(Zarb-e-Kaleem: 11) Ilm-o-Ishq (علم و عشق)
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
Ishq Ki Garmi Se Hai Maarka-e-Kainat
Ilm Maqam-e-Sifaat, Ishq Tamasha-e-Zaat
The universe is moved by the warmth of Love;
Knowledge deals with the Attributes, Love is a vision of the Essence;
عشق سکُون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پِنہاں جواب!
Ishq Sukoon-o-Sabat,Ishq Hayat-o-Mamat
Ilm Hai Paida Sawal, Ishq Hai Pinhan Jawab!
Love is peace and permanence, Love is Life and Death:
Knowledge is the rising question, Love is the hidden answer.
1) اس کائنات کے معرکے میں جو حرارت و گرمی اور رونق ہے، وہ عشق ہی کی بدولت ہے۔ علم سے ذاتِ ایزدی کی صفات کے بارے میں صرف معلومات حاصل ہو سکتی ہیں جبکہ عشق کی برکت سے اس ذاتِ اقدس کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے۔
بقول کانٹؔ عقل کی مدد سے ہم صرف مظاہر کو جان سکتے ہیں، حقائق تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ کانٹ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”تنقیدِ عقلِ خالص“ میں اس مسئلہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انگریزی میں مظاہر کے لیے Phenomena اور حقائق کے لیے Noumena کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔
واضح ہو کہ عاشق سے نظم علم و عشق میں اقبالؔ کی مُراد فرہادؔ یا قیسؔ کی قسم کے عاشق نہیں، بلکہ عاشق سے مراد ہے وہ شخص جو اللہ کے عشق میں سرشار ہو اور کسی مُرشدِ کامل کی صحبت میں بیٹھ کر اُس سے تزکیہ و تصفیۂ نفس کر لیا ہو۔ مثلاً حضرت صدیقِ اکبرؓ، حضرت فاروقِ اعظمؓ، حضر
Bang-e-Dara: 72
Chand Aur Tare (چاند اور تارے)
Moon And Stars
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
Ho Ga Kabhi Khatam Ye Safar Kya
Manzil Kabhi Aye Gi Nazar Kya
But shall this journeying ever end,
Ever a destination find?’
(Bal-e-Jibril-036) Mir-e-Sipah Na Saza, Lashkariyaan Shikasta Saf
کھول کے کیا بیاں کروں سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف، مرگ حیاتِ بے شرف
Khol Ke Kya Bayan Karun Sirr-e-Maqam-e-Marg-o-Ishq
Ishq Hai Marg-e-Ba-Sharaf, Marg Hayat-e-Be-Sharaf
Their shrines. I unveil the courts of Love and Death:
Death—life dishonored; Love—death for honor sake.
اے مسلمان! تیرا مقصدِ حیات تو عشق ہے پس تو مرنے سے مت ڈر۔ عشق اختیار کر۔ موت بہر حال ایک نہ ایک دن ضرور آئے گی۔ اگر تو اس حالت میں مرا کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے دل میں سمایا ہوا ہو تو یہ عزت کی موت ہوگی یعنی "عشق" مرگِ باشرف کا نام ہے۔
اور اگر تو نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر زندگی بسر کردی تو جب تجھے موت آئے گی تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تیری ساری زندگی بے قیمت اور بے کار ہوگی یعنی "موت" حیاتِ بے شرف کا دوسرا نام ہے۔
اب تو خود فیصلہ کر لے کہ عزت کی موت اچھی ہے یا ذلت کی زندگی اچھی ہے؟ یہ سچ ہے کہ عاشق کو اپنا سر ہتھیلی پر رکھنا پڑتا ہے لیکن اس سرفروشی کا صلہ بھی تو یہ ملتا ہے کہ اس کی زندگی اللہ کی نظر میں قیمتی ہو جاتی ہے اور جو شخص میدانِ جنگ سے گریز کرتا ہے ممکن ہے وہ دس بیس سال اور زندہ رہ لے لیکن اس کی زندگی بے شرف اور بے قیمت ہوتی ہے خدا کے یہاں اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہو سکتی۔
شرح: پروفیسر یوسف سلیم چشتی
Bal-e-Jibril: 128
Tariq Ki Dua
(Andalus Ke Maidan-e-Jang Mein)
TARIQ'S PRAYER
(In the Battlefield of Andalusia)
کُشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
Kushad-e-Dar-e-Dil Samajhte Hain Iss Ko
Halakat Nahin Mout In Ki Nazar Mein
They think of death, not as life's end,
But as the ennobling of the heart.
ان کی خصوصیت کیا ہے؟ یہ کہ وہ موت کو ہلاکت نہیں سمجھتے بلکہ دِل کے بند دروازوں کا کھُلنا سمجھتے ہیں۔
موت کو ہلاکت وہی سمجھ سکتے ہیں، جنہیں حیات بعد الموت (یعنی موت کے بعد کی زندگی) کا یقین نہ ہو، جس قوم کے لیے اس دنیا کی زندگی حیاتِ آخرت کی کھیتی ہے، جو آخرت کی زندگی کو موجودہ زندگی سے ہزار درجہ بہتر اور افضل سمجھتے ہیں، اُنہیں موت کیوں کر ڈرا سکتی ہے؟ وہ اسے فنا کا پیغام کیوں کر قرار دے سکتے ہیں؟ ان کے لیے تو موت دِلی مُراد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اسی کے حصول کے لیے وہ راہِ حق میں بے خوف ہو کر سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں۔
زندگانی ہے صدف، قطرۂ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گوہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نِگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے
(حوالہ: ضربِ کلیم: حیاتِ ابدی)
Khizar-e-Rah
Bang-e-Dara: 161
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
Ho Gaya Manind-e-Aab Arzaan Musalman Ka Lahoo
Muztarib Hai Tu Ke Tera Dil Nahin Dana’ay Raaz
The blood of the Muslim has become cheap as water;
And you are fretting because your heart does not know the secret.
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند
می نداني اول آں بنیاد را ویراں کنند
Guft Rumi “Har Banaye Kuhna Ka Badaan Kunand”
Mee Nadani “Awal Aan Bunyad Ra Weeran Kunand”
Said Rumi: Before they can repopulate any ancient ruin,
Do you not know that first of all they must destroy the foundation?
پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح سستا سمجھ کر بہایا جا رہا ہے۔
اے اقبال! تو اس کیفیت پر بے چین و مضطرب ہے۔ تیری بے چینی کا سبب یہ ہے کہ تو اصولِ حقیقت سے واقف نہیں ہے۔
مولانا جلال الدین رومی کہہ گئے ہیں کہ کسی پرانی عمارت کو نئے سرے سے بنانا مقصود ہو تو کیا تو نہیں جانتا کہ پہلے پرانی عمارت کی بنیاد اکھاڑتے ہیں۔ یعنی تخریب کا عمل دراصل تعمیر کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ یعنی مسلمانوں میں جو تخریب نظر آ رہی ہے اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ تو نئی تعمیر کا آغاز ہے۔
Aik Sawal | A Question
Zarb-e-Kaleem: 100 [Allama Iqbal]
Wataniyat | Patriotism | Yani Watan Bahaysiat Aik Siasi Tasawwur Ke
Bang-e-Dara-102 | Allama Iqbal
Zauq-o-Shauq
Bal-e-Jibril: 132
Ecstasy
Gabriel's Wing: 132
لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
Loh Bhi Tu Qalam Bhi Tu, Tera Wajood Al-Kitab
Gunbad-e-Abgina Rang tere Muheet Mein Habab
You are the Sacred Tablet, You are the Pen and the Book;
This blue‐colored dome is a bubble in the sea that you are.
عالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
Alim-e-Aab-o-Khak Mein Tere Zahoor Se Faroug
Zarra'ay Raig Ko Diya Tu Ne Tulu-e-Aftab
You are the lifeblood of the universe:
You bestowed the illumination of a sun upon the particles of desert dust.
حضرت رسولِ اکرم ﷺ آپ ہی لوح ہیں، آپ ہی قلم ہیں۔ علمِ الہی صرف آپ کے ذریعہ سے سب پر آشکار ہوا۔ آپ ہی کا وجود مبارک قرآن مجید ہے۔ اس لئے کہ آپ ہی خدا کے حکموں کو انسانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ یہ شیشہ جیسا گنبد جسے ہم آسمان کہتے ہیں، آپ کے سمندر میں ایک بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ حضور انور ﷺ کو الكتاب کہنا بالکل مناسب ہے۔ حضرت عائشہ سے حضور ﷺ کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: "كان خلقه القرآن آپ کے اخلاق عالیہ قرآن کی جیتی جاگتی تصویر تھے قرآن میں جو کچھ نازل ہوا، اس کا مکمل عملی نمونہ حضور ﷺ ہی کی ذات با برکات تھی۔
اس کائنات کو حضور ﷺ ہی کے ظہور سے ساری رونق حاصل ہوئی۔ حضور ﷺ ہی نے ریت کے ذرے کو سورج کی سی چمک سے نوازا۔ گویا حضور ﷺ نے خدائی احکام اور ان پر عمل کی کیفیت دنیا والو
Iqbal | Zarb-e-Kaleem: 127 | Allama Iqbal
Bal-e-Jibril: 31
Hazar Khaof Ho Lekin Zaban Ho Dil Ki Rafeeq
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
Hazar Khof Ho Lekin Zuban Ho Dil Ki Rafeeq
Yehi Raha Hai Azal Se Qalanderon La Tareeq
A host of peril (danger) though you face, Yet your tongue with heart ally:
From times antique and eternity, Qalandars on this mode rely.
آغاز کائنات سے خدا کے نیک اور وفا شعار بندوں کا یہی طرزِ عمل رہا ہے کہ کتنے بھی مشکل حالات ہوں ان کے دل میں عشق حقیقی اور زبان پر ہمیشہ کلمۂ حق رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بے شمار قربانیاں دیں اور سچ کہنے سے گریز نہیں کیا۔
Armaghan-e-Hijaz: 43
Hazrat-e-Insan (حضرت انسان)
The Gift of the Hijaz: 43
The Human Being
اگر مقصودِ کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
Agar Maqsood-E-Kul Main Hun To Mujh Se Mawara Kya Hai
Mere Hungama Ha’ay Nau Ban Nau Ki Intiha Kya Hai?
If I am the end of all, then what lies beyond?
Where lies the limit of my unending adventures?
اگر یہ حقیقت ہے کہ کل کائنات اور اس کی ساری اشیا کا مطلوب میں آدمی ہی ہوں اور ہر چیز میری خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے تو پھر مجھ سے بالا تر کوئی شے بھی نہیں ہو سکتی میں ہر شے پر اشرف اور ہر شے سے اعلیٰ یعنی اشرف المخلوقات ہوں۔
Zarb-e-Kaleem: 68
Ahkam-e-Elahi (احکام الہٰی)
The Rod Of Moses: 68
Decrees Of God
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
Taqdeer Ke Paband Nabataat-o-Jamadaat
Momin Faqt Ahkam-e-Elahi Ka Hai Paband
Herbs, vegetables and minerals alike adhere to what Fate pre‐ordains:
But Muslim true obeys laws of God, All else abhors and much disdains.
صرف نباتات اور جمادات تقدیر کے پابند ہیں اس لیے کہ وہ عزم و ارادہ سے خالی ہیں۔ مومن فقط خدا کے حکموں کا پابند ہوتا ہے۔ وہ حکموں کے مطابق چلے گا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اگر ناخوشگوار حالات سے بھی سابقہ آ پڑے تو خدا کی رضا سمجھ کر انہیں صبر سے قبول کر لے گا۔
Bang-e-Dara: 163
Tulu-e-Islam (طلوعِ اسلام)
The Call of the Marching Bell: 163
The Rise Of Islam
ترے علم و محبّت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی
Tere Ilm-O-Mohabbat Ki Nahin Hai Intaha Koi
Nahin Hai Tujh Se Barh Kar Saaz-E-Fitrat Mein Nawa Koi
There is no limit to your knowledge and love;
In the instrument of nature there is no sweeter song than you.
اے مردِ مسلماں! اس امر میں کسی شک کی گنجائیش نہیں ہے کہ تیرا علم اور تیرا جذبہ محبت دونوں بیکراں ہیں یعنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور مظاہر کائنات میں بھی تیرا وجود سب سے اعلیٰ اور بلند ہے۔
Zar-e-Kaleem: 6
Tan-Ba-Taqdeer (تن بہ تقدیر)
The Rod Of Moses: 6
Submission To Fate
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پریں کا امیر
Issi Quran Mein Hai Ab Tark-e-Jahan Ki Taleem
Jis Ne Momin Ko Banaya Meh-o-Parveen Ka Ameer
The Quranic teaching that did bring the Moon and Pleiades within human
Is now explained in manner strange, ’Twixt man and world to cause a breach.
قرآن نے مسلمانوں کو ایمان کے ساتھ عمل صالح جد و جہد سعی پیہم اور جہاد کا حکم دیا تھا، چنانچہ اس تعلیم کی بدولت مسلمان دنیا میں حکمراں بن گئے لیکن غیر اسلامی تصوف کے زیر اثر اگر مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور ترک دنیا کا غلط اصول اختیار کر لیا اور یہ سمجھ لیا کہ اسلام ترک دنیا کا حکم دیتا ہے حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے دنیا کو فتح کرو تا کہ اسلامی نظام قائم ہو سکے پھر دنیا اور اس کی لذات کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے قربان کر دو، چنانچہ فاروق اعظم کی سطوت کے سامنے قیصر و کسری لرزہ براندام تھے لیکن وہ پیوند لگی ہوئی قمیص پہنتے تھے اور چٹائی پر سوتے تھے۔
Bang-e-Dara: 104
Qataa (قطعہ - Qat`ah)
سنے گا اقبال کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں!
Sune Ga Iqbal Kon In Ko, Ye Anjuman Hi Badal Gyi Hai
Naye Zamane Mein App Hum Ko Purani Batain Suna Rahe Hain!
O Iqbal who would listen to you, the congregation has changed
You are telling us these tales of the old in the new age.
اقبال اپنے نظریات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تو زمانہ بدل گیا ہے تہذیب بدل گئی ہے اور تم ہو کہ اپنی شاعری کے حوالے پرانی باتیں دہرا رہے ہو۔ آج کے دور میں کون ان باتوں کو سنے گا۔
Bang-e-Dara: 169
Kabhi Ae Haqiqat-e-Muntazir ! Nazar Aa Libas-e-Mijaaz Mein
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
Na Kaheen Jahan Mein Aman Mili, Jo Aman Mili To Kahan Mili
Mere Jurm-e-Khana Kharab Ko Tere Ufuw-e-Banda Nawaz Mein
My dark misdeeds found no refuge in the wide world
The only refuge they found was in Your Gracious Forgiveness
مطلب: اے مولائے کائنات میرے گناہگار وجود کو ساری دنیا میں کسی مقام پر بھی پناہ نہیں مل سکی جب کہ اس گناہ نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ مجھے پناہ ملی تو محض تیرے دامن رحمت میں۔ جہاں میرے گناہ کو نہ صرف چھپالیا بلکہ معاف بھی کردیا۔ض
Armaghan-e-Hijaz: 1
Iblees Ki Majlis-e-Shura (ابلیس کی مجلس شوری)
The Gift From Hijaz: 1
The Devil's Conference
مست رکھو ذکر و فکرِ صُبہگاہی میں اسے
پختہ تو کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
Mast Rakho Zikar-o-Fikar-e-Subhgahi Mein Isse
Pukhta Tar Kar Do Mazaaj-e-Khanqahi Mein Isse
Keep him well absorbed in the thought and contemplation of God in pre‐morning hours:
Ye all make him grow stronger in his monastic disposition!
مطلب: اللہ کا ذکر کرنا اور اس کی صفات میں غور کرنا اور پھر اپنی اور کائنات کی حقیقت سے آشنا ہونا اسلامی عبادت اور اسلامی تصوف کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جب یہ ذکر و فکر اسے عملی دنیا سے بے گانہ کر دے تو یہی اس کے لئے زہرِ قاتل بن جاتا ہے۔ آج کے مسلمان چونکہ اس دوسری قسم کے ذکر و فکر میں مشغول ہیں اور عملی زندگی سے بیگانہ ہو چکے ہیں اس لئے شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تم اسے صبح کے وقت کے اس ذکر و فکر میں مشغول اور مست رکھو جس سے اس کا رہبانی مزاج اور پکا ہو جائے اور وہ عملی دنیا سے غافل دوسروں کا محتاج اور غلام بنا رہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر وہ ذکر و فکر کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو گیا تو ہمارے نظام کی دھجیاں بکھیر دے گا۔
Bang-e-Dara: 117
Muslim (مسلم) June 1912
اے درائے کاروانِ خفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
Ae Dara’ay Karwan-e-Khufta Pa! Khamosh Reh
Hai Bohat Yaas Afreen Teri Sada Khamosh Reh
Quiet, O bell of the numb‐footed caravan!
Your voice causes much despair—quiet!
اے غافل پڑے ہوئے قافلے کے گھنٹے! میرا مشورہ ہے کہ تو اپنے طریق کار میں تبدیلی پیدا کر یا خاموش ہو جا، آخر قوم کو مسلمانوں کی گذشتہ تاریخ سنانے کا کیا فائدہ؟ تیری شاعری بہت مایوسی پیدا کرتی ہے، اس لیے قوم اسے سننا پسند نہیں کرتی۔ بہتر یہی ہے کہ تو مایوسی پیدا کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرے۔
درائے کاروان خفتہ پا: اس قافلے کا گھنٹہ جو سو رہا ہو، مراد ہے ذاتِ اقبال سے، یعنی اقبال اس قوم کے شاعر ہیں جو خوابِ غفلت میں گرفتار ہے۔
Bal-e-Jibril: 124
Masjid-e-Qurtuba (مسجد قرطبہ)
Gabriel's Wing: 124
Mosque of Cordoba
شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ اللّٰہ ھُو، میرے رگ و پَے میں ہے
Shauq Meri Le Main Hai, Shauq Meri Ne Mein Hai
Naghma’ay ‘ALLAH HOO’ Mere Rag-E-Pe Mein Hai
My song is the song of aspiration. My lute is the serenade of longing.
Every fibre of my being Resonates with the refrains of Allah hoo!
مطلب: یہ شوق جو عشق حقیقی سے عبارت ہے اس امر کا گواہ ہے کہ میرا لب و لہجہ بھی اسی جذبے سے لبریز ہے اور میرے نغموں میں بھی اس کا لحن شامل ہے۔ غرض کہ میرے جسم کا ریشہ ریشہ اللہ ھو کے نعروں سے سر شار ہے۔