Maqami Siyasat (layyah)

  • Home
  • Maqami Siyasat (layyah)

Maqami Siyasat (layyah) Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Maqami Siyasat (layyah), Media/News Company, village jaisal ( klasra) tehsil and distt layyah, .

08/03/2017

Dr Naeem Klasra

Under The Umbrella of Dr Naeem Klasra Trust now donated 100 student Uniforms, bags , 300 writing registers , footballs and bat balls for Government Boys high school jaysal klasra .

18/01/2017

جب سرائیکی وسیب کے لوگ انہیں آئینہ دکھاتے ہیں تو یہ گدھے بے شرمی سے ہنستے ہیں۔ جب ہنسی رُک جاتی ہے پھر دوباره پوچھتے ہیں، "سرائیکی دا مسئلہ کی ہے؟" پھر قہقے!

09/01/2017

PPP always make Govt at islamabad when after Sindh it wins from Seraiki region.
imran has to make same combination. KPK&Seraiki seats..
South wants a promise of province

09/12/2016

جنید جمشید کی موت پر مجھے آج زہرہ نگاہ سے سنی ہوئی ایک نظم یاد آ گئی ’’میں بچ گئی ماں‘‘۔ نظم ایک ایسی بیٹی کی زبان میں کہی گئی ہے جسے پیدا ہو کر سماج کی گندگی کی نذر ہونا ہے، مگر جسے ماں اس گندگی کی نذر ہونے سے پہلے ہی اپنی کوکھ میں ضائع کر دیتی ہے۔ اب وہ ضائع ہو چکی بیٹی زہرہ نگاہ کی نظم میں کہہ رہی ہے کہ ’’میں بچ گئی ماں‘‘۔

ایسا لگ رہا ہے کہ جنید جمشید کو بھی اسے تخلیق کرنے والے نے اوپر ہی فضا کی کوکھ میں ضائع کر دیا، ہمارے ہاتھوں مزید گندا ہونے سے پہلے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور وہ اب کہیں بیٹھا کہہ رہا ہے کہ ’’میں بچ گیا ماں‘‘۔

وہ ایک ایسا شکار تھا جس پر بیک وقت کئی عقابی نظریں مرکوز تھیں۔ ہر فرقہ اور ہر فرقے کا boss۔ کیا لبرل اور کیا دین دار۔ سب ہی نے آگ گرم کر رکھی تھی اس کے لیے۔

دین داروں کو جلدی تھی کہ ہم اسے اپنی جلائی ہوئی آگ کے ذریعے دوزخ میں بھیجنے کا اعزاز حاصل کریں گے اور اپنے جنّتی ہونے کا ثبوت دیں گے۔ لبرل اس آگ میں اسے ڈال کر اپنا سگار سلگاتا تھا کہ موسیقی جیسی روح کی غذا چھوڑ کر جدید دور کے انسان کو مذہب کی باتیں سنا کر بیوقوف بناتا ہے!

وہ خود اس بچے کی طرح تھا جو سارے کھلونے اپنے دامن میں سمیٹنا چاہتا ہے۔ دین بھی، دنیا بھی۔ عشقِ اللہ بھی اور عشقِ رسولﷺ بھی۔ کعبہ اسے پیچھے سے کھینچتا تھا اور کلیسا اس کے آگے آگے۔ شہرت اس کے پیروں سے لپٹی اسے زمین کی طرف کھینچتی تھی اور اُڑان وہ آسمان کی طرف بھرنا چاہتا تھا۔ دنیا اس کا دامن خالی نہیں کرتی تھی، جس کے بوجھ کی وجہ سے وہ بار بار اپنی اُڑان میں بے دم ہو کر گرتا تھا، پھر سے اُٹھتا تھا، پھر سے پر جھاڑتا تھا اور پھر سے اُڑان کی تمنا کرتا تھا۔ رہِ عشق کے مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو دنیا کو ٹھکرا کر تہی دامن سفرِ عشق پر روانہ ہو جاتے ہیں اور مڑ کر نہیں دیکھتے۔ مڑ کر دیکھیں گے تو پتھر کے ہو جائیں گے۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو رہِ عشق کے سفر میں پہلے والوں کے نقشِ کفِ پا پر پیر رکھ رکھ کر چلتے ہیں۔ ان کا شمار عشاق میں ہو نہ ہو مگر وہ شوقِ عشق میں مبتلا ضرور ہوتے ہیں۔ جنید جمشید بھی شوقِ عشق میں مبتلا تھا۔ اس شوق میں وہ بار بار دنیا کی رنگینیوں سے دامن چھڑاتا ہوا بھی دکھتا اور بار بار دامن تار تار بھی کر بیٹھتا۔

شاید رامائن میں پڑھا تھا کہ ستی ساوتری وہ نہیں ہے جس کی آزمائش ہی نہ ہوئی ہو اور وہ ستی ساوتری رہ جائے۔ ستی ساوتری وہ ہے جس پر آزمائش بھی آئے اور وہ پھر بھی ستی ساوتری رہے۔ جنید جمشید بار بار آزمایا گیا اور فیل ہو ہو کر پاس ہوتا رہا اور پاس ہو ہو کر فیل ہوتا رہا۔

ایسا ہی تو ہوتا ہے انسان۔ کھنکتی بھربھری مٹی سے ایسا ہی تو بنایا گیا ہے انسان۔ بار بار بھربھرا کر بکھرتا ہوا اور کھنکتا ہوا اور سمٹتا ہوا۔ وہ انسان ہی کیا جو ہر صبح نیا جنم نہ لے اور ہر رات اس سوچ میں نہ پڑ جائے کہ نہیں نہیں، بات اب بھی کچھ بنی نہیں۔ پھر اگلی صبح وہ نیا جنم لے۔ پھر رات کو وہ اپنی مٹی کے ذرّے گنے اور کہے کہ بات اب بھی بنی نہیں۔ جنید جمشید بھی ایسا ہی جستجو کا مارا ہوا انسان تھا۔ جستجو انسان کو دنیا کی مرضی کے مطابق بننے نہیں دیتی۔ ہم اسے اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے اس کے شکاری بھی بہت تھے۔ وہ ہمارا لاڈلہ نہ تھا۔ وہ دراصل دکھائی دینے والا شکار تھا۔ جیسے ہرن ہوتا ہے! قلانچیں مارتا ہوا، اور شکاری اسے چاروں طرف سے گھیر رہے ہوتے ہیں۔ سب کو اپنے اپنے ثواب کے لیے یہ شکار اس کے حضور پیش کرنا تھا جو ہماری نیتوں کا حال ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ لبرل بھی شکار کھیلتا ہے مگر اپنے نظریے کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے۔ مولوی ثواب کا بھوکا ہے اور لبرل ثبوت کا بھوکا ہے۔

دونوں نے جنید جمشید کا شکار خوب کھل کر کھیلا۔

اس کے گرد شکاریوں کا گھیرا تنگ ہوتا چلا جا رہا تھا، اس لیے اب اسے جنگل سے چلے ہی جانا چاہیے تھا۔ ورنہ ہم اسے کبھی وہابی کہہ کر سنگسار کرتے اور کبھی عشق رسولﷺ کا مجرم قرار دے کر گولی مارتے اور جنّت کماتے۔ کبھی کافر ثابت کرتے اور کبھی گستاخ قرار دیتے۔ کبھی اس کے مولوی ہونے کا مذاق اڑاتے اور کبھی اس کی گلوکاری چھوڑنے کو بنیاد پرستی قرار دیتے۔ کبھی اسے پیسے کا لالچی کہہ کر مذہب بیچنے والا قرار دیتے اور مطالبہ کرتے کہ اسے بھوکا مرنا چاہیے۔ اپنے اپنے گناہوں اور خطاؤں اور مکّاریوں اور چال بازیوں کی فائلیں بغل میں دبائے اس کا حساب باریک بینی سے لکھتے جاتے۔

گو کہ ابھی ہم نے اسے گلیوں میں گھسیٹنا تھا اور اس پر سنگ زنی کر کے ثواب کا کاروبار بھی چمکانا تھا مگر اللہ اس پر مہربان ہو گیا اور اسے اس پاگل قوم کے ہاتھوں مزید رسوا ہونے سے بچا لیا۔

اب یہ قوم چاہے اسے بڑے اعزاز کے ساتھ رخصت کرے اور اسے شہید قرار دے! یا پھر مفت میں ثوابِ دارین حاصل کرنے کے لیے اس کی نمازِ جنازہ کو حرام قرار دے! یا پڑھے لکھے لوگ مولوی کے مرنے پر افسوس کرتے ہوئے شرمائیں اور صرف گلوکار کی تعزیت کریں! مگر وہ بہرحال بچ گیا۔ اس نے اللہ کے راستے پر اپنا پسندیدہ کام آخری بار سر انجام دیا، جہاز میں سوار ہوا اور فضاؤں کی کوکھ میں ضائع ہو کر بچ گیا۔

مگر مجھے آج پہلی بار اس پر صرف پیار آ رہا ہے۔ آج پہلی بار جنید جمشید کی طرف غور سے دیکھا تو جانا کہ یہی تو ہے وہ باغِ بہشت سے نکالا گیا انسان، جو نہ اپنے رب کو چھوڑ پاتا ہے اور نہ دنیا سے نجات حاصل کر پاتا ہ

05/11/2016

ہم لڑکے گاؤں کے جس جھاڑیوں بھرے میدان کو کرکٹ گراونڈ بنانے کے لیے صاف کرتے اس پر اگلے دن اس کا مالک اپنی دیوار کھڑی کر دیتا کہ اس نے گھر بنانا تھا۔ ہم بچوں نے سیمنٹ کی کرکٹ پچ بنوانے کے لیے گاؤں سے چندہ تک اکھٹا کیا۔ ہم نے ہفتوں کی محنت سے تین میدان بنائے اور تینوں پر قبضہ ہوا تو میں لڑکوں کو لے کر کوٹ سلطان تھانے جا پہنچا۔ تھانیدار حیران ہوا کہ بھلا لڑکے کیوں پرچہ کٹوانا چاہتے ہیں۔ مالک کو بلایا گیا تو اس نے کہا زمین اس کی تھی وہ جو جی چاہے کرے۔ میں دس برس کا تھا اور بولا کہ اگر یہ بات تھی تو جب ہم نے ایک ہفتے تک وہاں جھاڑیوں کو کاٹا تو اس وقت کیوں نہیں روک دیا تھا۔اگلی صبح اپنے تئیں اماں کو دکھانے کے لیے منہ بسور کر اٹھا اور باہر صحن میں نکلا تو وہی گاؤں کے بزرگ بیٹھے تھے جن کی شکایت لے کر تھانے گئے تھےوہ بزرگ پیار سے بولے کہ یار رات میں سوچتا رہا ہوں کہ تم لوگوں کی بات تو ٹھیک ہے کہ بچے ہو کر تم لوگوں نے دس دن تک وہ سارا گراونڈ صاف کیا ہے اور ہاتھوں پر زخم کھائے ہیں۔ تم بھی میرے بچوں کی طرح ہو۔ ایک کام کرو۔ وہ گراونڈ بہت بڑا ہے۔ میں نے تو ایک دو کمرے ہی بنانے ہیں، تم باقی گراونڈ پر کرکٹ کھیل لیا کرو۔

میں ناقابل یقین نظروں سے انہیں دیکھتا رہا۔

22/10/2016
Rauf Klasra

لیہ ایک بار پھر سیلاب کے زیرعتاب آگیا،ایم این ایز،ایم پی ایز کو دریا کے کٹاو کی وجہ سے تباہ ہونے والی زمینوں اور تباہ حال کسانوں سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔
نوازلیگ کے ایم این ایزاور ایم پی ایز کو تھانوں میں مخالفین کو چھتر مروانے سے ہی فرصت نہیں۔۔۔۔

14/09/2016

Pakistan’s trade balance is negative with as many as 84 countries and the highest trade deficit is with China, standing at $9.1 billion, according to official statistics tabled in the National Assembly on Monday.

According to the data, the second most negative trade balance is with United Arab Emirates at $4.8 billion while it is $2.6 billion with Saudi Arabia, $1.9 billion with Indonesia, $1.6 billion with Kuwait and $1.35 with neighbouring India.

Similarly, it is $724 million with Malaysia, $360 million with Australia and $228 million with Iran. The last three countries among the list of 84 for negative trade are British Virgin Islands with $12 million, Cocos (Keeling) Islands with $4 million and Greenland with $1 million.
Pakistan’s trade balance negative with 84 nations

19/08/2016

آنکھیں تو چرا لو گے
پر خواب نہیں دوں گا

18/06/2016
Muawanat

Muawanat

Nonprofit Organization

17/06/2016

Express Tribune Blogs

I wanted to dream but I was scared. Hamza was the only ray of hope in my life. (http://bit.ly/21qvQDY)

10/06/2016
Mehangai | Full Song With Lyrics | Chakravyuh

cool song
Sarbat ke tarah desh ko gatka ha gatagat
Aam Aadmi ke jeb ho gayi hai safachat...
Bhaiya dekh liya ha bahut teri sardari ree......................

Sing along to the tunes of Mehangai with Kailash Kher from 'Chakravyuh' featuring Abhay Deol. Film – Chakravyuh Music – Salim-Sulaiman, Aadesh Shrivastava, S...

03/06/2016

ونیورسٹٰی آف اوکلاہوما میں‌ جب میں ‌نے 2008 سے 2010 کے دوران اینڈوکرینالوجی میں‌ فیلوشپ کی تو مجھے ریپروڈکٹو اینڈوکرینالوجی کے اور پیڈیاٹرک اینڈوکرینالوجی کے ڈپارٹمنٹس میں‌ بھی کام کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک سال کے لئے ہفتے میں‌ ایک کانفرس میں‌ جانا پروگرام کا لازمی حصہ تھا لیکن مجھے ان کی کانفرنس اتنی پسند تھیں‌ کہ ان میں‌ ایک دو بار خود بھی لیکچر دئیے اور دونوں‌ سال باقاعدگی سے جاتی رہی۔ اب ان پروفیسرز کے ساتھ اچھے کام والے تعلقات ہیں۔ اور جو لوگ اس وقت ریزیڈنسی کررہے تھے وہ اب اچھے کولیگ بن گئے۔

ری پروڈکشن کی اینڈوکرینالوجی خود ایک ایسا موضوع ہے جس میں‌ معلومات بے انتہا اور نہایت پیچیدہ ہیں‌۔ صرف اس ایک موضوع میں ‌ہی اگر کوئی ماہر ہو تو وہ کافی مصروف رہے گا کیونکہ اس کے کافی مریض ہیں۔ اگر کسی کو اس میں ‌دلچسپی ہے تو لیون سپیراف کی ٹیکسٹ بک پڑھیں۔ اس کتاب میں‌ حیض یا مینسٹرویشن پر پورا باب ہے جس میں‌ سے زیر نظر تحریر کے لئے معلومات لی گئی ہیں۔

جہاں ‌تک لکھی گئی انسانی تاریخ‌ کا تعلق ہے اس میں‌ حیض سے متعلق قدیم انسانوں‌کے جادو پسند خیالات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان تحاریر میں‌ گائے سے دودھ حاصل کرنے، اور دیگر جانوروں‌ اور فصلوں‌ کے بارے میں‌ توہمات اور اعتقادات کا بھی ذکر ہے۔ تقریباً تمام دنیا میں‌ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ایک خاتون جن کو حیض آئے ہوں‌ ان پر شیطان کا قبضہ ہو گیا ہے۔

0000پلائنی23 صدی بعد مسیح ‌میں ‌پیدا ہوئے. انہوں‌ نے ڈاکٹروں‌ کی لکھی ہوئی تقریباً 2000 کتابوں‌ سے استفادہ کیا اور اپنی کتاب ہسٹوریا نیچرالس لکھی۔ پلائنی کی لکھی ہوئی کتاب یورپی تاریخ ‌کے سیاہ ادوار میں‌ کافی مشہور تھی اور اس موضوع سے متعلق معلومات کے لئے بہت لوگ اس کو پڑھتے تھے۔ اس کتاب کے اب بھی 100 سے زیادہ نسخے تمام 37 جلدوں کے ساتھ موجود ہیں‌۔ پلائنی تنقیدی سوچ سے نابلد تھے ان کی کتابوں‌ میں‌ لکھی گئی باتوں ‌پر اکثر لوگ یقین کرتے تھے اور ان کو اپنی زندگی اور کتابوں‌ میں دہراتے بھی تھے۔ تو اس طرح‌ ایک عالمی سوچ بنتی چلی گئی۔

پلائنی نے اپنی کتابوں‌میں‌ حیض کے بارے میں ‌لکھتے ہوئے کہا کہ “اگر اس خون سے چھو بھی جائے تو نئی شراب کھٹی ہو جائے، فصلیں ‌چھو لیں‌ تو بنجر ہو جائیں، درخت مر جائیں، باغوں‌ کے بیج سوکھ جائیں، درختوں‌ کے بیج گر پڑیں‌، فولاد کی دھار کندن ہو جائے اور ہاتھی کے دانتوں‌ کی چمک دھندلی پڑ جائے، شہد کی مکھیوں‌ کے چھتے کے چھتے مر جائیں، یہاں ‌تک کہ سونے اور کانسی ایک لمحے میں ‌زنگ کا شکار ہو جائیں، ایک نہایت خوفناک بدبو ہوا میں‌بھر جائے، اگر اس کو چکھ لیں‌ تو کتے پاگل ہو جائیں‌ اور ان کے لعاب میں جان لیوا‌ زہر بھر جائے۔ اگر ایک حیض زدہ خاتون اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ایک گندم کے کھیت میں ‌سے گزر جائے تو کیڑے مکوڑے، تتلی کے انڈے سب ختم ہو جائیں‌ اور مکئی کے کانوں‌ سے کیڑے گر پڑیں اور سارے پودے زرد پڑ جائیں‌۔ شہد کی مکھیاں‌ اگر اس کو چھولیں‌تو اپنا چھتہ چھوڑ کر بھاگ جائیں کیونکہ ان کو چور اور حیض زدہ خاتون سے کراہیت ہے جس کی ایک نظر سے تمام مکھیاں‌ موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں”۔

000000ارسطو جیسے عقل مند شخص کا خیال تھا کہ حیض زدہ خاتون اگر ایک آئینہ دیکھ لیں ‌تو وہ دھندلا پڑ جائے اور اس کے بعد جو بھی اپنے آپ کو اس آئینے میں‌ دیکھے تواس پر جادو کا اثر ہو جائے۔ سندھ میں‌ اچار بنانے کے لئے مشہور قصبے شکار پور کا نام تو ہر کسی نے سن رکھا ہو گا۔ میں ‌نے بچپن میں‌ لوگوں ‌سے سنا تھا کہ اگر ایک خاتون مہینے سے ہوں اور ان کا سایہ اچار کے برتن پر پڑ جائے تو وہ سڑ جاتا ہے اور اس کو پھینکنا پڑ جاتا ہے۔ ہندو ازم کی متھالوجی میں‌ ایک ملا جلا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ علاقوں ‌میں‌ آج بھی جب کسی بچی کو پہلی بار ماہواری ہو تو لوگ جشن مناتے ہیں ۔ پرانے جنوبی ایشیا کے جو حیرت انگیز اور خوبصورت مندر ہیں‌ ان میں‌ کئی دیویاں ‌ایسی ہیں‌ جن میں‌ ماہواری کو ظاہر کیا گیا ہے۔ لیکن کچھ جگہ منفی خیالات بھی ملتے ہیں۔

برٹش میڈیکل جرنل میں‌ 1878 میں‌ چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق اگر ایک خاتون حیض کے دوران بیکن کو چھوئیں‌ تو وہ سڑ جاتا ہے۔

کافی گھریلو کہانیاں‌بھی مشہور تھیں‌ کہ جیسے کسی خاتون کو حیض‌ آیا تو خود بخود چیزیں ٹوٹ گئیں‌، سوئیاں‌ ٹوٹ گئیں، شیشے کرچی کرچی ہو کر بکھر گئے اور گھڑیاں‌ ٹھہر گئیں۔ اسی لئے اس تاریخ ‌کو پڑھ کر قطعاً حیرت نہیں‌کہ ماہواری اور اس کے خون کے نارمل انسانی نظام کو عجیب طریقے سے دیکھا گیا اور اس سے جو بھی چیز چھو جائے اس کو گندہ یا ناپاک تصور کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اکیلے اور اپنے خاندان سے الگ رکھنے کے رواج نے پرورش پائی۔ تقریباً تمام دنیا میں‌ یہ خیالات پائے جاتے ہیں‌ کہ حیض زدہ خاتون ناپاک ہیں‌ اور ان کو حیض کے دوران برتن، مذہبی عمارات یا کتابیں ‌چھونے، پوجا پاٹ میں‌ حصہ لینے یا کھانا پکانے وغیرہ سے دور رکھا جاتا ہے۔

آج کل کے ماڈرن زمانے میں جب کہ سائنسی اور میڈیکل معلومات عام بھی ہیں‌ اور آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں، پھر ‌بھی کئی ملکوں ‌میں‌عجیب و غریب روئیے ملتے ہیں‌ جیسا کہ نیپال میں‌ جب بچیوں‌ کو حیض ہوں ‌تو ان کو گھر سے باہر ایک جھونپڑی میں‌ بھیج دیتے ہیں‌ جہاں‌اکثر جنگلی جانور ان پر حملہ کرتے ہیں۔ ااب کھیت میں ‌سے برہنہ گزر جائیں گی تو فصل کو تو کچھ نہیں‌ ہونا ہے لیکن گاؤں‌ کی ان غریب خواتین کی بپتا افسوس ناک ہے جن کے گھروں‌ میں‌ باتھ روم نہیں‌ ہوتے اور وہ کھیتوں‌ میں‌ جاتی ہیں‌ جہاں‌ کئی کے ریپ ہو چکے ہیں۔ یہ لوگوں ‌کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا خیالی ہے اور کیا اصلی مسائل ہیں۔ کچھ لوگ یہ تک سمجھتے ہیں ‌کہ اس ناپاکی کی وجہ سے خواتین کا نیکیوں‌ میں‌ آگے ہو جانا ناممکن ہے۔ کافی سارے لوگ آج بھی اس دنیا میں‌ ان دقیانوسی باتوں ‌پر یقین رکھتے ہیں۔

آج کل کے زمانے میں‌ کچھ تعلیم اور شعور کی بیداری سے خیالات میں‌ تبدیلی آئی ہے لیکن پھر بھی ایک ناپسندیدگی موجود ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ناپسندیدگی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق پڑتا ہے۔ ایسی تہذیب، روایات اور تاریخ‌ کی وجہ سے حیض پر کی جانے والی سائنسی اور سماجی تحقیق پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

00001اس بات کی ایک مثال جو ہم سب کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ جب دل کی بیماریوں‌ پر ریسرچ شروع ہوئی تو زیادہ تر ریسرچر خود بھی مرد تھے اور ان کی ریسرچ میں‌ شامل سب مریض بھی تو اس لئے جب ہم لوگ اسٹوڈنٹس تھے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ دل کے دورے خواتین کو نہیں ‌پڑتے۔ یہ کافی ساری خواتین کے مرنے کے بعد سمجھا گیا کہ مینو پاز (سن یاس) کے بعد ایسٹروجن لیول کے گرنے سے خواتین میں ‌بھی دل کے دورے پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اب فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جب کسی دوا پر کی گئی ریسرچ کو دیکھتی ہے تو وہ اس بات پر خصوصی دھیان دیتی ہے ‌کہ جن افراد پر یہ دوا آزمائی گئ کیا وہ ساری آبادی کے نمائندے ہیں‌۔ اس کا مطلب ہے کہ دوا کے ٹیسٹ جن افراد پر کئیے گئے کیا ان میں ہر نسل، عمر اور جنس کے افراد شامل ہیں‌ یا نہیں۔ کیونکہ جس ریسرچ میں‌ آپ کے جیسے لوگ نہ ہوں ‌اس کے نتائج آپ پر لاگو نہیں ‌کیے جا سکتے۔

یہ سوال اکثر مریض پوچھتے ہیں‌کہ ماہواری کے دوران ملنا (جنسی سرگرمی) ٹھیک ہے یا نہیں۔ تو اس کا جواب ہے کہ ماہواری کے دوران چونکہ خواتین میں‌ انفکشن کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں‌ تو ان کو صفائی کا دھیان رکھنا چاہئیے اس کے علاوہ دونوں‌ پارٹنرز کو خیالی مسائل شاید ہو سکتے ہوں لیکن طبی نقطہ نگاہ سے کوئی پرابلم نہیں‌ ہوتا۔

تقریباً تمام دنیا کے انسانوں کے ذہن ‌میں ‌حیض سے متعلق عجیب و غریب خیالات ثبت ہیں۔ اگر اس موضوع سے متعلق بات چیت ہو گی، شعور میں‌ اضافہ ہو گا اور معلومات بڑھیں‌ گی تو پھر ان سے متعلق ہائی جین پروڈکٹس میں ‌بھی اضافہ ہو گا، حیض سے متعلق بہتر دوائیاں ‌بن سکیں ‌گی۔ لوگوں‌ کے لئے نارمل انسانی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر معلومات میں‌اضافہ ہو تو ان کو پتہ چلے گا کہ ہر مہینے حیض ہونے سے انیمیا کی بیماری، پیٹ اور کمر میں‌ درد اور تھکن کی شکایت عام ہے۔ مناسب دوائیں‌ کھانے سے حیض‌ ہر مہینے سے تبدیل کر کے سال میں‌ ایک یا دو دفعہ کر دینا ممکن ہے اور محفوظ بھی۔ یہ سجمھیں‌ کہ مہینے کے کون سے دنوں‌ میں ‌حمل ٹھہر جاتا ہے اور اس نالج کو ایسی جگہوں ‌پر استعمال کریں‌ جہاں‌ برتھ کنٹرول باآسانی دستیاب نہیں۔ مدر ٹریسا چونکہ کیتھولک تھیں‌ وہ گولیوں‌اور ٹیکوں کی بجائے کیلنڈر میتھڈ ہی انڈیا میں‌ اپنے مریضوں ‌کو بتاتی تھیں‌۔

سمجھیں ‌کہ سفر پر جائیں‌ تو کیسے مہینہ آنے سے روک دیں۔ اور خواتین کے دل و دماغ میں‌ جو ہزاروں برس سے اچھوت اور کمتر ہونے کے خیالات بٹھائے گئے ہیں‌ ان سے باہر نکل کر وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ کسی بھی جاب کے لئے برابری سے مقابلہ کر سکیں گی۔ اب جسمانی طاقت کا تو زمانہ ہے نہیں۔ یہ وقت آج ان لوگوں‌کے فائدے میں ‌کام کرے گا جو عقل کے میدان میں‌ ترقی کریں۔

آخر میں‌ اس تحریر کے مرکزی خیال کو ایک ڈاکٹر ذرا واضح‌ طور پر اس طرح‌ ہی سمجھا سکتا ہے کہ بہہ گیا تو حیض کہلایا اور ٹھہر گیا تو ہم سب اس سے بن گئے۔

25/05/2016

مندرجہ ذیل تصویر دیکھ کر آپ میں سے بہت سے عقل کے اندھوں اور بصیرت سے محروم افراد کو لگے گا کہ یہ تصویر کسی انسان کی ہے. لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے. یہ تصویر انسانی شبہیہ ضرور رکھتی ہے لیکن کسی انسان کی تصویر نہیں. یہ ایک ہجڑے کی تصویر ہے. انسانی شبہہ رکھنے کے باوجود کسی ہجڑے کو تیسرے یا چوتھے درجے کے انسان ہونے کا دعویدار ہونے کا بھی حق نہیں. اس لیے اسے انسان سمجھ کر انسان کی توہین سے گریز کیجئے.. یہ جانور ایک تو ہجڑا، دوسرا انسان سے مشابہ، اور تو اور اوپر سے عورت نما.... مرد نما ہوتا تو شاید ایک درجہ بڑھ کر انسانیت کے قریب ہو جاتا..

بصیرت کے اعلی درجات پر فائز پشاور ہاسپٹل کا طبی عملہ اس بات سے بخوبی واقف تھا تب ہی انہوں نے اپنے medical doctrine کا بھرپور پاس رکھا جس کے تحت انہوں نے "انسانیت کی خدمت" کا عہد کیا تھا اور اس ہجڑے سے کتوں جیسا سلوک کر کے انسانیت کو بچا لیا. اس کے لیے انہوں نے بڑا مزیدار اور پرلطف انداز اپنایا. ڈاکٹرز اس انسان نما جانور سے پوچھتے رہے کہ تمھارا آجکل کیا ریٹ چل رہا ہے اور تم کتنے پیسے لیتی ہو. طبی اہلکاروں نے بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس قسم کے سوالات میں الجھانے کی پالیسی اپنائی کہ کیا وہ HIV پازیٹو ہے؟ یوں یہ ہیجڑا اپنی موت آپ مر کر ہسپتال کے پاکیزہ آلات کی حفاظت کی ترکیب کرتے ہوئے اس مقدس دھرتی کا بوجھ ہلکا کر گیا.

اگر اس ہجڑے کو شدید زخمی حالت میں طبی امداد کے لئے انسانی ہسپتال کی بجائے وٹرنری ہسپتال لے جایا جاتا تو امکان تھا کہ اسکی کچھ چارہ گری ہو جاتی.. احمق مخلوق کے احمق لواحقین.. اونہہ.... اپنی کم عقلی کو کوسنے کے بجائے انسانوں کو کوس رہے ہیں..

نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

25/05/2016

سستی روٹی سکیم ۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔70 ارب سے زائد کی کرپشن کا انکشاف
یوتھ لیپ ٹاپ سکیم ۔۔۔۔۔فلاپ۔۔۔۔۔ بازاروں میں لیپ ٹاپ 10 سے 15 ہزار میں دستیاب ۔۔۔۔ ہوشربا کرپشن کا انکشاف
پیلی ٹیکسی سکیم۔۔۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔۔سکیم نااہلی اور کرپشن کی نذر
لاہور میٹروبس پراجیکٹ۔۔۔۔ خسارے میں۔۔۔۔۔۔ 5 ارب روپے سالانہ خسارہ
راولپنڈی میٹرو پراجیکٹ۔۔۔۔۔ دنیا کا مہنگا ترین ماس ٹرانزٹ منصوبہ۔۔۔۔ اربوں کی کرپشن کا شاہکار
یوتھ لون سکیم۔۔۔۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔
اپنا روزگار سکیم۔۔۔۔۔ فلاپ
یوتھ ہیلمٹ سکیم۔۔۔۔۔۔۔ فلاپ ۔۔۔۔ تین ماہ بعدبند
یوتھ اجالا سکیم۔۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔۔۔ تین ماہ بعد بند
سکوٹی سکیم۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔ چلنے سے پہلے ہی بند
نندی پور پراجیکٹ۔۔۔فلاپ۔۔۔۔ صرف تین دن چل سکا ۔23 ارب سے شرو ع ہوا اور 120 ارب تک جاپہنچا۔۔۔۔ کرپشن ہی کرپشن
قادرپور کول پراجیکٹ۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔ ہرانرجی کے ماہر کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ چل ہی نہیں سکتا
چیچوں کی ملیاں پاور پلانٹ۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔ تین ارب روپے لگنے کے بعد پراجیکٹ بند
گڈانی پاور پراجیکٹ۔۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔۔ فزیبلٹی رپورٹ اور افتتاح پر کروڑوں روپے لگانے کے بعد بند کردیا گیا
قائداعظم سولر پارک۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔100 میگاواٹ کا پراجیکٹ صرف 30 میگاواٹ بجلی دیتا ہے او ر وہ بھی 27 روپے فی یونٹ
ایل این جی منصوبہ۔۔۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔۔ نواز اینڈ کمپنی نے اربوں روپے کا چونا لگایا اور ابھی تک ایل این جی نہیں مل سکی
نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ۔۔۔ فلاپ۔۔۔۔۔ 40 ارب کا پراجیکٹ 450 ارب تک جاپہنچا اور پھر بند..

24/05/2016

Education is truly one of the most powerful instruments for reducing poverty and inequality and it sets the foundation for sustained economic growth.
Plato wrote: “If a man neglects education, he walks lame to the end of his life.”
Yet, there are still 124 million children and adolescents not in school. Also, more than 250 million school children cannot read, even after several years of schooling.

16/05/2016

گامےکا تعلق ضلع گجرات کے ایک گاؤں سے تھا اور اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس نے کبھی بھی جوتا خرید کر نہیں پہنا۔ جب بھی اسے نئے جوتے کی ضرورت پڑتی، وہ آس پاس کے گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتا اور وہاں کسی کا جوتا چوری کرکے لے آتا۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ اس نے اپنے ہی گاؤں میں جوتے چرانے شروع کردیئے۔ کبھی مسجد سے تو کبھی ہمسایوں کی بیٹھک سے، کبھی میلوں ٹھیلوں سے تو کبھی کھیتی باڑی سے تھک ہار کر سوئے ہوئے کسانوں کے۔
جب گاؤں کے ہر شخص کا جوتا چرایا گیا تو وہ چند بڑے بوڑھے مل کر گاؤں کے چوہدری کے پاس گئے اور اسے درخواست کی کہ گامے کا کچھ علاج کیا جائے۔ چوہدری نے پنجایت بلالی اور گامے کو حاضر ہونے کو کہا۔
جب چوہدری نے گامے کو بتایا کہ اس پر گاؤں والوں نے جوتے چوری کا الزام لگایا ھے تو گامے نے بڑی معصومیت سے اپنی صفائی میں کہا:
چوہدری صاب، اگر یہ بات ھے تو پھر صرف جوتے چوری ہی کیوں، پانی چوری یا بیج چوری کے خلاف بھی پنچایت لگائی جائے۔ مویشی ڈنگر چوری پر بھی پنچایت لگائیں۔ تیار فصل کی چوری سے لے کر پیسوں اور زیور کی چوری پر بھی پنچایت لگائی جائے۔
چوہدری نے جواب دیا، کیوں نہیں۔ ان سب جرائم پر بھی پنچایت ہونی چاہیئے لیکن اس وقت ہم جوتے چوری کی بات کررہے ہیں۔
گامے نے آگے سے مزید کہا:
چوہدری جی، اگر جوتے چوری کی ہی بات کرنی ھے تو پھر صرف پچھلے چند مہینوں سے کیوں؟ 1947، بلکہ جب سے یہ گاؤں بسا ھے، تب سے جوتے چوری کی تحیقیات کی جائے اور جب وہ مکمل ہوجائیں، تب میرے خلاف بھی پنچایت بلا لیں۔
چوہدری نے یہ سن کر کہا:
کسی کھوتی کے بچے، 1947 سے اگر جوتے چوری کی تحقیقات کرنے لگے تو تمہاری سات نسلیں ختم ہوجائیں گی لیکن تحقیقات ختم نہیں ہوسکیں گی۔ یہ کہہ کر چوہدری نے اسے ایک گندی سی گالی نکال کر سامنے آنے کو کہا۔
۔ ۔ ۔ گامے کو جوتے چوری کا حساب دینا ہی ہوگا!!

24/03/2016

The Boat Schools Of Bangladesh
The nonprofit organization operates almost 100 boat schools. Each of these schools is solar powered and equipped with a laptop computer, Internet access, and a small library. The boat schools are a school and school bus hybrid. Whenever there’s a flood and every other service is closed for business, the floating schools are still operational.
About 70,000 children have benefited from the boat schools since they were established in 2002.

27/02/2016

Maqami Siyasat (layyah)'s cover photo

26/02/2016
Pakistan Tehreek-e-Insaf

Pakistan Tehreek-e-Insaf

PTI MNA Asad Umar spoke in favor of the proposition "Privatization has been a failure in Pakistan" - at LUMS Debate.
and won by 2/3 majority.

The house agreed & applauded to his well thought and researched points.



Dated: 17th Feb. 2016

20/02/2016
ایم ایم روڈ کی اکھاڑ پچھاڑ کا ذمہ دار کون ؟ تحریر… محمد عمر شاکر – subhepak

ایم ایم روڈ کی اکھاڑ پچھاڑ کا ذمہ دار کون ؟ تحریر… محمد عمر شاکر – subhepak

ایم ایم روڈ کی اکھاڑ پچھاڑ کا ذمہ دار کون ؟ تحریر… محمد عمر شاکر 1 day ago Columns, Layyah News Leave a comment 146 Views ایم ایم روڈ کی اکھاڑ پچھاڑ کا ذمہ دار کون ؟ تحریر…  محمد عمر شاکربرادرم رؤف کلاسرہ صاحب سنئیر صحافی ہیں لیہ کی بستی جیسل کے اس سپوت پر اہلیان لیہ تو فخر کرتے ہی ہیں مگر بالخصوص ج…

04/02/2016

حکومت پنجاب نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سکیورٹی کیلئے نیا ہدایت نامہ جاری کر دیا جس کے مطابق دوسرے صوبوں سے آنے والے طلبہ کی سپیشل برانچ سے کلیئر نس کے بغیر یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندی ہو گی ۔ شدت پسند نظریات کے حامل اساتذہ اور طلبہ کی انتظامیہ سخت نگرانی کرے گی۔جبکہ طلباءکی سیکورٹی کلیرنس کی رپورٹ پنجاب پولیس دے گی جس کے بعد داخلہ مل سکے گا. یونیورسٹیوں میں ہونے والے سیمینارز اور کانفرنس میں متنازعہ سپیکرز کے لیکچرز پر بھی پابندی ہو گی

09/01/2016

Admore Fake petrol pump is still working for the last few years even after the closure of petrol pump notice .

10/11/2015

Timeline Photos

04/11/2015

عمران خان میڈیا کا آٓسان ٹارگٹ کیوں ؟
کبھی میڈیا نے مریم نواز کی شادی پر کوئی بحث کوئی خبر کیوں نہیں دی ؟
میڈیا نے آج تک پاکستانی قوم کو کیوں نہیں بتایا کہ مریم نواز کی بیٹی مہر النسا کو عربی شہزادے نے طلاق کیوں دی ؟
میڈیا نے کبھی نواز شریف کا کم بارکر کو گرل فرینڈ بننے کی آفر کو اپنی خبر کا حصہ کیوں نہیں بنایا ؟
میڈیا نےکبھی شہباز شریف کی آٹھ شادیوں اور پھر چھ طلاقوں پر تبصرہ کیوں نہیں کیا ؟
میڈیا نے حمزہ شہباز کا اپنی سابقہ بیوی عائشہ احد کے ساتھ ظلم و ستم کیوں چھپائے رکھا ؟
کیا صرف عمران خان پر یہ کہہ کر کہ’’ لیڈر کی کوئی زاتی زندگی نہیں ہوتی ’’ دن رات کردار کشی کہاں کا انصاف ہے ؟ اگر میڈیا اتنا ہی انصاف پسند اور آزاد ہے تو شریف خاندان کی زاتی زندگی کو بھی زیر بحث کیوں نہیں لاتا ؟

09/10/2015

Malik Niaz Ahmed Jhakar ........Dead or old horse .
Before joining PTI ,he was almost dead in politics in NA 182 like Thind and Gujjar .He is now distributing PTI tickets in his former investors without consulting party or district body in local body elections , totally damaging and destroying the cause of PTI in NA 182 ,nominated all weak candidates especially in pp265 .
still best of luck Imran Khan .

18/09/2015

Admissions Open

Address

Village Jaisal ( Klasra) Tehsil And Distt Layyah

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Maqami Siyasat (layyah) posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Maqami Siyasat (layyah):

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share