Pj News

Pj News Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Pj News, Media/News Company, .

08/04/2023
🎓Attention Please!✒
17/01/2021

🎓Attention Please!✒

Remembering Justice Hidaytullah By Ch Tahir Munir PannuWhatsapp 0092-322-888-9111LahoreWith the demise of Justice Hidaya...
17/01/2021

Remembering Justice Hidaytullah
By Ch Tahir Munir Pannu
Whatsapp 0092-322-888-9111
Lahore

With the demise of Justice Hidayatullah, modern India has lost one of its most luminous jurists. The word ‘jurist’ is much debased in India; we have developed a tradition where knowledge, virtue and even wisdom come ex officio, to a point that every judge, sitting or retired, every Attorney and Advocate General, other law officers, chairpersons of Bar Councils and Associations, law ministers, senior members of the Bar, and even their leading munshis, are described as ‘jurists’! In this context, Hidayatullah’s life was a constant message on how not to be a jurist.

But he was a jurist in the most complete sense of the term: he lived the life of law and justice. Unsurprisingly, he was an effortless exemplar of judicial virtues. Possessing an unsurpassed grasp of comparative jurisprudence, he wore his learning lightly. His disdain for purple judicial prose arose out of mastery of judicial style. He knew the inner logic of judicial craftspersonship; he addressed the future of law through the idiom of the present. In his later years, he maintained a tough allergy to the efflorescence of variety of judicial activism spawned by judicial populism. He was a friendly critic of judicial process and power and constantly warned his successors in the Supreme Court against the excesses of rhetoric; but the new converts to judicial activism could not allow a fine regard for legality to curb their new messianic notion of judicial role. Justice Hidayatullah, in contrast, believed that judicial power is most effective when it is sensible of its limits; and although not an arch-conservative, he gladly subscribed to the growth of judicial power, in Edmund Burke’s prescription, by “insensible degree”.

Remembering Justice Hidaytullah By Ch Tahir Munir PannuWhatsapp 0092-322-888-9111With the demise of Justice Hidayatullah...
17/01/2021

Remembering Justice Hidaytullah
By Ch Tahir Munir Pannu
Whatsapp 0092-322-888-9111

With the demise of Justice Hidayatullah, modern India has lost one of its most luminous jurists. The word ‘jurist’ is much debased in India; we have developed a tradition where knowledge, virtue and even wisdom come ex officio, to a point that every judge, sitting or retired, every Attorney and Advocate General, other law officers, chairpersons of Bar Councils and Associations, law ministers, senior members of the Bar, and even their leading munshis, are described as ‘jurists’! In this context, Hidayatullah’s life was a constant message on how not to be a jurist.

But he was a jurist in the most complete sense of the term: he lived the life of law and justice. Unsurprisingly, he was an effortless exemplar of judicial virtues. Possessing an unsurpassed grasp of comparative jurisprudence, he wore his learning lightly. His disdain for purple judicial prose arose out of mastery of judicial style. He knew the inner logic of judicial craftspersonship; he addressed the future of law through the idiom of the present. In his later years, he maintained a tough allergy to the efflorescence of variety of judicial activism spawned by judicial populism. He was a friendly critic of judicial process and power and constantly warned his successors in the Supreme Court against the excesses of rhetoric; but the new converts to judicial activism could not allow a fine regard for legality to curb their new messianic notion of judicial role. Justice Hidayatullah, in contrast, believed that judicial power is most effective when it is sensible of its limits; and although not an arch-conservative, he gladly subscribed to the growth of judicial power, in Edmund Burke’s prescription, by “insensible degree”.

( ضرور پڑھیے)سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہ...
03/01/2021

( ضرور پڑھیے)

سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا
’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘
آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔
آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔
آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔
آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔
آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں بہتر حُوروں کے نشیب و فراز کے پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔
آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ عِشق معشوقی، اور لو افئیرز کے اِرد گِرد گھوم رہے ہوں گے۔
آپ ہر روز اخبار بھی پڑھ کر دیکھ لیں، کِسی ن نے م بی بی کے ساتھ یا کِسی ف نے کِسی ش بی بی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوئی ہوگی، ننھے بچے حتیٰ کہ قبر میں لاشوں کی عزت بھی محفوظ نہیں مِلے گی۔
آپ کو کہیں سائینسی ڈاکومنٹری، مریخ پر زندگی، یا روبوٹس کا تذکرہ نہیں مِلے گا، کوئی نِطشہ، رسل، آئینسٹائین، یا فلسفہ پر گفتگو کرتا نہیں مِلے گا۔
ہم ہالی وُڈ کی فلموں پر تو بین لگا دیتے ہیں، مگر سٹیج ڈراموں کے نام پر مجرے اور کیا کُچھ نہ دِکھایا جاتا رہا۔ آپ اندازہ کریں کہ ہم نے صدیوں کے غوروفکر کے بعد اپنی ذریں روایات و اقدار کی بنیاد پر ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں شادی کرنے کیلیے ایک مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے تعلیمی ڈگریوں کے انبار، نوکری، گھر، گاڑی، بینک بیلنس بنائے، تاکہ جب جوانی اختتام پذیر ہو، تب شادی کا سوچے، یعنی اپنی آدھی سے زیادہ عُمر کنوارا گھومتا رہے۔ لڑکیوں پر جہیز کا بوجھ الگ۔
اگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی تسکین ایک بُنیادی اِنسانی ضروت ہے، اور جب تک انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری نہ ہو، انسان دیگر تخلیقی کاموں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے، تو ہم یہ حقیقت ماننے سے انکاری کیوں ہیں؟
ہم کب تک نیوٹن، آئینسٹائین، بِل گیٹس کے بجائے شاعر، مجنوں، رانجھا، اور غمزدہ نسلیں پیدا کرتے رہیں گے؟
ہم کب تک زندگی کے چار میں سے دو دن آرزو اور باقی کے دو دن انتظار میں گزارنے پر نوجوانوں کو مجبور کرتے رہیں گے؟
دُنیا کی کون سی سائینس، دُنیا کی کون سی نفسیات، اِس معاشرت کو درُست کہے گی؟
ہم کِس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟
ہم کِس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے جہاں بُنیادی اِنسانی ضروریات کے اظہار، اور تکمیل پر پابندی ہے، گھُٹن ہی گھُٹن ہے؟
جب سچائی اور حقیقتوں کے اظہار کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں، تو ہوتا تو تب بھی سب کُچھ ہے، مگر مُنافقت کے پردہ میں، ہر شخص فرشتہ صفت ہونے کا دعویدار بن جاتا ہے، اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی اِنسان دِکھائی نہیں دیتا۔
ہمیں ماننا پڑے گا کہ مُنافقت پر مبنی مُعاشرے کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ساتھ جھوٹ بولنے کا بیوپار کرتے ہیں، اور خمیازہ بھی پھر خُود ہی بھُگتتے ہیں۔
منٹو بتا گیا تھا "ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اپنی خواہشات کے دبانے کو بڑا ثواب تصور کیا جاتا ہے"۔
فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘

31/12/2020

What's on your mind?

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pj News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share