Islamabad tv

Islamabad tv news, entertainment , health , education , politics and more

06/10/2021

A Real CAT WALK

01/10/2021
09/08/2021

ٹھیکے داروں کا ملک

مجھے کل ایک دوست نے کراچی کی ایک خاتون کا وزیراعلیٰ سندھ کے نام خط بھجوایا‘ خاتون نے خط میں لکھا‘ میرے خاوند انتہائی علیل ہیں‘ یہ ہفتے میں تین بار ڈائیلیسز کراتے ہیں‘ ان کے ڈائیلیسز‘ ماہانہ ٹیسٹوں‘ ادویات‘ انجیکشنز اور ڈاکٹروں کی فیسوں پر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہیں‘ ہماری دونوں بیٹیاں مل کر یہ اخراجات برداشت کرتی ہیں لیکن اب ان کے بس کیبات بھی نہیں لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر میرے خاوند کے میڈیکل اخراجات کا کوئی مستقل بندوبست کر دیں‘ خاتون نے آخر میں لکھا‘ میرے خاوند میرے گھر میں رہتے ہیں اور یہ گھر مجھے میری والدہ نے دیا تھا‘ یہ ایک عام سا خط تھا‘ ملک میں روز ہزاروں لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہیں اور حکومت سے امداد مانگتے ہیں‘ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن یہ خط اس کے باوجود غیرمعمولی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ درخواست کسی عام شخص نے نہیں کی‘ یہ خط پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کی بہو دُر لیاقت علی خان نے لکھا تھا اور جس مریض کے لیے امداد مانگی جا رہی ہے اس کا نام اکبر علی خان ہے اور یہ لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی کا بیٹا ہے۔ہمارے ملک میں شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو گا لیاقت علی خان کرنال کے بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ان کی جاگیر میں ریلوے سٹیشن تھا اور ان کے کھیت اور باغ میلوں تک پھیلے تھے‘ وہ 1918ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے گئے تھے‘ وکالت شروع کی تو وہ چند برسوں میں ہندوستان کے بڑے وکلاء میں شمار ہونے لگے‘ 1923ء میں سیاست میں آئے اور 1926ء میں انگریز دور میں یوپی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے‘ مسلم لیگ جوائن کی تو قائداعظم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر بن گئے‘ 1947ء میں پاکستان آئے تو اپنی ساری زمین جائیداد‘ روپیہ پیسہ حتیٰ کہ کپڑے تک بھارت چھوڑ آئے اور کراچی میں جائیداد کا کسی قسم کا کلیم نہ کیا‘ اس سرزمین پر ایک انچ زمین نہ لی‘ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے‘ وہ اگر چاہتے تو آدھا کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی ان کا ہوتا‘ وہ اگر دہلی اور ممبئی کے گھروں کا کلیم ہی لے لیتے تو ان کا خاندان آج ارب پتی ہوتا لیکن اس درویش صفت انسان نے ملک کو اپنا سب کچھ دے دیا لیکن بدلے میں لیا کچھ نہیں‘ ان کی بیگم اپنے زمانے کی انتہائی خوب صورت‘ مہذب اور پڑھی لکھی خاتون تھیں‘ وہ برٹش آرمی کے انگریز میجر جنرل ڈینیل پینٹ کی بیٹی تھیں‘ والدہ برہمن تھی‘ لکھنو یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور گوکھلے میموریل سکول کلکتہ میں پڑھانا شروع کر دیا‘ 1931ء میں ایم اے کیا اور دہلی میں پروفیسر بن گئیں‘ ان کا نام شیلا آئرن پینٹ تھا‘ 1932ء میں اسلام قبول کیا‘ خان لیاقت علی خان سے شادی کی اور شیلا سے بیگم رعنا لیاقت علی خان بن گئیں‘ ان کے دو بیٹے تھے‘ اکبر علی خان اور اشرف علی خان‘یہ دونوں سعادت مند بھی تھے اور عزت دار بھی‘ لیاقت علی خان اور رعنا لیاقت علی خان نے جوانی فراوانی میں گزاری تھی‘ دنیا جہاں کی نعمتیں ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑی رہتی تھیں لیکن یہ لوگ جب پاکستان آئے تو یہ خالی ہاتھ تھے‘ کراچی میں خان لیاقت علی خان کے نام پر ہزاروںایکڑ پر لیاقت آبادکا سیکٹر بنا لیکن اس میں بھی خان لیاقت علی خان نے ایک انچ زمین نہیں لی‘یہ جب 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں سید اکبر کی گولی کا نشانہ بنے اور ان کی اچکن اتاری گئی تو پتا چلا ملک کے پہلے وزیراعظم نے شیروانی کے نیچے کرتہ نہیں پہنا ہوا تھا‘ بنیان تھی اور وہ بھی پھٹی ہوئی تھی‘ گھر میں کپڑوں کے صرف تین جوڑے اور دو جوتے تھے‘اکائونٹ میں چند سو روپے تھے‘ بیگم اور بچے وزیراعظم ہائوس میں رہتے تھے‘ خواجہ ناظم الدین نئے وزیراعظم بن گئے‘ یہ اس گھر میں آئے تو پتا چلا لیاقت علی خان کی فیملی کے لیے پورے ملک میں کوئی گھر موجود نہیں ‘سوال اٹھا یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ لہٰذا خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دیا‘ بیگم رعنا ہالینڈ‘ پھر اٹلی اور آخر میں تیونس میں سفیر رہیں‘یہ واپس آئیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں گورنر سندھ بنا دیا‘ یہ پاکستان کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہیں‘ یہ کراچی یونیورسٹی کی چانسلر تھیں‘ آپ اپوا سے لے کر پاکستان نیشنل وومن گارڈز‘ پاکستان وومن ریزرو‘ پاکستان کاٹیج انڈسٹریز شاپ‘ ماڈل کالونی برائے کرافٹس‘ گل رعنا نصرت انڈسٹریل سنٹر‘ کمیونٹی سنٹر یاپھر فیڈریشن آف یونیورسٹی وومن اور انٹرنیشنل وومن تک ملک میں خواتین کا کوئی ادارہ دیکھ لیں آپ کو خواتین سے متعلقہ ہر بڑے ادارے کے پیچھے بیگم رعنا لیاقت علی خان ملیں گی‘ یہ جب ہالینڈ میں سفیر تھیں تو ان کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہوا‘ ہالینڈ کی ملکہ جولیانا ان کی دوست بن گئیں‘ یہ دونوں خواتین اس وقت پورے یورپ میں مشہور تھیں‘ بیگم رعنا لیاقت تاش کے کھیل بریج کی بہت بڑی ایکسپرٹ تھیں‘ یہ روزانہ ملکہ کے ساتھ بریج کھیلتی تھیں‘ ایک دن ملکہ جولیانانے بیگم رعنا کےساتھ شرط لگائی اگر تم آج کی بازی جیت گئی تو میں تمہیں اپنا ایک محل گفٹ کر دوں گی‘ بازی شروع ہوئی اور بیگم رعنا لیاقت علی جیت گئیں‘ ملکہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنا ایک محل رعنا لیاقت علی خان کو دے دیا اور بیگم صاحبہ نے یہ محل حکومت پاکستان کے لیے وقف کر دیا ‘ آج بھی ہالینڈ میں پاکستان کا سفارت خانہ اسی محل میں قائم ہے‘ یہ 1990ء میں کراچی میں فوت ہوئیں اور انہیں مزار قائد پر خان لیاقت علی خان کے پہلو میں دفن کر دیا گیا لیکن یہ ہوں یا خان لیاقت علی خان وہاپنی اولاد کے لیے کوئی زمین یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے اور آج ان کے صاحب زادے اکبر علی خان اپنی بیگم دُر لیاقت کے گھرمیں رہتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے ان کی بیگم اپنے بیمار خاوند کے علاج کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھنے پر مجبور ہیں‘ ملک کے پہلے وزیراعظم کے صاحب زادے اور بہو ہر ماہ ایک لاکھ 75 ہزار روپے افورڈ نہیں کر سکتے‘ یہ خان لیاقت علی خان کے ملک میں اپنے ڈائیلیسز کا خرچ پورا نہیں کر سکتے۔یہ ملک ان لوگوں کا تھا‘ یہ وہ لوگ تھے جو میلوں پر پھیلی جاگیریں چھوڑ کر اس ملک میں آئے اور پھر پھٹی ہوئی بنیان کے ساتھ دفن ہوئے‘ یہ ملک راجہ صاحب محمود آباد جیسے لوگوں کا ملک تھا‘ وہ محمود آباد کی ریاست کے راجہ تھے‘ پوری زندگی اپنی رقم سے مسلم لیگ چلائی‘ پاکستان بنا تو کراچی آ گئے اور حکومت سے کوئی گھر‘ کارخانہ اور زمین نہیں لی‘ ملک میں جب سیاسی افراتفری پھیلی‘ مارشل لاء لگا تو یہ مایوس ہو گئے اور چپ چاپ اٹھے‘ بیگ اٹھایا اور لندن جا بسے‘ راجہ صاحب محمودآباد کا 1973ء میں لندن میں انتقال ہوا‘ وہ انتقال سے قبل ہر ملنے والے سے کہتے تھے ’’میں پوری زندگی جن انگریزوں سے لڑتا رہا‘ مجھے آخر میں انہی انگریزوں کے گھر میں پناہ لینا پڑ گئی اور میں آج ان کی مہربانی سے اپنا آخری وقت عزت کے ساتھ گزار رہا ہوں‘‘ یہ سردار عبدالرب نشتر‘ مولوی فضل حق‘ حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کا ملک تھا ‘یہ لوگ ملک بننے سے قبل کروڑ بلکہ ارب پتی تھے لیکن وہ اس ملک میں آئے‘ عسرت میں زندگی گزاری اور پھر ان کی اولادیں اکبر علی خان کی طرح علاج اور چھت کو ترستی ہوئی دنیا سے رخصت ہو گئیں جب کہ ان کے اردگرد1700ایکڑ کا رائےونڈ بھی بن گیا‘ کراچی کا بلاول ہائوس 64 عمارتیں ہضم کرنے کے باوجود بھی نامکمل رہا‘ لندن کے ایک فلیٹ کی برکت سے تین سو کنال کا بنی گالہ بھی بن گیا اور راولپنڈی کی رنگ روڈ میں چند کلومیٹر کا اضافہ کر کے ذلفی بخاری نے اربوں روپے سمیٹ لیے اور غلام سرور خان کے نام پر نواسٹی کے مالکان نے مارکیٹ میں بیس تیس ہزار فائلیں بھی بیچ دیں‘آپ المیہ دیکھیے آج اس ملک میں قائداعظم کے رشتے دار چھت‘ علاج اور سواری کو ترس رہے ہیں‘ خان لیاقت علی خان کی بہو وزیراعلیٰ کولیاقت علی خان کے صاحب زادے کے لیے ایک لاکھ 75 ہزار روپے کی امداد کی درخواست کر رہی ہے‘ راجہ صاحب محمود آباد ان انگریزوں کے قبرستان میں مدفون ہیں جن سے لڑ کر انہوں نے پاکستان حاصل کیا تھا‘ حسین شہید سہروردی بیروت میں لیٹے ہیں‘ خواجہ ناظم الدین کی آل اولاد تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی‘ مولوی فضل حق عبرت کی نشانی بن کر ڈھاکہ میں دفن ہو گئے اور محمد علی بوگرا ملک چھوڑ کر بوگرا گئے اور چپ چاپ وہاں انتقال کر گئے جب کہ ملک کے ٹھیکے دار آج بھی چینی‘ آٹے اور ایل این جی سے ایک ایک مہینے میں چار چار سو ارب روپے کما لیتے ہیں‘ آج لیاقت علی خان کی بہو اس ملک میں پوچھ رہی ہے کیا یہ ملک ان ٹھیکے داروں کے لیے بنا تھا‘ کیا لیاقت علی خان جیسے لوگوں نے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ ان کے نواب ابن نواب بچے علاج کو ترستے رہیں جب کہ ذلفی بخاری اور غلام سرور خان جیسے لوگ رنگ روڈسے اربوں روپے کما لیں؟ یہ ہے آج کا پاکستان‘ ٹھیکے داروں کا ملک۔ٹھیکے دار مفادات کے حمام میں ننگے نہا رہے ہیں‘ یہ ایک ایک رات میںوفاداری بدل کر صاف ستھرے ہو جاتے ہیں جب کہ مالک اور ان کی اولادیں علاج اور عزت کو ترستی ترستی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں‘ ملک کے مالکوں کے بچے ڈائیلیسزکا خرچ برداشت نہیں کر پا رہے جب کہ وزیرصحت ادویات کی قیمت بڑھا کر تین چار ارب روپے جیب میں ڈالتے ہیں اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل بن جاتے ہیں‘ کیا بات ہے؟ہمیں شاید من حیث القوم انہی احسان فراموشیوںکی سزا مل رہی ہے‘ ہم شاید اسی لیے پوری دنیا سے جوتے کھا رہے ہیں۔

جاوید چوہدری

02/08/2021
04/06/2021

جدید طرز زندگی خوراک اور بیماریاں
Modern lifestyle diet and diseases.

20/05/2021

Dr. Iftikhar Haider such tv
Cause of high blood pressure and uncontrolled diabetes
ہائی بلڈ پریشر اور خون میں شوگر کی زیادتی کا آسان علاج

19/05/2021

لندن(این این آئی)یورپی ماہرین نے اپنی تازہ تحقیق میں کہا ہے کہ 2011 میں اْسامہ بن لادن تک پہنچنے کیلئے امریکی سی آئی اے نے اپنی جعلی پولیو مہم کے ذریعے پاکستان میں پول....

Dr. Iftikhar Haider  such tvReasons of 5 big diseases
04/05/2021

Dr. Iftikhar Haider such tv
Reasons of 5 big diseases

Sehat Zindagi 06 April 2021All the Exclusive happening in Pakistani Politics, Elections, breaking News, Sports, Entertainment and Religious at one place. ......

27/03/2021
ریبیز Rabies یا باولے کتے کا کاٹنا موت ہے! ریبیز سے ہر سال تقریبا 55 ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔کتا اگر آپ کو کاٹتا ہے تو اس س...
26/03/2021

ریبیز Rabies یا باولے کتے کا کاٹنا موت ہے! ریبیز سے ہر سال تقریبا 55 ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔
کتا اگر آپ کو کاٹتا ہے تو اس سوچ بچار میں وقت ضائع مت کیجیے کہ وہ پاگل تھا یا گھریلو تھا، پہلی فرصت میں قریبی سرکاری ہسپتال جائیے۔ وہاں ایمرجیسنی والے اس صورت حال کو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے سو گنا زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں، روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں۔ مرچیں لگانا، سکہ باندھنا، یہ سب تکے لگانے جیسا ہے۔ اگر کتا پاگل نہیں تھا تو یہ سب ٹوٹکے کام کریں گے، اگر پاگل تھا تو موت یقینی ہے!
ہسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیے اس کے بعد پٹی مت باندہیں۔ اسے کھلا رہنے دیجیے اور ہسپتال چلے جائیے۔ چودہ ٹیکوں کا زمانہ گزر گیا۔ اب ایک ھفتہ میں تین ٹیکوں (شیڈول: 0-3-7) کا کورس ہو گا، پہلا ٹیکہ پہلے دن۔ دوسرا ٹیکہ پہلے ٹیکے کے تین دن بعد اور تیسرا ٹیکہ دوسرے ٹیکہ کے چار دن بعد لگتا ھے۔ ایک ھفتہ میں کورس مکمل ھو جاتا ھے۔
اسی طرح کتا جتنا سر کے قریب کاٹے گا، وائرس اتنی تیزی سے دماغ تک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پاؤں پر یا ٹانگ پر کاٹا ہے تب بھی جلدی ہسپتال جانا ضروری ہے ۔
کتے کا پنجہ لگے، کوئی خراش ہو جائے اور خون نہ آئے تو ٹیکہ کی ضرورت نہیں ھے،
ریبیز سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں آج تک پانچ سے زیادہ لوگ نہیں بچ سکے۔
کتا،بلی، گائے، بھینس، گیدڑ ،گھوڑا، گدھا، چمگادڑ، ہر وہ جانور جو دودھ پلانے والا ہے، وہ ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاگل کتا جب انہیں کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ وہی جراثیم انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں اگر یہ جانور کاٹ لیں۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں بھی پایا جاتا ہے۔
ایسا پیغام جو شئیر کرنا صدقہ جاریہ کے برابر ہے۔

World health organisationHome/Newsroom/Q&A Detail/Typhoid feverTyphoid fever12 May 2020 | Q&AWHOTyphoid fever is a life-...
12/03/2021

World health organisation

Home/Newsroom/Q&A Detail/Typhoid fever
Typhoid fever
12 May 2020 | Q&A

WHO
Typhoid fever is a life-threatening infection caused by the bacterium Salmonella Typhi.

It is usually spread through contaminated food or water.

Symptoms include prolonged fever, fatigue, headache, nausea, abdominal pain, and constipation or diarrhoea. Some patients may have a rash. Severe cases may lead to serious complications or even death.

Typhoid fever can be treated with antibiotics although increasing resistance to different types of antibiotics is making treatment more complicated.

Even when the symptoms go away, people may still be carrying typhoid bacteria, meaning they can spread it to others through their faeces.

An estimated 11–21 million people get sick from typhoid and between 128 000 and 161 000 people die from it every year. Communities lacking accupess to safe drinking water and adequate sanitation, and vulnerable groups including children are at highest risk.

01/03/2021

لڑکی کی خودکشی سے پہلے کی ویڈیو وائرل

پلیز اپنے غصے کو کنٹرول کریں۔نشتر ہسپتال ملتان کے نامور ماہر نفسیات ڈاکٹر اظہر حسین صاحب نے آج اپنی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر عل...
26/01/2021

پلیز اپنے غصے کو کنٹرول کریں۔

نشتر ہسپتال ملتان کے نامور ماہر نفسیات ڈاکٹر اظہر حسین صاحب نے آج اپنی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر علیزے کو گولی مار کر خود کشی کرلی۔۔۔ڈاکٹر علیزے نے حال ہی میں Fcps پارٹ ٹو کلئیر کیا تھا اور اس کے تین بچے ہیں شوہر بھی نشتر میں ڈاکٹر ہیں ۔۔وجہ گھریلو تنازعہ بتائ جا رہی ہے ۔۔دونوں باپ بیٹی ماہر نفسیات تھے

05/01/2021
22/12/2020

ہر عروج کا زوال۔

11/12/2020

سیالکوٹ لاہور موٹر وے پر فوگ کے باعث کئ گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ۔موٹروے پر ڈرائیونگ کے دوران احتیاط کریں۔

10/12/2020

ظلم ،اب استعمال شدہ ماسک بھی بکنے لگے،

05/12/2020

Very important pl must watch

04/12/2020

*وہ اُٹھ کر اندر گئے 'چیک بک لے کر آئے' ساٹھ ستر لاکھ روپے کا چیک کاٹا 'یہ چیک صاحبزادے کے حوالے کیا
اور آنکھیں نیچے کر کے بولے'
آپ یہ رقم لو اور مجھے اس کے بعد کبھی اپنی شکل نہ دکھانا‘
اس نے وہ چیک جیب میں ڈالا اور نعیم بخاری کے ساتھ واپس چلا گیا۔
وہ فلمساز 1983ء میں انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت ان کا کوئی اپنا وہاں موجود نہیں تھا‘
نعیم بخاری صاحب کے بقول ’’یہ منظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں پوری زندگی کے لیے دولت کی خواہش ختم ہو گئی‘‘۔

ہم سے زندگی میں صرف دس چیزیں بے وفائی کرتی ہیں‘ ہم اگر ان دس بیوفاؤں کی فہرست بنائیں تو

عہدہ دولت اور اولاد پہلے تین نمبر پر آئیں گی‘

ہم عہدے کے لیے ایمان‘ عزت‘ سیلف ریسپیکٹ‘ اخلاقیات‘ صحت اور خاندان تک قربان کر دیتے ہیں
لیکن

یہ عہدہ سب سے زیادہ بے وفا نکلتا ہے، میں نے کرسی پر بیٹھے لوگوں کو فرعون اور نمرود بنتے بھی دیکھا
اور ’’نسلیں ختم کردو‘‘ جیسے احکامات جاری کرتے بھی لیکن پھر جب عہدے نے بے وفائی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جیسے با اختیار لوگوں کو بھی عدالتوں کے باہر گندی اینٹوں اور قلعوں کی حبس زدہ کوٹھڑیوں میں محبوس دیکھا،
میں نے بے شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے بھی دیکھا‘؟

*دولت مند غریب ہو گئے، مالک ملازم بن گئے اور نمبردار وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے چنانچہ پھر دولت سے بڑی بے وفا چیز کیا ہوگی

اور رہ گئی اولاد! میں نے بے شمار لوگوں کو اپنی اولاد سے محبت کرتے دیکھا، یہ لوگ پوری زندگی اپنی اولاد کے سکھ کے لیے دکھوں کے بیلنے سے گزرتے رہے لیکن پھر کیا ہؤا؟
وہ اولاد زمین جائیداد کے لیے اپنے والدین کے انتقال کا انتظار کرنے لگی، میں نے اپنے منہ سے بچوں کو یہ کہتے سنا ’’ اباجی بہت بیمار ہیں، دعا کریں اَلله تعالیٰ ان کی مشکل آسان کر دے‘‘
اور یہ وہ باپ تھا جو بچوں کے نوالوں کے لیے اپنا ضمیر تک بیچ آتا تھا۔

* میں نے ایسے مناظر بھی دیکھے، باباجی کے سارے بچے ملک سے باہر چلے گئے۔ بابا جی نے تنہائی کی چادر بُن بُن کر زندگی کے آخری دن گزارے،
انتقال ہوا تو بچوں کو وقت پر سیٹ نہ مل سکی، چنانچہ تدفین کی ذمے داری ایدھی فاؤنڈیشن نے نبھائی یا پھر محلے داروں نے!

*یہ ہے کُل زندگی! اولاد، دولت اور عہدے کی بے وفائی ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ہر شخص واقف ہے لیکن اس کے باوجود انسان کا کمال ہے،
یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا، یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا اور یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا،
ہر روز لوگوں کو تباہ ہوتا، مرتا، ذلیل ہوتا دیکھتا ہے مگر یہ ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے ’’ یہ میرے ساتھ نہیں ہوگا‘‘ کیوں؟ کیونکہ
’’میں دوسروں سے مختلف ہوں‘‘۔.

*موت کے بعد انسان کی ۹ آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨؤﺍ ﮨﮯ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*1۔ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏ 40 #)*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*2- يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي *
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 ‏)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*3- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*4۔ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*5۔ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍلله ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*6۔ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا*
* ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*7۔ يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*8۔ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﯿﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*9۔ يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِين*
*ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ ‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
👈 * ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧا ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ۔*
*ﺍلله ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎئے۔*
*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ*

کمار بھیل ہندو ہے اور یہ ہندو آج میرا ہیرو ہے.کمار بھیل موٹرسائیکل پر جا رہا تھا کہ اسے ایک وین میں آگ لگی نظر آئی، اس ن...
30/11/2020

کمار بھیل ہندو ہے اور یہ ہندو آج میرا ہیرو ہے.
کمار بھیل موٹرسائیکل پر جا رہا تھا کہ اسے ایک وین میں آگ لگی نظر آئی، اس نے فوراً موٹرسائیکل روکی اور گاڑی کی طرف لپکا دروازہ کھولا پتھر سے گاڑی کے شیشے توڑ کر مسافروں کو نکالا.

یہ وین مٹھی سے تھرپارکر جا رہی تھی جس میں اٹھارہ افراد سوار تھے، ان گاڑیوں کے شیشے مکمل طور پر بند ہوتے ہیں کھل نہیں سکتے. کمار بھیل اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر جلتی ہوئی وین پر کود پڑا اور اٹھارہ انسانی جانیں بچا لیں. کچھ لوگ تھوڑے بہت جل کر زخمی بھی ہوئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بڑے نقصان سے بچا لیا. گاڑی میں تین خواتین ڈاکٹر بھی سوار تھیں، یہ سب مسلمان تھے لیکن جان بچانے سے پہلے کوئی دین دھرم مذہب نہیں پوچھتا. ہیروز کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہیرو بس ہیرو ہوتا ہے.

آئیے کمار بھیل کا شکریہ ادا کریں، آئیے اسے خراج تحسین پیش کریں.🇵🇰🎖🙏🎖🇵🇰

29/11/2020

Fish # eater

Warning Pl don't use Azomax 500mh
11/11/2020

Warning
Pl don't use Azomax 500mh

30/10/2020
عبداللہ شیشان کا عشق یہ فرانسیسی نوجوان عبداللہ اے کی تصویر ہے جنہوں نے دو دن قبل گستاخ کارٹونسٹ معلم کا سر قلم کیا تھا۔...
29/10/2020

عبداللہ شیشان کا عشق
یہ فرانسیسی نوجوان عبداللہ اے کی تصویر ہے جنہوں نے دو دن قبل گستاخ کارٹونسٹ معلم کا سر قلم کیا تھا۔ 2002 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں پیدا ہونے والا عبد اللہ عام نوجوانوں کو طرح دل میں کئی خواب سجائے زندگی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ خانہ جنگی اور بد امنی سے اسے نفرت تھی، کیونکہ اسی عفریت نے اس کے ماں باپ کو چیچنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ حالات نے عبداللہ کے خاندان کو فرانس کی سرزمین پر پناہ گزین کی حیثیت سے جگہ دلوائی تو اس نے جی لگا کر پڑھنا شروع کردیا۔ وہ خود کو سنوار کر ایک خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ پیرس کی گلیوں میں عبد اللہ کی زندگی اس وقت بے چینی کا شکار ہو گئی جب اس کے اسکول ٹیچر سیموئل نے آپ علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے بنائے۔ کلاس کے مسلم بچوں نے اس بات کی شکایت کی جس پر والدین نے انتظامیہ کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ عبد اللہ کو تب بہت مایوسی ہوئی جب یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ عبد اللہ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔
یہ 16 اکتوبر کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا۔ کارٹونسٹ معلم نے پھر سے خاکے بنائے اور اس بار طلبہ کو بھی بنانے کا کہا۔ یہ دیکھ کر عبداللہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ وہ اندر ٹوٹ گیا۔ اسے اپنی زندگی بے کار لگنے لگی۔ فرانس کی چکاچوند ترقی اور اسبابِ عیش و عشرت میں اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اپنے عشق کے ہاتھوں بے بس ہوچکا تھا۔ وہ عشق کے "عین" "شین" سے گزر کر "قاف" کو بھی عبور کرچکا تھا۔ عقل سے ماوراء عشق نے عبداللہ کو بے خود سا کردیا۔ اس نے خنجر اٹھا کر کارٹونسٹ کا تعاقب شروع کردیا۔ شام 5 بجے کے قریب موقع پا کر اس نے سیموئل کی گردن دبوچ لی اور آنا فانا اس کا سر قلم کر کے رکھ دیا۔ سیموئل کی گردن زمین پر پڑی تھی اور ادھر عبد اللہ کی روح کو سکون مل گیا تھا۔ وہ جس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا، وہ آخر اسے مل چکی تھی۔ اسی لمحے سائرن کی گونج میں پولیس کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔ عبد اللہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے ہاتھ میں خنجر اور ایک چھوٹی ہسٹل تھام رکھی تھی۔ 18 سالہ اس خوبرو جوان سے پولیس اس قدر خوفزدہ تھی کہ ایک قدم آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ پھر عشق کی آخری حد بھی پوری ہوگئی۔ عبد اللہ نعرۂ تکبیر بلند کر کے آگے بڑھا اور دوسری طرف سے پولیس مین کی پسٹل سے گولی نکل کر عبد اللہ کی طرف بڑھنا شروع ہوئی۔ پیرس کی سرزمین جہاں جانا کسی بھی انسان کا خواب ہوتا ہے، جہاں کی چمک دھمک دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے، جہاں کی سج دھج سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اسی پیرس کی زمین میں آج عشق جھوم رہا تھا۔ عشقِ حقیقی نے اس شام دنیاوی لذتوں کو ٹھوکر مار دی۔ عبد اللہ کی تکبیر جوں ہی ختم ہوئی، گولی اس کے سر میں پیوست ہوگئی۔ شہید کی روح موت سے پہلے نکل جاتی ہے، عبداللہ کو موت کی سختی نہیں جھیلنی پڑی، عبداللہ کی روح "فزت و رب الکعبہ" (رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) کی صدا لگا کر جسم سے کوچ کر گئی۔ فرشتوں کی قطاروں میں عبداللہ مسکراتا ہوا جنت کی جانب چل پڑا جہاں سرکار دو جہاں، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عاشق کے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ عبداللہ کا پیغام دنیا کے نام تھا کہ جب تک آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کی عزیز ترین متاع پر ڈاکے ڈالے جائیں گے، تب تک ہزاروں خوبرو عبداللہ پیرس جرمنی، امریکا و یورپ کی سرزمینوں میں اپنی زندگیاں قربان کرتے رہیں گے۔ غازی علم الدین شہید سے لے کر عبداللہ تک کی تاریخ اس بات کی کھلی گواہی ہے!

02/10/2020

کتے کو لینے کے دینے پڑ گئے

19/09/2020

Another Gang R**e. 😱
Mat khuda k ghazab ko awaaz do 🙏🙏🙏

فیروزوالہ۔ پولیس چوکی کالا شاہ کا کو کے قریب خدا کی بستی میں 5اوباشوں کی خاتون سے اجتماعی زیادتی

فیروزوالہ۔ محمد وارث بیوی رانی بی بی کے ساتھ گھر جارھے تھا کہ 5 اوباشوں نے گن پوائنٹ پر روک کر خاوند کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا

فیروزوالہ۔ پولیس تھانہ فیروزوالہ نے مقدمہ تو درج کر لیا مگر سانحہ موٹروے کی وجہ سے ایف آئی آر سیل کر کے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے

فیروزوالہ۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایس پی اور ڈی ایس پی کی جانب سے مدعی وارث کو ملزمان سے مک مکا پر مجبور کیا جارھا ھے

فیروزوالہ۔ مدعی وارث پیر محل ٹوبہ کا رہائشی بتایا جاتا ھے جو کہ پولیس چوکی کالا شاہ کا کو کے قریب خدا کی بستی میں رہائش پذیر ہیں 5اوباشوں کی خاتون سے اجتماعی زیادتی

فیروزوالہ ۔ محمد وارث بیوی رانی بی بی کے ساتھ گھر جارھے تھا کہ 5 اوباشوں نے گن پوائنٹ پر روک کر خاوند کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا

فیروزوالہ۔ پولیس تھانہ فیروزوالہ نے مقدمہ تو درج کر لیا مگر سانحہ موٹروے کی وجہ سے ایف آئی آر سیل کر کے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رھی ھے

فیروزوالہ مدعی وارث پیر محل ٹوبہ کا رہائشی بتایا جاتا ھے جو کہ پولیس چوکی کالا شاہ کا کو کے قریب خدا کی بستی میں رہائش پذیر ہیں
😢😢😢😢😢😢😢😢

18/09/2020

Pl don't try this at home

11/09/2020

خاتون اور اس کی فیملی فرانس میں رہتے تھے۔ ان کے پاس وہاں کی نیشنیلٹی بھی تھی۔ خاتون کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آئی تھی کہ بچے یہیں پڑھیں اور یہیں کے اسلامی کلچر کے مطابق پلیں بڑھیں۔
ایک ایجنسی کے دوست کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جس وقت جائے وقوعہ پر پہنچے خاتون پولیس والوں کے آگے گڑگڑا رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ ان لوگوں کو خدا کے واسطے دے رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔ انہیں ان کے بچوں کا واسطہ دے رہی تھی کہ مجھے مار دو۔ اس کے اس مطالبے پر عمل نہیں ہوا تو اس نے دوسرا مطالبہ سامنے رکھا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ یہاں موجود سب لوگ حلف دیں کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس کے خاندان اور کسی بھی اور شخص کو اس وقوعے کے بارے میں پتہ نہ چلے۔وہ مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتی۔ یہاں موجود ایک ایس پی صاحب نے خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ یہ وقوعہ بالکل بھی ہائی لائٹ نہیں ہو گا۔
دوست کا کہنا ہے کہ خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی۔ عموما فارنزک سائنس ایجنسی والے ایسے مواقع پر وکٹم کی تصاویر لیتے ہیں۔ لیکن خاتون کی حالت ایسی افسوسناک اور دردناک تھی کہ کسی کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اسے اس کام کیلئے کہہ سکے یا تصاویر اتار سکے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر ان کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے قتل کر دو۔
خاتون شاید اسے فرانس سمجھ کر ہی رات کے اس پہر بچوں کو لے کر گوجرانولہ جانے کیلئے نکلی تھی کہ کونسا زیادہ سفر ہے۔ ایک گھنٹے میں گوجرانوالہ پہنچ جائیں گے۔ لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ پاکستان ہے۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔

حریص آنکھیں حیا کی دیوی کو نوچتی ہیں
کسی کی بیٹی اگر جواں ہے عذابِ جاں ہے

😭

10/09/2020

عطااللہ خان عیسی خیلوی کا 1988 میں لیا گیا انٹرویو

30/08/2020

جب بچہ پہلے دن اسکول آیا اینکر پرسن نے بچے سے پوچھا کہ تمھیں ماں یاد آتی ھے، تو بچے نے کیا جواب دیا آیئے سنتے ھیں 😔

😻بھیڑیا  واحد  جانور  ھے  جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ھے یہ  بڑھاپے میں اپنے  والدین کی خدمت کرتا ھے۔ یہ ایک غیرت م...
23/08/2020

😻بھیڑیا واحد جانور ھے جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ھے یہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ھے۔ یہ ایک غیرت مند جانور ھے اسلئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑیے سے تشبیہ دیتے ھیں 😻

🌻‏ ‏" بھیڑیا" واحد ایسا جانور ھے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا جبکہ شیر سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ھے۔۔۔
بھیڑیا کبھی ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ کھاتا اور یہی جنگل ‏کے بادشاہ کا طریقہ ھے اور نہ ہی بھیڑیا محرم مؤنث( والدہ، بہن) پر جھانکتا ھے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف بھیڑیا اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں۔۔۔
بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ھے کہ اس کے علاؤہ ‏کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ اسی طرح مؤنث ( یعنی اس کی شریک حیات) بھیڑیا کے ساتھ اسی طرح وفاداری نبھاتی ھے۔۔۔
بھیڑیا اپنی اولاد کو پہنچانتا ھے کیونکہ ان کے ماں و باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔۔۔
جوڑے میں سے اگر کوئی ایک مرجائے تو دوسرا مرنے والی جگہ ‏پر کم از کم تین ماہ کھڑا بطور ماتم افسوس کرتا ھے۔۔۔
بھیڑئیے کو عربی زبان میں "ابن البار" کہا جاتا ہے، یعنی"نیک بیٹا" کیونکہ جب اس کے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لئے شکار کرتا ھے اور ان کا پورا خیال رکھتا ھے۔۔۔
‏اس لئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑئیے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انکا ماننا ھے کہ
"شیر جیسا خونخوار بننے سے بہتر ھے بھیڑیے جیسا نسلی ہونا"🌻

16/08/2020

نکمی نہیں کوئی چیز قدرت کے کارخانے میں

 #دنیا میں آٹھ بلین ڈالر کا کاروبارجسے ہم کچرے کے ڈھیروں پر پھینک رہے ہیںجانوروں کی آلائشیں !انہیں پراسس کر کے ان کی انک...
08/08/2020

#دنیا میں آٹھ بلین ڈالر کا کاروبار
جسے ہم کچرے کے ڈھیروں پر پھینک رہے ہیں
جانوروں کی آلائشیں !
انہیں پراسس کر کے ان کی انکی ایکسپورٹ
آلائشوں سے فوڈ آئٹمز بنانے کا کاروبار
دنیا میں آلائشوں کو پراسیس کر کے ان سے فوڈ آئٹمز بنانے کے کاروبار کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں یہ کام ہوتا رہا ہے۔
آلائشوں سے بنے فوڈ آئٹمز کی عالمی تجارت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں اس کی تجارت کا حجم ساڑھے آٹھ ارب ڈالر ہے۔ دنیا میں امریکہ سب سے زیادہ اس قسم کے فوڈ آئٹمز برآمد کرتا ہے اور چین ان آئٹمز کو درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں آلائشوں کو پراسیس کرنے کی صنعت بہت مضبوط رہی ہے جو مختلف عرب ممالک سے آلائشیں اکٹھی کر کے ان سے فوڈ آئٹمز تیار کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی برآمد کرتا رہا ہے۔
فار ایسٹ یعنی مشرق بعید کے ملکوں میں آلائشوں سے تیار ہونے والی خوراک کی بہت زیادہ طلب ہے
لائشیں جمع کر کے اور ان میں ویلیو ایڈیشن کر کے اسے بر آمد کیا جا سکتا ہے
آلائشیں ایک ایسی چیز ہے جو پاکستان کے لیے کچرا ہے تاہم دنیا میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے
آلائشوں کو درآمد کر کے ان کی پراسیسنگ کے لیے کمپنی ایکسپورٹ پراسیسنگ زون میں ایک فیکٹری لگا رہی ہے تاکہ وہاں ان سے ایسے فوڈ آئٹمز تیار کیے جا سکیں جو عالمی معیار کے مطابق ہوں۔
پاکستان میں جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں وہ سائز میں یورپین جانوروں سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی آلائشیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں۔ 'ہمارے ہاں تین سے چار سو کلو کے جانور کو بڑے سائز کا جانور سمجھتے ہیں لیکن یورپ میں تو جانور کا سائز ہی سات سو کلو سے شروع ہوتا ہے۔
ان کی اوجھڑیاں اور پتوجھڑیاں بھی اسی سائز کی نکلتی ہیں جو اے کیٹیگری کی ہوتی ہیں اور ان سے بنے فوڈ آئٹمز کی دنیا میں بہت زیادہ طلب ہے
مقامی آلائشیں کیوں زیادہ سود مند نہیں
پاکستان میں ذبح کیے جانے والے جانوروں اور ان کی آلائشوں کو اگر نہ سنبھالا جائے تو وہ تھوڑے وقت میں خراب ہو جاتی ہیں۔ اگر آلائشوں کو فوراً سنبھال لیا جائے اور اسے مناسب طریقے سے محفوظ کر لیا جائے تو یہ اے کلاس آلائشیں ہوتی ہیں جن سے بننے والی خوراک بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے اور اس کی دنیا بھر میں طلب ہے۔
تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا ہے اور آلائشوں کو محفوظ بنانے میں اتنا وقت گزر جاتا ہے کہ وہ ’بی کلاس‘ آلائشیں بن جاتی ہیں۔
پاکستان دنیا میں واحد مسلم ملک ہے جہاں جانوروں کو گھروں اور گلی محلوں میں لاکر ذبح کیا جاتا ہے۔ قربانی کے وقت آلائشوں کو سنبھالنے کا کلچر ہمارے ہاں نہیں ہے اس لیے وہ اکثر پھینک دی جاتی ہیں یا خراب ہو جاتی ہیں یا پراسیسنگ تک پہنچنے تک ’بی کلاس‘ کی بن چکی ہوتی ہیں۔
جانور کے ذبح ہونے کے بعد آلائش میں چھ سات گھنٹے تک حرارت رہتی ہے اور اس کے دوران ہی اسے دھو کر صاف کر کے چار ڈگری درجہ حرارت سے کم پر رکھا جائے تو یہ اے کلاس آلائش ہو گی اور اس سے بننے والی غذا بھی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے ....

16/07/2020

ون ویلنگ، نہر یا دریا میں شرط لگا کے پار جانا، ہیڈ یا پل سے چھلانگ لگانا کوئی مردانگی نہیں پیارے بھائیو
مردانگی اپنے بوڑھے ماں باپ کو راحت اور چین کی زندگی دینا ھے
خدارا اپنے والدین پر رحم کریں!

اللہ کسی کو اولاد کا دکھ نہ دے
آمین😭

10/07/2020

ٹائیفائیڈ کی علامات ، احتیاط اور علاج ،ڈاکٹر افتخار 03005824041

07/07/2020

دہلی میں مسلمان ڈاکٹر اور عملے پر متعصب ہندوؤں کا تشدد
انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی اور مارپیٹ روز کا معمول بن گیا ہے

02/07/2020

World best mask for covid-19

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Islamabad tv posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share