07/03/2023
تحریر :عبیداللہ
کولواہ ( Kolwah )
کولواہ کا خوبصورت نام سامنے آجاتا ہے پڑھتے ہی منہ میں شہد کی مٹھاس بھر جاتی ہے. سُن کر کانوں میں رس گھل جاتی ہے. اس پُرفِضا علاقہ کے تصور سے دل میں اک ترنگ سا بج اٹھتا ہے, طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے. سرور سا چھا جاتا ہے. اس وادی کی خوبصورتی ، دلکشی ، جاذب نظری اور مہمان نوازی اپنا ثانی نہیں رکھتا. فصلوں سے لہلہاتے ہرے بھرے ہموار و ناہموار کھیتوں کا نہ ختم ہونے والا طویل قطاریں دونوں جانب مضبوط و محفوظ استادہ پہاڑی سلسلہ بغل گیر ہوکر اپنی حصار میں لیتے ہیں ، تحفظ کا احساس فراہم کرتے ہیں . خود رو چھوٹے بڑے پودوں اور درختوں کی بہتات و سرسبز جنگلات روح کو فرحت و تازگی بخشتا ہے. میٹھے پانی کے قدرتی چشمے پانی کی فراوانی زندگی کی خوشیوں کا پتہ دیتا ہے. کاریز اور کھجور کے باغات کی کرشمہ کاری ہے. چڑیوں کی چہچہاہٹ سے خوش رنگ اور رنگ برنگی پھولوں کی سحر آگیں نظارہ بہشت کا منظر پیش کرتا ہے. پہاڑ ، کھیت اور کلیاں ممتا کی طرح محبت انگیز اور تحفظ کا احساس دیتے ہیں. جیسے کہ بچہ اپنی ممتا کی گود میں سما جاتا ہے. ہنس مکھ ، ملنسار ، پُرامن اور پسماندہ لوگ اعصابی طور کافی مضبوط اور باحوصلہ ہیں ، سخاوت و عبادت میں کسی طور پیچھے نہیں . کھیتی باڑی اور دوسرے روزگار سے منسلک برسوں سے آباد بلوچ آبادیاں آج بھی دقیانوسی دور سے گزر رہے ہیں. اس سرزمین کی بودوباش کو سدھارنے والا منوں مٹی تلے سو چکے ہیں. کولواہ کے جبین میں تاریخی اسرار پوشیدہ ہیں ، کولواہ لفظِ آواران سے جُدا اپنا تاریخی پس منظر اور الگ تشخص رکھتا ہے. کولواہ کی سونا اگلتی انمول مٹی کے نیچے کئی تاریخ و تہذیب دفن ہیں. کُلّی کلچر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک بڑا اور قدیم تہذیب ہے. (کُلی کولواہ کا حصہ ہے کھنڈرات کی لمبائی 360 میٹر اور چوڑائی 200 میٹر سے زائد ہے ) . میمفس., بابُل, موہنجوداڑو, مِہر گڑھ اور کوٹ ڈجی کی مقابل پرانی تہذیب ہے. کُلی کلچر خوش قسمتی سے کولواہ میں واقع ہے. کُلی کلچر کے متعلق کہیں تین سو قبل مسیح اور کہیں چار ہزار قبل مسیح درج ہے. شاید کولواہ کے بہت کم لوگوں کو کولواہ کی تاریخی تشخص و اہمیت کا پتہ ہے.
1928 میں ایک سیاح اور لکھاری آرل اسٹین اپنی کتاب " ان آرکیالوجیکل ٹور اِن گدروشیا " میں کولواہ کا زکر کرتا ہے. اُس نے گدروشیا کے سفر کے دوران کُلی کلچر کی کھوج لگائی تھی . جس کے نوادرات مختلف شکلوں میں فرانس کے عجائب گھروں میں آج بھی محفوظ ہیں. دہلی کے آرکیوز میں پڑے ہیں. مبینہ طور پر صرف کولواہ میں مختلف جگہوں پر ساٹھ کے قریب پرانے کھنڈرات موجود ہیں. جو ہماری پہچان اور تقافت ، گزشتگان کی تاریخ و تہذیب کے امین ہیں.
جب میں کولواہ کا زکر چھیڑتا ہوں کچھ لوگ معترض ہوتے ہیں. تو کوئی تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیتا ہے. کبھی کبھی تو دوستوں کی بلاوجہ کی تنقید سے مایوسی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے . مگر جلد زائل کر دیتا ہوں اور پھر سے کولواہ کا مالا جپنے لگتا ہوں . نہ جانے اس سرزمین کی کیسی محبت دل میں پیوست ہے جو الگ ہونے پر بھی جدا نہیں ہو جاتی.
ہمیں لفظِ آواران سے چِڑ نہیں مگر ایک کُھلا اعتراض ضرور ہے. وہ اعتراض میری نقطہ نظر میں واجب بھی ہے. ہماری ریجن کا مکمل نام کولواہ ہے جن کی سرحدیں ایک غیر تصدیق شدہ اندازے کے مطابق پیراندر سے ہوشاپ تک ہے. اور " آواران " کولواہ کا چھوٹا سا ایک حصہ ہے. کولواہ بشمول آواران کیچ کے ساتھ منسک تھی. سیاسی مفاد اور ووٹوں کی لالچ میں مشرقی کولواہ (جہل کولواہ) اور مغربی کولواہ (بال کولواہ) میں تقسیم کیا گیا . جب کولواہ دو حصوں میں بانٹا گیا. ایک حصہ ( مغربی کولواہ) ضلع کیچ، دوسرا حصہ ( مشرقی کولواہ) ضلع خضدار کے حصے میں آیا ، خضدار کا جغرافیہ ، زبان و ثقافت کولواہ اور کیچ (مکران) سے زرا مختلف اور الگ ہے. آواران (کولواہ) کو 1992 میں باقاعدہ ایک ضلع بنا دیا گیا. کیچ سے جوڑنے کے بجائے پھر سے قلات ڈویژن کے ساتھ منسلک کیاگیا . اگر محمکہ موسمیات کے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ دیکھے جائیں ان کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا موسمیاتی نظام بھی کیچ سے مشابہ ہے ، خشک موسم اور بارش کی نوید مکران کو ملے تو وہ کولواہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ، کیچ اور کولواہ Summer zone میں ہیں جبکہ خضدار winter zone میں آتا ہے.
کولواہ ہی کی سرزمین پر میر چاکر ولد شیہک ( چاکرِ اعظم) تولد ہوئے, اِسی خاک کے سینے میں سردار چاکر کولوائی نے جنم لی ہے, اسی سرڈگار نے عالی و آدینگ پیدا کئے جو بلوچی قول و زبان اور بلوچی عزتِ نفس اور غیرت کے پاسبان تھے, اِسی مٹی نے میر بلوچ خان نوشروانی کو جنا اور اِس کولواہ کی ماتھے کا جھومر بی بی گنجی بو ( گنجی پری) ہے جس نے فرنگی تاریخ میں کولواہ کی میارجلّی اور نامُوس کو سُرخرو اور زندہ رکھا.