کچھ اور تفصیل بیان کریں۔
بات ڈھکی چھپی ہے اور علامتیں پوشیدہ ہیں مگر اے عبد المطلب اس میں شبہ نہیں کہ تم اس کے دادا ہو۔
عبد المطلب یہ سن کر فوراً سجدے میں گر گئے اور پھر سیف نے ان سے کہا۔
اپنا سر اٹھاؤ،اپنی پیشانی اونچی کرو،اور مجھے بتاؤ، جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے،کیا تم نے ان میں سے کوئی علامت اپنے ہاں دیکھی ہے؟
اس پر عبد المطلب نے کہا۔
ہاں میرا ایک بیٹا تھا،میں اسے بہت چاہتا تھا،
میں نے ایک شریف اور معزز لڑکی آمنہ بنت وہب عبد مناف سے اس کی شادی کر دی،وہ میری قوم کے انتہائی باعزت خاندان سے تھی،اس سے میرے بیٹے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،میں نے اس کا نام محمد رکھا،اس بچے کا باپ اور ماں دونوں فوت ہو چکے ہیں۔اب میں اور اس کا چچا ابو طالب اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
اب سیف نے ان سے کہا۔
میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے،وہ واقعہ اسی طرح ہے۔ اب تم اپنے پوتے کی حفاظت کرو،اسے یہودیوں سے بچائے رکھو،اس لیے کہ وہ اس کے دشمن ہیں،یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالٰی ہر گز ان لوگوں کو ان پر قابو نہیں پانے دے گا اور میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے،اس کا اپنے قبیلے والوں سے ذکر نہ کرنا،مجھے ڈر ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے ان لوگوں میں حسد اور جلن نہ پیدا ہو جائے۔یہ لوگ سوچ سکتے ہیں،یہ عزت اور بلندی آخر انہیں کیوں ملنے والی ہے یہ لوگ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے اگر یہ لوگ اس وقت تک زندہ نہ رہے تو ان کی اولادیں یہ کام کریں گی اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس نبی کے ظہور سے پہلے ہی موت مجھے آ لے گی تو میں اپنے اونٹوں اور قافلے کے ساتھ روانہ ہوتا اور ان کی سلطنت کے مرکز یثرب پہنچتا،کیونکہ میں اس کتاب میں یہ بات پاتا ہوں کہ شہر یثرب ان کی سلطنت کا مرکز ہوگا، ان کی طاقت کا سرچشمہ ہو گا،ان کی مدد اور نصرت کا ٹھکانہ ہو گا اور ان کی وفات کی جگہ ہوگی اور انہیں دفن بھی یہیں کیا جائے گا اور ہماری کتاب پچھلے علوم سے بھری پڑی ہے۔مجھے پتا ہے اگر میں اسی وقت ان کی عظمت کا اعلان کروں تو خود ان کے لیے اور میرے لیے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔یہ ڈر نہ ہوتا تو میں اسی وقت ان کے بارے میں یہ تمام باتیں سب کو بتا دیتا۔عربوں کے سامنے ان کی سربلندی اور اونچے رتبے کی داستانیں سنا دیتا،لیکن میں نے یہ راز تمہیں بتایا ہے....تمہارے ساتھیوں میں سے بھی کسی کو نہیں بتایا۔
اس کے بعد اس نے عبد المطلب کے ساتھیوں کو بلایا،ان میں سے ہر ایک کو دس حبشی غلام،دس حبشی باندیاں اور دھاری دار یمنی چادریں،بڑی مقدار میں سونا چاندی،سو سو اونٹ اور عنبر کے بھرے ڈبے دییے۔پھر عبد المطلب کو اس سے دس گنا زیادہ دیا اور بولا۔
سال گزرنے پر میرے پاس ان کی خبر لے کر آنا اور ان کے حالات بتانا۔
سال گزرنے سے پہلے ہی اس بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔
عبد المطلب اکثر اس بادشاہ کا ذکر کیا کرتے تھے،آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو عبد المطلب کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ایک عظیم سرپرست کا ساتھ چھوٹ گیا۔اس وقت عبد المطلب کی عمر 95 سال تھی۔تاریخ کی بعض کتابوں میں ان کی عمر اس سے بھی زیادہ لکھی ہے۔
جس وقت عبد المطلب کا انتقال ہوا۔آپ ان کی چارپائی کے پاس موجود تھے،آپ رونے لگے،عبد المطلب کو عجون کے مقام پر ان کے دادا قصی کے پاس دفن کیا گیا۔
مرنے سے پہلے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کیا۔اب ابو طالب آپ کے نگران ہوئے۔انہیں بھی آپ سے بے تحاشا محبت ہو گئی۔ ان کے بھائی عباس اور زبیر بھی آپ کا بہت خیال رکھتے تھے۔پھر زبیر بھی انتقال کر گئے تو آپ کی نگرانی آپ کے چچا ابو طالب ہی کرتے رہے۔
انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت محبت تھی۔جب انہوں نے آپ کی برکات دیکھیں، معجزے دیکھے تو ان کی محبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ یہ مالی اعتبار سے کمزور تھے۔دو وقت سارے گھرانے کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ کھانا کھاتے تو تھوڑا کھانا بھی ان سب کے لیے کافی ہو جاتا۔سب کے پیٹ بھر جاتے۔اسی لیے جب دوپہر یا رات کے کھانے کا وقت ہوتا تو اور سب دسترخوان پر بیٹھتے تو ابو طالب ان سے کہتے۔
ابھی کھانا شروع نہ کرو،میرا بیٹا آ جائے پھر شروع کرنا۔
پھر آپ تشریف لے آتے اور ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔آپ کی برکت اس طرح ظاہر ہوتی کہ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی کھانا بچ جاتا،اگر دودھ ہوتا تو پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پینے کے لیے دیا جاتا،پھر ابو طالب کے بیٹے پیتے،یہاں تک کہ ایک ہی پیالے سے سب کے سب دودھ پی لیتے،خوب سیر ہو جاتے اور دودھ پھر بھی بچ جاتا،ابو طالب کے لیے ایک تکیہ رکھا رہتا تھا،وہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لاتے تو آ کر سیدھے اس تکیے کے ساتھ بیٹھ جاتے،یہ دیکھ کر ابو طالب کہتے۔
میرے بیٹے کو اپنے بلند مرتبے کا احساس ہے۔
ایک بار مکہ میں قحط پڑ گیا،بارش بالکل نہ ہوئی،لوگ ایک دوسرے سے کہتے تھے،لات اور عزی سے بارش کی دعا کرو،کچھ کہتے تھے تیسرے بڑے بت منات پر بھروسہ کرو،اسی دوران ایک بوڑھے نے کہا۔
تم حق اور سچائی سے بھاگ رہے ہو،تم میں ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی نشانی موجود ہے، تم اسے چھوڑ کر غلط راستے پر کیوں جا رہے ہو۔
اس پر لوگوں نے اس سے کہا۔
کیا آپ کی مراد ابو طالب سے ہے؟
اس نے جواب میں کہا۔
ہاں میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔
اب سب لوگ ابو طالب کے گھر کی طرف چلے،وہاں پہنچ کر انہوں نے دروازے پر دستک دی،تو ایک خوبصورت آدمی باہر آیا،اس نے تہبند لپیٹ رکھا تھا، سب لوگ اس کی طرف بڑھے اور بولے۔
اے ابو طالب،وادی میں قحط پڑا ہے،بچے بھوکے مر رہے ہیں،اس لیے آؤ اور ہمارے لیے بارش کی دعا کرو۔
چنانچہ ابو طالب باہر آئے،ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،آپ ایسے لگ رہے تھے جیسے اندھیرے میں سورج نکل آیا ہو،ابو طالب کے ساتھ اور بھی بچے تھے لیکن انہوں نے آپ ہی کا بازو پکڑا ہوا تھا، اس کے بعد ابو طالب نے آپ کی انگلی پکڑ کر کعبے کا طواف کیا۔یہ طواف کر رہے تھے اور دوسرے لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے،جہاں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن پھر اچانک ہر طرف سے بادل گھر گھر کر آنے لگے،اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ شہر اور جنگل سیراب ہو گئے۔
ابو طالب ایک بار ذی الحجاز کے میلے میں گئے،یہ جگہ عرفات سے تقریباً 8 کلو میٹر دور ہے۔ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے،ایسے میں ابو طالب کو پیاس محسوس ہوئی۔انہوں نے آپ سے کہا۔
بھتیجے،مجھے پیاس لگی ہے۔
یہ بات انہوں نے اس لیے نہیں کہی تھی کہ آپ کے پاس پانی تھا....بلکہ اپنی بے چینی ظاہر کرنے کے لیے کہی تھی۔چچا کی بات سن کر آپ فورا سواری سے اتر آئے اور بولے۔
چچا جان آپ کو پیاس لگی ہے۔
انہوں نے کہا۔
ہاں بھتیجے۔پیاس لگی ہے۔
یہ سنتے ہی آپ نے ایک پتھر پر اپنا پاؤں مارا۔

09/06/2024

سیرت النبی ﷺ

عنوان: یہ غالب آئے گا

حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں: ’’میں پریشانی کی حالت میں مکہ پہنچی، آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچتے ہی میں نے کہا:
’’میں آج رات محمد کو لے کر آرہی تھی، جب میں بالائی علاقے میں پہنچی تو وہ اچانک کہیں گم ہوگئے۔ اب خدا کی قسم میں نہیں جانتی، وہ کہاں ہیں؟‘‘
عبدالمطلب یہ سن کر فورا کعبہ کے پاس کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے مل جانے کے لئے دعا کی۔ پھر آپ کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ورقہ بن نوفل بھی تھے۔ غرض دونوں تلاش کرتے کرتے تہامہ کی وادی میں پہنچے۔ ایک درخت کے نیچے انہیں ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ اس درخت کی شاخیں بہت گھنی تھیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ــ لڑکے تم کون ہو؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس وقت تک قد نکال چکے تھے، اس لئے عبدالمطلب پہچان نہ سکے۔ آپ کا قد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جواب میں آپ نے فرمایا:
’’میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔‘‘
یہ سن کر عبدالمطلب بولے:
’’تم پر میری جان قربان، میں ہی تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔‘‘
پھر انہوں نے آپ کو اٹھاکر سینے سے لگایا اور رونے لگے، آپ کو گھوڑے پر اپنے آگے بٹھایا اور مکہ کی طرف چلے۔ گھر آکر انہوں نے بکریاں اور گائیں ذبح کیں اور مکے والوں کی دعوت کی۔
آپ کے مل جانے کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے پوچھا:
’’حلیمہ! اب آپ بچے کو کیوں لے آئیں، آپ کی تو خواہش تھی کہ یہ ابھی آپ کے پاس اور رہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا:
’’یہ اب بڑے ہوگئے ہیں اور اللہ کی قسم میں اپنی ذمے داری پوری کرچکی ہوں، میں خوف محسوس کرتی رہتی ہوں، کہیں انہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے، لہٰذا انہیں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘
حضرت آمنہ کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ بولیں:
’’مجھے سچ سچ بتاؤ ماجرا کیا ہے؟‘‘
تب انہوں نے سارا حال کہہ سنایا۔ حلیمہ سعدیہ نے دراصل کئی عجیب وغریب واقعات دیکھے تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں، پھر سینۂ مبارک چاک کئے جانے والا واقعہ پیش آیا تو وہ آپ کو فوری طور پر واپس کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ چند واقعات حضرت حلیمہ رضیٰ اللہ عنہا اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’ایک مرتبہ یہودیوں کی ایک جماعت میرے پاس سے گزری۔ یہ لوگ آسمانی کتاب تورات کو ماننے کا دعوی کرتے تھے، میں نے ان سے کہا، کیا آپ لوگ میرے اس بیٹے کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟‘‘
ساتھ ہی میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بارے میں انہیں تفصیلات سنائیں۔ یہودی تفصیلات سن کر آپس میں کہنے لگے:
’’اس بچے کو قتل کردینا چاہئے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے پوچھا
کیا یہ بچہ یتیم ہے؟
میں نے ان کی بات سن لی تھی کہ وہ ان کے قتل کا ارادہ کر رہے ہیں، سو میں نے جلدی سے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
نہیں! یہ ریے اس بچے کے باپ
تب انہوں نے کہا
اگر یہ بچہ یتیم ہوتا تو ہم ضرور اسے قتل کر دیتے.
یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کہ انہوں نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں، ان کا دین سارے عالم میں پھیل جائے گا، ہر طرف ان کا بول بالا ہو گا، ان کی پیدائش اور بچپن کی یہ یہ علامات ہوں گی اور یہ کہ وہ یتیم ہوں گے. اب چونکہ ان سے حلیمہ سعدیہ نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہے تو انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ وہ بچہ نہیں ہے. اس طرح انہوں نے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا.
اسی طرح ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، ایک مرتبہ وہ آپ کو عکاظ کے میلے میں لے آئیں. جاہلیت کے دور میں یہاں بہت مشہور میلہ لگتا تھا. یہ میلہ طائف اور نخلہ کے درمیان میں لگتا تھا. عرب کے لوگ حج کرنے آتے تو شوال کا مہینہ اس میلے میں گزارتے، کھیلتے کودتے اور اپنی بڑائیاں بیان کرتے. حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو لییے بازار میں گھوم رہی تھیں کہ ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی. اسے آپ میں نبوت کی تمام علامات نظر آ گئیں. اس نے پکار کر کہا
لوگو، اس بچے کو مار ڈالو.
حلیمہ اس کاہن کی بات سن کر گھبرا گئیں اور جلدی سے وہاں سے سرک گئیں. اس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت فرمائی.
میلے میں موجود لوگوں نے کاہن کی آواز سن کر ادھر ادھر دیکھا کہ کس بچے کو قتل کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر انہیں وہاں کوئی بچہ نظر نہیں آیا. اب لوگوں نے کاہن سے پوچھا
کیا بات ہے، آپ کس بچے کو مار ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں
اس نے ان لوگوں کو بتایا
میں نے ابھی ایک لڑکے کو دیکھا ہے، معبودوں کی قسم وہ تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور وہ تم سب پر غالب آئے گا.
یہ سن کر لوگ آپ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے لیکن ناکام رہے، حلیمہ سعدیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لییے واپس آ رہی تھیں کہ ذی الحجاز سے ان کا گزر ہوا. یہاں بھی میلہ لگا ہوا تھا. اس بازار میں ایک نجومی تھا. لوگ اس کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آتے تھے وہ بچوں کو دیکھ کر ان کی قسمت کے بارے میں اندازے لگاتا تھا. حلیمہ سعدیہ اس کے نزدیک سے گزریں تو نجومی کی نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، نجومی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مہر نبوت نظر آ گئی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی خاص سرخی اس نے دیکھ لی. وہ چلا اٹھا.
اے عرب کے لوگو. اس لڑکے کو قتل کر دو. یہ یقیناً تمہارے دین کے ماننے والوں کو قتل کرے گا، تمہارے بتوں کو توڑے گا اور تم پر غالب آئے گا.
یہ کہتے ہوئے وہ آپ کی طرف جھپٹا لیکن اسی وقت وہ پاگل ہو گیا اور اسی پاگل پن میں مر گیا
ایک اور واقعہ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ حبشہ کے عیسائیوں کی ایک جماعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزری. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم حلیمہ سعدیہ کے ساتھ تھے اور وہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے جا رہی تھیں. ان عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں کی سرخی کو بھی دیکھا، انہوں نے حلیمہ سعدیہ سے پوچھا.
کیا اس بچے کی آنکھوں میں کوئی تکلیف ہے؟
انہوں نے جواب میں کہا:
"نہيں: کوئی تکلیف نہیں! یہ سرخی تو ان کی آنکھوں میں قدرتی ہے۔"
ان عیسائیوں نے کہا:
"تب اس بچے کو ہمارے حوالے کردو، ہم اسے اپنے ملک لے جائیں گے،. یہ بچہ پیغمبر اور بڑی شان والا ہے ۔ہم اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں ۔"
حلیمہ سعدیہ یہ سنتے ہی وہاں سے جلدی سےدور چلی گئیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کے پاس پہنچا دیا ۔
ان واقعات میں جو سب سے اہم واقعہ ہے،. وہ سینہ مبارک چاک کرنے والا تھا ۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر سلائی کے نشانات موجود تھے جیساکہ آج کل ڈاکٹر حضرات آپریشن کے بعد ٹانکے لگاتے ہیں، ٹانکے کھول دیئے جانے کے بعد بھی سلائی کے نشانات موجود رہتے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد حلیمہ سعدیہ اور کے خاوند نے فیصلہ کیا کہ اب بچے کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے...
جب حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالہ کیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر ۴سال تھی ۔ ایک روایت یہ ملتی ہے کہ اس وقت عمر شریف پانچ سال تھی، ایک تیسری روایت کے مطابق عمر مبارک چھ سال ہو چکی تھی ۔
جب حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حضرت آمنہ کے حوالے کیا، تو اس کے کچھ دنوں بعد حضرت آمنہ انتقال کر گئیں،والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت آمنہ کی وفات مکہ اور مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر ہوئی ۔آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔
ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر اپنے میکے مدینہ منورہ گئیں ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ام ایمن بھی تھیں ۔ام ایمن کہتی ہیں، ایک دن مدینہ کے دو یہودی میرے پاس آئے اور بولے:
"ذرا محمد کو ہمارے سامنے لاؤ، ہم انہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے سامنے لے آئیں ۔انہوں نے اچھی طرح دیکھا پھر ایک نے اپنے ساتھی سے کہا:
"یہ اس امت کا نبی ہے، اور یہ شہر ان کی ہجرت گاہ ہے، یہاں زبردست جنگ ہوگی، قیدی پکڑے جائیں گے۔"
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ کو یہودیوں کی اس بات کا پتہ چلا تو آپ ڈر گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں... مگر راستے ہی میں ابواء کے مقام پر وفات پاگئیں ۔

09/06/2024

سیرت النبی ﷺ

عنوان: حلیمہ سعدیہ ؓ کی گود میں

اس زمانے میں عرب کا دستور یہ تھاکہ جب ان کے ہاں کوئی بچہ ہوتا تو وہ دیہات سے آنیوالی دائیوں کے حوالے کردیتے تھے تاکہ دیہات میں بچے کی نشوونمابہتر ہواوروہ خالص عربی زبان سیکھ سکے-
دائیوں کا قافلہ مکہ میں داخل ہوا_انہوں نے ان گھروں کی تلاش شروع کی جن میں بچے پیدا ہوئے تھے-اس طرح بہت سی دائیاں جناب عبد المطلب کے گھر بھی آئیں-نبی کریمﷺکو دیکھالیکن جب انہیں معلوم ہواکہ یہ بچہ تو یتیم پیدا ہواہے تو اس خیال سے چھوڑکر آگے بڑھ گئیں کہ یتیم بچے کے گھرانے سے انہیں کیاملے گا-اس طرح دائیاں آتی رہیں، جاتی رہیں...کسی نے آپ کو دودھ پلانامنظور نہ کیااور کرتیں بھی کیسے؟ یہ سعادت تو حضرت حلیمہؓ کے حصے میں آناتھی-
جب حلیمہ ؓ مکہ پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا، سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیاہے اور اب صرف وہ بغیر بچے کے رہ گئیں ہیں اور اب کوئی بچہ باقی نہیں بچا، ہاں ایک یتیم بچہ ضرور باقی ہے جسے دوسری عورتیں چھوڑ گئیں ہیں-
حلیمہ سعدیہؓ نے اپنے شوہر عبد اللہ ابن حارث سے کہا:
خدا کی قسم! مجھے یہ بات بہت ناگوار گزر رہی ہے کہ میں بچے کے بغیر جاؤں دوسری سب عورتیں بچے لے کر جائیں، یہ مجھے طعنے دیں گے، اس لیے کیوں نہ ہم اسی یتیم بچے کو لے لیں۔"
عبداللہ بن حارث بولے:
"کوئی حرج نہیں! ہوسکتا ہے، اللہ اسی بچے کے ذریعے ہمیں خیروبرکت عطا فرمادیں۔"
چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا عبدالمطلب کے گھر گئیں۔جناب عبدالمطلب اور حضرت آمنہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔پھر آمنہ انہیں بچے کے پاس لے آئیں۔آپ اس وقت ایک اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔وہ چادر سفید رنگ کی تھی۔آپ کے نیچے ایک سبز رنگ کا ریشمی کپڑا تھا۔آپ سیدھے لیٹے ہوئے تھے، آپ کے سانس کی آواز کے ساتھ مشک کی سی خوشبو نکل کر پھیل رہی تھی۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں۔آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے، انہوں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔لیکن جونہی انہوں نے پیار سے اپنا ہاتھ آپ کے سینے پر رکھا، آپ مسکرادیے اور آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"میں نے دیکھا، آپ کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا، میں نے آپ کو گود میں اٹھا کر آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیانی جگہ پر پیار کیا۔پھر میں نے آپ کی والدہ اور عبدالمطلب سے اجازت چاہی، بچے کے لیے قافلے میں آئی۔میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے گود میں لٹایا تو آپ دائیں طرف سے دودھ پینے لگے، پہلے میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانا چاہا، لیکن آپ نے اس طرف سے دودھ نہ پیا، دائیں طرف سے آپ فوراً دودھ پینے لگے۔بعد میں بھی آپ کی یہی عادت رہی، آپ صرف دائیں طرف سے دودھ پیتے رہے، بائیں طرف سے میرا بچہ دودھ پیتا رہا۔
پھر قافلہ روانہ ہوا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"میں اپنے خچر پر سوار ہوئی۔آپ کو ساتھ لے لیا۔اب جو ہمارا خچر چلا تو اس قدر تیز چلا کہ اس نے پورے قافلے کی سواریوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔پہلے وہ مریل ہونے کی بنا پر سب سے پیچھے رہتا تھا۔میری خواتین ساتھی حیرانگی سے مخاطب ہوئیں:
"اے حلیمہ! یہ آج کیا ہورہا ہے، تمہارا خچر اس قدر تیز کیسے چل رہا ہے، کیا یہ وہی خچر ہے، جس پر تم آئیں تھیں اور جس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل تھا؟ "
جواب میں میں ان سے کہا:
"بےشک! یہ وہی خچر ہے، اللہ کی قسم! اس کا معاملہ عجیب ہے۔"
پھر یہ لوگ بنو سعد کی بستی پہنچ گئے، ان دنوں یہ علاقہ خشک اور قحط زدہ تھا۔حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"اس شام جب ہماری بکریاں چر کر واپس آئیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے تھے جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا، ان میں سے دودھ بہت کم اور بہت مشکل سے نکلتا تھا۔ہم نے اس دن اپنی بکریوں کا دودھ دوہا تو ہمارے سارے برتن بھرگئے اور ہم نے جان لیا کہ یہ ساری برکت اس بچے کی وجہ سے ہے۔آس پاس کی عورتوں میں بھی یہ بات پھیل گئی، ان کی بکریوں بدستور بہت کم دودھ دے رہی تھیں۔
غرض ہمارے گھر میں ہر طرف، ہر چیز میں برکت نظر آنے لگی۔دوسرے لوگ تعجب میں رہے۔اس طرح دو ماہ گزر گئے۔دو ماہ ہی میں آپ چلنے پھرنے لگے۔آپ آٹھ ماہ کے ہوئے تو باتیں کرنے لگے اور آپ کی باتیں سمجھ میں آتیں تھیں۔نو ماہ کی عمر میں تو آپ بہت صاف گفتگو کرنے لگے۔
اس دوران آپ کی بہت سی برکات دیکھنے میں آئیں۔حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں:
"جب میں آپ کو اپنے گھر لے آئی تو بنو سعد کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا۔جس سے مشک کی خوشبو نہ آتی ہو، اس طرح سب لوگ آپ سے محبت کرنے لگے ۔جب ہم نے آپ کا دودھ چھڑایا تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
اللہ اکبرکبیراوالحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا
یعنی اللہ تعالٰی بہت بڑاہے، اللہ تعالی کے لئے بے حد تعريف ہے، اور اس کےلئے صبح وشام پاکی ہے،، ۔
پھر جب آپ ﷺدو سال کے ہو گئے تو ہم آپ کو لےکر آپ کی والدہ کے پاس آئے، اس عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو ماں باپ کے حوالہ کردیا جاتاتھا ۔ادھر ہم آپکی برکات. دیکھ چکےتھے اور ہماری آرزو تھی کہ ابھی آپ کچھ اور مدت ہمارے پاس رہیں، چنانچہ ہم نے اس بارے میں آپ کی والدہ سے بات کی، ان سے یوں کہا ;
،، آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بچےکو ایک سال اوراپنے پاس رکھیں، میں ڈرتی ہوں، کہیں اس پر مکہ کی بيماريوں اور آب و ہوا کااثر نہ ہوجائے،، ۔
جب ہم نے ان سے باربار کہا تو حضرت آمنہ مان گئیں اورہم آپ کو پھر اپنے گھر لے آئے۔جب آپ کچھ بڑے ہو گئے تو باہر نکل کر بچو ں کو دیکھتے تھے ۔وہ آپ کو کھیلتے نظر آتے، آپ ان کے نزدیک نہ جاتے، ایک روز آپ نے مجھ سے پو چھا;
،، امی جان " کیا بات ہے دن میں میرے بھائ بہن نظر نہیں آتے? آپ اپنے دودھ شریک بھائ عبداللہ اور بہنوں انیسہ اور شیما کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں; میں نے آپ کو بتایا، وہ صبح سویرے بکریاں چرانے جاتےہیں، شام کے بعد گھر آتے ہیں: یہ جان کر آپ نے فرمایا:
"تب مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا کریں"
اسکے بعد آپ اپنے بھائ بہنوں کے ساتھ جانے لگے ۔آپ خوش خوش جاتے اور واپس آتے، ایسے میں ایک دن میرے بچے خوف زدہ انداز میں دوڑتے ہوئے آئے اور گھبرا کر بولے:
"امی جان! جلدی چلئے… ورنہ بھائ محمدﷺ ختم ہو جائیں گے۔"
یہ سن کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے، دوڑ کر وہاں پہنچے، ہم نے آپ کو دیکھا، آپ کھڑے ہوئے تھے، رنگ اڑا ہوا تھا، چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی - اور یہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ کو سینہ چاک کئے جانے سے کوئی تکلیف ہوئی تھی بلکہ ان فرشتوں کو دیکھ کر آپ کی حالت ہوئی تھی -"
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہم نے آپ سے پوچھا:
"کیا ہوا تھا؟"
آپ نے بتایا:
"میرے پاس دو آدمی آئے تھے - وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے - (وہ دونوں حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام تھے) ان دونوں میں سے ایک نے کہا:
" کیا یہ وہی ہیں؟"
دوسرے نے جواب دیا:
"ہاں یہ وہی ہیں -"
پھر وہ دونوں میرے قریب آئے، مجھے پکڑا اور لٹادیا - اس کے بعد انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز تلاش کرنے لگے - آخر انہیں وہ چیز مل گئی اور انہوں نے اسے باہر نکال کر پھینک دیا، میں نہیں جانتا، وہ کیا چیز تھی -"
اس چیز کے بارے میں دوسری روایات میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ایک دانہ سا تھا - یہ انسان کے جسم میں شیطان کا گھر ہوتا ہے اور شیطان انسان کے بدن میں یہیں سے اثرات ڈالتا ہے -
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، پھر ہم آپ کو گھر لے آئے - اس وقت وہ میرے شوہر عبد اللہ بن حارث نے مجھے سے کہا:
"حلیمہ! مجھے ڈر ہے، کہیں اس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، اس لیے اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو -"
میں نے کہا، ٹھیک ہے، پھر ہم آپ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے - جب میں مکہ کے بالائی علاقے میں پہنچی تو آپ اچانک غائب ہوگئے - میں حواس باختہ ہوگئی۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Enjoin good, forbid evil posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share