Urdu story

Urdu story provide best urdu stories

22/02/2024

‏میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللّٰہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔

07/01/2023

ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﺭ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﻣﺴﮩﺮﯼ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﮭﭧ ﭘﭧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﭼﻮﺭ ﻧﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﯿﭩﮯ ﻟﯿﭩﮯ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﺷﮑﻞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﻮ، ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ۔ ﭼﻠﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﻮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺫﺭﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ
ﭼﻮﺭ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺪﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﻨﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ’’ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ 3 ﺩﻓﻌﮧ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ﻣﺎﺟﺪ ۔ ۔ ﻣﺎﺟﺪ ۔ ۔ ﻣﺎﺟﺪ !!! ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺫﺭﺍ ﺑﺘﺎﻭٔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮨﻮﺋﯽ؟ ‘‘
ﭼﻮﺭ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﺎ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﺎﺟﺪ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﭨﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﮐﺮ ﭼﻮﺭ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭨﮭﮑﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﯽ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺑﺲ ﮐﺮﻭ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﮕﺖ ﭼﮑﺎ۔ ‘‘ ﭼﻮﺭ ﺑﻮﻻ ’’ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺭ ﮨﻮﮞ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ 😂😂😂😂😂😂🤣🤣🤣🤣

07/06/2022

سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنائیں سب دوست

07/06/2022

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
میرے نبی ﷺ کا ذِکر
ہمیشہ بُلند رہے گا ❤️

24/05/2022

والدین کے اکلوتے بیٹے اور دو بہنوں کے اکلوتے پڑھے لکھے بھائی جنید کا اپنے محلے کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا. ہاتھا پائی ہوئی اور کچھ گالیوں کا تبادلہ بھی ہوا.جنید گھر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا. اس نے اپنے دشمن کو مارنے کا فیصلہ کر لیا اور الماری سے پستول نکال لیا. اچانک اسے اپنے ایک دوست کی نصیحت یاد آ گئی. دوست نے اسے ایسا کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے 30 منٹ کے لئے واردات کے بعد کی صورتحال تصوراتی طور پر دیکھنے کا کہا تھا.
جنید نے تصور میں اپنے دشمن کے سر میں تین گولیاں فائر کر کے اسے ابدی نیند سلا دیا. ایک گھنٹے بعد وہ گرفتار ہو گیا. گرفتاری کے وقت اس کے والدین اور دو بہنیں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں. اس کی ماں بے ہوش ہو گئی. مقدمہ شروع ہوا تو گھر خالی ہونا شروع ہو گیا. ایک کے بعد ایک چیز بکتی گئی. بہنوں کے پاس تعلیم جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب مقدمے کی فائل میں خرچ ہو گئے.بہنوں کے رشتے آنا بند ہو گئے اور ان کے سروں میں چاندی اترنے لگی. جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہر ہفتے والدین اور بہنیں ملاقات کے لئے جاتے. بہنوں کا ایک ہی سوال ہوتا کہ بھیا اب ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنے بھائی کے بستر پر کسے سلائیں گی؟ ہم بھائی کے ناز کیسے اٹھائیں گی؟ بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا. فیصلے کا دن آیا اور جنید کو سزائے موت ہو گئی. سزائے موت کی تاریخ مقرر ہو گئی. 25 منٹ گزر چکے تھے اور جنید کے جسم پر لرزہ طاری ہو چکا تھا. جیل میں وہ اپنی موت کے قدم گن رہا تھا اور گھر میں والدین اور بہنیں اپنے کرب اور اذیت کی جہنم میں جھلس رہے تھے. جنید کی آنکھوں پر کالی پٹیاں باندھ دی گئیں اور اسے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا گیا. 29 منٹ ہو چکے تھے. پھانسی گھاٹ پر پیر رکھتے ہی 30 منٹ پورے ہو گئے. جنید پسینہ پسینہ ہو چکا تھا. اس کے جسم میں کپکپی طاری تھی. اس نے پستول واپس الماری میں رکھ دیا. اس نے میز سے اپنی بہنوں کی دو کتابیں اٹھائیں اور بہنوں کے پاس گیا. بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری پیاری بہنو تمہارے پڑھنے کا وقت ہو گیا ہے. خوب دل لگا کر پڑھو کیونکہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے.
چند ماہ بعد جنید ایک بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم ہو گیا. جنید کی دونوں بہنیں ڈاکٹر بن گئیں. وہ ایک کامیاب اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں. ان 30 منٹ کی تصوراتی واردات اور 30 منٹ کے مقدمے کی کارروائی نے ایک پورے گھر کو اجڑنے سے بچا لیا. آپ اپنی زندگی میں یہ 30 منٹ اپنے لئے ضرور بچا کے رکھئیے گا، یہ 30 منٹ کی تصوراتی اذیت آپ کو زندگی بھر کی اذیت سے بچا لے گی!...
محمد اقبال خان

09/04/2022

اسلام و علیکم دوستوں کافی ٹائم سے کوئی سٹوری پوسٹ نہیں تو انشاء اللہ بہت جلد دوبارہ سٹوری آنا سٹارٹ ہو جائے گی

27/12/2021

ٹائنز ایک بار پھر بےلگام!!!!!!
اس وقت صرف بھائی پھیرو، پھولنگر میں 500 کے لگ بھگ بچے ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں.

آج کل پاکستان کے مختلف شہروں میں چائینہ کی ایک کمپنی کو پروموٹ کیاجا رہا ہے" TIENS "۔جو ہمارے غریب لڑکے اور لڑکیوں کو نوکری دینے کے بہانے ان سے پہلے 45000 ہزار بٹورتا ہے اور لڑکی یا لڑکے کا NIC اپنے پاس رکھ لیتا ہے....
میں بتاتا ہوں کہ یہ بچوں کو 45000 دینے پر کیسے مجبور کرتا ہے۔سب سے پہلے یہ نوکری پر آنے کے لۓ انٹرویو پر بلاتا ہے انٹرویو میں یہ بچے سے 1500 فیس لے کر اور شناختی کارڈ لے کر اس کو 5 دن اپنے کام کے بارے میں کلاس دیتا ہے جس میں یہ بچے کو بڑے خواب گاڑی دیکھاتا ہے کہ اگے چل کر آپ لاکھوں کماؤ گے کم عمر میں کمپنی کی طرف سے گاڑی اور بائک ملے گی۔ اس طرح یہ بچوں سے 45ہزار لے کر اپنا غلام بنا لیتا ہے ۔یہ ایک پوری مافیہ ہے جسے کافی MNA سپورٹ کر رہے ہیں اعلی احکام سے گزارش ہے ایک دفعہ پھر سے ان کا پردہ فاش کردیاجاۓ

اگر کوئی آپ کو جاب کی آفر کرے یا جاب کی ایڈ دیکھیں
کہ کمپیوٹر پر کام کرنا ہے یا انوائسز بنانی ہیں
اور بس تنخواہ بیس سے تیس ہزار اور کمپنی/ ادارے کا نام بھی نہ بتائے یا گول مول جواب دے
اور آپ کو کسی شہر میں آنے کو کہیں اس تاکید کے ساتھ تین چار ہزار روپے ساتھ لیتے آئیں
تو جاب کرنے سے انکار کر دیں اور اگر آپ چلے بھی جائیں اور کسی غیر معروف سی رہائشی جگہ یا ایسے دفتر میں آپ کو بیٹھائیں
جہاں کسی کمپنی کا بورڈ نہ لگا ہو
اور آپ سے رجسٹریشن/ ویریفیکیشن/ بینک اکاؤنٹ کھولنے کیلئے دو تین ہزار طلب کریں
اور
کہیں کہ آپ کو دو چار پانچ دن ٹریننگ دی جائے گی۔۔۔۔اس دوران کسی سے بات چیت نہیں کرنی۔۔۔۔موبائل کا استعمال نہیں کرنا تو پیسے جمع مت کروائیں۔۔۔۔۔فوراً گھر لوٹ جائیں۔۔۔۔بغیر کسی کی بات سنے۔
آپ کے ساتھ #فراڈ ہو رہا ہے۔
اور جس کمپنی کے نام پر ہو رہا ہے اس کا نام ہے . Or Health care
اسی کمپنی کا دوسرا نام ہے
اگر آپ کا بیٹا/بھائی/شوہر جاب پر جانے کے بعد آپ سے دس پندرہ بیس چالیس ہزار روپے یکمشت یا تھوڑے تھوڑے کر کے منگوا رہا ہے
اور کھل کر اپنے کام کے بارے میں بھی آپ کو نہیں بتا پا رہا تو ہوشیار ہو جائیں۔
شاید وہ ایسی ہی کسی کمپنی کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔
جہاں اسے 2* ، 3* کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔۔۔فوراً سے پہلے گاڑی پکڑیں اور اُسے واپس لے آئیں
تقریباً ہر شہر میں انکے اڈے ہیں کراچی ۔۔حیدرآباد ۔۔ملتان۔۔۔۔۔فیصل آباد۔۔۔۔ساہیوال۔۔۔۔اوکاڑہ۔۔۔۔جھنگ۔۔۔۔۔لاہور۔۔۔۔۔وغیرہ
#مفادِ_عامہ میں اس پوسٹ کو اپنے فیسبک گروپس، پیجز، وال، واٹس ایپ گروپس میں پیسٹ کریں/ شئیر کریں۔
ہزاروں نوجوان اور خاندان لوٹے جا رہے ہیں اس طرح سے۔۔۔۔اس وقت صرف بھائی پھیرو میں 500 کے لگ بھگ بچے ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ملتان میں ان کی تعداد لگ بھگ 780 ہے جو مزید بڑھ رہی ہے۔
2500 سے 3000 روپے رجسٹریشن فیس وہ سب دے چکے ہیں۔
اور اب ان سے 40000 کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
آپ اس پوسٹ کو اپنی وال پر لازمی کاپی پیسٹ/شئیر کریں۔

04/12/2021

ایک بادشاہ کا سبق آموز واقعہ

ایک ریاست کے بادشاہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ کل صبح جب محل کا مرکزی دروازہ کھولا جائے گا ۔ تب جس شخص نے بھی محل میں جس چیز کو ہاتھ لگا دیا وہ چیز اس کی ہوجائے گی ۔ اس اعلان کو سن کر سب لوگ آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ میں تو سب سے قیمتی چیز کو ہاتھ لگاؤں گا ۔ جب صبح محل کا مرکزی دروازہ کھلا تو سب لوگ اپنی اپنی من پسند چیزوں کے لیے ۔ سب کو اس بات کی جلدی تھی کہ پہلے میں اپنی من پسند چیزوں کو ہاتھ لگا دوں ۔ تاکہ وہ چیز ہمیشہ کے لیے میری ہو جائے ، بادشاہ اپنی جگہ پر بیٹھا سب کو دیکھا رہا تھا اور اپنے آس پاس ہورہی بھاگ دوڑ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔

اسی وقت اس بھیڑ میں ایک شخص بادشاہ کی طرف بڑھنے لگا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچ کر اس نے بادشاہ کو چھو لیا ۔ بادشاہ کو ہاتھ لگاتے ہی بادشاہ اس کا ہوگیا اور بادشاہ کی ہر چیز بھی اس کی ہو گئی ۔ جس طرح بادشاہ نے ان لوگوں کو موقع دیا اور ان لوگوں نے غلطیاں کی ۔ ٹھیک اسی طرح ساری دنیا کا مالک بھی ہم سب کو ہر روز موقع دیتا ہے ۔ افسوس ہم عقل کے اندھے لوگ بھی ہر روز غلطیاں کرتے ہیں ۔ ہم اللہ کو حاصل کرنے کی بجائے اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کی چیزوں کی آرزو کرتے ہیں ۔

لیکن کبھی بھی ہم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کیوں نہ دنیا کے بنانے والے مالک کو پالیا جائے ۔ اگر مالک ہمارا ہو گیا تو اس کی بنائی ہوئی ہر چیز ہماری ہوجائے گی ۔

23/11/2021

کیا اس پیچ کی ویبسائٹ ہونی چاہیے

15/11/2021

کاش ہم سب بابا جی کی نظر سے دیکھ سکتے

بابا جی ! کل میرے گھر میں افطاری ہے ، تقریبا سو احباب ہونگے ، مجھے سموسے اور پکوڑے چاہئیں ، کتنے پیسے دے جاوں ؟میں نے پوچھا ، بابا جی نےمیری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے ۔ کتنے پیسے دے سکتے ہو مجھے ایسا لگا ، جیسے بابا جی نے میری تو ہین کی ہے ، مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک تھی ، میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور بابا جی کے سامنے رکھ دئیے ، بابا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے ، وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو ، کل آکر اپنے سموسے اور پکوڑے لے جانا ، میری پریشانی تم نے حل کر دی ، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے ، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی ۔

میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی ۔ وہ کون ہے آپکی ؟؟ میرے منہ سے بے ساختہ سوال نکلا ۔ بابا جی تپ گئے ، وہ میری ماں ہے ، بیٹی ہے اور بہن ہے ۔ تم پیسے والے کیا جانو ، رشتے کیا ہوتے ہیں ، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہوگا ، پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے ، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے ۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتوں داروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کمالیا ۔ اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جگا تو یہ روزہ نہیں صرف بھوک ہے بھوک ۔ میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا ، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا ۔

یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے بابا جی کے تھے ، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے ۔ باباجی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے جارہے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں ، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی ؟ اے کاش میں بھی بابا جی کی آنکھ سے دیکھتا ، اے کاش تمام صاحباں حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے ،اے کاش کے ساتھ بیشمار تمنائیں میرا پیچھا کر رہی تھیں ۔

15/11/2021

رات کا وقت تھا میں اور علی سمندر کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے چاند اور تاروں کی باتیں کر رہے تھے ۔سمندر کی لہریں ہمارے پاؤں کو چھو کر گزر رہی تھی ۔ٹہنڈی ہوائیں چل رہیں تھی اس وقت بات کچھ الگ تھی ۔وہ چاند اور تاروں کی باتیں کرتا میں خاموشی سے سنتی رہتی گویا سن کر یوں معلوم ہوتا جیسے چاند اور تارے اس کے پرانے دوست ہوں ۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے اس نے میرا ہاتھ بہت زور سے پکڑا ہواتھا ۔ ابھی علی نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ہی تھا کہ کہیں سے باآواز آئی ، اٹھو فجر !!!اٹھ بھی جائو فجر !! اور کتنا سونا ہے یونیورسٹی کے لیے دیر ہورہی ہے ۔ میری اچانک سے آنکھ کھلی ، اٹھتے ہی میری نظر میرے ہاتھ کی طرف گئی میرا ہاتھ ویسے ہی بند تھا جیسے خواب میں ۔ میں خوابوں کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی اور نہ ہی مجھے خوابوں پر کچھ خاص یقین تھا ۔

پھر بھی میں سوچنے لگی 4 سال گزرنے کے بعد علی کا اس طرح خواب میں آنا ، تب جب سب کچھ ختم ہوگیا ہو۔ میرے لیے بہت عجیب تھا ۔ ابھی یہی باتیں میرے ذہن میں گردش کر ہی رہی تھی کہ اچانک سے ابا آئے اور مجھے یوں دیکھ کر پریشانی کی وجہ دریافت کی اور کہا بیٹا اگر طبیعت ٹھیک نہیں تو مت جائو میں نے کہا نہیں نہیں ابا !!! ڈراونہ خواب تھا ۔ اور کچھ نہیں !یہ بو ل کر میں یونیورسٹی کے لیے تیار ہونا شروع ہوگئی ۔ گھر سے یونیورسٹی تک میرے ذہن میں بس وہی خواب چل رہا تھا ۔ سارا دن میں بہت خاموش رہی اور سوچتی رہی کہ آخر اس کا کوئی مقصد ہوسکتا ہے یا میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں خیر میں یونیورسٹی سے گھر آئی اور بس خود کو تسلی دیتی رہی کہ خواب توخواب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح رات ہوگئی سوچتے سوچتے جب میری آنکھ لگ گئی پتا ہی نہیں چلا۔

دوسری رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا میں علی سمندر، ہوائیں،چاند ، تارے اس کی باتیں، اسی طرح جس طرح اس نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔ کوئی چیز الگ نہ تی وہی عالم ، بس جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرٖف اٹھا یا میری آنکھ کھل گئی ، جیسے ہی میری آنکھ کھلی میں نے پھر اپنے ہاتھ کی جانب دیکھا میرا ہاتھ اسی حالت میں تھا ۔ جس طرح علی نے خواب میں پکڑ رکھا تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات تو یہ تھی کہ یہ دوسری بار تھا ۔ وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتا اور میری آنکھ کھل جاتی ۔ کیا وہ مجھ دے کچھ کہنا چاہتا ہے ، یا کسی بارے میں میں آگاہ کرنا چاہتا ہے پر کیا ؟؟یہ باتیں سوچ کر میں اور زیادہ خوفزدہ اور پریشان ہوگئی آخر کیا بات ہوسکتی جو علی مجھے بتانا چاہتا ہے؟؟

آخر میں اس خواب کا مطلب کس سے پوچھوں جو دو روز تک مسلسل مجھے پریشان کر رہا ہے؟پر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کس کو بتاؤں اور کیسے ؟؟میں یہ سوچ کر بھی خاموش رہی کہ شاید میری بات کو کوئی سنجیدہ نہ لے ۔۔یہ سوچتے سوچتے میں یونیورسٹی پہنچی میرے لہجے اور بیزاری سے میرے دوستوں کو کافی حد تک یہ محسوس ہوا کہ کچھ تو ہے اور مجھ سے اسرار کرتی رہیں پر پھر بھی میرا دل یہ بات بتانے کے لیے آمادہ نہیں تھا ۔ جب میری دوست نے بہت زیادہ اسرار کیا میں نے یہ ساری باتیں اسے بتادی خواب کا مسلسل دو روز سے آنا اور علی کا آسمان کی طرف اشارہ کرنا آخر اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ؟؟میری دوست مجھے دلاسے دیتی رہی کہ کچھ نہیں یہ تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے فجر !اتنا مت سوچو میں نے کہا شاید تم صیح کہ رہی ہو پر پھر بھی وہ سمجھ ہی نہیں سکی جو میں محسوس کر رہی تھی ۔خیر میں یونیورسٹی سے گھر آئی میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی ۔

اگر علی کو واقعی کچھ کہنا یا بتانا ہوتا تو مجھ سے خود ہی رابطہ کر لیتا ۔شاید یہ ایک اتفاق ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ رات ہوئی میں سوچتی رہی اور سوچتے سوچتے سوگئی ۔تیسری رات مجھے پھر وہی خواب آیا ، علی میں سمندر ، ہوائیں چاند تارے اور اس کی وہی باتیں اور جیسے ہی وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتا میں اٹھ جاتی ، اب میں اور پریشان ہوگئی تھی ۔ آخر کچھ توہے جس کی طرف اشارہ دلایا جارہا ہے پر کیا ؟؟؟تین بار ایک ہی خواب ، یہ کوئی اتفاق نہیں ضرور کچھ ایسا ہے جو شاید ہونے والا ہے ۔ میرا سر یہ باتیں سوچ سوچ کر پھٹنے کو تھا کچھ دیر گزرنے کے بعد میری دوست کا فون آتا ہے میں پریشانی میں اس کی کال کو اہمیت نہیں دیتی مسلسل وہ مجھے کال کرتی ہے ۔ میں نے غصے میں کال کا جواب دیا اور کہا ، کیا ہے یار ؟؟؟ کیوں پریشان کر رہی ہو؟میری دوست نے کہا مجھے بات کرنی ہے ۔

کہانی پوری پرنے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://todayspecialevent.com/urdu-story/sacha-khuwab/

15/11/2021

میرا غرور مجھے لے ڈوبا

عید کا دن تھا ۔ میں ڈیوڑھی کے پاس کھڑی تھی ۔ کنڈی بجی ، صحن میں اس دم کوئی نہ تھا ۔ مجید اندر آگیا ۔ وہ ہمارے گھر کے بزرگوں سے عید ملنے آیا تھا ۔ عید مبارک کہتے ، اس نے مجھے اس انداز سےچھوا کہ غصے سے بھبھک اٹھی ۔ وہ میرا سرخ چہرہ بھانپ کر جلدی سے آگے بڑھ گیا ۔ کچھ دن غصہ برقرار رہا ، پھر دل و ذہن میں ایک انجانی کسک جاگی ، یہ کسک بڑھتے بڑھتے گھائو ہوتی گئی ۔ تبھی بارشوں کا موسم آگیا ۔ کوئل کی کوک کے ساتھ یہ کسک بھی برہا کی ہوگ بن کر کانوں کو چھیدنے اور دل کو کریدنے لگی ۔ روح کو بے کل اور تن کو انگارہ کرنے لگی ، پھر تو من پاگل نے میری ایک نہ مانی ۔ ارمانوں کی بھیگی چادر اوڑھ کر میں ، رات کی سیاہی میں چھپتی چھپاتی ، مجید کی بیٹھک کے در پر ستک دینے جا پہنچی ۔ اس کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا اور اس کی بیوی میکے گئی ہوئی تھی ۔ وہ گھر میں اکیلا تھا اور میں اس وقت سارے جہاں میں اکیلی تھی ۔

ہم دونوں ملے ، وہ بھی شاید اسی دن کی راہ دیکھ رہا تھا ۔ اس نے اپنی شادی سے پہلے مجھ سے شادی کی قسم کھائی تھی مگر ماں کے دبائومیں ان کی بھانجی سے بیاہ رچالیا ، قسم بھلا دی اور میری محبت لولی لنگڑی ہوگئی ۔آج مگر جیسے میری معذور محبت کو پر لگ گئے تھے ۔ آخر اس قسم کا ایک بار تو اسے طعنہ دیتی جس کو اس نے خود کھایا اور پھر خود جھوٹا کر دیا ۔ پہلے تو میں نے اس کو خوب جلی کٹی سنائیں اور بے وفائی کے طعنوں سے کلیجہ چھلنی کیا۔ وہ چپ سنتا رہا ، پھر جب آنسوئوں کی دھارا میں سب شکوے ٖڈھل گئے تو ہم نے عالم بیداری میں ہی عالم بالا کی سیر کر لی ، ہماری محبت کا قصہ دوچار دن کا نہیں دس برس کا تھا ۔ اب میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس جانے لگی ۔اپنے قدموں پر اختیار نہ رہا ، بجھی ہوئی راکھ کو کرید کرید کر ہم چنگاریوں کو پھر سے پھونکیں ماریں تو محبت کا شعلہ جاگ اٹھا ۔

قصہ مختصر اپنے وجود کی تمام تر رعنائیوں اور چاہتوں کے ہاتھوں پاکیزگی کی بے داغ چادر کو پرے ڈال کر میں اس کی ہوگئی ۔ ملاقاتیں روز ہونے لگیں ۔ گھر والوں کا خوف اور دنیا کا دھڑکا جاتا رہا ۔ ہم ان حدوں کو چھو آئے کہ جس کی اجازت معاشرہ نہیں دیتا، وہ میری محبت میں سیانا بن گیا اور میں اس کی چاہت میں اندھی ہوگئی ۔محلے میں وہ ایک شریف نوجوان سمجھا جاتا تھا ۔ مگر اسی شرافت کے لبادے کو اوڑھ کر وہ اب راتوں کو بھی ملنے لگا ۔ میں اسی کو الزام کیوں دوں ؟دل ناداں پر کس کا اختیار بھیگی راتوں ، برستی بارشوں میں یہ میں ہی تھی ۔ جو اس کا در کھٹکھٹایا کرتی تھی ، اس کی ماں دوا کھا کر مدہوش پڑجاتی اور بیوی روٹھ کر میکے جابیٹھی تھی ۔ اپنے جلتے وجود کی تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ برستی بارش میں گلی میں نکل آتا تو میں بھی آخر انسان تھی ، محبت کے جذبات جب الائو کا روپ دھار لیں تو خود کو سنبھالنا محال ہوتا ہے ، میں ہی سلگتی ہوئی گھر کی دہلیز پار کر لیتی تو وہ کیا کرتا۔

مجھے دھکا دے کر تو واپس نہ کر سکتا تھا ۔ انجام سے نظریں چرالیں ۔ میں نے بہت بار باپ کی عزت اور خود کو جان پر کھیل کر رات کے اندھیرے میں سرحد پار کی ، جس کو بابل کی دہلیز کیا جاتا ہے اور اس نے ایک پھر قسم کھالی کہ کچھ دن ٹھہرو میں بیوی سے طلاق کے فیصلہ کو نمٹالوں ۔ یہ برادری کا معاملہ ہے اور میری گردن اس حصے سے بری طرح پھنسی ہوئی ہے ۔ تم سے جلد شادی کر لوں گا ۔ ایک بار پھر اس نے سنہرا خواب دکھایا اور ایک بار پھر میں اس خواب کے سنہرے پن میں جکڑی گئی ۔ انجام سے ہم غافل تھے ، انجام ہم سے غافل نہ تھی ۔ جب اس نے آنکھیں دکھائیں میں تھرتھر کانپنے لگی ۔ مجید سے منت کی کہ اس نے آنے والی گھٹنا سے نجات نہ ملی تو مر جائوں گی ۔ کیا ماں باپ کو منہ دکھائوں گی ؟اس نے کہا ڈرو نہیں میں نے قسم کھائی ہے ۔ اعتبار کرو اور ممتا کا دل نہ کچلومیں تم سے شادی کرنے پر تیارہوں اور پھر کیوں خون ناحق اپنےسر لیتی ہو، رازآشکار ہوتا ہے تو ہونے دو۔

ہرطر ح کے حالات کا میں ذمہ دار ہوں۔ اس کہانی میں میرا نام آنے دو،تمہارے گھر والوں کو مجھ ہی سے شادی کرنی پڑے گی ۔نہیں کریں گے تو کیا کریں گے ۔ وہ تعلیم یافتہ ہیں ، ان کو تمہاری جان اور اپنی آن پیاری نہیں ؟ اب یہ کام تو تم ہی کو کرنا ہے ، اپنی ماں کو اعتماد میں لو ، ورنہ میں تو تمہارے باپ کا در کھٹکھٹا کر یہ نہیں کہنے والا کہ جلدی سے لبنی کی شادی مجھ سے کر دو، ورنہ تمہارے ناموس کا تاج محل تمہارے سر پر گرنے والا ہے ۔ اف کیسی مشکل میں ڈال دیا تھا مجید نے مجھے ۔دل تو میرابھی یہی چاہتا تھا کہ خود کو حالات کے حوالے کردوں ۔ تقدیر کے ہاتھوں میں دکھوں کا مگر بہت بھاری خنجر بھی تھا ، اور میں دکھوں کے خنجر کو دل میں اتار کر بھی محبت کی مالا گلے میں ڈالنا چاہتی تھی ۔ اپنے دامن میں چاہت کا پھول ڈال کر دل کے تال پر رقص کناں آرزوئوں کی پینگ میں جھولنا چاہتی تھی ۔ ہمت کر کے ماں کو راز بتادیا ۔ وہ کلیجہ تھام کر رہ گئی ۔ اب وہ موڑ آچکا تھا کہ تدبیر سے بھی تقدیر کی سیاہی نہ ڈھل سکتی تھی ۔

والد کو ہم راز کرنے کاحوصلہ ماں میں نہ تھا اور خاندان کے ماتھے پر میرا یہ راز داغ کا ٹیکہ بن کر لگنے والا تھا ۔ ایسے میں دادی نے ہمت کی اور میرے والد کے غصے کو قابو کر کے ان کو راہ جھائی کہ حل موجود ہے، خواہ مخواہ اترانے کی ضرورت نہیں ہے، کالک لگ چکی اب ہر صورت سورج نکلنے سے پہلے اس کو دھونے کی کوشش کرو۔ ہوش مندی کا تقا ضا یہی ہے کہ مجید کا گلا جا پکڑو اور وہ تمہاری بیٹی کو قبول کرنے پر راضی ہے تو قاضی بلالو۔والد صاحب نے ایسا ہی کیا اور اعلان کر دیا کہ نکاح میں نے مجید سے کر دیا تھا ۔ اب رخصتی ہوگئی ۔ یہ سن کر سبھی عزیز سکتے میں آگئے ۔ مجید کی بیوی کو بھی اس کے میکے خبر ہوگئی ۔ وہ اپنے روٹھے رہنے پر لعنت بھیج کر بلکنے لگی ۔ اب وہ آٹھ آٹھ آنسو روتی تھی اور میں نئی نویلی دلہن بن کر اس کی مہکتی سیج پر چڑھ بیٹھی تھی ۔

وقت مقررہ پر چاند سا بیٹا پالنے میں آگیا تو ساس بھی ہر غم بھلا کر پوتے کے پالنے کو چائو سے جھلانے لگی ۔ اب مجید کی پہلی بیوی کے میکے والوں کو تائو آیا، جو منتوں سے نہ مانتے تھے خود ہی بیٹی کو مجید کے در پر لا ئے اور گھر میں دھکیل کر پہنچا دیا ۔ بیٹی سے کہہ گئے کہ مرو یا جیو اب تمہرا گھر یہی ہے اور مجید ہی شوہر ہے ۔ ایک اور شادی کرلے یا تین کر لے ۔ مرد کو چار کی اجازت تو ہے جو مرتی کیا نہ کرتی ، جو رانی تھی وہ رعایا بن کر رہنے لگی اور میرا حکم گھر پر مہارانیوں کی طرح چلنے لگا کیوں کی جس کو پی ا چاہے وہی سہاگن ۔مجید کے گھر والے اب میرے سامنے دبی زبان سے بات کرتے تھے اور سر جھکا کر چلتے تھے ،اس کی بیوی ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی ، پھر ان آہوں کو مجید کے ڈر سے دل ہی میں گھونٹ لیتی تھی ۔

مجھ سے مگر زیر لب کہتی تھی ۔ گھر کی مالکن بن گئی ہے تو کام بھی سنبھال ۔تب میں جواب دیتی کہ تونے تو خود اپنے راج پاٹ کو لات ماری ، کیوں اتنے دنوں روٹھ کر میکے جابیٹھی تھی اور اپنے میاں کو اکیلا چھوڑ گئی تھی ۔اب میں ہوں مالکن ، میں راج پاٹ سنبھالا ہے تو راج کو کاج سے کیا نسبت؟ تب ساس کو دکھ ہوتا، کہتی مل جل کر شرافت سے رہو ورنہ ۔۔ورنہ کیا ۔ یہ سانجھے کی ہنڈیا ہے ، یونہی رہی تو بیچ چورا ہے میں پھوٹے گی ۔ بہتر ہے کہ اپنی بھانجی کو میکے بھجوادو ۔مجھ سے اس کا یہاں رہنا برداشت نہیں ہوتا۔بیٹی لبنی ، کیا تم کو خوف خدا نہیں ، مگر اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔غرض اس تو تو میں میں ، میں گھر کا وہ حال ہوا کہ تو بھی رانی ، میں بھی رانی ، کون بھرے پنگھٹ کا پانی؟

وہ گھر کا کام نہ کرتی تو مجید سے پٹتیر ورو کر فریاد کرتی ، یہ موری کی اینٹ کیوں چو با رے لگی ۔تو اپنی کرنی آپ ہی بھوگی میں کیوں تیرا کیا بھگتوں ۔ میں جواب دیتی تو وہ گرہ لگاتی تب مجید پائوں سے جوتا کھینچ اس کو دے مارتا کہ کہاں تو میرے دل سے اتری ہوئی اترن اور کہاں یہ میرے من کی رانی ۔کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوا تیلی کہ تو خود کو لبنی سے ملاتی ہے ۔ اب تو اس کے منہ کو آئی تو چٹیا سے پکڑ کر چلتا کر دوں گا ، گھر سے جب مجید میری سوتن کو پھٹکارتا میں پھول جاتی اور اپنی کامیابی پر کھل اٹھتی ۔ اب نیلی چھتری والے کو تائو آیا۔ اس سے یہ ظلم کا تماشہ دیکھا نہ گیا ۔ مجید لاہور جا رہے تھے کہ سکھر کے پاس ریل کے حادثے میں فوت ہوگئے ۔ موت نے اس ہستی کو ہم دونوں عورتوں کے درمیان سے اچک لیا جو وجہ عناد بنی تھی ۔ مجھ کو میری سوتن اپنی سیج پر سے دھکا نہ دے سکی مگر موت نے یہ وار کاری کر دکھایا ۔

ہمارے علاقے میں کھلی چھٹی تھی ، ہر آدمی کو آزادی تھی کہ چاہے انصاف نہ کر سکے پھر بھی جتنی بھیڑیں چاہے پال لے ۔ نکاح میں چاہے دس رکھ لیے ، مگر ان کے حقوق کی پروا کس کو ہے ۔ وہ تو اپنے رب کے پاس چلے گئے مگر میں بیوگی کی سفید چادر اوڑھ کر دو بیٹوں کے ساتھ بوڑھے ماں باپ کی دہلیز پر واپس آگئی ۔ میری سوتن ان کی رشتہ دار تھی ۔ برادری اس کے دکھ سکھ کی ذمہ دار تھی ۔ مکان ساس کے نام تھا وہ میری سوتن کو ملا اور ہر شے پر اسی کا قبضہ ہوگیا ۔ وہ گیارہ بھائیوں کی بہن تھی جبکہ میرا ایک ہی بھائی تھا ۔ وہ بھی تیرہ برس کا اب ابا کہتے تھے ۔ بدبخت اگر غلط رستے نہ چلی ہوتی تو آض اتنی بڑی سزا نہ ملتی ۔میں تو مرجائوں گا جانے بعد کو تیرے بچوں کا کیا ہوگا؟اور میں دل ہی دل میں چپکے چپکے کہتی تھی کہ آپ کو سزا ملی کہ سیدھے سبھائو مجید کو رشتہ نہ دیا ور مجھ سے غلطی ہوگئی لیکن مجھ کو سزا سوتن سے برا،بر تائو کرنے کی وجہ سے ہوگئی ۔

میں نے اس کا دل جلایا ، غرور کیا ۔ اللہ نے اس غرور کی ایسی سزا دی کہ نہ شوہر رہا اور نہ غروررہا گھر سے بھی نکلنا پڑگیا ۔

13/11/2021

***ریوڑی والا***
آج میں بازار میں کسی کام کے سلسلے میں ایک دوکان پر موجود تھا ؛ ایک آدمی آیا . . . . . . . صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے . . . . . شکل و صورت سے بھی اچھے خاندان کا لگتا تھا ؛ اس کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے ریوڑی کے پیکٹ تھے ۔ دوکان میں پانچ سے چھ آدمی موجود تھے ؛ اس نے آکر ریوڑی خریدنے کی پیشکش کی ۔ لیکن !!!! کسی آدمی نے اس سے کوئی پیکٹ نہ خریدا ؛ مجھے بھی جلدی تھی میں بھی وہاں سے چلا گیا ؛ تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد میں ایک اور دوکان پر رکا جو کہ پہلی دوکان سے کم از کم ایک میل کی دوری پر تھی ؛ وہی ریوڑی والا آدمی پیدل چلتے چلتے وہاں پہنچ چکا تھا اس نے وہاں آکر بھی ریوڑی بیچنے کی صدا لگائی لیکن افسوس صد افسوس وہاں پر بھی کسی نے اس سے خریداری نہیں کی ؛ خیر میں نے دوکان سے باہر نکل کر اس سے ایک پیکٹ کی قیمت پوچھی تو وہ دھیمے سے لہجہ میں بولا " بیس روپے صاحب " میں نے اس سے ایک پیکٹ خرید لیا ؛ اس کے چہرے پر ایک چمک آگئی میں نے جب وہ ریوڑی کھائی تو کوئی عام سی لوکل قسم کی ریوڑی نہیں تھی ؛ بلکہ اس کاذائقہ بہت ہی عمدہ تھا ۔
اس سارے منظر نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
وہ آدمی حلال رزق کمانے کےلئے نکلا تھا ؛ لیکن ہمارے اس معاشرے نے اس سے خریداری نہ کر کے اس کی حوصلہ شکنی کی ۔
حالانکہ اس کے بر عکس دیکھا جاتا ہے کہ دوکاندار اپنے پاس سکے رکھتے ہیں جب کوئی مانگنے والا آتا ہے تو اسکو دے دیتے اور پورے دن میں کم از کم چالیس پچاس روپے ان پیشہ ور بھکاریوں کو دئیے جاتے ہیں : جس سے ان کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ محنت کرنے کی بجائےمانگنے کو پیشہ بنا لیتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ اپنا روپیہ اس طرح فقیروں پر لٹانے کی بجائے جو لوگ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں ان سے کوئی چیز خرید لیں اس سے ایک تو ان بھکاریوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور دوسرا حلال رزق کمانے والوں کا حوصلہ بڑھے گا ہماری یہ چھوٹی سی کاوش معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔

08/11/2021
08/11/2021

پلیز مجھے عزت سے جینے دو

میں قابل نفرت نہ تھی لیکن لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگےاوراب یقین ہے کہ اگر ماں باپ زندہ ہوتے تواپنی بیٹی کہنا پسند نہ کرتے۔ اس لئے تقدیر نے وطن چھینا،بھر ایک غیرت مند مرد نے جسے عرف عام میں "دلال" کہتے ہے، مجھے معصوم لڑکی سے طوائف بننے ہر مجبور کر دیا۔

میری کہانی سیدھی سادی سی ہے، مگر زندگی اور وقت کے دائو پیچ اتنے سیدھے نہیں ہیں۔ بس ذرا سا پیر پھسلنے کی دیر ہے۔ نادان عورت تو سیدھی حقارتوں کی دلدل میں جاگرتی ہے۔حالات کے ہاتھوں یہ تباہ حال عورت پھر چاہے جتنا پکارپکار کر کہے کہ مجھے بچالو،اس دلدل سے نکال لو ۔لوگ اسے طوائف ہی جانتے تھے اور اسے بچانے کے لئے ہاتھ بڑھانے سے ڈرتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ گناہ سے نفرت کرنے کے باوجود "اس بازار" کی زینت بنوگی کہ جہاں عصمت کا کاروبار کیا جاتا ہے۔

میں بنگلہ دیش، کھلنا کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی تھی ۔جب ہوش سنبھالا والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ہم تین بہنیں تھیں اور میں ان میں بڑی تھی۔ غربت کی وجہ سے جب رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں تو دوسری شادی کرنے کی بجائے ماں نے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھنے کو ترجیح دی۔ان حالات میں بڑی مشکل سے میٹرک مکمل کیا۔ماں تو انتھک محنت سے جلد ہی بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔ میں نے میٹرک اسی لئے کیا تھا کہ کہیں نوکری کر سکوں، اپنی ماں اور چھوٹی بہنوں کا سہارا بن جائوں۔

اب میں نوکری کی تلاش میں دردر بھٹکنے لگی ، کہیں لوگ عزت کے بدلے نوکری کی پیش کش کرتے تو کہیں رشوت اور سفارش طلب کرتے۔اب پتہ چلا کہ ملازمت تلاش کرنا کتنا مشکل کام ہے۔یہ دکھ وہی لڑکیاں جانتی ہیں جو ان حالات سے گزرتی ہیں ۔جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ایک گھرانہ آباد تھا جو میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل تھا ۔ گھرانے کے سربراہ کا نام صابر تھا۔ ان دنوں جب میں نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اور ہمارے گھریلو حالات بہت خراب تھے،ایک روز صابر ہمارے گھر آیا۔پڑوسی ہونے کے ناتے ماں نے اسے اپنا دکھ سنایا اور التجا کی کہ میری بچی کو نوکری دلوادو۔ صابر نے ماں کو تسلی دی اور کہا کہ اگر تم مجھ پر اعتبار کرو تو میں تمہاری لڑکی کو دبئی میں ملازمت دلواسکتا ہوں،بہت اچھی تنخواہ ملے گی ۔

میں خود وہاں جارہا ہوں اور بیوی بچے بھی ساتھ جارہے ہیں۔تمہاری بیٹی فریحہ وہاں میر ے گھر پر رہے گی۔ میں ہر ہفتےتمہاری اس سے فون پربات کروادیا کروں گا۔ غربت سے مجبور ماں اس کی باتوں میں آگئی اور ہامی بھر لی ۔ صابر کچھ دن کے لئے بنگلہ دیش سے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو ماں کوخوش خبری سنائی کہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ میرا بھی ویزا لے آیا ہے۔اب پاسپورٹ اور ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہے۔ماں نے اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر اسے دے دیں اور تمام مراحل مکمل ہوگئے ۔بالآخر رو انگی کا وقت آگیا۔میں صابر اور اس کی فیملی کے ساتھ ہوئی جہاز پر بیٹھ گئی اور ہم دبئی آگئے۔یہاں چند دن اس نے مجھے اپنی فیملی کے ساتھ رکھا اور پھر وہ مجھے ایسی جگہ لے آیا جہاں مجھ سی بدنصیب لڑکیاں تھیں ۔ان سے ملی تو پتہ چلا کہ صابر نے جھوٹ بولا تھا۔

وہ ہمیں لے کر پاکستان آگیا اور یہاں ایک شخص کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہ بازار حسن کا دلال تھا جو بظاہر جعلی نکاح نامے پر دستخط کرکے مجھے بیوی بناکر لایا تھا لیکن اس کا کام عورتوں کو خرید کر بازار حسن کی زینت بنانا تھا۔میں جس عزت کی حفاظت میں اتنی دور آئی تھی، یہاں اس کا نیلام ہونے لگا ۔ میرا کوئی پرسان حال نہ تھا۔موت کی دعا کرتی تھی لیکن موت بھی نہیں آتی تھی۔میں ہر روز جیتی ہر روز مرتی تھی۔گڑگڑا کر دعا کرتی تھی کہ اے خدا کسی شریف انسان کو میر ے پاس بھیج دے جو مجھے اپنی بیوی بنا لے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس دلدل سے نکال لے۔بالآ خر خدا کو مجھ پر ترس آگیا اور ایک روز ایک شخص آیا جو شکل سے شریف اور اطوار سے بااخلاق لگتا تھا ۔اس نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا۔تم مجبور ہو یا خوشی سے اس کانٹوں بھی سیج پر بیٹھی ہو۔میں نے اس کی طرف چونک کر ایسے دیکھا جیسے کسی نے بجلی کا جھٹکا دیا ہو ۔ سال بھر سے جیسے کہ میں بس اسی سوال کے انتظار میں بیٹھی تھی ، تبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں ۔جیسے ساون بھادوں کا مہینہ اپنی پوری آب و تاب سے برستا ہے۔

جب رو کر دل کا غبار نکال چکی تو اس نے کہا ۔سچ کہا تھا میرے دوست نے ، میں صیح لڑکی کے پاس پہنچا ہوں۔کیا کہا تھا آپ کے دوست نے اور کون ہے وہ آپ کا دوست ؟ میں نے رندھی ہوئی آواز میں دریافت کیا تو فہیم نے بتایا۔ میں اس بازار کا شوقین نہیں اور نہ ہی میرا و تیرہ ہے کہ یہاں آکر خود کو رسوا کروں۔ تاہم میرے چند دوست ایسے ہیں جو اس جگہ سکون تلاش کرنے آتے ہیں۔ایک روز وہ میرے گھر پر بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا ۔ اسلم نے کہا کہ یار طبیعت بوجھل ہے ۔ ادھر جانا چاہئے دوسرا بولا اس بار مشاہد سے کہنا ، پھر اسی لڑکی سے نہ ملا دے جس کا نام ہم نے "روتی صورت "رکھا ہے ، ہر وقت روتی رہتی ہے۔ ارے ہاں یار وہ فریحہ وہ تو نفسیاتی مریض ہے۔ خوبصورت تو بے حد ہے لیکن ابھی تک اس نے ماحول کو قبول نہیں کیا ہے۔کوئی دل بہلانے جاتا ہے اور یہ رورو کر غموں کو دگنا کر دیتی ہے۔ دل خراب ہو جاتا ہے ۔آفتاب نے بھی تائید کی ۔ سروش نے کہا ، یار ترس آتا ہے اس پر ، کم بخت ایک دلال اسے دھوکے سے یہاں لایاہے ۔نوکری کا جھانسا دیا تھا ۔ وہ بے چاری شریف لڑکی ہے ۔ جب ہی روتی ہے۔

میں نے جب دوستوں سے ایسی باتیں سنیں تو تمہارا اتا پتا دریافت کیا اور یہاں تک آگیا ۔جب پہلی نظر تم پر پڑی تو تمہاری اچھی صور ت سے متاثر ہوا۔مگر تم سے بات کرتے ہی معلوم ہوگیا کہ تمہیں طوائف ضرور بنا دیا گیا ہےمگر تمہارے اس سجے ہوئے جسم کے اند رایک شریف عورت ابھی تک زندہ ہے۔

اچھا بتائو تم یہاں تک کیسے پہنچیں اور کون لایا تھا تم کو یہاں؟تبھی میں نے اپنی ساری کہانی فہیم کو سنا دی ۔ میری کہانی سن کر اس کے دل میں رحم جا گ گیا۔اس نے کہا فریحہ اگر واقعی تم سچی ہو اور اس گندگی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہوتو یہاں سے اسی وقت نکل چلو۔میں تم سے شادی کروں گا ۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ مگر میں راضی ہوگئی ، اور پھر رات کے بارہ بجے وہ مجھے وہاں سے کسی طرح نکال کر اپنے فلیٹ میں لے آیا۔صبح ہم نے نکاح کیا اور میاں بیوی جیسے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔چند دن بعد فہیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو خوش خبری دی کہ اس نے شادی کر لی ہے۔وہ اس فعل پر ان سے اس لئے معافی کا طلب گار تھا کہ اپنوں سے اجازت لی تھی اور نہ اپنی شادی میں ان کو شامل کیا تھا۔بہرحال اپنے تو اپنےہوتے ہیں۔انہوں نے فہیم کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ کہا کہ اپنی دلہن کو ساتھ لے کر گھر آجائو۔ وہ جیسی بھی ہے ہمیں قبول ہے ۔ ہماری بہوبن گئی ہے تو قبول کرنا ہی ہے۔

اس امید افزا جواب ملتے ہی فہیم خوش ہوگیا اور مجھے لے کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا ۔ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بہو بن گئی ہے تو جیسی بھی ہے ہم قبول کر لیں گے۔ فہیم کے ماں باپ بہن بھائیوں نے مجھے قبول کرلیا اور وہی عزت دی جیسی کہ ایک بہو کو ملنی چاہئے تھی۔اب میں فہیم کے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر رہنے لگی ۔ فہیم اور میں بہت خوش تھے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں اور اکیلے جیون کی سختیاں سہنے سے بچ گئے ہیں ۔ شادی کو چاربرس بیت گئے لیکن میں اولاد کی نعمت سے اب تک محروم تھی۔ساس لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں ، اس ن ے بتایا کہ ان کے اولاد نہیں ہو سکتی ۔ اولاد نہ ہونے پر بھی فہیم مجھے بہت چاہتے تھے ۔ میں ان سے کہتی تھی کہ میری طرف نہ دیکھواور دوسری شادی کر لو اولاد تو اللہ کی نعمت ہے ، آپ کیوں میری وجہ سے اس نعت کو ترسیں ۔

تب وہ کہتے تھے کہ میں تم پر کبھی سوتن نہ لائوں گا اور کبھی دوسری شادی نہ کروں گا ۔ تمہارا کیا قصور ہے، میں کیوں تم پر ظلم توڑوں پہلے کیا تم نے کم دکھ اٹھایا ہے ۔ آپ نے ایک بار قربانی دی ہے ، اس احسان کو نہیں بول سکتی ۔ اب دوسری قربانی نہ دیں، تو فہیم کہتے تھے ۔ جب قربانی دی ہے تو پوری طرح دوں گا ورنہ قربانی ضائع ہوجائے گی۔وہ مجھ سے جو اتنا پیار کرتے تھے ، میں بھی دل و جان سے انہیں چاہنے لگی تھی۔ وہ بھی اچھے انسان تھے ، میں بھی اچھے دل کی تھی۔ اللہ تعالٰی نے ہماری جوڑی خوب ملائی تھی اور ہم بہت خوش و خرم زندگی گزاررہے تھے کہ ایک با رپھر میری زندگی میں قیامت کی گھڑی آگئی۔ ایک با ر جبکہ فہیم گھر پر نہ تھے ،ان کے ایک دوست اسلم اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آئے ۔ میں انجانے میں ان کے سامنے چلی گئی ۔اسلم نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ وہ کئی بار "اس بازار" میں آچکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو بتادیا کہ فہیم کی بیوی کا تعلق بازار حسن سے ہے۔

خداجانے فہیم کی عقل کو کیا ہوا تھا جو ایک طوائف کو بیوی بنا کر گھر لا بٹھایا ہے ۔ اس اپنی والدہ اور بہنوں کا بھی پاس نہ رہا کہ یہ عورت کیسے ان کے درمیان رہے گی ۔ اسلم کی بیوی نے میری ساس کی بھانجی عظمٰی کو سارا قصہ بتایا کیونکہ عظمٰی سے اس کی دوستی تھی۔ عظمٰی بھی پیٹ کی ہلکی نکلی اور یوں بات ہوتے ہوتے سارے خاندان میں پھیل گئی ۔ میری ساس اور نندوں کو جب یہ قصہ پتا چلا انہوں نے فہیم سے پوچھا،تب حقیقت انہوں نے بتا کر کہا کہ حالات نے فریحہ پر ستم کیا ہے ، اس کا تو کوئی قصو ر نہیں ہے ۔میں اسے گنا ہ گار نہیں سمجھتا ، نیکی سمجھ کر اس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔کوئی کچھ بھی کہے،مجھے ہر گز اس کی پرواہ نہیں ہے۔ہم اپنے گھر میں خوش ہیں ، کوئی ہم سے ناتا رکھے یا نہ رکھے ۔

میری ساس نے اعتراض کیا کہ اگر طوائف کو بیوی بنا لیا تھا تو پہلے بتانا تھا۔ہم تم کو یہاں اسے لا بسانے کا نہ کہتے ۔اب تم لوگ ہم سے الگ ہوجائو اور علیحدہ رہو کیونکہ میری بچیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔ان کے رشتے ہونے ہیں اور جس گھر کی بہو طوائف زادی ہو،اس گھر کی بچیوں کے رشتے کون لے گا۔میری بیٹیاں تو بن بیاہی رہ جائیں گی۔کون سا شریف گھرانہ میری لڑکیوں کو رشتہ دے گا۔ جب میں نے ساس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔ وہ کہہ رہی تھیں، میں تو ساس ہوں، اگر فریحہ کے والدین بھی اس کے حالات جان لیں تو اسے بیٹی کہہ کر بلانا پسند نہ کریں گے۔یہ اور ایسی باتیں میر ے لئے سوہان روح ہوگئیں ، تبھی مجبور ہو کر فہیم نے کرایہ کا مکان تلاش کیا اور ہم علیحدہ ہوگئے۔

میں اب اپنے شوہر کے والدین کے گھر نہیں جاتی ، ان کے بہن بھائی اور رشتہ دار بھی مجھ سے نہیں ملتے۔اتفاقا مل جائیں تو کترا کر نکل جاتے ہیں ۔تب بہت دکھ ہوتا ہے ، میں سوچتی ہوں اگر طوائف ہونا قابل نفرت ہے تو پھر اس معاشرے کے کچھ افراد بھی قابل تعزیر ہیں،صرف طوائف سے ہی نفرت کیوں ۔ ان لوگوں سے بھی نفرت کی جانی چاہئے جو عورت کو طوائف بناتے ہیں ، اسے خریدتے اور بیچتے ہیں۔وہ لوگ تو شرفاء کی ٍسوسائٹی میں ایسے گھل مل کر رہتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے مگر عورت ہی قابل نفرت ٹھہرتی ہے، وہی گناگار سمجھی جاتی ہے ، وہی سزاوار ہوتی ہے ۔آخر یہ بے انصافی کیوں؟افسوس تو یہ ہے کہ جس شخص نے مجھے دلدل سے نکالا ، مجھے شریفانہ زندگی دی ، نیکی اور ثواب کا کام کیا ، اسے بھی لوگ میرے ساتھ سزا دینے لگے۔فہیم کو موردالزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے فریحہ سے کیوں شادی کی ۔کیا دنیا میں شریف لڑکیوں کی کمی تھی جو یہ گندگی میں جا گرا ، اور میں کہتی ہو کہ شریف گھرانے کی اچھی لڑکیوں کو تو سبھی اپناتے ہیں۔آفرین تو اس شخص پر ہے جو گنا ہ کی دلدل میں پھنسی کسی ایسی عورت کو اس دلدل سے نکالتا ہے جو دل سے شریفانہ زندگی کی آرزو مند ہوتی ہے۔ا

اگر واقعی کوئی عورت ایسی ہو اور وہ شریفانہ زندگی کی آرزومند ہو تو اس کو شریفانہ زندگی دینا اور گناہ آلود زندگی سے نکال لینا ایک بڑی نیکی ہے۔معاشرہ چاہے فہیم سے جتنی بھی نفرت کرے مگر میں تو یہی کہوں گی کہ فہیم نے مجھے اپنا کر جو نیکی کی ہے ، اس کا اسے بڑا اجر ملے گا۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu story posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu story:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share