Minhaj Ul Quran Faqirwali

  • Home
  • Minhaj Ul Quran Faqirwali

Minhaj Ul Quran Faqirwali This Page is about Dr. Muhammad Tahir Ul Qadri! We will Upload Clips of Dr. Muhammad Tahir Ul Qadri

17/03/2023
15/08/2022

یزیدی سوچ

06/03/2022

مسلک

02/03/2022

متبادل بیانیہ

28/02/2022

معراج جسمانی یا روحانی

18/02/2022

Happy Birthday Qibla Huzoor!

Celebrating 71th Birthday of Huzoor Shykh Ul Islam Doctor Muhammad Tahir Ul Qadri at 19th Feb 2022!

19/01/2022
09/01/2022
23/12/2021

آج سے 8سال قبل مینار پاکستان پر منہاج القرآن کے کارکنوں کا قائم کردہ ایک ناقابل شکست ریکارڈ
ڈاکٹر طاہر القادری کا عظیم اور فقید المثال استقبال

10/09/2021

پاکستان میں 2 قانون پہلے موجود نہیں تھے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پاکستان میں ختم نبوت کا قانون اور قادیانیوں کے خلاف قانون بنوایا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری

19/07/2021

مجھے آج تک کوئ متاثر نہ کرسکا!!

معروف رائٹر خلیل الرحمٰن قمر کا حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے متعلق اظہارِ خیال!!!

16/07/2021
13/07/2021
12/07/2021

Who is Dr. Muhammad Tahir Ul Qadri! What work has been done by Minhaj Till now!

تنقید کرنا آسان ہے لیکن کام کرنا بہت مشکل ہے، ڈاکٹر محمد طاہر القادری پہ تنقید کرنے والے ایک بار اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں!



05/07/2021

دنیا کی سب سے بڑی اور ایک ہزار سال پرانی اسلامی درسگاہ جامعہ الازہر مصر کے محدثین نے شیخ الاسلام کو مجدد قرار دے دیا ❤ یاد رہے کہ برصغیر پاک و ہند سمیت تمام عالمِ عجم میں شیخ الاسلام وہ واحد عجمی محدث اعظم ہیں جن کی کتب ہزار سال پرانی اسلامی درسگاہ جامعہ الازہر مصر میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں۔
The narrators of Al-Azhar University, Egypt, the world's largest and one thousand year old Islamic seminary, have declared Shaykh-ul-Islam a reformer. The year-old Islamic seminary is taught as a syllabus at Al-Azhar University in Egypt.

29/06/2021

اہلسنت اپنے بچوں کے عقیدے کی اصلاح کریں

2016
13/06/2021

2016

08/06/2021

ولی کامل

آج کے نوجوان جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاھر القادری صاحب کو کوئی بہت بڑا مالدار دولت مند اور ٹھاٹ باٹ والی شخصیت سمجھتے ...
07/06/2021

آج کے نوجوان جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاھر القادری صاحب کو کوئی بہت بڑا مالدار دولت مند اور ٹھاٹ باٹ والی شخصیت سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی ظاہری نفاست، طہارت اور خوش لباسی کو دیکھ کر انہیں کوئی بڑا سرمایا دار سمجھ بیٹھے ہیں وہ طاہر سے قائد انقلاب بننے تک کی ڈاکٹر طاھر القادری کی یہ رواداد ضرور پڑھیں۔
ڈاکٹر صاحب کی پیدائش سے تا وقت کی پوری داستان سلسلہ وار آپ احباب کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

سن 1948 میں ڈاکٹر فریدالدین قادری حرم کعبہ کی حاضری کے لئے گئے۔
وہاں غلاف کعبہ پکڑ کر دعا مانگی کہ باری تعالی مجھے ایسا بچہ عطا فرما جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو اور وہ دنیائے اسلام میں ایسے عملی و فکری، اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم منور ہو سکے۔
دعا قبول ہوئی 1948 ہی میں حرم کعبہ میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں بشارت دی کہ ہم تجھے طاہر کی بشارت دیتے ہیں۔
ڈاکٹر فریدالدین رحمتہ اللہ علیہ نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کے دوران ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وعدہ کیا کہ جب آپ کی بشارت کے مطابق رب تعالیٰ مجھے طاہر عطا کرے گا تو سن شعور کو پہنچتے ہی میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرونگا 19 فروری1951 کو طاہر کی پیدائش ہوتی ہے اور 1963 میں پھر ڈاکٹر فریدالدین کو خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے اور حکم ہوتا ہے کہ طاہر کو ہمارے پاس لاؤ اس طرح 12 سال کی عمر میں طاہر پہلا حج کرتا ہے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری نصیب ہوتی ہے۔

07/06/2021

💢 *سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن میں ڈاکٹر طاہر القادری کو کریڈٹ اور عزت دینا چاہتا ہوں کہ ... جب بھی ٹویٹر پر میں نے انکے ساتھ سیاسی اختلاف کیا، انکے کسی فالوورز نے بدتمیزی نہیں کی، کبھی کوئی گالی نہیں دی.*
⭕ *اس کا مطلب ہے کہ انکی لیڈر شپ نے اپنے فالوؤر کو یہ بات سمجھائی ہے کہ بحث کرو ، بدتمیزی نہیں.*
🎙️چیف جسٹس اطہر من اللہ - اسلام آباد ہائیکورٹ (سات سال قبل کی یادیں )

Haroonabad
21/05/2021

Haroonabad

آج فلسطینی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے پاکستان عوامی تحریک ہارون آباد کے کارکنان نے احتجاج کیا اور دہشت گردی کی بھرپ...
21/05/2021

آج فلسطینی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے پاکستان عوامی تحریک ہارون آباد کے کارکنان نے احتجاج کیا اور دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی!

20/05/2021
08/05/2021
28/04/2021

💗💗💗💗💗 تعارف 💗💗💗💗💗
******ڈاکٹرطاہرالقادری********

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالم اسلام کی نمایاں علمی، فکری، اصلاحی اور انقلابی شخصیت ہیں جو اپنی بے پناہ خدمات کی وجہ سے ہمہ جہت پہچان رکھتے ہیں۔ آپ تجدید و احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک منہاج القرآن کے بانی قائد اور پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ہیں۔ آپ منہاج یونیورسٹی لاہور کے چیئرمین بورڈ آف گورنرز بھی ہیں۔ آپ کی سرپرستی میں تقریباً 80 ممالک میں تعلیمی، دعوتی، اصلاحی اور فلاحی مراکز کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی آپ نے دعوت اور اصلاح احوال کے لئے تحریک منہاج القرآن کا صوبہ، ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک نیٹ ورک اور عوام الناس کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ہزاروں کالج، سکول، لائبریریاں اور عوامی تعلیمی مراکز قائم کئے ہیں۔

آپ شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مرید ہیں، جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو 1994ء میں 130 سال عمر پانے والے چکوال کے معروف بزرگ سید رسول شاہ خاکی (رح) نے پہلی بار اور بعد ازاں 2004ء میں عرب علماء کی طرف سے شیخ الاسلام کا خطاب دیا گیا۔ [1]

خاندانی پس منظر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے آباؤ اجداد سیال خاندان سے تھے آپ کے دادا میاں خدا بخش تھے، ان کے والد گرامی میاں بہاؤالدین خان ولد میاں احمد یار خان تھے جو کھیوہ سٹیٹ (جھنگ) کے آخری حکمران نواب اﷲ یار خان کی اولاد سے تھے۔ کھیوہ سٹیٹ 1745ء میں جھنگ سٹیٹ میں ضم ہوگئی تھی۔ ریاست کھیوہ کے بانی کھیوہ خان ولد ستی خان تھے جو ماہنی سیال تھے۔ کھیوہ خان کے بعد شیر خان، علی خان، فتو حل خان، صاحب خان اور اﷲ یار خان بالترتیب ریاست کھیوہ کے حکمران رہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی سے پہلے کی تین نسلوں نے حکمرانی اور نوابی ترک کرکے فقر و درویشی اختیار کرلی تھی۔ زہد و اتقاء اور ترک دنیا ان کا طرز زندگی بن گیا تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لئے دنیا بھر کا سفر کیا۔ وہ دینی، علمی اور روحانی طور پر نہایت بلند مقام کے حامل تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت محترم اور معتبر مقام عطا کیا تھا۔ وہ علم و ادب، تحقیق، خطاب اور روحانیت میں یکتائے روزگار تھے۔ وہ اپنے وقت کے بڑے جید عالم، محقق اور فاضل تھے اور صالح سیرت و کردار، تقویٰ، شب بیداری اور روحانی خصائل اور فضائل کے اعتبار سے بلاشبہ ولی اﷲ تھے۔

1974ء میں جب ان کا وصال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 56سال تھی۔ انہیں روحانی فیض حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار عالیہ کے نقیب الاشراف حضرت سیدنا ابراہیم سیف الدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر تھے۔ ان کی ساری دینی تعلیم فرنگی محل لکھنو میں ہوئی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے طب کی تعلیم طبیہ کالج لکھنو اور ایلوپیتھک کی تعلیم و تربیت کنگ جارج میڈیکل کالج لکھنو سے حاصل کی۔ وہ ڈسٹرکٹ جھنگ کے رورل ہیلتھ سینٹرز میں سرکاری ملازمت میں رہے۔ ان کی اصل مہارت طب یونانی میں تھی۔ وہ شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی کے تلمیذ خاص تھے اور انہوں نے حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری سے فن نبض شناسی میں تخصص کیا تھا اور ان کے ساتھ مسند پر حیدر آباد دکن میں 2سال تک معاون رہے اور 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ انہیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔ وہ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز کے طبی مشیر بھی رہے۔

انہی سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالی سے دعا کی کہ انہیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خواب میں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔

اساتذہ
شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی، نقیب الاشراف بغداد
شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ضیاء الدین احمد القادری المدنی
فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری (والد محترم)
حضرت علامہ ابو البرکات سید احمد قادری
محدث اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد قادری
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی
شارح بخاری حضرت مولانا غلام رسول رضوی
مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی
شیخ سید عبدالمعبود گیلانی المدنی
استاذ العلماء حضرت مولانا عبدالرشید رضوی
پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
محدث حرم سید علوی بن عباس المالکی المکی
محدث حرم سید محمد بن علوی المالکی المکی
شیخ سید محمد الفاتح الکتانی
شیخ حسین بن احمد عسیران (تلمیذ رشید امام یوسف بن اسماعیل نبہانی)
تعلیم
1955ء تا 1963ء - سیکرڈ ہارڈ سکول جھنگ صدر سے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حاصل کی۔
1963ء - مولانا ضیاء الدین مدنی کی زیرنگرانی مدینہ منورہ میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔
1963ء - سید علوی المالکی سے حدیث کا سماع کیا۔
1963ء تا 1969ء - جامعہ قطبیہ جھنگ سے علوم شریعہ کا متداول کورس درس نظامی کیا۔
1966ء - اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر سے فرسٹ ڈویژن میں ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کا امتحان پاس کیا۔
1968ء - گورنمنٹ ڈگری کالج فیصل آباد سے فرسٹ ڈویژن میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
1970ء - ڈاکٹر فریدالدین قادری کی زیرنگرانی جھنگ میں دورہ حدیث مکمل کیا۔
1970ء تا 1972ء - پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
1974ء - پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں قانون کا امتحان ایل ایل بی پاس کیا۔
1979ء - سید احمد سعید کاظمی (ملتان) سے اجازت روایت حدیث کی سند حاصل کی۔
1986ء - پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامی فلسفہ عقوبات کے موضوع پر اسلامی قانون میں پی ایچ ڈی کا امتحان پاس کیا۔
1991ء - محمد بن علوی المالکی (مکہ مکرمہ) سے اجازت روایت حدیث اور اجازت العلمیہ کی سند حاصل کی۔
2006ء - امام یوسف بن اسماعیل نبھانی (لبنان) کے تلمیذ شیخ حسین بن احمد عسیران سے روایت حدیث کی اجازات حاصل کیں۔
انتظامی کیریئر

1974ء تا 1975ء - لیکچرار اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل، میانوالی
1976ء تا 1978ء - ایڈووکیٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، جھنگ
1978ء - رکن سنڈیکٹ، پنجاب یونیورسٹی
1978ء - مشیر فقہ وفاقی شرعی عدالت، پاکستان
1978ء - مشیر سپریم کورٹ آف پاکستان
1978ء - ماہر قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی
1978ء تا 1983ء - لیکچرار اسلامک لاء، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج، لاہور
1983ء تا 1988ء - وزٹنگ پروفیسر و سربراہ شعبہ اسلامی قانون (برائے ایل ایل ایم کلاسز)، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج، لاہور
1986ء تا حال - پرو چانسلر / چیئرمین بورڈ آف گورنرز، منہاج یونیورسٹی لاہور
تعلیمی خدمات
1995ء میں آپ نے عوامی تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا، جسے غیرسرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ [2]
2005ء لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی، جسے 2009ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کیٹگری X سے W میں ترقی دی گئی۔ [3]
سیاسی کیریئر
مؤرخہ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ تھا۔ [4]
1990ء میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
1991ء میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لئے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورتحال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
1992ء میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
1998ء میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
2003ء - محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔ [5]
2003ء میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا[6] جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفیٰ تھا۔
2006ء میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا[7] جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔ [8]
توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکہ، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘[9] کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
2009ء میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے غزہ کانفرنس[10] کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لئے امداد سامان روانہ کیا گیا۔ [11]
دینی خدمات
آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے، جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے۔ [12]
آپ کے زیراہتمام لاہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی میلاد کانفرنس ہے۔ [13]
آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ روئے زمین پر یہ ایسی واحد جگہ ہے جسے تاریخ میں پہلی بار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قائم کیا۔ [14]
آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیا بھر میں شاخیں ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ [15]
علمی و ادبی خدمات

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہزارہا دینی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی میں خطابات کر چکے ہیں۔ [16] کیو ٹی وی، اے ٹی وی، پی ٹی وی، پرائم ٹی وی اور اے آر وائے گاہے بگاہے ان کے خطابات نشر کرتے ہیں۔
بہت سے اسلامی موضوعات پر ان کی اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔ [17][18]
عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ [19]
تفسیر منہاج القرآن کے نام سے آپ قرآن مجید کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر طبع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ [20]
المنہاج السوی من الحدیث النبوی کے نام سے ان کا حدیث مبارکہ کا ایک ذخیرہ طبع ہو چکا ہے، جس میں ریاض الصالحین اور المشکوٰۃ المصابیح کی طرز پر منتخب موضوعات پر احادیث مع تخریج پیش کی گئی ہیں۔ [21]
سیرت الرسول کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے، جو 10 جلدوں پر مبنی ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے۔ [22]
میلاد النبی کے نام سے آپ نے میلاد منانے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میلاد کی حیثیت اور سلف صالحین کا میلاد منانے کا طریقہ باتحقیق پیش کیا گیا ہے۔ [23]
اسلام اور جدید سائنس نامی تصنیف میں آپ نے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کے مطالعہ سے اسلامی تعلیمات کی سائنسی افادیت و ناگزیریت واضح ہوتی ہے۔ [24]
اسلام کے اقتصادی نظام کو آج کے دور میں قابل عمل ثابت کرنے کے لئے آپ نے اقتصادیات اسلام کے نام سے ایک ضخیم تصنیف بھی تحریر کی۔ [25]
حقوق انسانی نامی تصنیف میں اقلیتوں[26]، خواتین[27]، بچوں[28] اور عمر رسیدہ اور معذور افراد[29] کے حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق کو اسلام کی عطا ثابت کیا۔
عالمی سیاسی صورتحال میں عالم اسلام کو درپیش خطرات کے حوالے سے آپ کی تصنیف نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام خاص اہمیت کی حامل ہے۔
امام مہدی کے حوالے سے افراط و تفریط پر مبنی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے القول المعتبر فی الامام المنتظر آپ کی اہم تصنیف ہے۔ [30]
اسلامی فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث نامی ضخیم کتاب تمام اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔
اجازت روایت حدیث لینے والے علماء
عرب و عجم کے بعض نامور علماء کرام نے ان سے اجازت روایت حدیث لی، جس کے ذریعے ان کا سلسلہ روایت نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
شام
الفقیہ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی (سینئر امام، جامع امویہ دمشق)
الشیخ ابوالخیر الشکری (خطیب جامع امویہ دمشق، سربراہ جامعہ المحدث الاکبر، شام)
الشیخ السید ابوالھدیٰ الحسینی (حلب، شام)
کویت
الشیخ السید یوسف ہاشم الرفاعی (ممتاز صوفی سکالر، مصنف اور سابقہ وزیر کویت)
عراق
مفتی اعظم شیخ عبدالرزاق (مفتی اعظم، بغداد عراق)
شیخ عبدالوھاب المشھدی (فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف، بغداد عراق)
یمن

شیخ حبیب عمر بن سلیم بن حفیظ (بانی و پرنسپل دارالافتاء، یمن)
شیخ حبیب علی زین العابدین الجفری (فقہ شافعی کے ممتاز سکالر، یمن)
لبنان
السید وسیم الحبل (اسلامی فقہ کے عالم، لبنان)
مصر
شیخ حامون احمد بن عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ عبدالمقتدر بن محمد علوان (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ یوسف بن یونس احمد عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ حمید محمود بن احمد محمود (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ احمد عبداللہ محمد الجیاد (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ عبدالواحد یوسف بن محمد ماطیٰ (جامعہ الازھر، مصر)
برصغیر ہندوپاک
شیخ محمد خواجہ امین شریف (شیخ الحدیث، صدر دارالحدیث جامعہ نظامیہ، حیدرآباد دکن، بھارت)
شیخ حبیب الرحمن (محدث سلہٹ، بنگلہ دیش)
ان کے علاوہ پاکستان کے سیکڑوں علماء کرام
یورپ و امریکہ
شیخ عبدالحکیم مراد (لیکچرار اسلامک سٹڈیز، کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ)
شیخ بابکر احمد بابکر (امام، یوسف اسلام اسلامیہ سکول، برطانیہ)
شیخ عبدالعزیز فریڈریکس (ممتاز سکالر، گلاسگو برطانیہ)
شیخ فیصل حمید عبدالرزاق (سکالر، ٹورانٹو کینیڈا)
نظریات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک مسلمان سنی سکالر ہیں، مگر وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی فرقوں کی بندشوں سے آزاد ایک عام مسلمان قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لئے ناگزیر ہے۔ [31]
ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بناء پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ [32]
ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے [33] اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ [34] آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ [35] آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔ [36]
ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے [37]، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے[38] [39] [40]
ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔ [41]
ان کے مطابق انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔ [42] انہوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم[43] بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت[44] کرنے کو حدیث نبوی [45] کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔ [46] اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا۔ [47]
ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لئے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔ [48]
ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ [49]
*تنقید*
ان کی طرف سے یزید اور اس کے حمایتیوں کو لعنتی قرار دیئے جانے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے علماء کی دل آزاری ہوئی جو یزید کے لئے رضی اللہ عنہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ [50]
اتحاد امت کی کوششوں اور شیعہ علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر شیعہ مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔ [51]
گستاخی رسول کے مرتکب نہ ہونے والے عام دیوبندی علماء کو مسلمان سمجھنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دینے کی وجہ سے بریلوی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ بارے کوششوں پر انتہاء پسند مذہبی فکر رکھنے والے طبقے کی طرف سے بھی انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ [52][53]
علمی و فکری حوالوں سے ان کے معترف ہونے کے باوجود عوام کی زبان پر یہ جملہ رہا کہ ان جیسے شخص کو ملک کی گندی سیاست میں نہیں آنا چاہیئے تھا۔
دوسری طرف پاکستان عوامی اتحاد کی سربراہی اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی رکنیت تک پہنچنے کے بعد سیاست سے دستبردار ہونے کے اعلان پر ملکی سیاست میں تبدیلی کے خواہشمند طبقے کو بھی دھچکا لگا۔
حقیقت یہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے آپ کو دوسرے روایتی مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی طرح نہیں ڈھالا بلکہ آپ نے حقیقتاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی خدمت کی ہے۔ آپ کے اسی خلوص کی بہ دولت آج تحریک منہاج القرآن کی شاخیں، مراکز اور رفقاء و وابستگان دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں ہیں، آپ کی 360 سے زائد تصانیف مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں مزید 700 کے قریب مسودات برائے طباعت پڑے ہیں۔ سینکڑوں موضوعات پر 5000 سے زائد آڈیو، ویڈیو خطابات اور CDs موجود ہیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہی ہے کہ آپ کی تحریک منہاج القرآن امت مسلمہ کے لئے صدیوں تک مینارہ نور رہنے والی فکری، اصلاحی، تجدیدی اور احیائی تحریک بن چکی ہے۔

آپ پچھلی ایک صدی کے اندر عرب و عجم اور امت مسلمہ کے کسی بھی ملک سے اٹھنے والی کسی اسلامی تحریک سے اسکا تاریخی و تنقیدی موازنہ کریں اور اس کے ابتدائی 23 سالوں کی تاریخ، اس کا فروغ و ترقی، اس کی خدمات، نتائج اور کامیابیاں سامنے رکھیں اس طرح تحریک منہاج القرآن کے بھی اب تک کے عرصہ (23 سال) کی Achievements کا مطالعہ کریں تو آپ بفضلہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یکتا و منفرد اور حیرت انگیز پائیں گے۔ لوگ دوسری تحریکوں کے 70 سال یا ایک صدی کے کام کا موازنہ تحریک منہاج القرآن کے دو عشروں کے کام کے ساتھ کرتے ہیں تو تب بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور اسے کئی اعتبارات سے آگے پاتے ہیں مگر ہر ایک تحریک کا اس کے ساتھ پہلے 23، 23 برس کا موازنہ کرنے سے صحیح تاریخی محاکمہ سامنے آئے گا۔

دیگر تحریکوں کو تو پہلے 23 سالوں میں پورے ملک میں Recognition ہی نہیں ملتا اگر کسی کو ملا ہے تو دنیا میں متعارف بھی نہیں ہو سکی مگر تحریک منہاج القرآن اپنے ہزارہا رفقاء لاکھوں وابستگان کے علاوہ لاتعداد قائم کردہ ادارے، مراکز، لائبریریاں اور سنٹرز بنا چکی ہے۔ ایک ’’فکری منہاج‘‘ کی بانی ہے امت کے ایک معتدبہ حصہ کی رہنما ہے۔ پھر دوسری تحریکوں کی طرح اس کا کام صرف ایک یا دو ہی سمتوں میں نہیں بلکہ اس کی جدوجہد میں دعوت و تبلیغ کا کام، اصلاح احوال کا کام، روحانیت و سلوک کی اصل حقیقی قدروں کے احیاء کا کام، عقائد میں اعتدال کا کام، ہیومن ویلفیئر کا کام، ہزارہا تعلیمی اداروں کا قیام، بین الاقوامی سطح کی اہمیت رکھنے والی ایک یونیورسٹی کا قیام، تحقیق اور تصنیف و تالیف کا کام، انتظامی و تنظیمی امور، ہزارہا تنظیمی سٹرکچر، سیکرٹریٹ اور دفاتر کا منظم نظام، جدید و قدیم کا امتزاج، جس میں الازہر، علی گڑھ، بریلی و دیوبند اور ندوہ کے مذہبی Characters بھی جمع ہیں اور مغربی دنیا اور یورپ کی جدید تعلیمی و سائنسی ٹیکنالوجی پر مشتمل شعبہ جات بھی شامل ہیں جن سے مرد، عورتیں، جوان، بچے سبھی مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکہ، یورپ، سیکنڈے نیویا، ایشیاء، فار ایسٹ، مڈل ایسٹ سمیت افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ تک لاکھوں کروڑوں مسلمان اس تحریک کے کثیر الجہات فیض سے روشنی اور رہنمائی پا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خاص فضل اور عطا ہے۔*مختصر تعارف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری*

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالم اسلام کی نمایاں علمی، فکری، اصلاحی اور انقلابی شخصیت ہیں جو اپنی بے پناہ خدمات کی وجہ سے ہمہ جہت پہچان رکھتے ہیں۔ آپ تجدید و احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک منہاج القرآن کے بانی قائد اور پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ہیں۔ آپ منہاج یونیورسٹی لاہور کے چیئرمین بورڈ آف گورنرز بھی ہیں۔ آپ کی سرپرستی میں تقریباً 80 ممالک میں تعلیمی، دعوتی، اصلاحی اور فلاحی مراکز کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی آپ نے دعوت اور اصلاح احوال کے لئے تحریک منہاج القرآن کا صوبہ، ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک نیٹ ورک اور عوام الناس کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ہزاروں کالج، سکول، لائبریریاں اور عوامی تعلیمی مراکز قائم کئے ہیں۔

آپ شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مرید ہیں، جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو 1994ء میں 130 سال عمر پانے والے چکوال کے معروف بزرگ سید رسول شاہ خاکی (رح) نے پہلی بار اور بعد ازاں 2004ء میں عرب علماء کی طرف سے شیخ الاسلام کا خطاب دیا گیا۔ [1]

خاندانی پس منظر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے آباؤ اجداد سیال خاندان سے تھے آپ کے دادا میاں خدا بخش تھے، ان کے والد گرامی میاں بہاؤالدین خان ولد میاں احمد یار خان تھے جو کھیوہ سٹیٹ (جھنگ) کے آخری حکمران نواب اﷲ یار خان کی اولاد سے تھے۔ کھیوہ سٹیٹ 1745ء میں جھنگ سٹیٹ میں ضم ہوگئی تھی۔ ریاست کھیوہ کے بانی کھیوہ خان ولد ستی خان تھے جو ماہنی سیال تھے۔ کھیوہ خان کے بعد شیر خان، علی خان، فتو حل خان، صاحب خان اور اﷲ یار خان بالترتیب ریاست کھیوہ کے حکمران رہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی سے پہلے کی تین نسلوں نے حکمرانی اور نوابی ترک کرکے فقر و درویشی اختیار کرلی تھی۔ زہد و اتقاء اور ترک دنیا ان کا طرز زندگی بن گیا تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے والد گرامی فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لئے دنیا بھر کا سفر کیا۔ وہ دینی، علمی اور روحانی طور پر نہایت بلند مقام کے حامل تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت محترم اور معتبر مقام عطا کیا تھا۔ وہ علم و ادب، تحقیق، خطاب اور روحانیت میں یکتائے روزگار تھے۔ وہ اپنے وقت کے بڑے جید عالم، محقق اور فاضل تھے اور صالح سیرت و کردار، تقویٰ، شب بیداری اور روحانی خصائل اور فضائل کے اعتبار سے بلاشبہ ولی اﷲ تھے۔

1974ء میں جب ان کا وصال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 56سال تھی۔ انہیں روحانی فیض حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار عالیہ کے نقیب الاشراف حضرت سیدنا ابراہیم سیف الدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر تھے۔ ان کی ساری دینی تعلیم فرنگی محل لکھنو میں ہوئی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے طب کی تعلیم طبیہ کالج لکھنو اور ایلوپیتھک کی تعلیم و تربیت کنگ جارج میڈیکل کالج لکھنو سے حاصل کی۔ وہ ڈسٹرکٹ جھنگ کے رورل ہیلتھ سینٹرز میں سرکاری ملازمت میں رہے۔ ان کی اصل مہارت طب یونانی میں تھی۔ وہ شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی کے تلمیذ خاص تھے اور انہوں نے حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری سے فن نبض شناسی میں تخصص کیا تھا اور ان کے ساتھ مسند پر حیدر آباد دکن میں 2سال تک معاون رہے اور 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ انہیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔ وہ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز کے طبی مشیر بھی رہے۔

انہی سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالی سے دعا کی کہ انہیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خواب میں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔

اساتذہ
شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی، نقیب الاشراف بغداد
شیخ العرب و العجم حضرت مولانا ضیاء الدین احمد القادری المدنی
فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری (والد محترم)
حضرت علامہ ابو البرکات سید احمد قادری
محدث اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد قادری
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی
شارح بخاری حضرت مولانا غلام رسول رضوی
مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی
شیخ سید عبدالمعبود گیلانی المدنی
استاذ العلماء حضرت مولانا عبدالرشید رضوی
پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
محدث حرم سید علوی بن عباس المالکی المکی
محدث حرم سید محمد بن علوی المالکی المکی
شیخ سید محمد الفاتح الکتانی
شیخ حسین بن احمد عسیران (تلمیذ رشید امام یوسف بن اسماعیل نبہانی)
تعلیم
1955ء تا 1963ء - سیکرڈ ہارڈ سکول جھنگ صدر سے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حاصل کی۔
1963ء - مولانا ضیاء الدین مدنی کی زیرنگرانی مدینہ منورہ میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔
1963ء - سید علوی المالکی سے حدیث کا سماع کیا۔
1963ء تا 1969ء - جامعہ قطبیہ جھنگ سے علوم شریعہ کا متداول کورس درس نظامی کیا۔
1966ء - اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر سے فرسٹ ڈویژن میں ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کا امتحان پاس کیا۔
1968ء - گورنمنٹ ڈگری کالج فیصل آباد سے فرسٹ ڈویژن میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
1970ء - ڈاکٹر فریدالدین قادری کی زیرنگرانی جھنگ میں دورہ حدیث مکمل کیا۔
1970ء تا 1972ء - پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
1974ء - پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں قانون کا امتحان ایل ایل بی پاس کیا۔
1979ء - سید احمد سعید کاظمی (ملتان) سے اجازت روایت حدیث کی سند حاصل کی۔
1986ء - پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اسلامی فلسفہ عقوبات کے موضوع پر اسلامی قانون میں پی ایچ ڈی کا امتحان پاس کیا۔
1991ء - محمد بن علوی المالکی (مکہ مکرمہ) سے اجازت روایت حدیث اور اجازت العلمیہ کی سند حاصل کی۔
2006ء - امام یوسف بن اسماعیل نبھانی (لبنان) کے تلمیذ شیخ حسین بن احمد عسیران سے روایت حدیث کی اجازات حاصل کیں۔
انتظامی کیریئر

1974ء تا 1975ء - لیکچرار اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل، میانوالی
1976ء تا 1978ء - ایڈووکیٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، جھنگ
1978ء - رکن سنڈیکٹ، پنجاب یونیورسٹی
1978ء - مشیر فقہ وفاقی شرعی عدالت، پاکستان
1978ء - مشیر سپریم کورٹ آف پاکستان
1978ء - ماہر قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی
1978ء تا 1983ء - لیکچرار اسلامک لاء، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج، لاہور
1983ء تا 1988ء - وزٹنگ پروفیسر و سربراہ شعبہ اسلامی قانون (برائے ایل ایل ایم کلاسز)، پنجاب یونیورسٹی لاء کالج، لاہور
1986ء تا حال - پرو چانسلر / چیئرمین بورڈ آف گورنرز، منہاج یونیورسٹی لاہور
تعلیمی خدمات
1995ء میں آپ نے عوامی تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا، جسے غیرسرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ [2]
2005ء لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی، جسے 2009ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کیٹگری X سے W میں ترقی دی گئی۔ [3]
سیاسی کیریئر
مؤرخہ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ تھا۔ [4]
1990ء میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
1991ء میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لئے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورتحال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
1992ء میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
1998ء میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
2003ء - محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔ [5]
2003ء میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا[6] جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفیٰ تھا۔
2006ء میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا[7] جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔ [8]
توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکہ، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘[9] کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
2009ء میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے غزہ کانفرنس[10] کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لئے امداد سامان روانہ کیا گیا۔ [11]
دینی خدمات
آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے، جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے۔ [12]
آپ کے زیراہتمام لاہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی میلاد کانفرنس ہے۔ [13]
آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ روئے زمین پر یہ ایسی واحد جگہ ہے جسے تاریخ میں پہلی بار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قائم کیا۔ [14]
آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیا بھر میں شاخیں ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ [15]
علمی و ادبی خدمات

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہزارہا دینی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی میں خطابات کر چکے ہیں۔ [16] کیو ٹی وی، اے ٹی وی، پی ٹی وی، پرائم ٹی وی اور اے آر وائے گاہے بگاہے ان کے خطابات نشر کرتے ہیں۔
بہت سے اسلامی موضوعات پر ان کی اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔ [17][18]
عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ [19]
تفسیر منہاج القرآن کے نام سے آپ قرآن مجید کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر طبع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ [20]
المنہاج السوی من الحدیث النبوی کے نام سے ان کا حدیث مبارکہ کا ایک ذخیرہ طبع ہو چکا ہے، جس میں ریاض الصالحین اور المشکوٰۃ المصابیح کی طرز پر منتخب موضوعات پر احادیث مع تخریج پیش کی گئی ہیں۔ [21]
سیرت الرسول کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے، جو 10 جلدوں پر مبنی ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے۔ [22]
میلاد النبی کے نام سے آپ نے میلاد منانے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میلاد کی حیثیت اور سلف صالحین کا میلاد منانے کا طریقہ باتحقیق پیش کیا گیا ہے۔ [23]
اسلام اور جدید سائنس نامی تصنیف میں آپ نے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کے مطالعہ سے اسلامی تعلیمات کی سائنسی افادیت و ناگزیریت واضح ہوتی ہے۔ [24]
اسلام کے اقتصادی نظام کو آج کے دور میں قابل عمل ثابت کرنے کے لئے آپ نے اقتصادیات اسلام کے نام سے ایک ضخیم تصنیف بھی تحریر کی۔ [25]
حقوق انسانی نامی تصنیف میں اقلیتوں[26]، خواتین[27]، بچوں[28] اور عمر رسیدہ اور معذور افراد[29] کے حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق کو اسلام کی عطا ثابت کیا۔
عالمی سیاسی صورتحال میں عالم اسلام کو درپیش خطرات کے حوالے سے آپ کی تصنیف نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام خاص اہمیت کی حامل ہے۔
امام مہدی کے حوالے سے افراط و تفریط پر مبنی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے القول المعتبر فی الامام المنتظر آپ کی اہم تصنیف ہے۔ [30]
اسلامی فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث نامی ضخیم کتاب تمام اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔
اجازت روایت حدیث لینے والے علماء
عرب و عجم کے بعض نامور علماء کرام نے ان سے اجازت روایت حدیث لی، جس کے ذریعے ان کا سلسلہ روایت نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
شام
الفقیہ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی (سینئر امام، جامع امویہ دمشق)
الشیخ ابوالخیر الشکری (خطیب جامع امویہ دمشق، سربراہ جامعہ المحدث الاکبر، شام)
الشیخ السید ابوالھدیٰ الحسینی (حلب، شام)
کویت
الشیخ السید یوسف ہاشم الرفاعی (ممتاز صوفی سکالر، مصنف اور سابقہ وزیر کویت)
عراق
مفتی اعظم شیخ عبدالرزاق (مفتی اعظم، بغداد عراق)
شیخ عبدالوھاب المشھدی (فقہ حنفی سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف، بغداد عراق)
یمن

شیخ حبیب عمر بن سلیم بن حفیظ (بانی و پرنسپل دارالافتاء، یمن)
شیخ حبیب علی زین العابدین الجفری (فقہ شافعی کے ممتاز سکالر، یمن)
لبنان
السید وسیم الحبل (اسلامی فقہ کے عالم، لبنان)
مصر
شیخ حامون احمد بن عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ عبدالمقتدر بن محمد علوان (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ یوسف بن یونس احمد عبدالرحیم (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ حمید محمود بن احمد محمود (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ احمد عبداللہ محمد الجیاد (جامعہ الازھر، مصر)
شیخ عبدالواحد یوسف بن محمد ماطیٰ (جامعہ الازھر، مصر)
برصغیر ہندوپاک
شیخ محمد خواجہ امین شریف (شیخ الحدیث، صدر دارالحدیث جامعہ نظامیہ، حیدرآباد دکن، بھارت)
شیخ حبیب الرحمن (محدث سلہٹ، بنگلہ دیش)
ان کے علاوہ پاکستان کے سیکڑوں علماء کرام
یورپ و امریکہ
شیخ عبدالحکیم مراد (لیکچرار اسلامک سٹڈیز، کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ)
شیخ بابکر احمد بابکر (امام، یوسف اسلام اسلامیہ سکول، برطانیہ)
شیخ عبدالعزیز فریڈریکس (ممتاز سکالر، گلاسگو برطانیہ)
شیخ فیصل حمید عبدالرزاق (سکالر، ٹورانٹو کینیڈا)
نظریات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک مسلمان سنی سکالر ہیں، مگر وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی فرقوں کی بندشوں سے آزاد ایک عام مسلمان قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لئے ناگزیر ہے۔ [31]
ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بناء پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ [32]
ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے [33] اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ [34] آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ [35] آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔ [36]
ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے [37]، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے[38] [39] [40]
ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔ [41]
ان کے مطابق انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔ [42] انہوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم[43] بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت[44] کرنے کو حدیث نبوی [45] کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔ [46] اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا۔ [47]
ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لئے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔ [48]
ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ [49]
*تنقید*
ان کی طرف سے یزید اور اس کے حمایتیوں کو لعنتی قرار دیئے جانے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسے علماء کی دل آزاری ہوئی جو یزید کے لئے رضی اللہ عنہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ [50]
اتحاد امت کی کوششوں اور شیعہ علماء سے اچھے تعلقات کی بناء پر شیعہ مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔ [51]
گستاخی رسول کے مرتکب نہ ہونے والے عام دیوبندی علماء کو مسلمان سمجھنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دینے کی وجہ سے بریلوی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ بارے کوششوں پر انتہاء پسند مذہبی فکر رکھنے والے طبقے کی طرف سے بھی انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ [52][53]
علمی و فکری حوالوں سے ان کے معترف ہونے کے باوجود عوام کی زبان پر یہ جملہ رہا کہ ان جیسے شخص کو ملک کی گندی سیاست میں نہیں آنا چاہیئے تھا۔
دوسری طرف پاکستان عوامی اتحاد کی سربراہی اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی رکنیت تک پہنچنے کے بعد سیاست سے دستبردار ہونے کے اعلان پر ملکی سیاست میں تبدیلی کے خواہشمند طبقے کو بھی دھچکا لگا۔
حقیقت یہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے آپ کو دوسرے روایتی مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی طرح نہیں ڈھالا بلکہ آپ نے حقیقتاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی خدمت کی ہے۔ آپ کے اسی خلوص کی بہ دولت آج تحریک منہاج القرآن کی شاخیں، مراکز اور رفقاء و وابستگان دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں ہیں، آپ کی 360 سے زائد تصانیف مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں مزید 700 کے قریب مسودات برائے طباعت پڑے ہیں۔ سینکڑوں موضوعات پر 5000 سے زائد آڈیو، ویڈیو خطابات اور CDs موجود ہیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہی ہے کہ آپ کی تحریک منہاج القرآن امت مسلمہ کے لئے صدیوں تک مینارہ نور رہنے والی فکری، اصلاحی، تجدیدی اور احیائی تحریک بن چکی ہے۔

آپ پچھلی ایک صدی کے اندر عرب و عجم اور امت مسلمہ کے کسی بھی ملک سے اٹھنے والی کسی اسلامی تحریک سے اسکا تاریخی و تنقیدی موازنہ کریں اور اس کے ابتدائی 23 سالوں کی تاریخ، اس کا فروغ و ترقی، اس کی خدمات، نتائج اور کامیابیاں سامنے رکھیں اس طرح تحریک منہاج القرآن کے بھی اب تک کے عرصہ (23 سال) کی Achievements کا مطالعہ کریں تو آپ بفضلہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یکتا و منفرد اور حیرت انگیز پائیں گے۔ لوگ دوسری تحریکوں کے 70 سال یا ایک صدی کے کام کا موازنہ تحریک منہاج القرآن کے دو عشروں کے کام کے ساتھ کرتے ہیں تو تب بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور اسے کئی اعتبارات سے آگے پاتے ہیں مگر ہر ایک تحریک کا اس کے ساتھ پہلے 23، 23 برس کا موازنہ کرنے سے صحیح تاریخی محاکمہ سامنے آئے گا۔

دیگر تحریکوں کو تو پہلے 23 سالوں میں پورے ملک میں Recognition ہی نہیں ملتا اگر کسی کو ملا ہے تو دنیا میں متعارف بھی نہیں ہو سکی مگر تحریک منہاج القرآن اپنے ہزارہا رفقاء لاکھوں وابستگان کے علاوہ لاتعداد قائم کردہ ادارے، مراکز، لائبریریاں اور سنٹرز بنا چکی ہے۔ ایک ’’فکری منہاج‘‘ کی بانی ہے امت کے ایک معتدبہ حصہ کی رہنما ہے۔ پھر دوسری تحریکوں کی طرح اس کا کام صرف ایک یا دو ہی سمتوں میں نہیں بلکہ اس کی جدوجہد میں دعوت و تبلیغ کا کام، اصلاح احوال کا کام، روحانیت و سلوک کی اصل حقیقی قدروں کے احیاء کا کام، عقائد میں اعتدال کا کام، ہیومن ویلفیئر کا کام، ہزارہا تعلیمی اداروں کا قیام، بین الاقوامی سطح کی اہمیت رکھنے والی ایک یونیورسٹی کا قیام، تحقیق اور تصنیف و تالیف کا کام، انتظامی و تنظیمی امور، ہزارہا تنظیمی سٹرکچر، سیکرٹریٹ اور دفاتر کا منظم نظام، جدید و قدیم کا امتزاج، جس میں الازہر، علی گڑھ، بریلی و دیوبند اور ندوہ کے مذہبی Characters بھی جمع ہیں اور مغربی دنیا اور یورپ کی جدید تعلیمی و سائنسی ٹیکنالوجی پر مشتمل شعبہ جات بھی شامل ہیں جن سے مرد، عورتیں، جوان، بچے سبھی مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ نارتھ امریکہ، یورپ، سیکنڈے نیویا، ایشیاء، فار ایسٹ، مڈل ایسٹ سمیت افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ تک لاکھوں کروڑوں مسلمان اس تحریک کے کثیر الجہات فیض سے روشنی اور رہنمائی پا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے خاص فضل اور عطا ہے۔

Address

Https://goo. Gl/maps/jsuk4Y8qRcYx9CQD 7

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Minhaj Ul Quran Faqirwali posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share